بے شک ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمایا تو شکر یہ کے طور پر اپنے پروردگار کی نماز پڑھیئے اور قربانی کیجئے بے شک آپ کا دشمن بے نام و نشان ہیں ۔صدق اﷲ العلی العظیم۔
اپنے شکر ناقص کو ناقص سمجھیں تو اللہ تعالیٰ اس کو کامل کردے گا
بزرگواور دوستو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت سی نعمتیں دی ہیں جس کا شکر ہم ادا نہیں کرسکتے اور اس ناشکری کا احساس ہونا اور اپنی بساط بھر شکر ادا کرنا یہ شکر میں داخل ہے۔سب سے پہلے تو ہم یہ سمجھ لیں کہ ہم نا شکرے ہیں ۔مولانا روم ؒ نے ایک عجیب تمثیل بیا ن فرمائی ہے فرمایا کہ اگر ہمار اایک ایک بال اس کی ستر ستر زبانیں ہوں اور ہر زبان سے ہم ذکر کریں تو ہم اس کا شکر ہم کیسے ادا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اتنی زبانیں دی ہیں تو گویا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر کوئی ادا کر ہی نہیں سکتا یہ نا ممکن ہے اگر کوئی کہتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ہے تو یہ ناممکن ہے کوئی اپنے والدین کا شکر ادا نہیں کرسکتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا شکر کیسے ادا کرسکتا ہے یہ الگ بات ہے کہ انسان اپنی ناشکری کا اعتراف کرے کہ میں ناشکرا ہوں میں نے اپ نے رب کا حق ادا نہیں کیا اورجتنا مقد ور بھر وہ ادا کرسکتا ہے زبان ہلانے سے عمل کرنے سے اور شکر کے جو لوازمات ہیں ان کو پورا کرنے سے تو انشائ اللہ تعالیٰ اس سے شکر ادا ہوجائے گاجیسے حضرت ابراہیم علیہ سلام نے پوری کوشش کرلی جتنی وہ کرسکتے تھے تو اگرچہ انہوں نے اپنے بیٹے کو ذبح نہیں فرمایا لیکن جواب کے طور پر آتاہے آپ نے اپنا خواب سچ کر کے دکھا یا تو ا س طرح سے اگرچہ ہم صحیح طرح سے پورا تو نہیں شکر کر سکیں گے اور اللہ تعالیٰ کا شکر پوری طرح نہیں کر سکیں گے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو جواب آئے گا وہ یہی ہوگا کہ تم نے شکر ادا کرلیا
اللہ کا حکم اور اس کی پسند
اور ہمں یہی چیز چاہئے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا چاہئے حالانکہ خود کوئی چیز مقصود نہیں ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جو چیز ذریعہ ہے وہ ہمارے لیے مقصود ہوتاہے تو یہ جو قربانی ہے یہ بھی ایک ایسی دولت ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے اگر ہم اس پر سوچیں تو تو یقین کیجئے کہ اتنا بڑا واقع ہے کہ اس کے لیے ہمیں بولنے کے لئے ہمارے لفاظ کافی نہیں ہو سکتے ۔ وقت کے سب سے بڑے نبی خلیل اللہ ان کو اللہ جل شانہ حکم دیتے ہیں خواب کے ذریعے کہ قربانی کرو اور نبی بننے والے اسماعیل علیہ سلام ان کے ساتھ اپنا باپ مشورہ کرتا ہے میں کیا کروں میں نے تو یہ خواب دیکھا ہے تو اسماعیل علیہ السلام بھی نبی بننے والے تھے اور جو نبی بنے والا ہوتا ہے اس کو پہلے تمام چیزیں عطا فرمادی جاتی ہیں جو نبوت کے لیے ضروری ہوتی ہیں تو اسماعیل علیہ سلام نے یہ نہیں فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے صاف صاف فرمایا کہ آپ وہی کریں جس کا آپ کو اللہ تعالیٰ نے امر فرمایا ہے اور آپ مجھے صابرین میں پائیں گے یعنی بات کی تہہ تک پہنچ گئے ایسی حالت میں جب اللہ تعالیٰ نے ان دونوں برگزیدہ ہستیوں کو حکم فرمایا تو ان دونوں نے اعلیٰ درجہ کی کامیابی حاصل کی حضرت ابراہیم علیہ سلام نے ایک باپ ہوکر اپنے بیٹے کو ذبح کرنا چاہا حالانکہ باپ اپنے بیٹے کو تکلیف نہیں دیتا اپنے آپ کو تکلیف دے دیتا ہے لیکن یہاں وہ اپنی اولاد کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہوگئے چھری تیز کرلی اور چھری بھی چلا دی اور بیٹا اتنا سعادت مند کہ فرمایا کہ مجھے اوندھے منہ لٹا دیجے کہ جو شفقت پدری ہے وہ اس حکم کے آڑے نہ آئے اور اس پر عمل ہوسکے ۔تو ابراھیم علیہ السلام نے پنی آنکھوں پر پٹی باندھ لی اور تیز چھری چلا دی جب آنکھوں سے پٹی کھولی تو دیکھا مینڈھا ذبح ہو اپڑا ہے۔جنت سے آیا ہوا ۔حیران ہوئے لیکن بہر حال دیکھا کہ حضرت اسماعیل علیہ سلام ایک طرف کھڑے ہیں اور مینڈھا ذبح ہوچکا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی کہ آپ نے اپنے خواب کو سچا کر کے دیکھایا ہے یہ جو بات ہے نا یقین کریں اس کی کوئی مثال نہیں دی جاسکتی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو آئندہ تمام امتوں کے لیے ابراہیم علیہ سلام کی سنت بنادیا اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قربانی کی ہے اور صحابہ ؓنے بھی قربانی کی ہے تمام اولیاءاللہ قربانے کرتے رہے ہیں اور جتنے مومنین ہیں سب قربانی کرتے جائیں گے کیونکہ یہ فعل اللہ تعالیٰ کو اتنا پسند آگیا ۔ایک بات جو ہمیشہ ذہن میں آتی ہے کہ ہم لوگ جو ہیں بہت سرسری سوچ رکھنے والے لوگ ہیں اور انسان اسی وقت گمراہ ہوتا ہے کہ جب اس کی سوچ سطحی ہوتی ہے۔دعویٰ بڑا کرتا ہے اور اس کی سوچ سطحی ہوتی ہے ۔ یہاں پر بھی حالت یہ ہے کہ اگر ہم دیکھیں تو حج جتنا بڑا عمل ہے وہ کیا ہے؟ تو حج جو اتنا بڑا عمل ہے وہ کیا ہے؟ وہ چند اﷲ تعالیٰ کے محبوبوں کی محبت کی داستان ہے اگر آپ دیکھیں تو یہ محبت کی داستان ہے اللہ پاک وہ کام دوبارہ دوبارہ کرواتے ہیں جو اللہ پاک کو کسی وقت پسند آیا ہے وہ سارے کام دوبارہ کروائے جاتے ہیں ۔
اپنے محبوبوں کی نقل اللہ کو پسند ہے
اب سعی کو دیکھ لیں یہ واجب ہے سب کو سعی کرنی ہے لیکن یہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی زندگی کاوہ لمحہ قبولیت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے پسند کیا اور ہمیشہ کے لیے بعد میں آنے والوں کے لئے نقل کرنے کے لئے جاری فرمادیا اب سب کو دوڑنا پڑے گا چاہے چھوٹا ہو یا بڑا ہو ہاں عورت کو ایک ضروری عمل کی وجہ سے جو کہ پردہ ہے دوڑنے سے منع کیا گیا ہے۔ اب خانہ کعبہ کو دیکھیں وہ کیا ہے ؟ بس پتھروں کا ایک گھر ہے اور سب اس کے گرد والہانہ طور پر گھوم رہے ہیں اور حجر اسود کو دیکھ لیں اس کی آپ کیا توجیہ کر سکتے ہیں پس حجر اسود ایک پتھر ہے جسے چومنے کے لیے ہر دل میں خواہش ہے اور وہاں پر ایک مقام ابراہیم ہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَاتَّخِذُوْ ا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھٰمَ مُصَلًّی
یعنی مقام ابراھیم کو نماز کی جگہ بناؤ۔ اب اندازہ کریں کہ مقام ابراہیم کیا ہے؟ یہ وہ مقام ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ سلام خانہ کعبہ کی تعمیر کررہے تھے اور فرماتے ہیں کہ جوں جوں دیوار اوپر اٹھتی تھی یہ پتھر بھی اوپر اٹھتا جاتاتھا یہ معجزہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کیلئے جاری فرمایا وہ پتھر اب بھی وہاںپر موجود ہے جس پر حضرت ابراہیم علیہ سلام کے پیروں کے نشان موجود ہیں اس پتھر کو اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم مقام دے دیا ہے اور اس جگہ کو دو رکعت نماز کے لیے جو ہم طواف کے بعد پڑھتے ہیں کیلئے مقرر فرمادیا یہ اور بات ہے کہ رش ہوتو مقام ابراہیم سے پیچھے کھڑے ہوکر کہیں بھی نماز پڑھی جاسکتی ہے اس میں لوگوں سے مزاحمت نہیں کرنی چاہئے لیکن بہر حال ابتدائی حکم تو یہی تھا کہ اسی جگہ پر نماز پڑھی جائے ۔تو اگر ہم غور کریں تو یہ بات ہمیں صاف صاف نظر آتی ہے کہ وہاں پر جتنے بھی احوال ہیں حج کی یہ سب محبت کی نشانیاں جو ہیں یہ وہ ہیں کہ جن جن کو اللہ تعالیٰ سے محبت تھی ان کی محبت کو اللہ تعالیٰ نے یادگار بنادیا ہے اور ہمیشہ کے لیے ہم سب کے لیے عبادت کا ذریعہ بنا لیا۔
شعائر اللہ کیا ہیں؟
شعائر اللہ ۔ شعائر اللہ کیا ہے ؟ اللہ پاک کی جو نشانیاں ہیں اس کو اللہ پاک نے وہ حیثیت دی ہے کہ جو ان کی تعظیم کرتاہے یعنی شعائر اﷲ کی ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہ ان کے دلوں کے تقویٰٰٰٰ کی وجہ سے ہے تو جن کے دلوں میں ان چیزوں کے لیے تعظیم نہیں ہے تو وہ سمجھ لیں کہ ان کے دلوں سے تقویٰ خارج ہوچکا ہے اور ان کے دل میں تقویٰ نہیں ہے کیونکہ اگر ان کے دل میں تقویٰ ہوتا تو ہر اس چیز کے ساتھ جس کا اﷲ کے ساتھ تعلق ہے اس کا شریعت کی حدود کے اندر اندر ان کی تعظیم کا خیال رکھتے اور شریعت کی حدود کیا ہے نبی کو دیکھ لو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا ہے ؟ اور صحابہؓ کو دیکھ لیں صحابہ ؓ نے کیا کیا ہے ؟ تو جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا ہے کہ میرے طریقے پر چلو اور میرے صحابہ ؓ کے طریقے پر چلو لہذا حضور صلی اللہ وعلیہ وسلم اور ان کے صحابہؓ کو دیکھو اور اس پر عمل کرو یہی شریعت ہے۔ اسی کے اوپر چلنے پر کامیابی ہے اگر ہم اپنی طرف سے سوچیں کہ یہ تو فلاں چیز ہوجائے گی یہ تو فلاں چیز ہوجائے گی یہ تو فلاں چیز ہوجائے گی تو ہماری اپنی سوچوں کی تو کوئی حیثیت نہیں ہے اگر ایسی سوچوں میں کوئی جان ہوتی تو شیطان بھی یہی کہہ سکتا میں نے جو آدم علیہ سلام کو جو سجدہ نہیں کیا تو میں تو بہت بڑا مو حد ہوں تو کیا یہ بات اس کے لئے دلیل بن سکتی ہے؟ تو جس بات کا حکم اللہ تعالیٰ خود فرمادیں تو اس سے سر تابی کی جرٲت کس کو ہوسکتی ہے؟
تو قربانی کے بارے میں میں عرض کررہا تھا کہ قربانی کیا ہے یہ محبت کی ایک نشانی ہے یہ اللہ تعالیٰ کی محبت کی نشانی ہے تو جو لوگ قربانی محبت کے ساتھ کرتے ہیں تو اس کو اس کا کیا مل جاتا ہے اور جو لوگ محبت کے ساتھ قربانی نہیں کرتے ان کا عمل مکمل ضرور پورا ہوجاتا ہے ان کے سر سے واجب اتر جاتا ہے تو اس میں جو چیزان کو ملنی ہوتی ہے وہ ان کو نہیں ملتی ۔
قربانی کیا ہے ؟
قربانی کیا ہے ؟ یعنی کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کی نشانی ہے کہتے ہیں کہ جو اپنی قربانی محبت کے ساتھ کرے گا جو اس کو نہلائے گا دھلائے گا اس کے ساتھ دوڑے گا اس سے اتنی محبت ہوجائے کہ اس کو ذبح کرنے کو جی نہ چاہے تو پھر جب اسے ذبح کرے تو پھر اس کو اصل فائدہ ہوگا کیونکہ وہ اس جانور کو ذبح نہیں کررہا ہے بلکہ اپنی محبت ذبح کررہا ہے اس کا مطلب کیا ہوا یہ کہ کیونکہ اس کو باقی چیزوں سے اس جانور سے زیادہ محبت ہے تو باقی تمام چیزیں اس کی ذیل میں آگئیں اب گر اس کو اﷲ کے لئے ذبح کرتا ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی محبت کو غالب کرتا ہے تو گویا اس کی سب محبتوں پر اللہ تعالیٰ کی محبت غالب ہے تو اگر ہماری محبت اور ہماری قربانی اس ذیل میں آئی ہے تو پھر ہماری قربانی پھر اس درجے کی ہوگی اور پھر ہماری قربانی کا ہمیں اصل فائدہ د حاصل ہوجائے گا نہیں تو قربانی تو ہوجائے گی یعنی واجب ادا ہوجائے گا لیکن وہ اصل فائدہ حاصل نہیں ہوسکے گا۔دوسری طرف واجب پورا ہونے کے لئے بھی قربانی میں واجب اخلاص ہونا چاہیئے یعنی جو کم سے کم اخلا ص ہے وہ اس میں ہونا چاہیئے اور وہ یہ ہے کہ کم سے کم اس قربانی میں نام و نمودو نمائش اور ریائ کو اپنے سے دور رکھیں یعنی یہ کہنا کہ میں اتنا بڑا یا اچھاجانور لے لیا پھر اس کو لوگوں کے سامنے پھراتے ر ہنا اور کوئی پوچھے تو فخر سے بتانا کہ ایک لاکھ چالیس ہزار کا جانور لے لیا اس سے اپنے آپ کو بچائیں ۔ میںایسے لوگوں سے درخواست کرتاہوں کہ ان کے لیے بڑے جانور میں حصہ ڈالنا زیادہ مفید ہے بمقابلہ چھوٹے جانور کے البتہ ان لوگوں کے لئے جو ان چیزوں سے پاک ہیں ان کے لئے چھوٹے جانور کی قربانی زیادہ افضل ہے کیونکہ واجب اور مستحب میں جب مقابلہ ہو تو ترجیح واجب کو ہوگی تو اگر کسی کا چھوٹے جانور میں واجب اخلاص فوت ہوتا ہے اس کے بڑے جانور میں حصّہ ڈالنا زیادہ مناسب ہے ۔ قربانی کا تعلق جب اللہ تعا لی کی محبت کے ساتھ ہے تو پھر اس محبت کو ہم کسی اور سے محبت کر کے کیسے حاصل کر سکتے ہیں ؟ ہم تو لوگوں کی محبت میں مبتلا ہیں ہم تو کہتے ہیں کہ لوگ ہمیں اچھا کہیں لوگ ہمیں اچھا کہیںگے تو کیا ہوگا ۔کچھ بھی نہیں ہوگا یہاں پر تو یہ صورت حال ہے کہ یہاں جتنا لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو گے اتنا ہی برا برتاؤ ہوگا کیونکہ ان کے مطلب کا جومعیار ہے وہ بڑھتا جائے گا ایک شخص تھا اس نے کہا کہ میں لوگوں کو کھانا کھلاؤ ںکہ لوگ مجھ سے خوش ہوجائیں تو اس نے بڑے کھانے کا بندوست کیا اور جب لوگ واپس جارہے تھے تو سب کو ساتھ ساتھ ایک روپیہ بھی دے رہے تھے ۔اس کے بعد لوگوں کو راستوں میں بٹھایا کہ لوگوں کو دیکھیں اور باتیں سنیں کہ ہمارے بارے میںلوگ کیا کہتے ہیں کیونکہ اس نے اس کام کے لیے تو یہ سب کچھ کیا تھا تو اس کے لوگوں نے اس کو بتایا کہ دو آدمی آپ میں باتیں کررہے تھے کہ کمال ہے اتنا بڑا آدمی ہو کر سب کو صرف ایک ایک روپیہ دے رہا تھا دو روپے بھی تو دے سکتا تھا۔ اب آپ اندازہ کریں لوگوں کو خوش کرنا ناممکن ہے لوگوں کو آپ کیسے خوش کریں گے لوگوں کو خوش کر نا ممکن نہیں ہے لیکن رب کو خوش کرنا آسان ہے بس رب کو خوش کر نے پر لگ جائیں رب خوش ہوجائے گا ۔لوگوں کو خوش کرنے سے اپنی آنکھیں بند کرلیں یقین کریں اللہ ان لوگوں کو بھی راضی کرادے گا اگر چاہے گا تو اس کی حکمت ہوگی تو ورنہ اگر نہیں بھی کرائے گا تو کیا ہوا بعض انبیائ علیہ سلام جنہوں نے نبوت کا اعلان کیا اور ساتھ ذبح ے کئے گئے یعنی شہید ہوگئے وہ کتنے کامیاب تھے اور ان کو شہید کرنے والے کتنے ناکام تھے اصل کامیابی تو یہی ہے جس کو اللہ کامیاب کرے مولانا محمد علی جوہر نے ایک شعر کہا ہے اور خالصتاً توحید کا بہت بڑا شعر ہے فرماتے ہیں ۔
ہوجائے اگرساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے
واقعتا بات یہی ہے۔ توحید کیا ہے اگر آپ سب کے ساتھ محبت رکھیں تو اللہ کے لیے رکھیں اورکسی کے ساتھ دشمنی رکھیں تو وہ بھی اللہ کے لیے رکھیں ۔
حب فی اللہ ،بعض فی اللہ ۔یعنی اللہ کے لیے محبت ہے تو وہ بھی کامیاب ہے اور اللہ کے لیے دشمنی ہے وہ بھی کامیاب ہے ۔اور غیر کے لیے محبت ہے یعنی اپنے نفس کے لیے محبت ہے وہ بھی ناکام اور نفس کے لیے کسی سے دشمنی ہے وہ بھی ناکام ۔
اللہ کے لئے ٹھیک نفس کے نہیں ٹھیک
حضرت علی کرم اللہ وجہ ایک دفعہ جارہے تھے کہ راستے میں ایک کافر سے لڑائی ہوگئی یعنی مقابلہ ہوا بڑی مشکل سے اس کو گرایا کیونکہ وہ بھی پہلوان تھا بڑی مشکل گرایا اور اس کے سینہ پر چڑھ کر اس کو تلوار سے مارنے لگے تو اس نے نیچے سے نفرت سے منہ پر تھوک دیا تو علی کرم اللہ وجہ فورا اٹھ کر ایک طرف کھڑے ہوگئے تو اس نے کہا آپؓ نے بڑی مشکل سے زیر کیا تھا تو اب آپ نے مجھے چھوڑ دیا ہے تو کیا وجہ ہے انہوں نے فرمایا کہ پہلے میں تجھے اللہ کے لیے ماررہا تھا ۔اب تو نے نیچے سے تھوک دیا تو مجھے غصہ آگیا تو میں نے تجھے چھوڑ دیا کہ کہیں میں تجھے نفس کے لیے نہ مار دوں اپنے غصے کی وجہ سے کہیں قتل نہ کردوں اس سے اللہ مجھ سے ناراض ہوجائے گا اب اندازہ کر لیں حالانکہ اس کو گرایا تو اس وقت تھا جب وہ اس کو اللہ کا دشمن سمجھ رہے تھے نیچے سے تو اس کا ایک کھیل تھا یعنی اس کی تاویل کی جاسکتی تھی لیکن جو اللہ والے ہوتے ہیں وہ عزیمت پر عمل کرتے ہیں وہ بعض دفعہ رخصتو ں کو چھوڑدیتے ہیں اس وجہ سے انہوں نے عزیمت پر عمل کیا تو جب دیکھا کہ پہلے میں اس کو اللہ کے لیے ماررہا تھا تو اب ہوسکتا ہے تو اب ہوسکتا ہے کہ اس کو مارنا میرے نفس کے لیے ہو تو نفس کی وجہ سے محبت کرنا بھی ناجائز ۔اور نفس کے لیے دشمنی کرنا بھی ناجائز ۔اللہ تعالیٰ کے لئے دوستی کرنا بھی جائز اور محبت کرنا بھی جائز اور اللہ تعالیٰ کے لیے دشمنی کرنا بھی جائز میں جیسے پہلے بھی عرض کرتا رہا ہوں یہ تو ہے اخلاص کا شعبہ کہ ہم سب کچھ ہم اللہ تعالیٰ کے لیے کریں ۔یہ تو اخلاص کا ایک شعبہ ہے جو تصوف کے زمرے میں آتا ہے لیکن عمل شریعت کے مطابق ہو کیونکہ صرف اخلاص ہی کافی نہیں ہے بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ پر عمل ہونا چاہئے اگر اخلاص ہو اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہ ہو تو کامیابی نہیں ہوگی مثلا اگر اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتا ہو اور رکعت میں تین سجدے کرلے تو نماز صحیح نہیں ہوگی اور جس وقت مجھے پتا چلے گا تو مجھے ساری نمازیں دوبارہ پڑھنی پڑے گیںیا نہیں؟کوئی کہہ سکتا ہے میں نے تو اللہ کے لیے پڑھی تھی اللہ تعالیٰ کے لیے تو پڑھی توتھیں لیکن طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم والا نہیں تھا۔لہٰذا طریقہ بھی نبی کا ہونا چاہیئے اس لیے قربانی میںایک تو محبت ہو اور اخلاص ہو اور دوسرا طریقہ نبی کریم صلی اللہ وعلیہ وسلم کا ہو تو طریقہ اس میں نبی کا کیا ہے وہ یہی قربانی کے بارے میںفقہی مسایل ہیں جن کا جاننا قربانی صحیح طریقے سے کرنے کے لئے ضروری ہیں۔
قربانی کے مسائل
فرماتے ہیں کہ اگر چھوٹا جانور ہے تو اس میں ایک حصہ ہوسکتا ہے اور بڑا جانور ہے تو اس میں سات حصے ہوسکتے ہیں اور یہ بھی عرض کردوں کہ بعض لوگوں نے یہ مشہور کر رکھا ہے کہ سارے گھر والوں کی طرف سے ایک قربانی کافی ہے تو یہ غلط ہے جو بھی صاحب نصاب ہے ایک گھر میں ایک دو ہیں یا تین یا چار ہیں سب کے اوپر الگ الگ قربانی واجب ہے پورے گھر کی طرف سے ایک قربانی کرنا یہ شریعت کے مطابق نہیں ہے ۔اس لیے اس مسئلہ کو خوب سمجھنا چاہئے کہ جب قربانی کرنی ہے اللہ تعالیٰ کے لیے کرنی ہے تو پھر شریعت کے مطابق کرنا چاہئے تو شریعت کے مطابق یہ ہے کہ پورے گھر میں جتنے بھی لوگ صاحب نصاب ہیں سب پر قربانی کرنا واجب ہے الگ الگ قربانی کرنا واجب ہے اور قربانی کا جو جانور ہے وہ عیب سے پاک ہونا چاہئے بہتر تو یہ ہے کہ قربانی کا جانور اتنا خوبصورت ہو کہ قربانی کرنے کو بھی دل نہ کرے اور اس کے مطابق بھی ہو جو اس کے شرعی تقاضے ہیں بھی عمر کے لحاظ سے بھی وہ اس میں پورے ہوں اگر اتنا نہیں ہے تو کم از کم اتنا تو ہو کہ اس میں کوئی عیب نہ ہو کیونکہ عیب نہ ہونا تو واجب ہے اس کے اندر کوئی عیب نہ ہو پھر قربانی کو ذبح کرنے کا جوطریقہ ہے وہ شریعت کے مطابق ہونا چاہئے قربانی کے جانور کو کسی دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہیں کرنا چاہئے اور چھری تیز بالکل تیز ہونی چاہئے اگر خود ذبح کرنا جانتا ہو تو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے ورنہ جس کو ذبح کرنا زیادہ بہتر طریقے سے آتا ہے اسی سے ذبح کرالے اور ابتدا میں بسم اللہ اللہ اکبر پڑھنا ضروری ہے ذبح کرتے وقت ذبح کرنے کے لیے بسم اللہ اللہ اکبر پڑھنا ضروری ہے ۔ہمارے مسلک کے مطابق اگر بھول گیا تو اور بات ہے لیکن قصدا ًیہ چھوڑنا درست نہیں ہے تو میں عرض کررہا تھا کہ اس مسئلے کو علماء حضرات سے پوچھ لینا نماز سے پہلے قربانی نہیں ہونی چاہئے نماز کے بعد ہونی چاہئے یعنی عید کی نماز کے بعد ہونی چاہئے۔ہاں جو گاؤں ہے عید کی نماز نہیں ہوتی وہاں صبح صادق بعد قربانی ہوسکتی ہے لیکن یہاں چونکہ شہر ہے اس وجہ سے قربانی نماز کے بعد کرنی چاہئے
ذی الحج او رعید کے مستحبات
اور دوسری بات عرض کرتا ہوں کہ قربانی کا گوشت چونکہ افضل ہے اس دن کا گوشت اپنے لیے کھانے کی ابتداء قربانی کے گوشت کے کھانے سے کرلے تو یہ مستحب ہے لیکن اس کو روزہ نہیں کہنا چاہیئے یعنی یہ روزہ نہیں ہے ۔ہاںاس کو یوں کہہ سکتے ہیں چونکہ یہ بہت افضل گوشت ہے لہذا وہ اپنے کھانے کی ابتداءاس دن اپنی قربانی کے گوشت سے کرے باقی باتیں چونکہ حج کے متعلق تھیں اور وہ ختم ہوا چاہتا ہے لیکن عرض کردوں تاکہ آئندہ کام آئیں گی مطلب ہے وہ گزر گئیں ان میں سے پہلی بات یہ ہے کہ جب چاند دیکھ لیں تو آدمی کو حاجیوں سے مشابہت کے لیے مستحب ہے کہ اپنے بال اپنے ناخن وغیرہ قربانی کرتے وقت نہ کاٹے یہ مستحب ہے اور یکم ذوالحجہ سے لے کر نو ﴿9﴾ ذوالحجہ تک ہر رات شب قدر کی طرح ہے اور ہر دن کا جو روزہ ہے وہ ایک سال کے روزوں کے برابر ہے اور آج کا جو روزہ تھا یہ دو سالوں کی سیّیات کا کفارہ ایک گزشتہ سال اور ایک آئندہ سال کے گناہوں کا کفارہ تھا تو یہ ذوالحجہ کی جو فضلیت ہے وہ تو بعد میں یاد رکھیں لیکن جو عیدالضحی کی جو رات ہے یہ بھی ان طاق راتوں میں سے ایک ہے جس میں کوئی جاگے گا تو اس رات جس میں سب کے دل مرجائیں گے ان کا دل نہیں مرے گا۔تو یہ جو رات ہے اس میں کم از کم آدمی کا جاگنا چاہئے کچھ تلاوت کرے کچھ نفل پڑھے کچھ ذکر کرے الحمداللہ پر جو ہماری مجلس ذکر ہے اس کا ہمیں خیال رکھنا چاہئے کہ ہم اسی نیت سے بیٹھیں الحمداللہ اس رات کی برکت بھی حاصل ہوجائے گی اپنے گھر والوں کا بھی بتانا چاہئے ۔کیونکہ یہ چیزیں بتانے سے ہی سمجھ میں آسکتی ہیں اور ان پر عمل بھی نصیب ہوجاتاہے ۔
اگر ہم یہ چیزیں ایک دوسرے کو نہ بتائیں تو پھر یہ ہوتا ہے کہ وہ چیزیں بس اپنے ساتھ ہی لگی رہتی ہیں اور عمل بہت کم نصیب ہوتا ہے تو اپنے گھر والوں کو بھی بتائیں کہ اس رات کو ضائع نہیں کرنی چاہئے بالخصوص ہماری جو عید کی رات ہے وہ بہت زیادہ ضائع ہوتی ہے اس کے بارے میں بہت محتاط رہنا چاہئے ۔
اور دن کے وقت بھی نماز کو جاتے ہوئے نماز سے آتے ہوئے
اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الا اللہ واللہ اکبر وللہ الحمد
پڑھنا چاہئے یہ مستحب ہے اس کو پڑھنا چاہئے
تکبیرات تشریق
تمام نمازوں کے بعد تکبیرتشریق تو پڑھتے ہی ہیں یہ ہر نماز کے بعد ایک دفعہ پڑھنا تو واجب ہے ۔
اور کم از کم ایک دفعہ تو پڑھنا چاہئے اور یہ عورتوں پر واجب ہے لہذا عورتوں پر بھی یہ بتانی چاہئے بعض عورتوں کو یہ بات معلوم نہیں ہوتی
اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الا اللہ واللہ اکبر وللہ الحمد
یہ ان کو بتانا چاہئے تاکہ ہم تکبیر شریک سے محروم نہ ہوں یہ آج صبح سے شروع ہوچکا ہے اور تیرھویں ذوالحجہ کی عصر کی نماز کے بعد تک یہ تکبیر شریک ہوتی رہے گی اس وقت تک کوہر فرض نماز کے بعد پڑھتے رہیں اگر ہم اکیلے کوئی نماز پڑھ لیں تو اکیلے پر بھی ہے تو ہم اس کو فورا پڑھ لیں لیکن جماعت کے ساتھ تو یاد آہی جاتا ہے کیونکہ سارے لوگ پڑھتے ہیں ۔
اگر کوئی مسبوق ہے تو جب نماز ختم کرلے تو ایک دفعہ پڑھ لے تو یہ موٹی موٹی باتیں تھیں اور باقی تفصیلی باتیں آپ اپنے علماء اکرام سے معلوم کریں لیکن ان راتوں کو ضائع نہیں کرنا چاہئے اصل میں ساری چیزیں انہی میں ہیں یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اور اس کو محبت کے ساتھ کرنا پھر فائدہ ہوتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
وآخر دعوانا الحمداللہ رب العالمین ۔