اَلْحَمْدُ ِﷲ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ۔اَلصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَم ُ عَلیٰ خَاتَمَ النَّبِیینِ۔اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اﷲ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ فَلَا اُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُوْمِ، اِنَہ، لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ ، ِانَّہ، لَقُرْاٰنٌ کَرِیمٌ فِیْ کِتَابٌ مَکْنُون ٍ لَایَمَسُّہ، اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ ۔وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلوٰۃُ وَ السَّلُامُ مَنْ قَرَئَ الْقرآن فَاسْتَظْھَرَہ، فَاَحَلَّ حَلَالُہ، وَ حَرَّمَ حَرَامُہ، اَدْخَلَہُ اﷲ الْجَنَّۃَ وَ شَفَّعَہ، فِیْ عَشْرَہٍ مِنْ اَہْلِ بَیْتِہِ کُلُّھُمْ قَدْ وَجَبَتْ لَہُ النَّارَ صَدَقَ اﷲ الْعَلِّیِ الْعَظِیمِ وَ صَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِیِ الْکَرِیْمِ ۔
بزرگو اور دوستو !میں نے آپ کے سامنے ایک آیت مبارکہ اور چند احادیث شریفہ تلاوت کی ہیں جو آیت مبارکہ میں نے تلاوت کی ہے اللہ جل شانہ فرماتے ہیں، سو میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے چھپنے کی اور اگر تم غور کرو تو یہ بڑی قسم ہے ۔ یہ قرآن کریم محفوظ کتاب میں درج ہے، اس کو بجزصاف لوگوں کے کوئی ہاتھ نہیں لگاتا اور آپ ﷺِ کا مبارک ارشاد ہے کہ جس شخص نے قرآن شریف پڑھا، اس کو یاد کیا ، اور اس کے حلال بتلائے ہوئے کو حلال اور اس کے حرام بتلائے ہوئے کو حرام سمجھا یعنی اس پر عمل کیا تو اللہ تعالی اس کو جنت میں داخل کرے گا ۔ اور اس کے گھر کے ایسے دس آدمیوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کرے گا ۔ جن کیلئے دوزخ واجب ہوچکی ہوگی ۔
قرآن کی تین حیثیتیں
پچھلی دفعہ قرآن پاک کی تلاوت کے بارے میں ضروری باتیں عرض کی گئی تھیں، اس دفعہ ارادہ ہے کہ قرآن کی ہدایت کے نظام کے بارے میں کچھ عرض کرلیا جائے ۔ ۔ قرآن پاک کی تین بڑی حیثیتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ قرآن پاک اللہ تعالیٰ کی یعنی ہمارے محبوب حقیقی کی کتاب ہے ا دوسری یہ کہ اس کو ہدایت کے لئے نازل کیا گیا ہے اور تیسری یہ کہ اس میں برکت اور شفاء ہے ۔پہلی حیثیت کی وجہ سے اس کی تلاوت بذات خودایک بہت بڑا عمل ہے ۔ اتنا بڑا عمل ہے کہ اگر کوئی اس کا صرف ایک حرف پڑھتا ہے ۔ تو اس کو دس نیکیاں ملتی ہیں اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ ا لف الگ حرف ہے ، لام الگ حرف ہے اور میم الگ حرف ہے ۔ اس قرآن پاک کی تلاوت سے انسان اللہ پاک کے بہت قریب ہوجاتا ہے کیونکہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے ۔اللہ کے کلام کو محبوبیت کی نگاہ سے دیکھنا اور محبوب کا کلام سمجھ کر اس کی تلاوت کرنا انسان کو اللہ پاک کامحبوب بنادیتا ہے ۔ حدیث شریف میں اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح ایک شخص اپنے کسی لونڈی کے اچھے گانے کی طرف دل سے متوجہ ہوتا ہے ۔ اللہ جل شانہ اس سے زیادہ اپنے کلام کی تلاوت کرنے والے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ تو اس کی تلاوت بذات خود بہت بڑی بات ہے ۔ اور آپ ﷺِ کے مناصب نبوت میں پہلا منصب قرآن پاک کی تلاوت ہے ۔ قرآن پاک کو آپ ﷺ نے جیسے سنا ویسے امت تک پہنچا دیا ۔ یعنی قرآن پاک کے الفاظ اللہ پاک ہی کے ہیں اس میں انسان کا تصرف ہر گز شامل نہیں ہے ۔ جس طرح اتارا گیا ہے اسی طرح بعینی امت تک پہنچایا گیا ہے ۔ اس میں تلاوت کا لفظ استعمال ہوا ہے مفہوم کا لفظ استعمال نہیں ہوا کہ مفہوم پہنچا دیا گیا ۔ بلکہ تلاوت پیش کی گئی اور تلاوت کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اس کی ادائیگی ہوتی ہے جس طرح اس کے مخارج ہیں اسی طریقے سے آپ ﷺِ نے اس کو امت تک پہنچایا ۔ اس شعبے کو قاری حضرات نے سنبھالا ہے ۔ اللہ جل شانہ ان کو بہت اجر عطا فرمائے ان کا کام یہ ہے کہ جس طرح قرآن نازل ہوا ہے اور جس طریقے سے ان کو اپنے اساتذہ کے ذریعے پہنچا ہے اسی طریقے سے وہ امت تک اس کو پہنچائیں گے، اور اگر کوئی غلطی کرتا ہے تو وہ اس غلطی کو دور کرے ۔ دوسرابڑا منصب جو آپ ﷺِ کا ہے وہ قرآن پاک کے علم کو پہنچانا ہے ۔ یعلمھم الکتاب ، قرآن پاک کا علم پہنچانا ۔ اب قرآن پاک کا علم کیا ہے؟ قرآن پاک کا علم یہ ہے کہ جس مقصد کے لئے اس قرآن کو اتارا گیا ہے اس مقصد کو سمجھایا جائے ۔اس مفہوم کو سمجھایا جائے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی ترغیب دی جائے ۔ تو آپ ﷺِ نے قرآن کا علم بھی امت تک پہنچایا ہے ۔ احادیث شریفہ اصل میں قرآن پاک کے علم کو پہنچانے کا ذریعہ ہیں ، کیونکہ جب بھی امت کوکسی آیت کے مفہوم کو سمجھنے میں پریشانی ہوئی ۔ تو صحابہ کرام آپ ﷺِ سے اس بارے میں پوچھتے اور آپ ﷺِ اس کی تشریح فرما دیتے ۔ تو قرآن کے اولین شارح آپ ﷺِ ہیں ۔ قرآن پاک کی وہ شرح جو آپ ﷺِ کی شرح کے خلاف ہو، مقبول نہیں ہے ۔ اس لئے فرمایا کہ جس نے اپنی رائے سے قرآن میں کلام کیا ، یعنی اپنے رائے سے کوئی چیز بتا دی ، وہ خطرناک بات ہے ۔ اس نے غلطی کی چاہے اس نے صحیح مفہوم ہی بتایا ہو ۔ اپنی رائے سے ایسا نہیں کرسکتا ۔ اس کے لئے دلیل جو ہوگی وہ حضور ﷺ کا قول ، فعل اور عمل ہوگا ۔ آپ ﷺ نے جس طریقے سے اس کی تشریح فرمائی وہ تشریح قابل قبول ہے اس کے علاوہ اور کوئی تشریح قابل قبول نہیں ہے ۔ آج کل کے دور میں اگر کوئی واقیمو الصلواۃ و اتوالزکواۃ کا مفہوم کچھ اور بتا دے تو اس کو نہیں مانا جائے گا ۔ عربی قاعدئے کے مطابق زکواۃا صل میں صفائی کو کہتے ہیں ۔ اور صلواۃ کے ایک معنی کولہے مٹکانا ہے ۔ کیا آج کوئی شخص صلواۃ اور زکواۃ کا مفہوم یہ بتا سکتا ہے ۔ نہیں ۔ کیونکہ اس کے مفہوم کا تعین کردیا گیا ۔ آپ ﷺِنے اس کے بارے میں بتادیا ۔ اب زکواۃ وہی ہے جس کو آپ ﷺِ نے زکواۃ کہا، اور صلواۃ وہی ہے جس کو آپ ﷺِ نے صلواۃ فرما دیا ۔ اور تو اور صلواۃ کی جو ترتیب آپ ﷺِ سے منقول ہے اس میں اگر ذرہ بھر آگے پیچھے ہوجائے تو یہ صلواۃ نہیں رہے گا ۔مثلٲ اگر کوئی دو سجدوں کی جگہ تین سجدے کرلے یا دو سجدوں کی جگہ ایک سجدہ کرلے ۔ ایک رکوع کی جگہ دو رکوع کرلے تو کیا وہ صلواۃ رہ جائے گی؟ حالانکہ بظاہر تو اس کے اندر اضافہ ہوا ہے ۔ لیکن نہیں یہ اضافہ قابل قبول نہیں ہے ۔جو صلواۃ کا مفہوم آپ ﷺِ نے فرما دیا ، اب وہی صلواۃ ہے ۔ بلکہ آپ ﷺِ نے فرمایا کہ جس طرح تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھو اسی طریقے سے نماز پڑھو ۔ اسی طرح میراث کے جو مسائل قرآن پاک سے مسنبط ہیں اس کے بارے میں آپ ﷺِ نے جو کچھ بتایا ، وہ فائنل ہے ۔ اسی طریقے سے اور معاملات کے بارے میں جو آپ ﷺ نے فرمایا وہ فائنل ہے اس کے اندر تبدیلی نہیں کی جاسکتی ۔ ہاں البتہ جب آپ ﷺِ کا قول صراحتٲ موجود نہ ہو ، صحابہ کرام کے درمیان اسکے مفہوم کے سمجھنے میں اختلاف پایا جاتا ہو ، پھر اس میں اگر امت کے درمیان بھی اختلاف ہوجائے تو جس طرف جس کی رائے ہوجائے وہ بھی قابل قبول ہوسکتی ہے ۔ وہاں پر اجتہاد چل سکتا ہے ۔ لیکن جن چیزوں میں آپ ﷺ کا قول موجود ہے ۔ جن چیزوں میں آپ ﷺِ کا فیصلہ موجود ہے ۔ جن چیزوں میں آپ ﷺِ کے صحابہ کا اجماع موجود ہے ۔ وہاں پر اجتہاد نہیں چلتا ۔ تو قرآن کی حفاظت کئی طریقے سے کی گئی ہے ۔ ایک تو اس کی حفاظت نزول وحی کے دوران کی گئی کہ شیاطین کا داخلہ آسمانوں پر ممنوع قرار دے دیا گیا ۔ شیاطین پھر وہاں تک نہیں جاسکتے تھے جہاں تک پہلے جاتے تھے ۔ ان کو روک دیا گیا شہاب ثاقب کے ذریعے ۔ لہذا جنات کو بڑی فکر ہوگئی کہ آخر کونسا انقلاب آگیا ہے ؟ وہ اس کی تلاش میں نکلے اور جب آپ ﷺ کو قرآن پڑھتے ہوئے دیکھا تو کہا اوہو انقلاب تو یہ آیا ہے ۔ پھر وہ ان پر ایمان لے آئے اور اس کی اطلاع آپ ﷺِ کو سورۃ جن میں دی گئی ۔ تو ایک نزول وحی کے وقت حفاظت کا انتظام تھا ۔ دوسرا جس ترتیب سے یہ اترا، اس ترتیب سے یہ پڑھا نہیں جارہا ۔ پڑھنے کی ترتیب اور ہے نازل ہونے کی ترتیب اور ہے ۔ لیکن اس کے اندر ایک زبردست جوڑ ہے ۔ آج اگر کسی کو ترتیب نزولی معلوم نہ ہو ،اور ترتیب تلاوت کے ساتھ قرآن پاک پڑھ رہا ہو ۔ تو ان آیتوں کے اندر زبردست تتبیق پائی جاتی ہے ، زبردست ربط پایا جاتا ہے ۔ کوئی یہ محسوس ہی نہیں کرسکتا کہ یہ آیت کہیں اور اتری ہے اور یہ آیت کہیں اور اتری ہے ۔ یہ قرآن کا معجزہ ہے ۔ شان نزول سے یہ فائدہ لیا گیا کہ قرآن پاک کا فہم آسان ہوگیا ۔ پتہ چلا کہ یہ قرآن چونکہ اسcontext میں اترا ہے، اس ماحول میں اترا ہے ، اس موقع پر اترا ہے، اور اس کا یہ مطلب بیان کیا گیا تو اس آیت کا مفہوم یہی ہے ۔ اس کے مفہوم کا تعین ہوگیا ۔ دوسری طرف ترتیب تلاوت سے اس کے اندر جو ربط ہے اس کے ذریعے اس کی تلاوت اور مفہوم جاننا آسان ہوگیا ۔ باقی جو کتابیں تھیں وہ ساری کی ساری ایک وقت میں نازل ہوجاتی تھیں ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ کتابیں قیامت تک کے لئے نہیں تھیں ۔ ان کے انبیاء بھی قیامت تک کیلئے نہیں تھے ۔ لہذا ان کی جو تعلیمات تھیں وہ اسی وقت کیلئے تھیں جس وقت تک کیلئے وہ انبیاء تھے ۔پہلے کے بعد کوئی اور نبی آگیا اب اس کی شریعت آگئی کوئی اور کتاب نازل ہوتی اس پر عمل کرنے کا حکم دے دیا جاتا ۔ اب قرآن نے چونکہ قیامت تک کیلئے آنا تھا اس وجہ سے ایک تواس کے نازل ہوتے وقت بہت حفاظت کا انتظام کیا گیا ۔ پھر اس کو برقرار رکھنے کا انتظام کیا گیا ۔ جس ترتیب سے لکھا گیا اس کو بھی محفوظ کیا گیا اس کے بعد اس قرآن کو قیامت تک پہنچانے کیلئے حفاظت کا زبردست انتظام کیاگیا کہ اس کے حفظ کو آسان بنا دیا گیا ۔ ولقد یسرنا القرآن للذکر اور ہم نے باالتحقیق قرآن کو آسان بنا دیا نصیحت کے لئے ۔ سات آٹھ سال کے بچے قرآن پاک حفظ کرلیتے ہیں ، بے شک وہ قرآن کا مفہوم نہ جانتے ہوں ، لیکن وہ قرآن پاک کی تلاوت بالکل صحیح کرتے ہیں اور اگر ان کے سامنے غلط قرآن پڑھا جائے تو گرفت کرلیتے ہیں کہ قرآن غلط پڑھا جارہا ہے ۔ خود میرا بیٹایک دن میرے پاس آیا ، آکر کہا کہ میں نے ایک قرآن دیکھا ہے اس میں فلاں چیز غلط لکھی گئی ہے ۔ میں نے کہا اچھا ، چند دنوں کے بعد پتہ چلا کہ ایک مشہور کمپنی نے قرا ن پا ک چھاپا تھا ۔ چھپائی میں ان سے غلطی ہوئی پھرانہوں نے معافی مانگی کہ ہاں ہم سے غلطی ہوئی ہے اس میں فلاں حرف غلط لکھا گیا ہے ۔ تو اللہ جل شانہ نے اس کا انتظام کیا ہوا ہے کہ کوئی اس کے اندر غلط چیز لکھ ہی نہیں سکتا ۔ ایک یہودی اسی طرح مسلمان ہوئے تھے ۔ وہ بڑے خوش خط تھے ۔اس نے تین کتابیں بڑی خوشخط لکھیں ایک تورات ، ایک انجیل اور ایک قرآن ۔ قرآن کے اندر بھی اس نے کچھ چیزیں آگے پیچھے کردیں ۔ تورات میں بھی کچھ آگے پیچھے کیا ۔ انجیل میں بھی یہی کیا ۔ پھر انجیل کو چرچ میں لے گئے ان سے کہا کہ دیکھیں میں نے یہ خوش خط لکھا ہے آپ اس کو دیکھیں ، انہوں نے اس کی شان وشوکت کو دیکھا اور بہت شکریہ ادا کیا اور اسکو اپنے پاس رکھ لیا ۔ جب تورات کو ان کے عبادت خانے میں لے گئے انہوںنے جب اس کی شان و شوکت دیکھی بہت خوش ہوئے، بہت شکریہ ادا کیا اور اس نسخے کو اپنے ساتھ رکھ لیا ۔ قرآن کو مسجد میں لے گئے ، وہاں لوگوں نے کہا اچھا یہ آپ نے لکھی ہے ۔ پھر پوچھا کسی سے آپ نے تصدیق کروائی ہے ؟ یہ سوال پہلا جھٹکا تھا ۔ یہ تصدیق کروائی کا کیا مطلب ہے ۔ لوگوں نے کہا اچھا اگر نہیں کی تو ہم کرلیتے ہیں ۔ حافظو کو بلایا کہا پڑھو ، پڑھنا شروع کیا ۔ جو جو غلطیاں تھیں وہ نکال دیں ۔ آخر میں اسے کہا معاف کیجئے گا قرآن تو آپ نے بہت خوبصورت لکھا ہے لیکن اس میں بہت ساری غلطیاں ہیں اور ان غلطیوں کی وجہ سے ہم اس کو قبول کرنے سے قاصر ہیں اور شکریہ کے ساتھ واپس کردیا ۔ تب اس کو پتہ چلا کہ قرآن کے اندر تبدیلی نہیں کی جاسکتی ، قرآن کی حفاظت کا اللہ پاک نے ایسا انتظام کیا ہے ۔ اب قرآن پاک کے معنی کی کس طرح حفاظت کی گئی ، اس کی اس طرح حفاظت کی گئی کہ آپ ﷺِ نے جو بھی اس کے معنی تھے وہ بتادیے ۔ جو بھی اس کے مفہوم تھے بتا دیے ۔ آپ ﷺ کی فرمائی ہوئی باتوں کو احادیث کہتے ہیں ، اب ان احادیث شریفہ کی حفاظت کے لئے ایک بہت بڑا فن وجود میں آگیا جس کو اسماء الرجال کہتے ہیں ۔ رجال کا فن ۔ یہ فن کیا ہے ؟ جن لوگوں نے یہ احادیث شریفہ روایت کی ہوتی ہیں ان کیhistoryمحفوظ کرلی گئی۔ ان کے بڑے باریک باریک واقعات بھی محفوظ کردیے گئے ۔ اور ان پر ایسی تنقید کی گئی کہ ایسی تنقید کسی دشمن پر بھی نہیں کی جاتی، ایسی تنقید کی گئی۔ ویسے تو بدگمانی کرنا جرم ہے لیکن حدیث شریف کی حفاظت کے لئے جب تک پورا یقین نہیں ہوجائے کہ وہ صحیح آدمی ہے اس وقت تک اس کو کوئی قبول ہی نہیں کرتا ۔ ایک صاحب تھے انہوں نے ایک حدیث شریف لینے کیلئے بہت دور کا سفر کیا ۔ پتہ پوچھ کر جب وہ مقررہ جگہ پہنچے تو وہ صاحب جس سے حدیث شریف کی روایت لینی تھی ۔ اس نے دیکھا کہ وہ ایک جانور کوبلا رہا ہے اور جھولی میں ایسے دکھا رہا ہے کہ اس کے پاس کچھ ہے ۔جب وہ جانور قریب پہنچا اور اس آدمی نے جھولی کھول لی تو اس میں کچھ بھی نہیں تھا ۔ یہ کسان لوگ ایسا کرتے ہیں انہیں جانور کو پکڑنے کے طریقے آتے ہیں ۔ یہ دیکھ کر وہ واپس ہونے لگے ۔ پیچھے سے اس نے آواز دی کہ آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں کس سے ملنا تھا ؟ کہا ہاں ایک حدیث کی روایت لینی تھی آپ سے لیکن اب نہیں لے سکتا ۔ پوچھا کیوں نہیں لیتے ۔ کہا آپ نے جانور کو دھوکہ دیا ہے اب میرا آپ پر اعتماد نہیں رہا ۔اب میں آپ سے حدیث شریف نہیں لے سکتا ۔ یعنی اس کی اتنی حفاظت۔ یحیٰ بن معین ؒ اسمائ الرجال کے فن کے بڑے نقاد واقع ہوئے ہیں ۔ اس نے اپنے استاد سے جو احادیث شریفہ سنی تھیں ، تو اس کا امتحان کرنا چاہا کہ مستند ہیں یا نہیں ہیں ۔ ان کے دو اور بھائی بھی اسی استاد کے شاگرد تھے ۔ ایک امام احمد بن حنبل ؒ تھے ایک کوئی اور تھے ۔ یہ تینوں ایک چبوترے پر بیٹھ کر احادیث شریف سنایا کرتے تھے ۔ اب یہ چبوترے پر بیٹھے ہوئے ہیں دس حدیثیں لکھی ہوئی ہیں اور ان کا متن تو وہی رکھا ، لیکن اس کے راویوں میں گڑ بڑ کردی ۔ کسی کو آگے کردیا کسی کو پیچھے کردیا ۔ کسی کو غائب کردیا ۔ اس طریقے سے وہ راویوں کا بیان کرنے لگے ۔ جب پہلی حدیث بیان کردی تو استاد نے کہا اس کو کاٹ دو یہ حدیث آپ نے مجھ سے نہیں سنی ۔ جب دوسری حدیث سنائی ۔ اس کے بارے میں بھی کہا کہ اس کو کاٹ دو یہ آپ نے مجھ سے نہیں سنی ۔ جب تیسری حدیث سنائی اس کے بارے میں بھی کہا کہ اس کو کاٹ دو یہ آپ نے مجھ سے نہیں سنی ۔اور ساتھ ہی اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا ،کیونکہ اس کو پتہ چل گیاکہ یہ میرے ساتھ کچھ گڑ بڑ کررہے ہیں ۔ تو اس تیسرے ساتھی سے کہا جس کا نام اس وقت میرے ذہن میں نہیں آرہا کہ تو تو اس قابل ہی نہیں ہے کہ اس قسم کا کام کرسکے ۔ امام حنبل کو کہا کہ تو تو متقی آدمی ہے تجھ سے مجھے یہ توقع نہیں ہے ۔ یحیٰ بن معین ؒ سے کہا اصل میں تو ہی ہے جس نے یہ ساری گڑ بڑ کی ہے اور لاتیںمارمارکراسکوچبوترے سے نیچے گرانے لگے، تو امام احمد بن حنبلؒ نے کہا میں نہیں کہتا تھا کہ یہ حرکت نہ کرو۔ تو یحییٰ بن معینؒ نے جواب دیا ان لاتوں کو کھانے کے لئے ہی تو ہم آتے ہیں ، یہی تو ہمارے لئے سعادت ہے ۔ پھر ان کو اپنے استاد پر پکا یقین ہوگیا کہ ہاں یہ ہمیں صحیح حدیثیں سنا رہا ہے ۔تو اپنے استاد کو بھی معاف نہیں کیا ۔ اسی طرح ہارون الرشید کے دور میں ایک زندیق نے ساٹھ ہزار جھوٹی حدیثیں وضع کیں اور کتابوں میں اس کو پھیلا دیا ۔ پتہ چلا ، گرفتار ہوگیا ۔ ہارون الرشید کے دربار میں پیش کردیا گیا ۔ ہارون الرشید نے جب ثبوت دیکھ لیا تو حکم دیا کہ اس کا سر اڑا دو ۔ یہ ظالم بجائے اس کے کہ پریشان ہوتا ، اس نے کہا ہارون ان ساٹھ ہزار حدیثوں کا کیا ہوگا جو میں نے کتابوں میں پھیلائی ہوئی ہیں ، اس کا خیال تھا کہ اس کے لئے مجھے زندہ رکھ لیں گے ۔ ہارون الرشید نے جواب دیا ، میرا کام تو ہے قانون کی خدمت ، میں تو تیرا سر اڑانے والا ہوں ۔ کیونکہ تجھ جیسے آدمی کو زندہ رہنے کا حق نہیں ہے ۔ اور یہ امام مالکؒ اور ابو یوسفؒ کس لئے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ یہ تمہاری جھوٹی حدیثوں کو کتابوں سے اس طرح نکال دیں گے جس طرح مکھی کو دودھ سے نکالا جاتا ہے ۔ اور بالکل ایسا ہی ہوا ۔ انہو ںنے تمام جھوٹی حدیثیں کتابوں سے نکال دیں، تو قرآن کی معنوی حفاظت اس طرح کی گئی ہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے اس وقت سب سے زیادہ ہیں ، عیسائی ان کو اپنا پیغمبر مانتے ہیں ۔ وہ ہمارے بھی پیغمبر ہیں ، لیکن عیسائی صرف ان کو ہی پیغمبر مانتے ہیں ان کے علاوہ کسی اور کو نہیں مانتے اور ان کے ساتھ اور بھی باتیں شامل کرتے ہیں ۔ ان سے اگر پوچھو کہ سچ سچ بتائیں آپ کو عیسیٰ علیہ السلام کے کتنے واقعات معلوم ہیں ، گیارہ بارہ واقعات سے زیادہ نہیں بتا سکیں گے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ ﷺ کے درمیا ن چھ سو سال کا وقفہ ہے ۔ لیکن عیسائی لوگ دس بارہ واقعات سے زیادہ کا نہیں بتا سکیں گے سند کے ساتھ ۔اور موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اس سے بھی کم ۔ لیکن آپﷺ کی زندگی کا کونسا گوشہ ہے جو چھپا ہوا ہے ۔ حتیٰ کے وہ گوشے جو کسی عام آدی کے ظاہر نہیں ہوسکتے وہ بھی آپ ﷺِ کے ظاہر ہیں ۔ کیوں؟ کیونکہ اس کی تعلیم مقصود ہے ۔ آپ ﷺ کے علوم کو دنیا میں تین طریقوں سے تقسیم کیا گیا ۔ امہات المومنین نے اس میں اپنا کردار ادا کیا ۔ اہل بیت اطہار رضی اللہ تعالی عنہم نے اس میں اپناکردار ادا کیا ۔ اور عام صحابہ کرام نے اس میں اپنا کردار ادا کیا ۔ آپ ﷺِ کی زندگی کا کوئی گوشہ چھپا ہوا نہیں ہے ۔ قرآن بذات خود ایک مکمل کتاب ہے ۔ قرآن میں ہے وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّن الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ روح کیا ہے ۔ آپ ان سے کہہ دیں کہ یہ میرے رب کا امر ہے اور تمہیں علم نہیں دیا گیا مگر تھوڑا سا ۔ بس اس سے زیادہ کا علم نہیں دیا گیا ، تویہ روح جو امر رب ہے ،اس کا علاج کلام رب ہے ۔ وجہ کیا ہے ؟ یہ کلام رب براہ راست روح پر اثر کرتی ہے ۔ اب ذرا سائنس کی زبان میں بات کرلیں گے ۔ resonance ایک چیز ہوتی ہے ۔ اگر فریکونسی match کرجائے تو پھر amplitude بڑھ جاتا ہے ۔ اب دیکھیں ، امر ربی اور کلام ربی کی فریکونسی ایک ہے یا نہیں ہے ۔ دونوں ایک ہی جگہ سے آئے ہوئے ہیں ۔ نتیجتاً کلام رب جو ہے وہ اس امر ربی پر براہ راست اثر کرتی ہے ۔ تھوڑی دیر کیلئے پردے ہٹا دیجئے ۔ وہ پردے کیا ہیں وہ ہماری نفس کے پردے ہیں۔ اس کے لئے مزاحمت نہ کرو ، اس کلام کو اندر آنے دو ، پھر دیکھو یہ کیسا اثر کرتا ہے ۔ یہی وہ چیز ہے جو ہدایت کا اولین سبب ہے ۔ قرآن کو ہدایت کی کتاب بنایا گیا ہے ۔
الٓمّٓ ﴿۱﴾ ذٰلِکَ ا لکِتٰبُ لَا رَیبَ فِیہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِینَ﴿۲﴾
اور متقین کی تعریف آگے اللہ پاک خود ہی فرماتے ہیں
اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنفِقُونَ ﴿۳﴾ وَالَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِمَآ اُنزِلَ اِلَیکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِن قَبلِکَ۔ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُم یُوْقِنُونَ﴿۴﴾ اُولٰٓئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّن رَّبِّھِم وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴿۵﴾
اس میں یہ ہے کہ جو آپ کو بتایا گیا اس پر مشاہدے سے زیادہ یقین کرو ، جو آپ کے عقل میں آتا ہے اس سے زیادہ اس پر یقین کرو جو آپ کے عقل میں نہیں آتا ۔ وہ آپ کے عقل سے بالا ہے ۔ ایمان بالغیب کا مطلب کیا ہے؟ جو چیز عقل میں آئے وہ ایمان بالغیب نہیں ہے ۔ جو عقل کی بائونڈری کراس کرجائے وہ ایمان بالغیب ہے ۔ تو مومن کی شان ایمان بالغیب ہے ۔ جو ایمان بالغیب رکھتا ہے وہ قرآن پاک کے لئے اپنے دل کو کھول دیتا ہے ۔ اب قرآن کے لئے اندر آنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔ ممکن ہے کسی کی رکاوٹ فزکس ہو، کسی کی رکاوٹ کیمسٹری ہو ، کسی کی رکاوٹ میتھ ہو، کسی کی پولیٹکل سائنس ہو ، اکنامکس ہو ، فلسفہ ہو ۔ واقعی یہ ساری رکاوٹیں ہیں ایمان بالغیب کے لئے ۔ یہ ٹولز ہیں اپنی زندگی کو آرگنائز کرنے کیلئے ۔ ٹھیک ہے ان ٹولز کو استعمال کرو ۔ لیکن اس کو ایمان بالغیب کیلئے کیوںرکاوٹ بناتے ہو ۔ کیونکہ ایمان بالغیب آپ کو وہ چیز بتاتا ہے جو آپ کے مشاہد ے سے بالا ہے ۔ یعنی موت کے بعد آپ کے ساتھ کیا ہوگا ۔ یہ ٰآپ کو ایمان بالغیب بتاتا ہے ۔ جو مشاہدے کی چیز ہے وہ یہاں رہ جائے گی ۔ مشاہدے کی چیز کو مشاہدے کیلئے استعمال کرلو ۔ اس سے آپ کو نہیں روکا گیا ۔ اس کو آپ ٹولز بنا سکتے ہیںاس چیز کیلئے جو ایمان بالغیب سے ثابت ہے ۔ مثلٲ ایک ڈاکٹر ہے اس کا میڈیکل ریسرچ سارا مشاہدے پر ہے ، تجربے پر ہے، آبزرویشن پر ہے ۔ اور یہ سب ٹھیک ہے غلط نہیں ہے ۔ لیکن ایک سیکولر ڈاکٹر اور ایک مومن ڈاکٹر جو ایمان والا ہے ، جس کا ایمان بالغیب موجود ہے ان میں فرق ہوگا یا نہیں ؟ کس لحاظ سے فرق ہوگا ۔ فرق ایسا ہوگا کہ وہ سیکولر ڈاکٹر اپنی ڈاکٹری سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ وہ موت سے پہلے کی چیز حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ وہ اس کے لئے جائز ہے ۔ لیکن یہ بات اگر اتنی آگے بڑھ گئی کہ اس سے وہ چیز خراب ہونے لگے جو ایمان بالغیب سے ثابت ہورہی ہے تو اس کو روکا جائے گا ۔ وہ پھر اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہا ہے ۔ میں ایک دفعہ ہسپتال گیا تھا ۔ تو طریقہ یہ ہے کہ جب ڈاکٹر کسی چیز کو آبزرو کرتا ہے اس میں بعض پردے کی جگہیں بھی ہوتی ہیں ۔ شریعت اس کی محدود اجازت دیتی ہے ۔ محدود اجازت یہ ہے کہ جہاں مسئلہ ہو صرف وہی جگہ دکھائی جائے اس سے زیادہ آگے پیچھے نہیں ۔ مریض کیلئے بھی حکم ہے ۔ ڈاکٹر کے لئے بھی حکم ہے ۔ ڈاکٹر بھی اس سے زیادہ کا مطالبہ نہیں کرسکتا ۔ مریض بھی اس سے زیادہ حصہ نہیں دکھا سکتا ۔ اگر مریض اس سے زیادہ حصہ دکھائے گا تو وہ بھی مجرم ہے ۔ چاہے وہ مرد ہو یا عورت اور اگر ڈاکٹر اس کا مطالبہ کرتا ہے تو ڈاکٹر مجرم ہے ۔ میں نے وہاں جب یہ بات کی تو مجھے بتایا گیا کہ بہت سارے ڈاکٹر اس پر اتنا غصہ ہوجاتے ہیں کہ وہ علاج کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔ تو اس کو ہم کیا کہیں گے ؟ یہ نفس کے خواہش کی ڈاکٹری ہے ۔ اس نے اب ایمان بالغیب والی بات سے ٹکر لے لی ہے ۔ لہذا یہ ڈاکٹری اب انسانیت کی خدمت نہیں کررہی ۔ اسی طریقے سے اگر مریض کو commodity سمجھا جائے ، اس کو earning کا ایک ٹول سمجھا جائے ، اور اس کے جو حقوق ہیں ان کو سلب کیا جائے، اس کو جتنی توجہ کی ضرورت ہے اتنی توجہ ان کو نہ دی جائے ، تو وہ ڈاکٹر ٹھیک ہے پیسے تو کما لے گا لیکن اپنی آخرت کو خراب کرلے گا ۔ ایک دفعہ میں ایک ڈاکٹر کے پاس گیا ، مشہور ڈاکٹر ہیں ۔ وہ جب بھی مجھے دیکھتے ہیں تو اپنے آپ کو کوسنا شروع کردیتے ہیں ۔ کہ آپ بھی ملازم میں بھی ملازم ،میں یہ کرتا ہوں اور آپ یہ کرتے ہیں ، مجھ میں اور ہندو ڈاکٹر میں کوئی فرق نہیں ، یعنی اپنے آپ کو کوسنا شروع کردیتا ہے ۔ میں نے ایک دن اس سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ تو بالکل جنت کے کنارے پر بیٹھے ہوئے ہیں، بس چند قدم لے لیں تو جنت میں ۔ اس نے پوچھا وہ کیسے ۔ میں نے کہا کہ اللہ پاک فرماتے ہیں أنا عند منکسرۃ القلوب میں ٹوٹے ہوئے دلوں کے ساتھ ہو ں۔ تو مریض سے زیادہ ٹوٹاہوا دل کس کا ہوگا ۔ اگر آپ اس کو انسان سمجھیں ، بے شک اس سے اپنی ِضروری فیس آپ لے لیں ۔ لیکن اگر آپ اس کو انسان سمجھیں اس کو due respect دیں اس کوdue attention دیں ، اور اس کا اچھی طرح علاج کریں ، تو امید ہے کہ آپ کو ایسی دعائیں مل جائیں گی جو آپ کو انشاء اللہ سیدھی جنت میں پہنچا دے گی ۔اس نے پوچھا یہ حدیث شریف آپ مجھے لکھ کر دے سکتے ہیں میں نے کہا کیوں نہیں ، وہ میں نے لکھ کر دے دی۔ اگلی دفعہ جب میں اس کے کلینگ گیا تو اس نے بڑے خوبصورت طریقے سے لکھ کر اس کو فریم کیا تھا اور اپنے سامنے لگا یا تھا ۔ تویہ مشاہدے والا علم ہے، اس کو ٹھیک کرنی والی چیز ایمان بالغیب ہے ۔ اگر ایمان بالغیب نہیں ہوگا تو یہ ڈاکٹر ٹھیک نہیں ہوسکتا ۔ اس طرح ایک انجنیئر ہے ، ایک سائنٹسٹ ہے اس کا سب کچھ مشاہدے پر ہے ۔ لیکن اگر ایمان بالغیب نہیں ہے تو دہری بن جائے گا اورپھر بے ہودہ باتیں کرے گا ۔ کیونکہ ایمان باالغیب نہیں ہے ۔تو ہمیں ایمان بالغیب کو سمجھنا پڑے گا ،اس سے آتا ہے تقویٰ ۔ جب تک ایمان بالغیب نہیں ہوگا ہم تقویٰ کانام بھی نہیں لے سکتے ۔ تقویٰ ایسی چیزہے جو انسان کے دل میں بیٹھ جائے جو ٹھیک ہے اس کو ٹھیک بتائے جو غلط ہے اس کو غلط بتائے ، اور اس کو وقت پر سگنل دے ۔ اس سگنل کو ہم ضمیر کہتے ہیں ۔ پھر اس سگنل کو وہ receive کرے اور اس کے مطابق کام کرے ، یہ تقوی ٰہے ۔ پھر تقویٰ کے بارے اللہ جل شانہ کے اور آپﷺِکے بڑے اونچے اونچے کلمات ہیں ۔ ان اکرمکم عنداللہ اتقٰکم
بے شک تم میں سب سے زیادہ عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو زیادہ متقی ہے ۔ اور ھدی للمتقین یہ ہدایت ہے متقین کیلئے ، متقین اس سے ہدایت حاصل کرسکتے ہیں ۔ دیکھیں جس شخص کو ایمان بالغیب حاصل نہیں ہے اس کو قرآن سے کیسے فائدہ ہوگا ؟ کیا قرآن میں کسی کیمسٹری کا فارمولا بتایا جارہا ہے کہ اس کو فائدہ ہوگا یا فزکس کاlawبتایا جارہا ہے ۔ یہ چیزیں قرآن کا فیلڈ نہیں ہے ۔ قرآن بتائے گا سود نہ کھأو سودکھانا اللہ کے ساتھ اعلان جنگ ہے ۔ اب جس کو تقویٰ حاصل نہیں ہوگا وہ اس کو کیسے مانے گا ، اس پر اس کا کیسے اثر ہوگا ۔ قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ اللہ جل شانہ صدقات کو بڑھاتا ہے او رسود کو مٹاتا ہے ۔ اب مشاہدہ کیا کہتا ہے کہ سود سے پیسہ بڑھتا ہے اور صدقہ سے کم ہوتا ہے ۔ اللہ پاک اپنے کلام میں فرما رہا ہے کہ صدقہ کو اللہ پاک بڑھاتا ہے اور سودکو مٹاتا ہے ۔ اب جس کا مشاہدے پر یقین ہے اور ایمان بالغیب نہیں ہے وہ اس بات کو کیسے مانے گا ۔ہمارے ایک ڈاکٹر صاحب تھے ، اللہ تعالی اس کی مغفرت کرے ۔ آپ جانتے ہیں سرکاری ملازمین کا ایک GPF فنڈ ہوتا ہے ، علماء کرام نے اس پر فتویٰ دیا ہے کہ یہ سود نہیں ہے ۔ لیکن اگر اس کو کوئی سود سمجھ کر کھائے گا تو وہ سود خور ہوگا ۔ بات سمجھ آگئی انما ا لاعمال بالنیات سے۔ اگر کوئی پانی پی رہا ہے اور خیال کررہا ہے کہ شراب ہے تو شراب پینے کا گناہ ہوگا ۔ تو اگر اس کو سود سمجھ رہا ہے اور پھر بھی کھا رہا ہے تو پھر وہ سود خور ہے ۔ لیکن اگر علماۓ کرام کے فتوے پر عمل کررہا ہے اور اس کو سود نہیں سمجھ رہا تو ٹھیک ہے وہ پھر کھا سکتا ہے ۔ تو وہ صاحب اس کو سود سمجھ رہے تھے اس نے ہمارے اکائونٹس آفیسر سے پوچھا ، ان دنوں یہ غیر سودی نظام آیا تھا کہ جو GPF آپ سے جمع ہوگا آپ کو option ہے کہ اس پر سود لیں یا نہ لیں ۔ یہ بھی ایک عجیب بات تھی ، اس کے علاوہ اس کے ساتھ کچھ facilities بھی attached کرلیں ، اور وہ یہ کہ جو سود نہیں لے گا تو ان کو ہاؤس بلڈنگ فنانسن والے جو پیسے دیں گے وہ بغیر سود کے دیں گے ۔ ڈاکٹر صاحب کو یہ پتہ چلا تو اس کے منہ میں پانی بھر آیا اس نے پوچھا کہ اب اگر میں کہوں کہ میں سود نہیں لیتا تو کیا مجھے ہائوس بلڈنگ فنانس والے بغیر سود کا قرضہ دے دیں گے ۔ اکائونٹ آفیسر نے جواب دیا ہاں لیکن جتنی سروس آپ کرچکے ہیں اس پر جتنا سود آپ لے چکے ہیں وہ بھی کاٹ لیا جائے گا ۔ کہا پھر تو ٹھیک نہیں ہے ۔ مطلب میرا یہ ہے کہ یہ مشاہدے کی بات ہے ۔ بظاہر اس کو نظر آرہا ہے کہ مجھے نقصان ہورہا ہے ۔ حالانکہ یہ چیزایسی ہے کہ اس سے انسان انکار نہیں کرسکتا لیکن اس کو ثابت نہیں کرسکتا ۔ وہ مخفی observeable ہے ۔ آپ کہیں گے عجیب termenology ہے ۔ جو مخفی ہوگیا وہ observeable کیسے ہوگیا ؟ آپ کہیں گے مذاق کررہا ہے ۔ لیکن جب میں ایک لفظ کہوں گا تو آپ سب مان لیں گے وہ لفظ ہے برکت ۔ کیا برکت کو انسان calculate کرسکتا ہے ؟نہیں۔ بلکہ برکت کو انسان محسوس کرسکتا ہے ۔ سب لوگ کرسکتے ہیں ۔ بلکہ ہم یہ کہیں گے کہ برکت کو اگر آپ نے برکت رکھنا ہے تو calculation سے اس کو آؤٹ کرنا پڑے گا تب برکت ہوگی ۔ calculation کرلیا تو برکت ختم ہوجائے گی ۔ آپ حضرات اس کا خود مشاہدہ کرلیں ۔ کیسے ؟ غزوہ احزاب میں جب مسلمانوں نے پیٹ پر پتھر باندے ہوئے تھے ۔ آپ ﷺِ نے دو باندھے ہوئے تھے ۔ ایک صحابی نے دعوت کی آپﷺِ کی ۔ آپ ﷺِنے دعوت قبول فرمائی اور باقی صحابہ سے کہا کہ آئو دعوت ہے ۔ اب جب لوگ اتنے بھوکے ہوں ،اور دعوت پر جا رہے ہوں تو مجھے بتائیں کہ ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو دعوت کررہے ہونگے ۔ وہ آدمی دوڑا دوڑا گھر چلا گیااور بتایا کہ حضورﷺِ نے تو سب کو بتادیا ہے اور وہ آرہے ہیں ۔ ان کی گھر والی نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے ان سے کہا تھا کہ کتنا کھانا ہے ۔ اس نے جواب دیا ہاں بتا دیا تھا ۔ کہا پھر فکر نہ کرو ، پھر جو کچھ ہوگا وہ ہوگا ۔ آپ ﷺِ تشریف لے آئے اور فرمایا اس وقت تک روٹیاں نہ لگائو جب تک میں نہ کہوں۔، فرمایا آٹے کے اوپر چادر ڈال دو اور نیچے سے آٹا نکال کر روٹیاں پکا کر لوگوں کو کھلانا شروع کردو اور خود بھی درمیان میں بیٹھ جائو ۔ اب انہوں نے جو روٹیاں پکا کر کھلانی شروع کردیں تو لوگ کھاتے رہے کھاتے رہے حتیٰ کہ سب سیر ہوگئے لیکن روٹی پھر بھی بچ بھی گئی ۔ سارے لشکر نے کھا لیا پھر بھی روٹیاں بچ گئیں ۔ آپ کہیں گے یہ تو معجزہ ہے ۔ میں کہتا ہوں معجزہ ضرور ہے لیکن آپ ﷺِ نے جس ترتیب سے اس کو کیا ہے ذرا اس ترتیب پر آپ غور کرلیں، چادر کیوں ڈلوائی ؟ اس کے اندر کچھ ہے ۔ چادر ڈالنے والی بات میں کچھ ہے ۔ وہ یہ کہ آپ کے مشاہدے سے وہ چیز disconnect ہوجائے ۔ اب اللہ پاک کا غیبی نظام چل پڑا ہے ۔ اب غیبی نظام کو تم دیکھ سکتے ہو؟ ۔ ایک صحابی رسول ﷺِ کے گھر میں فاقہ ہے ۔ گھر میں کچھ بھی نہیں ہے ۔ واقعی وہ عجیب لوگ تھے ۔ اپنی بیوی سے کہا میں مسجد جارہا ہوں ۔ مسجد گئے دو رکعات صلواۃ حاجت پڑھی ،اللہ پاک سے گڑگڑا کر مانگا کہ اے اللہ ہمارے حال پر رحم فرما ہمیں کھانے کو دے دے ۔ پھر گھر آکر بیوی سے پوچھا کچھ ہوا ہے ؟ بیوی نے کہا کچھ نہیں ہوا ۔ کہا اچھا ٹھیک ہے پھر جاتا ہوں مسجد میں ،جاکر پھر دو رکعت صلواۃ حاجت پڑھ لیے اور اللہ سے مانگا ۔ گھرواپس آئے پوچھا کچھ ہوا ہے ؟ بیوی نے کہا کچھ نہیں ہوا ۔ کہا اچھا چلو پھر مسجد جاتا ہوں ۔ پھر چلے گئے ، اب آج کل دیکھیں اگر ایک بار کچھ نہیں ہوا تو کہتے ہیں بس اب کچھ نہیں ہوسکتا ۔ ایسا ہوتا ہے ۔ لیکن دیکھیں ان کو اللہ پاک پر کتنا یقین تھا ۔ کہتا تھا مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہوگی ۔ بہر حال جب اس بار مسجد سے واپس آئے تو دیکھا کہ گھر میں پڑی چکی خود بخود چلنی شروع ہوگئی تھی ۔ خالی چکی چل رہی ہے اور اس سے آٹا نکل رہا ہے ۔ اب گھر میں جتنے برتن تھے وہ تو سب آٹے سے بھر گئے ، اب کیا کریں ۔ اس کے دل میں خیال آیا کہ دیکھتا ہوں یہ آٹا کہاں سے آرہا ہے ۔ جیسے ہی چکی کے اوپر کے حصے کو اٹھا یا تو آٹا آنا بند ہوگیا ۔ آپ ﷺِ کے پاس گئے اور پورا ماجرہ سنایا ، آپ ﷺِ نے فرمایا کہ اللہ پاک کی رحمت اتنی زیادہ حرکت میں آئی تھی کہ اگر یہ آپ نہ اٹھاتے تو قیامت تک اس سے آٹا نکلتا ۔ آپ کہیں گے کمال ہے حدیث شریف پر ہمیں یقین ہے لیکن جوڑ سمجھ میں نہیں آرہا ۔ تو جوڑسمجھنے کے لئے زم زم کے پانی کو دیکھ لو ۔ وہ چل رہا ہے یا نہیں ۔ اس کو کوئی ختم کرسکتا ہے ؟ یہ بھی تو ایک پیاسے کیلئے جاری کیا گیا تھا ۔ اسماعیل علیہ السلام کے لئے جاری کیا گیا تھا ، اب پوری دنیا کے پیاسے اس سے سیراب ہورہے ہیں یا نہیں ، اتنی بڑی نعمت لیکن وہاں جاکر اس پر کوئی پابندی نہیں ۔ جتنا پیوکوئی رکاوٹ نہیں ۔وجہ کیا ہے ؟یہ اللہ پاک کی دین ہے ۔ اس میں برکت آگئی ہے، اب وہ برکت مسلسل چل رہی ہے ۔ برکت کو کوئی تول نہیں سکتا ۔ لیکن اس کا کوئی انکار بھی نہیں کرسکتا ۔ برکت برکت ہوتی ہے ۔ آج کل کے دور میں بھی یہ برکت ہے ۔ فرق یہ ہے ذرا مشاہدے سے disconnect کرنا پڑتا ہے ۔ اپنے فزکس کے سوئچ کو آف کرنا ہوتا ہے ۔ اپنے اکنامکس کے calculation کو ذرا آرام کرنے دینا ہوتا ہے ۔ پھر یہ برکت سمجھ میں آتی ہے ۔ تو برکت اب بھی الحمد اللہ موجود ہے ۔ اور وہ کیا ہے minimumسے سٹارٹ کرلو ۔ جہاں اللہ نے روکا ہے وہاں رک جائو ۔ جن کاموں سے اللہ نے روکا ہے اس سے رک جائو ، جہاں اجازت دی ہے وہاں کام کرو ۔ یہ minimum ہے ۔ میں نے وہاں سے نہیں کمانا جہاں سے اللہ نے روکا ہے ۔ رشوت سے نہیں کمانا ، سود سے نہیں کمانا ، دھوکے سے نہیں کمانا ، ملاوٹ سے نہیں کمانا ، فراڈ سے نہیں کمانا ، یہ راستے مجھ پر بند ہیں کیونکہ اللہ پاک نے روکا ہے ۔ بس اتنا کرلو ، پھر اس میں برکت خو د بخود آجائے گی ۔ پیسے تھوڑے ہونگے لیکن گھر کا کام چل پڑے گا ۔یہ بات انسان کی سمجھ میں نہیں آتی کہ اللہ پاک یہ کام کیسے چلارہا ہے ۔ اور واقعی سمجھ نہیں آتی ۔ اپنی بات بتانی نہیں چاہیے لیکن مثال کے طور پر عرض کرتا ہوں ۔ تحدیث بالنعمت بھی آپ اس کو کہہ سکتے ہیں ۔ ہمارے والد صاحب جب فوت ہوئے تو گھر کی ساری ذمہ داری مجھ پر آگئی ۔ اس وقت میری تنخواہ بارہ سو روپے تھی ۔ مجھ سے میرے ایک دوست نے پوچھا کہ آپ کا گزارہ کیسے ہوتا ہے؟ میں نے کہا بس یہی تنخواہ ہے اس سے ہوجاتا ہے ۔ کہا اچھا اس تنخواہ سے آپ کا سارا کام ہوجاتا ہے ۔ میں نے کہا ہاں ہوجاتا ہے ۔ پوچھا کیسے ہوتا ہے ؟ میں نے کہا یہ میں نہیں سمجھاسکتا کہ کیسے ہوتا ہے ۔ ہمارے دفتر کے تین چار انجنیئرز آپس میں بیٹھے ہوئے باتیں کررہے تھے ۔ کچھ فرسٹریشن کا شکار تھے کہہ رہے تھے کہ مہنگائی بہت زیادہ ہے ، خرچے بہت زیادہ ہیں اور ہمارا گزارہ نہیں ہورہا ۔ یہ وہ آپس میں باتیں کررہے تھے ۔ سامنے ہمارے دفتر کے attendent بیٹھے ہوئے تھے اس کو بلایا ۔ وہ آگئے ۔ تو اس سے ویسے شغل کے طور پر پوچھا کہ بھئی آپ کا گزارہ ہوتا ہے ؟ اس نے کہا الحمد اللہ ۔ پوچھا کیسے ہوتا ہے ۔ کہا میرا اتنا کچن کا خرچ ہے ۔ اتنا میں گھر کا کرایہ دیتا ہوں ، باقی چیزوں کا یہ خرچ ہے ،الحمد اللہ ڈیڑھ سو روپیہ اس میں بچ جاتا ہے ۔ جب اس نے یہ کہا تویہ چاروں انجنیئرزہکے بکے رہ گئے ۔ اٹھ کر کوئی اس طرف گیا کوئی اس طرف گیا ، شرم سے ایک دوسرے سے آنکھیں بھی نہیں ملا رہے تھے ۔ فرق یہ تھا کہ وہ attendent پارسا آدمی تھا ۔ دیندار آدمی تھا ۔ تو یہ برکت آج بھی ہے ۔اللہ جل شانہ کے ہدایت کا جو نظام ہے یہ غیب پر یقین کرنے سے وجود میں آتا ہے ۔ یہ ہمارا جسمانی رزق ہے جس کے بارے میں میں ابھی بات کررہا تھا ۔ ایک ہمارا روحانی رزق ہے ۔ وہی امر ربی والی بات ۔ اس کے لئے جو روحانی رزق ہے وہ کلام ربی ہے ۔ اس کلام ربی کے رزق کا حصہ حاصل کرنے کیلئے غیب پر یقین کرنا پڑتا ہے جب انسان غیب پر یقین کرے تو قرآن پاک اپنے بازو پھیلا دیتا ہے ۔ پھر ایک ایک لفظ کو دیکھو گے تو ماشائ اللہ سمند ر ہی سمندر ۔ فضائل اعمال میں ایک واقع لکھا ہے ، آپ حضرات پڑھ سکتے ہیں ۔ ایک بزرگ تھے ان سے ایک بڑے عالم بیت ہوئے۔ اس بزرگ نے اپنی ترتیب سے اس کو ذکر سکھایا ۔ ذکر سکھایا لا الہ الا اللہ کا ۔ اور اس سے کہا کہ بس فرض نماز آپ نے پڑھنی ہے اور دوسرے جو فرائض ہیں وہ آپ نے پورے کرنے ہیں ، باقی آپ نے کچھ نہیں کرنا ۔ بس یہ لا الہ الا اللہ کا ذکر آپ نے اس طریقے سے کرنا ہے ۔ وہ بڑے عالم تھے اور قرآن کا درس دیا کرتے تھے ۔اس کے متعلق بھی فرمادیا کہ اس کو بھی چھوڑ دو ۔ اس پر ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا ۔ جو ظاہر بین لوگ ہیں انہوں نے ایک ہنگامہ کھڑا کردیا کہ دیکھو قرآن کے درس سے روک دیا ، قرآن چھڑوا دیا ۔ یہ کردیا ، وہ کردیا ۔ پیر بھی زندیق ہے اور مرید بھی زندیق ہے ۔ لیکن وہ مرید بھی مخلص تھے ۔ انہوں نے کسی کی پرواہ نہیں کی، جیسے پیر صاحب نے بتادیا اس طریقے سے عمل کرنے لگے ۔ کچھ عرصہ تک وہ ذکر کرتے رہے ۔ اس کے بعد جب پیر صاحب نے دیکھا کہ اب وہ اس قابل ہوگئے ہیں ۔ جس نور کا انتظار تھا وہ نور دل میں آگیا ہے تو فرمایا کہ اب قرآن کا درس دو ، اس کے بعد اس عالم کا بیان ہے کہ جب میں پہلے قرآن کے الفاظ دیکھتا تھا مجھے جتنا کسبی علم ہوتا تھا اس کے حساب سے مجھے نظر آجاتا تھا کہ اس کا مفہوم کیا ہے ۔ فرمایا اب تو ایک ایک لفظ کے پیچھے علوم کے سمندر نظر آرہے ہیں ۔ دروازہ کھل گیا ، دل میں جگہ بن گئی ،قرآن نے اپنا دروازہ کھول دیا ۔دیوبند مدرسے کے بانی حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ کے علوم اتنے زیادہ تھے کہ جس وقت کسی بات پر بیان فرماتے تو زبان میں لکنت آجاتی ، حالانکہ عام طور پر زبان میں لکنت نہیں تھی ۔ لیکن جب بیان کے لئے کھڑے ہوتے تو زبان میں لکنت آجاتی ۔ لوگوں نے پوچھا حضرت بیان کے دوران آپ کی زبان میں لکنت کیوں آجاتی ہے ؟ فرمایا کیا کروں جب کسی چیز کی طرف توجہ کرتا ہوں تیرہ تیرہ چودہ چودہ چیزیں سامنے ہوجاتی ہیں ان میں سے سلیکٹ کرنے سے زبان میں لکنت آجاتی ہے ۔ایک وقت میں تیرہ تیرہ چیزیں متوجہ ہوجاتی ہیں ۔ کسی نے مولانا یعقوب نانوتوی ؒ سے پوچھا ،یہ مولانا قاسم نانوتوی ؒ نے کہاں سے پڑھا ہے ؟ فرمایا پڑھا تو وہی سے ہے جہاں ہم بھی پڑھ چکے ہیں ، لیکن یہ پھر اللہ کی شان ہے کہ کسی کیلئے سوئی کے ناکے جتنا کھول دیں کسی کے لئے سمندر جتنا کھول دے ، یہ اللہ تعالی کا کام ہے ۔ تو بات یہی ہے ، ایک علم کسبی ہوتا ہے ایک علم لدنی ہوتا ہے ۔ علم لدنی کی کوئی انتہا نہیں ہے ، جس کے لئے اللہ تعالی جتنا کھول دے ۔لیکن علم کسبی کی انتہا ہے ۔ اللہ جل شانہ نے جن سے بڑے برے کام لیے ان کو علم لدونی سے وافر حصہ نصیب فرمادیا ۔ وہ علمائ میں ممتاز ہوگئے ۔ بڑے بڑے نام جومیں لے سکتا ہوں ، امام غزالی ؒ ، حضرت تھانویؒ ،مولانا قاسم نانوتویؒ ان کے علوم آپ calculate نہیں کرسکتے ۔ کسی نے حضرت تھانوی ؒ سے پوچھا حضرت آپ نے ہزار سے زیادہ کتابیں لکھیں ، آپ نے تو بہت کتابیں پڑھی ہونگی ؟ حضرت تھانوی ؒ نے جواب دیا نہیں میں نے صرف تین کتابیں پڑھی ہیں ۔ پوچھا وہ کونسی ، فرمایا ایک حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ ، ایک حضرت گنگوہی ؒ اور ایک حضرت یعقوب نانوتوی ؒ ، بس یہ تین کتابیں پڑھی ہیں ۔ تویہ کون تھے ؟ یہ علم لدونی کے مخزن تھے ، ذرائع تھے ۔ ان لوگوں کو اللہ پاک نے علم لدونی سے نوازا تھا اور حضرت تھانوی ؒ نے اس کو کھینچ لیا ۔ حضرت نانوتوی ؒ اور حضرت گنگوہی ؒ خود بڑے عالم تھے ،ان پر لوگوں نے اعتراض کیا کہ آپ حاجی امدا داللہ مہاجر مکی ؒکے پاس کیوں گئے جبکہ حاجی صاحب تو بہت معمولی پڑھے ہوئے ہیں ۔ فرمایا ہاں ہاں ہمیں بہت ساری چیزیں یاد تھیں ۔ بہت سارے الفاظ یاد تھے ۔ ہم نے بہت کچھ پڑھاتھا ۔ لیکن وہ ایسا تھا جیسے ہم نے پڑھا ہے کہ مالٹا بھی ہوتا ہے ، سیب بھی ہوتا ہے، کیلا بھی ہوتا ہے ، انگور بھی ہوتے ہیں ۔ ساری تفصیل ہم نے کتابوں میں پڑھی ہوئی تھی ۔ لیکن حاجی صاحب کے پاس جب گئے تو حاجی صاحب ہمیں کتابیں نہیں پڑھائیں ۔ کیلا کھلا دیا کہ یہ کیلا ہوتا ہے ۔ مالٹا کھلا دیا کہ یہ مالٹا ہے ۔ یہ سیب ہے ، یہ انگور ہے ۔ کھلا کر دکھا دیا ، فرمایا بس ہم اس کیلئے گئے تھے ۔ تو یہ وہ علم ہے جس کا احاطہ انسان کتابوں سے نہیں کرسکتا ۔ خود مولانا روم ؒ ، ہم تو ان کو ایک شاعر کی حیثیت سے جانتے ہیں ، لیکن شاید آپ کو علم نہ ہو یہ اپنے وقت کے بہت بڑے مفتی تھے ۔ خود فرماتے ہیں ،
مولوی ہر گز نہ شد مولائے روم
تا غلام شمس تبریزے نہ شد
مولوی اس وقت تک مولانا روم نہیں بنے جب تک شمس تبریز کے غلام نہیں بنے ۔ اور فرمایا ۔۔۔۔۔ دین اندر خود علوم انبیائ بے کتاب و بے موعظ واستاد۔ اپنے اندر علوم انبیائ کو دیکھو گے بغیر کسی مکتب کے ، بغیر کسی استاد کے بغیر کسی کتاب کے ۔ یہ چیزیں صرف اللہ کی طرف سے آتی ہیں ۔ خود مولانا روم ؒ کا واقعہ ہے ۔ ان کی مثنوی مولانا روم کے لکھنے کا طریقہ یہ تھا کہ حضرت پڑھتے جاتے تھے اور ان کے جو خلیفہ تھے وہ ساتھ ساتھ لکھتے جاتے تھے ۔ ایک دن فرمایا رک جائو ، چشمہ خشک ہوگیا ۔ اتنظار کرو کہ تازہ پانی آجائے پھر بات ہوگی ۔ اور لکھوانا بند کردیا ۔ کافی عرصہ تک ذکر اذکار میں لگے رہے ، پھر جب دوبارہ چشمہ موجزن ہوا ، فرمایا آجائو ، اب لکھنا شروع کردو اور پھر لکھوانا شروع کردیا ۔ بہر حال یہ ساری باتیں عرض کرنے کا مطلب یہ تھا کہ جب تک آپ ایمان بالغیب کے چشمے کے ساتھ اپنے آپ کو نہیں ملائیں گے ، آپ کو قرآن کے وہ معنی اور آثار نہیں ملیں گے جو اس کی خصوصی چیزیں ہیں ۔ ہاں ویسے کسبی علم آپ کو حاصل ہوجائے گا ۔ کسبی علم تو یہودیوں کو بھی حاصل ہوتا ہے ۔ یہودی باقاعدہ پی ایچ ڈی کراتے ہیں قرآن پر ، حدیث پر ۔ لیکن اگر ایمان نہیں تو پھر بات صرف وہاں تک ہے اس سے آگے نہیں ۔ قرا ن قرآن ہے اس کے جو معنی ہے وہ آپ کے ہر ہر شعبے کو touch کررہے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس میں ہر ہر علم موجود ہے ۔ ہر ہر علم کا بٹن موجود ہے ۔ وجہ کیا ہے ؟ وجہ یہ ہے کہ یہ آپ کو اللہ سے ملاتا ہے ۔ اور اللہ جل شانہ کے دو منبے چل رہے ہیں ، ایک منبہ ہدایت ہے جو قرآن ہے اور شریعت کے علوم ہیں ، اور ایک تکوینی نظام ہے ۔ تکوینی نظام بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے ۔ یہ تکوینی نظام اللہ سے متصادم نہیں ہے بلکہ اللہ ہی کی طرف سے ہے ۔ جو اللہ کا ہوجاتا ہے تکوینی نظام اس کا خادم ہوجاتا ہے ۔ ایک خاص مرتبے پر جب لوگ پہنچ جاتے ہیں تو وہ اس نظام کے متعلق اللہ تعالی کی منشاء کو سمجھ کر خاموش بیٹھ جاتے ہیں ، شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے یہی فرمایا ہے ۔ فرمایا ایک وقت آتا ہے کہ اللہ والوں کو ایسا مقام نصیب ہوجاتا ہے کہ ساری چیزیں اس کے سامنے دسترخوان بن جاتی ہیں، کسی چیز کو اٹھا کر دوسری جگہ رکھنا چاہے تو کرسکتا ہے لیکن اس وقت وہ ادب میں بھی باکمال ہوتے ہیں ، اللہ کی طرف دیکھتے ہیں کہ اللہ اس وقت کیا چاہتے ہیں ۔ وہی کرتے ہیں جو اللہ چاہتا ہے ، ذرا بھر اس سے آگے پیچھے نہیں کرتے ۔ آپ کہیں گے یہ آپ اپنی طرف سے باتیں کررہے ہیں ۔ بھئی یہ میں نہیں کہہ رہا ، یہ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ فرما رہے ہیں ۔ بہر حال اس کو سمجھانے کیلئے عرض کرتا ہوں ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ سب سے عام قرب جو ہے وہ فرائص کے ذریعے سے ہوتا ہے اس سے زیادہ قرب اور کوئی نہیں ہے ۔لیکن فرمایا کہ جو بندہ نوافل کے ذریعے ترقی کرتا رہتا ہے ،وہ ا ترقی کرتا جاتا ہے کرتا جاتا ہے پھر اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے ۔ میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے یہ دیکھتا ہے ۔ میں اس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے تو یہ وہ چیز ہے یا نہیں ہے ۔ یہ وہی چیز ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ شخص باادب ہوتا ہے یہ وہ نہیں کرتا جو اللہ تعالی کو پسند نہیں ہے ۔ احد کا واقعہ آپ لے سکتے ہیں ۔ مسلمان تھے ،نبی بھی درمیان میں موجود ہے ۔ لیکن اللہ پاک نے ایک سنت عادیہ سمجھانا تھا ، کہ جونبی کی بات میں ذرا بھر بھی عقل استعمال کرے ، ایمان بالغیب سے توڑ کر مشاہدے کی طرف آجائے تو اس کے ساتھ پھر کیا کیا جائے گا ۔ اس کو سمجھانے کیلئے پورے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا ۔ اب اللہ جل شانہ نے بدر میں فتح دینی تھی توپورے نظام کو اس کے مطابق بنا دیا ۔ جب یہاں پر سمجھانا تھا تو پورا نظام اس کے مطابق بنا دیا ۔ اب بھاگتے بھاگتے حضرت خالد بن ولید ؓجو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے کی نظر اس گھاٹی پر پڑی دیکھا وہ لوگ وہاں پر نہیں ہیں چلو اس موقع سے فائدہ اٹھا لو اور پورا چکر کاٹ کر واپس آکر حملہ کردیا ۔ ادھر سے دوسرے لوگوں کو اطلاع ہوئی انہوں نے آکر درمیان میں پھنسا دیا اور فتح بظاہر شکست میں تبدیل ہوگئی ۔ اللہ جل شانہ کو یہی مقصود تھا ۔ اب جب اللہ پاک کو یہ مقصودتھا تو اس صورت میں جو بھی اللہ والا ہوگا ، وہ تو وہی چاہے گا جو اللہ چاہے گا ۔ ورنہ اللہ پاک اپنی قدرتوں کو دکھا دیتا ہے ۔ آپ ﷺِ نے اپنے ہاتھ میں مٹی اٹھا کر کافروں کی طرف پھینک دی ،وہ مٹی کہاں پہنچ گئی ۔ سارے کافروں کی آنکھوں میں پہنچ گئی ۔ پھر اللہ پاک نے فرمایا و مَارَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اﷲَ رَمٰیٰ یعنی یہ اللہ پاک نے پھینکی ہے۔ جب اللہ پاک نے پھینکی ہے تو اس سے پھر کون بچ سکتا تھا ۔ احد میں بھی ایسا ہوسکتا تھا ۔ لیکن نہیں کرنا تھا ۔ آج کل ہمارے جو حالات ہیں کیا یہ تبدیل نہیں ہوسکتے ۔ تبدیل ہوسکتے ہیں لیکن کوئی تبدیل کرنے کی کوشش تو کرے ۔ کیونکہ اس کی تبدیلی کی کوشش کرنے کے دو طریقے ہیں ۔ ایک ہے ایمان بالغیب والا اور دوسرا مشاہدے والا ۔ مشاہدہ والا کام کرے گا لیکن ایمان باالغیب والے کے نیچے ہوکر ۔ اگر ایمان با الغیب والوں کے اوپر اوپر کام کریں گے تو سارے مشاہدے ختم ہوجائیں گے ۔ یہ معاملہ مسلمانوں کے ساتھ ہے ۔ کفار کے ساتھ نہیں ہے ۔ بہر حال سب مسئلے اب بھی حل ہوسکتے ہیں ۔ لیکن اللہ کی طرف ہم رجوع تو کریں۔ اللہ کی طرف رجوع کرو گے تو پورے نظام کو اللہ پاک تبدیل کردے گا ۔ میں آپ کو ایک واقعہ سنا تا ہوں ۔ یہ ملتان کا واقعہ ہے ۔ تاریخ کا واقعہ ہے ۔ تاتاری حملہ آور ہوئے تھے اور ہندوستان تک پہنچ گئے تھے خوارزم شاہ کے تعاقب میں ۔ ملتان کا محاصرہ کرلیا تھا ۔ ملتان میں اس وقت تین ولی اللہ موجود تھے ۔ ایک حضرت بہائو الدین ذکریا ملتانی ؒ ، ایک خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ اور ایک تیسرے تھے جس کا نام میں اس وقت میرے ذہن میں نہیں ہے ۔یہ تینوں ساری رات کھڑے ہوکر قرآن پاک کی تلاوت کرتے اور اللہ کے سامنے مناجات کرتے کہ وہ ہمارے حال پر رحم فرما دے اور مسلمان اس مصیبت سے بچ جائیں ۔ ناصر الدین قباچہ اس وقت ملتان کے حاکم تھے ۔ وہ ان تینوں کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ مسلمان بہت پریشان ہیں اور کسی وقت بھی شہر کی فصیل ٹوٹ سکتی ہے ۔ اور پھر جو تاتاریوں کا طریقہ ہوتا ہے وہ تو سب کو پتہ ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں ۔ تو آپ کچھ کریں۔ چونکہ ناصر الدین قباچہ کوئی اچھا آدمی نہیں تھا ۔ ظالم حکمران تھا ۔ تو حضرت خواجہ قطب الدین بخیار کاکی ؒ نے اس سے فرمایا کہ تم خود کیوں کچھ نہیں کرتے تم بھی کچھ کرو فقیروں کے پاس کیوں آئے ہو، ہم سے کیا لینے آئے ہو ۔ جب اس نے معافی وغیرہ مانگ لی اور توبہ کی ، اس کے بعد پھر حضرت خواجہ صاحب ؒ نے اس سے ایک تیر لے لیا ، اس پر اپنا ہاتھ پھیرا اور اس سے کہا کہ جائو یہ تیر لے جائو رات کے اندھیرے میں کسی نشانہ باز کو دے دو اور اس کو کہہ دو کہ جتنے زور سے پھینک سکتے ہو اتنی زور سے تاتاریوں کی طرف پھینک دو ۔ بس یہ کام تم کردو باقی کام اللہ کرے گا ۔ انہوں نے ویسے ہی کیا ۔ صبح دیکھا تو تاتاری محاصرہ ختم کرکے جا چکے تھے ۔ وجہ بھی معلوم نہیں ہوئی کہ کیوں چلے گئے ۔ ان پر کیا رعب پڑ گیا ، کیا بات ہوئی ، واللہ اعلم ۔ لیکن میدان خالی تھا ۔ تو میں عرض کررہا تھا کہ جب اللہ جل شانہ چاہتا ہے تو کسی کے ذریعے بھی کرواسکتا ہے ۔ یہ تو اللہ کرتا ہے ۔ انسان تو نہیں کرتا ۔ لیکن اللہ پاک کے اپنے قوانین ہیں ، جیسا کہ آپ کے فزکس اور کیمسٹری کے قوانین ہیں ، اسی طریقے سے اس لائن کے بھی کچھ قوانین ہیں ۔ جو ان قوانین کو جانتے ہیں اس کے مطابق وہ کام کرتے ہیں ۔ یہ قرآن ہمارے لئے ہدایت کی کتاب ہے ۔ اگر ہم اس کے حلال کو حلال سمجھیں اور اس کے حرام کو حرام سمجھیں ، اور اس پر بغیر کسی رکاوٹ کے عمل کرنا شروع کردیںتو یہی قرآن ہمیں دین و دنیا میں کامیاب کراسکتا ہے ۔ کیونکہ اللہ پاک نے اس کو ہدایت کا ذریعہ بنایا ہوا ہے ۔ یہ سراپا ہدایت ہی ہدایت ہے ۔ اس کی تلاوت بھی ہدایت ،اس کہ معنی بھی ہدایت ، اس پر عمل بھی ہدایت اس کا پھیلانا بھی ہدایت اس کی ساری چیزیں ہدایت ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہم اپنے دلوں کو بدل دیں ۔ دل کے بدلنے کے لئے محنت ہونی چاہیے ۔ ایک دفعہ دل بدل جائے تو قرآن کے اندر سب کچھ موجود ہے اللہ تعالی ہم سب کو قرآن پاک کی جملہ برکات نصیب فرمائے۔واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ۔