اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ۔اَلصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَم ُ عَلیٰ خَاتَمَ النَّبِیینِ۔اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ الم ذالک الکتاب لاریب فیہ ھدی اللمتقین ۔وعن ابی سعید قال قال رسول اللہﷺِ یقول الرب تبارک و تعالیٰ من شغلہ القرآن و ذکری عن مسئلتی اعطیتہ افضل ما اعطی السائلین و فضل کلام اللہ علی سآئرالکلام کفضل اللہ علیٰ خلقہ رواہ ترمذی ۔وعن عائشتہ قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، الماھر باالقرآن مع السفرۃ الکرام البررۃ و الذی یقرا القرآن ویتتعتع فیہ وھو علیہ شاق لہ اجران ۔رواہ مسلم
بزرگو اور دوستو !
ابتدائے قرآن کریم کی چند آیات مبارکہ میں نے تلاوت کی ہیں ، اس میں پہلی آیت بھی ہے ، پہلا حرف بھی ہے ۔ الم اس کے معنی سوائے اللہ او ر اللہ کے رسول کے کوئی بھی نہیں جانتا ۔ اس سے قرآن کی ابتداء کی گئی ہے ۔ ذالک الکتاب لاریب فیہ ، یہ وہ عظیم الشان کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں ،ھدی اللمتقین ، پرہیز گاروں کے لئے اس میں ہدایت ہے ۔ اور جو دو احادیث شریفہ میں نے تلاوت کی ہیں اس میں پہلی حدیث شریف میں حضرت ابو سعید ؓ سے حضور اکرم ﷺ کا ارشاد منقول ہے ۔ کہ حق سبحانہ تقدس کا یہ فرمان ہے کہ جس شخص کو قرآن شریف کی مشغولی کی وجہ سے ذکر کرنے اور دعائیں مانگنے کی فرصت نہیں ملتی ، اس کو سب دعائیں مانگنے والوں سے زیادہ عطا کرتا ہوں اور اللہ جل شانہ کے کلام کو سب کلاموں پر ایسے ہی فضیلت ہے جیسا کہ خود حق تعالیٰ شانہ کو تمام مخلوقات پر ہے ۔ اور دوسری حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے حضور اقدسﷺِ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے ۔ کہ قرآن کا ماہر ان ملائکہ کے ساتھ ہے جو میر منشی ہیں اور نیکو کار ہیں اور جو شخص قرآن مجید کو اٹکتا ہوا پڑھتا ہے اور اس میں دقت اٹھاتا ہے ، اس کو دہرا اجر ملتا ہے ۔
نسبت بڑی چیز ہے
ہم جیسے کمزور لوگوں کی زبان اللہ جل شانہ کی کتاب کے بارے میں کچھ عرض کرنے سے قاصر ہے ۔جیسے کسی چیز کے ساتھ کسی چیز کو نسبت ہوتی ہے تو اس نسبت کی قدر اس چیز کے مطابق ہوتی ہے جس کے ساتھ اس کو نسبت ہوتی ہے ۔ مسجد کی اینٹ مسجد کی اینٹ ہے اور ٹائلٹ کی اینٹ ٹائلٹ کی اینٹ ہے ۔ اس طرح ہر معزز چیز کے ساتھ نسبت رکھنے والی چیز بھی معزز ہوجاتی ہے ۔ خانہ کعبہ کے غلاف کا ایک ٹکڑا اگر کسی کو مل جائے تو وہ اپنی قسمت پر ناز کرتا ہے ۔ اور آپﷺِ کی قبر مبارک کے قریب جو گرد ہے وہ اگر کسی کو مل جائے تو اس سعادت پر فخر کرے گا ، کیونکہ یہ ساری نسبت کی بات ہے ۔ یہاں پر اللہ کا کلام ہے ۔ہم لوگ اللہ پاک کو نہیں دیکھ سکتے ۔ ہماری آنکھیں اس بات سے قاصر ہیں کہ وہ اللہ پاک کو دیکھ سکے، لیکن اللہ جل شانہ نے ہماری تسکین کیلئے کچھ چیزیں ہمارے درمیان اتاری ہیں جس سے ہم اپنے دل کو تسکین دے سکتے ہیں ، اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کا جو اظہار ہمیں کرنا چاہیے اس کے ذریعے ہم کرسکتے ہیں ۔ ان چیزوں کو کہتے ہیں شعائر اللہ ۔ یعنی اللہ کی نشانیاں ۔ شعائر اللہ کی جو تعظیم ہے اس کے بارے میں قرآن حکیم ہی میں موجود ہے ۔
ومن یعظم شعائر اﷲ فانھا من تقوی القلوب ،
جو شعائر اللہ کی تعظیم کرتا ہے وہ ان کے دلوں کی تقویٰ کی وجہ سے ہے ۔ قرآن بھی شعائر اللہ میں ہے ۔ خانہ کعبہ بھی شعائراللہ میں سے ہے ۔
شعائر اﷲ کی تعظیم سے اﷲ کا تعلق حاصل ہوتا ہے
نماز بھی شعائر اللہ میں سے ہے ۔ تو خانہ کعبہ کو دیکھ کر ہم یوں سمجھ سکتے ہیں کہ جیسے تشبیہ دیگئی ہے کہ خانہ کعبہ کا طواف ایسا ہے جیسے کوئی اپنے محبوب کے گرد چکر لگاتا ہے ۔ آپ حضرات نے دیکھا ہوگا کہ ہر چیز کے لئے یہ اصول ہے کہ اس کے دائیں طرف سے چلنا ہے ، خانہ کعبہ کے لئے یہ اصول نہیں ہے ، وہاں بائیں طرف سے چلنا ہے ، کیوں ؟ کیونکہ دل بائیں طرف ہے۔ تو آپ کے ہر چکر میں آپ کا دل خانہ کعبہ کی طرف ہونا چاہیے، تاکہ خانہ کعبہ کے جو انوارات ہیں وہ مسلسل آپ کے دل پر آتے رہیں ۔ اگر یہی چکر آپ دائیں طرف لگاتے تو آپ کا دل اس طرف نہ ہوتا ۔ ظاہر ہے یہ محبت کی باتیں ہیں اور جواہل محبت ہیں وہی اس کو جانتے ہیں ۔ لیکن اتنی بات تو ہے کہ اگر کوئی اللہ پاک سے محبت کرنا چاہے تواس کے مجازی تسکین کیلئے اللہ جل شانہ نے یہ نشانیاں اتاری ہیں ۔ کہتے ہیں کہ جو حجر اسود کو چومتا ہے تو ایسا ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کو بوسہ دے رہا ہے ۔ جو ملتزم شریف کے ساتھ اپنا سینہ لگاتا ہے تو ایسا ہے جیسے اللہ جل شانہ کے ساتھ گلے مل رہا ہے ۔ اگرچہ اللہ پاک تشبیہ سے پاک ہے ایسا ہوتا نہیں ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا یہ صرف جذبات کی تسکین کے لئے ہے ۔آپﷺِ کبھی کبھی مکہ مکرمہ سے زم زم کا پانی منگواتے تھے ۔ اب ظاہر ہے یہ محبت کی بات ہے ورنہ پانی تو پانی ہے ۔ توشعائر اللہ اس کی تعظیم اور اس کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کے اظہار کیلئے ہوتی ہے ۔ قرآن بھی اللہ کا کلام ہے ۔ یہ ہمارے درمیان موجود ہے ۔ الحمد اللہ ہم اس دور میں ہیں جس میں یہ کلام اللہ موجود ہے ۔ ورنہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس کلام پاک کو اٹھا دیا جائے گا ۔ خانہ کعبہ کو بھی اٹھا دیا جائے گا ۔ اور صلحاء کو بھی اٹھا دیا جائے گا ۔ پھراس وقت فتنہ ہی فتنہ ہوگا ، کفر ہی کفر ہوگا ، خرابی ہی خرابی ہوگی، پھر اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ کیا ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی حفاظت میں رکھے ۔
کلام اﷲ کی تلاوت سے دل نہیں اکتاتا
تو اللہ جل شانہ کا کلام ہمارے درمیان موجود ہے ۔ اگر آپ کسی کتاب کو پڑھ لیں تو اسے دوسری دفعہ پڑھنے میں اتنی خوشی آپ کو نہیں ملے گی ۔ دوسری دفعہ پڑھیں گے تو پھر تیسری دفعہ اس خوشی میں کمی آئے گی ۔ چوتھی دفعہ پڑھنے سے اور کمی آئے گی ۔ حتیٰ کہ نو دس دفعہ پڑھ کر آپ بالکل اکتا جائیں گے اورپڑھ نہیں سکیں گے ۔ لیکن اللہ کا کلام چونکہ اللہ کیلئے ہے ۔ تو کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس کے معنی بھی نہیں جانتے لیکن اس کو پڑھتے جاتے ہیں ، اور ایسے خوش نصیب بھی ہیں جو ر وزانہ ایک قرآن پاک پڑھتے ہیں ۔ بعض حفاظ قرآن کو اللہ پاک نے یہ سعادت نصیب کی ہوتی ہے کہ وہ روزانہ ایک قرآن مجید ختم کرتے ہیں ۔ ہمارے ایک نابینا استاد تھے ۔ وہ بچوں کو قرآن پاک پڑھاتے تھے ، یاد کرواتے تھے ۔ اسکے باوجود روزانہ ایک قرآن مجید ختم کرتے تھے ۔ یہ محبت کی بات ہے ۔ ہمارے چچا ایک صاحب کے ساتھ ملازمت کرتے تھے ۔ بتاتے ہیں کہ وہ حافظ قرآن تھے ۔ جیسے ہی وہ کار میں بیٹھ جاتے تھے بس اس کی تلاوت شروع ہوجاتی تھی ۔ جتنا کار میں چلنا ہوتا تھا آخر وقت تک وہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے رہتے تھے ۔ کبھی بارہ پارے ہوجاتے کبھی تیرہ پارے کبھی چودہ ، جتنا سفر ہوتا اتنی قرآن پاک کی تلاوت ہوتی ۔ یہاں قریب ہی سیکٹر I-9/4 اسلام آباد میں ایک صاحب تھے ابھی فوت ہوچکے ہیں، مولانا عبداللہ کاکا خیل صاحب ؒ ۔اسلامی یونیورسٹی میں پروفیسر تھے ، ان کا قرآن پاک سے ایسا تعلق تھا کہ ابھی آپ کے ساتھ بات کررہے ہیں اور آپ کسی کام سے تھوڑی دیر کے لئے ان سے جدا ہوگئے ، باہر چلے گئے تو ان کی قرآن پاک کی تلاوت شروع ہوجاتی ۔ جب آپ آگئے تو تلاوت بند ہوگئی ۔ پھر آپ چلے گئے تو تلاوت شروع ۔ اس طرح گاڑی ڈرائیو کررہے ہیں تو قرآن پاک کی تلاوت ، حتیٰ کے ان کے گھروالے بتاتے ہیں کہ بعض دفعہ نیند کی حالت میں دو دو اور تین تین رکوع اس طریقے سے تلاوت کرتے تھے کہ دوسرے لوگ بھی سنتے تھے ۔ کتنی محبت تھی ان کو قرآن پاک کے ساتھ ۔ یہ قرآن پاک سے تعلق کی بات ہے ۔ اس کو لوگ عقل سے نہیں سمجھ سکتے ۔ یہ عقل کی بات نہیں ہے ۔ بلکہ میں عرض کروں تو یہ صحیح عقل کی بات ہے ۔ کیونکہ اصل عقل وہی ہے جس سے انسان اللہ پاک کو پہچان سکے ۔ ہماری سرسری عقل ان چیزوں کو نہیں جانتی ، اس لئے محروم رہ جاتی ہے ۔ علامہ اقبال مرحوم کے بارے میں شنید ہے کہ جب وہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے تو زارو قطار رویا کرتے ۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ آ پ کو یہ چیز کیسے ملی ؟ جب آپ قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں تو مسلسل روتے ہیں ۔ فرمایا مجھے اپنے والد صاحب نے نصیحت کی تھی کہ جب آپ قرآن پڑھیں تو ایسا محسوس کریں جیسے قرآن میرے دل پر اتر رہا ہے ۔ تو میں قرآن پڑھتے ہوئے ایسے محسوس کرتا ہوں ۔ قرآن ایسا عجیب کلام ہے کہ صحیح معنوں میں انسان نہ تو اس کا حق ادا کرسکتا ہے نہ ہی اس کی سعادتیں ہماری سمجھ میں آسکتی ہیں ۔
تلاوت کا اجر معنی جانے بغیر بھی ملتا ہے
الم سے اس کی ابتداء ہورہی ہے ۔ الم کے معنی جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا تھا سوائے اللہ کے اور اللہ کے رسول کے کسی کو معلوم نہیں ۔ لیکن اس کی مثال دے کر آپ ﷺِ فرماتے ہیں کہ جو قرآن پاک کا ایک حرف پڑھتا ہے ، اس کو دس نیکیاں ملتی ہیں اور میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ ا الگ حرف ہے ل الگ حرف ہے اور میم الگ حرف ہے ۔ لہذا الم پڑھتے ہوئے تین حروف زبان سے ادا ہوگئے لہذا تیس نیکیاں مل گئیں ۔ اس بات سے آپ اندازہ کرلیں کہ الم کے معنی کوئی نہیں جانتا لیکن اس پر تیس نیکیاں مل رہی ہیں ۔ توکیا اس سے یہ بات معلوم نہیں ہورہی کہ قرآن کی تلاوت کا اجر اس بات پر موقوف نہیں ہے ۔ کہ کوئی اس کوترجمہ جانتا ہے یا نہیں جانتا ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کسی کے لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ قرآن پاک کا ترجمہ جانتا ہو تو وہ تلاوت کرے ۔ ہاں قرآن پاک کا ترجمہ اور مفہوم اگر کوئی جانتا ہے تو بہت بڑی سعادت ہے ۔ لیکن یہ ایک علیحدہ چیز ہے ۔ اجر صرف اس پر موقوف نہیں کہ کوئی اس کے معنی جانتا ہو ۔ اگر کوئی نہیں جانتا اور قرآن پاک کی تلاوت کررہا ہے تو اس کو ہر حرف پر دس نیکیاں مل رہی ہیں ۔ جو حدیث شریف شروع میں پڑھی گئی اس میں فرمایا گیا ہے کہ جو قرآن کا ماہر ہے وہ ان ملائکہ کے ساتھ ہے جو میر منشی ہیں اور نیکو کار ہیں اور جو شخص قرآن شریف کو اٹکتا ہوا پڑھتا ہے اس میں دقت اٹھاتا ہے اس کو دو اجر ملتے ہیں ، ایک اجر قرآن پاک کی تلاوت کا اور ایک اجر اس میں تکلیف اٹھانے کا ۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی بھی محروم نہیں ہے ۔ قرآن پاک کے بارے میں عجیب عجیب واقعات ہیں ، لیکن قرآن پاک کے بارے میں احادیث شریفہ میں جو فضیلتیں ہیں ، اگرصرف ان کو بھی دیکھ لیا جائے تو بہت بڑی بات ہے ۔
امت کاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق
آپ ﷺِ کے ساتھ تین قسموں کا تعلق تسلسل کے ساتھ اس امت میں موجود ہے ۔ ایک ہے قرآن پاک کا حفظ ۔ جو حافظ ہے اس کا تعلق آپ ﷺِ کے سینہ مبارک کے ساتھ قائم ہے ۔ جو حافظ قرآن ہے ظاہر ہے اس نے کسی سے قرآن سنا ہے ، سیکھا ہے پھر اس کے استاد نے کسی سے قرآن سیکھا ہے پھر اس کے استاد نے اس طرح یہ سلسلہ آپ ﷺِ تک پہنچتا ہے ۔ تو جو حفاظ قرآن ہیں وہ صاحب سلسلہ ہیں ۔ ان کا سلسلہ قرآن ہے ۔ اور یہ ماشاء اللہ بہت بڑی نعمت ہے ۔دوسرا سلسلہ حدیث شریف کا ہے ۔ جو محدیثین کرام ہیں ، انہوں نے اپنے استاد سے سنا، ان کے استاد نے فلاں سے سنا پھر فلاں نے فلاں سے سنا ، ہوتے ہوتے یہ سلسلہ آپﷺِ تک پہنچ جاتا ہے ۔ یہ حدیث شریف کا سلسلہ ہے ۔ اور علماء کرام اس کی بڑی حفاظت کرتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بھی بہت بڑی سعادت کی بات ہے ۔ آپ ﷺِ کے ساتھ ایک لڑی میں پرویا جانا معمولی بات نہیں ہے ۔ جیسے بچوں کو set theory بتاتے ہیں ، ابتداء میں ان کو پڑھاتے ہیں کہ ان چیزوں کا set ، پھر ان چیزوں کا set ، اب مجھے بتائیں کہ جسset کے اندر آپ ﷺ موجود ہونگے اس set کا کیا کہنا ، اس کا مقام کیا ہوگا؟ ۔تو جو حفاظ کرام ہیں وہ اس set میں شامل ہیں جس میں آپﷺِ موجود ہیں ۔ یداﷲعلی الجماعۃ ، فرماتے ہیں اللہ پاک کا ہاتھ ہوتا ہے جماعت پر ۔ تو جس جماعت میں آپﷺِ موجود ہوں وہ کیسی جماعت ہوگی ۔ حفاظ کرام کی جو جماعت ہے اس میں آپ ﷺِ موجود ہیں ۔ اس طرح دوسرا سلسلہ احادیث شریفہ کا ہے ۔ جو محدیثین کرام ہیں ان کے set میں بھی آپ ﷺِ موجود ہیں ایک بہت بڑے محدث فوت ہورہے تھے تو طریقہ یہ ہے کہ مرتے ہوئے کو تلقین کرتے ہیں ، اس کے قریب بیٹھ کر لا الہ الا للہ پڑھنا شروع کرنا چاہیے تاکہ اس کا بھی اس طرف خیال آئے کہ مجھے کلمہ پڑھنا چاہیے ۔حدیث شریف میں آتا ہے جس کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہو ا، وہ جنت میں داخل ہوجائے گا ۔ اب چونکہ یہ محدث تھے اور اردگرد اس کے شاگرد بیٹھے ہوئے تھے ۔ اب یہ شاگرد ادب کی وجہ سے کچھ نہیں کہہ رہے ، ادب بھی بہت بڑی چیز ہے ، جن کو اساتذہ کا ادب نصیب ہوتا ہے اللہ پاک ان کے فیض کو عام کردیتا ہے ۔ اور جن شاگردوں میں اپنے اساتذہ کا ادب نہیں ہوتا ، ان کا علم ضائع ہوجاتا ہے ۔ ان سے لوگوں کو فائدہ نہیں ہوتا ۔ بہر حال ادب کی وجہ سے ان کے شاگرد خاموش تھے تلقین نہیں کررہے تھے ۔ سوچ رہے تھے یہ تلقین کرنا کہیں بے ادبی کے زمرے میں نہ آجائے ۔ لیکن ساتھ ہی یہ تشویش بھی تھی خدا نخواستہ استاد صاحب بغیر کلمہ پڑھے دنیا سے تشریف نہ لے جائیں ۔ ان کے ایک شاگرد بہت ہوشیار تھے ۔ اس نے اسی حدیث شریف کو جس میں مردوں کو لاالہ الا اﷲ کی تلقین کرنے کا فرمایا گیا ہے کہ جس کا موت کے وقت آخری کلمہ لا الہ الا اﷲ ہو وہ جنت میں داخل ہوگا اس کو پڑھنا شروع کردیا ۔ فلاں نے فلاں سے سنا ، فلاں نے فلاں سے سنا ، فلاں نے فلاں سے سنا ، مسلسل یہ پڑھ رہے ہیں اور محدثین کے نام لے رہے ہیں ، اب جب آخری راوی تک پہنچے تو استاد صاحب کو پتہ چل گیا کہ فلاں حدیث کے بارے میں بات ہورہی ہے﴿یہ حدیث شریف صحیح ابن حبان میں ہے﴾ ۔ تو اس نے فورا اس حدیث شریف کے الفاظ پڑھ لیے کہ جس کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہو ،و ہ جنت میں داخل ہوجائے گا ۔ اور لا الہ الا اللہ پڑھ کر فوت ہوگئے ۔ ان کے شاگرد بڑے خوش ہوئے کہ الحمد اللہ ، ہمارے استاد کو آخری کلام لا الہ الا اللہ نصیب ہوگیا ۔ کچھ عرصہ بھی اس محدث صاحب کو کسی نے خواب میں دیکھا اور اس سے پوچھا کہ حضرت آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ؟ فرمایا مجھے اللہ پاک نے اپنے سامنے بٹھا دیا اور فرمایا وہ حدیث شریف پڑھو جو تو نے آخری وقت میں پڑھا تھا ۔ کہتے ہیں کہ میں نے اسی ترتیب سے پڑھنا شروع کردیا کہ فلاں نے فلاں سے سنا ، فلاں نے فلاں سے سنا ، کہتے ہیں کہ جیسے ہی میں اس کے آخر میں پہنچا ۔ اللہ پاک نے فرمایا ، ہاں فلاں نے سچ کہا ، فلاں نے سچ کہا ، فلاں نے سچ کہا میرے نبی پاک ﷺِ نے سچ کہا اور میں نے سچ کہا ،تو نے لا الہ الا اللہ پڑھ لیا جاو جنت میں داخل ہوجاو یہ کتنی بڑی سعادت ہے ۔ اس لڑی میں پرویا جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ لوگ ایسے بزرگوں کے پاس جاتے ہیں جن کی سند حدیث عالی ہو ، ان کی خدمت میں بیٹھ جاتے ہیں اور ان کو حدیث شریف سنا لیتے ہیں اور حدیث شریف کی سند لے لیتے ہیں ۔ ہمارے مولانا یوسف بنوری ؒ ایک دفعہ طواف کررہے تھے ۔ ایک صاحب طواف کے دوران ان کے ساتھ تھے ، جب طواف ختم ہوا اس صاحب نے کہا حضرت میں آپ کو حدیث شریف سناتا ہوں آپ مجھے حدیث شریف کی سند دے دیں ۔ فرمایا یہ کوئی جگہ ہے سند لینے کی ۔ڈیرے پر آجاو ۔ فرمایا مجھے آپ ﷺِ نے حکم دیا ہے کہ ان سے لے لو ۔ فرمایا اچھا ۔ اسی جگہ پر بیٹھ کر سناو ۔ اس صاحب نے اسی جگہ پر بیٹھ کر حدیث سنا دی اور مولانا یوسف بنوری ؒ نے ان کو اجازت دے دی ۔ اب دیکھ لیں یہ شخص کتنا مبارک ہے جس سے آپ ﷺِ نے یہ فرمایا ۔ پھر مولانا یوسف بنوری ؒ کا کتنا اکرام ہوا اس مسئلے میں ، باقاعدہ اس شخص کو بھیجا گیا کہ ان سے سند لے لو۔ تو حدیث شریف کی سند بہت اونچی سند ہے
سلسلے کا اثر محسوس ہوتا ہے
تیسری چیز جو آپ ﷺِ کے ساتھ لڑی میں پرونے والی ہے وہ تصوف کا سلسلہ ہے ۔ یہ قلبی سلسلہ ہے ۔ حدیث شریف کا سلسلہ الفاظ کا سلسلہ ہے ۔ تصوف کا سلسلہ آپ ﷺِ کے قلب کے نور کا سلسلہ ہے اور اسی طریقے سے چلا آرہا ہے ۔ تو اس سلسلے میں بھی جو پرویا گیا وہ خوش قسمت ہے ۔ کسی نے کسی سلسلے کے ساتھ جو جڑا ہوتا ہے وہ خوش نصیب ہوتا ہے ۔ تربیت فرض عین ہے ، وہ تو انسان کو کروانا ہے ، لیکن اس کے لئے بیعت وغیرہ ضروری نہیں ہے ۔ لیکن یہ سلسلہ والی نسبت بیعت ہی سے ملتی ہے ۔ جو جس سلسلے میں بیعت ہے اس کو اس سلسلے کا نور حاصل ہے ۔ اہل کشف حضرات آدمی کو باقاعدہ پہچانتے ہیں ۔ جو قادری سلسلے کے ہوتے ہیں ان کوپہچان لیتے ہیں کہ یہ قادری ہیں ،جو نقشبندی سلسلے کے ہوتے ہیں ان کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ نقشبندی سلسلے سے تعلق رکھتا ہے ۔ عرشی مسجد راولپنڈی میں ایک دفعہ ہمارے ذکر کی مجلس تھی۔ ذکر ہم نے کیا چشتی سلسلے کا ، ظاہر ہے چشتی سلسلے کا عام ذکر ہے جیسے ابھی ہوگا ۔ تو اس طرح ہم نے چشتی سلسلے کا ذکر کیا ۔ ان میں کوئی اہل کشف صاحب بیٹھے ہوئے تھے ۔ مجھے پتہ نہیں تھا ۔ ذکر کے بعد سب مجھ سے گلے مل رہے تھے تو وہ بھی گلے ملے ، ساتھ ہی چپکے سے مجھے کہا کہ چاروں سلسلے موجود ہیں ماشاء اللہ نقشبندی غالب ہے ۔ اب اس نے مجھے پہلے کبھی نہیں دیکھا ۔ لیکن دیکھیں اس نے کتنا صحیح اندازہ لگایا ۔ یہی بات مجھے اپنے شیخ نے بھی بتائی تھی کہ آپ کی نسبت نقشبندی ہے ۔ لیکن اس صاحب کو کیسے پتہ چلا ؟ کہا ماشاء اللہ چاروں سلسلے موجود ہیں لیکن نقشبندی غالب ہے ۔ بہر حال یہ چیز نظر آتی ہے ۔ ہم جب مدینہ منورہ میں صوفی اقبال صاحب ؒ سے ملے تو حضرت نے مجھ سے پوچھا ، آپ پروفیسر اشرف صاحب کے مرید ہیں ؟ میں نے سنا شایدپروفیسر ارشد صاحب کہہ رہے ہیں ، میں نے جواب دیا نہیں ۔ تھوڑی دیرکے بعد پھرپوچھا آپ پروفیسر اشرف صاحب کے مرید ہیں ؟ ۔ اس وقت میں نے صحیح سنا ، میں نے کہا جی ہاں ہوں ۔ فرمایا میں نے پہلے بھی تو پوچھا تھا ۔ میں نے کہا حضرت میں نے صحیح نہیں سنا تھا ۔ فرمایا یہ کشف نہیں ہے ، اصل میں جیسے پیشے کا انسان پر اثر ہوتا ہے ۔ اس طرح شیخ کا بھی انسان پر اثر ہوتا ہے ۔ ماشاء اللہ آپ پر اپنے شیخ کا اثر ہے ، اس کو اور بڑھائیے ۔ تو جوجاننے والے ہوتے ہیں وہ جان لیتے ہیں ، تو میں عرض کررہا تھا کہ یہ تیسرا سلسلہ ہے جس کے ذریعے آپﷺِ کے ساتھ اپنے آپ کو لڑی میں پرویا جاسکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے تاکہ اس تعلق کو ہم موت تک لے جائیں ، یہ معمولی چیز نہیں ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہم کیا جانیں
تو بات شروع ہوئی تھی کلام اللہ سے ۔ یہ بہت بڑی نسبت ہے ۔ اللہ پاک خود فرماتے ہیں ،
لو انزلناھٰذا القرآن علی جبل لرایتہ، خاشعاً متصدعاً من خشیتہ اﷲ
اگر یہ قرآن ہم نازل کرتے کسی پہاڑ پر تو اللہ تعالیٰ کے خوف سے وہ ریزہ ریزہ ہوجاتا ۔ یہ تو آپ ﷺِکا قلب اطہر ہے جس نے اس کے بوجھ کو اٹھا لیا ، وحی کی صورت میں ۔ دیکھیں اللہ کا کلام ایک انسان کی طرف کیسے آئے ۔اس کیلئے اللہ تعالیٰ نے ذریعہ بنادیا انتہائی نورانی مخلوق کو ، اور ان میں جو سب سے زیادہ معظم فرشتہ ہے حضرت جبرائیل علیہ السلام اس کو چن لیا ۔ وہ اس کلام کو لانے والے ہیں ۔ پہلے زمانے میں جب بادشاہت ہوتی تھی تو بادشاہ کا خط اگرکسی کے پاس جاتا تھا تو اس کے ساتھ اور بہت سارے لوازمات ہوتے تھے ۔ توجیسے جنات نے اندازہ لگایا کہ کوئی بات ایسی ہوئی ہے ۔ کوئی انقلاب آیا ہے جس کی وجہ سے آسمانوں میں ہمارے لئے دروازے بند کردیے گئے ہیں ۔ ہم اوپر نہیں جاسکتے ۔پتہ نہیں کیا واقعہ ہوچکا ہے ۔ کہتے ہیں کہ اس تحقیق میں جنات کی ٹولی آئی تھی اور نصیبن کے مقام پر انہوں نے آپ ﷺِ کو دیکھا کہ نماز پڑھا رہے ہیں اور قرآن کی تلاوت فرما رہے ہیں ۔ انہوں نے جب یہ سنا تو کہا ہاں یہ وہی کلام ہے جس کی وجہ سے یہ بات ہوئی ہے ۔ تو وہ ایمان لائے اور پھر اپنی قوم کی طرف چلے گئے اور دوسروں کو دعوت دینے لگے ۔ تو جب اس وحی کو اتارنا تھا تو سب سے پہلے جنات کو روک دیا گیا اوپر جانے سے ۔ تاکہ ان کو تصرف کرنے کا کوئی موقع نہ ملے ۔ پھرو حی کے ساتھ اور فرشتے بھی آرہے ہیں ۔ اور جبرائیل علیہ السلام بذات خود بہت اونچے فرشتے ہیں وہ بھی آرہے ہیں اور آپ ﷺِ کے قلب اطہر کے اوپر یہ کلام نازل ہورہا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ جس وقت آپ ﷺِ پر وحی نازل ہوتی تھی تو آپ ﷺِکے ماتھے پر پسینہ آجاتا تھا ۔ سخت سردی میں بھی آپ ﷺِکے ماتھے پر پسینہ آجاتا تھا ۔ اونٹنی پر بیٹھے ہوئے ایک دفعہ وحی آگئی تو اونٹنی بیٹھ گئی ۔ایک دفعہ ایک صحابی کی ران پر آپ ﷺِ کا سر مبارک تھا اس وقت وحی آگئی تو ان صحابی کا بیان ہے کہ اسوقت مجھے یہ خوف ہوا کہ بس میری ران ٹوٹنے والی ہے ۔ اس حد تک آپ ﷺِ کی وجود مبارک بھاری ہوجاتا تھا ۔ تو آپ ﷺِ کے قلب اطہر پر یہ کلام اتارا جارہا تھا ۔ اب چونکہ بہت اونچا کلام تھا تو اس کے لئے خصوصی انتظامات کیے گئے ۔ آپ ﷺِ اس کو ساتھ ساتھ پڑھتے تھے تاکہ مجھے بھول نہ جائے ۔ اللہ پاک کی طرف سے آیا کہ نہیں تو بس اس کو سنتا جا ۔ اس کے یاد کروانے والے ہم ہیں ۔ اور ایسے ہی ہوا ۔ جبرائیل علیہ السلام ہر سال تشریف لاتے تھے ، جتنا قرآن نازل ہوا ہوتا تھا اس کا ایک دور کرتے آپ ﷺِ کے ساتھ ۔ یہ جو لوگ قرآن پاک کا دور کرتے ہیں اس کو چھوٹی چیز نہیں سمجھنا چاہیے ۔ حافظ قرآن اسی طرح دور کرتے ہیں ۔ ایک حافظ آگے اور دوسرے پیچھے ہوتے ہیں اور سنتے ہیں ۔ نفلوں میں اور تراویح میں جو سنتے ہیں اس کو چھوٹی چیز نہ سمجھیں ۔ یہ آپ ﷺِکی سنت ہے ۔ اور بہت اونچی سنت ہے ۔ تو یہ دور ایک دفعہ ہوا کرتا تھا ۔ جب آپ ﷺِکی زندگی کا آخری سال تھا تو اس میں دو دفعہ دور فرمایا ۔ اس سے اندازہ بھی ہوا کہ کوئی غیر معمولی بات ہونے والی ہے ۔ تو اس کی حفاظت کیلئے بہت زبردست انتظامات کیے گئے ۔
قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا معجزہ ہے
ساتھ ساتھ آپ دیکھیں یہ کلام خود ایک معجزہ ہے ۔ اگر کوئی آپ سے نبی کریم ﷺِ کا کوئی معجزہ پوچھے جو ابھی بھی موجود ہو تو آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ قرآن مجید ہے ۔قرآن مجید بذات خود ایک معجزہ ہے ، کیونکہ اس جیسا کلام کوئی بنا نہیں سکتا ۔ ابھی کوئی بنا کر دکھائے ۔ آپ اندازہ کریں سوچیں تو صحیح ، یہ قرآن اترا ہے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں ۔ شان نزول کے مطابق کوئی آیت کہاں اتری کوئی کہاں اتری ۔ ایک جگہ پر سب کچھ نہیں اترا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ساری کا ساری تورات ایک وقت میں دی گئی۔ انجیل حضرت عیسیٰ کو ایک وقت میں دی گئی ، زبور کو ایک وقت میں دے دیا گیا ، قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے مختلف اوقات میں مختلف جگہوں پر اترا ہے ۔ اس شان نزول کا فائدہ یہ ہوا کہ ہمیں پتہ چل گیا کہ اس قرآن کی تشریح کیا ہوسکتی ہے ۔ فلاں موقع پر اگر اترا ہے تو اس کا اس سے context یہ ہے ۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے ۔ تواس سے اللہ پاک نے قرآن فہمی کا دروازہ کھول دیا ۔ شان نزول سے اس کی تخصیص ہوجاتی ہے کہ آخر وہ کونسی چیز ہے جس کے لئے قرآن پاک کی اس آیت کو اتارا گیا ہے ۔ دوسری طرف قرآن اس ترتیب سے پڑھا نہیں جارہا جس ترتیب سے اترا ہے ۔سب سے پہلے قرآن پاک کی آیت اتری ہے وہ ہے اقراء باسم ربک الذی خلق ۔ یہ آخری پارے میں ہے ۔ اور سب سے آخری آیت جو اتری ہے وہ الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دیناً۔ یہ قرآن پاک کے چھٹے پارے میں ہے ۔ آپ اندازہ کرلیں اترنے کی ترتیب مختلف ہے پڑھنے کی ترتیب سے ۔ لیکن جب آپ تلاوت کرتے ہیں تو کیاآپ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ مختلف ٹکڑوں کو ملایا گیا ہے؟ کبھی اس کی روانی میں ، اس کے مفہوم میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ مختلف ٹکڑوں کو ملایا گیا ہے ۔ نہیں ۔ آپﷺِصحابہ کرام کو بتا دیتے تھے ۔ کاتب وحی جو ہوتے تھے ان کو بتا دیتے تھے کہ یہ فلاں کے ساتھ لکھ لو ۔ اس طریقے سے وہ لکھوایا جاتا تھا ۔ آپ غور فرمائیں سورۃ توبہ سے پہلے بسم اللہ نہیں ہے ۔ باقی تمام سورتوں سے پہلے بسم اللہ ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺِ وفات پا گئے ، لیکن کسی صحابی کو نہیں بتایا کہ کونسی جگہ پر یہ کس کے ساتھ لکھنی ہے لہذا اس کی ترتیب معلوم نہیں ہوئی تو اس کے بارے میں شک ہوگیا کہ یہ سورۃ انفال کے ساتھ ہے یا علیحدہ صورت ہے ۔ اس مسئلے میں فرق پڑ گیا تو پھر صحابہ کرام نے کہا کہ اس کو علیحدہ لکھ لو لیکن اس کو بسم اللہ شریف کے ساتھ علیحدہ نہ کرو، تاکہ اگر رواں پڑھا جائے تو بھی ٹھیک ہے ایک سورت کی طرح ہوجائے گا اور اگر آپ نے ویسے ہی لکھنا ہے تو پھر علیحدہ بھی نظر آجائے گا ۔ اس لئے اگر آپ قرآن کی تلاوت سورۃ توبہ سے شروع کریں گے تو پھر بسم اللہ پڑھیں گے کیونکہ یہ تو قرآن شروع کرنے کیلئے ہوگی ۔ لیکن اگر آپ نے رواں پڑھنا ہے تو سورۃ انفال کے بعد بسم اللہ نہیں پڑھیں گے اور سورۃ توبہ شروع کردیں گے ۔ آپ اندازہ کرلیں کہ اس کے لئے باقاعدہ کمپیوٹر کے ذریعے حساب لگایا گیا ۔ کہ جتنی دفعہ بسم اللہ ہے ، بسم اللہ کے حروف 19 ہیں ۔ اور جتنی سورتیں ہیں وہ سب 19 پر تقسیم ہوتی ہیں ۔ اس کی آیات پر غور کریں ۔ ایک ہزار آیتیں آخرت کے بارے میں ، ایک ہزار آیتیں دنیا کے بارے میں ، یعنی ایسے لگتاہے جیسے باقاعدہ کیٹلاگنگ کی گئی ہو کہ یہ اتنی یہ اتنی اور یہ اتنی ۔ اب دیکھیں اتنے مختلف طریقے سے اترا ہوا قرآن ، اس میں یہ چیزیں ایک ترتیب سے کیسے آسکتی ہیں ۔ ہر چیز باقاعدہ ایک آرڈر میں ہے ۔ اگر یہ بسم اللہ اس میں لکھا جاتا تو وہ آرڈر ٹوٹ جاتا ۔ وہاں نہیں لکھا ۔ تو یہ الہامی کتاب ہے ۔ اس کے بارے میں اگر کوئی یہ کہے کہ یہ کسی انسان کی کتاب ہے تو یہ سب سے بڑا جھوٹ ہوگا ۔ اس کے ابتداء میں فرمایا گیا الم تو اس کے معنی ہی کسی کو معلوم نہیں ۔ ذالک الکتاب لاریب فیہ ۔ یہ عظیم الشان کتاب ہے ۔ ذالک کا لفظ جب یہ کیلئے آجائے تو یہ تو قریب کی چیز ہے اور ذالک تو دور کے لئے استعمال ہوتا ہے تو یہ جب استعمال ہوا تو جیسے ہم shall کو will کی جگہ اور will کو shall کی جگہ پر استعمال کرتے ہیں تو جملے میں شدت آجاتی ہے ۔
قرآن مؤثر ترین کلام ہے
تو جب ذالک الکتاب کا لفظ آگیا تو اس کا مطلب ہے یہ عظیم الشان کتاب ۔ لاریب فیہ ، اس میں کوئی شک نہیں ۔ اب اس میں کوئی شک کرسکتا ہے؟ اگر کوئی کہے گا کہ ہاں اس میں بہت سارے لوگ شک کررہے ہیں ۔ تو ہم کہیں گے ہاں اس پر بہت سارے لوگ شک کرتے ہیں لیکن اس میں شک نہیں ، جو شک کررہے ہیں ان کے دماغ میں شک پیدا ہوگیا ۔ اس کتاب میں کوئی شک نہیں ۔ اس کو جو بھی عاقل ، بالغ صحیح عقل و فہم رکھنے والا سنے گا تو سننے کے ساتھ ہی اس پر اثر ہوگا ۔ دیکھیں حضرت عمر فاروق ؓ آپ ﷺِکو شہید کرنے جارہے تھے ، اتنا بڑا واقع ہونے کو جارہا تھا ، راستے میں ان کو ایک شخص ملتے ہیں پوچھتے ہیں کیا ارادہ ہے ؟ جواب دیتے ہیں کہ میرا تو یہ ارادہ ہے ۔ کہا اچھا اپنے گھر کی تو ذرا خبر لیں ، بات وہاں تک بھی پہنچ گئی ہے ، تیری بہن اور بہنوئی مسلمان ہوگئے ہیں ۔ کہا اچھا ، چلو سب سے پہلے ان سے نبٹتا ہوں ۔ وہاں جب گئے تو صحابی رسول حضرت حباب ؓوہاں پہلے سے موجود تھے اور ان کے بہن اور بہنوئی کو قرآن پاک سکھا رہے تھے ۔دروازہ کھٹکھٹانے سے پتہ چل گیا کہ یہ عمر ؓہیں ۔ گھر والوں کو عادتیں معلوم ہوتی ہیں ۔ تو انہوں نے قرآن پاک کے اوراق چھپا لیے اور حضرت حباب ؓ کو بھی چھپا دیا ۔ اب دروازہ کھولا تو ان کو شک تو ہوگیا کہ یہ کچھ پڑھ رہے تھے ، بے تحاشا اپنی بہن کو مارنا شروع کردیا ۔ مارتے رہے مارتے رہے ۔ اب عمر ؓ کی مار کوئی معمولی بات تو نہیں تھی ۔ بہن لہولہان ہوگئی ،لیکن بہن تو عمرؓ ہی کی تھی ، اس نے کہا عمرؓ جتنا تیرا بس چلتا ہے مار و ، لیکن اب ہمارے دل میں ایمان داخل ہوگیا ہے ، اب یہ نکلنے والا نہیں ہے ۔ یہ فقرہ ایسا عجیب فقرہ تھا کہ اس نے پتھر دل کو بھی موم کردیا ۔ حضرت عمرؓ نے کہا اچھا چلو مجھے سنائو تم کیا پڑھ رہے تھے ۔ انہوں نے کہا نہیں آپ اس وقت پاک نہیں ہیں ، وہ تو پاک لوگوں کو سنایا جاتا ہے ۔ اتنے میں حضرت حباب ؓ باہر آئے ، اور کہا عمرؓ مبارک ہو ، آپ ﷺِ نے دعا کی تھی اے اللہ دو عمروںمیں سے یعنی عمر بن الخطاب اور عمر بن الہشام میں سے ایک عمر کے ذریعے اسلام کو تقویت عطا فرما ۔ شاید وہ دعا آپ کے حق میں قبول ہوگئی ہے ۔ پھر حضرت عمرؓ نے غسل کیا، اس کے بعد کلام سنا ، آنکھوں میں آنسو آنا شروع ہوگئے ، فرمایا مجھے رسول اللہ ﷺِ کے پاس لے چلو میں ایمان لانا چاہتا ہوں ۔ وہاں پر دار ارقم میں آپ ﷺِ کے ساتھ صحابہ کرام بھی موجود تھے جب پتہ چلا کہ عمرؓ آئے ہیں ، تو صحابہ تھوڑے سے سہم گئے ۔ حضرت امیر حمزہ ؓ نے کہا دیکھتے ہیں اگر اچھے ارادے سے آیا ہے تو ٹھیک نہیں تو اس کی تلوار سے اسی کے سر کو قلم کردوں گا ۔ اور پھر جب اندر آئے تو آپﷺِ نے اس کے دامن کو پکڑ کر جھٹک دیا اور فرمایا عمر کس ارادے سے آئے ہو ؟ کہا ، ایمان لانے کیلئے ۔ اتنا کہنا تھا کہ سب صحابہ نے ایک ساتھ اللہ اکبر کا نعرہ لگایا ۔ اور عمر ؓ مسلمان ہوگئے ۔ تو قرآن قرآن ہے ۔ یورپ وغیرہ میں جو لوگ مسلمان ہوئے اس میں سب سے بڑا contribution قرآن کا ہے ۔ یہ ایسی کتاب ہے کہ سنٹرل ایشیا پر جب روس نے غاصبانہ کیا تو قرآن کے اوراق اور دوسرے دینی کتابوں کے اوراق سے ان کے حمام کئی مہینوں تک جلتے رہے ۔ قرآن پڑھنے پر پابندی لگا دی گئی ۔ لیکن دوسری طرف اللہ جل شانہ نے کیسے نظام چلا دیا کہ زمیندوز تہہ خانے بن گئے ، اس میں وہ بچوں کو قرآن پاک سکھاتے تھے ۔ دن کو کام کررہے ہیں اور شام کو وہ تہہ خانوں میں قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرتے ۔ جب افغانستان پر انہوں نے حملہ کیا تو اس کی جو فوج تھی وہ انہی علاقوں کی فوج تھی کیونکہ بالکل ایک جیسے علاقے ہیں تو یہ فوج اسی لئے بھیجی تھی کہ ان فوجیوں کو بھی آسانی ہوگی ، اب یہ تھے مسلمان ۔ اگر چہ وہ ایسے درجے کے مسلمان تھے کہ ان کو مسلمان کہنا بڑا مشکل تھا ۔ کیونکہ ان میں اور دوسرے روسیوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا تھا ۔ لیکن بہر حال تھے تو مسلمان ۔ ان کو اللہ پاک نے موقع دیا کہ انہو ں نے افغان مجاہدین کے ساتھ ساز باز کرلی ۔ یہ چپکے سے اسلحہ دیتے تھے اور قرآن پاک ان سے لیتے تھے ۔ اب دونوں طرف مسلمانوں کا فائدہ تھا ۔ اسلحہ بھی مسلمانوں کو مل رہا تھا ۔ اور قرآن پاک سے بھی ان کو فائدہ ہورہا تھا ۔ تو یہ قرآن پاک کا اعجاز ہے ، اس کی عجیب استعدادہے ۔ کہتے ہیں بحریہ کے ایک غیر مسلم افسر تھے ، اس نے قرآن میں سمندر کی موج در موج کی جو کیفیت بتائی گئی ہے وہ پڑھی ، اس پر انہوں نے پوچھا کہ یہ کتاب جس صاحب پر اتری ہے کیا وہ کوئی بحری سفر کرچکا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں انہوں نے کبھی بحری سفر نہیں کیا ۔اس پر اس نے کہا کہ پھر یہ خدا کا کلام ہے ۔ کیونکہ اس میں جس انداز سے یہ چیز بیان کی گئی ہے وہ کوئی ایسا شخص نہیں جان سکتا جس نے بحری سفر نہ کیا ہو ، اور مسلما ن ہوگئے۔ پیرس کے ڈاکٹر حمید اللہ صاحب ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میرے پاس ایک میوزیشن آئے ، اس نے کہا کہ میں نے پورا قرآن ہارمونیم میں بجایا ہے ۔ صرف ایک سورۃ نہیں بج رہی ۔ ڈاکٹر صاحب نے اس سے پوچھا وہ کونسی سورۃ ہے ؟کہا اذا جاء انصر اﷲ والفتح و رئیت الناس یدخلون فی دین اﷲ افواجاً۔ والی سورۃ ہے۔ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اس کو اس طرح بھی پڑھا جاسکتا ہے ۔ اذا جاء انصر اﷲ والفتح و رئیت الناس یدخلون فی دین اﷲ افواجا۔ کہتے ہیں کہ یہ سننا تھا کہ وہ اچھل پڑا اور کہا ہوگیا ۔ اور اس کے بعد وہ مسلمان ہوگیا ۔ اب اندازہ کرلیں کہاں قرآن اور کہاں میوزک ۔ ان کا آپس میں کیا تعلق ہے ؟
موسیقی اور ہے اور موسیقیت اور ہے
لیکن بات یہ ہے کہ ایک ہوتی ہے موسیقی اور ایک ہوتی ہے موسیقیت ۔ اس چیز کو سمجھنا چاہیے ۔ موسیقی ناجائز ہے ۔ موسیقیت جائز ہے ۔ موسیقیت کیا چیز ہے وہ بھی عرض کردیتا ہوں ۔ موسیقیت اس چیز کو کہتے ہیں ، ایک ہوتی ہے بے ہنگم آواز ، شور ،شور میں یہ ہوتا ہے کہ کوئی ترتیب نہیں ہوتی ۔ کوئی آواز ادھر سے آرہی ہوتی ہے کوئی ادھر سے ، آپس میں آوازیں ٹکراتی ہیں تو عجیب عجیب چیزیں بنتی ہیں یہ شور جسے ہمnoise کہتے ہیں یہ بے ہنگم آواز ہوتی ہے اور کانوں کو بری لگتی ہے ۔ اس کے مقابلے میں وہ آواز جو انتہائی باقاعدہ ہو ، اور ہمارے کانوں کے لئے adjustable ہو ، اس طریقے سے کہ وہ کانوں کو بھلی لگے ، یہ موسیقیت ہے ۔ اب مثال کے طور پر ایک شخص ہے ۔ وہ سمندر کے کنارے بیٹھا ہوا ہے سمندر کے پانی کا شور ہے وہ ایک ترتیب سے ہوتا ہے ۔ اس سے وہ لطف لے رہا ہے ۔ تو کوئی اس پر فتویٰ لگا سکتا ہے کہ یہ ناجائز ہے ؟ اس پر کوئی فتویٰ نہیں لگاسکتا کہ ناجائز ہے ۔ یہ موسیقی نہیں لیکن موسیقیت ہے ۔ اس طریقے سے اگر کوئی خوش الحانی سے نعت پڑھے ، تو ظاہر ہے ہر کوئی اس سے لطف لے گا ۔ تو اس کو ہم ناجائزنہیں کہیں گے ۔ شعر کا اپنا ایک وزن ہوتا ہے ۔ ایک بار ہوتا ہے ۔ ایک قافیہ ہوتا ہے ۔ ایک ردیف ہوتا ہے ۔ اس کے اندر ایک حسن صوت آجاتا ہے ۔ آپ بے شک نثر پورا لکھ کر دے دیں لیکن چند اشعار پڑھ لیں تو بہت زیادہ اثر ہوجاتا ہے ۔ وجہ کیا ہے کہ اس کے اندر جو موسیقت ہوتی ہے وہ انسان پر اثر کرتی ہے ۔ تو موسیقیت میں غلطی نہیں ہے موسیقی میں غلطی ہے ۔ قرآن کو اگر کوئی تجوید کے قاعدے کے ساتھ پڑھ لے اس کی بے شک آوازبھی اچھی نہ ہو صرف قرآن رواں پڑھ لے تجوید کے قاعدے کے ساتھ ، اس کے اندر وہ حسن صوت آجاتا ہے ۔ ہمارے ایک رشتہ دار تھے ، فاضل دیوبند تھے ، وہاں ایک جگہ قرآن پڑھ رہے تھے ، ان کی آواز بھی عام آواز تھی کوئی ایسے خوش الحان نہیں تھے ۔ تو وہ قرآن کی تلاوت کررہے تھے ۔ ایک پنڈت وہاں سے گزر رہے تھے ، وہ رک کر تلاوت سننے لگے ۔ جب انہوں نے قرآن پڑھ لیا اور رک گئے تو وہ پنڈت اس کے پاس آئے اور پوچھا آپ کونسی بھیروی گا رہے تھے ۔ بھیروی سر کو کہتے ہیں ۔ اس نے جواب دیا مجھے تو پتہ نہیں کہ بھیرویں کیا ہوتی ہے ؟ کہتے ہیں کہ وہ پنڈت اتنا حیران ہوگیا اور کہا کہ کمال ہے آپ اتنی بہترین بھیروی گا رہے تھے اور آپ کو پتہ ہی نہیں کہ بھیروی کیا ہوتی ہے ۔ ہمارے مولانا اشرف صاحب ؒ کے ہاں تراویح میں قرآن پاک پڑھا جاتا تھا۔ آخری عشرے میں تین ختم ہوتے تھے ۔ پہلے چھ راتوں میں ایک قرآن پاک ختم ہوتا تھا ۔ پھر دو راتوں میں ایک ختم ہوتا تھا پھر ایک رات میں ایک ختم ہوتا تھا ۔ یعنی اٹھائیس اور انتیس کو دو راتوں میں ہوتا تھا ۔ ستائیسویں کو ایک رات میں ہوتا تھا اور ابتدائی چھ راتوں میں ایک ختم ہوتا تھا ۔ یہ حضرت کے ہاں رمضان میں معمول تھا ۔ اور اگر راتیں چھوٹی ہوتیں تو دو دو راتوں میں ایک ختم ہوتا تھا ۔ حضرت مولانا صاحب ؒ کی یہ حالت تھی کہ جب قرآن سن رہے ہیں تو ایسے لگتا تھا جیسے کوئی جوان آدمی کھڑا مزے سے سن رہا ہے ۔ لیکن جیسے ہی نماز ختم ہوتی تھی بس پھر کوئی ہاتھ دبا رہا ہے کوئی پاوں دبا رہا ہے حالت عجیب ہوجاتی ، پھر ایسی حالت ہوتی جیسا کہ حضرت ہوتے تھے ۔ کیونکہ حضرت بہت زیادہ بیمار تھے ، بہت ساری بیماریاں حضرت کے ساتھ لگی ہوئی تھیں ۔ لیکن جس وقت قرآن سنتے تھے یہ محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ حضرت بیمار ہیں ، تو الحمد اللہ جو لوگ قرآن پڑھتے ہیں اور حسن صوت کے ساتھ پڑھتے ہیں ، ان کو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ اے حافظو ، اپنا حفظ بہتر کرلو
اے حافظو ، اپنا حفظ بہتر کرلو
اتنا بہتر کرلو کہ آپ کو قرآن دیکھنے کی ضرورت ہی نہ پڑھے ۔ کچھ لوگ کچے حافظ ہوتے ہیں ، رمضانی حافظ ہوتے ہیں ۔ صر ف رمضان شریف میں قرآن پاک پڑھتے ہیں اس کے علاوہ قرآن پاک بہت کم پڑھتے ہیں ۔ پنجاب میں ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ صوبہ سرحد میں البتہ صورتحال مختلف ہے ۔ وہاں پر آپ اگر کسی سے کہیں کہ تین راتوں میں سننا ہے ،تو تین راتوں میں سنا دیں گے ۔ دو راتوں میں سننا ہے دو راتوں میں سنا دیں گے ۔ ایک رات میں سننا ہے تو ایک رات میں سنا دیں گے ۔جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا رمضان میں حضرت مولانا اشرف صاحب ؒ کے ہاں تراویح میں قرآن پاک سنایا جاتا تھا ۔ لیکن میں وہاں نہیں جاتا تھاکیونکہ میں کمزور آدمی تھا اور نہیں سمجھ رہا تھا کہ میں کیسے ایک رات میں پورا قرآن پاک سنوں گا ۔ ایک دن مجھے ڈاکٹر فدا صاحب نے کہا کہ آپ ادھر ادھر جاتے ہیں تو ہمارے ہاں بھی قرآن پاک سن لیا کرو ۔ میں نے کہا حضرت آپ کی ترتیب بڑی سخت ہے ، آپ کے ہاں میں نہیں سن سکتا ۔ انہوں نے فرمایا کوئی بات نہیں آپ دو رکعت سن لیں اگر مزہ آگیا تو جاری رکھ لینا ورنہ آپ کی مرضی ۔میں نے کہا یہ سستا سودا ہے ۔ میں ان کے ساتھ چلا گیا اب مجھے نہیں معلوم کہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے ۔ صحیح بات یہ ہے کہ ڈاکٹر فدا صاحب کو بھی پتہ نہیں تھا ۔جب ہم گئے تو وہ ستائیسویں کی رات تھی اور ایک رات میں ختم قرآن ہونا تھا ۔ بہر حال وہاں پہنچے ، تراویح شروع ہوگئی ایک ڈاکٹر صاحب تھے بڑی عجیب شخصیت تھی ان کی ، وہ قرآن سنا رہے تھے اور ہم ان کے پیچھے کھڑے قرآن سن رہے تھے ، وہ بڑے مزے سے سنا رہے تھے ، ان کا قرآن بڑا پکا تھا کسی رکاوٹ کے بغیر وہ سنا رہے تھے ۔ پہلا پارہ جب ختم ہوا تو میں نے کہا اب یہ رکوع کریئنگے۔ دوسرا پارہ شروع ہوا میں نے کہا چلو دوسرے پارے پر رکوع کرلیں گے ۔ نہیں کیا ، میں نے کہا چلو سورۃ بقرہ پر ختم کردیں گے ، نہیں کیا ۔ میں نے کہا چلو سورۃ آل عمران کے اختتام پر کرلیں گے ،نہیں کیا ۔ لیکن جب سورۃ النسا ء سے بھی آگے نکل گئے تو میں نے سوچا اچھا اس کا پروگرام کوئی اور لگ رہا ہے ۔ لگتا ہے بیس پارے پورے کرنے پر اس نے رکوع کرنا ہے اور دس پارے کے بعد دوسرا رکوع کرنا ہے ۔ بالکل یہی ہوا کہ بیس پارے پڑھنے کے بعد انھوں نے پہلا رکوع کیا ، اور اس کے بعد پھر یہ ہوا کہ جب سورۃ والضحیٰ پر پہنچے تو انھوں نے دوسرا رکوع کرلیا ۔ پھر جب ہم نے سلام پھیرا تو ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے کہا کہ اگر آپ جانا چاہتے ہیں تو جاسکتے ہیں ۔ میں نے کہا اب کہاں جاو ں؟ اس کے بعد اٹھارہ رکعتوں میں انھوں نے باقی قرآن پڑھ لیا اور ختم قرآن ہوگیا ۔ بس میرا حجاب ٹوٹ گیا ۔ اس کے بعد پھر یہ حالت ہوگئی کہ پھر کسی اور جگہ سننا ہی نہیں ۔ بلکہ ہم یہاں راولپنڈی سے پشاور چلے جاتے تھے ۔ جب تک مولانا صاحب حیات تھے ہم نے تراویح کہیں اور نہیں پڑھیں ۔ الحمد اللہ ہمارے ہاں اعتکاف میں یہی ترتیب ہوتی ہے ۔ تین ختم ہوتے ہیں ۔ یہاں کے لوگ بھی حیران تھے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔ پہلی دفعہ جب ساتھیوں کو پتہ چلا کہ دس دنوں میں تین ختم ہونگے ،تو سوچ رہے تھے کیسے ہونگے ۔ خیر ہمارے قاری نور اللہ صاحب بہت اچھا قرآن سنا تے ہیں ۔ وہ سنا رہے تھے ، ایک دفعہ غلطی سے انھوں نے ایک رکعت میں پانچ پارے پڑھ لیے ، میرے خیال میں ان کا ارادہ نہیں تھا ، بتا رہے تھے کہ میرا ارادہ نہیں تھا لیکن پانچ پارے پڑھ لیے ۔ جب پانچ پارے پڑھ لیے تو ہمارے جو ساتھی تھے اس وقت تو کافی تھک گئے تھے لیکن بعد میں ان کیلئے ایک پارہ کافی آسان ہوگیا ۔ وہ جو ایک پارے کا معمول تھا وہ پھر اس کے ساتھ used to ﴿عادی ﴾ہوگئے ۔ اس دفعہ بھی انشاء اللہ اعتکاف میں یہی معمول ہوگا ۔ نئے ساتھی اپنے آپ کو tune کروالیں ۔ ایک دفعہ شرکت سے آپ کی گھبراہٹ انشاء اللہ ختم ہوجائے گی ۔ یہ قرآن کا اعجاز ہے ،یہ اپنے آپ کو خود منوا لیتا ہے ۔ اس کے لئے دلائل دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔
تجویدجاننا بھی ضروری ہے
ابھی تک میں نے جتنی باتیں کی ہیں یہ سب قرآن کی تلاوت سے متعلق باتیں تھیں ، ابھی میں مفہوم پر آیا ہی نہیں ۔ تو تلاوت کا شعبہ ایک انتہائی اہم شعبہ ہے ۔ یتلو علیہم آیاتک یعنی دو دفعہ یہ آیت آئی ہے ۔ یہ بہت اہم شعبہ ہے آپ ﷺِ کا امت کو تلاوت سکھانا بہت اہم شعبہ ہے ۔ جبرائیل علیہ السلام نے آپﷺِ کو قرآن پہنچایا اور قرآن آپ ﷺِ نے جبرائیل علیہ السلام سے سنا ۔ اب وہ قرآن ہم تک کیسے پہنچے جو جبرائیل علیہ السلام نے پڑھا تھا ۔ ہمارا پشاوری لہجہ ، پنجابی لہجہ ، سرائیکی لہجہ یا کوئی اور لہجہ رکاوٹ نہ بنے ۔ کیونکہ ہر لہجے کے اپنے مسائل ہوتے ہیں ، لیکن قرآن تو سب کا ایک ہی ہے ۔ ایک صاحب انگلینڈ گئے تھے، پشتو بولنے والا سادہ آدمی تھا وہاں سے جب آگئے تو لوگوں نے پوچھا کہ وہاں کیا دیکھا ۔ جواب دیا سب لوگ انگریزی بولتے ہیں لیکن اذان پشتو میں ہوتی تھی ۔ تو وہ قرآن پڑھنا جو جبرائیل علیہ السلام نے آپ ﷺِ کے سامنے پڑھا تھا ۔ یہ معمولی بات نہیں ہے ۔ اب آپ ﷺِ نے یہ ذمہ داری لی تھی من و عن وہی قرآن پہنچانا ۔ یتلو علیہم آیتہ یہ بہت بڑا شعبہ ہے ۔ اس شعبے کو قاری حضرات نے لیا ہے ۔ لوگ قاری کس کو سمجھتے ہیں ، جو سدیس کی نقل کرتے ہیں جو شریم کی نقل کرتے ہیں ۔ اب یہ قرات نہیں ہے ۔ قرات تو اس ادائیگی کو کہتے ہیں جو آپ ﷺِ نے جبرائیل علیہ السلام سے سنی ہے ۔ یہ قرات ہے ۔ اس کے لئے قواعد ہوتے ہیں ۔ اس کے مخارج ہوتے ہیں ۔ آپ جب خط لکھتے ہیں تو اگر ج لکھیں گے تو اکیلا تو اس طرح ہوگا لیکن اگر کسی دوسرے حرف کے ساتھ ملا کر لکھیں گے تو فرق ہوگا ۔ اسی طریقے سے آپ کوئی لفظ ملا کر بولیں گے تو پھر اس کی بھی علیحدہ صورت ہوگی ، اس میں تنوین بھی آجاتی ہے نون غنہ بھی آجاتا ہے ۔ پھر مد اور اس طرح کی مختلف چیزیں آتی ہیں یہ تجوید کے قواعد ہیں ۔ یہ کس لئے ہیں ؟ حالانکہ سارے اصول سماعی ہیں ، مقصود صرف وہ قرآن سنانا ہے جو آپ ﷺِ نے جبرائیل امین سے سنا ۔لیکن اس کو سنانے کیلئے اور اس کو سکھانے کیلئے آخر کونسی ترتیب ہو ، آپ کیسے اس کو سکھائیں گے ۔ ایک ترتیب تو یہ ہوسکتی ہے کہ قاری صاحب پڑھتے رہیں اور آپ بھی ساتھ پڑھتے رہیں۔لیکن اس قاری صاحب کی قرات بالکل صحیح ہونی چاہیے ۔ کیونکہ اگر اس کی قرات صحیح نہیں تو جو گڑبڑ اس میں ہوگی وہ پھر آگے ٹرانسفر ہوگی ۔ لیکن اگر ساتھ ساتھ قواعد بھی ہیں تو اگر وہ قاری پشاور کا ہے اور پشاور کے لہجے کا اس پر اثر ہے تو قاعدہ آپ کو معلوم ہوگا آپ اس پشاوری اثر کو دور کرلیں گے ۔ تو قواعد ضروری ہیں ۔اس میں علم آجاتا ہے ۔ اس کو ہم علمی قرات کہتے ہیں ، پھر تجوید ہے ، تجوید کیلئے جو بنیادی اصول بنے ہیں اس کے باقاعدہ اپنے امام ہوتے تھے ۔ تو یہ ساری چیزیں تلاوت کے لئے ضروری ہیں ۔
قرآن کا مفہوم جاننا بھی ضروری ہے ۔
تلاوت کے بعد اس کے مفہوم کی باری آتی ہے ۔ ترجمہ کے بارے میں میں اتنا عرض کروں کہ قرآن کا ترجمہ ناممکن ہے ، ناممکن ہے ۔ آپ کہیں گے کمال ہے یہ کیا بات ہوئی ، قرآن کا ترجمہ تو لوگ کرچکے ہیں ۔ تو بات یہ ہے کہ قرآن کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں کہ مختلف الفاظ سے ملتے جلتے جو صحیح الفاظ ہوتے ہیں ، جیسے انگریزی کا لفظ ہے atitude اب اس کے لئے آپ کوئی اردو میں لفظ ڈھونڈ لیں گے ۔لیکن غیرت کا انگریزی میں کیا ترجمہ ہوگا ؟ یقینٲ اس کے لئے کوئی معروف لفظ نہیں ہوگا ۔ لیکن اس کے نزدیک ترین اگر کوئی لفظ ہوگا تو وہ استعمال کیا جائے گا ۔ تو ضروری نہیں کہ ہر زبان کے حروف تہجی ایک ہوں ، لہذا یقینٲ جو حروف تہجی کا فرق ہے وہ زبان کے لہجے پر اثر ڈالتا ہے ۔ جیسے صوبہ سرحد کا لہجہ ہے ۔ عین ممکن ہے کہ قرات کے قواعد کے ساتھ exactly competable نہ ہوتو اس پرزیادہ محنت کرنی پڑے ۔ ہمارے صوبہ سرحد کے بعض علاقوں میں ف کو پ کہتے ہیں اور پ کو ف کہتے ہیں جیسے فائدہ کو وہ پائدہ بولتے ہیں ۔ اب اگر وہ قرآن پاک میں پڑھیں گے فلا تقل لھما اف ولا تنھر ھما ۔ تو وہ کیا پڑھیں گے فلا تقل لھما اپ ولا تنھر ھما ۔ تو ظاہر ہے یہ قرآن نہیں ہے ۔ اسی طریقے سے ہمارے جو ترک حضرات ہیں وہ ک کو چ بولتے ہیں ، اللہ اکبر کو وہ اللہ اچبر بولتے ہیں ۔ ان کو بہت محنت کرنی پڑتی ہے اللہ اکبر کہنے میں ۔ تو یہ حروف تہجی کا مسئلہ ہے ۔ اسی طرح جو الفاظ ہیں ضروری نہیں کہ کسی دوسری زبان میں اس مفہوم کو ادا کرنے والے ویسے ہی الفاظ موجود ہوں ۔فرق ہوسکتا ہے ۔ تو جب یہ فرق موجود ہو تو مجھے بتائیں پھر آپ ترجمہ کرسکتے ہیں ؟ اب چونکہ قرآن خدا کا کلام ہے اب اس میں آگے پیچھے کچھ نہیں ہو سکتا ، اس وجہ سے یہ تشنگی قائم رہتی ہے ۔ لیکن بہر حال قریب قریب جو الفاظ ہوسکتے ہیں اس میں آپ ترجمہ کرلیتے ہیں ۔ پھر ترجمہ بھی دو قسم کا ہوتا ہے ، ایک ہے تحت اللفظ اور ایک ہے بامحاورہ ۔ تحت اللفظ میں مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ گرائمر کے لحاظ سے ہر زبان کی taxturaisationمختلف ہوتی ہے ، کسی میں فاعل کہلاتا ہے کسی میں مفعول کہلاتا ہے اب عربی کا اپنا قاعدہ ہے ۔ اب ہم لاریب فیہ کا ترجمہ کیسے کریں گے ۔ نہیں ہے شک اس میں ۔ اور بامحاورہ کہیں گے اس میں کوئی شک نہیں ۔ تو تحت اللفظ میں پھر یہ مسائل آتے ہیں ، ترجمہ ٹوٹ ٹوٹ کر ہورہا ہوتا ہے ۔ اس میں پھر سمجھ نہیں آتی ۔ بامحاورہ میں یہ ہوتا ہے کہ اس میں جوڑ لیتے ہیں اس کو اسی طرح کرلیتے ہیں جو اس زبان کا انداز ہے پھر اس کو رواں کرنے کے لئے جو اس زبان کے محاورے مستعمل ہیں اس کا بھی استعمال کرلیتے ہیں ۔ نتیجتٲ وہ لوگوں کی سمجھ میں آجاتا ہے ۔ مفہوم کے لحاظ سے تو قریب ہوتا ہے لیکن حروف آگے پیچھے ہوجاتے ہیں ۔ مفتی شفیع صاحبؒ کی تفسیر معارف القرآن میں حضرت نے یہی کیا ہے ، یہ چیزیں انہوں نے بیان القرآن سے لی ہیں ۔ طریقہ یہ ہے کہ اس میں خط کشیدہ الفاظ، قرآن کا ترجمہ ہے ۔ اور بریکٹ میں مزید کچھ لکھا ہوا ہے ۔ اب اگر آپ اس مزید کو نہیں پڑھیں گے تو صرف ترجمہ پڑھ لیں گے اور اگر بریکٹ کے اندر مزید جو لکھا ہے وہ پڑھیں گے تو ساتھ تفسیر ہوجائے گی ۔ انہوں نے اس طریقے سے کام کیا ہے تاکہ اس کی روانگی میں بھی فرق نہ پڑے اور اس کے مفہوم کی ادائیگی پر بھی فرق نہ پڑے ۔ بہر حال مختلف کوششیں ہوئی ہیں ۔
قرآن کی بلاغت کا کیا کہنا
اس کے علاوہ قرآن میں چھوٹے چھوٹے الفاظ سے اتنے بڑے مفہوم کی ادائیگی ہوجاتی ہے کہ آپ حیران ہوجاتے ہیں کہ یا اللہ یہ کیا ہے
والعصر ان الانسان لفی خسر الا الذین امنو وعملو الصلحٰت و تواصوابالحق وتواصوا بالصبر۔
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ اگر قرآن نہ اترتا اور صرف یہ سورت اترتی تو امت کی ہدایت کیلئے یہ بھی کافی تھی ۔ تو قرآن کا جو کلام ہے وہ اتنے مختصر الفاظ میں اتنا بڑا مفہوم واضح کردیتا ہے کہ آدمی حیران رہ جاتاہے ۔ پھر اس کے اندر جو بلاغت ہے ۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ میرے دو مصری پروفیسر جو بلاغت کے بہت بڑے پروفیسر تھے ۔ انہوں نے ایک دن مجھ سے کہا کہ قرآن کے اندر تو سب کچھ ہے لیکن یہ بلاغت ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ اس میں بلاغت بھی ہے ۔ تو اس نے جواب دیا اچھا اگر آپ یہ کہنا چاہو کہ جہنم بہت وسیع ہے تو پھر آپ کیا کہیں گے ۔ چونکہ وہ پروفیسرصاحبان خود بھی عرب تھے انہوں نے کہا ان جہنم لو سیع ، اس طرح مختلف دوسرے الفاظ بھی بولے ۔ اس صاحب نے جواب دیا اب قرآن سنیں قرآن نے کونسے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔
یَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَأْتِ وَتَقُولُ هَلْ مِن مَّزِیدٍ..؟
جہنم سے کہا جائے گا کیا تو بھر گئی ۔ وہ کہے گی اور ہے ؟ یہ سنتے ہی انہوں نے اپنی رانیں پیٹ لیں ، کہنے لگے اس کا مقابلہ نہیں ہوسکتا ۔ اس کا مقابلہ نہیں ہوسکتا ۔ یعنی کس طرح الفاظ کی ادائیگی ہے ، کس طریقے سے ایک چیز کو بیان کیا جارہا ہے ۔ نہ یہ اشعار ہیں نہ یہ نثر ہے اس میں الفاظ کا چنائو عجیب ہے یہ قرآن کا اعجاز ہے اللہ جل شانہ ہمیں اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین ۔ وآخر دعوانا انالحمد للہ رب العالمین ۔