اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ۔اَلصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَم ُ عَلیٰ خَاتَمَ النَّبِیینِ۔اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُوَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ وَقَالَ اﷲُ تَعَالٰی قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ۔ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ﴿۱۳﴾ وَقَالَ اﷲُ تَعَالٰی اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہ، یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴿۶۵﴾صَدَقَ اﷲُ الْعَلِیُّ العَظِیْم۔
کون ایسا ہوگا جو مسلمان بھی ہو اور نعت کو نہیں جانتا ہو؟ البتہ اس کو سمجھنے میں افراط تفریط ضرور پایا جاتا ہے ۔کچھ حضرات اس کے آداب کا خیال نہیں رکھتے نہ معنٰی کے لحاظ سے نہ ادائیگی کے لحاظ سے ۔جو مضمون موزو ںہو،چاہے آپ ﷺِ کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق ہو یا نہیں اور جس طرز پر بھی پڑھا جائے ، اس کا کوئی خیال نہیں ۔حالانکہ نعت ایک دینی چیز ہے اس کے مضمون اور اس کی ۱دائیگی کے بارے میں کچھ اصول و ضوابط ہیں ۔ان کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔دوسری طرف کچھ حضرات ایسے ہیں جو اس میں مشغولی کو ایک دینی کام نہیں سمجھتے ہیں اور اس کو محض شغل میلہ سمجھتے ہیں ۔یہ دونوں نقطہ نظر درست نہیں ۔اس لئے ضروری ہے کہ اس کے بارے میں بات کی جائے کہ کوئی اپنی نادانی سے اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچائے ۔
نعت میں دو چیزیں ہوتی ہیں ۔ایک تو یہ کہ یہ اکثرشعر ہوتا ہے﴿بعض دفعہ نثر میں بھی نعت کا مضمون ہوسکتا ہے ﴾اور دوسری اس میں آ پ ﷺ کی مدح ہوتی ہے ۔بعض لوگوں کو شعر پر اعتراض ہے اور شعر کا ذوق نہ رکھنے کی وجہ ہر وہ چیز جو شاعری کی قبیل سے ہو اس کی ناقدری کرتے ہیں اور دلیل قرآن کی وہ آیت کریمہ کی دیتے ہیں ۔
وَالشعراء یَتَّبِعُھُمُ الْغَاو،نَ﴿۴۲۲﴾ اَلَمْ تَرَ اَنَّھُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّھِیْمُوْنَ﴿۵۲۲﴾ وَاَنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ مَالَا یَفْعَلُوْنَ﴿۶۲۲﴾
جسکا ترجمہ معارف القرآن میں یوں ہے اور شاعروں کی بات پر چلیں وہی جو بے راہ ہیں ۔ تو نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر میدان پر سر مارتے پھرتے ہیں ، اور یہ کہ وہ کہتے ہیں جو نہیں کرتے۔ان دونوں باتوں کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ ہر دو حقیقت کھل جائے پھر فیصلہ کرنا آسان ہوجائے گا۔
اول الذکر بات کہ شاعری اچھی چیز نہیں، اس کا نظریہ رکھنے والے حضرات شاید قرآن پاک کو گہرائی میں ملاحظہ نہیں کرتے کیونکہ اسی آیت کریمہ کے بعد اس کی استثنائی صورت بھی بتائی گئی ہے اور اس کی تائیدفتح الباری کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ، تو حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ ،حسان بن ثابتؓ اور کعب بن مالک ؓ جو شعرا ء صحابہؓ میں مشہور ہیں ، روتے ہوئے حضور ﷺِ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺِ خدا ذوالجلال نے یہ آیت نازل فرمائی ہے اور ہم بھی شعر کہتے ہیں ۔ حضور ﷺِ نے فرمایا کہ آیت کے آخری حصہ کو پڑھو ، مقصد یہ تھا کہ تمہارے اشعار بے ہودہ اور غلط مقصد کے لئے نہیں ہوتے ، اس لئے تم استثناء میں داخل ہو ، جو آخر آیت میں مذکور ہے ۔ اس لئے مفسرین نے فرمایا کہ کہ ابتداءآیت میں مشرکین شعرا ء مراد ہیں ۔ کیونکہ گمراہ لوگ، سرکش شیاطین اور نافرمان جن ان ہی کے اشعار کی اتباع کرتے ہیں اور روایت کرتے تھے ۔
آیات مذکورہ کے شروع سے شعر و شاعری کی سخت مذمت اور اس کا عند اللہ مبغوض ہونا معلوم ہوتا ہے ۔ مگر آخر سورت میں جو استثناء مذکور ہے اس سے ثابت ہوا کہ شعر مطلقاً برا نہیں ۔ بلکہ جس شعر میں خدا تعالیٰ کی نافرمانی یا اللہ کے ذکر سے روکنا یا جھوٹ، ناحق کسی انسان کی مذمت یا توہین ہو یا فحش کلام اور فواحش کے لئے محرک ہو وہ مذموم و مکروہ ہے ۔ اور جو اشعار ان معاصی اور مکروہات سے پاک ہوں ، ان کو اللہ تعالیٰ نے
اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰت
کے ذریعہ مستثنیٰ فرمادیا ہے ۔ اور بعض اشعار تو حکیمانہ مضامین اور وعظ و نصیحت اور اﷲ اور رسول ﷺِ کی تعریف و ثناء پر مشتمل ہونے کی وجہ سے طاعت و ثواب میں داخل ہیں ۔ جیسا کہ حضرت ابی بن کعبؓ کی روایت ہے کہ
ان من الشعر حکمۃ
یعنی بعض شعر حکمت ہوتے ہیں ۔ ﴿ رواہ البخاری ﴾ حافظ ابن حجر نے فرمایا کہ حکمت سے مراد سچی بات ہے جو حق کے مطابق ہو۔ ابن بطال نے فرمایا کہ جس شعر میں خدا تعالیٰ کی وحدانیت اس کا ذکر ، اسلام سے الفت کا بیان وہ شعر مرغوب و محمود ہے ۔ اور حدیث مذکور میں ایسا ہی شعر مراد ہے ۔ اور جس شعر میں جھوٹ اور فحش بیان ہو ، وہ مذموم ہے ۔ اس کی مزید تائید مندرجہ ذیل روایت سے ہوتی ہے ۔
عمربن الشرید اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے مجھ سے امیہ بن ابی الصلت کے سو قافیہ تک اشعار سنے ۔ طبری نے کبار صحابہ اور کبار تابعین کے متعلق کہا کہ وہ شعر کہتے تھے ۔ اور سنتے تھے اور سناتے تھے ۔ امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ شعر کہا کرتی تھی ۔ ابویعلی نے ابن عمر سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ شعر ایک کلام ہے اگر اس کا مضمون اچھا اور مفید ہے تو شعر اچھا ہے اور مضمون برا یا گناہ کا ہے تو شعر برا ہے ۔
جن روایات میں شعرو شاعری کی مذمت مذکور ہے ان سے مقصود یہ ہے کہ شعر میں کوئی اتنا مصروف اور منہمک نہ ہوجائے ، کہ ذکر اللہ ، عبادت اور قرآن سے غافل ہوجائے ۔ امام بخاری ؒ نے اس کو ایک مستقل باب میں بیان فرمایا ہے ۔ امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ شعر جب ذکر اللہ اور قرآن اور علم کے اشتغال پر غالب آجائے تو برا ہے ، اور اگر شعر مغلوب ہے تو پھر برا نہیں ۔ اس طرح وہ اشعار جو فحش مضامین یا لوگوں پر طعن و تشنیع یا دوسرے خلاف شرع مضامین پر مشتمل ہوں ، وہ بااجماع امت حرام اور ناجائز ہیں اور یہ کچھ شعر کیساتھ مخصوص نہیں جو نثر کلام ایسا ہو اس کا بھی یہی حکم ہے ۔
ابن ابی جمرہ نے فرمایا کہ بہت قافیہ بازی اور ہر ایسا علم و فن جو دلوں کو سخت کردے اور خدا تعالیٰ کے ذکر سے انحراف و اعراض کا سبب بنے ۔ اور اعتقادات میں شکوک و شبہات اور روحانی بیماریاں پیدا کرے ۔ اس کابھی وہی حکم ہے جو مذموم اشعار کا حکم ہے ۔
وَالشُّعَرَآء یَتَّبِعُھُمُ الْغَاؤن
اس آیت میں شعرا ء پر یہ عیب لگایا گیا ہے کہ ان کے متبعین گمراہ ہیں ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گمراہ تو ہوئے متبعین ان کے فعل کا الزام متبوعین یعنی شعراء پر کیسے عائد ہوا ؟ وجہ یہ ہے کہ عموماً اتباع کرنے والوں کی گمراہی علامت اور نشانی ہوتی ہے، متبوع کی گمراہی کی ، لیکن سیدی حضرت حکیم الامت تھانوی ؒ نے فرمایا ہے کہ یہ حکم اس وقت ہے جب تابع کی گمراہی میں اس متبوع کے اتباع کا دخل ہو ۔
اس تمام تفصیل کا اجمال یہ ہے کہ شعر بذات خود ضروری نہیں کہ غلط ہو ، بلکہ استثناء موجود ہے ۔ یعنی جو اچھا کلام ہے وہ اچھا ہوگا اور جو برا کلام ہوگا وہ برا ہوگا ۔ اور یہ صرف شعر پر ہی موقوف نہیں ہے بلکہ نثر پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر کسی کتاب میں جو بھی کوئی بات لکھ رہا ہو، ضروری نہیں کہ وہ شعر میں ہو یہ اگراچھا لکھ رہا ہے تو اس کا اس کو انشاء اللہ ثواب ملے گا ۔ اور قاری کو پڑھنے کا ثواب ملے گا ۔ اور اگروہ غلط لکھ رہا ہو گا تو اس کو گناہ ہوگا ۔ تو اگر عام کلام کے ساتھ بھی ایسا ہے تو شعر کے ساتھ ہوا تو کونسا فرق ہے ۔ ہاں فرق یہ ہے کہ شعرا ء کا کلام چونکہ قلب پر اثر کرتا ہے ۔ لہذا اگر یہ گمراہ ہوں تو پھر گمراہی بہت جلد پھیلتی ہے ۔ کیونکہ شعراء آگ لگا دیتے ہیں ۔حضرت حسان ؓ کا آپ ﷺ کے سامنے نعتیہ اشعار پڑھنا ثابت ہے ۔اکابر صحابہؓ سے نعت کہنا ثابت ہے ۔اس لئے اس پر اس لحاظ سے اعتراض ممکن نہیں ۔
عارف رومی ؒ کی مثنوی میں جو حقائق اور معارف جمع ہیں اس کے مدح میں علمائے کرام اور مشائخ عظام رطب السان ہیں یہاں تک کہ حضرت مولانا جامی ؒ نے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا :
مثنویٔ مولویٔ معنو یٔ
ہست قرآن درزبان پہلوی
حضرت ؒ کو جو اﷲ تعالیٰ کے ساتھ قلبی عشق تھا اس کا اظہار جب شعر میں ہوا تو نورٌ علیٰ نور کا مصداق بن گیا ۔اس سے شعر کی افادیت واضح ہے ۔
دوسری بات نعت کی اس کامقصد ہے ۔ نعت کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہمیں حضور ﷺِ کے ساتھ محبت ہوجائے اور حضور ﷺ کی محبت ایمان کا اصل جزو ہے ۔ہمارے ایمان کی تکمیل اس پر ہوگی جب ہمیں آپ ﷺ سے کامل محبت ہوگی ۔ حدیث شریف میں ہے کہ تم اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتے جب تک میرے ساتھ اپنے مال ، اہل و عیال اور اپنی جان سے بھی زیادہ محبت نہ کرنے لگو ۔ تو ظاہر ہے کہ ہمارے ایمان کی تکمیل آپ ﷺِ سے محبت پر موقوف ہے ۔ تو جس چیز سے ہمیں حضور ﷺِ کی محبت حاصل ہوگی،وہ ذریعہ بنے گا ۔اور جو ایسی مقصود کا ذریعہ ہوگا وہ اچھی چیز ہوگی ،لہذا نعت کہنے کا مقصد بھی صحیح ثابت ہوا اور اس کے طریقے﴿اشعار میں کہنا﴾ میں بھی عیب نہیں تو یہ بری کیسے ہوئی ، بلکہ یہ بہت اچھی چیز ہے ۔ البتہ ہر کلام کی طرح اس کے بھی قواعد و ضوابط ہیں، مثلاً اس میں کوئی ایسا مبالغہ نہ ہو ، جس کی وجہ سے عقائد پر ضرب پڑتی ہو ۔ کیونکہ عقائد میں گمراہی بہت خطرناک ہے ۔ مثلاً آپ ﷺکے بارے میں کوئی ایسا عقیدہ جس سے شریعت نے روکا ہے یعنی وہ ہمارے دین میں نہیں ہو ۔ اگر کوئی اپنی نعت میں ایسی بات لائے گا تو یہ بہت خطرناک ہے اس سے بہت زیادہ نقصان ہوگا ۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب ؒ ارشاد فرماتے تھے کہ نعت کہنا بہت مشکل کا م ہے ۔ میں ایک دفعہ سوچ رہا تھا کہ میں نعت کیوں نہیں کہہ سکتا ، حالانکہ میں حمد بڑی آسانی سے لکھ لیتا ہوں ، اس کی وجہ کیا ہے؟ تو ایک دفعہ حضرت نے خود ہی بیان فرما دیا اور مجھے اس کی بڑی خوشی ہوئی کہ الحمد اللہ یہ وہ چیز ہے ۔ تو حضرت نے فرمایا کہ نعت لکھنا بڑا مشکل کام ہے ۔ کیونکہ آپ ﷺِ کا مقام اتنا اونچا ہے، کہ اگر ذرہ بھر بھی اوپر کرو گے تو الہٰیت میں شامل کرلو گے ،اور یہ انتہائی خطرے والی بات ہے ۔ اور اگر نیچے کرو گے تو یہ بھی خلاف حقیقت ہوگا ، یہ بھی انتہائی خطرے والی با ت ہے ۔ تو نہ اوپر جاسکتے ہیں اور نہ نیچے جاسکتے ہیں ، تویہ بالکل exact کہنا بڑا مشکل کام ہے ۔ اس میں جذبات پر کنٹرول ، علم کا صحیح ہونا اور دوسری تمام آداب کا خیال رکھنا واقعی بڑا مشکل کام ہے ۔ تو مجھے اس لئے مشکل ہورہی تھی کہ کہیں مجھ سے ایسا نہ ہوجائے یا ویسا نہ ہوجائے ، تو ان دو پابندیوں کو نبھانا واقعی مشکل کام ہے ۔ تو نعت کہنا برا نہیں ہے لیکن نعت کو نعت کے معیار پر رکھنا ضروری ہے ۔ اور یہ ایسے ہی ہوسکتا ہے کہ اول تو عقائد کے اندر گڑ بڑ نہ ہو ، عقائد بالکل صحیح ہوں ۔ اس کے لئے عالم ہونا ضروری ہے کہ جو میں لکھ رہا ہوں یہ کیسا ہے، لکھنے والے کو یہ معلوم ہونا چاہیے ۔ دوسری بات یہ کہ اس کی جو ادائیگی ہے وہ بھی مناسب ہو ، مثلاً گانوں کے طرز پر ادائیگی نہ ہو ۔ یہ بہت ہی خطرناک چیز ہے ،کیونکہ یہ بالکل اس طرح ہے کہ جیسے شریف زادی کو کوئی بے حیائی کا لباس پہنا دے تو وہ کیسے لگے گی ؟ یہ انتہائی بری حرکت ہوگی ، اس طرح اگرنعوذ بااللہ کوئی قرآن کو ٹائلٹ میںپڑھے تو کتنا گناہ ہوگا ؟ اسی طرح نعت کے ساتھ اگر کوئی وہ گندگی کو ملا دے جس گندگی کو آپ ﷺِ نے سننا گوارا نہیں کیا ، اور اپنے کانوں کے اندر انگلیاں مبارک دے دیں تو اس کے ساتھ پڑھنا کتنا برا ہوگا۔ اسی طرح اگر نعت کے ساتھ موسیقی تو نہیں ہے لیکن وہ ہے گانے کی طرز پر تو جب اس نعت کو سنا جائے گا تو وہ گانا بھی یاد آئے گا ۔ تو نعت کے ساتھ ساتھ دماغ میں گانا بھی بج رہا ہو تو کیسی بری بات ہے ۔ بلکہ یہ نعت کی توہین ہے اور فساق کے ساتھ مشابہت کی بات بذات خود ایک مستقل جرم ہے ۔ افسوس آج کل کے نعت خواں اس کا خیال نہیں رکھتے اور افسوس کہ بعض اہل علم بھی بعض اوقات اپنے محافل میں اس قسم کی نعتیں سنوا کر،گناہ کے مرتکب ہوجاتے ہیں ۔ ایک صاحب تھے۔ وہ نعتیں لکھتے تھے ، ایک اور صاحب ان سے ملنے آئے تو انہوںنے دیکھا کہ انہوں نے ایئرفون لگایا ہوا ہے اور کچھ لکھ رہے ہیں ۔ پوچھا کیا لکھ رہے ہیں ، کہا کہ میں گانا سن سن کر نعت لکھ رہا ہوں۔کیا قیامت ہے؟ اب تو ایسی بے حیائی اور بے حسی آگئی ہے کہ باقاعدہ لکھتے ہیں بہ طرزفلاں ، سٹیج سے اعلان ہوتا ہے کہ ابھی فلاں نعت خواں آپ کو بہ طرز فلاںنعت سنائیں گے ۔ وہ گانا بھی ان کے ساتھ بتا دیتے ہیں ۔ اب بتائیں کوئی اتنی ڈھٹائی کے ساتھ نعت کہے گا توکیا وہ نعت ٹھیک ہوگی؟ یہ انتہائی درجے کی بغاوت ہے ۔ اس طرح بعض نعتوں کے سات طبلہ کے آواز کی مشابہت کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے ۔کوئی غور نہ کرے تو پتہ چلتا ہے کہ ساتھ طبلہ بج رہا ہے ،تو ایسی نعتوں کا کہنا ، پڑھنا اور سننا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ ایک جگہ محفل نعت خوانی کے نعت خوانوں کی تواضع احقر کے ذمّے تھی ۔ان سے جب درخواست کی گئی کہ از راہ کرم ایسی نعتیں نہ پڑھیں جو گانے کی طرز پر ہوں تو دونوں نے بیک زبان کہا کہ اب تو ساری نعتیں ایسی ہوتی ہیںحالانکہ ان کا ایسا کہنا غلط تھا ۔﴿ احقر نے ایک CDپرتقریباً 500کے لگ بھگ ایسی نعتیں جو گانے کی طرز پر نہیں ہیں، جمع کرلیں﴾
جب یہ چیزوں شروع ہوئیں تو میرا خیال تھا کہ میں اس پر کچھ لکھوں گا اور ماہنامہ البلاغ اور دوسرے رسالوں کو بھیجوں گا تو اللہ بھلا کرے ضرب مومن والوں کا ۔ انہوں نے یہ کام کردیا اور اس کے بارے میں تفصیل سے لکھا کہ یہ حرام ہے ۔ واقعتا ایسی نعتیں سننا اور ایسی نعتیں پڑھنا اور لکھنا حرام ہیں ۔ باقی نعت بذات خود بہت اونچا کلام ہے ۔ بڑے بڑے صحابہ نے نعتیں کہی ہیں ، حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، حضرت عمر ؓ ، حضرت عثمان ؓ ، حضرت علی ؓ حضرت فاطمہ ؓ ، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ، حضرت کعب ؓ ، حضرت حسان بن ثابت ؓ تو بہت مشہور ہیں ۔ تو اکابر صحابہ نے نعتیں کہی ہیں ۔ لہذا کوئی ایسی بات نہیں ۔ ہمارے شیخ حضرت مولانا محمد اشرف صاحب ؒ فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں قران شریف کی تلاوت کررہا تھا کہ ،
لَوْاَنْزَلْنَا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہ، خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ
جب یہ آیت پڑھی تو میرے قلب پر وارد ہوا کہ یہ نعت ہے۔ فرماتے ہیں میں نے سوچا کہ یہ نعت کیسے ہے حالانکہ اس کے آگے تو سارے اللہ کے صفات آرہے ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ پھر میرے قلب پر وارد ہوا کہ اللہ پاک بتا رہے ہیں کہ اگر میں یہ قرآن اگر کسی پہاڑ کے اوپر نازل کرتا تو وہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتا ۔ یہ تو آپ ﷺِ کا قلب ہے جس نے اس کو برداشت کیا ہے ۔ تو واقعی یہ نعت ہے ۔ بہر حال قرآن میں اور بھی نعتیں ہے
وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم ٍکیا ہے ؟
یٰسٓ﴿۱﴾ وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ﴿۲﴾ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ﴿۳﴾ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴿۴﴾
یہ کیا ہے ۔ احادیث شریفہ کے اندر بھی نعت موجود ، صحابہؓ سے بھی نعت کہنا ثابت ، تو نعت کہنے ،سننے پرپابندی کیسے ہوسکتی ہے؟ پابندی صرف یہ ہے کہ نعت ، صحیح معنوں میں نعت ہو اور صحیح طریقے سے پڑھی جائے ۔ سماع کے جو قوانین ہیں وہ نعت پر بھی لاگو ہوتے ہیں یعنی کلام صحیح ہو ، سننے والے عارفین ہوں ، پڑھنے والا بھی عارف ہو، مجلس میں عورت اورکم عمر لڑکا نہ ہو ۔نابالغ لڑکوں سے نعتیں پڑھوانا بھی مناسب نہیں، میرا چھوٹا بیٹا مجھے بہت کہتا تھا کہ میں نعت پڑھوں لیکن میں نے اس وقت تک اسے جازت نہیں دی جب تک اس نے قران پاک تراویح میں نہیں سنا یا،۔ اس طرح بعض لوگ عورتوں سے نعتیں سنتے ہیں ،ٹی وی پر بھی عورتیں نعت پڑھتی نظر آتی ہیں ، یہ انتہائی بری حرکت ہے ۔ اس طرح سماع کی چوتھی شرط یہ ہے کہ آلات چنگ و ربا ب نہ باشد ، یعنی musical instruments ساتھ نہ ہو ں ۔ تو ان پابندیوں کے ساتھ اگر کوئی نعت سنتا ہے تو ٹھیک ہے اس میں کوئی حرج نہیں ، کیونکہ نعت بہت بڑی چیز ہے اس سے ماشاء اللہ بہت جلد فیض حاصل ہوجاتاہے ۔ آپ ﷺِ کی محبت حاصل ہوجاتی ہے ۔ حضرت حاجی محمد امین صاحبؒ کی نعتیں ، مولانا جامی ؒ ، علامہ اقبال مرحوم اس طرح اور بہت سے شعرا ء ہیں جنہوں نے بڑی اچھی نعتیں لکھی ہیں ، اس سے واقعی بہت فائدہ ہوتا ہے ۔ اللہ جل شانہ ہمیں سمجھنے کی اور صحیح بات کہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔وما علینا الالبلاغ ۔