اَلْحَمْدُ ِﷲ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ۔اَلصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَم ُ عَلیٰ خَاتَمَ النَّبِیینِ۔اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اﷲ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ۔ وَاتَّقُوا اللّٰہَ۔ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ ﴿18﴾ وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰھُمْ اَنْفُسَھُمْ۔ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ﴿19﴾ لَا یَسْتَوِیْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ۔ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ھُمُ الْفَآئِزُوْنَ﴿20﴾ ۔
اے ایمان والو اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ بھال لے کہ کل قیامت کے واسطے اس نے کیا ذخیرہ بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ تعالیٰ کو تمارے سب اعمال کی خبر ہے اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہو جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام سے بے پروائی کی تو اللہ تعالیٰ نے خود ان کو ان کی جان سے بے پرواہ بنادیا یہی لوگ نافرمان ہیں ۔اہل نار اور اہل جنت باہم برابر نہیں جو اہل جنت ہیں وہ کامیاب لوگ ہیں اور اہل نار ناکام ہیں ۔
بزرگو اور دوستویہ جو چند آیات مبارک آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ جلہ شانہ نے مومنین سے خطاب فرمایا ہے کہ اللہ سے ڈرو. اصل میں اللہ تعالیٰ سے مومن ہی ڈر سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں ہے وہ کیسے اللہ تعالیٰ سے ڈرے گا ۔سب سے پہلے تو کسی چیز کو ماننا ہوتا ہے اور جاننا ہوتا ہے پھر ا س کے بعد جو عمل کرنا ہوتا ہے تو انسان عمل کرسکتا ہے اگر کوئی کسی کو مانتا ہی نہیں تو وہ اس کی بات پر کوئی کیسے عمل کرسکتا ہے یہاں پر بھی مومنین سے خطاب ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور پھر دوسری بات یہ فرمائی کہ غور کرو اور سوچو کہ ہم لوگوں نے قیامت کے واسطے کیا ذخیرہ کیا ہے ۔
قیامت کا دن اٹل ہے وہ تو آنا ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے جب قیامت کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے تو اور یہ بھی پتا ہے کہ وہاں پر اعمال کی پوچھ ہوگی اعمال کو تولا جائے گا۔ جو اچھے اعمال والے ہوں گے ان کو اللہ نوازیں گے ان پر کرم فرمائیں گے ان کو انعام فرمائیں گے جن کے اعمال کمزور ہوں گے اور ان کے گناہ زیادہ ہوں گے تو ان کو ان کی سزا ہوگی اور اگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل معاف فرمادیں تو یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے لیکن اگر انصاف کرنا چاہیں تو سزا دے سکتے ہیں اس لحاظ سے ابھی سے سوچنا چاہئے کہ ہم نے قیامت کے دن کون سی چیز کا ذخیرہ کیا ہے ہمارے اعمال کیا ہیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہئے یوں سمجھ لیجئے کہ ایک تو انسان اپنا محاسبہ کرے کہ مجھے کرنا کیا ہے اور پھر جب کرے تو پھر سوچے کہ میں نے کیا کیا ہے ؟
اب ظاہر ہے کہ دو صورتیں ہوسکتی ہوں گی کہ یا تو اس نے اچھا کام کیا ہوگا یا اس نے برا کام کیا ہوگا اگر اچھا کام کیا ہوگا تو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور ا س کو برقرار رکھے تاکہ نیکی مزید بڑھ سکے ۔اگر اس نے برا کام کیا ہے تو وہ اس پر استغفار کرے اللہ پاک سے معافی مانگے اور اس عمل کی تلافی کرے اگر ہوسکتا ہو مثال کے طور پر اگر اس نے نماز نہیں پڑھی تو جو آدمی نماز نہیں پڑھتا تو اس پر اس کی چھوٹ نہیں ہوگی کہ وہ نماز پڑھنی شروع کردے یہ تو ہے ہی کیونکہ اگر نماز نہیں پڑھ رہا تو مزید وبال آرہا ہے یعنی مزید قضا ء نمازیں جمع ہورہی ہیں لیکن جو گزشتہ نمازیں اس نے نہیں پڑھیں ان کی قضاء بھی ادا کرنی پڑے گی بعض لوگوں نے عجیب مسئلہ بنایا ہوا ہے شیطان انسان کو سکھاتا ہے کہ ایک جمعہ مبارک آئیگارمضان شریف میں یعنی جمعتہ ا لوادع اس میں پورے دن نمازیں پڑھ لو جماعت کے ساتھ تو بس ساری نمازیں ادا ہوجاہیں گی ۔عجیب بات یہ ہے کہ لوگ یہ مسئلے کہاں سے لاتے ہیں لیکن جب نفس کو ایک چھوٹ مل رہی ہو تو ا س کے لیے بہانے مل جاتے ہیں تو یہ ایک بہانہ ہے جو نفس نے تراشا ہے اور شیطان نے سکھایا ہے۔ اس کی حقیقت کوئی نہیں ہے جب ہماری نمازیں پوری نہیں ہوتیں تو اس وقت تک قضاء نمازیں پڑھنی چاہیے ۔ ہر نماز کے ساتھ کم از کم ایک نماز قضا پڑھے ۔ نوافل کی کوئی حد نہیں تو جس کے ذمہ فرض کی قضاء نمازیں ہیں تو اس کو قضاءنمازیں ہی پڑھنی چاہیے نوافل کو ترک کردیں اور آگے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اب دیکھیئے یہاں پر دو دفعہ اﷲ تعالیٰ ٰ سے ڈرنے کافرمایا ہے یعنی پہلے بھی ڈرنے کا حکم آگیا اور پھر اس کے بعد پھر ڈرنے کا حکم فرمایا ہے ایک پہلے ڈرنے کا حکم فرمایا اور پھر اس کے بعد پھر ڈرنے کا حکم فرمایا ہے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ تمارے سب اعمال کو جانتے ہیں تو جس کو یہ معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کو میری ہر ہر چیز معلوم ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرے گا تو کیا کرے گا تو ا س کو لازما ًاللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجاؤ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام سے بے پروائی کی اللہ تعالیٰ کے احکام تو پہلے سے آتے ر ہے ہیں ہر نبی کیا کرتے رہے ۔اﷲ کے احکام تو آتے رہے لیکن جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام کو نہیں مانا اور احکام سے ا اعراض کیا ہے تو اللہ تعالیٰ جل شانہ نے ان کی عقل کو سلب کر لیا ۔عقل کس چیز کے لیے ہوتی ہے اپنے خیر اور شر کو سمجھنے کے لیے ہوتی ہے ایک بیوقوف انسان انگارے اور موتی میں فرق نہیں کرے گا جیسے بچہ ہوتا ہے اب بچے کو کیا پتا کہ انگارہ کیا چیز ہے او ر موتی کیا چیز ہوتی ہے ؟ ممکن ہے کہ وہ موتی کو چھوڑ کر انگارے کو پکڑنا شروع کردے تو اس طرح جس میں عقل نہیں ہوتی اور اپنے خیر اور شر کو نہیں جانتا تو یہا ں پر چونکہ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام سے نافرمانی کی یعنی اپنی عقل کی ناقدری کی اور جس چیز کی ناقدری ہوتی ہے تو منعم اس نعمت سے اس اہل نعمت کو محروم کرسکتا ہے تو گویا کہ اس ناقدری کے پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے نفع کی سمجھ سے بے پرواہ کردیا یعنی جن چیزوں میں ان کے لیے خیر تھا اس کو تو حاصل نہیں کیا اور جن چیزوں میں ان کے لیے شر تھا ان کو حاصل کر لیا مثال کے طور پر میں عرض کرتا ہوں کہ سارے عقلاء سے پوچھو کہ وقت کو ضائع کرنا اچھی چیز ہے یا نقصان دہ چیز ہے تو سب کہیں گے کہ نقصان دہ عمل ہے تو پھر ان عقلاء سے پوچھ کہ تاش کا کھیلنا وقت ضیاع ہے یا نہیں تو سب کہیں گے کہ وقت کا ضیاع ہے تو پھر تاش کیوں کھیلتے ہو ؟ صاف بات ہے 2+2=4کی طرح بات ہے اس میں کوئی فلسفہ تو نہیں ہے یا ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کر کوئی ڈرامہ وغیرہ دیکھنا ۔بعض لوگ تو اشتہار ہی دیکھتے رہتے ہیں یہ ٹی وی اور اشتہار دیکھنا وقت کا ضیاع ہے یا نہیں ؟ آپ کہیں کہ ہاں واقعی یہ عمل وقت کا ضائع کرنا ہے تو پھر کیوں دیکھتے ہو؟ اس طرح اور بہت سی چیزیں جن کو انگلیوں پر بتایا جاسکتا ہے کہ اس میں یہ نقصان ہے اور اس میں یہ نقصان ہے تو وہ مانتے جائیں گے پھر بھی چھوڑیں گے نہیں۔ اب بتائیں یہ کیا چیز ہے یہ وقت کا ضیاع ہے یا نہیں ؟جو لوگ اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہوئے اور جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام سے نافرمانی کی اب اللہ تعالیٰ نے ان کے اوپر ایسی جہالت مسلط کردی یعنی پڑھی لکھی جہالت کہ وہ اپنے خیر اور شر کو نہیں جانتے وہ اپنے خیر اور شر سے بے پروا ہیں اور ان چیزوں کے پیچھے پڑ گئے جن میں ان کا نقصان ہے یہ تو وہ باتیں میں نے آپ کو بتائیں ہیں جو میں اس ممبر پر بیٹھ کرسکتا ہوں لیکن جو کام انسان جہالت کی وجہ سے کرتا ہے اور وہ باتیں اس ممبر کے شایان شان نہیں ہیں وہ میں یہاں نہیں کر سکتا عقلاء ان کو خود سمجھ لیں کس چیز میں انسا ن کا خیر ہوتا ہے اور کس چیز میں انسان کا شر ہوتا ہے اور انسان کس طرح اپنے خیر کو چھوڑ کر شر کے پیچھے بھاگتا ہے یہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا کے طور پر ہی ہوسکتا ہے ورنہ اور کوئی اور بات نہیں ہے میں بہت بڑے بڑے پروفیسروں کو بہت فضول فضول قسم کی حرکات کرتے ہوئے دیکھا ہے اگر ان سے سوال کیا جائے یہ آپ نے کون سی حرکت کرلی ہے تو اس کا کوئی جواب نہیں دیں گے بچوں کی طرح حرکتیں ۔میرے خیال سے جو پروفیسر حضرات ہیں وہ اس بات کی تائید کریں گے ۔وجہ کیا ہے صرف اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی اور بے پروائی ۔نتیجتاً عقل سلب ہوگئی آپ ان سے کوئی بات کریں تو مانیں گے ایسا ہی ہے اس کے باوجود وہ کام کریں گے تو یہ سز ا کے طور پر ہوتا ہے جو یہود تھے ان کو جتنے حقائق کا پتا تھا شاید ہی کسی اور کا پتا ہو لیکن اس دنیا میں حقائق کے سب سے زیادہ دشمن یہود ہی تھے کیا وہ بے وقوف ہیں۔ کیا دنیا کی عرف عام میں ان کو بے وقوف کہا جاتا ہے؟ یہ آئن سٹائن یہودی تھا ۔بہت بڑا سائنس دان تھا۔ اسی طرح بڑے بڑے پروفیسر جن کا ایک نام ہے لیکن کیا ہے۔ حقائق کے دشمن۔ وجہ کیا ہے عناد۔حسد۔ اب چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو برداشت نہیں کر سکتے تھے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عناد کی وجہ سے حقائق سے بغاوت کرلی نتیجتاً وہ اپنے شر کے پیچھے خود ہی بھاگنے لگے اور یہود کے اوپر بار بار عذاب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلط ہوا ہے بار بار سبق آموز عذاب جسے بالکل ملیا میٹ ہونے کے قریب ہوجاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کو عبرت نہیں ہوتی ۔کررہے ہیں جو کچھ کر رہے ہیں۔ تو جو یہود کے نقش قدم پر چلے گا اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا بیشک اس کا نام مسلمان ہو مثال کے طور پر میں آپ کو موٹی سی بات بتاتا ہوں چھوتی چھوٹی باتوں کے پیچھے میں نہیں جاتا وہ انسان خود سوچ سکتا ہے یہ نکٹائی کو ہم دیکھ لیں ابھی تک مجھے کوئی عاقل آدمی ایسا نہیں ملا جو مجھے اس کا کوئی فائدہ بتاسکے اور نقصان میں بتا سکتا ہوں بالکل واضع چیزیں ہیں آپ ذرا اس پر غور تو کریں کیا آپ کو یہ صلیب نظر نہیں آرہا ۔ کیا یہ صلیب نہیں ہے ؟یہ صلیب کا سب سے ماڈرن صورت ہے یہ میرے اپنے ذہن کی کوئی بات ہوتی تو پھر تھا لیکن میری اس بات کی تائید ﴿پیٹر ﴾جو پادری تھے ﴿ادارہ ﴾کے پڑھے لکھے تھے ان کے کیسٹ میں نے کل سنی ہے اس کیسٹ میں انہوں نے میری اس بات کی تائید کی ہے کہ بالکل صلیب کی صورت ہے اگر کوئی سننا چاہے تو وہ کیسٹ اس کو پیش کی جاسکتی ہے لیکن جو مسلمان اس قسم کے لوگ ہیں بڑے فخر سے اس کوپہن رہے ہیں لیکن ان کو کوئی پرواہ نہیں ہے اگر کوئی ان کو اس کے صلیب ہونے کے بارے میں بتادے تو وہ شاید ناراض ہوجائیں ۔ حالانکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے چلیں اس کا کوئی فائدہ تو ہوتا اس کا کوئی دنیاوی فائدہ بھی نہیں ہے اور جو لوگ ٹائی نہیں پہنتے ان کو کون سا نقصان ہوا ہے اور جو ٹائی پہنتے ہیں ان کو کیا فائدہ ہوا ہے اور یہ بھی عرض کرتا ہوں اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم یہ عیسائیوں والا لباس پہن کر ان کے منظور نظر ہوجائیں گے تو یہ ہماری بھول ہے۔ یقین جانیں وہ ہمیں بے وقوف سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے ان کو بے وقوف بنایا ہوا ہے تاریخ میں ایسی مثالیں ملتی ہیں ہلاکو خان کے وقت میں جن مسلمانوں نے غداری کی تو اس نے ان کو بلایا جن مسلمانوں نے غداری کر کے اپنے مسلمانوں کو شہید کروایا تو ہلاکو خان نے ان کو بلا کر ان غدار مسلمانوں کو ایک لائن میں کھڑا کر کے ان کو ہلاک کروایا تو ایسے لوگوں کی وقعت ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں ہوتی ہے لیکن یہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم ان کے ہاں بہت محترم ہیں یقین جانیے ان کے ہاں اس شخص کا وزن ہے جو اپنے اصولوں پر پکا ہے ۔
میں جرمنی میں دو سال رہا ہوں تو وہاں پر مجھے اللہ جل شانہ نے بہت عزت عطا فرمائی اس کی بظاہر وجہ یہ بھی کہ میں نے یہ پاکستانی لباس پہنا ہوا تھا اپنے لباس کو میں نے تبدیل نہیں کیا اس لیے میں یہ ساری عزت ملی چلیں وہاں پر مسلمانوں نے میری عزت کی یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے،ترکوں اور عربوں نے میری عزت کی سمجھ میں آنی والی بات ہے لیکن جرمنوں نے میری عزت کی اب بتائیں آخر ان لوگوں کو کیا ضرورت تھی کہ انہوں نے میری عزت کی ان جرمنوں کی جو سرگوشیاں تھیں اس سے مجھے اندازہ ہو ا کہ ایک میرے دفتر کے ساتھی تھے کلیان ان کا نام تھا ایک دن وہ میرے گھر آئے ہوئے تھے تو وہ مجھ سے کہنے لگے کہ تم کو پتا ہے کہ میں تم کو اتنا پسند کیوں کرتا ہوں میں نے کہا کہ مجھے تو پتا نہیں ہے کہ آپ مجھے کیوں اتنا زیادہ زیادہ پسند کرتے ہیں کہتے ہیں کہ ایک وجہ ہے میں نے پوچھا کیا وجہ ہے تو اس نے کہا you are not impressed by othersتم دوسروں سے متاثر نہیں ہوتے ہو اس نے کہا آپ میں دو باتیں ہیں ایک توجب آپ صبح دفتر میں آتے ہیں تو سب کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ کسی دوسرے سے متاثر نہیں ہوتے اور اپنا لباس پہنتے ہیں اچھا میرے ساتھ وہاں ایک اور واقعہ بھی اس طر ح پیش آیا کہ وہاں میں ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور میں گیا تھاتو میں وہاں میں لائن میں کھڑا تھا تو ایک جرمن جو تقریباتیس سال کے ہوں گے تو وہ مجھے گھور گھور کر دیکھ رہے تھے اور مجھے برا محسوس ہو ا بہر حال اس سے رہا نہ گیا تو اس نے مجھ سے کہا کہ میں آ پ سے سوال کر سکتا ہوں تو میں نے کہا بالکل کر سکتے ہو تو اس نے پوچھا آپ کس ملک سے آئے ہوئے ہیں تو میں نے جواب دیا پاکستان سے ۔
اس نے کہا پاکستان سے بہت سے لوگ آئے ہوئے ہیں لیکن وہ آپ کے لباس میں نہیں ہیں تو آپ نے یہ لباس کیوں پہنا ہوا ہے ؟ تو میں نے کہا یہ تو آپ ان سے پوچھیں میں تو اپنے ملک سے آیا ہوں تو میں اپنے ملک کا لباس پہنا ہوا ہے تو جو لوگ پاکستان سے آئے ہوئے ہیں اور انہوں نے اپنے ملک کا لباس نہیں پہنا ہوا ہے ان سے پوچھو کہ تو ان کے پاس اس کی کیا دلیل ہے ؟ اس نے کہا کہ آپ کے پاس بھی کوئی Logic﴿دلیل ﴾ ہوگی میں نے کہا کہ میرے پاس logic یہ ہے کہ میری جتنی ضروریات ہیں وہ اس لباس میں اچھی طرح پوری ہوسکتی ہیں میرا لباس کوئی آپ کے لباس سے سستا نہیں ہے آپ کا لباس میں یہاں سے خرید سکتا ہوں لیکن مجھے اپنا لباس پاکستان سے منگوانا پڑتا ہے اور پیسے بھی خرچ کرنے پڑتے ہیں لیکن اس میں میری ضروریات آسانی سے پوری ہوسکتی ہیں دوسری بات یہ ہے کہ میں لباس اپنے لیے پہنتا ہوں کسی اور کے لیے نہیں پہنتا ایک لباس میں ایسا پہنوں کہ اس میں مجھے راحت نہ ہو لیکن لوگ کہیں کہ اچھا لباس پہنا ہوا ہے تو کیا وہ لباس مجھے پہنا چاہیئے یعنی دوسرے لوگوں کو تو فائدہ ہو اور مجھے نقصان ہو تواس کے زبان سے ایک بات نکلی مجھے کہنے لگے I like such people who are not impressed by others.میں اس آدمی کو پسند کرتا ہوں جو دوسروں سے متاثر نہ ہو میں صرف اتنا عرض کرتا ہو ں کہ اللہ پاک نے عز ت انہی چیزوں میں رکھی ہوئی ہے
وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴿۹۳۱﴾
ترجمہ ۔تم تم لوگ ہی غالب ہو اگر تم ایمان والے ہو ۔اللہ پاک اب بھی اس میں عزت رکھی ہے اثر ان لوگوں سے ہوتا ہے جو دوسروں سے تاثر نہیں لیتے ایک دعا ہے ۔
الّٰھم ذدنا و لا تنقصنا و اکرمنا و لا تھنا و آعطنا و لا تحرمنا و آثرنا و لا تؤثر علینا و ارضنا و ار ضِ عناِ
یعنی ہمیں متاثر نہیں ہونا چاہئے اور دوسروں کو متاثر کرنا چاہئے اس صورت میں کہ ہم حق پر ہوں۔ ہمیشہ وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو دوسروں سے متاثر نہیں ہوتے جو لوگ بھیڑ کی چال چلتے ہیں وہ اپنی زندگی بھیڑوں کی طرح ضائع کر لیتے ہیں ۔لہذا ہمیں بھیڑوں کی طرح نہیں چلنا چاہئے باقاعدہ سوچ سمجھ کر چلنا چاہئے ہمارے ایک دوست ہیں ان سے ہمارے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ آپ اس لباس یعنی شلوار قمیص میں کیوں آتے ہیں ؟اس وقت ضیاء الحق کا دور نہیں آیا تھا تو دفتروں میں پینٹ کوٹ ضروری تھا تو ڈائریکٹر جنرل نے اس سے کہا کہ آپ شلوار قمیض میں کیو ں آتے ہیں آپ کو تو باقاعدہ پراپرڈریس میں ہونا چاہئے میں تو آپ کو بہت اچھا سمجھتا ہوں لیکن آپ میں یہ کمزوری ہے تو ہمارے دوست نے آگے سے بہت عجیب کہی اس نے کہا سر آپ میرے استا د ہیں میں آ پ کی قدر کرتا ہوں لیکن انتہائی ادب کے ساتھ میں آپ سے عرض کرتا ہو ں کہ آپ لارڈ کرزن کے لباس میں ہیں تو میں آپ کو کچھ نہیں کہہ رہا اور میں مسلمانوں کے لباس میں ہوں تو ڈائریکٹر صاحب نے اس کو اسی وقت چھوڑ دیا اور اس کے بعد ڈائریکٹر صاحب نے کبھی اس سے اس بارے میں بات نہیں کی بات یہ ہے کہ ہم کو خود اپنے معیار کو دیکھنا چاہئے ۔ہمار ا معیار کون سا ہے ۔ ہمارا معیار آپ کی زندگی ہے
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَوَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا ﴿۱۲﴾
جسکا مفہوم یہ ہے کہ ہر اس شخص کے لئے جو اﷲ تعالیٰ ٰ کے ساتھ اچھی حالت میں ملنا چاہتا ہے ،آخرت پر یقین رکھتا ہے اور اﷲ تعالیٰ ٰ کا ذکر کثرت کے ساتھ کرتا ہے ، رسول اﷲ ﷺِ کی زندگی میں بہترین نمونہ موجود ہے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس اصلی لباس ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک سب سے افضل اور اصل حلیہ مبارک ہے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کا انداز سب سے اچھا انداز ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بھی عمل سب سے اچھا عمل ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ سب سے اچھا طریقہ ہے ۔بس یہ باتیں ہمیں اپنے ذہن میں بٹھا لینی چاہئے یہی ہمارا منشور ہونا چاہئے ۔یہی ہمار ا آئین ہونا چاہئے اور اسی پر ہمیں مرنا چاہئے یہی ہمار ی ابتدا ہے اور یہی ہماری انتہا ہے اگر یہ ہمارے ذہن میں ہے اور عمل بھی ہے تو ہم کامیاب ہیں اس لیے ہم جتنا بھی آگے پیچھے ہٹیں گے اتنا ہی ہمارا اس میں نقصان ہے سنتوں کے اوپر چلنے کا جذبہ ہمیشہ رہنا چاہئے بے شک اپنی کمزوری کی وجہ سے بعض سنتوں کو پورا نہ کرسکے لیکن اس کو اپنی کمزوری سمجھے کہ یہ میری کمزوری ہے کیونکہ بعض سنتیں عزیمت کی ہوتی ہیں اور بعض سنتیں آسان بھی ہوتی ہیں توجو عزیمت کی سنتیں ہیں ان میں بھی یہ جذبہ ہونا چاہئے کہ کاش میں ان کو پورا کرسکتا ۔حضرت مولانا زکریا صاحب نے ایک دفعہ فرمایا کہ جو سنتیں عزیمت کی ہوتی ہیں اس میں آدمی یہ غور کرے جیسے آدمی شوگر کا مریض ہوتا ہے تو وہ چینی کو وہ پسند کرتا ہے بلکہ بعض اوقات چپکے چپکے کھاتا بھی ہے کیوں کہ چینی پر پابندی لگ جاتی ہے تو پھر گھر میں چپکے چپکے کھاتے بھی ہیں تو چینی کو وہ بھی پسند کرتا ہے لیکن کھا نہیں سکتا کیونکہ ڈاکٹر نے اس کو منع کیا ہے اسی طرح اگر ہم بعض سنتوں کو پورا نہ کرسکیں تو ہم یہ سمجھ لیں کہ ا صل بات تویہی ہے دل میں ہماری یہی بات ہو۔البتہ یہ بات الگ ہے کہ ہم عمل جو ہے نا وہ ہم تدریج کے ساتھ کرسکتے ہیں۔ باقاعدہ نگرانی میں کرسکتے ہیں ۔اور اگر ہم باقاعدہ نگرانی میں عمل کررہے ہوں تو انشاء اللہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بہت سی ایسی سنتوں پر عمل نصیب فرما دیں گے جتنی سنتوں پر عمل ہوجائے اس پر تو ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور جن سنتوں پر عمل رہ جائے تو اس پر استغفار کریں ۔ تو یہ جو آج کا جو مرااقبہ ہے وہ کیا ہے کہ ہم یہ سوچیں کہ ہم نے کونسا ذخیرہ جمع کیا ہے اور ذخیرہ کون سی چیزوں کا ہے یہی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے یہی تو راستہ ہے تو جتنی باتیں ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر کیئے ہوں گے وہ تو ہمارے لیے فائدے کی بات ہے اور جتنی ہم نے ضائع کی ہوگی اتنی ہی وہ ہمارے لیے نقصان کی بات ہوگی۔اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ دو چیزیں ہوتی ہیں ایک مشارطہ اور ایک محاسبہ اور دونوں مل کر بن جاتے ہیں مراقبہ ۔
مشارطہ یہ ہے کہ ہم غور کریں کہ ہم نے کونسا عمل کرنا ہے طے کرلیں کہ ہم نے کیا کرنا ہے اور محاسبہ یہ ہے کہ ہم نے جو کیا ہے وہ غلط کیا ہے یا ٹھیک کیا ہے۔ اس کی ہم باقاعدہ جانچ پر کھ کر لیں کہ معیار سے کتنا آگے پیچھے ہے۔پس ایک بات تو یہ ہے کہ میں نے اس چیز کو یا عمل کو کیسے بنانا ہے اس کے لئے علم نافع کی ضرورت ہے ۔اس کو تو مشارطہ کہتے ہیں اور جب عمل ہوجائے تو اب اس بات کا جائزہ لینا کہ وہ عمل مطلوبہ طریقے سے کتنا کم ہے ؟ یعنی جیسا بنانا تھا ویسا بنا یا نہیں؟ اس کو محاسبہ کہتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ صبح جب انسان اٹھے تو اپنے دل میں یہ سوچے کہ آج مجھے کیا کرنا ہے یعنی اللہ تعالیٰ ٰ نے مجھے جو نئی زندگی دی ہے کیونکہ ہر نیند کے بعد انسان کو ایک نئی زندگی مل رہی ہے تو اللہ پاک نے جو مجھے نئی زندگی دی ہے اور مہلت دی ہے اس مہلت کا میں کیا فائدہ اٹھا سکتا ہوں؟ موت کے وقت انسان کو زندگی کی قدر آئے گی تو انسان کے خیالات اس وقت ایسے ہوتے ہیں کہ میں تو یہ بھی کرسکتا تھا اور وہ بھی کرسکتا تھا اور میں نے نہیں کیا تو اس وقت افسوس ہوتا ہے تو اب جو اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں زندگی دی ہے تو اس کا تھوڑا ساجائزہ لیں کہ ہم کیا کیا اچھا کام کرسکتے ہیں ۔یعنی دن کے وقت ابتداء میں ہم یہ سوچیں اور دن کے ا نتہاء میں یہ سوچیں کہ ہم نے جو کام کیے ہیں ان میں سے کتنے ٹھیک ہیں اور کتنے غلط ہیں اگر ہمیں پتا چل جائے کہ ہم نے کچھ غلط کام کیے ہیں تو ہم پھر کریں اس پر استغفار اور آئندہ کے لیے اس کو ٹھیک کرنے کا کر لیں عزم۔ یہ ہے توبہ یعنی ہر دن کو مثبت اچھے اعمال کی نیت اور رات کو توبہ غلط اعمال سے اور یہی سلسلہ ہمارا روزانہ چلتا رہے ۔یہ مراقبہ ہے اصلی لیکن اس اصلی مراقبہ تک پہنچنے کے لیے ہمیں باقاعدہ علاجی مراقبہ سے گزرنا پڑتا ہے جیسے ذکر کے بارے میں میں نے عرض کیا تھا کہ ذکر اصلی کیا ہے کہ ہر وقت دھیان رہے دل میں کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں یعنی ہر وقت یہ دل میں دھیان رہے لیکن اس اصلی ذکر تک پہنچنے کے لیے جو علاج کا ذکرہے وہ کرنا پڑتا ہے اور اس کو یہاں تک کرنا پڑتا ہے کہ یہ اصلی ذکر ہمارا دائمی ہوجائے اور وہ دل میں ایسا راسخ ہوجائے کہ ہمارا ہر وقت کا معمول بن جائے۔ اسی طریقہ سے یہ اصلی مراقبہ جوہے تو اس کو حاصل کرنے کے لیے علا ج والا مراقبہ کرنا پڑتا ہے۔ اب یہ علا ج والا مراقبہ کیا ہے ؟ توعلاج والے مراقبہ کا مطلب ہے کہ یہ مختلف سوچوں کا ایک تسلسل ہے۔ سب سے پہلے یہ کہ اللہ مجھے دیکھ رہے ہیں وہ جو نقشبندی حضرات ذکر خفی کراتے ہیں تو اس میں یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ محبت سے مجھے دیکھ رہے ہیں اور میرا دل بھی اللہ اللہ کررہا ہے تو یہ ذکر قلبی کا مراقبہ ہے یہ دل ہی دل میں دل ہی دل ذکر ہورہا ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ مراقبہ بھی ہورہا ہوتا ہے جب یہ ہونے لگتا ہے تو ا سکو ہم کہتے ہیں کہ لطیفہ قلب زندہ ہوگیا۔ پھر انسان لطیفہ قلب سے ترقی کرتا ہے تو لطیفہ روح پر چلا جاتا ہے لطیفہ روح دل کے باالمقابل دائیں پستان کے نیچے ہوتا ہے تو یہ بھی ذاکر ہوجاتا ہے یہ بھی زندہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح دوسرے کل لطائف کا مراقبہ کیا جاتا ہے تو وہ زندہ ہوجا تے ہیں۔پس لطیفہ قلب کے زندہ ہونے کے بعد لطیفہ روح کو زندہ کیا جاتا ہے پھر لطیفہ سر کو یہ دونوں لطیفوں یعنی لطیفہ قلب اور لطیفہ روح کے درمیا ن میں ہوتا ہے کسی کا جب یہ لطیفہ زندہ ہوجاتا ہے تو اس کے اوپر حقائق منکشف ہونا شروع ہوجاتے ہیں پھر اس شخص کو حقائق کا ادراک ہونے لگتا ہے اس کے بعد لطیفہ خفی آتا ہے یہ ہونٹوں سے ماتھے تک کے علاقے میں کہیں بھی محسوس ہوسکتا ہے اس لطیفہ خفی بھی زندہ ہوجاتا ہے اور باقاعدہ محسوس ہوتا ہے جب لطیفہ خفی بھی زندہ ہوجاتا ہے تو پھر لطیفہ اخفاء جو کہ بالکل دماغ کے وسط میں ہوتا ہے کیونکہ دماغ سارے جسم میں حاوی ہے اس لیے اس سے تمام لطائف زندہ ہوجاتے ہیں اور لطیفہ نفس بھی زندہ ہوجاتا ہے تو یہ نفس کے اوپر چوٹ پڑ رہی ہوتی ہے تو میں عرض کررہا تھا کہ یہ علاج والے مراقبات ہیں مقصود نہیں ہیں مقصود کونسا مراقبہ ہے جو میں نے ابھی ذکر کیا ہے جس کا قرآن میں ذکر ہے کہ آگے کیا بھیجا ہے اس کے بارے میں سوچنا ۔بس ہر وقت یہ فکر ہوجائے کہ میں نے آگے کیا بھیجا ہے ۔
اس میں نفس کا علاج بھی ہو جاتا ہے ۔ یہ کہ لطائف ہمارے زندہ ہوجائیں پھر لیکن یہ تحقیق ہے نقشبندی بزرگ حضرات کی۔ ہمارے اہل چشت بزرگ حضرات کی تحقیق یہ ہے کہ لطیفہ قلب کے اوپر اپنی محنت کرو کہ اس سے سارے لطائف خود بخود زندہ ہوجائیں اور ہر لطیفہ کے پیچھے نہ پڑو اور روح کی مثال ایسی ہے جیسے پمپ کو آپ پمپ کرتے ہیں اسی طرح پمپ جتنا نیچا جاتا ہے اتنا ہی پانی دور پھینکتا ہے اسی طرح ذکر دل میں گہرائی تک اترے گا تو یہ دور تک اثر کرے گا جب آپ پہلے دبائیں گے تو روح میں محسوس ہوگا پھر اور دبائیں گے تو لطیفہ سر میں محسوس ہوگا حتی کا پورے جسم میں پھیل جائے گا بات تو یہ بالکل ٹھیک ہے لیکن میں عرض کرتا ہوں ۔بعض لوگوں نے اس راستہ پر محنت کی ہی نہیں صرف قلب پر محنت کی ہے ان کے سارے لطائف زندہ ہوگئے اب آپ اس کو کیا کہیں گے اس طرح میں نے عرض کیا ہے کہ سب سلسلے ٹھیک ہیں ۔
نقشبندی کا طریقہ بھی ٹھیک ہے چشتی طریقہ بھی ٹھیک ہے قادریہ بھی ٹھیک ہے سہرور یہ طریقہ بھی ٹھیک ہے اس میں صرف مزاجوں مزاجوں کا فرق ہوتا ہے بعض لوگوں کا مزاج نقشبندی ہوتاہے ان کو اس کا طریقہ آسان ہوتا ہے بعض لوگ ایک ایک کر کے چلتے ہیں لیکن بعض لوگ کہتے ہیں ایک سب کو شروع کر لو تو پہنچ جاؤ گے تو وہ ان کے لیے آسان ہوتا ہے ایک طریقہ اور بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ ذکر لسانی کی اتنی کثرت کرو اتنی کثرت کر وکہ یہ خود بخود ہر جگہ پہنچ جائے اور وہ واقعتاً پہنچ جاتا ہے ۔
یعنی ذکر لسانی کی اتنی کثرت کرو کہ وہ جسم کے اندر ہر جگہ پہنچ جائے ۔تو یہ بھی ایک طریقہ ہے یہ طریقہ نسبتاً لمبا ہے لیکن ہے بہت دیر پا تو دوسرے سلسلے جو میں نے عرض کیے ہیں مثلا نقشبندی سلسلہ ۔چشتی سلسلہ وغیرہ یہ نسبتا آسان ہیں جلدی اپنے منزل تک پہنچ جاتا ہے لیکن اس کا قائم رکھنے کے لیے ظاہر ہے کچھ محنت کرنا پڑتی ہے یہ سارے کام نگرانی میں کرنے پڑتے ہیں اپنی طرف سے لطائف کی محنت شروع کرلی تو بجائے لطائف زندہ کرنے کے درمیان مین اپنی چولیں ہلادیں گے انسان کے جسم کے اندر چولیں ہوتی ہیں ۔
کسی کی چولیں ہل جائیں تو آگے پیچھے یہ چیزیں اس کو یہ ڈاکٹر لوگ ڈاکو مین وغیرہ کا نام دیتے ہیں تو اس وجہ سے نگرانی میں کام کیا تو پھر ڈاکو مین وغیرہ کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ۔کیونکہ ہر چیز کا اپنا ایک مسئلہ ہوتا ہے دیکھیں اگر سارے لوگ ایک ہی وقت میں ایک بہت بڑی اور بھاری بس کو بھی دھکا دیں تو بس چل پڑتی ہے اگر کوئی اکیلے زور لگا رہا ہو تو کیا وہ بس کو اپنی جگہ سے ہلا سکیں گے نہیں ہلا سکیں گے تو انہوں نے ایک طریقہ نکالاہے ،، وہ سب مل کر کہتے ہیں اے ہوں ،،اے ہوں ،،کر کے سب ایک آواز پر زور لگالیتے ہیں تو بس بڑی آرام سے نکل آتی ہے ۔تو جس کو یہ طریقہ آگیا تو وہ اس کو آرام سے نکال لیں گے ۔اگر کسی کو یہ طریقہ نہیں آتا تو وہ بس کو نہیں نکال سکیں گے اسی طرح حفظ قرآن کے کئی طریقے ہیں ایک آدمی پڑھتا رہتا ہے پڑھتا رہتا ہے اپنی طرف سے پڑھتا رہتا ہے مشکل میں جب کسی استاذ کے سامنے پڑھتا ہے تو وہ اس کو بتاتا ہے کہ یہ تیسرا سبق ہے یہ تیسرا منزل ہے اس طرح اسکو طریقے بتاتے ہیں حتی کے ہوتے ہوتے اس کو حاصل ہوجاتاہے یعنی ہر چیز کا اپنا ایک طریقہ ہوتا ہے ڈھنگ ہوتا ہے سارے کام اگر طریقہ سے کیے جائیں تو آسانی سے ہوجاتے ہیں اگر طریقہ سے نہ کیے جائیں تو وہ وقت زیادہ لگ جاتاہے اور کام کم ہوتا ہے لہذا بغیر استاد کے ایسے کام نہیں کرنے چاہئے اگر استاد ہو تو اس کی نگرانی میں کام آسانی سے ہوسکتا ہے اور یہ واقعی بڑی پکی بات ہے ۔دیکھیں نا حضرت مجدد لاف ثانی انہوں نے اکبر کے دین الٰہی کو ختم کردیا یا ہلا دیا اس کو تو کون سے طریقے سے آیا تھا یہی نقشبندی طریقہ تھا ۔انہوں نے اپنے لطائف اور سب چیزوں کو زندہ کرلیا تھا اللہ تعالیٰ نے ان کو قوت عطافرمائی اس طرح اور بہت سارے حضرات کا نام لیتے جائیں تو یہ سلسلہ چلتا جائے گا کوئی نقشبندی ہے کوئی چشتی ہے کوئی قادری ہے کوئی سہروردیہ ہے اللہ تعالیٰ نے سب سے کام لیا ہے ۔
تو یہ طریقے سارے ٹھیک ہیں لیکن طریقہ طریقہ ہوتا ہے طریقہ کا مطلب یہ ہوتاہے کہ کسی خاص طریقہ سے کام کیا جائے اس لیے تو اس کو طریقت کہتے ہیں کیونکہ اسمیں طریقہ سیکھایا جاتاہے تو اگر باقاعدہ طریقے سے ہو تو بالکل ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ بہت برکت دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں بھی صحیح طریقے سے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
اور جو اصل مقصود ہے اس سے بھی اللہ تعالیٰ کا دھیان اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا استحضار ہم سب کو حاصل ہوجائے کہ اللہ ہم سب سے راضی ہوجائے اور ہمیں ہمارے نقصان سے ہمیں بچائے اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے ۔
و آخر دعوانا الحمداللہ رب العالمین