اندر ہی اند ر تراش و خراش جاری رکو اور نفس کی اصلاح سے آخری سانس تک فارغ نہ بیٹھنا ۔آخری دم تک کام کرتے رہ یہاں تک کہ آخر وقت آجائے ممکن ہے کہ راز والا آپ کو راز آشنا کردے ۔رومیؒ کو پتہ تھا کہ حسن ازل کی وصال سے محروم کرنے والی چیز نفس ہی ہے جس کی چاہتیں لامحدود اور نظر بہت محدود ہے ۔یہی وجہ ہے کہ باوجود جاننے کے کہ میری چاہتوں کا مداوا صبر میں ہے کہ اس سے بعد میں میری خواہشین پوری ہوسکیں گی لیکن قریبی چیزوں کو دیکھ کر ا س کا رال ٹپک پڑتا ہے اور وہ اصل کامیابیوں کو فوری مگر بہت کم چیزوں کے لئے قربان کرتا ہے ۔رومیؒ اس سے بچانا چاہتا ہے ۔رومیؒ و احساس تھا کہ بغیر رہبر کے سلوک طے نہیں کیا جاسکتا اس لئے وہ راہبر تک پہنچنے پر بہت زور دیتا ہے لیکن راہبر کی پہچان بھی ہونی چاہیئے بصورت دیگر شیطان ہمیں گمراہ کردے گا۔رومی نصیحت کرتا ہے ۔
یعنی راستہ طے کرنے کے لئے دوست تلاش کرو تنہا اس کوچے میں قدم نہ رکھو۔،غیر رہبر کے اس صحراہ سے گزرنے کی ہمت نہ کرنا۔
بعض لوگ یہ شبہ کرتے ہیں کہ بعض لوگ تو بغیر رہبر کے بھی پہنچ جاتے ہیں ۔اس شبہ کو یوں دور کرتے ہیں۔
جو کوئی بھی اس راستے میں تنہا پہنچا ہوا نظر آتا فی الحققیت وہ بھی کسی مرد کی توجہ سے وہاں پہنچا ہے ممکن ہے اس کو اس کا پتہ نہ ہو۔
آگے خبردار کرتا ہے کہ کسی بہروپیئے کا شکار نہ ہوجانا اس لئے جانچ پرکھ کرکے کسی کے ہاتھ میں دینا۔فرماتے ہیں۔
ظالم آں قومے کہ چشماں دوختند
از سخن ہا عالمے را را سوختند
اے بسا ابلیس آدم روئے ہست
پس بہر دستے بناید داد دست
وہ قوم ظالم ہے جو آنکھیں بند کردیتے ہیں ہیں اور﴿ اسرار کو ظاہر کرکے﴾ اپنی باتوں سے ایک عالم کو جلا ڈالتے ہیں ۔آگاہ ہوجا بعض دفعہ ابلیس شیطان انسان کے روپ میں آتا ہے پس ہر ہاتھ میں ہاتھ دینے سے احتراز کرنا چاہئے۔بعض لوگ نامکمل مجاہدے یا شیخ کی صحبت کے انعکاس کا اث اپنے میں دیکھ کر یوں سمجھ لیتے کہ میری نفس کی اصلاح ہوگئی حالانکہ ابھی ایسا نہیں ہوچکا ہوتا ۔ان کو سمجھاتے ہوئے رومی ؒ کہتا ہے ۔
نفس اژدہااست او کے مردہ است
ازغم بے آلتی افسردہ است
کہ نفس تو ناگ ہے وہ کیونکر مردہ ہوگا ہاں بے اوزار ہونے پر کبھی افسردہ ہوجاتا ہے۔رومی ؒ صحیح رہبر کی تلاش پر بہت زور دیتا ہے اور اس کے لئے فہم رسا کے ساتھ صحیح طلب کی بھی ضرورت ہوتی ہے وہ یوں فرماتے ہیں۔
نور حق ظاہر بود اندر ولی
نیک بین باشی اگ اہل دلی
یعنی حق کا نو ر ولی کے اندر ظاہر ہوتا ہے اگر تو اہل دل ہے تو تو بھی اس کو دیکھ لے۔انسان اور جانور میں فرق ہوتا ہے ۔جانور کی خوشی اپنے سفلی ضروریات کو پورا کرنے میں اور انسان کی خوشی علم نافع میں ہوتی ہے ۔اس کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے ۔
آدمی فربہ شود از راہ گوش
جانور فربہ شود از نائے نوش
یعنی آدمی اچھی اچھی باتیں سن کر موٹا ہوجا تا ہے اور جانور کھانے پینے سے موٹا ہوتا ہے ۔
تن قفس شکل است زاں شد خارجاں
در فریب داخلاں و خارجاں
تن قفس کی مانند ہے اور جان کے لئے تکلیف دہ ہے کیونکہ وہ داخلی اور خارجی فریب میں مبتلا ہے
اینش گوید نے منم انبار تو
آنش گوید نے منم ہمراز تو
تن یہ کہتا ہے کہ نہیں میں تیرا شریک زندگی ہوں اور جان کہتی ہے کہ میں تیری ہمراز ہوں
او چو بیند خلق را سرمست خویش
از تکبر می رود از دشت خویش
جب وہ مخلوق کو اپنے طرف متوجہ دیکھتی ہے تو غرور کی وجہ سے بے خود ہوجاتاہے
خویش را رنجور سازد زار زار
تا ترا بیروں کند از اشتہار
پس اپنے آپ کو رنجیدہ اور غمزدہ بنالے تاکہ لوگ تجھے مشتہر نہ کریں۔
اشتہار خلق بند محکم است
بند ایں از بند آہن کے کم است
مخلوق میں شہرت ایک مضبوط قید ہے اور یہ زنجیر کے قید سے کوئی کم نہیں ہے۔
چوں طمع خواہد زمن سلطان دین
خاک برفرق قناعت بعد از این
اگر دین کا بادشاہ مجھ سے طمع چاہتا تو ایسے میں قناعت کے سر پر خاک ڈالنا چاہیًے۔
لقمہ و نکتہ ست کامل را حلال
تو نہ کامل مخور می باش لال
کامل کے لئے جائز ہے کہ حلال روزی کھائے اور راز ظاہر کرے ۔تو چونکہ کامل نہیں ا سلئے خاموش رہ۔
بد گمانی کردن و حرص آوری
کفر باشد نزد خوان بہتری
اگر تو اﷲ سے بدگمان ہوکر حرص کرے کرے گا تو یہ اﷲ تعالیٰ کے بڑے دسترخوان کے نزدیک کفران نعمت ہے
مانبود یم و تقاضا من نبود
لطف تو ناگفتہ ما می شنود
نہ ہم تھے اور نہ ہم نے دنیا میں آنے کا تقاضا کیا تھا ۔لطف یہ کہ تیری مہربانی کہ تو وہ بھی سن لی جو کہہ نہ پائے تھے۔
اے خوشا چشمے کہ آن گریان اوست
اے خوشا آن دل کہ آں بریان اوست
وہ آنکھ کتنی اچھی ہے جو اس کے لئے روتی ہے اور وہ دل کتنا اچھا ہے جو اس کے لئے بھن رہا ہے۔
شہوت دنیا مثال گلخن است
کہ ازو حمام تقویٰ روشن است
دنیا کی شہوت کوڑے کرکٹ کی طرح ہے کہ اس سے تقویٰ کا حمام روشن ہوتا ہے۔
رومی ؒ اپنے لازوال کلام میں خدا تک پہنچنے کا ایک مختصر راستہ بتاتا ہے جس پر چل انسان بہت جلد واصل ہوسکتا ہے لیکن اگر اس راستے کے تقاضوں کو پیش نظر نہیں رکھا گیا تو یہی مختصر پر خطر ہوسکتا ہے اور انسان اپنی منزل سے بھٹک کر بہت دور جاسکتا ہے پس اگر رومی ؒ کا طریق اپنانا ہے تو اس میں رومیؒ سے رہنمائی لینا لازمی ہے جیسا کہ حضرت ؒ فرماتے ہیں۔
یار باید راہ را تنہا مرو
بے قلاؤ زا اندریں صحرا مرو
یعنی اس کوچے میں قدم تب رکھیں جب کوئی راہبر ساتھ ہو اور مزید اپنی مثال سے یوں اس کو زیادہ واضح کردیتے ہیں
مولوی ہر گز نہ شد مولائے روم
تا غلام شمس تبریزے نہ شد
پس اس راستے پر چلنے کسی شیخ کامل کا ہاتھ پکڑنا ضروری ہے اور حضرت ؒ کے بقول
اے بسا ابلیس آدم روئے ہست
پس بہر دستے بناید داد دست
ہر کسی دعویٰ کرنے والے کا ہاتھ نہیں پکڑنا چاہیئے بلکہ ہاتھ پکڑنے سے پہلے اس بات کی تحقیق لازمی ہے کہ وہ آپ کو منزل مقصود تک پہنچا سکتے ہیں یا نہیں۔اس کے لئیے اللہ والے علمائے کرام نے کچھ نشانیاں بتائی ہیں جن کے ذریعے صحیح مشائخ تک رسائی ممکن ہوسکتی ہے وہ نشانیاں درج ذیل ہیں:
اہل اللہ کی نشانیاں
کل آٹھ نشانیاں ہیں ۔ پہلی نشانی عقیدہ اہل سنت والجماعت کا ہو ،
دوسری نشانی اسے فرض عین علم حاصل ہو ۔
تیسری نشانی اس علم پر اسے عمل ہو ۔
چوتھی نشانی وہ صاحب صحبت ہو اور اس کے صحبت کا سلسلہ حضور ﷺِ تک پہنچتا ہو ۔
پانچویں نشانی اس کو اجازت حاصل ہو ،
چھٹی نشانی اس کے اردگرد جو لوگ بیٹھنے والے ہوں ان کو آپ دیکھ رہے ہوں کہ روزانہ ان کے اندر تبدیلی آرہی ہے ، مثبت تبدیلی آرہی ہے ۔ جیسے ہم اچھے ڈاکٹر کا پتہ کیسے لگاتے ہیں ، جس کے ہاتھ پر لوگ زیادہ شفایاب ہورہے ہوں ہم کہتے ہیں کہ یہ ڈاکٹر صحیح ہے ۔ تو اس کے اندر فیض ہونا چاہیے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ خود بن چکا ہو لیکن وہ فیض رساں نہ ہو ۔ اللہ پاک نے اس کے ہاتھ پر فیض نہ رکھا ہو ۔ یہ ممکن ہے ۔ انسان خود ٹھیک ہوجاتاہے لیکن دوسرے کو فائدہ نہیں دے سکتا ۔آپ نے بہت سارے سائنسدانوں کو دیکھا ہوگا ، بڑے اچھے سائنسدان ہوتے ہیں لیکن پڑھا نہیں سکتے ۔ دوسروں کو نہیں سمجھا سکتے ۔ اس طرح بعض لوگ بڑے اچھے ہوتے ہیں لیکن دوسروں کو اس سے فیض نہیں ہوتا ۔ لہذا یہ دیکھو کہ اس کے پاس بیٹھنے والے لوگوں کو فیض حاصل ہورہا ہے یا نہیں ۔
ساتویں نشانی یہ کہ وہ اصلاح کرتا ہو مروت نہ کرتا ہو ۔ مروت بہت خطرناک چیز ہے ۔ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی عالم ہے اس کو مسئلہ معلوم ہو اور اس سے پوچھا جائے ، تو اگر وہ صحیح جواب نہیں دے گا تو اس کے منہ میں قیامت کے دن آگ کی لگام دی جائے گی ۔ کیونکہ اس نے صحیح جواب نہیں دیا ۔ تو مروت نہ کرتا ہو اصلاح کرتا ہو ۔
آٹھویں نشانی اور آخری بات یہ ہے کہ اس کی مجلس میں بیٹھ کر خدا یاد آتا ہو اور دنیا کی محبت سرد ہوتی ہو ۔
اگر کسی کے اندر یہ آٹھوں نشانیاں موجود ہوں تو پھر یہ نہ دیکھو کہ اس میں کرامت یاکشف ہے یا نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ چیزیں ثانوی ہیں ۔ بہت سارے صحابہ کرام کے پاس کشف و کرامات نہیں تھے ۔ تو کیا جن کے پاس کشف و کرامات تھے یہ ان سے کم ہوگئے ؟ تو ان چیزوں کو دیکھنا نہیں چاہیے ، ان آٹھ نشانیوں کو دیکھنا چاہیے کہ یہ ہیں یا نہیں ہیں ۔ جب نشانیاں پوری ہوں تو بس یہ دیکھنا چاہیے کہ میری ا س سے مناسبت ہے یا نہیں ہے ۔ یعنی یہ میرے لئے ہے یا نہیں ہے ۔ ٹھیک ہے دوسرے لوگوں کے لئے ہوگا ۔ لیکن ضروری نہیں ہے کہ میرے لئے ہو ۔ تو اس کا بھی تجربہ کرلو اور اس کے ساتھ تعلق قائم کرکے دیکھ لو کہ آیا مجھے اس سے فائدہ ہورہا ہے یا نہیں ۔ تو اگر مناسبت ہے تورابط جاری رکھو ۔ ایک باقاعدہ طریقے سے جب ہم آجائیں گے تو انشائ اللہ العزیز آپ دیکھیں گے کہ جن چیزوں سے پہلے آپ انکار کرتے تھے اس کا آپ ایسے اقرار کریں گے کہ دوسروں کو بھی سمجھائیں گے ۔ ایک صاحب جو اس وقت تقریباً چھیاسی سال کے ہونگے اس وقت ان کی عمر اٹھتر سال تھی ، وہ پرنسپل ریٹائرڈ ہوئے تھے ۔ وہ کسی طریقے سے ہمارے پاس آئے، ذکر کی لائن میں آگئے ۔ پہلے وہ ان چیزوں کو نہیں مانتے تھے ۔ تو جس وقت وہ آئے میں نے ان کو ذکر قلبی دے دیا ۔ تین مہینے کے بعد جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے تین باتیں بتائیں ۔ اور وہ تین باتیں ایسی تھیں کہ میں کہتا ہوں کہ بس اللہ پاک ہم سب کو نصیب فرمائے ۔ پہلی بات اس نے یہ بتائی ، شاہ صاحب میں دوسر وں کو تو نہیں سمجھا سکتا لیکن خود سمجھ گیا ہوں کہ ذکر میں کتنی طاقت ہے ۔ دوسری بات اس نے یہ بتائی کہ شاہ صاحب میرا مطالعہ نہیں چھوٹتا تھا ، اب کہتا ہوں کہ تنہائی ہو اور یاد الہٰی ہو ۔ تیسری بات اس نے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ شاہ صاحب پہلے میں یہاں تھا اس کے بعد اس نے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا اب یہاں آگیا ہوں ۔ تویہ پکی بات ہے ۔ انسان جو چیزیں پہلے نہیں مانتا اور پھر اس پر گزرتی ہے تو پھر اس کو ماننا پڑتا ہے ۔
لگی ہو نہ جب تک کسی دل میں آگ
پرائی لگی دل لگی سوجھتی ہے
انسان کو دوسرے کے حال کا پتہ نہیں چل سکتا کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے ۔ لیکن جب خود پر گزرتی ہے تو پھر ِسب چیزوں کو مانتا ہے ۔ تو خلاصہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہوجائیں انشاء اللہ العزیز اللہ پاک نے جو کچھ آپ کی قسمت میں لکھا ہے آپ کو مل جائے گا ۔ لگے رہو لگے رہو، لگ جائے گی ۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو نصیب فرمائے ۔۔۔ آمین