اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ۔اَلصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَم ُ عَلیٰ خَاتَمَ النَّبِیینِ۔اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ وَلاَ تَقْتُلُوْا أَوْلادَکُمْ خَشْیَۃَ إِمْلاقٍ و قَالَ تَعَالىٰ وَلَھُنَّ مِثلُ الَّذِی عَلِیھِنَّ بِالمَعرُوفِ و قَالَ تَاَلىٰ وَ اعْبُدُوا اللَّهَ وَ لا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئاً وَ بِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً وَ بِذِي الْقُرْبى وَ الْيَتامى وَ الْمَساكِينِ وَ الْجارِ ذِي الْقُرْبى وَ الْجارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَ ابْنِ السَّبِيلِ وَ ما مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ. و قَالَ عَہِلصّ الصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَمُ لْمُؤْمِنِ عَلى الْمُؤْمِنِ سِتُّ خِصَالٍ : يَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ ، وَيَشْهَدُهُ إِذَا مَاتَ، وَ يُجيِبُهُ إِذَا دَعَاهُ ، وَيُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِذَا لَقِيَهُ ، وَيُشَمِّتُهُ إِذَا عَطَسَ ، وَيَنْصَحُ لَهُ إِذَا غَابَ أَوْ شَهِدَ وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَمُ لاَ یَرْحَمُ اﷲُ مَنْ لا َّیَرْحَمُ النَّاسَ و قَالَ عَلَیْہِ الصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَمُ المؤمنون کرجل واحد ان اشتکیٰ عینہ اشتکیٰ کلہ وان اشتکیٰ راسہ اشتکیٰ کلہ“۔و قَالَ اللہُ تَعَالى ٰ و انک لعلیٰ خلق عظیم۔صدق اﷲ العلی العظیم
بزرگو اور دوستو!
ابھی میں نے آپ کے سامنے چند آیات مبارکہ اور چند احادیث شریفہ تلاوت کی ہیں۔ان کا مفہوم یوں ہے کہ ارشاد فرمایا حق تعالیٰ نے اور نہ قتل کرو اپنی اولاد کو تنگدستی کے ڈر سے اور ارشاد فرمایا کہ عورتوں کے بھی حقوق ہیں جیسا کہ ان پر مردوں کے حقوق ہیں اور ارشاد فرمایا کہ کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا معاملہ کرو اور اہل قرابت کے ساتھ بھی اور یتیموں کے ساتھ بھی اور غریب غرباء کے ساتھ بھی اور پاس والے پڑوسی کے ساتھ بھی اور دور والے پڑوسی کے ساتھ بھی اور ہم مجلس کے ساتھ بھی اور ان غلام لونڈیوں کے ساتھ بھی جو شرعاً تمھارے مالکانہ قبضے میں ہیں ۔آپ ﷺِ نے ارشاد فرمایا کہ مؤمن کے مؤمن کے ذمہ چھ حقوق ہیں ۔جب وہ مریض ہو تو اس کی بیمار پرسی کرے ،جب اس کا انتقال ہوجائے تو اس کا جنازہ پڑے ،جب دعوت کرے اس کو قبول کرے ،جب وہ ملے تو اس کو سلام کرے اور جب چھینکے تو اس کے الحمد ﷲ کہنے کے جواب میں یرحمک اﷲ کہے ۔اور اس کے ساتھ خیرہواہی کا معاملہ کرے چاہے غائب ہو یا حاضر۔آپ ﷺِ نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں فرماتے جو لوگوں پر رحم نہیں کرتے۔آپ ﷺِ نے ارشاد فرمایا کہ سب مؤمن ایک جسم کے مانند ہیں کہ اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہو تو اس کے سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے اور اس کے سر میں تکلیف ہو تو اس کے سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے اور فرمایا اﷲ تعالیٰ نے کہ بیشک آپ ﷺ کے اخلاق بہت بلند ہیں
معاشرے کی اصلاح شریعت پر چلنے ہی سے ممکن ہے
جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں ۔ اس کے فوائد اور نقصانات سے ہم سب مستفیض اور متاثر ہوتے ہیں۔ اگر معاشرہ اچھا ہے تو اس کا فائدہ ہم سب کو پہنچ رہا ہے اور اگر معاشرے میں کوئی فساد ہے تو اس کا اثر ہم سب پر پڑ رہا ہے ۔ معاشرے میں کسی ایک فرد کی بات نہیں ہوتی بلکہ تمام افراد کا مشترکہ اثر ہوتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کردیتی ہے ۔ اسی طرح ایک شخص بھی تمام معاشرے کو متاثر کرسکتا ہے ۔ اس معاشرے میں ہمارے گھر،محلے ، بازار ، دفتر ،اور مسجد کی زندگی ، الغرض ہمارے تمام باہمی معاملات آجاتے ہیں ۔ اتنے سارے مختلف النوع لوگوں اور مختلف النوع حالات کے لئے جتنی بھی سماجی کوششیں کی جاتی ہیں اس میں انسان کو بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ جو آج ہم نے سوچا ، کل پتہ چلا کہ وہ غلط تھا ۔اور جو آج ہم سوچ رہے ہیں کل کو اس کے بارے میں کیا پتہ ۔ لیکن اس کا ایک راستہ ہے ۔ اور وہ راستہ یہ ہے کہ جس نے ہم سب کو بنایا اور جس نے سارے حالات پیدا فرمائے ، جو تمام حالات کو واقع ہونے سے پہلے جانتا ہے ، وہ اگر اس کی اصلاح کا طریقہ بتائے گا تو یقینا اس سے فائدہ ہوگا ۔ اس سے کوئی آدمی انکار نہیں کرسکتا ۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اللہ جل شانہ نے ہمیں ایسے دین پر پیدا فرمایا ہے جو اسی پیغام کو حاصل کرنے والی ہے اور اسکو عام کرنے والی ہے ۔ اس کو ہم شریعت کہتے ہیں ۔
شریعت کیا ہے ؟
شریعت اللہ جل شانہ کے دین کے طریقوں کو کہتے ہیں ۔ آپ ﷺ اس کو لانے والے ہیں ، اس کے بتانے والے ہیں ۔ آپ ﷺ نے وہ طریقے ہمیں پہنچائے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ۔ لہذا یہ بات کرنا کہ یہ پرانے دور کی بات ہے اور آج کل اس پر عمل نہیں ہوسکتا ۔ یہ بات اس وقت مانی جاسکتی تھی اگر یہ طریقے حضور ﷺِ بناتے ۔ لیکن جب ہم یہ مانتے ہیں کہ یہ طریقے اللہ کے بنائے ہوئے ہیں ۔ تو یہ بات درست ثابت نہیں ہوسکتی ۔ کیونکہ اللہ جل شانہ کو قیامت تک جتنے بھی واقعات ہونے ہیں ان سب کا پتہ ہے ۔ جس قسم کے لوگوں نے آنا ہے سب کا پتہ ہے ۔جس قسم کے حالات اور کیفیات بننے ہیں سب کا پتہ ہے ۔لہذا ان تمام چیزوں میں جو اللہ جل شانہ نے ہمیں بتا ئی ہیں ا نہی میں ہماری کامیابی کا راز پنہا ں ہے ۔ بغیر اس کے کامیابی ہو ہی نہیں سکتی ۔
ہمارا دین مکمل دین ہے
اس کے اندر کوئی کمی نہیں ہے ۔ ابتدا اس کی عقائد سے ہوتی ہے ۔ عقیدہ انسان کی سمت کو درست کرتا ہے ۔ اگر انسان کا سمت درست نہ ہو ،بے شک وہ کتنی بھی خوبصورت گاڑی میں جارہا ہو اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکے گا ۔ اور جس کی سمت درست ہے ۔ وہ بے شک ٹھوکر کھاتے کھاتے بھی جارہا ہو پھر بھی وہ اپنی منزل پر پہنچ سکتا ہے ۔ اسی سے اندازہ کرلیں کہ انتہائی با اخلاق کافر اور انتہائی کمزور مسلمان جو انتہائی کمزوریوں والا ہے ان کے درمیان مقابلہ کرکے دیکھو گے بالآخر وہی کمزور مسلمان جنت پہنچ جائے گا ۔ لیکن وہ اونچے اخلاق والا کافر کبھی بھی جنت کا منہ نہیں دیکھ سکے گا ۔ کیونکہ اس کی سمت غلط ہے ۔ تو ہمارے مذہب کی ابتدا عقائد سے ہوتی ہے ۔ پھرایک اور شعبہ آتا ہے ۔ جس کے لئے ہمیں پیدا کیا گیا ہے ۔ اور وہ ہے عبادت
اوَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَلْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُونِ
نہیں پیدا کیا انسان اور جنات کو میں نے ، مگر اپنی عبادت کے لئے ۔ تو عبادت کے لئے ہمیں پیدا فرمایا گیاہے ۔ باقی تمام چیزیں ان عبادات کے لئے ضروریات کا کام دیتی ہیں ۔ کھانا پینا ، سونا ، شادی کرنا ، نسل بڑھانا جتنی بھی چیزیں ہیں سب ان عبادات کے لئے ہورہی ہیں ۔ یہ چیزیں تبھی جائز ہیں اگر جائز طریقے سے ہم کریں گے ۔ چونکہ ہم نے آپس میں مل کر رہناہے ، آپس میں لین دین بھی کرناہے ۔ ایسی صورت میں ہمیں آزاد نہیں چھوڑا گیا ۔ کیوں ؟ ہمیں آزاد چھوڑا جاتا تو ہمارے ساتھ ایک انتہائی باغی چیز موجود ہے ۔ جو کبھی بھی ہمیں خیر کی طرف نہیں جانے دی گی ۔ اور وہ باغی چیز کیا ہے ؟ وہ ہمارا نفس ہے ۔تو
صفائی معاملات کیلئے زیادہ ایمان کی ضرورت ہے
اس لئے کہتے ہیں کہ عبادات کو کرنے کے لئے جتنے درجے کی ایمان کی ضرورت ہے ۔ معاملات کو اس سے زیادہ درجے کی ایمان کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ معاملات میں مفادات سامنے آجاتے ہیں ۔ آپ نے دیکھا ہوگا بہت سارے نمازی ، یہاں تک کہ تہجد گزار بھی صحیح کاروبار نہیں کرتے ، دھوکہ دیتے ہیں ، جھوٹ بولتے ہیں ۔ دوسروں کا بھی نقصان کرتے ہیں اپنا بھی کرتے ہیں ۔ حالانکہ وہ عبادات تو کررہے ہیں ۔ عبادات کے لئے ان کا ایمان کافی مضبوط ہے ۔، لیکن معاملات کے لیول پر ان کا ایمان ابھی نہیں بنا ۔ معاملات کے لیول پر ایمان بنانے کیلئے اچھی خاصی محنت کرنی پڑتی ہے ۔ اس وقت انسان کو اللہ جل شانہ کا حاضر وناظر ہونا اور ایسا مستحضر ہونا چاہیے کہ وہ یہ محسوس کرے کہ میرے ہاتھ میں ناجائز طور پر اگر کسی کا روپیہ ہے تو یہ روپیہ نہیں ہے بلکہ جہنم کی آگ ہے ۔ پھر وہ اس سے بچے گا ۔ ورنہ انسان کیا کرتا ہے فوراً کوئی بہانہ بنا دیتاہے ۔ نہیں جی یہ تو اس وجہ سے ہے یہ تو اس طرح ہے اور درمیان میں کوئی راستہ بنا لیتا ہے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے تو ساری چیز واضح ہے ۔ ایک دفعہ آپ ﷺِ نے ایک شخص کو زکواۃ جمع کرنے کیلئے بھیجا، وہ جب واپس آیا تو اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺِ یہ تو وہ زکواۃ ہے جو لوگوں نے دی ہے ۔ اور یہ پیسے لوگوں نے مجھے ہدیہ کیے ہیں ۔ آپ ﷺِ نے فرمایا ، تم اپنے گھر میں بیٹھ جائو ، پھر جو لوگ تمہیں ہدیہ دے وہ تمہارا ہوگا ، اور اگر ایسا نہیں ہے تو یہ تمہارے نہیں ہیں ۔ آج اگر کوئی شخص کسی اچھے پوسٹ پر ہے ، اور اس کے لوگوں سے معالات ہیں تو کوئی براہ راست تواس کے پاس نہیں آئے گا کہ یہ رشوت لے لو ، اس طرح تو بہت کم کیسز ہوتے ہیں ۔ ہوتا کیا ہے؟ یہ لے لیں جی ، یہ آپ کے بچوں کی مٹھائی ہے ۔ کبھی کہتے ہیں کہ جی آپ کے بچے کیلئے میں سائیکل لایا ہوں ، یہ میں راستے سے گزر رہا تھا مجھے نظر آیا تو میں نے سوچا کہ آپ کے بچے کیلئے لے لوں ۔ کبھی ڈرائینگ روم پر نظر ڈال لیتے ہیں ، جن کے پاس صوفہ اچھا نہیں ، چلو جی صوفہ لے آتے ہیں ، صوفہ لے آئے وہ رکھ دیا ، ڈاکٹروں کے پاس دوائی بنانے والی کمپنیوں کے لو گ آتے ہیں ،ان کو گھڑیاں اور پتہ نہیں کیا کیا چیزیں دیتے ہیں ، ان کا مطلب کیا یہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر ہماری دوائیاں لکھنا شروع کردے ۔ تو یہ رشوت کے مختلف طریقے ہیں ۔ لوگ بہانے بنا لیتے ہیں ۔ حالانکہ اس کا اللہ تعالیٰ کو بھی پتہ ہے اور ان لوگوں کو خود بھی پتہ ہوتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ ایک تحصیلدار صاحب تھے وہ اشراق کی نماز بھی پڑھتے تھے اور وظیفہ ایسا شروع کیا تھا کہ اس میں باتیں نہیں کرتے تھے ۔ جو لوگ آتے تو ان سے رشوت کی ڈیل ایسے کرتے کہ اپنی انگلیوں سے اشارہ کرتے ، لوگ آتے اور مصلّے کے نیچے پیسے رکھ دیتے ۔ یہ جب اشراق کی نماز پڑھ لیتے تو جتنے پیسے مصلّے کے نیچے پڑے ہوتے نکال کر جیب میں رکھ لیتے ۔ یہ کیا ہے ؟ یہ اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے ۔
یہ سارے پیسے وہاں پر جمع ہونگے ،وہاں پتہ چلے گا ۔ جب ہم اللہ کے سامنے کھڑے ہونگے اور ایک ایک چیز کا حساب دیں گے ۔ اس وقت پتہ چلے گا ۔ قران پاک میں بار بار یہ چیز ہمارے سامنے آتی ہے ولمن خاف مقام ربہ جنتان جو کوئی شخص اللہ کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اس کے لئے دو جنتیں ہونگی ۔ اسی طرح ، اور جو شخص ڈرا اس بات سے کہ میں ا للہ کے سامنے کھڑا ہونگا اور اپنے نفس کو روکا ، کس چیز سے ؟ خواہش کی پیروی کرنے سے ، تو اس کے لئے جنت ٹھکانہ ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ ، اسی طرح ہم ایک دن کھڑے ہونگے اللہ کے سامنے ، اگر ہمارے اعمال ٹھیک ہونگے تو ہمیں فائدہ ہوگا ۔ اگر اعمال خراب ہوئے تو نقصان ہوگا ۔ یہ معاملات والی بات مضبوط ایمان سے سامنے آتی ہے ۔ دوسری بات اس سے بھی اونچے لیول کی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے ۔ وہ ہے معاشرت کی اصلاح ۔
اصلاح معاشرہ صفائی معاملات سے بھی زیادہ تزکیہ چاہتا ہے
معاشرت کی جو اصلاح ہے اس کے لئے اس سے بھی اونچے ایمان کی ضرورت ہے ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سارے نمازی ، پرہیزگار اور معاملات کے صاف ، شادی بیاہ پر شکست کھا جاتے ہیں ۔ کن سے شکست کھا جاتے ہیں؟ عورتوں سے ۔ عورتیں ان کو بتا تی ہے کہ اگر ہم نے یہ نہیں کیا تو فلاں یہ کہے گا اور فلاں وہ کہے گا ، اس فلاں سے ڈرا ڈرا کر کباڑا کردیتی ہے ۔ یہ معاشرت ہے ۔ جیسے میں نے عرض کیا اس کے لئے معاملات سے بھی اونچے درجے کے ایمان کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اگر کسی کے ایمان کا وہ درجہ نہیں ہے تو وہ شادی بیاہ پر بہت سا نقصان کرلیتا ہے ۔ اس میں آج کل ایک اور چیز شامل ہوگئی ہے بلکہ دو چیزیں ، ایک مردوں کے لئے اورایک عورتوں کیلئے ۔ داڑھی اب معاشرتی چیز ہے ۔ پہلے ذاتی تھی اب معاشرتی چیز ہے ۔ کیونکہ معاشرے میں اس کیلئے رکاوٹیں ہیں، زبردست رکاوٹیں ہیں ۔ ایک شخص بڑا دین دار ہے ، نمازی پرہیز گار ہے ، اچھا آدمی ہے ۔ معاملات کا بھی صاف ہے لیکن داڑھی نہیں رکھتا ۔ توکیوں نہیں رکھتا ،آخر وجہ کیاہے؟ اگر وہ ایماندار نہ ہوتا تو یہ باقی کام کیوں کررہا ہے ۔ ایماندار تو ہے ۔مگر ایسا کیوں ہے ؟ face نہیں کرسکتا ،فلاں کیا کہے گا ، فلاں کیا کہے گا ، اسی سے بیچارہ شکست کھاتا رہتا ہے ۔ عورتوں کے لئے پردہ بڑا مسئلہ ہے ۔ کراچی میںایسی تہجد گزار خواتین بھی پائی جاتی ہیں جو پردہ نہیں کرتی ۔ وجہ کیا ہے ۔ وجہ یہی ہے کہ لوگ طعنے دیتے ہیں اور عجیب قسم کے حالات پیدا کرتے ہیں مطلب یہ ہوا کہ معاشرت کی جو اصلاح ہے یہ معاملات سے بھی مشکل ہے، لیکن ہے ضروری ۔ کیونکہ ہمارے جتنے بھی اجتماعی قوانین ہیں وہ سارے کے سارے معاشرے کی اصلاح کے لئے ہیں اور
شیطان ہمارا معاشرہ تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے
یہ ابھی جو حدود بل پاس ہوا ہے ،یہ کیا چیز ہے ۔ یہ معاشرے کی بات ہے ۔ اس پر شیطان نے اتنی محنت کی ، اتنی محنت کی کہ آخر میں ہم سے وہ کام کروا ہی لیا ، اتنی اہم چیز تھی کہ امریکہ کو ہمارے پیچھے لگا دیا ، برطانیہ کو ہمارے پیچھے لگا دیا ۔ وہ تو شیطان کے گماشتے ہیں ، مجسم شیطان ہیں ۔ تو ان کے ذریعے ہمارے اندر بھی مجسم شیطان پیدا کردیے ۔ اور ان پر اتنی محنت کی کہ اب اگر ا ن کو صحیح بات بھی بتا دیجائے ، وہ نہیں مانتے ۔ اور کمال کی بات یہ ہے کہ مولانا محمد تقی عثمانی صاحب نے بڑی وضاحت سے ساری چیز بیان کردی مگر وہ لوگ اب بھی پوچھتے ہیں کہ اس کے اندر کیاغلطی ہے ۔ خدا کے بندو کوئی کس طرح تمہیں بتائے ۔ کیا تمہیں عقل نہیں ہے تمہیں نظر نہیں آتا ۔ سب کچھ معلوم ہے لیکن شیطان کی مانتے ہیں ۔ جاننا نہیں چاہتے ورنہ ہر چیز معلوم ہے ۔معاشرت کا نقصان قوم کا نقصان ہوتا ہے ۔ آج کل شیطان ہمارے پیچھے لگا ہوا ہے اور ہماری معاشرت کو خراب کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ ایک خاندان کی تباہی سے معاشرے کے اندر تباہی کی ایک زبردست لہر پیدا ہوتی ہے، آپ کو پتہ ہوگا کہ شیطان دو چیزوں کے پیچھے بہت پڑتا ہے ۔ ایک بچوں کو علم سے برگشتہ کرنا ، اور دوسرا خاندان کو تباہ کرنا۔، میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنا ، وہ اس پر بہت محنت کرتا ہے ۔ کیوں کرتا ہے اس لئے کہ اگر یہ خاندان تباہ ہوگیا ، تو اب یہ مرد بھی شیطان کا ایجنٹ بنے گا اور عورت بھی شیطان کی ایجنٹ بنے گی ۔ مرد بھی بگاڑ پیدا کرے گا اور عورت بھی بگاڑ پیدا کرے گی ۔ اس کے لئے دروازے کھل گئے ۔ اس کے لئے راستہ آسان ہوگیا ۔آپ جتنے جائز طریقوں کو مشکل بنائیںگے اور ناجائز طریقوں کو آسان بنائیں گے ، نتیجہ یہ ہوگا کہ بگاڑ پیدا ہوگی ۔کیونکہ نفس کی جو چاہت ہے اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ فرق یہ ہے کہ قانون نے اس کو باندھا ہوا ہے ۔ قانون کو relax کردیں تو لوگ کیا کریں گے ، یہی کریں گے جو نفس کے تقاضے ہیں ۔ میں جب جرمنی میں تھا تو وہاں ہمیں جرمن زبان سکھائی جاتی تھی ۔ عمومٲوہاں سکھاتے ہیں ۔اس کتاب کے اندر مختلف chapters تھے ۔ اس میں ایک یہ بھی تھا ،
Ohne rieraten tsusamin leben”" جس کا ترجمہ ہے ، بغیر شادی کے آپس میں رہنا ۔ شیطان کے حربے دیکھیں ۔ کیا کسی اور طریقے سے جرمن زبان نہیں سکھائی جاسکتی تھی ۔ ایک ایک چیز پر ظالم ہٹ کرتا ہے ۔ اب ہمارے ہاں بھی اس قسم کی چیزیں شروع ہوگئی ہیں ۔ ہم بھی اس قسم کے واقعات سنتے ہیں ۔ اس قسم کے فنکشن arrange کرنا اس قسم کی باتیں کرنا ۔آرٹیکل لکھنا ۔ اشتہار بنانا ، اس قسم کے ڈرامے بنانا ۔ یہ سب چیزیں اسی میں آتی ہیں ۔ مختلف طریقوں سے بگاڑ پیدا کیا جارہاہے ۔لیکن اس بگاڑ سے ہم کیسے بچ سکتے ہیں ؟ تو ہم
صرف شریعت پر چلنے سے ہی بچ سکتے ہیں
ہاںصرف شریعت کے قوانین ہیں جن پر عمل کرکے ہم ان چیزوں سے بچ سکتے ہیں ۔ میں آپ کو تجارت کا ایک اصول بتاتا ہوں ۔ ہمارا اسلامی تجارتی قانون یہ ہے کہ جب تک کسی چیز پر آپ قبضہ نہ ہو اس کو آپ دوسرے پر نہیں بیچ سکتے ۔ اب ایک عام اور سادہ آدمی کو اس بات کی کیا سمجھ آئے گی کہ اس کے اندر کیا ہے ۔ وہ کہے گا کمال ہے یہ کیسی پابندی ہے ۔ اگر ایک چیز ابھی میرے ہاتھ میں نہیں لیکن میں اسے استعمال کرسکتا ہوں تو کیوں نہ کروں ۔ تو دیکھ لیں آج ہمارے اسلام آباد کی پراپرٹی کا حال اسی نکتے پر عمل نہ کرنے سے ہے ۔ سٹاک ایکسچینج کے اندر جو گڑ بڑ ہورہی ہے ،کئی بار کریش ہوا ہے یہ اسی وجہ سے ہوا ہے ۔ ہوتا کیا ہے ۔ایک چیز آپ کے پاس موجود نہیں ہے ۔ اور اس پر ابھی آپ کا قبضہ بھی نہیں ہوا ۔ اور آپ نے اس کو خرید لیا ۔ اب دوسرے پر بیچنا ہے ۔ اگلا بھی کہتا ہے کہ یہ جو چیز آپ نے خریدی ہے یہ مجھے دس فیصد نفع پر دے دو ۔ اچھا جی دے دیا ۔ اب رجسٹر میں وہ چیز ادھر چلی گئی ۔ ابھی اس نے بھی قبضہ نہیں کیا کہ کوئی اور آگیا ، جی مجھے پانچ فیصد منافع پر دے دو ۔ اس نے اس کو پانچ فیصد پر دے دیا ۔ ہوتے ہوتے وہ تقریبٲ سو فیصد سے بڑھ گیا ۔ اس کی میں آپ کو چھوٹی سی مثال دیتا ہوں یہ جو جمعہ بازار یا اتوار بازار لگتے ہیں اس کا کیا استعمال ہے ۔ لوگ وہاں کیوں جاتے ہیں خریداری کیلئے ۔ یہ اس لئے کہ مڈل مین درمیان میں نہیں ہے جو درمیان میں بلا وجہ کما رہا ہے ۔ ایک کسان فصل اگا رہا ہے، درمیان میں ایک ساہوکار بیٹھا ہوا ہے ، وہ مفت میں اس کو اپنے سٹاک میں رکھ کر ڈیڑھ گنا قیمت پر باقیوں کو دے رہا ہے ۔ تو اس سے اس چیز کی قیمت بڑھ گئی ، اب اس کو درمیان سے نکالو اور یہ جو پیدا کرنے والا ہے یہ لوگوں کو ڈائریکٹ بیچنا شروع کرے درمیان میں کوئی نہ ہو تو لوگوں کو فائدہ ہوگا یا نہیں ۔ صرف ایک آدمی کو درمیان سے نکالنے سے کتنا فرق پڑ گیا ۔ اب شریعت نے ایک اصول بنایا تو اس سے کتنا فائدہ ہوا کہ جب تک مال پر آپ نے قبضہ نہیں کیا ۔ آپ کسی دوسرے کو نہیں بیچ سکتے۔ حتیٰ کہ فرماتے ہیں کہ باغ میں جب تک پھل تیار نہ ہو، آپ اس کو نہیں بیچ سکتے ۔ تیار ہوگا تو پھر آپ فروخت کریں گے ۔ جب یہ مال کی تعریف میں آئے گا تو اس وقت آپ اس کو فروخت کرسکیں گے ۔ بہر حال یہ حفاظتی تدابیر ہیں تاکہ لوگوں کو نقصان نہ ہو ۔ شریعت میں مومن کے مومن پر چھ حقوق ہیں ۔ فرمایا ، جب وہ بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت کرے ۔ جب وہ فوت ہوجائے تو اس کی جنازہ پڑے ۔ جب وہ اس کو پکارے تو جواب دے ، جب وہ دعوت کرے تو اس کو قبول کرے ۔ اور اگر سلام کرے تواس کا جواب دے ، اگر وہ چھینک کر الحمداللہ کہے تو اس کا جواب یر حمک اللہ سے دے ، اوراس کی خیر خواہی چاہے ، وہ حاضر ہو یا نہ ہو ۔ یہ لفظ خیر خواہی کس کو کہتے ہیں ؟ یہ دو لفظ ہیں خیر اور خواہی ان کا مطلب ہے کہ آپ کسی کیلئے خیر چاہتے ہیں اور
خیر بڑی چیز ہے
ایک دفعہ حضرت مولانا محمد عمر پالن پوری نے مجھے دعا دی کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ خیر کا معاملہ فرمائے ۔ میں بہت خوش ہوا ، سوچا حضرت نے مجھے ا تنی زبردست دعا دی ہے کہ اس کا کوئی حد و حساب نہیں ۔ قران پاک میں ہے
اوالآخِرَۃُ خَیْرٌ وَ اَ بْقیٰ
آخرت خیر بھی ہے اور باقی رہنے والی بھی ہے ۔ تو خیر کیا چیز ہے ، اچھی چیز ہے ، نفع دینے والی چیز ہے ۔ تو خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہر شخص کا فائدہ چاہیں ، ہر شخص کو نفع پہنچانے کا ارادہ ہو۔ مثلٲ آپ نے دیکھا کہ بازار میں کوئی اچھی چیز مل رہی ہے تو آپ نے اپنے پڑوسی کو بھی بتا دیا کہ فلاں جگہ اچھی چیز مل رہی ہے ۔ کسی کے جوڑ کا رشتہ مل گیا ، آپ نے چپکے سے بتا دیا کہ فلاں جگہ پر رشتہ ہے ، آپ چاہیں تو بات کرلوں، یہ خیر خواہی ہے ۔ لیکن آج کل خیر خواہی اس کو کہتے ہیں جس میں اپنا کوئی مفاد شامل ہو ۔ میں جب اپنا مکان بنا رہا تھا تو راستہ مکان سے نیچے تھا ، ظاہر ہے مکان راستے سے تھوڑا سا اونچا ہوتا ہے ۔ ایک دن ایک شخص میرے پاس آیا اور میرے ساتھ بیٹھ گیا ، اور مجھے راستے کے بھرائی کرنے کے فضائل سنائے ۔ اور بتایا کہ جی فلاں جگہ پر ایسی مٹی مل رہی ہے ۔ اگر آپ چاہیں تو میں اس کیلئے بات کرلوں ۔ آپ راستہ بھر لیں گے اور یہ ہوجائے گا اور وہ ہوجائے گا ۔ میں اس وقت سن رہا تھا ظاہر ہے میں کیا کہہ سکتا تھا ۔ جب وہ چلے گئے تو ہمارا جو معمار تھا اس نے مجھ سے پوچھا آپ کو پتہ ہے یہ شخص ایسے کیوں کہہ رہا تھا ۔ میں نے نفی میں جواب دیا تو اس نے کہا کہ یہ سامنے اس کا گھر ہے اور یہ اپنے گھر کے لئے راستہ بنا رہا ہے ۔ اس لئے کہہ رہا ہے کہ یہ اتنا خرچ آپ کرلیں باقی خرچ کے لئے کسی اور کو تیار کرلے گا ۔ تو یہ خیر خواہی نہیں ہے بلکہ اپنا مفاد ہے ۔ جب انسان اپنے مفاد کے لئے بات کرے گا تو یہ خیر خواہی نہیں ہوگی ، خیر خواہی تو تب ہوگی جب آپ اگلے کے لئے بے لوث بھلائی چاہیں گے ۔ اس طرح کے لوگ بہت کم ہیں ۔ اگر آپ کو مل جائیں تو بس اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں ۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے ۔ اس کا ایک بہت ہی آسان اصول ہے کہ
جو اپنے لئے پسند ہو وہ دوسرے کے لئے بھی چاہو
آپ ﷺِ نے ارشاد فرمایا ہے ، کہ مسلمان جو چیز اپنے لئے چاہتا ہے وہ دوسرے کے لئے بھی پسند کرے ۔ یہ کتناسادہ اور آسان اصول ہے ۔ مثلاً کوئی بیمار ہوگیا، وہ یہ پسند نہیں کر ے گا کہ میرے آرام میں کوئی مخل ہو ، اب اگر میں صحتمند ہوں اور میرا موڈ ہے اونچی آواز میں تلاوت کرنے کا ، اور مجھے یہ پتہ ہے کہ اگلا آدمی بیمار ہے ، اس کی وجہ سے اس کے آرام میں خلل آئے گا اور اس کو تکلیف ہوگی تو اس وقت اگر میں نے اس خواہش کو دبادیا اور آہستہ آہستہ تلاوت کی تو اس کا مطلب ہے کہ مجھے دوسرے کی تکلیف کا احساس ہے ۔ لیکن اگر میں نے ایسا نہیں کیاتو اس کا مطلب ہے کہ میں ویسے ہی بات کررہا ہوں جیسے ابھی حضرت مولانا صاحب نے بات کی کہ راستے میں کھڑے نہ ہوں ، تو کتنے لوگ ہیں جو اس بات پر عمل کرتے ہیں ۔ حالانکہ اگر ان کے راستے میں کوئی کھڑا ہوگیا تو وہ سخت ناراض ہونگے ۔ اگر کبھی ان کو ضرورت پڑی باہر جانے کی اور راستے میں کوئی کھڑا ہوگیا تو ان کے ماتھے پر زبردست قسم کے بل آجائیں گے ۔ لیکن دوسرے کے لئے کوئی سوچ نہیں ۔ اگر کوئی ہمارے گھر کے راستے میں گاڑی کھڑی کردے تو کیا ہمیں خوشی ہوگی ؟لیکن ہم روز کسی کے گھر کے راستے میں گاڑی کھڑی کردیتے ہیں ۔ اگر کسی کے پرنالے کا پانی ہماری طرف گرے تو ہمیں سخت غصہ آئے گا لیکن دوسروں کے لئے ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ ہمارے پرنالے کا پانی ان کی طرف گرتا ہے ۔ یہ دوغلی چال ہے ۔ دوغلی پالیسی ہے، یہ انسان کو نفع پہنچانے والی پالیسی نہیں ہے ۔ آپﷺِ نے ایک زرین اصول دے دیا کہ جو چیز اپنے لئے پسند کرو وہ دوسروں کے لئے بھی پسند کرو ۔ یہ بہت آسان اصول ہے ۔ صحابہ کرام نے ایک قدم اور بھی آگے بڑھایا کہ دوسروں کی خیر کے لئے اپنی ضرورت قربان کرلیتے تھے میں یہ چیز اتنی زیادہ تھی کہ بعض دفعہ عجیب عجیب واقعات رونما ہوجاتے تھے ۔ ایک صحابی رسول ؓ بہت غریب تھے ۔ کوئی اور صحابی ان کے لئے ایک چیز لائے ، ان کو اس چیز کی ِضرورت بھی تھی ۔ لیکن انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے زیادہ ضرورت اس کو ہے ۔ یہ آپ فلاں کو دے دیں ۔ جب ان کے پاس لے گئے تو انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے زیادہ ضرورت فلاں کو ہے ۔ وہ ان کے پاس لے گئے ، حتی کہ چند آدمیوں پر پھرنے کے بعد وہ چیز دوبارہ انہی صاحب کے پاس واپس آگئی ۔ میدان جہاد میں صحابہ زخمی ہیں اور پانی کی ضرورت ہے ۔ ایک جاں بہ لب کو پانی دیا گیا لیکن اس نے کہا کہ یہ ساتھ میں دوسرا پڑا ہے اس کو دے دو ، وہاں گئے وہاں کہا گیا یہ اگلے کو دے دو ، وہاں گئے اس نے کسی اور کی طرف اشارہ کیا کہ ان کو دے دو ، وہاں پہنچے تو وہ شہید ہوچکے تھے ، واپس ان کی طرف آئے تو وہ بھی شہید ہوچکے ہیں ، پھر اس سے پہلے والے کے پاس آئے وہ بھی شہید ہوچکے ہیں ۔ حتی کہ جب پہلے والے کے پاس آئے تو وہ بھی شہید ہوچکے تھے ۔ پانی ان کے ہاتھ ہی میں رہ گیا ۔ دیکھ لیں یہ چاروں کس جذبے سے شہید ہوئے ہیں ۔ ایثار کے جذبے کے دوران شہید ہوگئے ، اور ایسی حالت میں ایثار کیا جس وقت ایثار کرنا بہت مشکل تھا ۔ اس حالت میں وہ کتنا بڑا عمل کرکے چلے گئے ۔ اصل کامیابی تو آخرت کی ہے ۔ اگر اس وقت ان کو پانی مل بھی جاتا تو پانی پی کر ہی فوت ہوتے ، تھوڑی دیر کے لئے ایک مزہ مل جاتا اور کیا ہوتا ، لیکن نہیں انہوں نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی ، کیونکہ ان کو یاد تھا کہ وہ اللہ کے بندے ہیں اور اللہ کے سامنے پیش ہونے جارہے ہیں ۔ اسی طرح ہمارے دفتروں میں جو Leg pulling ہوتی ہے ، خواہ مخواہ راستہ روکنا تاکہ میں آگے بڑھ سکوں ۔ کسی اور کے کام کو استعمال کرنا تاکہ میرا نام ہو ۔ ان ساری چیزوں میں کوئی بھی آدمی یہ پسند نہیں کرے گا کہ یہ چیز میرے ساتھ ہو ، لیکن وہ دوسروں سے کرتا ہے ۔ نتیجتٲ وہ خود کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے اور دوسروں کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے ۔ تو جو ہمارے معاشرت کے طریقے ہیں ان کی اصلاح کرنا ضروری ہے ، اور یہ اصلاح کیسے ہوگی ، اس کے لئے وہی بات کہ جب تک موت کا خوف ، موت کا استحضار عام نہیں ہوگا ،اور اللہ جل شانہ کے سامنے کھڑے ہونے کا استحضار ہمیں حاصل نہیں ہوگا اس وقت تک یہ چیز حاصل نہیں ہوسکتی ۔
اہم امور کے سمجھانے کے لئے سپیشل انتظام ہوتا ہے
مثلاً درود شریف انتہائی سپیشل چیز تھی تو اللہ پاک نے اس کو ایک عجیب طریقے سے بیان فرمایا
اِنَّ اللّهَ وَ مَلائکَتَهُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبَیِّ یا اَیُّهَا الَّذینَ آمَنوُا صَلُّوا عَلَیهِ وَ سَلَّمُوا تَسلیماً
بے شک اللہ اور اس کے فرشتے اس نبی پر درود بھیجتے رہتے ہیں ۔ اے مومنو تم بھی اس نبی پر درود بھیجو ۔ لیکن دیکھیں کیسا عجیب انداز ہے ، کیا اس قسم کی بات کسی اور چیز کیلئے کہی گئی ہے ؟ نہیں ، اس کا مطلب ہے یہ بہت سپیشل چیز تھی اس لئے اس کے لئے سپیشل طریقہ اختیار کیا گیا ۔اس طرح تین چیزیں اور ہیں یہ بھی بہت سپیشل چیزیں تھیں اس لئے ان کے لئے بھی اتنا زبردست بندوبست کیا گیا کہ جبرائیل علیہ السلام آپ ﷺِ کے پاس آئے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص آیا ، اس کے کپڑے اتنے صاف تھے جیسے اس نے سفر ہی نہ کیا ہو ۔ اس کے کپڑوں پر میل ہی نہیں تھی ۔ اور وہ تھے بھی اجنبی ، ظاہر ہے وہ باہر سے ہی آیا ہوگا ۔ سب کو اس پر حیرت ہوئی ۔ آتے ہی اس شخص نے حضورﷺِ کے گھٹنوں سے اپنے گھٹنے ملا دیے ، اس سے پتہ چلا کہ آپ ﷺ کے بہت قریبی شخص ہیں ۔ پھر وہ آپﷺِ سے سوال کرتے ہیں ، ایمان کیا ہے ۔ اسلام کیاہے ، احسان کیاہے ۔ یہ تین سوال کیے ۔ ایمان کے بارے میں آپ ﷺ نے جو ایمان کے شعبے ہیں وہ بتا دیے ، اسلام کے بارے میں جو ارکان اسلام ہیں وہ بتا دیے ۔ احسان کے پوچھنے پر فرمایا ، کہ تو عبادت ایسا کرے جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے ۔ اور اگر ایسی حالت حاصل نہیں تو یہ تو محسوس کررہا ہو کہ خدا تجھے دیکھ رہا ہے ۔ پھر قیامت کے بارے میں پوچھا ، تو فرمایا کہ سائل سے زیادہ مسئول نہیں جانتا ۔مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺِ نے جو جوابات دیے ، اس میں جو احسان کا جواب ہے ، یہ ہماری پوری زندگی کا Pivot point ﴿مرکزی نقطہ ﴾ہے ۔ تھوڑا سا غور کریں بتدریج ترقی ہورہی ہے ۔ ایک شخص ایمان نہیں لاتا اس کے اعمال کی کوئی وقعت نہیں ۔وہ نماز پڑھے ، روزہ رکھے ، زکواۃ دے ، حج کرے کچھ بھی کرے ، اگر اس کا ایمان نہیں توکچھ بھی نہیں ۔ ایمان ہے تو اسلام ہے ۔اب اگر اعمال ہیں لیکن احسان نہیں ہے تو اعمال کے اندر روح نہیں ہوگی۔ اس صورت میں اعمال کا ڈھانچہ تو موجود ہوگا لیکن اس کے اندر روح نہیں ہوگی ۔ روح کس چیز سے پیدا ہوگی ، وہ احسان سے پیدا ہوگی ۔ کیوں ؟ وجہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہ فرماتے ہیں ،میں تمام شریکوں سے بے نیاز ہوں ، جو کوئی میرے لئے عمل کرے اور کسی اور کیلئے بھی کرے تو میں اپنا حصہ بھی چھوڑ دیتا ہوں ، میں اس کو قبول ہی نہیں کرتا ۔ اب آپ اندازہ کرلیں ، اگر کسی میں اخلاص نہ ہو تو کیا اس کا عمل قبول ہوجائے گا ۔ روایات میں آتا ہے کہ ہلاک ہوگئے سارے لوگ مگروہ جو علماء ہیں ، پھر فرمایا ہلاک ہوگئے سارے علماء ، مگر وہ جو عمل کرنے والے ہیں ،پھر فرمایا ہلاک ہوگئے سارے عمل کرنے والے مگروہ جو اخلاص سے عمل کرنے والے ہیں اوراخلاص والے بھی خطرے میں ہیں ۔ کیوں خطرے میں ہیں ، اگر اخلاص کے ساتھ عمل کرکے اپنے آپ کو اچھا سمجھا وہی خطرے کی بات بن جائے گی ۔ اس کو عجب کہتے ہیں یہ بھی دل کی بیماری ہے ۔ اخلاص بھی دل کی چیز اور عجب بھی دل کی چیز ، آپ دیکھ لیں وہ کہاں تک پہنچ گیا، علم بھی حاصل کیا اس پر عمل بھی کیا اور اخلاص سے عمل کیا مگر پھر بھی خطرے میں ہے کیونکہ ایک سیڑھی ابھی اس نے طے نہیں کی اور وہ یہ کہ عجب سے اپنے آپ کو بچائے ۔ اس لئے کہتے ہیں کہ جو اعمال نفس کی اصلاح کے بغیر کئے جاتے ہیں وہ سارے کے سارے ضائع ہوجاتے ہیں اور
اصلاح کسی کی نگرانی ہی میں ہوسکتی ہے
بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ حضرت میں تو یہ یہ نمازیں پڑھتا رہا ہوں ، تہجد بھی پڑھتارہا ہوں ، ذکر بھی کرتا رہا ہوں اور فلاں فلاں چیز بھی کرتا رہا ہوں لیکن مجھے تو کچھ بھی محسوس نہیں ہورہا کہ میں نے کچھ کیا ہو ۔ فرمایا وہ تمہاری ساری عبادت تمہارے نفس نے کھا لی ہے ۔ نفس کا کھانا کس طرح ہوتا ہے ؟ نفس کا کھانا یہ ہے کہ میں نماز پڑھ کر اگر اپنے آپ کو اچھا کہنے لگوں کہ میں نمازی ہو ں تو یہ نفس نے کھا لیا ۔ وہ نماز کس کیلئے ہوگئی؟ اس کے لئے ہوگئی کہ میں اپنے آپ کو اچھا سمجھوں ۔ میں نے حج کرلیا ، بس جی میں حاجی بن گیا ، اب اگر کوئی مجھے حاجی نہیں کہتا تو مجھے تکلیف ہوتی ہے ۔ اب وہ حج کس لئے ہوا ، اس لئے کہ مجھے لوگ حاجی کہیں ، یہی سے کام خراب ہوگیا ۔ ایک بزرگ کسی کے ہاں مہمان ہوگئے ۔ میزبان نے بیٹے کو آواز دی ، بیٹا میرے لئے وہ لوٹا لے آئو جو میں دوسرے حج کے موقع پر لایا ہوں ۔ وہ بزرگ انا للہ پڑھتے ہوئے کھڑے ہوگئے ، میزبان نے پوچھا حضرت کیا ہوا ، فرمایا میں جا رہا ہوں ، پوچھا کیا ہوا ، فرمایا بڑے خطرے کی بات ہے میں یہاں ٹھہر نہیں سکتا ۔ پوچھا کیوں ، فرمایا میرے آتے ہی تم نے دو حج تو ضائع کردیے ۔ اب اس کے بعد پتہ نہیں آپ کیا کیا ضائع کریں گے تو میں جارہا ہوں اسلام علیکم ۔ اب آپ دیکھ لیں کیا آج کل ہم ایسا نہیں کرتے ۔تو حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ نے اس شخص سے فرمایا کہ جتنے اعمال تو کر چکا ہے وہ سارے کے سارے تیرے نفس نے کھا لیے ہیں اب تم اعمال کرو کسی سے پوچھ کر ، طریقے سے ، تاکہ تمہیں فائدہ ہو ۔ تو یہ کیفیت احسان ہے ۔اس کیساتھ جو اعمال کیے جاتے ہیں وہ محفوظ ہوتے ہیں۔
کیفیت احسان سے عاجزی نصیب ہوتی ہے
کیفیت احسان میں ایک عجیب بات ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔ کیفیت احسان سے جب اعمال کریں گے تو کیا ہوگا ، آپ نے نماز پڑھی ، لوگ کہیں گے اس نے نماز پڑھی ہے ۔ اور آپ رو رہے ہونگے کہ یا اللہ مجھے معاف کردے میں نے توصحیح طرح سے نماز نہیں پڑھی میں نے تو نماز کو ضائع کردیا ، بندہ جتنا آگے بڑھے گا اتناہی اپنے آپ پر روئے گا ۔ اس کی vision بڑھتی جائے گی ، آپ نے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد ذکریا صاحب کی کتاب فضائل اعمال پڑھی ہوگی ، اس میں حضرت نے اپنے آپ کو ناکارہ کے علاوہ اور کچھ کہا ہے ؟نا کارہ ، نابکار ، خطاکار پتہ نہیں اپنے آپ کو کیا کیا کہا ہے ۔ کیا یہ خدا نخواستہ ڈرامہ بازی ہے ؟ نہیں یہ ان کے دل کی آواز تھی ، حضرت تھانوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، خدا کی قسم جنت کا تو مجھے حوصلہ ہی نہیں کہ میں اپنے لئے مانگ سکوں ، اتنی دعا ہے کہ اے اللہ جہنم میں نہ بھیج ، وہ برداشت نہیں ہوگی ، بس جنتیوں کے جوتوںمیں جگہ مل جائے تو یہ بڑی بات ہے ۔ آپ خود سوچیں حضرت کو اللہ جل شانہ نے کتنا کچھ دیا تھا ،حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے ، کہ جب تک انسان اپنے آپ کو کافر فرنگ سے بد تر نہ سمجھے اس وقت تک اس کو معرفت حاصل نہیں ہوتی۔ انسان حیران ہوجاتا ہے یہ کیسی بات ہے ۔ سمجھ نہیں آتی ، ظاہر ہے جو چیز حاصل نہیں وہ کیسے سمجھ میں آئے گی ۔ جو شخص بالغ نہیں کیا وہ بالغ افراد کی باتیں سمجھ سکتا ہے؟یہی بات ہے کہ وہ لوگ واقعتاً اللہ جل شانہ کے لئے کام کرتے ہیں ، اللہ جل شانہ کی عظمت ان پر اتنی کھلی ہوتی ہے کہ وہ اپنے اعمال کو ہیچ در ہیچ سمجھتے ہیں ۔ میں اس کی ایک مثال دیتاہوں ۔ ایک آدمی سے آپ کی بازار میں ملاقات ہوجاتی ہے ، آپ ان کو چائے کی دعوت دیتے ہیں اور اپنی حیثیت کے مطابق چائے پلا دیتے ہیں ، بعد میں پتہ چلا کہ وہ تو اس ملک کا وزیر ہے ۔ یکدم آپ کو محسوس ہوگا اوہو یہ میں نے کیا کیا ، مجھے اگر پتہ ہوتا تو میں یہ کرتا وہ کرتا، یہ چیز کھلاتا وہ کھلاتا۔، جو آپ نے اس کے لئے کیا ہے وہ سب آپ کو ہیچ معلوم ہونے لگے گا، حالانکہ آپ نے کچھ تو کیا ہے ۔ لیکن نہیں وہ آپ اس کی شان کے مطابق نہیں سمجھتے ۔ آپ پیالی کو بھی اس کے مطابق نہیں سمجھتے ، آپ چائے کو بھی اس کے مطابق نہیں سمجھتے ، آپ شرمندہ ہورہے ہیں ، حالانکہ آپ نے کچھ تو کیا ہے ۔ یہی بات ہے ، جن پر اللہ کی عظمت کھلتی ہے وہ اپنے اعمال پر شرمندہ ہوتے ہیں ، اپنے اعمال کو کچھ نہیں سمجھتے ۔ ہمارے اکابر اسی بات کی محنت کراتے تھے کہ انسان اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھے ۔
صحابہ کا تواضع
آپ کہیں گے چھوڑیں یہ صوفیانہ باتیں آپ کہاں سے یہ صوفیاء کی باتیں لے آئے ہیں ، ہمیں یہ باتیں راس نہیں آتیں ، تو چلو میں آپ کو صحابہ کی بات سنا دیتا ہوں ۔ اس کو تو سننا پڑے گا کیونکہ دین تو اسی طرف سے آیا ہے ۔ تو صحابہؓ کی بات سنیں۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، افضل البشر بعد الانبیاء ہیں لیکن خود فرماتے ہیں ، کاش میں کوئی تنکا ہوتا جس کو کوئی جانور کھا لیتا ، کاش مجھے میری ماں نے جنا نہ ہوتا ، آخر وقت میں وصیت فرما رہے ہیں ، مجھے پرانے کپڑے میں لپیٹ کر دفن کردیں ، نیا کپڑا تو زندوں کے لئے ہوتا ہے ، مجھے تو ویسے بھی مٹی میں مل جانا ہے ۔ یہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حال ہے ۔دوسرے نمبر پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، ایک دن حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے فرمانے لگے ، حذیفہ آپ حضورﷺِ کے رازدان ہیں ، آپ کو منافقوں کے نام معلوم ہیں ، میں یہ تو نہیں چاہتا کہ میں آپ ﷺِ کے رازوں کی امانت میں خیانت کے لئے کہوں ، صرف چپکے سے مجھے یہ بتا دیں کہ میرا نام ان منافقوں میں تو شامل نہیں ہے ؟ اندازہ کرلیں یہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پوچھ رہے ہیں ، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، قبر کو دیکھتے تو روتے روتے داڑھی مبارک آنسو وں سے تر ہوجاتی ، لوگ پوچھتے توفرماتے قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے اس میں اگر کوئی کامیاب ہوگیا تو وہ کامیاب ہے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ عشائ کے بعد اپنی داڑھی مبارک کو پکڑ کر اپنے آپ کو خطاب کرتے کہ تو ایسا ہے اور ایسا ہے ۔ اس طریقے سے ہمارے دوسرے اکابر صحابہ درجہ بدرجہ سب کا یہی حال ہے ۔ اب بتاو یہ صوفیانہ باتیں ہیں ؟ یہ ہمارا دین ہے اسی دین پر عمل کرکے ہی ہم کامیاب ہوسکتے ہیں لیکن
نقل اور ہے اور اصل اور
ہم لوگ بڑھے ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں ، کیسے ؟ کریں گے کچھ بھی نہیں اور نقل کریں گے بزرگوں کی ، بات کریں گے تو کہیں گے ہم توکچھ بھی نہیں ، ہم تو کچھ بھی نہیں ۔ اس کا مطلب ہے ہم بہت کچھ ہیں ، بزرگوں کی نقل جو کررہے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ وہ تکبر بہت خطرناک تکبر ہوتا ہے جو بصورت تواضع ہوتا ہے ۔ تواضع کے رنگ میں تکبر ۔ حضرت تھانوی نے اس کی بڑی اچھی مثال دی ہے ۔ فرمایا کوئی شخص جب اس طرح کہتا ہو کہ میں ایسا اور ایسا تو آپ اس کا ٹیسٹ لے لیں ، ایک دن جب و ہ اس طرح کہے تو آپ کہہ دیں ہاں ٹھیک ہے صحیح بول رہے ہو ، ہم کہہ تو نہیں سکتے تھے بہرحال اب چونکہ آپ نے خود کہہ دیا ہے تو واقعی آپ ایسے ہی ہیں ، پھر دیکھو اس کے چہرے پر کونسا رنگ آیا اور کونسا گیا ، پتہ چل جائے گا وہ صحیح کہہ رہا ہے یا اپنے آپ کو بنا رہا تھا ۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم لوگ خود کو بھی بھول جاتے ہیں اور اللہ کو بھی بھول جاتے ہیں ۔ حالانکہ ابھی ہمارے دل میں وسوسہ پیدابھی ہوتا کہ اللہ جل شانہ کو اس کا پتہ چل جاتا ہے ۔ فرماتے ہیں اللہ کی نظر دلوں پر ہوتی ہے صورتوں پر نہیں ۔ جب ایسی صورت ہے تو ہم صورت اعمال سامنے رکھ کر کیا حاصل کرسکتے ہیں ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ انسان اپنے اعمال سے جنت میں نہیں جائے گا ،بلکہ اللہ کے فضل سے جائے گا ۔ ہم لوگ نعوذباللہ ، اللہ معاف فرمائے ،تنگی محسوس کرتے ہیں کہ یہ کیا ہے ، آدمی اعمال بھی کرے اور پھر بھی فضل کا انتظار ہوگا ،لیکن جو اللہ والے ہیں وہ اس بات سے خوش ہوتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اعمال تو کچھ بھی نہیں ہیں اللہ کے فضل سے ہی کامیاب ہونگے ۔ اس حدیث شریف سے ان کو بڑی خوشی ہوتی ہے کہ واقعی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہم بچ جائیں گے ۔ اگر فضل کا سہارا نہ ہوتا تو ہمارے اعمال کس کام کے ۔ تو ہم لوگوں کو یہ کام کرنے پڑیں گے کہ ایک تو موت کو یاد رکھنا پڑے گا ،اور دوسرا اللہ جل شانہ کے سامنے کھڑے ہوکرحساب دینے کو یاد رکھنا پڑے گا ۔ اس چیز کوبھلانے کیلئے جو بہت بڑی فورس ہمارے پیچھے لگی ہوئی ہے وہ دنیا کی محبت ہے ۔ یہ ہر چیز کو بھلا دیتی ہے ۔ آپ نے دیکھا ہوگا لوگ جنازے کیساتھ جارہے ہوتے ہیں اور آپس میں ہنسی مذاق بھی کررہے ہوتے ہیں ، مجھے بتائیں اگر جنازے کے وقت بھی انسان کو خدا یاد نہ آئے تو پھر کس وقت یاد آئے گا ۔ اگر اس وقت بھی کوئی ہنسی مذاق کررہا ہے تو اس کا مطلب ہے وہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا ہی نہیں چاہ رہا ۔تو دنیا کی محبت کو دل سے نکالنا پڑے گا ۔ اس کو نکا لنے کے لئے اللہ جل شانہ کا ذکر کرنا پڑے گا ۔
ذکر کیا ہے ؟ دلوں کی دوا ہے
یہ میں نہیں کہتا ، آپ ﷺِ فرماتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کا ذکردلوں کی دوا ہے ۔ اس کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو غذا کا کام دیتی ہے وہ اس طرح کہ جب ہم ذکر کرتے ہیں تو ہمیں روحانی قوت حاصل ہوتی ہے ۔ جس میں سبحان اللہ ، الحمد اللہ ، درود شریف ، استغفار ، قران پاک کی تلاوت ،سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم وغیرہ یہ سارے اذکار آتے ہیں دوسرا وہ ذکر ہے جس سے ہمارے دلوں سے دنیا کی محبت ختم ہوجاتی ہے ۔ ہمارے اکابر ذکر کے جو طریقے بتاتے ہیں یہ وہی ذکر ہے ۔ جوغذا والا ذکر ہے اس میں قیامت تک کوئی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ لیکن جو دوا والا ذکر ہے اس میں تبدیلی آسکتی ہے ۔ کیونکہ اس میں مقصود الفاظ نہیں ہوتے ، کیفیت ہوتی ہے ۔ بہر حال جو لوگ اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں ان سے تو میں نہیں کہہ رہا ، لیکن جو لوگ اپنی اصلاح کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ موت سے پہلے پہلے ان کی اصلاح ہوجائے ، جوکہ فرض عین بھی ہے ، وہ اپنے لئے کسی کو تلاش کرلیں ۔
شیخ کی نشانیاں بھی معلوم کرلو
کہیں کسی ڈاکو کے ہاتھ نہ لگ جاؤ ۔ پہلی نشانی یہ ہے کہ اس کو فرض عین علم حاصل ہو ، یہ وہ علم ہے جس پر چوبیس گھنٹے شریعت کے مطابق زندگی بسر ہوسکے ۔ یہ جو مدرسوں میں پڑھاتے ہیں یہ فرض کفایہ علم ہے ۔ فرض عین علم ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ دوسری نشانی اس فرض عین علم پر اس کو عمل حاصل ہو ۔ تیسری نشانی ، اس کو بزرگوں کی صحبت حاصل رہی ہو ، اور اس کا سلسلہ حضور ﷺِ تک پہنچتا ہو۔ چوتھی نشانی ، ان بزرگوں کی طرف سے ان کو اجازت حاصل ہو ، نسبت حاصل ہو ۔ پانچویں نشانی ، ان کے ساتھ بیٹھنے والوں کی اصلاح ہوتی نظر آتی ہو ۔ چھٹی نشانی ، وہ مروت نہ کرتا ہو ، اصلاح کرتا ہو ۔ ساتویں اور آخری نشانی یہ کہ ان کی مجلس میں بیٹھ کر خدا یاد آجائے اور دنیا سے دوری محسوس ہوتی ہو ۔حضرت شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر ایسے لوگ مل جائیں تو ان کو اپنے لئے سب کچھ سمجھو ۔ پھر اس بات پر دیر نہ کرو کہ اس کو کشف یا کرامت حاصل ہے یا نہیں ۔ یہ چیزیں ثانوی ہیں ان چیزوں پر نہ جائو ۔ بہت سارے صحابہ گزرے ہیں ، ان میں سے بہت کم کی کرامتیں مشہور ہیں ، ظاہر ہے صحابہ سے تو کوئی بڑا نہیں ہے ۔ اس کامطلب ہے کشف و کرامت مطلوب نہیں ہے ، اصل مطلوب فیض رسانی ہے ۔ اگر وہ فیض رسان ہے ، لوگوں کو اس کا فیض مل رہا ہے ۔ بس کافی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ۔