ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ اللہ جل شانہ نے ہمیں بہت پیارا دین عطا فرمایا ہے الحمد اللہ۔ ہم اس دین پر ہیں جس کو اللہ نے اپنا دین کہا ہے ، اللہ جل شانہ کے نزدیک یہی صحیح دین ہے اور کوئی دین صحیح نہیں ہے ۔اس سے پہلے جتنی امتیں آئیں ، وہ محدود وقت کے لئے تھیں ۔ ان کی تعلیمات محدو د وقت کے لئے تھیں ۔ لہذا اس میں محدود وقت کیلئے انتظامات شامل تھے ۔ ان کے لئے جو کتاب اتاری گئی تھی وہ کتاب بھی محدود عرصے کیلئے پڑھی جاسکتی تھی کیونکہ اس میں بہت ساری ایسی باتیں جو بعد میں پیش آنے والی ہوتی تھیں ان کا انتظام نہیں تھا ۔ اس لئے جو بھی پیغمبر آتے رہے وہ اپنی امت کو آنے والے نبی کے بارے میں بتایا کرتے تھے کہ ایک نبی آئے گا ، اس پر ایمان لانا ہے اور پھر اس کے ساتھ چلنا ہے ۔ تمام اولو العزم پیغمبروں نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا ابراہیم علیہ السلام نے اس کے لئے دعا کی ، اور داود علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام نے اپنی نظموں میں ان کے بارے میں بیان فرمایا ۔ عیسٰی علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام نے ان کے لئے باقاعدہ تعلیم فرمائی اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ قرآن میں جیسا کہ آیا ہے ان کے بارے میں انبیائے کرام سے میثاق لیا گیا تھا ، عہد لیا گیا تھا کہ اگر آپ کے دور میں یہ نبی آجائے تو آپ ان کو مانیں گے اور ان پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعلیمات پر عمل کریں گے ۔
عمل اب قرآن پر ہی ہوگا
اس کا اظہار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ تورات پڑھ رہے تھے ۔ پڑھے لکھے صحابہ بہت تھوڑے تھے ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے ۔ تو ایک دفعہ تورات پڑھ رہے تھے ، آپ ﷺِاور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا گزر اس طرف سے ہوا ۔ تو آپ ﷺِ کا رنگ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو تورات پڑھتے دیکھ کر متغیر ہوگیا ۔ چہرہ مبارک پر ناگواری کے اثرات آگئے ۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ چونکہ مزاج شناس تھے ، انہوں نے جو یہ صورتحال دیکھی تو فورا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو متنبہ کیا، لیکن متنبہ بڑے سخت الفاظ میں کیا ۔ اے عمر ؓ تیری ماں تجھے روئے دیکھ نہیں رہے ہو کہ حضور ﷺ کا کیا حال ہورہا ہے ۔ اس سے پتہ چلا کہ آپﷺِ کے بارے میں کسی صحابی کو کسی اور کی کوئی پرواہ نہیں تھی ۔ حالانکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کے قرب کا آپ کو پتہ ہے کہاایک دوسرے کے کتنے قریب تھے ۔ لیکن یہ ایسی بات تھی کہ اس میں کسی کی کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں تھی ۔ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جب دیکھا تو صورتحال کو بھانپ لیا ، اور فورا ًکہنا شروع کیا
میں راضی ہوگیا اللہ تعالٰی کے رب ہونے پر ، راضی ہوگیا اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوگیا حضورﷺِ کے پیغمبر ہونے پر ، مسلسل یہ پڑھتے رہے ، پڑھتے رہے ۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کا رنگ مبارک نارمل ہوگیا ۔ پھر آپ ﷺِ نے فرمایا ہاں اس وقت اگر موسیٰ علیہ السلام بھی تشریف لے آئیں تو وہ بھی میری شریعت پر چلیں گے ۔ اس سے پتہ چلا کہ اس مذہب کا کیا مقام ہے ۔ اس مذہب کے اندر قیامت تک جو کچھ بھی ہوسکتا ہے ان سب کا انتظام ہے ۔
<
قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے
لیکن اس کے بارے میں ایک بات عرض کروں ، اس میں بعض لوگ غلطی کرتے ہیں ، انتظام سے مراد یہ نہیں ہے کہ قرآن میں قیامت تک ہونے والی سائنسی واقعات کی تفصیل ہے ۔ ایسی بات نہیں ہے ۔ قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے ۔ سائنس کیا ہے تدریج کے ساتھ تکونیات کو دریافت کرنا ، تدریجا ًتکونیات کو دریافت کرنا سائنس کا کام ہے ۔ اس کے لئے رولز ، ریگولیشنز ، فارمولے ، مساوات ، کتابیں ، analysis ﴿تجزیہ﴾ یہ سب کچھ سائنس کا شعبہ ہے ۔ اور تدریج کے ساتھ ہوتا ہے ۔ آج جو چیز ٹھیک ہے ۔ کل وہ غلط ثابت ہوسکتی ہے ۔ اور کل جو چیز ٹھیک ہے وہ ممکن ہے کہ آنے والے چند دنوں میں غلط ثابت ہوجائے ۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ مختلف آراء آرہی ہیں اور وہ پھر واپس بھی ہوجاتی ہیں ، متغیر چیز جو ہے ۔اس کے برعکس قرآن کی بات حتمی ہوتی ہے ۔اگر قرآن کی کسی بات کو آپ سائنس کے ساتھ وابسطہ کرلیں اور وہ سائنس تبدیل ہوجائے تو پھر آپ کیا کریں گے ، قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے ۔ البتہ سائنس کو صحیح طور پر استعمال کرنے کی کتاب ہے ۔ سائنس کو بھی صحیح طور پر استعمال کرنے کا طریقہ کون بتائے گا ۔ وہ قرآن بتائے گا ۔ حضورﷺِ بتائیں گے ۔ قرآن کے اندر ہدایت ہے ، اس کے بالکل ابتدا ہی میں یعنی شروع میں اس کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ہے
یہاں پر قرآن کی ابتدا ایسے الفاظ سے ہورہی ہے جس کے معنی اللہ اور اللہ کے رسول کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا ۔ حروف مقطعات ۔ یہ پہلا Jerk ﴿جھٹکا﴾ہے جو اس قسم کا دعویٰ رکھنے والے شخص کو ہوتا ہے ۔ یہ اللہ کا کلام ہے اس میں کوئی شک نہیں اس کی ہر چیز ماننی پڑے گی چاہے سمجھ میں آئے یا نہ آئے ۔ الم سمجھ میں تو نہیں آتا لیکن ماننا پڑے گا اس پر ایمان لانا لازم ہے حالانکہ قیامت تک کوئی اس کو نہیں جان سکتا ۔ پہلے ہی سے پتہ ہے ۔ ماننا لازم ہے ۔ سائنس سے اس کا پتہ لگ سکتا ہے ؟سائنس تو مشاہدات و تجربات کی کہانی ہے ۔ آپ سائنس کو اس کے ساتھ کیسے وابستہ کریں گے ۔ پہلا لفظ وہ کیا ہے ، وہ یہ ہے کہ وہ تمہیں بتاتا ہے کہ دیکھو قیامت تک اس کے بارے میں جان نہیں سکو گے ، پھر بھی ماننا پڑے گا ۔ پھر فرماتے ہیں ذٰلِکَ ا لکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ یہ وہ عظیم الشان کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں ، کوئی شک نہیں ۔ اگر کوئی نہ مانے اس پر شک ہے ۔ اس میں شک نہیں ، کیونکہ یہ اللہ کا کلام ہے ۔ لیکن ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ھُدًی لِّلمُتَّقِیْن یہ متقین کے لئے ہدایت ہے اور متقین کی تعریف کیا فرمائی ، ابتدا ہی میں سائنس پانی میں بہہ جاتا ہے ۔ وہ کیا ہے ؟
اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ
کیاسائنس ایمان باالغیب کا دعویٰ کرسکتا ہے ؟ سائنس میں تو ایمان باالغیب ہوہی نہیں سکتا ۔ وہ تو ایمان بالمشاہدہ ہے ۔ ہر چیز کا مشاہدہ تجربے سے پرکھو گے پھر سائنس اس کو مانے گا ۔ اس کے بغیر وہ نہیں مانتا ۔ جبکہ مذہب کی ابتدا کس چیز سے ہورہی ہے یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ سے یعنی ایمان بالغیب سے ہورہا ہے ۔ اس کا مطلب کیا ہے ؟ مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے آپ کو جو دیا ہے وہ فائنل چیز ہے۔ تدریجی چیزنہیں ہے ۔ قیامت تک جو چیز فائنل ہوسکتی تھی ، وہ آپ کو دے دی گئی ہے، ِ؟پَ
،میں نے آج کے دن تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور تمہارے اوپر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین پسند کیا ۔ یہاں معاملہ فائنل ہوگیا ، تدریج نہیں ہے ، نہ نماز میں تبدیلی آئے گی نہ روزے میں تبدیلی آئے گی ۔ نہ حج میں تبدیلی آئے گی ۔ آج کل اجتہاد ،اجتہاد کی باتیں ہورہی ہیں ، اجتہاد کن چیزوں میں ہوتا ہے ۔ وہ بھی انشاء اللہ تھوڑی دیر میں عرض کروں گا ۔ اصل میں جو چیزیں پہلے سے طے ہوچکی ہیں اس کے معاملے میں تو تم بول بھی نہیں سکتے ۔ بولو گے تو کافر ہوجاؤگے ۔ یہ کوئی گپ شپ ہے ؟ یہ اللہ تعالٰی کی چیز ہے ، تمہاری نہیں ہے ۔ تم نے نہیں ماننا تو نہ مانو اللہ تعالیٰ کو تمہاری کوئی پرواہ نہیں ۔ اللہ اللہ ہے رسول رسول ہے اور تم تم ہو اپنے آپ کو پہچانو ۔ مطلب یہ ہے کہ جو فائنل چیز ہے اس پر ایمان لانا ہے ۔ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ میں جنت کا بتا دیا ، مانو گے ، دوزخ کا بتا دیا مانو گے ، آخرت کا بتادیا مانو گے ، دوبارہ اٹھنے کا بتا دیا مانو گے ، میزان کا بتا دیا مانو گے ، اس میں نہ ماننے کی گنجائش ہے ہی نہیں ۔ اس کا انتظار نہیں کرسکتے کہ سمجھ میں آئے گا تو مانوں گا ۔ جس نے کہہ دیا سمجھ میں آئے گاتو مانوں گا ، بس ادھر ہی سے اس کا معاملہ ختم ہوگیا ۔ یہ مذہب ہے یہ سائنس نہیں ہے ، سائنس تدریج کا نام ہے اور مذہب مکمل ہوچکا ہے ، مذہب کے اندر تدریج نہیں ہے ۔ مذہب مکمل ہوچکا ہے ۔ تو مطلب میرا یہ ہے کہ ا س میں جو چیزیں بتائی گئی ہیں اس کے اندر تبدیلی نہیں آسکتی ۔
<
اجتہاد کیا ہوتا ہے ؟
اجتہاد کس چیز میں ہوتا ہے وہ بھی عرض کرتا ہوں ، اللہ جل شانہ نے اپنے نبی کو بھیجا دین کی تشریج کے لئے ۔ ہدایت پہنچانے کے لئے آپ ﷺ کو بھیجا گیا ۔ آپ ﷺِ نے دو کام کیے ایک قرآن دیا اور ایک اپنا طریقہ بتایا اس کے اولین مخاطب صحابہ کرام تھے ۔تمام صحابہ کو جو بات سمجھ آگئی اور اس پر اجماع ہوگیا ، اب اس کے اندر تبدیلی نہیں ہوسکتی ۔ کیونکہ تم درمیان میں نہیں ہو ، صحابہ درمیان میں ہیں ۔ دین صحابہ کے through ﴿کے ذریعے ﴾ آیا ہے ۔ دین تمہارے through صحابہ کو نہیں جارہا ۔ دین کی جڑیں وہاں سے نکلتی ہیں، تم سے نہیں ۔ جب یہ بات سمجھ میں آگئی تو اب دیکھ لو ، اللہ نے پیغام پہنچایا اپنے نبی ﷺ کے ذریعے ،اور پہنچا کن کو ،صحابہ کرام کو ، صحابہ کرام نے اس کو سمجھا ۔ جس کو سب صحابہ کرام نے سمجھا اور اس پر اجماع ہوگیا ۔ اس میں اب دوسری بات نہیں ہوسکتی ۔ اس میں کوئی امام بھی دوسری بات نہیں کرسکتا ۔ چہ جائیکہ تم بات کرو ۔ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کو بھی اس چیز کی اتھارٹی نہیں تھی ، امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کو بھی اس کی اتھارٹی نہیں تھی امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیھماکو بھی اس کی اتھارٹی نہیں تھی ، کہ اس چیز کے اندر تبدیلی لائے جس پر صحابہ کرام متفق ہوچکے ہوں۔ تو جس چیز پر صحابہ کرام متفق ہوں ، اس چیز کے اندر اجتہاد کی گنجائش ممکن نہیں ۔ اب آگے کی سنیں ۔ صحابہ کرام میں اختلاف ہوگیا مختلف وجوہات کی بنا پر ۔چونکہ ہمارا دین فطرت کے مطابق ہے لہذا اس میں فطرتی اختلاف ہوسکتا ہے مثلاًایک صحابی رسولﷺ نے آپ ﷺِ کو بالکل ابتدا میں دیکھا اور پھر بعد میں چلے گئے اور وہاں رہے ہی نہیں ۔ دوسرے صحابی رسولﷺ ہر وقت آپﷺ کے ساتھ موجود ہے ۔ تو اس لحاظ سے فرق ہے ۔ ایک صحابی فقیہ صحابی ہے دوسرا صحابی عام صحابی ہے ۔ فرق ہے دونوں میں ۔ ایک صحابی گھر کا ہے دوسرا صحابی باہر کا ہے ۔ فرق ہے ۔ تو ان چیزوں میں فرق واقع ہوسکتا ہے ۔ اختلاف فطرتاًہوگیا ۔ جس صحابی نے حضورﷺکو جس طرح دیکھا اس نے دیکھ لیا اگر اس کا بعد میں دوسرے صحابہ کے ساتھ رابطہ ہوگیا اور انہوں نے اپنی رائے تبدیل کرلی تو ان کی بات ہے ۔ جیسا کے اختلاف قرآن پاک کے جمع کرنے پر ہوا تھا ۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی رائے نہیں تھی باقی صحابہ کرام نے ابوبکرصدیقؓ کو اس پر قائل کرلیا ۔ آخر میں آپ قائل ہوگئے اور آپ نے بھی قرآن پاک کو جمع کرلیا ۔ اختلاف ہوا تھا ، اختلاف ختم ہوگیا ۔ اگر آپس میں کسی بات پر اختلاف ہوگیا اور آپس میں انہوں نے ایکدوسرے کو convince کرلیا تو اجماعی بات آگئی ۔ بس بات ختم ہوگئی ۔
<
اجتہاد کیسے ہوتا ہے ؟
لیکن اگر وہ اختلاف باقی رہا ۔ اور آخر وقت تک باقی رہا ۔ تو اس صورتحال میں پھر آئمہ کرام کی ذمہ داری تھی کہ وہ کھوج لگائیں کہ کہ کس کے قول کو لیا جائے ؟ کس صحابی کا قول آپ ﷺِ کا آخری قول ہوسکتا ہے ۔ وہ دوطریقوں سے جانچتے تھے ۔ ایک صحابی کا اپنا مقام کہ وہ کس مقام پر ہے ۔ فقیہہ ہے یا غیر فقیہہ ہے ۔ باہر کا ہے ، اندر کا ہے ۔ تھوڑی دیر کا ہے ، زیادہ دیر کا ہے ۔ یہ ساری تفصیلات اپنی جگہ پر ۔ اور ایک وہ روایت کس طریقے پر پہنچی ہے ۔ کہیں اس کے اندر جھوٹ تو نہیں ہے ۔ کیونکہ براہ راست تو انہوں نے نہ دیکھا نہ سنا ۔ ایسی صورت میں جو درمیان کے راوی ہیں وہ بھی بہت اہم ہو جاتے ہیں ۔ اس پر بھی فیصلہ تبدیل ہوسکتا ہے ۔ اس کے بعد فقہائے کرام نے اپنے کچھ اصول بنا ئے ، وہ جو اصول بنائے پھر اس کی بنیاد پر فیصلے کیے ۔ جیسا کہ محدثین کرام نے اصول بنائے ۔ امام بخاری نے اپنے اصول بنائے ۔ امام مسلم نے اپنے اصول بنائے ۔ امام ابو داءود اور امام ترمذی نے اپنے اصول بنائے ۔ ان سب نے اپنے اپنے اصول بنائے ۔ روایتیں آتی رہیں ، اپنے اپنے اصولوں پر ان کو جانچتے رہے اور جو درجہ ان کے اصولوں کے مطابق بنتا رہا ۔ وہ ساتھ ساتھ بتاتے رہے اس طریقے سے احادیث شریف کی کتابیں مدون ہوگئیں ۔ بالکل اس طریقے سے فقہائے کرام نے کیا ۔ ان کے اپنے اصول تھے ۔
<
امام ابوحنیفہ ؒ کا اجتہاد شورائی تھا
امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے کیا کیا ؟ انہوں نے وہ کیا جس پر آج لوگ جان دے رہے ہیں وہ کیا انہوں نے ۔ انہوں نے شورائی انداز اپنا لیا ۔ فرد واحد کی رائے نہیں لی ۔ حالانکہ خود بڑے امام تھے ۔ انہوں نے بڑے بڑے فقہا کو جمع کیا ۔ جن کی تعداد چالیس تک بتائی جاتی ہے بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی ہے ۔ ان کو جمع کیا ، اس میں ہر ہر فن کے سپیشلسٹ شامل تھے ۔ فقہ کے سپیشلسٹ ، حدیث کے سپیشلسٹ ، قرآن خوانی کے سپیشلسٹ ، بیان کے بھی سپیشلسٹ ، لغت کے سپیشلسٹ ، نحو و صرف کے سپیشلسٹ ، مطلب یہ کہ ہر ہر فن کے سپیشلسٹ انہوں نے جمع کیے ۔ نتیجتاً کیا ہوا ۔ کوئی مسئلہ سامنے آتا تو پہلے بتایا جاتا قرآن کے فہم رکھنے والوں کو ،کہ اس کے بارے میں آپ کے پاس کوئی آیت ہے ؟وہ آیت بتا دیتے کہ یہ آیت ہے ۔ علم لغت اور علم بیان والوں کو کہا جاتا کہ اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے بتائیں ۔ مفسرین کرام بتادیں ۔ اس کے بعد محدثین سے بات ہوتی کہ آپ بتائیں اس کے بارے میں احادیث شریفہ ہیں ؟ اس کی تشریحات میں کیا منقول ہے ؟پھر اس کے بعد فقہی اصول و ضوابط، اس کے مطابق بحث ہوتی اور بہت لمبی چوڑی بحث ہوتی ۔ اس کے بعد سب سے آخر میں امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ اپنی رائے دیتے ۔ یہ طریقہ میں نے خود اسلامی نظریاتی کونسل میں دیکھا ہے ۔ اسلامی نظریاتی کونسل والوں نے مجھے ایک دفعہ بلایا تھا ایک مسئلہ پر تو میں جو باتیں کررہا تھا وہ سب نوٹ کررہے تھے ۔ آخر میں اس پر اچھی خاصیDebate ﴿بحث ﴾ ہوئی ۔ اور جو وہ ختم ہوئی تو پھر جو جسٹس میرزمان تھے ، انہوں نے اپنی رائے بیان کردی ۔ کہ یہ یہ چیز لکھو۔ اس سے یہ conclude ہوتاہے تو بہر حال میں یہ عرض کررہا تھا کہ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ آخر میں اپنی رائے پیش فرما دیتے ۔ تو پھر اکثر ایسا ہوتا کہ سب اس پر متفق ہوجاتے کہ ہاں ٹھیک ہے یہ رائے صحیح ہے ۔ تو اس کو لکھ لیا جاتا تھا ۔ کبھی کبھی ایسا ہوجاتا تھا کہ بعض بڑے فقہائے کرام جیسا امام محمد اور امام ابو یوسف رحمۃ اﷲ علیھما وغیرہ یہ حضرات فرماتے کہ اس کے اندر یہ بات ہے ۔وہ اپنی بات شرح بست کے ساتھ بیان فرماتے ۔ اگر امام صاحب رجوع فرما لیتے پھر بات ختم ہوجاتی ۔ اگر رجوع نہ فرماتے اپنی بات پر جزم فرما دیتے کہ میری بات بھی ٹھیک ہے ، مطلب یہ ہے کہ میری رائے تبدیل نہیں ہوئی تو امام صاحب کی رائے لکھی جاتی فقہ حنفی کے طور پر اور حاشیہ پر لکھا جاتا کہ اس کے ساتھ ان ان حضرات نے اختلاف کیا ، ان ان اصولوں کی بنیاد پر ، یہ ہے فقہ حنفی ۔
<
پنڈورا بکس نہ کھولیں
بتائیں کس انداز سے یہ فقہ مرتب ہوئی ہے ۔ آج کوئی کرلے اس طرح یا کرکے دکھائے ۔ ہمارے ملک کا 1973 ء کا آئین بنا ہوا ہے ۔ کتنی غلطیاں اس میں ہوسکتی ہیں ۔ بہت ساری غلطیاں ہوسکتی ہیں اس میں اور لوگ بھی مانتے ہیں ۔ لیکن جب مشورہ دیا جاتا ہے کہ تبدیل کرلو کہتے ہیں نہیں نہیں نہیں ، پنڈورا بکس کھل جائے گا ۔ بہت مشکل ہے پھر سب لوگوں کو جمع کرنا بہت مشکل ہے ۔ یہ غلطی نہ کرنا ۔ کیوں ؟بہت مشکل ہے لوگوں کو جمع کرنااس چیز پر ۔ آپ مجھے بتادیں ، کہ فقہ حنفی پر جو جمع ہوچکا ہے چالیس سے زیادہ بڑے بڑے امام ، اگر اس میں اختلاف کرو گے تو وہ حضرات کہاں سے لاؤ گے ۔ بتائیں ۔ ہے آپ کے پاس کوئی طریقہ کار ان جیسے حضرات لانا ۔ صرف علماء نہیں ، کیونکہ علم کے بارے میں ایک بات بتا دوں ۔ یہ میرے خیال سمجھنا بہت ضروری ہے ۔
شَکوتُ الی وَکیعٍ سوَء حِفظی
فَارشْدنی اِلی تَرِک المعاصی
و ذلِکَ اَن حَفِظَ العِلم نور
وَ نور اللهُ لا یُوتی لِعاصی
حضرت وکیعؒ سے امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے پوچھا کہ حضرت میرا حافظہ کمزور ہے اس کیلئے کچھ بتائیں ۔ فرمایا گناہ چھوڑ دو ۔ کیونکہ علم اللہ کا فضل ہے جو عاصی دل کے اندر نہیں آتا ۔ جوگناہ گار دل کے اندر نہیں آتا ۔ تو حضرت وکیع ؒ کا فتویٰ کیا ہے علم کے بارے میں ؟کہ یہ نور ہے ۔ الفاظ نہیں ہیں ۔ الفاظ ضرور آپ کی زبان سے نکلیں گے لیکن اس نور کی بنیاد پر نکلیں گے۔ طیب الفاظ ۔ اگر نور ہوگا تو یہ الفاظ نکلیں گے ۔ نور نہیں ہوگا تو پھر ظلمت ہی ظلمت نکلے گی ۔ لوگوں کو خراب کردو گے ، فتنہ بنے گا ۔ تو وہ حضرات صرف علماء نہیں تھے ۔ وہ علماء بھی تھے اور ساتھ ساتھ متقین بھی تھے ۔ ان جیسا تقویٰ کہاں سے لاؤگے ۔وہ اپنے معاملات اور معاشرت میں کھرے تھے ۔ اب بتائیں آج کل کے لوگوں پر ہم اتنا depend کرسکتے ہیں ۔ ہر شخص کی قیمت لگ سکتی ہے ۔ کسی کی لاکھ ہے کسی کی دو لاکھ ہے کسی کی گاڑی ہے کسی کا مکان ہے ، کسی کی گرین کارڈ قیمت ہے ۔ اس کو گرین کارڈ مل گیا اس کے بعد جو کچھ مرضی اس سے لکھوا لو ۔ آج کل ان جیسے لوگ کہاں سے لاؤ گے ۔ اس وجہ سے جس پر امت متفق ہوگئی اس کو نہ چھیڑو ۔ ورنہ بہت پریشانی میں مبتلا ہوجاؤگے ۔ پھر دین پر جم نہیں سکو گے ۔ شیطان کے لئے ایک کھلونا بن جاؤگے ۔ ہماری پشتو میں ایک ضرب المثل ہے کہ پتھر جو ہے یہ اپنی جگہ پر ہی ٹھیک ہوتا ہے ۔ تھوڑا سا اس کو اپنی جگہ سے ہٹا دو ، پھر وہ چیز نہیں رہے گی ۔ مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں اپنی جگہ پر درست ہیں ۔ اگر ان کو آپ نے ہلا دیا تو پھر آپ میں سکت نہیں ہوگی کہ اس کو اپنی جگہ پر لا سکو ۔ پھر instability اس حد تک آجائیگی کہ آپ بھی چیخ اٹھیں گے ۔ جیسے لوگ چیخ اٹھے ہیں ۔ اعجاز حسین بٹالوی صاحب ایک عالم گزرے ہیں جو پہلے قائل تھے کہ تقلید نہیں ہونی چاہیے ۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ ہم نے لوگوں کو کہا تقلید کو چھوڑنے کا ، لوگوں نے بغیر علم کے تقلید چھوڑا ، آخر میں اسلام کو سلام کربیٹھے ۔ بعض دفعہ انسان سچ بول دیتا ہے ۔ پتہ چل جاتاہے ۔ بہر حال ان چیزوں کو چھیڑنا مناسب نہیں ہے ۔ بات کس چیز سے شروع ہوئی تھی کہ اجتہاد کس چیز میں ہوسکتا ہے ۔ تو اجتہاد اس چیز میں ہوسکتا ہے کہ جب صحابہ کرام میں اختلاف ہو ، اور اس پر پھر اجماع واقع نہ ہوچکا ہو ، تو آپ کو علم و تقوی کے ساتھ غور خوض کے بعد اگر کسی صحابی کا قول زیادہ راجح نظر آجائے ۔ اور سمجھیں کہ یہ زیادہ حضور پاک ﷺِ کے قول کے قریب لگتا ہے ۔ اور لگتا ہے کہ یہ ٹھیک ہوگا ۔ تو پھر آپ اس کو لیں ، اس میں اجتہاد ہوسکتاہے ۔ لیکن جس پر صحابہ اکا اجماع ہوگیا تو بات ختم ۔
<
اہل سنت والجماعت کے اصول
لہذا اہل سنت والجماعت کے نزدیک چار اصول ہیں ۔ پہلا اصول قرآن ، قرآن میں کوئی چیز واضح ہے بات ختم ۔ دوسرا اصول سنت ، سنت میں کوئی چیز واضح ہوگئی بات ختم ۔ تیسری چیز اجماع ، اجماع میں کوئی چیز واضح ہوگئی بات ختم ۔ چوتھی چیز آخر میں آتی ہے قیاس مجتہد ، میرا اور آپ کا قیاس نہیں ، آج کل لوگ کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو اجتہاد کا حق دے دو ۔ خدا کے بندو ، پارلیمینٹ میں کتنے لوگ ہیں جو دین کے علم کو جانتے ہیں اور پھر کتنے لوگوں میں تقویٰ پایا جاتا ہے ۔ ایسی صورت میں آپ کوئی بات کرسکتے ہیں ؟ ان کو آپ حق دیں گے اجتہاد کا ۔ ان کو اجتہاد کا حق نہیں دیا جاسکتا ۔ لوگ کہتے ہیں اجتہاد کا دروازہ بند ہے ۔ واقعتاً اکثریتی لحاظ سے بند ہے ۔ کیونکہ جو چیزیں طے ہوچکی ہیں ان کو دوبارہ چھیڑنا مناسب نہیں ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا ۔ دوبارہ چھیڑو گے تو مسئلہ ہوجائے گا ۔ طے شدہ چیزوں کو نہیں چھیڑنا ۔
<
نئی باتوں میں اب بھی اجتہاد جاری ہے
ہاں البتہ نئی چیز آگئی ، مثلاً بینکنگ سسٹم ، آج کل کیسے ہونا چاہیے ۔ قطب شمالی اور قطب جنوبی پر جا کر آپ کیا کریں گے ایک نئی چیز ہے ۔ وہاں روزے کیسے رکھیں گے وہاں نماز کیسے پڑھیں گے ۔ ایک نئی چیز ہے ۔ مختلف قسم کے دوائیوں کے بارے میں کیا کریں گے ۔ مختلف چیزوں کی ingredients ﴿اجزائے ترکیبی ﴾کے بارے میں کیا ہے ۔ تو جو نئی چیزیں آرہی ہیں اس کے بارے میں علماء کرام بیٹھتے ہیں ، سوچتے ہیں ۔ اس کے بارے میں فتوے دیتے ہیں ۔ یہ چیز چل رہی ہے یہ چیز بند نہیں ہے ۔ یہ چیزیں ہوتی ہیں ۔ لیکن جو چیزیں طے شدہ ہیں ان کے بارے میں نہیں ۔ آپ شروع کرلیں برما سے ، بنگلہ دیش ، انڈیا ، پاکستان ، افغانستان ، عراق کا اوپر کا حصہ ، اور سنٹرل ایشیا ، ترکی ، تقریباً یورپ کے سنٹر تک جو مسلمان ہیں ، یہ سب ایک جیسی نماز پڑھیں گے ، فقہ حنفی کے مطابق ۔ جہاں بھی جائیں گے ایک جیسی نماز پڑھیں گے ۔ اس میں اب تبدیلی نہیں آسکتی ۔ یہ بات طے ہوچکی ہے ۔ اور اردن میں ، کچھ علاقہ شام کا ، لبنان ، ملائیشیا ، انڈونیشیا ، برونائی وغیرہ ۔ یہاں پر امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے مسلک کے مطابق عمل ہوتا ہے ۔ اس کو آپ تبدیل نہیں کرسکتے ۔ سعودی عرب میں حنبلی ہیں ، اور سوائے مصر کے باقی پورے افریقہ میں مالکی ہیں ۔ وہ اس کے مطابق کرتے ہیں ۔ تو جو جہاں پر ہے اس کے مطابق وہ عمل کررہا ہے ۔ یہ تقریباً نوے فیصد سے زیادہ لوگ بن جاتے ہیں ۔ ان کونہ چھیڑو ۔ اس میں اجتہاد نہیں ہوسکتا ۔ یہ ہوگیا ہے ۔ البتہ نئی بات ان کے لئے بھی نئی اور ہمارے لئے بھی نئی ، تو وہ ہم سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور ہم ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ مثلاًرویت ہلال کا مسئلہ ہے ۔ رویت ہلال نیا مسئلہ ہے ، یہ پرانا مسئلہ نہیں ہے ۔ نیا مسئلہ اس لئے ہے کہ conditionsتبدیل ہوگئی ہیں ،اور جب conditions تبدیل ہوجائیں تو پھر حالات کے مطابق فتویٰ دوبارہ دینا پڑتا ہے اس کا مطلب ہے کہ اس پر بھی ہوم ورک کی ضرورت ہے ۔ تو یہ میں سارا اس لئے عرض کررہا ہوں کہ ضرورت کے مطابق اجتہاد کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ اور ہوگا ۔ لیکن بلا ضرورت نہیں ۔ تدوین ہوچکی ہے ۔ ہم لوگوں کو دین پہنچا ہے صحابہ کرام کے ذریعے سے ، پھر فقہائے کرام کے ذریعے سے ، اب علمائے کرام کے ذریعے سے پہنچ رہا ہے ۔ اس وجہ سے اس کا جاننا ضروری ہے ۔ اور جاننے کیلئے ہمارے پاس علم کا ہونا ضروری ہے ۔ یہ علم ہم ان لوگوں سے حاصل کریں گے ۔ ایک روایت میں فرماتے ہیں ، ہلاک ہوگئے سارے لوگ مگر وہ جو علماء ہیں اور ہلاک ہوگئے سارے علماء مگر وہ جو عمل کرنے والے ہیں ، ہلاک ہوگئے سارے عمل کرنے والے مگر وہ جو اخلاص کے ساتھ عمل کرنے والے ہیں ۔ اور اخلاص والے بھی خطرے میں ہیں ۔ کیوں خطرے میں ہیں ۔ سوال اٹھ سکتا ہے ۔ خطرے میں اس لئے ہیں کہ اگر اس نے اپنے آپ کو کچھ سمجھا کہ میں نے اتنا اچھا عمل کرلیا اخلاص کے ساتھ تو عجب ہوگیا معاملہ گڑ بڑ ہوگیا ۔ اس عمل کو بچانا بھی ہے ۔ اس کو ضائع تو نہیں کرنا ۔ تو اس وجہ سے یہ بات stage by stage اوپر جاتی ہے اور ایسے لوگ منتخب ہوتے ہیں جو ان تمام چیزوں سے آگے گئے ہوتے ہیں ۔ اور اپنے آپ کو محفوظ رکھتے ہیں ۔ اب علم تو ہم نے حاصل کیا علماء سے ، عمل پر کیسے آئیں گے ۔
<
عمل پر لانے والی چیز کیا ہے ؟
عمل پر لانے کے لئے کس چیز کی ضرورت ہے ۔ کیوں ، یہ سوال اس لئے اٹھتا ہے کہ میرے خیال میں بعض موٹی موٹی باتیں ہیں ، جو سب لوگ جانتے ہیں مثلاً جھوٹ برا ہے سب لوگ جانتے ہیں ۔ غیبت بری چیز ہے سب جانتے ہیں ۔ کینہ اچھا نہیں ہے ، دھوکہ ، ملاوٹ ، رشوت ، سود یہ سب چیزیں ٹھیک نہیں ہیں سب لوگ اس کو جانتے ہیں ۔ پھر ان چیزوں میں مبتلا کیوں ہیں ؟ آخر کیا وجہ ہے ، کوئی بات تو ہوگی ، اس کے بارے میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جسم کے اندر گوشت کا ایک لوتھڑا ہے ۔ اگر وہ ٹھیک ہوجائے تو سارا جسم ٹھیک ہوجائے اور اگر وہ خراب ہوجائے تو سارا جسم خراب ہوجاتا ہے ۔ پھر فرمایا کہ وہ دل ہے ۔ اور ایک دفعہ فرمایا تقویٰ ھٰھُنا ، تقویٰ ھٰھُنا ، اور اشارہ دل کی طرف فرمایا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو دل ہے ۔ جب تک یہ نہیں بنا ، اس وقت آپ جانتے بھی ہونگے ، پھر بھی عمل نہیں کرسکیں گے ۔ ہمارے ساتھ بہت سارے لوگ ایسے ملتے ہیں جو کہتے ہیں کہ آپ جو کہتے ہیں ہم مانتے ہیں ، یہ ٹھیک ہے ۔ پھر بھی مسئلہ ہے ۔ صاف کہتے ہیں ۔
<
دل پر محنت کی ضرورت ہے
وہ مسئلہ کیا ہے مسئلہ یہی ہے کہ دل پر محنت کی ضرورت ہے ۔ بغیر اس کے ٹھیک نہیں ہوگا ۔ چھوٹی چھوٹی بات کے لئے انسان کو بڑی محنت کرنی پڑتی ہے ۔ تو اس وجہ سے اس دل پر مستقل محنت کی ضرورت ہے ۔ اس دل کو مختلف راستے جاتے ہیں ۔ آنکھوں کا راستہ ، کانوں کا را ستہ ، زبان کا راستہ، ذہن کا راستہ ، ہاتھ پاؤں کے احساسات کا راستہ، یہ سارے راستے دل کو جاتے ہیں اور دل کو متاثر کرتے ہیں ۔ یہ bi directional ہوتا ہے بالکل ایسے جیسے گرم چیز سرد کو متاثر کرتی ہے اور سرد گرم کو متاثر کرتی ہے ۔ گرم چیز سرد چیز کو گرم کردیتی ہے اور سرد چیز گرم کو ٹھنڈا کردیتی ہے ۔ یہ دونوں کا ایک دوسرے پراثر ہوتا ہے ۔ اسی طریقے سے یہ جو خارجی چیزیں ہیں ، آنکھوں سے ہم دیکھتے ہیں ، ہمارا دل متاثر ہوتا ہے ۔ اچھی چیز کو دیکھتے ہیں دل اچھا ہورہا ہے ۔ بری چیز کو دیکھتے ہیں تو دل خراب ہورہا ہے ۔ ا چھی چیز کو سنتے ہیں ، قرآن کو سنتے ہیں ، حدیث کو سنتے ہیں ، اللہ والوں کی باتوں کو سنتے ہیں دل اچھا ہورہا ہے ، گانے سن رہے ہیں ، فحش چیزوں کو سن رہے ہیں ، بے حیائی کی باتوں کو سن رہے ہیں دل خراب ہورہاہے ۔ زبان سے ہم اچھی باتیں کررہے ہیں ۔ دل ماشاء اللہ ٹھیک ہورہا ہے ۔ زبان سے غلط باتیں کررہے ہیں ، لایعنی باتیں کررہے ہیں اس سے دل خراب ہورہا ہے ۔ حضرت تھانوی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ، ایک کنجڑا سارا دن لگا رہے امرود لے لو ، امرود لے لو ، اس کے دل کو نقصان نہیں ہورہا ۔ کیونکہ یہ اس کا کام ہے اس کی روزی اس میں لگی ہوئی ہے ۔ جائز روزی ہے ۔ اس کو نقصان نہیں ہورہا ۔ لیکن اگر کوئی چیز یا ایسی بات جس کی ضرورت نہ ہو ، نہ دین میں نہ دنیا میں ، وہ ایک بات بھی زبان سے نکالے گا ، جس کو لایعنی کہتے ہیں ، اس کے دل میں ظلمت آجائے گی ۔ مثلاً ایک شخص جارہا ہے اس سے کوئی بغیر مطلب کے پوچھے ،آپ کہاں جارہے ہیں ۔ بس اس سے بھی ظلمت آجائے گی ۔ کیوں ، اس بات کی ضرورت نہیں تھی ۔ لا یعنی بات سے بھی دل پر ظلمت آجاتی ہے ۔ تو گناہ کی بات سے ظلمت کیوں نہیں آئے گی ۔ اس سے تو یقیناًظلمت آئے گی ۔ تو یہ دل کو مختلف راستے جاتے ہیں ۔ اور دل ان تمام چیزوں سے متاثرہوتا ہے ۔ میں نے دل پر محنت کی ، آنکھیں میری بند ہیں اللہ کی طرف میری توجہ ہے ۔ میں مراقبہ کررہا ہوں کہ اللہ مجھے محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں ، ایک گھنٹہ میں نے مراقبہ کیا ، اب جو میں نے آنکھیں کھولیں تو یہ آنکھیں مختلف بن چکی ہونگی ۔ یہ آنکھیں وہ نہیں ہونگی جو اس سے پہلے تھیں ۔ اب میری آنکھ غیر محرم کی طرف اٹھتے ہوئے جھچکے گی ۔ یہ اللہ کی طرف سے نعمت ہے ۔ اس کو باقی رکھنا ہے ۔ اگر اس چیز کی پرواہ نہیں کی تو دوبارہ دل خراب ہوجائے گا ، آنکھ پھر بے حیا ہوجائے گی ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک بوری ، اس کے اندر آپ چینی ڈالیں اور نیچے سے اس میں سوراخ ہو ، تو آپ اوپر سے چینی ڈالتے جائیں اوروہ نیچے سے نکلتی جائے ، تو کیا ایسے میں بوری بھرے گی ۔ اسی طریقے سے ہمارا جو دل ہے وہ متاثر ہوتا ہے چیزوں سے اور ہمارا دل متاثر کررہا ہے اور چیزوں کو ۔ اگر میں نے کچھ وقت کے لئے ان چیزوں کو بند کردیا ، آنکھ کو بند کردیا ، کان کو بند کردیا ، ویسے ہی بند نہیں کیا اس کو isolate کردیا ۔ کسی ایسی جگہ چلا گیا جہاں میری آنکھ غلط استعمال نہیں ہورہی ، جہاں میرے کان غلط استعمال نہیں ہورہے ۔ جہاں میری زبان غلط استعمال نہیں ہورہی ، جہاں میرا دل غلط استعمال نہیں ہورہا ۔ جہاں میرے ہاتھ پاؤں غلط جگہ نہیں جاتے ۔ تو ایسی صورت میں اگر میں نے کچھ وقت وہاں گزارا تو میرا دل کچھ نہ کچھ بن جائے گا ۔ کچھ نہ کچھ تبدیلی آجائے گی ۔ پرانے دور میں ، اچھے دور میں ، اللہ کرے وہ دَور دوبارہ آجائے ، ہماری تو خواہش ہے اور اللہ پاک سے دعا ہے ، بہر حال محنت کی ضرورت ہے اس مسئلے میں ، تو وہ دور دوبارہ آجائے۔
<
دل کو درست کرنے کی جگہ خانقاہ کہلاتی ہے
اس میں ایک چیز ہوتی تھی جس کو کہتے تھے خانقاہ ، آج کل خانقاہ بدنام ہوچکی ہے ۔ گریڈ اکیس کا ایک ریٹائرڈ آفیسر مجھ سے پوچھتا ہے میری خانقاہ کے بارے میں کہ اس میں کس کا مزار ہے ۔ بہت intelligent آدمی ہے ۔ نہ اس نے مذاق سے پوچھا ہے ، اور نہ کسی اور وجہ سے ۔ وہ مجھ سے پوچھ رہا ہے کہ اس میں کس کا مزار ہے ۔ تو میں نے کہا کہ اس طرح لوگ اگر پوچھتے رہے تو پھر شاید میں کہوں کہ اس میں میرا مزار ہے ۔ بھئی خانقاہ کا مزار کے ساتھ کیا تعلق ہے؟اس کا مزار کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔ خانقاہ میں تو اعمال ہوتے ہیں اور پرہیز ہوتا ہے۔ یہ ایک جگہ ہے جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ جہاں آپ کی آنکھ غلط استعمال نہ ہو ۔ جہاں آپ کی زبان غلط استعمال نہ ہو ۔ جہاں آپ کے کان غلط استعمال نہ ہوں ۔ جہاں آپ کا ذہن غلط استعمال نہ ہو ۔ جہاں آپ کو تمام چیزوں سے isolate کردیا جائے ، اس کو ہم خانقاہ کہتے ہیں ۔ لیکن افسوس آج کل خانقاہ اس چیز کو نہیں کہا جاتا ۔ خانقاہ اس چیز کو کہتے ہیں جہاں پر قوالیاں ہورہی ہوں ۔ جہاں پر نذو نیاز کے چڑھاوے چڑھ رہے ہوں ۔ جہاں پر شیرینی بٹتی ہو ، خدا کے بندو ان چیزوں کا خانقاہ کے ساتھ کیا تعلق ؟ان چیزوں کا خانقاہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ تو ہمارے جذبات ہیں ہم جس چیز کو چاہتے ہیں ، جہاں جاتے ہیں وہاں ان چیزو ں کو لے جاتے ہیں ۔ خانقاہ میں چلے گئے اپنے ساتھ ان چیزوں کو لے گئے اور یہ بھی عرض کرتا ہوں یہ بہت ضروری بات ہے ، خانقاہ میں رہنے والوں سے درخواست کروں گا ، خانقاہ میں اپنی چیزو ں کو نہ لے جاؤ، خانقاہ میں ٹھیک ہونے کیلئے جاؤ۔
<
خانقاہ میں ٹھیک ہونے کیلئے جاؤ
خانقاہ میں اپنے مزاج کو نہ لے جاؤ، خانقاہ میں ان چیز کو تلاش نہ کرو جو آپ کو پسند ہے ۔ اپنے آپ کو اس کے مطابق کرلو جو خانقاہ میں ہے ۔ اگر تم اپنی پسند کی چیزیں خانقاہ میں تلاش کرو گے تو مجھے بتاؤکہ تمہاری اصلاح کیسے ہوگی ۔ تم تو خانقاہ کو خراب کردو گے ۔ حضرت تھانوی رحمتہ اللہ علیہ ، عشاء کے بعد خانقاہ میں بول چال پر پابندی لگا دیتے تھے ۔ اللہ سے مشغول ہوجاؤ۔ باقی لوگوں سے کٹ جاؤ، ورنہ سو جاؤ۔ سو جاؤلیکن اور لوگوں سے رابطہ نہ رکھو ۔بات چیت نہ کرو ، خدا کے بندو ہم جس قسم کے دل خانقاہ میں لے گئے ہیں وہی دل تو ہم سے باتیں کروائے گا ۔ وہ باتیں کونسی ہونگی ، کیا وہ خیر کی باتیں ہونگی ۔ اگر مجھے اپنے اوپر اعتماد نہیں کہ میری زبان سے خیر کی باتیں نکل سکتی ہے ۔ میں اپنی زبان کو بند کیوں نہ کروں ۔ قصدا ًبند کروں ۔ کیوں یہ گندگی صرف میرے ساتھ ہے ۔اب یہ گندگی دوسرے کو بھی چلی جائے گی ۔ اس کا ذمہ دار کون ہوگا ۔ اس لئے خانقاہ کے اندر اپنے آپ کو بدلو ، خانقاہ کو نہ بدلو ۔ خانقاہ کو نہیں بدلنا چاہیے ۔ خانقاہ تو ایسی جگہ ہے جہاں سے بڑے اللہ والے نکلے ہیں ۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ بھی خانقاہ سے نکلے ہیں ، بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ بھی خانقاہ سے نکلے ہیں ۔ حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ بھی خانقاہ سے نکلے ہیں ۔ امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ بھی خانقاہ سے نکلے ہیں ، یہ سارے حضرات خانقاہوں سے نکلے ہیں ۔ خانقاہوں کے اندر وقت گزارا ہے ۔ تو کچھ عرصہ تک آپ اس طرح خانقاہ میں رہیں گے تو پھر وہ چیز بنے گی ۔ آج میں نے ایک چیز پڑھائی ہے اپنی انسٹی ٹیوٹ میں ،static behavior of elastic and inelastic metals یہ میں نے آج پڑھایا ہے ۔elasticمیں یہ ہوتا ہے کہ اس پر آپ زور لگائیں ، تو تبدیلی آجائے گی ، deformation آجائے گی ۔ جب آپ چھوڑ دیں گے تو دوبارہ اسی condition میں آجائے گی ۔ دوسری صورت میں آپ پلاسٹک پر چلے جائیں وہ جب deformation اتنی زیادہ ہوجائے گی تو پھر وہ permanent رہ جائے گی ۔ اس کے اندر اب تبدیلی نہیں آئے گی ، یعنی اس کو چھوڑ نے کے بعد بھی ۔ خانقاہ کے اندر آپنے آپ کو Yieldکرنا ہوتا ہے Yield کیسے ہوگا آپ duration اتنا دے دیں کہ یہ Yielding واقع ہوجائے ۔
<
چِلے کی اہمیت
اس کے لئے ہمارے حضرات چالیس دن کا بتاتے ہیں ۔ چالیس دن میں ایک خاص تبدیلی آجاتی ہے ۔ ڈاکٹروں سے پوچھیں تو کہتے ہیں کہ چالیس چالیس دن میں یہ فیز بدلتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چالیس دن میں ایک بڑی تبدیلی آتی ہے ۔ یہ تبلیغی جماعت کا چلہ اور چار مہینے ۔ یہ چار مہینے کی کوئی significance ﴿اہمیت ﴾نہیں ہے ۔ یہ اصل میں تین چلے ہیں ۔ یہ اس قسم کی significance ہے ۔ توبہر حال میں عرض کررہا تھا کہ یہ تبدیلی لانی ضروری ہوتی ہے ۔ خانقاہ کے اندر اتنا وقت گزارو گے اور اس کے حالات کے مطابق گزارو گے ، تبدیلی آجائے گی انشاء اللہ ۔ میں نے دیر میں دیکھا ہے بیارے بابا جی صاحب کے مزار کے ساتھ ہی ۔ ان کا مزار بعد میں بنا ہے ۔ خانقاہ پہلے سے موجود تھی ، ظاہر ہے وہ خانقاہ ان کے وقت میں چل رہی تھی ۔ میں نے وہاں پر ایسے خلوت خانے دیکھے ہیں ، جس میں صرف ایک آدمی کھڑا ہوسکتا ہے ۔ یا لیٹ سکتا ہے ، بس اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوسکتا ۔ وہ صرف نماز کے لئے باہر آتے تھے یا رفع حاجت کے لئے باہر آتے تھے ۔ باقی وہیں پر ہوتے تھے ۔ اب اس میں وہ جو ذکر کرتے تھے ، یا اس میں وہ جو اپنے آپ کو بند کردیتے تھے ، تو اس میں ان باتوں پر عمل ہوجاتا تھا کہ آنکھ بھی بند ، زبان بھی بند ، کان بھی بند ، یہ ساری باتیں اس میں حاصل ہوجاتی تھی اس سے پھر جب لوگ نکلتے تھے تو پتہ چلتا تھا کہ کچھ فرق آگیا ہے ۔ بہر حال یہ اس وقت کی ضرورت تھی ۔ اب بھی ضرورت ہے ۔ بلکہ اب ضرورت بڑھ گئی ہے ۔ ضرورت اس لئے بڑھ گئی ہے کہ pollution بہت زیادہ ہوگئی ہے ۔ اب تو آپ مسجد میں بھی محفوظ نہیں ہیں ۔ ہیں محفوظ؟ ۔ ابھی ہم نماز پڑھ رہے تھے پیچھے سے باقاعدہ گانا بج رہا تھا ۔ ہم کیا کرسکتے ہیں ۔ اگر کچھ بولتے ہیں تو آگے سے کہتے ہیں کہ مسجد تمہاری جاگیر ہے ؟ تم کون ہو ۔ مسجدتو خدا کا گھر ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں اس کو بگاڑوں ، تو اس کے ساتھ آدمی کیا کرسکتا ہے ؟ مطلب یہ ہے کہ مسجد کے اندر بھی ہم محفوظ نہیں ہیں ۔ مسجد کے اندر آپ مجھے ایک دن خلوت کے ساتھ گزار کر دکھائیں ۔ بے شک آپ نماز کے وقت میں نماز پڑھیں ۔ اس کے علاوہ آپ مجھے دکھائیں ۔ کوئی آپ کو چھوڑے گا ہی نہیں ۔ اول تو اکثر مسجدوں کو تالے لگ جاتے ہیں ۔ اور تالے نہیں لگتے تو کچھ لوگ ایسے ہیں جو آپ کو کسی اور کام کے لئے نہیں چھوڑیں گے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے طریقے پر عمل کرو تو تم دیندار ہو ، ہمارے طریقے پر عمل نہیں کرتے تو تم دیندار ہو ہی نہیں ۔ بھاگو مسجد سے ۔ ہیں اس طرح کے لوگ ہیں یا نہیں ہیں ؟ خدا کے بندو اپنے domainکو پہچانو ۔ تمہارا domain کیا ہے ۔ تمہارا کام ترغیب دینا ہے حکم چلانا تو نہیں ہے ۔ تم کہاں سے حکم دینے والے آگئے ہو ۔ یہ کام تو ترغیب کے لئے شروع ہوا تھا ۔ یہ حکم چلانے کے لئے تو شروع نہیں ہوا تھا ۔ بہر حال اب آپ کو پھر وہیں پناہ لینی پڑے گی اسی گوشہ عافیت کی طرف ،جہاں پر اس قسم کے کام ہوسکتے ہوں ۔ ورنہ نہیں ہوسکتے ۔ تو میں عرض کررہا تھا کہ دل کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ ورنہ دین بڑا ستھرا ہے ۔
<
ہمارا دین بڑاستھرا ہے
خدا کی قسم دین اتنا ستھرا ہے کہ آدمی اس کے بارے کیا کہے ۔ ہر چیز اس کی نرالی ہے ۔ اس کے معاملات نرالے ، اس کی عبادتیں نرالی ، اس کی معاشرت نرالی ، اس کے اخلاق نرالے ، ہر ہر چیز مکمل ہے ، اپنے اپنے رخ سے مکمل ہے ۔ لیکن ان چیزوں تک access ﴿رسائی﴾بھی تو ہو ۔ اور اس access میں نفس حائل ہے ۔ ہمارا نفس حائل ہے ۔ جب تک ہم اپنے نفس پر محنت نہیں کریں گے ۔ اپنے نفس کو تبدیل نہیں کریں گے اس وقت تک ان چیزوں تک access نہیں ہوسکتی ۔ نماز بھی بڑی چیز ہے اگر صحیح نصیب ہوجائے ۔ روزے بھی بہت بڑی چیز ہیں اگر صحیح نصیب ہوجائیں۔ اس صحیح روزے تک پہنچنے کے لئے ، صحیح نماز تک پہنچنے کے لئے ،صحیح حج تک پہنچنے کے لئے ، صحیح زکوٰۃ تک پہنچنے کیلئے صحیح معاملات تک پہنچنے کے لئے صحیح معاشرت تک پہنچنے کے لئے نفس پر محنت کرنی ہوتی ہے ۔ لوگ کہتے ہیں تم کہاں سے یہ چیزیں لائے ہو، خدا کے بندو یہ ساری چیزیں دین نہیں ہیں ؟ اس پر عمل کرو ۔ تو ہم کہتے ہیں کرو نا ۔ آپ کو کس نے روکا ہے ۔ ہم تو کہتے ہیں کہ کرکے دکھاؤ، اگر آپ اس کے بغیر کرکے دکھا سکتے ہیں تو ہم سو فیصد آپ کے پیچھے ہیں ۔ ہمیں تو کام چاہیے ۔ ہمیں باتیں تو نہیں چاہیے ۔ باتیں کرنے سے کیا ہوتا ہے ۔لیکن دیکھیں ہمارے سائنس کے اندر بھی ایک چیز ہے ۔ جب چیز تجرباتی بن جائے تو پھر سائنس استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ ہمارے سائنس کے اندر بھی چیزوں کو statistical analysis ﴿شماریاتی جائزہ ﴾کرتے ہیں ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کس چیز سے کتنا فائدہ ہوا ہے ۔ اور کتنے لوگوں کو فائدہ ہوا ہے ۔ ہم اس کو observe کرتے ہیں تو دیکھیں جو بھی بنے ہیں وہ کس طریقے سے بنے ہیں ۔ باتیں کرنے سے بنے ہیں یا محنت کرنے سے بنے ہیں ۔ جو صرف باتیں کرتے ہیں وہ بن کر دکھا سکتے ہیں ۔ کیا کوئی ایسا بنا ہے ۔ وہ صرف باتیں کرتے ہیں ۔ لیکن جو خانقاہوں کے اندر ، میں صحیح خانقاہ کی بات کرتا ہوں ۔ غلط خانقاہوں کا تو میں خود مخالف ہوں ۔ صحیح خانقاہوں کی بات کرتا ہوں ۔ جو صحیح خانقاہوں کے اندر رہے ہیں وہ بنے ہیں یا نہیں بنے ہیں ۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلا کام یہ ہے کہ صحیح خانقاہ کو تلاش کرو ، اگر صحیح خانقاہ مل جائے تو یقینٲ آپ کو فائدہ ہوگا ،انشاء اللہ ۔ کیونکہ یہ چیزیں فائدے ہی کے لئے ہیں ، یہ نقصان کے لئے نہیں ہیں ۔ اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بہت خیر ہوتی ہے اس میں ۔ کچھ چیزیں سمجھ میں نہیں آرہی ہوتی ہیں ۔ حالانکہ وہ بھی ٹھیک ہی ہوتا ہے لیکن سمجھ کی بات ہوتی ہے ۔ اس پر انسان کی سوئی اٹک جاتی ہے ۔ کہتا ہے کہ نہیں جب تک یہ تبدیل نہ ہوجائے میں اس میں نہیں جاسکتا ۔
<
نیک لوگوں کے تجربات کو اپنے وساوس کی بھینٹ نہ چڑھائیں
حالانکہ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ مختلف لوگوں کو فائدہ کیسے ہوتا رہا ہے ۔ یہ تو تجرباتی چیزیں ہیں ۔ اگر دوسروں کو فائدہ ہورہا ہے تو آپ کو فائدہ کیوں نہیں ہورہا ، آپ کو بھی فائدہ ہوسکتا ہے ۔ لوگ کہتے ہیں نا کہ یہ چلا ہوا کاروبار ہے ۔ دکان جب بیچتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ چلی ہوئی دکان ہے ۔ یعنی اس سے فائدہ ہورہا ہے ۔ اسی طریقے سے یہ چلا ہوا کاروبار ہے ۔ اللہ کیلئے ہے دنیا کیلئے نہیں ہے ۔ کاروبار ضرور ہے لیکن جنت کو خریدنے کا ہے ۔ جنتی کاروبار ہے ۔ اس کاروبار میں کیا کرتے ہیں ، اپنی خواہشات نفس کو چھوڑتے ہیں ، اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو لیتے ہیں ۔ اس میں یہی بات ہے اب خواہشات نفس کو کیسے چھوڑیں گے ۔ اس کیلئے طریقہ کار کوئی تو بتائے گا ۔ تو اس میں آپ یہ دیکھیں گے کہ بھئی کس کی باتوں سے بہت سارے لوگوں کو فائدہ ہوتا نظر آرہا ہے ۔ چلیں میں بھی اس لائن میں لگ جاؤں ۔ مجھے بھی اس سے فائدہ ہوجائے ۔ اس طریقے سے انسان کو ایک شیخ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ خانقاہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ شیخ آپ کو کیا بتائے گا ۔ آپ کو صحیح طریقہ بتائے گا آپ اس پر عمل کرکے دکھائیں ۔ آپ عمل کریں گے پھر آپ ان کے ساتھ interact﴿تعلق رکھنا﴾ کریں گے ، یہ اس کا کام ہے کہ آپ کے لئے قابل ہضم چیز بتائے ۔ یہ اس کا کام ہے کہ آپ کو ایسی چیز بتائے جس پر عمل ہوسکے ۔ اور الحمد اللہ یہ لوگ اس کا pain ﴿درد﴾لیتے ہیں ۔ ہم نے اپنے مشائخ کو دیکھا ہے ۔ صحیح بات ہے کہ pain لیتے تھے ، تو ایسے لوگ جنہوں نے اپنی زندگیاں اس کے لئے وقف کی ہوں ، اللہ تعالی بھی ان کی مدد فرماتا ہے ۔ ان کے دل میں یہ بات ڈال دیتے ہیں پھر جب ان کے زبان سے جو چیز نکلتی ہے ۔ اس میں اللہ تعالیٰ برکت بھی ڈال دیتے ہیں اور کام ہوجاتا ہے ۔ حضرت گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب میں حاجی صاحب کے پاس بیعت ہونے کیلئے گیا تو بیعت ہوتے وقت کہا کہ حضرت ایک تو میں تہجد نہیں پڑھوں گا اور دوسرا میں ذکر نہیں کرسکتا ۔ فرمایا کوئی بات نہیں ۔ نہ کرو ذکر بھی نہ کرو اور تہجد بھی نہ پڑھو ۔ اپنے ساتھ ان کی چارپائی لگوائی ۔ جب رات کو حضرت اٹھے تو ان کی بھی نیند کھل گئی ، اب نیند دوبارہ آئی نہیں ۔ نیند تو انسان کے بس میں نہیں ہے ۔ اگر چلی جائے تو آدمی کیا کرسکتا ہے ۔ اب انہوں نے کہا کہ اچھا میں نے قسم تو نہیں کھائی چلیں آج تہجد پڑھ لیتے ہیں ۔ اٹھ کر وضو کیا حضرت حاجی صاحب نے بھی تہجد پڑھی انہوں نے بھی پڑھی ۔ حضرت حاجی صاحب نے بڑے اچھے انداز میں ، )آج لوگ ذکر بالجہر پر اعتراض کرتے ہیں ، انا للہ وانا اللہ راجعون (ذکر بالجہر شروع کیا ، بارہ تسبیح ۔ جب ذکر شروع کیا تو حضرت گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی ان کے ساتھ ذکر شروع کیا کہ میں نے کوئی قسم تو نہیں کھائی ، چلو میں بھی آج کرلیتا ہوں ۔ تو وہ جو شروع کیا تو آپ کو معلوم ہوگا بعض حضرات کو چھڑا دیا جاتا ہے جب نسبت حاصل ہوجاتی ہے تو چھڑا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حضرت نے اس کو نہیں چھوڑا آخر وقت تک اس کو برقرار رکھا ۔ وہ جو شروع ہوا تو بعد میں رکا ہی نہیں ، اور نہ تہجد رکا ۔ یہ سب سلسلے کی برکت تھی ۔ الحمد اللہ ، اللہ کا احسان ہے سلسلے کی برکت تھی ۔ ہمیں الحمد اللہ ساتھی بتاتے ہیں ، دور دور کے ساتھی بتاتے ہیں ، کہ اللہ جل شانہ نے ایسا نوازا ۔ اللہ پاک نے یہ دیا ، اللہ پاک نے وہ دیا ۔ ہم خوش ہوتے ہیں ، کہ اے اللہ تیرا بہت کرم ، تو ہی دینے والا ہے ۔ صحیح بات ہے کہ دینے والا تو خدا ہے ، انسان تو نہیں دے سکتا ۔ وہ بے نیاز بادشاہ ہے ۔ وہ جس کو بھی دینا چاہیے اس کو دے دیتا ہے ۔ تو بہر حال میں عرض کررہا تھا کہ اگر انسان خلوص کے ساتھ کسی کے ساتھ تعلق جوڑے اور اس کے کہنے کے مطابق چلے اور اپنا تعلق اطلاع و اتباع کا قائم رکھے ۔ تو ان کو ضرور فائدہ ہوتا ہے
اللہ جلَّ شانہ تو دینے والے ہیں ، وہ دینا چاہتے ہیں ، لیکن کوئی لینے والا تو ہو ۔ لینے کیلئے اللہ تعالیٰ جو بھی شرط لگائے ۔ جس طریقے سے بھی ہو ، ظاہر ہے وہ تو مالک ہے ۔ اللہ پاک نے اگر تکوینی طور پر یہ سمجھا دیا کہ میں اس طریقے سے دیتا ہوں تو پھر ہم اس طریقے سے کیوں نہ لیں ۔ اگر باقی سب لوگوں کو اس طریقے سے ملتا ہے تو ہم بھی ان میں شامل ہوجائیں ۔ آخر دنیا کیلئے بھی تو ہم ایسی چیزیں کرتے ہیں ، دیکھتے ہیں کہ باقی لوگوں کو کس طریقے سے وہ چیزیں ملی ہیں ، اس طریقے سے حاصل کرتے ہیں ، بہر حال بات بہت زیادہ لمبی ہوگئی ۔
<
صحیح خانقاہ جہاں بھی ملے اس کے ساتھ جڑنا چاہیئے
جہاں پر صحیح خانقاہ ملے ، انسان کوشش کرے کہ اس کے ساتھ جڑے ۔ اگر اور کچھ نہیں تو چلو جی ہفتے میں ایک دن ہی صحیح، بھاگ کر اس میں پناہ لے لی ۔ حضرت تھانوی رحمتہ اللہ علیہ سے حضرت مجذوب رحمتہ اللہ علیہ نے کہا ، کہ حضرت میں جب آپ کے پاس آتا ہوں تو ٹھیک ہوجاتا ہوں ، پھر جب جاتا ہوں تو پھر خراب ہوجاتا ہوں ۔ یہ کیا بات ہے ۔ تو حضرت تھانوی نے فرمایا ، کوئی بات نہیں ، انسان کپڑے پہنتا ہے وہ میلے ہوجاتے ہیں ،دھوبی کے پاس لے جاتے ہیں ، وہ اس کو دھو لیتا ہے ۔ پھر دوبارہ پہنتا ہے وہ پھر میلے ہوجاتے ہیں پھر دھوبی کے پاس لے جاتا ہے ۔ وہ اس کو دھو دیتا ہے ۔ آپ بھی اس طرح کریں ۔ تو الحمد اللہ اس طریقے سے کام ہوتا ہے ۔ اگر کوئی رابطہ برقرار رکھتا ہے ۔ بے شک وہ رابطہ کمزورہی کیوں نہ ہو ، لیکن بالکل ختم نہ کرے ۔ پھر بھی اس کو فائدہ ہوتا ہے ۔ اس کی مثال ذکر کی طرح ہے ۔ ذکر کے بارے میں فرمایا ، چاہے بہت ہی غفلت کے ساتھ ذکر کیوں نہ کی جائے پھر بھی فائدہ پہنچتا ہے ۔ یہ حضرت گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ۔ ایک دفعہ دروازے پر آگئے تھے ، نابینا ہوچکے تھے ۔ آواز لگائی ہے کوئی ؟ تو حضرت مولاناالیاس رحمتہ اللہ علیہ اور مولانا یحییٰ صاحب رحمتہ اللہ موجود تھے ۔ مولانایحییٰ صاحب رحمتہ اللہ علیہ حضرت مولانا ذکریا صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے والد صاحب تھے ۔ انہوں نے جواب دیا جی ہاں یحییٰ اور الیاس ۔ فرمایا ، اللہ کا ذکر چاہے کتنی غفلت کے ساتھ کیا جائے ، پھر بھی فائدہ پہنچاتا ہے ۔ اور یہ بات بالکل صحیح ہے ۔ کیسے ، مجھے آپ بتا دیں کہ پانی جو ہے وہ استعمال ہوتا ہے گند کو دھونے کیلئے ، تھوڑا پانی استعمال کرو گے تو تھوڑا گند دھلے گا ۔ زیادہ پانی استعمال کرو گے تو زیادہ گند دھلے گا ۔
<
غفلت تو ذکر سے ہی دور ہوگی
اب ایک آدمی کہتا ہے کہ پانی تھوڑا ہے میں کیا کروں؟ تو ظاہر ہے وہ گندہ ہی رہے گا ۔ یہ تو کوئی نہیں کرسکتا کہ جب تک چیز پاک نہ ہو اس وقت تک میں نے پانی استعمال نہیں کرنا ۔ اگر کوئی ایسا کرے گا تو لوگ کہیں گے کہ بھئی تو کیسا بے وقوف ہے ۔ چیز کو پاک کرنے کیلئے پانی استعمال ہوتا ہے ۔ پاک چیز کو تو پانی کی طرف نہیں لایا جاتا ۔ اسی طریقے سے اگر ایک انسان کا دل گندہ ہے ، غافل ہے ،اس وقت وہ کس چیز سے صاف ہوگا ، ذکر ہی سے صاف ہوگا ۔ تو اس وقت وہ ذکر کس حالت میں ہوگا ۔ وہ غفلت والا ذکر ہوگا ۔ وہ غفلت والا ذکر کرے گا تو غفلت کم ہوجائے گی ۔ پھر ذکر کرے گا تو مزید غفلت کم ہوجائے گی ۔ اس طرح ہوتے ہوتے غفلت ختم ہوجائے گی ۔ بس یہی کام خانقاہ کا بھی ہے ۔ خانقاہ میں بھی یہی ہوتا ہے ۔ بھئی رابطہ کم ہے کم فائدہ ۔ رابطہ زیادہ ہے زیادہ فائدہ ۔ اگر زیادہ فائدہ حاصل نہیں کرسکتے تو کم تو حاصل کرو ، اس کو تو نہ چھوڑو ۔ جب آپ کبھی کبھی آیا کرو گے تو اللہ پاک مزید توفیق عنایت فرمائے گا اور اس میں بڑھوتری آئے گی اور آپ قریب ہونگے ۔ پھر اور قریب۔ حتیٰ کے یہ آپ کے اندر اثر کرلے گی اور آپ کو فائدہ ہوجائے گا تو یہ نظام اسی طریقے سے چلتا ہے اللہ جل شانہ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائے ۔ آمین ۔
وآخر دعوانا ان الحمد اللہ رب العالمین ۔