خواہشات نفسانی کے خلاف بند باندھ دیجئے
اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ۔اَلصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَم ُ عَلیٰ خَاتَمَ النَّبِیینِ۔اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ کَلاَّ بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃً وَتَذَرُوْنَ الآخِرَۃ۔
معزز خواتین و حضرات میں نے آپ کے سامنے ایک آیت کریمہ کی تلاوت کی ہے ، اس میں اللہ جل شانہ فرماتے ہیں ہرگز نہیں مگر تم قریب کی چیز پر ریجھتے ہو ، اور جو بعد میں آنے والی چیز ہے اس کو چھوڑتے ہو ۔
ہم فوری فائدے کی محبت میں گرفتار ہیں
اگرہم ا پنی زندگی کو دیکھیں تو اس چیز کو بہت زیادہ محسوس کریں گے کہ جو بعد میں آنے والے فوائد ہیں اس کو تو ہم نظرانداز کردیتے ہیں اور جو فوری نتائج ہوتے ہیں ، جو ہمارے نفس کے خواہشات ہوتے ہیں ان پر ہم مرتے ہیں اور اس کے لئے مستقبل کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ مثلاًجن لوگوں کو سگریٹ پینے کی عادت ہوتی ہے ۔ اگر چہ ان کو پتہ بھی ہو کہ سگریٹ بری چیز ہے اور اس سے میری صحت کو نقصان پہنچ رہا ہے لیکن وہ چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتا، اور سگریٹ پیے جاتا ہے بیشک ڈاکٹر اس کو روکتے ہوں ، یا کسی کو شوگر کا مرض ہو اور اسے کہا جائے کہ آپ نے میٹھی چیز نہیں کھانی اگر چہ اس کو پتہ ہو، کہ اس سے اس کو نقصان ہوگا ۔ لیکن پھر بھی جب اس کو موقع ملتا ہے تو وہ کوئی نہ کوئی چیز کھا لیتا ہے ۔ بے شک اس کے لئے وہ کوئی بھی بہانہ بنا لے ۔ تو یہ جو ہماری نفسیات ہے تقریباًہر چیز میں گھسی ہوئی ہے اور آخرت کے معاملے میں بھی ہم یہ کرتے ہیں کہ آخرت کی چیزوں کو چھوڑتے ہیں اور دنیا کی چیزوں کو لیتے ہیں ۔
تین چیزوں کی محبت نے ہمیں آخرت سے غافل کردیا
جو دنیا کی چیز یں ہیں اس میں زیادہ تر تین چیزیں بہت زیادہ بیان کی جاتی ہیں ۔ جس کی محبت میں ہم لوگ آخرت کو چھوڑ دیتے ہیں ۔ پہلی چیز ہے مال کی محبت ، دوسری چیز ہے لذتوں کی محبت اور تیسری چیز ہے عزت اور بڑائی کی محبت ۔ فی الاصل ان تین چیزوں میں کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ لیکن جس طریقے سے ہم لوگ اس کو حاصل کرنا چاہتے ہیں آخرت کو چھوڑ کر ، اور آخرت کے مقابلے میں اس کو رکھ کر ، تو یہ پھر اچھی بات نہیں ہے ۔ مثلاً ایسا مال حاصل کرنا جو جائز ہو ، کوئی بری بات نہیں ۔ لیکن ہم لوگ نعوذ بااللہ من ذالک مال کی محبت میں جب مبتلا ہو تے ہیں تو پھر یہ نہیں دیکھتے کہ یہ جائز ہے یا ناجائز ۔ دوسری طرف جو لذتیں ہیں ، اللہ پاک نے لذتیں پیدا کی ہیں ، اگر وہ جائز لذتیں ہیں تو ان کو حاصل کرنا کوئی بری بات نہیں ۔ لیکن اس کے مقابلے میں جب ہم دیکھتے ہوں کہ اس لذت کی وجہ سے آخرت میں ہمارا نقصان ہورہا ہے پھر بھی اس کو نہیں چھوڑتے ، تو وہ لذت حاصل کرنا بری چیز ہے ۔ ا س طرح جو عزت اور بڑائی اللہ پاک دے دے تو وہ بھی غلط بات نہیں ہے ۔ لیکن ہم لوگ جو جھوٹی عزت اور بڑائی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کے مقابلے میں اللہ جل شانہ کی بڑائی کو بھول جاتے ہیں تو پھر یہ غلط بات ہے، بری بات ہے ، اس کو چھوڑنا پڑے گا ۔ اس لحاظ سے ہم لوگوں کو دیکھنا چاہیے ۔
مرد و زن دونوں مگر مختلف طریقے پر
مردوں کے ہاں بھی یہ چیزیں پائی جاتی ہیں ۔ عورتوں کے ہاں بھی پائی جاتی ہیں ۔ البتہ فرق صرف یہ ہے کہ مردوں میں اور طرح سے پائی جاتی ہے نسبتاً اور عورتوں میں اور طرح سے پائی جاتی ہے ۔ حب مال یعنی مال کی محبت یا حب جاہ یعنی بڑائی کی محبت ، دونوں کا رنگ مردوں اور عورتوں میں مختلف ہے ۔ مردوں میں مال کی محبت اور بڑائی کی محبت کا اور رنگ ہے ۔ عورتوں میں اس کا رنگ اور ہے ۔ مگر دونوں میں یہ امراض موجود ہیں ۔ مردوں میں بڑا بننے کا شوق ہے ، اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہیں ، اور عورتیں اپنے آپ کو بڑا تو نہیں سمجھتی مگر اپنے کو بڑا ظاہر کرنا چاہتی ہیں ۔ ایسی باتیں اور ایسے طریقے اختیار کرتی ہیں کہ جن سے ان کا بڑا ہونا کسی پر ظاہر ہوجائے ۔ مثلاً دو عورتیں بیٹھی ہوں ۔ ایک عورت نے بات کی تو دوسری عورت فورا ًبول پڑے گی ۔ گویا یوں سمجھ لیجئے کہ اس بات کا اس کو لاشعور میں احساس ہوتا ہے کہ کہیں یہ بات اس کی دوسرے لوگوں کو اچھی نہ لگے ۔ حالانکہ یہ کوئی بری بات تو نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو اچھی لگے ۔ یہ تو اچھی بات ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو عورتیں جب آپس میں باتیں کرتی ہیں تو ایک دوسرے پر بات چڑھانے والی بات ہوتی ہے ۔ یہی عورتوں میں یہ نمایاں رنگ ہے ۔ اس طرح مال کی محبت کا رنگ بھی دونوں میں مختلف ہے ۔ مردوں کو نوٹوں سے زیادہ محبت ہے ۔ اس لئے اس کے جوڑ نے میں اور جمع کرنے کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ۔ اور عورتوں کو زیور ،کپڑے برتنوں اور گھریلو سامان وغیرہ سے محبت زیادہ ہوتی ہے ۔ چاہتی ہیں کہ رنگ برنگ کے کپڑے ہوں ، قسم قسم کے برتن ہوں ۔ مختلف قسم کے زیور ہوں ۔ بلکہ عورتیں مردوں کو اکثر کہتی ہیں کہ پیسوں کا کیا کرنا ، پیسوں کو چھوڑو ۔ تو بات تو صحیح ہے لیکن اگر وہ مرد اس کو کہہ دے کہ اتنے برتن جو جمع کیے ہیں اس کا کیا کرنا ہے ۔ اتنے کپڑے جو جمع کیے ہیں اس کا کیا کرنا ہے ۔ اتنا زیور جو جمع کیا ہے اس کا کیا کرنا ہے تو یہ بات ان کوسمجھ نہیں آتی ۔ تو ان چیزوں کے معاملے میں وہ بہت زیادہ آگے پیچھے ہونگی ۔ اور پیسوں کے معاملے میں کچھ نہیں بولیں گی کیونکہ ان چیزوں میں ان کا دل ہوتا ہے ۔ اگر برتنوں کے سیٹ میں سے ایک چیز آگے پیچھے ہوجائے تو بس ان کی جان پر بن آتی ہے ۔ اس بارے میں مردوں کی سمجھ عورتوں سے نسبتاً اچھی ہے ۔ کیونکہ روپیہ ایسی چیز ہے جس سے ہر چیز کو حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ جس کے پاس روپیہ ہوگا اس کے پاس سب کچھ موجود ہے ۔ کیونکہ وہ ہر چیز کا بدل ہوسکتا ہے ۔ اور ہر چیز اس سے حاصل ہوسکتی ہے ۔ جبکہ برتن اور کپڑے وغیرہ ، ہر چیز کا بدل نہیں ہوسکتا اور ہر چیز اس سے حاصل نہیں کی جاسکتی ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ عورتوں میں زیوربنانے کا بڑا شوق ہوتا ہے اور اکثر جو پرانے زیورات ہوتے ہیں اس کو توڑ کر نئے زیور بنانا چاہتی ہیں ۔ اس میں جو سنار اپنے کمالات دکھاتے ہیں ۔ اس سے وہ زیور کے اندر جو اصل سونا ہوتا ہے، اس کا حلیہ ہی تبدیل جاتا ہے ۔ لیکن بہر حال ان کا شوق ہوتا ہے کہ میرا زیورجدید فیشن کا ہو ۔ اس کے لئے ان کی سوچ ختم نہیں ہوتی ۔ یہ شبہ نہ کیا جائے کیونکہ مرد بھی تو بکثرت جائیدادیں خریدتے ہیں ، کہیں زمینیں ، کہیں مکان ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو بھی سامان سے محبت ہے روپیہ سے نہیں ، تو اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ وہاں بھی سامان سے نہیں بلکہ نقدی سے محبت ہے ، جائیداد لینے میں روپیہ پھنسانے کی ایک صورت اختیار کرتے ہیں ، اس کو انوسٹمنٹ کہتے ہیں ۔ پس مردو ں کو جو جائیداد سے محبت ہے وہاں بھی اس سے روپیہ مقصود ہے ۔ کہ جائیداد سے آمدنی ہوتی رہے اور اس سرمایہ محفوظ رہے گا ۔ پس وہاں بھی مقصود پیسہ ہی ہوتا ہے ۔
دنیا کے لحاظ سے مردوں کی سوچ بہتر ہے
اگر دیکھا جائے تو مردوں کے ہاں نسبتاً ، اگر چہ ہے تو مرض ، مطلب یہ ہے کہ اس صورت میں میں اس کو مرض کہوں گا کہ آخرت کے مقابلے میں یہ مرض ہے ۔کیونکہ آخرت کے مقابلے میں یہ پیسے جمع کرنا ان کے کس کام آئے گا اگر وہ صحیح طور پر اس کو استعمال نہیں کرے گا ۔ اور اسی میں اس کا دل اٹکا رہے ۔ تو یہ ٹھیک نہیں ہے ۔ یہ بھی حب مال ہی ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا میں یہ عقلمندی ہے ۔ دنیا میں اسلئے یہ عقلمندی ہے کہ یہ نسبتاً دور اندیشی ہے ۔ کہ جو جائیداد ہے یا پیسہ ہے وہ تو آگے کام آسکتا ہے ۔ اور جو دوسری چیزیں ہیں وہ تو اگر فورا کام آگئیں تو آ گئیں ورنہ بعد میں پھر بعض دفعہ نقصان بھی ہوسکتا ہے ۔ مثلاً زیور جتنی قیمت کا لیا جائے پھر اتنی قیمت پرواپس نہیں بکتا ۔ یا یوں سمجھ لیں کہ جو گھر کا سامان وغیرہ لے لیا ، برتن یا دوسری چیزیں وغیرہ اس سے تو پیسہdump﴿جمع﴾ ہوگیا ۔ تو یہاں مردوں کی عقلمندی صرف دنیا کی حد تک ہے ۔ کاش یہ عقلمندی آخرت تک ہوجائے تو پھر تو صحیح ہے ۔ یہ عقلمندی صرف دنیا تک ہے کہ وہ دنیا میں planning﴿منصوبہ بندی ﴾ کرلیتے ہیں، زیادہ پیسے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں ۔ عورتوں میں یہ رنگ ہے کہ وہ سازو سامان پر فریفتہ ہوجاتی ہیں ۔ ہر و قت چیزوں کو جمع کرنے کی حرص ، یہی وجہ ہے کہ روپیہ کو بے دریغ اڑاتی ہیں ۔ اول تو اس وجہ سے کہ ان کی اس طرف توجہ ہی نہیں کہ روپیہ سے ہر چیز حاصل ہوجاتی ہے ۔ اور دوسرا روپیہ ان کا کمایا ہوا تھوڑا ہوتا ہے جس سے ان کا دل دکھے ۔ اس لئے بے دریغ خرچ کرنا چاہتی ہے ۔ خیر وجہ جو کچھ بھی ہو ، ان کو روپیہ کی قدر نہیں ، ان کو شوق زیادہ چیزوں کا ہے ۔ حتی کہ فضولیات اور غیر ضروری سامان تک ان کی نظر پہنچتی ہے ۔ بس ان کو خبر ہونی چاہیے کہ فلاں چیز بک رہی ہے ۔ فورا ًاس کے خریدنے کا اہتمام ہوتا ہے ۔ گویا وہ پہلے ہی اس چیز کی منتظر تھی ، برتن بک رہے ہوں خواہ اس کی کچھ بھی ضرورت نہ ہو ،بس خرید لیں گی ۔ چنانچہ گنجائش والے گھروں میں اتنا سامان موجود ہوتا ہے کہ اس کے استعمال کی کبھی نوبت بھی نہیں آتی ۔ مگر عورتوں کو سامان وغیرہ خریدنے سے کسی بھی وقت انکار نہیں ۔ عادت یہ ہے کہ بڑے بڑے صندوق فضول رکھے ہوئے ہیں مگر ان کی خریداری بند نہیں ہوتی ۔ خصوصاًنازک اور تکلف کا سامان خریدنے کا تو آج کل بڑا شوق ہے ۔ جو سوائے زینت و آرائش کے کچھ کام نہیں آتا ۔ اور وہ سامان اتنا کمزور کہ ذرا سی ٹھیس لگ جائے تو کسی کام کا نہیں ۔ مگر دن رات اس کا اہتمام ہوتا ہے ۔ میرے گھر والے جب میرے ساتھ کہیں جاتے ہیں گاڑی وغیرہ میں ۔ تو گھر پہنچ کر مجھے پتہ چلتا ہے کہ بہت ساری چیزیں وہاں بک رہی تھیں ، حالانکہ مجھے پتہ ہی نہیں لگتا کہ وہاں یہ یہ چیزیں بک رہی تھیں ۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہماری نظر نسبتاً دوسری چیزوں پر ہوتی ہے اور عورتوں کی نظر ان چیزوں پر زیادہ ہوتی ہے ۔
عورتوں کی سوچ سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے
خیر ایسی بات نہیں ہے میں اس کو برا نہیں سمجھتا ۔چونکہ مرد اور عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں تو مردوں کا خیال اگر ایک طرف ہے توگھر کا خیال صرف عورتوں کو ہوسکتا ہے ۔ اور وہی ان کی ایک طرح کی نگہبان ہوتی ہیں ۔ تو یہ کوئی بری بات نہیں ہے ۔ اللہ جل شانہ نے ان کے جو مزاج بنائے ہوتے ہیں اس میں بھی خیرہی ہوتی ہے ۔ اللہ تعالی نے مردوں کا مزاج ایسا بنایا ہے کہ اس میں وہ لوگ نسبتاً لمبی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور عورتوں کا مزاج ایسا بنایا ہوتا ہے کہ وہ گھر کے کام کاج کے معاملے میں کافی ہوشیار ہوتی ہیں اور ہونی بھی چاہیے ۔
ہر چیز کی ایک حد بھی ہوتی ہے
لیکن اس شوق کو اپنے اوپر اتنا چڑھانا کہ ہر وقتی یہی سوچ ہو ، اس میں یہ نہ دیکھا جائے کہ ہمارے اوقات کیا ہیں ، یہ نہ دیکھا جائے کہ ہماری اصل ضروریات کیا ہیں ۔ یہ نہ دیکھا جائے کہ ہم آخرت کے معاملے میں کتنا زیادہ خیال رکھتے ہیں ۔ تو یہ والی بات اگر ہوجائے تو میرے خیال میں ضرورت کے درجے میں عورتوں کے تجربات سے فائدہ اٹھاناچاہیے ، نہ صرف یہ کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، بلکہ مفید ہے اور اس سلسلے میں عورتوں سے تعاون کرنا چاہیے ۔ میرا خیال ہے ہوشیار مرد ایسا کرتے بھی ہیں ۔ لیکن بات یہ ہے کہ عورتوں کو اپنی طبیعت کو اتنا کنٹرول کرنا چاہیے کہ وہ یہ دیکھے کہ ہماری اصل ضرورت کیا ہے ۔ اصل ضرورت کو دیکھا جائے ۔ فیشن کو نہ دیکھا جائے ۔
ضرورت کا خیال زیادہ رکھنا چاہیئے
اکثر میں گلا کرتا ہوں کہ مرد بھی عورتوں کی طرح سوچنے لگ جاتے ہیں ، وہ بھی ان برائیوں میں آجاتے ہیں ۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ آپ جب بھی گھر کو ڈیزائن کرنا چاہتے ہوں تو ضرورت کا خیال رکھا جائے ۔ مثلاً آپ نے وضو کرنا ہے ، غسل کرنا ہے تو غسل خانہ اسی طریقے سے بناو کہ جس میں ضروریات کا خیال ہو ، یہ نہیں کہ فیشن کا خیال ہو ۔ بھیڑ کی چال عورتوں کی بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ یعنی کسی عورت کو دیکھا کسی کام کو کرتے ہوئے تو بالکل یہ سوچے بغیر کہ اس میں فائدہ کیا ہے نقصان کیا ہے ۔ بس اس کے پیچھے چل پڑتی ہے تو یہ بات نقصان دہ ہے ۔ اس وجہ سے فیشن کو نہیں دیکھنا چاہیے ۔ دیکھنا چاہیے کہ میری ضرورت کیا ہے ۔ اور پھر تھوڑا سا سوچنا چاہیے کہ ہماری ذرائع آمدن کتنی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ جو مناسب ذریعہ آمدن ہو تو پھر اپنی ضرورت کے درجے میں جو چیز انسان رکھ سکتا ہے تو ٹھیک ہے ۔ اچھی بات ہے کوئی برائی نہیں ہے ۔ فرق اس میں یہ ہے کہ اتنا بھی سر نہ چڑھے کہ آخرت کا وبال آجائے ۔ تو اتنی بات پر اکتفا کیا جاسکتا ہے کہ جو فوری ضرورت کی چیزیں ہوں اس میں فیشن کو نہ دیکھا جائے ۔ اس میں ضرورت کو دیکھا جائے ۔ اصل ضرورت کو دیکھا جائے ۔ پھر اس میں کوئی ایسی حرج نہیں ۔ مثال کے طور پر کسی جگہ پر فرش پر بیٹھنے سے زیادہ سہولت حاصل ہوتی ہے تو اب صوفہ سیٹ کا وہاں پر زبردستی گھسیڑنا ، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ خواہ مخواہ چونکہ صوفہ سیٹ کا رواج ہے ۔ لہذا ہم نے صوفہ سیٹ تو ضرور بنانا ہے ۔ اور صوفہ سیٹ بھی وہ جو مہنگاہو ۔ خواہ مالی حالت اتنی اچھی نہ ہو لیکن وہی لینا ہے جو سب سے زیادہ اچھا ہو ، یا کم از کم دوسروں کے برابر تو ہو ۔ مشترکہ گھروں میں جوخواتین ہوتی ہیں یعنی دیورانی وغیرہ ، ان کا آپس میں بہت بڑا competition ﴿مقابلہ ﴾ہوتا ہے ۔دیکھتے ہیں کہ کسی کے پاس کوئی چیز ہے تو میرے پاس بھی ایسی ہونی چاہیے ، یہ نہیں دیکھتے کہ اپنی چادر کو دیکھ کر پاوں پھیلانا چاہیے ۔ اور اس کے اندر اندر جو حسن انتظام ہوسکتا ہے اس میں عورتوں کو واقعی سوچنا چاہیے ، اور اگر تھوڑا سا بھی اس نظام کی طرف توجہ دیں تو اپنے محدودبجٹ میں جتنا یہ کرسکتی ہیں بچت ضرور کریں ۔ مرد کا ہاتھ بٹھائیں اور دیکھیں کہ ہمارا اتنا بجٹ ہے اس میں کونسے جائز طریقے ہیں جس کے ذریعے ہم لوگ اپنی ضروریات کو پورا کرسکتے ہیں ۔ تو میرا خیال ہے اس کا بہت زیادہ فائدہ ہوگا ۔ اس طرح مرد تو کپڑوں میں پیوند تک بھی لگا لیتے ہیں ۔ مگر عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کو کپڑوں سے بھرے ہوئے صندوق بھی کافی نہیں لگتے ۔ چاہتی ہیں کہ کپڑوں سے گھر بھر لیں ۔ اگر سختی اور مجبوری ہو تو پیوند تو لگا لیں گی مگر اس وقت تو نہیں لگاتیں ۔
اپنی چادر کو دیکھ کر پاؤں پھیلانا اچھی بات ہے
بعض مرد جو بہت کم تنخواہ پر ملازم ہوتے ہیں ان کی بیویوں کو دیکھا جائے تو وہ بیگم بنی ہوتی ہیں ۔ مرد اپنے لئے پیوند لگے کپڑے استعمال کرتے ہیں مگر اس کی عورت اپنے آپ کو ایسے بنائے گی کہ وہ بالکل کسی بڑے آدمی کی بیوی معلوم ہوگی ۔ اور یہ سب سازو سامان اور سجاوٹ شوہر کے لئے نہیں ہوتی ۔ اناللہ وانا الہ راجعون ۔ یہ بات بھی بڑی عجیب ہے کہ پیسہ تو شوہر کا خرچ ہورہا ہے مگر یہ سجاوٹ وغیرہ شوہر کا حق نہیں سمجھا جاتا بلکہ دوسروں کو دکھانے کی غرض ہوتی ہے ، حالانکہ یہ نا سمجھی کی بات ہے ۔ دکھانے سے کیا ہوتا ہے ۔ کیونکہ آپس میں خاندان والوں کو ایک دوسرے کا حال معلوم ہوتا ہے ہر کسی کو پتہ ہوتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے ،
ایک عجیب مثال
بلکہ میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں ۔ دیکھیں زیور جو ہے اس کے دو رخ ہیں ۔ ایک اس کی مالیت ہے اور ایک اس کی زینت ہے ۔ زینت تو آج کل ایسی زیوروں میں زیادہ پائی جاتی ہے جو سونے کے نہیں ہوتے ۔ بلکہ بعض تو اس میں ایسے ہوتے ہیں کہ بالکل سونے ہی کی طرح ہوتے ہیں اور ایسے ہوتے ہیں کہ کوئی اس پر گمان بھی نہیں کرسکتا کہ یہ سونے کا نہیں ہے ۔ آج کل ایسے زیور ملتے ہیں۔ لیکن کسی عورت کو اگر آپ یہ زیور دے دیں کہ آپ یہ زیور لے لیں تو کیا وہ یہ زیور لینے کے لئے تیار ہوجائے گی ۔کبھی بھی تیار نہیں ہوگی جو بات اس کے اندر موجود ہے وہ یہ ہے کہ یہ عورت جانتی ہے کہ اگر کسی کو پتہ چل گیا کہ اصل بات کیا ہے تو پھر ساری عزت خاک میں مل جائے گی مطلب یہ ہے کہ یہ والی چیز نہیں رہے گی ، بے شک وہ زیور سونے کا نظر آئے زینت اس کی بھر پور ہو ۔ لیکن چونکہ اب کسی کو پتہ چل گیا کہ یہ سونے کا نہیں ہے تو بس ساری عزت خاک میں مل گئی ۔ اب تھوڑا سا اس پر غور فرما لیں کہ جس عورت کی اصل وقعت جو لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ کتنی مالدار ہے یا کتنے بڑے خاندان سے تعلق رکھتی ہے ۔ بہر حال اس کا جو مقام ہے وہ اس کے اپنے رشتہ داروں کو کم از کم معلوم ہی ہوتا ہے ۔ اب ان کے سامنے ایسے سجنے کی کہ جیسا کہ ان کو پتہ ہے کہ میں چاہے ایسے ہوجاوں کہ میں بالکل شہزادی لگنے لگ جاوں لیکن لوگوں کو میری حیثیت کا پتہ ہے ۔ الٹا یہ ہوسکتا ہے کہ وہ ایسی باتیں بنائیں کہ یہ ایسی ہے لیکن بنتی کیسی ہے ۔ تو اگر اس کو دیکھا جائے اور اپنی حیثیت کے مطابق رہے ۔ تو بہت ہی آسانی ہوجائے گی ۔ ان کے لئے بھی آسانی ہوجائے گی شوہر کے لئے آسانی ہوجائے گی
لوگوں کی زیادہ پرواہ نہیں کرنی چاہیئے
بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ جو لوگ ہوشیار ہوتے ہیں وہ ایک قدم آگے ہوتے ہیں ۔ جس طرف لوگوں کی نگاہ نہیں بھی جاتی اس کو خود ہی بتا دیتے ہیں کہ بھئی ہماری حالت ایسی ہے ۔ وہ ایک قدم آگے جاکر بات بتا دیتے ہیں تو کسی کو بات کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا ۔ ہمارے ایک دوست ہیں وہ ایسے ہی کرتا ہے کہ جس چیز سے لوگوں چڑتے ہیں وہ خود ہی بتادیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ یہ مسئلہ ہے ۔ اب کوئی ان کے ساتھ کیا بات کرے ۔ اور یہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے کالجز وغیرہ میں جو لڑکے شرمیلے ہوتے ہیں اور چڑتے ہیں لوگ ان کو زیادہ چھیڑتے ہیں ۔ اور جو لوگ نہیں چڑتے اور ایسے ہی رہتے ہیں تو ان کو کوئی نہیں چھیڑتا ۔ بلکہ وہ دو باتیں اپنی طرف سے بھی شامل کرلیں گے کہ ہاں بھئی ہم ایسے بھی ہیں ۔ کوئی اگر ایک بات کرے گا کہ بھئی آپ فلاں ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہاں بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوں ۔ تو جب وہ اس طرح کہتے ہیں تو ظاہر ہے پھر کوئی ان کو چھیڑتا ہی نہیں ۔ اور لوگوں سمجھ جاتے ہیں کہ یہ چڑتا نہیں ہے ۔ لہذا اس کو نہیں چھیڑتے ۔
شوہر کا حق بہر حال مقدم ہے
تو اسی طریقے سے اگر عورتیں تھوڑی سی سمجھداری کا ثبوت دیں اور ذہن میں یہ بات رکھے کہ ہمارا اصل مقام اللہ تعالی کے پاس ہے ۔ اور دنیا میں شوہر کے پاس ہے ۔ اگر میں شوہر کی نگاہ میں اچھی رہی اور سارے لوگوں کی نگاہ میں اچھی نہ رہوں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ۔ کیونکہ میں نے زندگی اس کے ساتھ گزارنی ہے اگر میرا شوہر کے ساتھ تعلق اچھا نہیں تو پھر کیا ہے سارا معاملہ گڑبڑ ہوگیا ۔ اور اللہ جل شانہ کے ساتھ تو معاملہ سب کا ہے ۔ مردوں کا بھی اور عورتوں کا بھی ۔ تو اگر ہم یہ باتیں سوچیں اور دیکھا جائے تو شریعت میں بھی بہت زیادہ تاکید ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اگر اللہ کے سوا کسی اور کے آگے سجدہ کی اجازت دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شوہروں کا حق اتنا زیادہ رکھا جائے جتنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے ظاہر فرمایا ہے ۔
خلاصئہ کلام تو اپنے گھروں کو سنبھالنا چاہیے اور اپنے شوہروں کے ساتھ حالت درست رکھنے کا اور بے جا امور سے بچنے کا اور جو چیز اچھی ہے اس کو فی الحال اچھی رکھنے کا اور جو چیز بری ہے اس سے بچنے کو اپنا وطیرہ بنا لیں تو میرا خیال ہے بہت آسانی ہوجائے گی ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح معنوں میں اس کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ۔
و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ۔