اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ۔اَلصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَم ُ عَلیٰ خَاتَمَ النَّبِیینِ۔اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُوَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ وَقَالَ اﷲُ تَعَالٰی قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ۔ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ﴿۱۳﴾ وَقَالَ اﷲُ تَعَالٰی اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہ، یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴿۶۵﴾صَدَقَ اﷲُ الْعَلِیُّ العَظِیْم۔
معزز علمائے کرام ، اساتذہ کرام ،عزیز طلباء اور بزرگو اور دوستو!
ربیع الاؤل کا مہینہ چل رہا ہے ۔ اس مہینے میں کچھ باتیں یاد آتی ہیں ۔ اللہ جل شانہ نے بعض نسبتیں قائم کی ہوتی ہیں ۔ اب آپ دیکھ لیں آپ ﷺکی مبارک زندگی کے ساتھ کچھ واقعات وابستہ ہیں ۔ آپ ﷺِ ربیع الاؤل کے مہینے میں ، پیر کے دن دنیا میں تشریف لائے ۔ اور پیر ہی کے دن ربیع الاؤ ل کے مہینے میں اس دنیا سے تشریف لے گئے اور ربیع الاؤ ل میں پیر کے دن ہجرت کی ابتداء فرمائی اور پیر کے دن ربیع الاؤل میں ہجرت ختم ہوئی ۔ اب یہ کیا عجیب نسبت ہے پیر کے دن اور ربیع الاؤل کے مہینے کے ساتھ ۔ اگر یہ نسبت کوئی چیز نہ ہوتی ، تو افضل البشربعد الانبیائے حضرت ابوبکر صدیق ؓ پیر کے دن اپنی وفات کی تمنا نہ کرتے ۔ کوئی بات تو ہے ۔ سید الایام تو یوم جمعہ ہے لیکن حضرت ابوبکر صدیق ؓ کیا تمنا کرتے ہیں ؟ پیر کے دن وفات کی تمنا کرتے ہیں ۔ یہی نسبت ہے کہ حضرت عمر ؓ دعا کرتے ہیں ۔ جو ان کے بعد افضل ہیں
اللّٰہُمَّ الرْزُقْنیِ شَھَادَۃً فِی سَبِیْلِکَ وَاجعَلْ قَبْرِی فِی بَلَدِ رَسُولِکَ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ باب العلم ہیں ۔ وہ پاس کھڑے ہیں ، حیرت سے کہہ رہے ہیں یا امیر المومنین آپ کیا مانگ رہے ہیں ؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں خونریزی ہو ، اور آپ شہید ہوجائیں ۔ یہ عالمانہ سوا ل ہے ۔ کیونکہ آپ ؓ باب العلم ہیں ۔حضرت عمر ؓ جواب دیتے ہیں ، مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیسے ہوگا ، لیکن میں چاہتا ہوں کہ ایسا ہو ۔ تو یہ عاشقانہ جواب ہے ۔ اصل میں یہ نسبتیں ہوتی ہیں۔ ہر چیز کی اپنی اپنی نسبت ہے ۔ اللہ جل شانہ جس کو سمجھ عطا فرمادیتے ہیں اس کو یہ ساری باتیں سمجھ میں آجاتی ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ جب سمجھ اٹھا دیتے ہیں تو پھر انسان کو کوئی بات سمجھ نہیں آتی ۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو سمجھدار بنا دے ۔ آپ ﷺ دعا مانگتے ہیں
الّٰھُمَّ انِّی اَسْئَلُکَ حُبَّکَ و حُبَّ مَنْ یُحِبُّکَ
اے اللہ میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور ہر اس شخص کا جو تجھ سے محبت رکھے ۔ تو آپ ﷺِ ہر اس شخص کی محبت کی دعا کررہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کررہا ہو ۔ آپ اندازہ کرلیں کہ جن کے ساتھ اللہ محبت کرتا ہو تو ان کی محبت مانگنی چاہیے یا نہیں ؟ تو ہم بھی مانگتے ہیں کہ اللہ جل شانہ ہمیں اپنے محبوب ﷺِ کی محبت نصیب فرمائے ۔ اور پھر باقی کون محبوب ہے یہ بھی سن لیں ۔ اور اللہ جل شانہ کی زبانی سن لیں ۔ اللہ پاک فرماتے ہیں
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ
اے میرے حبیب اپنی امت سے کہہ دیجئے اگر تم اللہ کے ساتھ محبت کرنا چاہتے ہو تو میرا اتباع کرو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنا محبوب بنا دیں گے ۔ تمہارے ساتھ محبت فرمائیں گے ۔ تو ہر کوئی جو آپ ﷺِ سے محبت رکھتا ہے اور آپ ﷺِ کے طریقوں سے محبت رکھتا ہے اور آپ ﷺِ کے طریقوں کا اتباع کرتا ہے ۔ وہ اللہ پاک کا محبوب ہے ۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو آپس میں جدا نہیں ہوسکتیں ۔ آنکھ سے بینائی کو جدا کرسکتے ہو ؟ نہیں ہوسکتی ۔ اس طریقے سے توحید کو حب نبی سے جدا نہیں کیا جاسکتا ۔ اور حب نبی کو توحید سے جدا نہیں کیا جاسکتا ۔ جو ان دو چیزوں کو جدا کرتا ہے وہ اپنے دماغ کو خراب کرتا ہے ۔ یہ موٹی موٹی باتیں ہیں ،ایسی باتیں نہیں ہیں جو سمجھ نہ آسکے ۔ توحید کیا ہے ؟ یہ وہ چیز ہے جو آپ ﷺِ کے پورے عمر کا وظیفہ ہے ۔ پوری عمر آپ ﷺِ نے اس پر گزاری ۔ لہذا جو حضورﷺِ کے ساتھ محبت کرتا ہو ، اور توحید نہیں مانتا تو وہ حضور ﷺِ کا محب نہیں ہے ۔ جس چیز کو آپ ﷺِ نے اپنی پوری عمر کا وظیفہ بنایا اس کو چھوڑ کر کوئی آپ ﷺِ کو راضی کرسکتا ہے ؟ ناممکن ہے ناممکن ۔ اس طرح پورے کائنات کو اللہ جل شانہ نے آپﷺِ کے لئے بنایا ، آپﷺِ پر اپنی تمام نعمتیں تمام فرما دیں ۔ بلکہ آپ ﷺِ پر دین اسلام کو نازل فرما کر ہم پر اپنی تمام نعمتیں تمام فرما دیں
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا
تو جب یہ والی بات ہے ۔ تو آپ ﷺِ کی محبت کے بغیر اللہ پاک کو راضی نہیں کیا جاسکتا ۔ ہم سورۃ فاتحہ میں کہتے ہیں
اِیَّاکَ نَعُبدُوَاِیَّاکَ نَستَعِینُ
اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ۔ یہ آپﷺِ بھی پڑھتے تھے اور آپ ﷺِ کے تمام صحابہ بھی پڑھتے تھے اور ہم سب بھی پڑھتے ہیں ۔ یہ توحید ہے ۔ لہذا توحید کے خلاف تو کوئی بات نہیں کرسکتا ۔ لیکن آپ ﷺِ کی محبت کو چھوڑ کر ایمان ہی قائم نہیں رہ سکتا ۔ توحید تو ایمان کے ساتھ ہے ۔ ایمان نہ ہو تو کیا توحید ہوگا ؟ آپ ﷺِ ارشاد فرماتے ہیں ، تم میں سے کوئی اس وقت تک مکمل مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں تمہیں تمہاری اولاد سے ، تمہارے والد سے ، اور باقی سارے لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤ ں ۔ دوسری بات اس ہستی سے کی جس کو خود مانگا ، حضرت عمر ؓ سے ۔ حضرت عمر ؓ کو آپ ﷺِ نے اللہ سے خود مانگا ہے ۔ آپ ﷺِ ارشاد فرماتے ہیں ، اے عمرؓ تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک میں تجھے تم سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں ۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ﷺِ اب تو آپ مجھے اپنے آپ سے بھی زیادہ محبوب ہیں ۔ فرمایا الآن یا عمر ۔ اب ہوگئی بات اے عمر ۔ اندازہ کرلیں کہ حضرت عمر ؓ کو صرف وسوسہ آیا تھا اور اس وسوسے کی بھی آپ ﷺِ نے تصحیح فرمائی اور آپ ﷺِ نے ارشاد فرمایا کہ تمہارا ایمان اس وقت کامل ہوگا جب میں تمہیں اپنے آپ سے بھی زیادہ محبوب بن جاؤں گا ۔ یہ دو باتیں ذرا غور سے سن لینا ، اس میں بہت کچھ ہے ، اس کو یاد بھی رکھنا ہے ۔ آپ ﷺِ نے پہلے حدیث شریف میں بتایا کہ جب میں تمہیں اپنے والد سے اپنی اولاد سے اور سارے لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں ۔ دوسرے حدیث میں حضرت عمر ؓ سے فرما رہے ہیں کہ اس وقت تک تمہارا ایمان کامل نہیں ہوسکتا جب تک میں تمہیں اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں ۔ پہلی حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ ﷺِ ایک طرف ہوں اور دوسری طرف باقی سب ہوں تو ہم حضورﷺِ کے ساتھ ہونگے باقی لوگوں کے ساتھ نہیں ہونگے ۔کبھی کبھی امتحان آجاتا ہے ، اس وقت کامیاب وہی ہوگا جو آپ ﷺِ کے ساتھ ہوگا ۔ حضرت سید احمد شہید ؒ نے اپنے خلیفہ مولانا عبدالحئی صاحب ؒ سے کہا ، میاں عبدالحئی اگر مجھے کبھی سنت کے خلاف کام کرتے دیکھو تو ٹوک دینا ، یہ اپنے شیخ ان کو بتا رہے ہیں ، تو مولانا عبدالحئی ؒ عجیب جواب دے رہے ہیں ، فرماتے ہیں عبدالحئی اس وقت تیرے ساتھ ہوگا کب جب تو حضور ﷺِ کے ساتھ نہیں ہوگا ۔ یہ وہ مولانا عبدالحئی صاحب ؒ ہیں جب سید صاحب جہاد کے لئے جارہے تھے تو یہ اپنے والد کے بہت زیادہ نیاز پروردہ تھے ۔ دو دروازے ہوتے تھے ۔ ہر دروازے میں جوتے پڑے ہوتے تھے اور ہر دروازے کے آگے تانگہ کھڑا ہوتا تھا ۔ تاکہ عبدالحئی اگر اس طرف جائے تو اس طرف بھی تانگہ کھڑا ہو اور اگر اس طرف سے جائے تو اس طرف بھی تانگہ کھڑا ہو ۔ اس کو دوبارہ نہ آنا پڑے ۔ لیکن جب جہاد کے لئے جارہے تھے تو والد اجازت نہیں دے رہے تھے ۔ پھر مولانا عبدالحئی کی یہ حالت ہوگئی کہ زمین پر لوٹنے لگے ، اور نظر آرہا تھا کہ جیسے ابھی ان کی جان نکل جائے گی ۔ تو لوگوں نے کہا کہ ان کو اجازت دے دو اگر ادھر جان نہیں نکلی اور یہاں نکل گئی تو پھر آپ کیا کریں گے ۔ تو والد نے اجازت دے دی اور یہ بعد میں سید صاحب ؒ کے پیچھے پہنچ گئے ۔ تو یہ جواب کیا دے رہے تھے اپنے شیخ کو ؟ فرمایا اس وقت عبدالحئی آپ کے ساتھ ہوگا کب جب آپ حضور ﷺِ کے ساتھ نہیں ہونگے ۔ میں جب جرمنی میں تھا تو وہاں میری کچھ عرب حضرات سے بھی دوستی ہوگئی تھی ۔ عربوں میں بھی ماشاء اللہ بڑی صلاحیتیں ہیں ۔ تو ان کے ساتھ میرا اٹھنا بیٹھنا تھا ۔ آخری دنوں میں جب میں جرمنی سے واپس آرہا تھا تو اچانک میری زبان سے یہ بات نکلی ، میں نے کہا یا اخوان العرب نحن نحبکم اے ہمارے عرب بھائیوں ہم تمہارے ساتھ محبت کرتے ہیں ۔ کیوں کرتے ہیں ؟ کیونکہ آپ ﷺِ نے فرمایا عربوں کے سا تھ محبت کرو کیونکہ میں عرب ہوں ۔ قرآن کی زبان عربی ہے اور اہل جنت کی زبان عربی ہوگی ، تو ہم آپ کے ساتھ محبت کرتے ہیں ۔ لیکن اگر آپ ﷺِ ایک طرف اور تم دوسری طرف ہوگے تو یاد رکھو میں حضور ﷺِ کے ساتھ ہونگا تمہارے ساتھ نہیں ہونگا ۔ وہ حیران ہوگئے پوچھا شیخ ایسے کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم حضور ﷺِ کے ساتھ نہیں ہونگے ۔ تو میں نے کہا آپ لوگوں نے اپنے لباس کو دیکھا ہے ، یہ توب شرعی لباس ہے؟ کیا یہ سنت لبا س ہے ؟ان کا توب ٹخنوں سے نیچے آجاتا ہے ۔ تو ان کے سر شرم سے جھک گئے اور کہا شیخ آپ ہمیں یہی باتیں بتایا کریں ہم آپ کے ان باتوں کے عاشق ہیں ۔ تو میں عرض کررہا تھا کہ امتحان ہوتاہے ۔ ایک دفعہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے حضرت امیرمعاویہ ؓ نے نصیحت کی درخواست کی ۔ تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے آپ ﷺِ سے سنا ہے کہ جو اللہ جل شانہ کی ناراضگی سے بچنے کے لئے مخلوق کی پروا نہ کرے تو اللہ ان کے لئے کافی ہوجاتا ہے ۔ اور جو مخلوق کی ناراضگی سے بچنے کیلئے اللہ کی ناراضگی کی پروا نہ کرے تو اللہ پاک ان پر اسی مخلوق کو مسلط کردیتا ہے اور اس کے فقر کو دور نہیں کرتے ۔ تو امتحان آجاتا ہے ۔اور ہمیں اس امتحان میں کامیاب ہونا ہے ، اللہ جل شانہ ہم سب کو اس امتحان میں کامیاب فرمائے ۔ تو یہ پہلے حدیث شریف کا مفہوم ہے
دوسری حدیث شریف میں فرماتے ہیں ، اے عمرؓ تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک میں تمہیں اپنے آپ سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ۔ اب اس کا مفہوم کیا ہے ۔ ہم جب کہتے ہیں کہ ہم یا ہمارا، تو یہ کیا ہے ۔ ہم جب کسی چیز کی نسبت اپنی طرف کرتے ہیں تو اس میں کونسی چاہت ہوتی ہے ؟ ہمارا نفس جو چیز چاہتا ہے وہ ہماری چاہت ہوتی ہے ۔ تو امتحان آتا ہے کہ میرا نفس کیا چاہتا ہے اور آپ ﷺِ کیا چاہتے ہیں ۔ اب اگر ہماری چاہت آپ ﷺِ کی چاہت کے خلاف ہو تو پھر امتحان میں پاس ہونے کے لئے کیا کرنا چاہیے ؟ ہم آپ ﷺِ کے طریقوں کو لیں گے اور اپنی چاہت کو چھوڑیں گے ۔ تو یہ ہر وقت کا امتحان ہے یا نہیں ۔ اسی کو تصوف کہتے ہیں ۔ جس کو طریقت بھی کہتے ہیں ، بس یوں سمجھ لیں کہ یہ دوسری حدیث شریف پر عمل ہے ۔ ہماری جو نفس کی خواہشات ہیں اور چاہتیں ہیں یہ آپ ﷺِ کی چاہت پر قربان ہوجائیں ۔ جو ہم چاہیں وہ ٹھیک نہیں اور جو آپ ﷺِ چاہیں وہ ٹھیک ۔ ہم اس طریقے پر چلیں یہ تصوف کہلاتا ہے ۔ آپ ﷺِ کے طریقوں پر عمل دو طریقوں سے ہوتا ہے ۔ یہ میں بہت اہم بات بتانے والا ہوں ، اللہ تعالیٰ مجھے صحیح طرح بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آپ ﷺِ کے طریقو ں پر عمل کرنا دو طریقوں سے ہوتا ہے ۔ ایک آپ ﷺِ کا طریقہ لیا لیکن ایسا جیسے مثلاً آپ ﷺِ ایک ڈاکیہ ہوں اور ہمیں پتہ چل گیا کہ آپ ﷺِ نے بتادیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ طریقہ ہے ،وہ ہم نے لے لیا اور باقی آپ ﷺِ کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہ ہو ۔ آج کل ایسا فتنہ موجود ہے ۔ اور دوسرا طریقہ یہ کہ ہم آپ ﷺِ کی ذات کے ساتھ محبت کرتے ہوں اور وہ محبت اتنی بڑھ جائے کہ آپ ﷺِ کے طریقوں پر ہم اپنے طریقوں کو قربان کردیں ۔ تو بتائیں کونسا طریقہ اپنانا چاہیے ، ﴿مجمع سے آواز آئی دوسرا طریقہ ﴾جی ہاں دوسرا طریقہ اپنانا چاہیے کیونکہ پہلے طریقے میں آپ نے حضورﷺِ کا طریقہ تو لے لیا لیکن حضور ﷺِ کو ساتھ نہیں لیا ۔ اور حضور ﷺِ کے طریقے اس لئے اہم ہیں کہ وہ حضور ﷺِ کے طریقے ہیں ۔ جب درمیان میں حضور ﷺِ نہیں رہے تو پھر طریقے کیا رہ گئے ۔ یہ بڑی اہم بات ہے ۔ آپ ﷺِ نے فرمایا کہ تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا ، جب تک میں تمیں اپنے آپ سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ۔ اس میں طریقہ نہیں فرمایا اپنے آپ کا ذکر فرمایا ہے ۔ حضورﷺِ کی محبت کی ایک کسوٹی بتاتا ہوں ، تمام مسائل کا حل ۔ اور وہ یہ کہ دیکھو صحابہ کیا کرتے تھے ۔ فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کرو ، فیصلہ چھوڑو صحابہ پر ۔ کیا صحابہ نے صرف طریقے لیے ہوئے تھے ؟ یا حضور ﷺِ کو لیا ہوا تھا ۔ تو یہی بات ہے ۔ اگر یہ بات سمجھ میں آگئی تو آپ یقین کریں بہت بڑی فقاہت حاصل ہوگئی ۔ آپ ﷺِ ہمارے لئے تو کیا پورے کائنات کی وجہ ہے ۔ نہیں پیدا کرتے ہم کائنات کو اگر تجھے پیدا نہ کرتے ، یہ کیا ہے ۔ چلیں ہم اپنی بات نہیں کرتے اس سلسلے میں ہم اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں ۔ اگر چھوٹوں میں اختلاف ہوجائے تو وہ کس کے پاس جاتے ہیں ؟ بڑوں کے پاس جاتے ہیں تو ہمارے دیوبند کے بڑے کون ہیں ، مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ ۔ اب دیکھیں وہ کیا فرماتے ہیں
سب سے پہلے مشیت کے انوار سے
نقش روئے محمد بنایا گیا
پھر اسی نور سے مانگ کر روشنی
بزم کون ومکان کو سجایا گیا
یہ کیا چیز ہے؟ مولانا قاسم نانوتویؒ کیا فرما رہے ہیں ۔ اب اس کو کیا سمجھنا چاہیے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے بڑوں سے کٹ گئے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے ہوگئے ہیں لہذا اب ہمیں بڑوں کی ضرورت نہیں رہی ۔ لیکن وہ بڑا کبھی بھی بڑا نہیں ہوسکتا جو اپنے بڑوں سے کٹ جائے ۔ ہمارے شیخ ؒ فرمایا کرتے تھے ۔ کہ بڑا بننے کے لئے چھوٹا بننا پڑتا ہے ۔ جو اچھا چھوٹا ہے وہ اچھا بڑا بن جائے گا ۔ جو چھوٹا ہونے کی حالت میں اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے وہ کبھی بھی بڑا نہیں بن سکتا ۔ اس کلیے کو اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے ۔ اللہ جل شانہ ہمیں سمجھ عطا فرمائے ۔ جب آپ ﷺِ کی محبت اتنی بڑی چیز ہے جو ہرچیز میں سمائی ہوئی ہے ۔ تو پھر اس محبت کو کیسے حاصل کیا جائے ؟ کوئی طریقہ تو ہوگا ۔ کیا کتابوں سے حاصل کی جائے گی ؟ کوئی دم وغیرہ سے حاصل ہوگی؟ بھئی کوئی راستہ تو ہوگا ، حضرت تھانوی ؒ دیوبند کے دوسرے بڑے ہیں ، یہ وہ بڑے ہیں جنہوں نے کتابی طور پر دیوبند کوپھیلا دیا ۔ حضرت ؒ کی ہزار سے زیادہ کتابیں ہیں اور ہر موضوع پر لکھا ہے ۔ حضرت فرماتے ہیں آپ کو اصلاح کا آسان نسخہ بتا دوں ۔ لوگوں نے کہا ضرور ۔ فرمایا محبت کی پڑیا کھا لو ۔ لوگوں نے پوچھا محبت کی پڑیا کہاں سے ملے گی ۔ فرمایا محبت کی دکانوں سے ۔ محبت کہاں سے ملے گی محبت کی دکانوں سے ۔ باتوں سے نہیں ملا کرتی ، کتابوں سے نہیں ملا کرتی
نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
اصل چیز یہ ہے کہ انسان جب کسی کی صحبت میں جاتا ہے تو اس کی صحبت میں رنگ جاتا ہے ۔
صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالح ترا طالح کند
اگر اچھے لوگوں کے ساتھ رہو گے ، اللہ والوں کے ساتھ رہو گے ، محبت والوںکے ساتھ رہو گے تو اللہ والے بن جاؤ گے ۔ محبت والے بن جاؤ گے ۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر دعوے تو انسان بہت کرتا ہے لیکن دعوؤں سے کیا ہوتا ہے ۔ تو آپ ﷺِ کی محبت جس میں دیکھو اس کے قریب ہوجاؤ ۔ آپ ﷺِ کی محبت جب میں کہتا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف محبت کا دعویٰ کرنے والا ۔ میں نے کہا ہے آپ ﷺِ کی محبت والا ۔ دعویٰ اور محبت کرنے والا میں بہت زیادہ فرق ہے ۔ آپ ﷺِ کی محبت اگر دیکھنا چاہتے ہو تو صحابہؓ میں دیکھو ۔ اور پھر درجہ بدرجہ جو صحابہ سے بنے ہیں ، اور صحابہ کی صحبت سے بنے ہیں ۔ پھر جو ان کی صحبت سے بنے ہیں ، پھر جو ان کی صحبت سے بنے ہیں اور یہ سلسلہ مسلسل چلا آرہا ہے ۔ صحبت در صحبت در صحبت کا سلسلہ چلا آرہا ہے ۔ اور صحبت اتنی عظیم چیز ہے کہ اس کے سامنے باقی ساری چیزیں ماند پڑ جاتی ہیں ۔ جب اس وقت کی صحبت اس دور کی صحبت کے ساتھ متصل ہیں تو مجھے بتائیں کہ اس وقت کی باقی نسبتیں اس کے سامنے سامنے ماند پڑ جائے گی یا نہیں ۔ یہ بہت اہم بات ہے ۔ حضرت تھانوی ؒ بہت بڑے عالم ، اور اللہ والے تھے ۔ بہت زیادہ کتابیں لکھی ہیں ۔ خود اپنے وعظ میں فرماتے ہیں کہ ایک وکیل صاحب میرے بڑے مخالف تھے لیکن بعد میں مداح ہوگئے ۔ فرماتے ہیں کہ میں بیٹھا ہوا وعظ کررہا تھا ۔ تو کسی بات پر وکیل صاحب وجد میں آگئے اور مسلسل یہ کہہ رہا ہے ۔
تو منور از کمال کیستی
تو منور از جمال کیستی
مسلسل یہ پڑ ھ رہا ہے ۔ یعنی تو کس کے جمال سے منور ہے ۔ تو کس کے کمال سے مکمل ہے ، مسلسل یہ پڑھ رہا ہے ۔ تو فرماتے ہیں کہ میں بھی جوش میں آگیا تو میں نے کہا
من مکمل از کمال حاجیم
من منور از جمال حاجیم
میں اپنے حاجی صاحب کے جمال سے منور ہوں ۔ میں اپنے حاجی صاحب کے کمال سے مکمل ہوں ۔ تو یہ والی بات ہے ۔ نسبتوں کی بات ہوتی ہے ۔ چلیں حضرت تھانوی ؒ کو بھی نعوذ بااللہ لوگ آگے پیچھے کرلیتے ہیں ، خشک جو ہوگئے ، خشکی بہت زیادہ آگئی ہے اللہ پاک اس سے بچائے ۔ حضرت گنگوہی ؒ کے بارے میں کیا خیال ہے ۔ میرے خیال میں لوگ ابھی وہاں تک نہیں پہنچے ۔ ارادہ تو ہے لیکن لوگ ابھی وہاں تک نہیں پہنچے ۔ حضرت گنگوہی ؒ کی کتاب امدا د السلوک موجود ہے ۔ میں نے خانقاہ میں اس کی کئی دفعہ تعلیم کرائی ہے ۔ امداد السلوک پڑ ھ لیں ۔ اس میں حضرت گنگوہی ؒ حضرت حاجی صاحب ؒ کے بارے میں جو فرماتے ہیں وہ پڑھ لیں کہ حاجی صاحب ؒ کون ہیں ؟ پورا ایک پیراگراف القاب و آداب صرف حاجی صاحب کیلئے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میں کیا ہوں ، میں تو صرف حضرت کے نام سے اس کتاب کا تمسک کروا رہا ہوں ۔ تو یہ کتاب پڑھنی چاہیے ۔ ہمارے جتنے بھی بڑے تھے وہ اپنی نسبتوں پر بہت فخر کرتے تھے ۔ ایک اور بات بتاتا ہوں ، حدیث شریف کی ایک اصطلاح ہے ۔ جس کو مدلس کہتے ہیں ۔ اس میں راوی اپنے شیخ کو چھپاتا ہے اور اس کے شیخ سے روایت کرتا ہے تو یہ اپنے شیخ کا نام کیوں چھپاتا ہے ؟۔ راوی اپنے شیخ ، استاد پر شرماتا ہے ۔ تو آج کل جو اپنے بزرگوں پر شرمائے ان کو ہم کیا کہیں گے ؟ یہی مدلس ہیں ۔ ہم تو اپنے بزرگوں کے پیچھے ہیں ۔ ہم تو اپنے بزرگوں کے ساتھ ہیں اور یہی دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ ہمیں اپنے بزرگوں کے ساتھ کردیں ۔ ہم تو اپنے بزرگوں کو حق پر سمجھتے ہیں ۔ اور الحمد اللہ سب کچھ ان سے لیتے ہیں ۔ ہمیں سب کچھ ان کے ذریعے سے ملتا ہے ۔ ہمارے تصوف میں کچھ اصطلاحات ہیں ۔ بعض اوقات اصطلاحات میں لوگ پھنس جاتے ہیں تو گھبرا جاتے ہیں ۔ حالانکہ وہ چیزیں بڑی simple ہوتی ہیں ، ایک اصطلاح ہے فنا فی الشیخ اور دوسری اصطلاح ہے فنا فی الرسول اور تیسری اصطلاح ہے فنا فی اللہ ۔ صوفیاء کا کثیر گروہ اسی طریقے پر چلتا ہے ۔ فنا فی الشیخ کون ہوتے ہیں ۔ یہ وہ ہوتے ہیں کہ جن کو شیخ کے ساتھ اتنی محبت ہوجاتی ہے کہ وہ پوری دنیا کی فیض کو اسی سے سمجھتے ہیں اور سب کچھ اسی سے لیتے ہیں ۔ ان کو فنا فی الشیخ کہتے ہیں۔ اس کے بارے میں میں اکثر ایک بات کرتا ہوں کہ جو تصوف کے ساتھ لمس نہیں رکھتے وہ صحابہ کرام کی محبت کو نہیں سمجھ سکتے جو ان کو حضور ﷺِ کے ساتھ تھی ۔ وہ صحابہ کرام کی اس محبت کو نہیں پا سکتے ۔ کیوں ؟ جو کسی کے سامنے باادب نہیں بیٹھا ، جس کا دل کسی کے دل سے نہیں ملا مجھے بتائیں وہ صحابہ کو کیسے جانیں گے ۔ صحابہ کی یہی تو بات تھی ۔ ان کی مثال بتاتے ہیں کہ جیسے پرندے کسی کے سر پر بیٹھ جائیں اور وہ نہ ہلیں ۔ یہ کیفیت اس وقت حاصل ہوتی ہے جب فنا فی الشیخ نہ ہوجائے ، اور جب تک فنا فی الشیخ نہ ہوجائے اس وقت تک وہ فنا فی الرسول نہیں ہوسکتا ۔ اور جو فنا فی الرسول نہیں ہوسکتا وہ فنا فی اللہ نہیں ہوسکتا ۔ تو پہلی سیڑھی فنا فی الشیخ کی ہے پھر فنا فی الرسول کی ہے پھر اس کے بعد فنا فی اللہ کی ہے ۔ ہمارے سارے بزرگ اسی طریقے سے گزرے ہیں ۔ حضرت قاسم نانوتوی ؒ ، حضرت گنگوہی ؒ ، حضرت مدنی ؒ ، حضرت تھانوی ؒ ، حضرت شیخ الحدیث ؒ ، حضرت مولانا الیاس ؒ ہمارے سارے اکابر اسی طریقے سے گزرے ہیں ۔ آپ ان کی سوانح تو پڑھ لیں ۔ آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ اپنے شیخ پر کیسے فانی ہوتے تھے ۔ اور پھر اللہ پاک نے ان سے کیسے کام لیا ۔ آج کل کے دور میں بھی اسی چیز کی احیاء کی ضرورت ہے ۔ تاکہ ہم مدلس ہونے سے بچ جائیں ورنہ پھر ہمارے پاس صرف علم کے الفاظ ہونگے علم نہیں ہوگا ۔ کیا ڈسٹرکٹ یو پی میں صرف یہی حضرات تھے ؟ یہ بیس بائیس علمائے کرام جو انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے ۔ نہیں بلکہ بہت سارے علمائے کرام تھے لیکن وہ بہت سارے علمائے کرام کہاں چلے گئے ؟ کسی کے بارے میں پتہ چلا؟ ان کا کیوں پتہ نہیں چلا اور ان کا کیوں پتہ نہیں چلا ۔ اس پر غور فرمائیں ۔ یہ بھی نہیں بلکہ اور اوپر جائیں ۔جن سے بھی اللہ جل شانہ نے ہدایت کا کام لیا ہے ذرا غور سے دیکھیں ان کی کسی نہ کسی کے ساتھ وابستگی ہے ۔ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ ، حضرت امام شافعی ؒ ، ، امام محمد بن حنبل ؒ ، امام مالک ؒ ان حضرات کو دیکھیں ، ان سب حضرات کی نسبتیں میں بتا سکتا ہوں کہ کن کے ساتھ کن کا تعلق تھا ۔ امام غزالی ؒ ، امام رازی ؒ ، اس طرح جو دوسرے مشہور صوفیائے کرام تھے ان کی تو بات ہی یہی تھی ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ ان کا ذکر آپ دیکھ لیں کہ حضرت اپنے شیخ کے پاس گئے ہیں ، استعداد اتنی تھی کہ دوسرے دن ہی اجازت مل گئی اور وفادار اتنے کہ بیس سال تک ادھر رہے ۔ یہی توچیز ہے جب اللہ پاک نے ان سے جب کام لیا تو جب ہندوستان آئے تو ایک انگریز مورخ لکھتا ہے کہ یہ وہ ہستی ہے جس کے ہاتھ پر نوے لاکھ افراد مسلمان ہوچکے ہیں ۔ تو اللہ پاک نے ان سے ایسا کام لیا ۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ اگر ہم آپ ﷺِ کو پہچاننا چاہتے ہیں تو کسی ایسے شخص کو تلاش کریں جو آپ ﷺِ کو پہچانتا ہو ، پھر اس کے ساتھ ہوجاؤ ، انشاء اللہ راستہ مل جائے گا ۔ پھر آپ کو کتابوں میں جولکھا ہے وہ سمجھ میں آجائے گا ۔ خود شیخ الحدیث ؒ نے ایک واقعہ لکھا ہے کتاب فضائل اعمال میں موجود ہے ۔ فرمایا کہ ایک محدث تھے وہ ایک شیخ سے بیعت ہوگئے ۔ تواس شیخ نے ان کو لا الہ الا اللہ کا ذکر تلقین کیا ،اور فرمایا کہ فرض نماز کے علاوہ اور کام نہ کریں بس یہی لا الہ الا اللہ پڑھیں ۔ درس و تدریس بھی چھوڑ دو ۔ وہ محدث صاحب کسی جگہ قران کا درس بھی دیتے تھے حضرت کو پتہ چل گیا فرمایا وہ بھی موقوف کردو ۔ جب لوگوں کو پتہ چلا تو کہا اس کا شیخ تو زندیق تھا اس کو بھی زندیق بنا دیا ۔ تو لوگوں نے ان کی بڑی مخالفت کی لیکن یہ دونوں اللہ والے تھے ان کی مخالفت کی کوئی پرواہ نہیں کی ، لگے رہے ۔ حتیٰ کہ وہ دن آگیا کہ حضرت نے پھر ان کو قران پاک کے درس کی اجازت دے دی ۔ خود وہ فرماتے ہیں کہ پہلے میں ان الفاظ کو دیکھتا تھا لیکن اب جب ان الفاظ کو دیکھتا ہوں تو ان کے پیچھے معانی کا ایک زبردست سمندر موجود ہے اور اس سے میں الفاظ چن چن کر نکالتا ہوں ۔ تو ایک ہوتا ہے علم کسبی اور ایک ہوتا ہے علم وھبی یا علم لدنی ۔ اللہ پاک اپنی قدرت کو اسباب میں چھپاتا ہے یہ اللہ پاک کی سنت عادیہ ہے ۔ برکت کس کو کہتے ہیں ، کیا یہ چیز آسمان سے برستی ہے یا زمین سے اگتی ہے ؟ چیز وہی ہوتی ہے لیکن وہ زیادہ ہوجاتی ہے ۔ بیشک نظر نہ آتا ہو لیکن جب استعمال ہوتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ زیادہ ہوگئی ، اس کو برکت کہتے ہیں ۔ تو سبب موجود تھا اللہ پاک نے اس کے اندر اپنی قدرت کو شامل کردیا ، اس میں برکت ہوگئی ۔ تو یہی برکت آپ علم میں بھی دیکھیں گے ، اس کو علم وھبی کہیں گے ۔ خود مولانا قاسم نانوتوی ؒ کے بارے میں مولانا یعقوب نانوتوی ؒ سے پوچھا گیا کہ حضرت یہ مولانا قاسم نونوتوی ؒ نے کہاں سے پڑھا ہے ۔ حضرت کی یہ حالت تھی کہ زبان بالکل ٹھیک تھی لیکن جب تقریر کرتے تھے تو لکنت ہوجاتی تھی ۔ کسی نے پوچھا حضرت آپ کو بیان میں لکنت کیوں ہوتی ہے ۔ حالانکہ آپ کی زبان میں لکنت نہیں ہے ۔ فرمایا میں کیا کروں جب بولتا ہوں تو سامنے ہر چیز کی چودہ چودہ اور پندرہ پندرہ تعبیریں آجاتی ہیں ، اس میں سے چنتا ہوں تو لکنت آجاتی ہے ۔ تو حضرت یعقوب نانوتوی ؒ نے جواب دیا کہ ادھر ہی سے پڑا ہے جہاں سے ہم نے پڑھا ہے ، لیکن کسی کے لئے سوئی کے ناکے کے برابر کھلتا ہے کسی کے لئے سمندر کے برابر کھلتا ہے ۔ تو بات یہی ہے ۔ اللہ جل شانہ جس پر علم وھبی کے سمندر کو کھول دیتا ہے تو لوگ پھر ان کو دیکھ دیکھ کر حیران ہوتے ہیں ۔ کہ یا اللہ یہ کہاں سے بول رہا ہے اور کدھر سے بول رہا ہے ۔ ایسی ایسی چیزیں آجاتی ہیں کہ آدمی حیران ہوجاتا ہے ۔ بلکہ خود انسان پریشان ہوجاتاہے کہ یہ کہاں سے ہے ۔ حضرت تھانوی ؒ ایک دفعہ بیٹھے ہوئے بیان فرما رہے تھے ۔ خطبہ مسنونہ پڑھا اور خاموش ہوگئے ، لوگوں نے سمجھا اس بات پر غور کررہے ہیں کہ کہاں سے آیت پڑھوں ۔ لیکن جب کافی دیر ہوگئی تو حضرت نے سر اٹھایا اور لوگوں سے فرمایا آپ لوگ دعا کریں مضامین آنے بند ہوگئے ہیں اللہ پاک مضامین کا نزول فرما دے ۔ لوگوں نے مل کر دعا کی اور پھرحضرت نے ایسا بیان فرما دیا کہ ماشائ اللہ ۔ تو اللہ نے دکھا دیا کہ میں دیتا ہوں ۔ جو یہ سمجھتا ہے کہ میں بولتا ہوں وہ جھوٹ بولتا ہے ۔ یہ تو اللہ جل شانہ بلواتا ہے ۔ ایک دفعہ میں اپنا ایک بیان جو ریکارڈ ہوچکا تھا ۔ اس کو میں کمپیوٹر پر لگا کر سن رہا تھا ۔ تو میرا ایک بیٹا ہے جو بہت زیادہ سوال کرتا ہے اس نے مجھ سے پوچھا ابو آپ اپنا بیان سن رہے ہیں ۔ میں نے کہا نہیں۔ بولا یہ آپ ہی کی آواز ہے میں جانتا ہوں کیا میں آپ کی آواز نہیں جانتا ۔ یہ آپ اپنا بیان سن رہے ہیں ۔ میں نے کہا نہیں میں اپنا بیان نہیں سن رہا ۔ اب وہ معصوم حیران ہوگیا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ۔ پھر پوچھا ابو اگریہ آپ کا بیان نہیں ہے تو پھر کس کا ہے ، میں نے جواب دیا ، جو میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے یہ ان کا بیان ہے اب میں سن رہا ہوں کہ میرے لئے اس میں کیا تھا ، اور یہ واقعی سچی بات ہے ایسا ہی ہوتا ہے ۔ مجھے اپنا بیان بھی یاد نہیں ہوتا ۔ یہ جو میں نے آج بیان کیا ہے یہ اگر میں خود کسی دوسرے کو بتانا چاہوں تو نہیں بتا سکتا ۔ شاید دو تین الفاظ میں بتا سکوں گا اس سے زیادہ نہیں ۔ میرے ساتھیوں کو اس کا تجربہ ہے کہ میں بھول جاتا ہوں ۔ اس کا مطلب کیاہے ؟ منجانب اللہ ۔ جن لوگوں کے لئے اللہ پاک نے بھیجا ہوتا ہے یہ انہی کی امانت ہوتی ہے ۔ تو جو اللہ پاک کی طرف سے آتا ہے اس کے وصول کرنے کے لئے اپنے دلوں کو کھول دینا ۔ یہی علم حاصل کرنے کی کوشش ہے ۔ یعنی اللہ جل شانہ سے لینے والے بن جاؤ ۔ علم ماشائ اللہ زیادہ ترکسبی ہوتا ہے میں یہ نہیں کہتا کہ آپ کتابیں بند کردیں اور بس غور کریں کہ اوپر سے کیا آرہا ہے ۔ یہ بات نہیں ۔ میں بات کررہا ہوں کہ صرف اس پر نہ رہیں ، یہ واقعتا بڑی چیز ہے ۔ لیکن جب ادھر سے آتی ہے تو پھر پتہ چلتا ہے کہ کیا چیز آرہی ہے کیونکہ وہ منجانب اللہ ہوتی ہے ۔ اس لئے عرض ہے کہ اللہ والوں کے ساتھ اپنی نسبتیں قائم کریں اور ماشائ اللہ میدان موجود ہے ۔ الحمد اللہ لوگ موجود ہیں ۔ یہ میں نہیں کہتا کہ ان لوگوں جیسے ہیں جو پہلے گزر چکے ہیں ۔ ویسے تو نہیں ہوسکتے اب کیونکہ وہ دور گیا ۔ لیکن جو ہیں ان میں آپ تلاش کریں ، جن کے ساتھ آپ کی مناسبت ہو ، اس کی نشانیاں میں ہر دفعہ بتاتا ہوں اور اس لئے بتاتا ہوں کہ کوئی میرے ذمہ نہ لگ جائے ۔ مطلب یہ ہے کہ خدا نخواستہ غلط آدمی کے پاس نہ چلا جائے ۔ اس کی پہلی نشانی یہ ہے کہ اس کا عقیدہ اہل سنت و الجماعت کا ہو ۔ دوسری نشانی اس کو فرض عین علم حاصل ہو۔ میں ایک جگہ بیان کررہا تھا میرے مخاطب علما ئ کرام تھے تو میں نے کہا کہ علمائے کرام سے مجھے ایک گلہ ہے ۔ یہ فرض کفایہ علم تو پھیلاتے ہیں لیکن فرض عین علم نہیں پھیلاتے ۔ انہوں نے کہا وہ کیسے ۔ میں نے کہا فرض علم وہ ہے جو آپ کے چوبیس گھنٹے کی روزمرہ زندگی کیلئے ضروری ہے ۔ پھر میں نے پوچھا آپ لوگوں نے کبھی بہشتی زیور کی تعلیم کی ہے ؟ کہا نہیں ۔ میں نے کہا یہ فرض عین علم ہے ۔ تعلیم الاسلام فرض عین علم ہے ۔ باقی چیزیں تو فرض کفایہ ہیں ۔ عام عوام کاتعلق تو فرض عین علم سے ہے ۔ اپنے مقتدیوں کو یہ چیزیں پڑھاؤ ۔ یہ آپ کے ذمے ہیں ۔ اگر آپ کے مقتدی بازار والے ہیں تو ان کو معاملات سکھاؤ ، کیونکہ ان کا کام معاملات والا ہے ۔ خدا نخواستہ معاملات میں گڑ بڑ ہوئی تو خطرناک معاملہ ہوسکتا ہے تو میں عرض کررہا تھا کہ اسے فرض عین علم حاصل ہو ۔ تیسری بات اسے اس علم پر عمل ہو ، چوتھی بات صاحب صحبت ہو اور اس کے صحبت کا سلسلہ حضور ﷺِ تک پہنچتا ہو ۔ پانچویں بات ادھر سے اجازت ہو ، اس پر اعتماد کیا گیا ہو ۔ چھٹی بات ان کے پاس بیٹھنے والوں کو دیکھا جائے کہ ان میں کوئی اچھی تبدیلی آرہی ہے یا نہیں ۔ یہ فیض ہے ۔ ایک نظر آنے والا فیض ہے اور دوسرا نظر نہ آنے والا فیض ہے ۔ آپ نظر آنے والے فیض کے مکلف ہیں نظر نہ آنے والے فیض کے مکلف نہیں ہیں ۔ تو دیکھو کہ ان لوگوں کو کچھ مل رہا ہے یا نہیں ۔ جب میں یہاں آرہا تھا تو حضرت کے ساتھ میں یہی بات کررہا تھا ۔ اللہ کا شکر ہے ہمارے سلسلے میں چند چیزیں کھل کر ملتی ہیں ۔ جس پر شکر تو میں یقینا کروں گا ۔ اظہار بھی شکر کی ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ جب عورت بیعت ہوتی ہے تو اس کو پردہ ملتا ہے ، مرد بیعت ہوتا ہے تو اس کو داڑھی ملتی ہے ۔ قران کا کچا حافظ ہو تو اس کا قران پکا ہوجاتا ہے ۔ اور اگر کسی پر حج فرض ہو تو اسے حج کی سعادت نصیب ہوجاتی ہے ۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے لیکن یہ موٹی موٹی باتیں میں نے آپ کو بتا دیں ۔ تویہ ہمارے سلسلے کا فیض ہے ۔ ہمارا سلسلہ الحمد اللہ واضح بنیادو ں پر ہے ۔ اور اس کے اندر ایک اور چیز بھی ہے جس سے میں ڈرتا ہوں ۔ اس سلسلے کے اندر اگر کوئی قبول ہوجائے تو پھر بھاگ نہیں سکتا ۔ بھاگے ہوئے کو کبھی کبھی ہتھکڑیوں میں لایا جاتا ہے ۔ چارپائی پر لایا جاتا ہے ۔ سٹریچر پر لایا جاتا ہے ۔ یعنی بھاگ نہیں سکتا ، وجہ کیا ہے ؟ اللہ پاک جب کسی کو قبول فرمالے تو پھر اللہ پاک سے کون بھاگ سکتا ہے ۔ بھئی ہمارے بزرگوں کا نام اس کے ساتھ لگ گیا ۔ کیا وہ اب ان کو بدنام کرتا پھرے گا ؟ نہیں اس کی اجازت نہیں ہے ۔ میں آپ کو ایک چھوٹا سا واقعہ بتاتا ہوں ہمارے ایک ساتھی تھے جو ہمارے ساتھ دفتر میں تھے ۔ میں نے کبھی ان کو نہیں کہا کہ نماز پڑھو ۔ کیونکہ جو ساتھ ہوتے ہیں ان کی ترتیب الگ ہوتی ہے ۔ باقی لوگوں کو تو انسان بتادیتا ہے لیکن ساتھ والوں کے ساتھ ترتیب ذرا لمبی رکھنی پڑتی ہے تو میں نے کبھی اس کو نہیں کہا کہ نماز پڑھو ۔ وہ ٹامی قسم کے آدمی تھے ، پینٹ کوٹ ، چین سموکر یعنی ہر قسم کی باتیں ان میں تھیں ۔ ایک دن حضرت سید سلیمان ندوی ؒ کا ایک مضمون ، حضرت مولانا محمد اشرف سلیمانی ؒ کی کتاب سلوک سلیمانی کے لئے ہم لکھ چکے تھے اور اس کی پروف ریڈنگ کررہے تھے ۔وہ مضمون حضرت نے مولانا تھانوی ؒ کی وفات پر لکھا تھا ۔ ظاہر ہے لکھنے والے علامّہ تھے اور جو فوت ہوگئے وہ بھی علامّہ ، تو آخر کوئی بات تو ہوگی نا ۔ تو وہ عجیب مضمون تھا ۔ اب وہ پڑھ رہے تھے اورہم اچھل رہے تھے ۔ جب وہ مضمون ختم ہوگیا تو اس کے ہاتھ اٹھ گئے اور کہا یا اللہ مجھے ہدایت دے دے آمین ۔ بس اس نے اتنا کہا ۔ جیسے ہی اس نے یہ الفاظ ادا کیے میرے دل پر وارد ہوگیا کہ یہ دعا قبول ہوگئی ۔ اب دعا قبول ہوگئی تو اس کا اظہار بھی ہو ۔ تومہینہ گزر گیا ڈیڑھ مہینہ گزر گیا لیکن وہ آدمی اس طرف نہیں آرہا ۔ کیا وجہ ہے وہ آدمی قبول ہوچکا ہے لیکن آنہیں رہا ۔ کیا وجہ ہے ۔ تو میں ڈر گیا ۔ میںنے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا کہ اس کو بتادو کہ اس کی قبولیت ہوگئی ہے اور اگر یہ اپنی مرضی سے نہیں آئے گا تو ممکن ہے کہ اس کو سٹریچر پر لایا جائے ۔ تو اس سے پوچھ لو کہ صحیح طریقے سے آنا چاہتے ہو یا دوسرے طریقے سے ۔ اب پتہ نہیں اس کو پیغام ملا یا نہیں ملا ، لیکن اس کے ٹھیک ایک مہینے کے بعد اس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ۔ اب چارپائی پر پڑ گیا چھ مہینے کے لئے ۔ اور اسی میں االحمد اللہ اس کی ساری چیزیں ٹھیک ہوگئیں ۔ داڑھی بھی رکھ لی ۔ ماشاء اللہ ذکر بھی کرنا بھی شروع کردیا ۔ درود شریف پڑھنا بھی شروع کیا ۔ تلاوت بھی شرو ع ہوگئی ۔ کپڑے بھی ٹھیک ہوگئے ۔ سب چیزیں ٹھیک ہوگئیں لیکن ایک خامی رہ گئی اور وہ تھی سگریٹ پینا ۔ خیر پانچ چھ مہینے گزرنے کے بعد میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ اب اس کا سگریٹ پینا بھی بند ہونا چاہیے ۔ اچھا اس کے چند روزبعد اس کی یہ عادت بھی چھوٹ گئی ۔ ان سے جب میں نے پوچھا کہ یہ کیسے تو اس نے جواب دیا کہ میرے دل میں خیال آیا کہ جس منہ سے درود شریف پڑھتے ہو اس منہ پر سگریٹ پینا اچھا نہیں لگتا ۔ تویہ ہے اللہ کی طرف سے ہدایت ۔ منجانب اللہ جب ہدایت ملتی ہے تو اس کے لئے ذرائع بہت سارے ہیں ۔ تو ہمیں اللہ پاک سے مانگنا چاہیے ۔ کہ اے اللہ ہمیں ہدایت دے دے ۔ دل سے مانگنا چاہیے ۔ دیکھیں سب سے بڑی نعمت ہدایت ہے
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ المُسْتقیْمَ﴿۵﴾ صِرَاطَ الَّذِینْ اَنْعَمتَ عَلَیھمْ ﴿۶﴾ غَیرِ المَغْضُوْبِ عَلَیہِمْ وَلَاالضَّآ لِّینَ﴿۷﴾
یہ وہ دعا ہے جو نماز کی ہر رکعت میں ہم پڑھتے ہیں اور ہمارے اوپر لازم ہے ۔ اب تھوڑا سا اس کے اندر ہم متوجہ تو ہوجائیں کہ ہم کیا مانگ رہے ہیں ۔ اتنی بات بھی اگر ہو تو میں کہتا ہوں کہ ہمارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو ہدایت نصیب فرما دے ۔ آمین ثم آمین۔