بزرگو اور دوستو! یہ دنیا دارالعمل ہے ۔ اس میں ہم ہر وقت کوئی نہ کوئی عمل کررہے ہوتے ہیں ۔ بظاہر بعض دفعہ نظر آتا ہے کہ ہم کوئی عمل نہیں کررہے ہیں لیکن پھر بھی ہم عمل کررہے ہوتے ہیں ۔ خاموشی بھی ایک عمل ہے ۔ اس لحاظ سے ہمیں ہر وقت اس بات کی فکر رہنی چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اپنا نقصان کررہے ہوں یا اپنا وقت ضائع کررہے ہیں ۔ جو کچھ کما سکتے ہوں وہ نہ کما رہے ہوں ، اور جن نقصانات سے ہم اپنے آپ کو بچا سکتے ہوں ان سے اپنے آپ کو نہ بچا رہے ہوں ۔ اس لئے ہر وقت attentive ﴿چوکنا﴾رہنے کی ضرورت ہے ۔ آپ حیرا ن ہونگے کہ انسان ہر وقت کیسے attentive ﴿چوکنا﴾رہ سکتا ہے ۔ تو یہ عمل ہم دنیاوی معاملات میں تو کرتے ہیں لیکن آخرت کے معاملے میں یہ بات عجیب نظر آتی ہے ۔ آپ غور فرما ئیں، اگر ایک شخص سے کہا جائے کہ زہر نہیں کھانا ۔ اور وہ جواب دے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے ، میں اس سے مسلسل کیسے بچوں گا ، تو اس کو کیا کہا جائے گا ؟۔اس کو کہا جائے گا اچھا ٹھیک ہے پھر کھا لینا خود ہی پتہ چل جائے گا ۔ کسی کو اگر کہہ دیا جائے کہ سڑک کے بیچ میں نہ چلنا ، اور وہ کہے کہ جی لمبا راستہ ہے میں سڑک کے بیچ میں کیوں نہ چلوں یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔ تو اس کو کہا جائے گا ٹھیک ہے پھر چل کر دیکھ لو ۔ تو ایک ہوشیار آدمی جیتے جاگتے ، سوچے سمجھے کبھی ایسی حرکت نہیں کرے گا جس سے اس کو کسی طریقے سے نقصان ہوسکتا ہے ۔ جب بھی نقصان ہوتا ہے وہ کسی غفلت کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ وہ کسی چیز میں گم ہوتا ہے یا کسی سوچ میں ہوتا ہے ، یا اس کو فیصلہ کرنے کا وقت نہیں ملتا ۔ کوئی ایسی بات ہوجاتی ہے جس سےaccident﴿حادثہ﴾ ہوجاتا ہے ۔ او رپھر بعد میں افسوس کرتا ہے کاش میں اس راستے سے نہ چلتا ۔ اس کو لوگ لاکھ تسلیاں دیں گے کہ بھئی آپ کی قسمت میں جوتھا وہ ہوگیا اب آپ فکر نہ کریں لیکن کیا اس بات سے اس کی تسلی ہوجاتی ہے؟ وہ پریشان ہوتا ہے کہ میں نے ایسے کیوں کیا ۔ مجھے یاد ہے میٹرک کے بعد ایک دفعہ میں اور میرا کزن سائیکل پر بیٹھے ایک جگہ جارہے تھے ۔ میرا کزن آگے بیٹھا ہوا تھا ۔ ہم جب نوشہرہ پل پر پہنچے تو پل کے بالکل ابتداء میں ایک تانگہ اپنے سائڈا پر جارہا تھا ،اچانک گھوڑا کسی وجہ سے ڈر کرہمارے سائڈز پر ہوگیا اور ہمیں اپنے آپ کو بچانے کا کوئی وقت نہیں ملا ۔ میرے کزن نے سائیکل سے چھلانگ لگائی اور میں پیچھے بیٹھا سائیکل سمیت نیچے گرا ، اور میرا ہاتھ ٹوٹ گیا ۔ پھر ہم لاکھ سوچتے رہے کہ کاش ہم اتر جاتے ، کاش ہم یہ کرتے وہ کرتے ۔ لیکن پھر کچھ نہیں ہوسکتا تھا ۔ اسی طرح دنیا میں ہم ہر وقت امتحان میں ہیں ۔ یہاں کوئی نہ کوئی کام ہورہا ہے ۔ راستے پر اگر کوئی نامحرم آرہا ہے اس کی طرف دیکھنا جرم ہے اور آنکھیں نیچی کرنے کا حکم ہے ۔ لیکن ہم غفلت کا مظاہرہ کررہے ہیں ، نظر اوپر اٹھ جاتی ہے اور پھر دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں ۔ پھر اتنے عادی ہوجاتے ہیں ، کہ جو لوگ ہمیں اس سے بچنے کا کہتے ہیں ان سے کہا جاتا ہے کہ یہ تو نہیں ہوسکتا ۔ ہم کس کس سے بچیں ۔ تو ان کو جواب دیا جائے گا کہ اس طرح بچو جس طرح سڑک پر چلتی ہوئی گاڑی سے اپنے آپ کو بچاتے ہو ۔ جس طرح اپنی زندگی کی حفاظت ضروری ہے ، جس طرح اپنے آپ کو چوٹ سے ، حادثہ سے بچانا ہے ۔ اسی طرح آخرت کے نقصان سے بھی اپنے آپ کو بچانا ہے ۔فرق صرف یہ ہےکہ دنیا کا نقصان ظاہر ہے ، اس کی تکلیف محسوس ہوتی ہے ۔ اور جو آخرت کا نقصان ہے وہ بعد میں آنے والا ہے ۔ اس کا پتہ بعد میں چلے گا ۔ یہ بات الگ ہے وہ اس دنیا کی تکلیف سے بہت زیادہ ہے ۔ دنیا کی تکلیف کی آخرت کی تکلیف کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہی نہیں ہے ۔چونکہ وہ بعد میں آنے والی چیز ہے اور انسان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ بعد میں آنے والی چیز کو چھوڑتا ہے اور جو فوری آنے والی چیز ہے اس پر ریجھتا﴿سے محبت کرتا﴾ ہے لہذا موجودہ تکلیف سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور آنے والی تکلیف کے بارے میں نہیں سوچتا ۔ بالکل یہی بات خیر کے بارے میں بھی ہے ۔ آخرت کا خیر بہت زیادہ ہے دارالآخرت خیر ہے اور باقی ہے ولآخرۃ خیر و ابقیٰ ﴿ اورجو آخرت ہے وہ اچھا بھی ہے ، اور ہمیشہ کے لئے ہے﴾ ۔ لیکن ہم لوگ دنیا کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے آخرت کی بڑی سے بڑی نعمت کو قربان کردیتے ہیں ، اور ایسا ہوتا ہے ۔ پس چاہیئے کہ ہم ہر وقت اس فکر میں ہوں کہ کہیں میری آخرت کا نقصان نہ ہوجائے، یہ ہماری سوچ بن جائے ،اس کے لئے ہمارا ذہن تیار ہوجائے، بس اس بات کی ضرورت ہے ۔ یہی کام ہے جو انسان کو کرنا چاہیے کہ آخرت کے لئے کیا لیکر جانا چاہیئے ۔ اگر آپ کسی فیکٹری میں ملازم ہیں تو آپ جو بھی کام کرتے ہیں اس میں کوشش کرتے ہیں کہ میرا کام زیادہ نمایاں ہوجائے ، مالک خوش ہوجائے اور اس پر بونس بھی مل جائے ۔ لیکن یہاں چونکہ ہر ایک کی نگاہ اتنی تیز نہیں ہے تو عین ممکن ہے کہ آپ کی اچھی اچھی چیزیں ان سے رہ جائیں اور عین ممکن ہے کہ آپ کی کوئی برائی اس کے سامنے ایسی واقع ہوجائے کہ آپ کے لئے اس کا دل برا ہوجائے اور آپ کو بجائے فائدہ کے نقصان ہوجائے ، یہ بھی ممکن ہے ۔ اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ آپ نقصان کررہے ہوں اور کسی وجہ سے اس کو ایسے نظر آجائے کہ یہ آپ اس کے لئے کسی فائدے کا کام کررہے ہیں اور وہ آپ کو کریڈیٹ بھی دے دے ۔ ایسابھی ہوسکتا ہے ، لیکن اللہ جل شانہ کے ہاں ایسا نہیں ہوتا ہے ۔ اللہ جل شانہ کے ہاں انصاف بھی ہے اور اللہ جل شانہ کے ہاں پورا پورا حساب بھی ہے ۔ اللہ جل شانہ کی نگاہ سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے
یہ کھلم کھلی بات ہے ۔ جوکوئی بھی خیر کا عمل کرے گا وہ اس کو اللہ کے ہاں دیکھ لے گا اور جو انسان برا عمل کرے گا اس کو بھی اللہ کے ہاں دیکھ لے گا ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ یہاں ہم نے کوئی برائی نہ کی ہو اوروہاں ہمارے لئے لکھی گئی ہو، اور یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم نے یہاں پر کوئی اچھا کام کیا ہو اور وہاں سے مٹ جائے ، یہ نہیں ہوسکتا ۔ ہاں گناہوں کی مٹانے کی قوت اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی دی ہے اور خود اللہ کے پاس بھی ہے ۔ ہم ساری عمر گناہ کرتے رہے ، اچانک خیال آیا افوہ یہ ہم نے کیا کیا ۔ اور پھر ہم نے سچے دل سے توبہ کرلی ، دو رکعت صلواۃ توبہ پڑھ لی ، اور عرض کیا اے اللہ میں نے سب کچھ غلط کردیا ، میری توبہ۔ میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا ۔ اب دل کا عزم ہے کہ دوبارہ نہیں کروں گا ۔ گناہ کو چھوڑ دیا ، ندامت بھی ہے ، صرف ایک شرط باقی ہے کہ کیا اس میں کسی بندے کا حق توشامل نہیں ہے؟
اگر کسی بندے کا حق ہے اس کو بھی معاف کروانا پڑے گا ۔ اگر اس نے معاف کردیا تو وہ بھی معاف ہوگیا ۔ یا ایسا کوئی عمل ہے جس کی قضا ہے جیسے نماز ، روزہ ، زکوٰۃ وغیرہ ، تو اس کو بھی ادا کرنا پڑے گا ، اب سب کچھ معاف ہوگیا ۔یہ سلسلہ خر خرے کی جو کیفیت ہے اس وقت تک ممکن ہے ۔ اگر کسی شخص پرموت کی وہ حالت طاری ہوئی جس کے بعد واپسی نہیں ہوسکتی ۔ پھر توبہ قبول نہیں ہوتی ۔ اس کیفیت سے پہلے پہلے توبہ قبول ہوتی ہے ۔ تویہ ایک opportunity﴿موقع ﴾ہمیں ملا ہے اگر کوئی واپس آنا چاہے تو آجائے ۔ بلکہ اللہ جل شانہ خود فرماتے ہیں
لاتقنطو من رحمتہ اللہ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعًا
اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجانا بے شک اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے ۔ حدیث میں آتا ہے اگر کسی نے سمند ر کے جھاگ کے برابر بھی گناہ کیے ہوں اگر وہ توبہ کرنا چاہے تو اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو معاف کردیتا ہے ۔ کوئی گناہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت سے بڑا نہیں ۔ اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی مغفرت سے اپنی گناہ کو بڑا سمجھے تو وہ غلطی کررہا ہے اوریہ دوسری غلطی ہے جو وہ کررہا ہے ۔ ندامت کا اظہا راور توبہ کرنا اللہ جل شانہ قبول فرماتے ہیں ، تو یہ اللہ پاک نے ہمیں اختیار دیا ہے ۔ خود اس کے پاس بھی یہ اختیار ہے کہ جس کو معاف کرنا چاہے معاف کردے ۔ اگر مجھ پر کسی کے پچاس کروڑ روپے قرض ہیں ، اور وہ کہے کہ اچھا میں اس میں تیس کروڑ روپے معاف کرتا ہوں ، مجھے بیس کروڑ دے دو تو کوئی اس سے پوچھ سکتا ہے کہ ایسا کیوں کیا ؟ نہیں کوئی نہیں پوچھ سکتا ۔بلکہ اگر وہ پچا س کے پچاس بھی معاف کردے اور مزید دس کروڑ مجھے دے دے تو پھر بھی اس سے کوئی نہیں پوچھ سکتا ۔ وجہ یہ ہے کہ یہ اس کی اپنی چیز ہے ۔ اسی طرح اللہ جل شانہ کے پاس سب کچھ ہے اگر چاہے تو معاف کردے ۔ایک کرنل صاحب ہمارے ڈائریکٹ) boss (تھے ، چالیس دن میں نے ان کے ساتھ لگائے تھے ۔ایک دن کسی طرح بحث شروع ہوگئی تو اس نے مجھ سے پوچھا اگر کسی پر کسی کا حق ہو تو کیا وہ بھی معاف ہوسکتا ہے ؟ میں نے کہا اگر اللہ پاک معاف کرنا چاہے تو کرسکتا ہے ۔ کہا کرتے تو نہیں ۔ میں نے کہا یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں ۔ ہاں قانون یہ ہے کہ اس متعلقہ بندے سے معاف کروانا پڑے گا ۔ لیکن اگر اللہ پاک کسی وجہ سے اس سے راضی ہوگیا اور اس کو معاف کرنا چاہا تو اس متعلقہ بندے کو جنت دکھا دیں گے اور فرمائیں گے یہ جنت لینا چاہتے ہو یا اس سے بدلہ لینا چاہتے ہو ، ظاہر ہے اس وقت کون جنت کو چھوڑے گا ۔ ہر کوئی کہے گا میں بچ جاوں ۔ تو وہ کہے گا میں جنت جانا چاہتا ہوں ۔ اللہ پاک فرمائیں گے ٹھیک ہے جنت لے لو اس کو چھوڑ دو ۔ تو وہ کرنل مجھے کہنے لگا کہ it means that Allah has a veto power﴿ اس کا مطلب ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے پاس ویٹو پاور ہے ﴾میں نے کہا Allah has all powers ﴿ اﷲ تعالیٰ کے پاس ساری طاقتیں ہیں ﴾اس ویٹو پاور کا کیا مطلب ہے ۔ اللہ جل شانہ کے پاس سب کچھ ہے ۔ وہ چاہے تو سب کچھ کرے ۔ پکڑے تو معمولی سے معمولی چیز پر پکڑے ، اور وہ بھی ظلم نہیں ہوگا ۔ کیونکہ وہ بالکل ٹھیک بات ہوگی ۔ یہ اس کا حق ہے ۔ اگر کوئی آدمی مجھ سے یہ کہے کہ میں آپ کو ا پنا ایک روپیہ بھی نہیں چھوڑتا ، پھر مجھے بتائیں کوئی اس کو روک سکتا ہے ۔ ٹھیک ہے اس کے پیسے ہیں وہ اپنا حق نہیں چھوڑ رہا ۔اور اگر چھوڑنا چاہے تو کروڑوں چھوڑ دے ۔ تو اللہ کا فضل کسی کا استحقاق نہیں ہوتا ۔ دوسری بات کہ اللہ جل شانہ نے کوئی حکم بے فائدہ نہیں دیا ۔ اللہ جل شانہ نے خیر و شر کے تمام قوانین بنائے ہیں ۔ اور ساتھ ساتھ حقوق العباد اور حقوق اللہ کے تمام قوانین بنا دیے ہیں ،کہ یہ فرض ہے، یہ واجب ہے، یہ مستحب ہے اور یہ سنت ہے ۔ تو یہ سب چیزیں بے فائدہ نہیں ہیں ۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ جو بالکل واضح چیزیں ہیں ان کو تو نہ چھوڑیں لیکن
مایوس کبھی بھی نہ ہوں ۔ ہاں ہم لوگ اس قانون کو بائی پاس کرنے کی بھی کوشش نہ کریں ۔ قانون کے ساتھ ساتھ رہیں ، لیکن قانون کو اتنا rigid ﴿سخت ﴾نہ مانیں کہ قانون بنانے والے سے بھی اونچا سمجھیں ، قانون بنانے والے سے قانون اونچا نہیں ہے ۔ قانون ہمارے لئے ہے ۔ ہم لوگوں کو قانون کا خیال رکھنا چاہیے ۔ لیکن قانون بنانے والا اپنے قانون کا مالک ہے ۔ جس طریقے سے بھی اس پر عمل کرے ۔ تو یہاں پر اللہ پاک فرماتے ہیں ۔
فمن یعمل مثقال ذرۃٍخیرًا یرہ ومن یعمل مثقال ذرۃٍشرًا یرہ
لہذا ہم لوگ اپنے ہر ہر عمل کے لئے اپنے آپ کو جوابدہ سمجھیں ۔ دوسری طرف ہر ہر عمل کے بارے میں اللہ جل شانہ سے امید رکھیں ۔ اللہ جل شانہ دینے والے ہیں ، فضل کرنے والے ہیں ۔ نوازنے والے ہیں ، یہ سب صفات اللہ جل شانہ کے لئے ثابت ہیں ۔ لہذا ہم لوگ ہر وقت اللہ پاک سے مانگتے رہیں اور اس کا فضل ہی مانگتے رہیں ۔اعمال میں بعض اعمال کرنے کے ہوتے ہیں اور کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جن کو چھوڑنا چاہیئے ۔ اور کچھ اعمال ایسے ہیں جو برداشت کرنے کے ہیں ۔ مثلاً آپ پر کوئی تکلیف آرہی ہے اب اس تکلیف میں آپ کیا کچھ کرسکتے ہیں ایک تو یہ کرسکتے ہیں کہ آپ بالکل خاموش ہوجائیں اور کوئی بھی response ﴿اثر ﴾نہ دیں تو بس ٹھیک ہے ایک physical process ﴿قدرتی طریقہ ﴾ہے ۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ واویلا کریں کہ یہ کیوں ہوگیا ،وہ کیوں ہوگیا ۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ کہہ دیں کہ میں اس سے بھی زیادہ کا قابل تھا یہ تو میرے ساتھ نرمی والا معاملہ ہوگیا ۔ مثال کے طور پر ایک شخص قانون کو جانتا ہے ۔ لیکن اس نے ٹریفک اشارے کو کراس کرلیا ، اور اس کی سزا ہے سات سو روپے ۔ عدالت میں پہنچ جاتا ہے تو جج اس سے پوچھتا ہے کیا پہلی دفعہ کیا ہے ؟ اعتراف کی صورت میں کہتا ہے ، چلو پچاس روپے جرمانہ دے دو ۔ تو یہ کیا ہوا؟ یہ سزا میں نرمی ہوئی ۔ سزا تو سات سو روپے تھی لیکن پچاس پر چھوڑدیا ۔ کہتے ہیں کہ ایک آدمی دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ میں تجھے ایسی جگہ ماروں گا کہ تو شکر کرے گا ۔ اس نے کہا یہ کیسی بات ہے کہ مجھے مارے گا اور میں شکر کروں گا ۔ پہلے والے نے اس کے ماتھے پر گیند ماری ، دوسرے نے کہا اوہ شکر ہے آنکھ بچ گئی ۔ انسان کسی مصیبت پر شکر کرے ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں ۔ یہ بغیر تواضع کے نہیں ہوتا ۔ جب کسی کے دل میں تواضع ہو اور اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھے اس کے ساتھ جو بھی ہوجائے وہ کہے گامیں تو اس سے زیادہ کا قابل ہوں۔ ۔
یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے ۔ اجتہادی غلطی ہوئی ، قصداً نہیں ہوئی ۔پیغمبر سے قصداًغلطی نہیں ہوتی ۔ ان کو خیال ہوا کہ اب مجھے اجازت مل گئی میں جاسکتا ہوں ۔ لیکن اس کو جانے کی اجازت نہیں ملی تھی ۔ اب پیغمبروں کے ساتھ معاملہ بھی پیغمبروں والا ہوتا ہے ۔ اب جب گئے تو راستے میں طوفان آگیا ۔ ملاح نے کہا کوئی غلام آقا سے بھاگا ہے اور کشتی میں آگیا ہے ، اسے سمندر میں پھینکنا پڑے گا ۔ اب جب قرعہ ڈالا تو ان کا نام ، دوبارہ ڈالا تو ان کا نام ۔ پھر ڈالا تو ان کا نام ۔ جب بار بار ان کا نام نکلا تو ان کو سمندر میں پھینک دیا ۔ فوراً مچھلی نے نگل لیا ۔ اب آپ بالاکوٹ وا لوں کو لے لیں ، وہ کہتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے ؟ انا للہ و انا الہ راجعون ۔ مصیبت پر مصیبت اسی کو کہتے ہیں ۔ اصل مصیبت وہ نہیں ہوتی جو آتی ہے ۔ اصل مصیبت وہ ہوتی ہے کہ آدمی بکواس کرلے اور اپنے آپ کو مزید کا مستحق بنا دے ،یہ اصل مصیبت ہو تی ہے ۔ تو یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے ۔لیکن وہاں کیا پڑھ رہے ہیں
لا الہ الاانت سبحانک انی کنت من الظالمین
اور بار بار پڑھ رہے ہیں ۔ اے اللہ تو تمام چیزوں سے پاک ہے میں ہی اپنے آپ پر ظلم کرنے والا ہوں ۔ اس کو آیت کریمہ کہتے ہیں یہ بہت اونچے درجے کا استغفار ہے اور ایک نبی کا استغفار ہے ۔ اس کے بارے میں بعض لوگوں نے مشہور کیا ہے کہ بہت گرم ہے ، یہ گرم اور سرد بھی پتہ نہیں لوگوں نے کس طریقے سے مشہور کیے ہیں ۔ خدا کے بندو! کیا گرم و سرد لگا رکھی ہے ۔کیا استغفار بھی گرم یا سرد ہوتا ہے ؟ آپ کسی سے معافی مانگنے جائیں وہ کہے یہ گرم ہے ۔ یہ کوئی بات ہے ؟ یہ وہمی چیزیں ہیں ۔ مجھے آج کسی نے فون پر بتایا کہ میں نے آپ کا ذکر لیاتھا چالیس دن والا ۔ وہ پورا تو ہوگیا لیکن میرے ہاتھ پیر سوجھ گئے ہیں ، لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ وظیفے کی وجہ سے ہوا ہے ۔ میں نے جواب دیا کہ ہمارے ایک اور ساتھی نے بھی اس طرح کہا تھا ۔ کہ جب آپ کا وظیفہ کیا تو بیمار ہوگیا ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے آج سنٹرل ہسپتال کا دورہ کرلیتے ہیں ، اور ہر مریض سے پوچھ لیتے ہیں کہ آپ نے کس کا وظیفہ پڑھا تھا ۔ سارے مریضوں سے انٹرویو لیتے ہیں کہ آپ نے کس کس کا وظیفہ پڑھا تھا جو آپ بیمار ہوگئے ہیں ۔ شیطان کی چالیں بڑی عجیب ہوتی ہیں ۔ کوئی بندہ اپنے آپ کو گناہوں کی وجہ سے بیمار نہیں سمجھتا ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ حالانکہ اس کی وجہ سے وہ بیمار ہوسکتا ہے ۔ گناہوں کی وجہ سے تکالیف آتی ہیں ، بیماریاں آتی ہیں پریشانیاں آتی ہیں ، سب کچھ آتا ہے ۔ کبھی بھی شیطان اس کو یہ سمجھنے نہیں دیتا کہ یہ میرے گناہ کی وجہ سے ہوا ہے ۔ لیکن جب علاج کیا جاتا ہے تو لوگ اس کو کہتے ہیں کہ دیکھیں تجھے یہ ہوگیا اور یہ ہوگیا ۔ کہتے ہیں کہ ایک شخص نماز نہیں پڑھ رہا تھا ،لوگ اس کو ایک دفعہ بڑی مشکل سے نماز کے لئے لے آئے ۔ جب نماز پڑھ لی تو اس کا بیل بیمار ہوگیا ، کہنے لگا میں نہ کہتا تھا کہ نماز مجھے راس نہیں آتی ،دیکھو میرا بیل بیمار ہوگیا ۔ تو ایسے آدمی کو کیا کہا جائے گا ۔ اس قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔تو میں نے اس صاحب سے کہا کہ یہ بات مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ تم وظیفے کی وجہ سے بیمار ہوئے ہو ، یہ سادہ سا ذکر ہے ، سبحان اللہ ، والحمد اللہ ، لاالہ اللہ واللہ اکبر ۔ آپ کیسے اس کی وجہ سے بیمار ہو سکتے ہیں ۔ اس سے توبہ کرلو اور جن لوگوں نے بھی آپ کو یہ کہا ہے ان سے بھی کہہ دینا کہ دو رکعت صلوٰاۃ توبہ پڑھ لے ۔ کیونکہ یہ انہوں نے بہت بڑا جرم کیا ہے ۔ بہر حال یونس علیہ السلام یہ آیت کریمہ پڑھتے رہے ۔ اللہ جل شانہ کی رحمت متوجہ ہوئی ، اور مچھلی کو یونس علیہ السلام کو اگلنے کا حکم دے دیا ، اور ساتھ ہی ساحل پر کدو کے پودے کو اگا لیا ۔ جس کی وجہ سے اس پر سایہ ہوگیا ، اور پھر آہستہ آہستہ جو کمزوری تھی وہ زائل ہوتی گئی اور وہ ٹھیک ہوگئے ۔ لیکن ہم لوگ کیا کرتے ہیں ، اللہ معاف کرے گناہ سے لت پت ہونگے ، ہماری رگ رگ گناہو ں میں پھنسی ہوگی لیکن جب کوئی تکلیف آتی ہے تو کہتے ہیں پتہ نہیں ہم سے کیا گناہ ہوا ہے ۔ انجان بن جاتے ہیں ۔ بھئی تمہیں کیوں پتہ نہیں ، اگر آپ کو یہ پتہ نہیں تو پھر آپ کو کس چیز کا پتہ ہے ؟ہر گناہ کا اثر ایسا ہے جیسے زہر ۔ اب ہم روزانہ زہر کھا رہے ہیں اور پھر بھی ہم کہتے ہیں ہمیں کیا ہوا ۔ اللہ جل شانہ فرماتے ہیںمیں بہت سامعاف کردیتا ہوں ،جب تھوڑا سا پکڑ لیتا ہوں تو اس پر لوگ چیخ اٹھتے ہیں ۔ اس وجہ سے فرماتے ہیں کہ لوگ تین قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو صبر کرتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں ، دوسرے جو شکر کرتے ہیں اورتیسرے جو واہی تباہی بکتے ہیں ۔ جو واہی تباہی بکنا شروع کردیں سمجھیں یہ ان کے لئے سزا ہے ۔ ان کو مزید سزا دی جائے گی نہ صرف یہاں بلکہ وہاں بھی ۔ جو لوگ صبر کریں گے ان کے لئے تکلیف گناہوں کا کفارہ ہے ۔ کہتے ہیں کہ ایک دن کی غیر اختیاری تکلیف ، نفع کے لحاظ سے برسوں کے اختیاری مجاہدات سے بڑھ کر ہے ۔ اختیاری مجاہدات کیا ہیں ، راتوں کو اٹھ کر نفل پڑھنا ، دین کیلئے پیسے خرچ کرنا ، مشقتیں اٹھانا ، لیکن برسوں کے ان مجاہدات کے اجر سے ایک دن کی غیر اختیاری تکلیف کا اجر بڑھا ہوا ہے ۔ کسی پر تکلیف یا مشکل آگئی تو ٹھیک ہے لیکن یہ بھی سوچے کہ اس پر ملے گا کیا ۔ بخار کی دعا ہے لابأس،طہور اًانشاءاللہ۔ پرواہ نہ کرو پاکی ہے ، صفائی ہورہی ہے ۔ اس طرح ہر ہر تکلیف سے اللہ جل شانہ گناہ معاف فرماتے ہیں ۔ ایک دفعہ آپﷺِ سے کسی نے کہا یا رسول اللہ مجھے آپ سے محبت ہے ۔ فرمایا کیا کہہ رہے ہو؟ اس نے پھر کہا یار سول ﷺ مجھے آپ سے محبت ہے ۔ فرمایا کیا کہہ رہے ہو ؟ جب تیسری دفعہ بھی کہا تو آپ ﷺِ نے فرمایا اچھا پھر مصائب کے لئے تیار ہوجاو ، کیونکہ سب سے زیادہ تکلیف مجھے ملی ہے ، پھر اس کے بعد جو میرے قریب ہے ۔ تھوڑا سا اندازہ کرلیں یہ کونسے دن ہیں ، محرم کا مہینہ ہے ۔ یہی ایام تھے کیا کچھ گزر رہا تھا اور کن پر گزر رہا تھا ۔ وہ جو اس وقت کائنات کے بہترین لوگ تھے ۔ تھوڑا سا غور فرمالیں کہ اللہ جل شانہ کے ہاں ان کا مقام ، آپ ﷺ کے ہاں ان کا مقام اور اللہ کے نیک لوگوں کے ہاں ا ان کامقام کیا تھا؟ ہر چیز اعلیٰ ترین ، لیکن تکلیفیں کس درجے کی ، اس درجے کی جس کے بارے میں ہم آج بھی نہیں سوچ سکتے ۔ انہوں نے قصور کیا کیا تھا ؟ صرف یہ کہ انہوں نے ایک غلط چیز کی تائید نہیں کی ، اور وہ بھی انہوں نے اپنا فرض منصبی سمجھ کر نہیں کی ، کیونکہ اگر وہ کرتے تو ہمیشہ کیلئے جابر حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنے کاقانون ختم ہوجاتا اور لوگوں کو پھر حق کیلئے کوشش کر نا تقریباً ناممکن ہوجاتا، یہ بات ختم ہوجاتی ۔ آسان نوالہ ہر ایک کھا لیتا ہے اور ذرا سی مشکل پیش آئی تو بات ختم ۔ آج کل یہی ہورہا ہے کہ جو میٹھی میٹھی چیزیں ہیں ان کو تو ہم ضرور پورا کریں گے لیکن جب کچھ سخت چیزیں کرنے کا وقت آتا ہے تو کہتے ہیں یہ کوئی اور کرے ۔ ایک کہاوت ہے کہ لیلیٰ مجنون کے لئے دودھ بھیجا کرتی تھی ۔ راستے میں ایک نقلی مجنون بیٹھا ہوتا تھا دودھ وہ پی لیتا تھا ۔ لیلیٰ کو کچھ اندازہ ہوا کہ دودھ مجنون کو نہیں پہنچ رہا ، اس نے خادمہ کو کہا کہ جو دودھ لیتا ہے اس سے کہو کہ خالی پیالے کو اپنے خون سے بھر دے ۔خادمہ نے جب ایسا ہی کیا تو نقلی مجنون نے دودھ پی کر اشارہ کیا کہ خون والا مجنون وہ بیٹھا ہوا ہے ۔ تو بات یہی ہے کہ ہم دودھ والے مجنون ہیں ۔ جو آسان ہے وہ ہمارے لئے ہے اور جو پریشانیاں یا تکالیف ہیں اس کے لئے اور لوگ ہیں ۔ بہر حال حضر ت امام حسین ؓ ، اللہ جل شانہ ان کے درجات بلند فرمائے انہوں نے بہت بڑی ذمہ داری نبھائی ،
شاہ ہست حسین بادشاہ ہست حسین
دین ہست حسین دین پناہ ہست حسین
سر داد نہ داد دست در دست یزید
حقّا کہ بنائے لا الہ الااﷲ ہست حسین
واقعتاً یہی بات تھی ۔ اپنا سر دے دیا لیکن ہاتھ نہیں دیا یزید کے ہاتھ میں ۔ حالانکہ کچھ لوگوں نے ان کوروکنے کی کوشش کی لیکن انہو ں نے کہا نہیں، میں نے خواب دیکھا ہے ۔ نہ میں کسی کو بتاوں گا نہ میں نے کسی کو بتانا ہے ۔ اور چلے گئے ، جب وہاں پہنچے تو رات کے وقت چراغ بجا کر سب لوگوں سے کہا کہ جس نے جانا ہے وہ مجھے چھوڑ کر چلا جائے کیونکہ میری منزل موت ہے ۔ لیکن کوئی آدمی نہیں گیا ، سب ان کے ساتھ رہے اور شہید ہوگئے۔ اس کے بعد اللہ کا فیصلہ کیا آیا ؟جن لوگوں نے ان کو تکلیفیں دیں کیا وہ لوگ بچ گئے؟ڈھائی سال بعد یزید مر گیا ، ایسی حالت میں مرا کہ اس وقت اس کے حکم پر خانہ کعبہ پر پتھر برسائے جارہے تھے ۔ عبداللہ بن زبیرؓ کو پتہ نہیں کیسے پتہ چلا انہوں نے ان پتھربرسانے والوںکو کہا کہ تمہارا فاسق امیر مر گیا ہے ۔ انہوں نے جب پتہ کیا تو واقعی یزید مر گیا تھا ۔ اس کے بعد اس کے بیٹے معاویہ کو جب یہ ساری صورتحال معلوم ہوئی تو اس نے حکومت قبول ہی نہیں کی ۔ اس کے بعد مختار ثقفی جو بذات خود ایک فاسق انسان تھا ، اس نے حضرت امام حسین ؓ کو شہید کرنے والوں میں جو بھی شامل تھا ان کو چن چن کر مارا ۔ شمر کو مار کر اس کی لاش پر سب کے سامنے کتے چھوڑے ، اور عمرو بن سعدکے ایک پیر کو ایک گھوڑے سے باندھا اور دوسرے پیر کو دوسرے گھوڑا سے باندھا اور اور گھوڑوں کو مخالف سمت میں دوڑا دیا ۔ مختصراً یہ کہ سب لوگ اپنے اپنے انجام کو پہنچ گئے ۔ اور ایک واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سب کچھ من جانب اللہ تھا ۔ایک دفعہ بات ہورہی تھی کہ حضرت امام حسین ؓ کو شہید کرنے والے لوگوں کو طبعی موت نصیب نہیں ہوئی ۔تو ایک بوڑھے آدمی نے باتوں باتوں میں کہہ دیا کہ مجھے تو کچھ بھی نہیں ہوا ، میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا ۔ اس کے بعد جب یہ گھر گیا تو اس کا دیا ٹمٹمانے لگا ، اس نے دیئے کو ٹھیک کرنے کی نیت سے جو پھونک ماری ۔ اس سے چنگاری اڑ کر اس کی داڑھی میں آئی اور اس کی داڑھی نے آگ پکڑلی ۔ اس سے اس کے کپڑوں نے آگ پکڑی ۔صبح دیکھاگیا کہ جل کر کوئلہ ہوگیا تھا، اس طرح اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب نازل ہوا ۔ تو بچا تو کوئی نہیں ، لیکن امام حسین ؓ کہاں چلے گئے ۔ سیدا شباب اہل الجنتہ نوجوانان جنت کے سرداروں میں شامل ہوگئے اور دوسری طرف والے لوگ کہاں چلے گئے ، ضائع ہوگئے ۔ اس لئے کہتے ہیں کہ مصیبت کو اللہ جل شانہ کی طرف امتحان سمجھنا چاہیے ۔ فرماتے ہیں
واستعینوا بالصبر وا لصلواۃ
اللہ سے مدد مانگو صبر سے اور نمازکے ذریعے سے ۔
ان اﷲ مع الصٰبرین
بے شک اللہ پاک صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
ولاتقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات، بل احیاء ولٰکن لاتشعرون
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں لیکن تم لوگ اس کا شعور نہیں رکھتے
اور البتہ تمہیں آزمایا جائے گا قدرے خوف سے ، قدرے بھوک سے اور مالوں کے نقصان سے اور جانوں کے نقصان سے اور میووں کے نقصان سے
و بشر الصٰبرین الذین اذا اصابتھم مصیبۃ
اور بشارت دیں ان لوگوں کو جو صبر کرنے والے ہیں جب ان کو مصیبت پہنچتی ہے
قالو اناللہ وا نا الیہ راجعون
وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے لئے ہیں اور اللہ ہی کے پاس لوٹ کر جانے والے ہیں
او لٰئک علیھم صلوٰت من ربھم و رحمۃ
یہی وہ لوگ ہیں جن کی طرف اللہ کی فضل اور رحمت متوجہ ہے
و اولئک ہم المھتدون
اور یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ جو مصیبت آتی ہے وہ ہمارے لیے خیر لاتی ہے اگر ہم لوگ تھوڑا سا یہ غور کریں کہ یہ کس کی بھیجی ہوئی ہے ۔ بزرگ لوگ فاقے کی بڑی قدر کرتے تھے ،کہتے تھے یہ اللہ کی طرف سے مہمان ہے ۔ ایک دفعہ مولانا حضرت رشید احمد گنگوہی ؒ کسی حکیم صاحب کے مہمان ہوگئے ۔اس حکیم صاحب کے ہاں فاقہ تھا ۔ انہوں نے عرض کیا حضرت میرے ہاں تو فاقہ ہے اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے کسی معتقد کو کہہ دوں کہ آپ کی دعوت کرلے ۔ ظاہر ہے حضرت کے معتقدین تو ہر جگہ تھے ۔ لیکن حضرت نے جواب دیا نہیں بھئی میں آپ کے ہاں مہمان ہوں ، جو آپ کا حال وہ میرا حال ۔اب خدا کی شان اللہ پاک ہر کسی کو اپنی نیت کے مطابق دیتا ہے ، تھوڑی دیر میں ایک صاحب آئے اس پر حکیم صاحب کا قرض تھا وہ اپنا قرض چکانے کے لئے آئے تھے ۔ اس نے حکم صاحب کو پیسے دیے اور چلے گئے ۔ حکیم صاحب مسکراتے ہوئے اندر آئے اور کہا حضرت آپ نے میرے ساتھ فاقہ کرنا منظور کرلیا اب اللہ پاک نے کچھ بھیجا ہے اب آپ مجھے نہیں روکیں گے ۔ اب تو جو میری مرضی میں کروں گا اور بہت پرتکلف کھانا تیار کرکے خدمت میں پیش کیا ۔ تو تکلیف کو گوارا کرنا بہت بڑی بات ہے لیکن کبھی خود کو تکلیف میں مبتلا نہیں کرنا چاہیئے ۔ اللہ پاک جب بھیجے تو اسکو اللہ کا مہمان سمجھنا چاہیے ۔ خود کو مبتلا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہم اس قابل نہیں ہیں ۔ آپ ﷺِ کو اختیار دیا گیا تھا کہ آپ چاہیں تو ہم یہ احد کا پہاڑ سونے کا بنا دیں اور یہ آپ کے ساتھ چلے ،لیکن آپ ﷺنے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ کبھی کھاکر شکر ادا کروں اور کبھی نہ کھا کر صبر کرو ں ۔ تو وہ بڑے لوگ تھے ہم لوگ ایسے نہیں ہیں ہمیں اللہ سے رو رو کر عافیت مانگنی چاہیے ۔ کہ اے اللہ ہم پر کوئی مصیبت نہ ڈال کیونکہ ہم اس قابل نہیں ہیں ۔ ہم لوگ بہت جلدی گھبرا جاتے ہیں ۔ لیکن اگر مصیبت آگئی تو پھر یہ اللہ کا فیصلہ ہے ، یہ پھر نہ کہنا کہ ہم اس قابل نہیں ۔ کیونکہ جب اللہ نے بھیج دیا تو پھر اپنے آپ کو اس قابل بناو ۔ ٹھیک ہے آسانی کے لئے دعا مانگو ۔حضرت بہاو الدین ذکریا ملتانی ؒ نے ناصر الدین قباچہ جو ملتان کے حکمران تھے ، اس کے خلاف ایک خط التمش کو لکھا ۔ لیکن وہ خط راستے میں پکڑا گیا ۔ ناصر الدین قباچہ نے ان کو بلوایاساتھ میں ایک قاضی صاحب تھے وہ بھی ان کے ساتھ خط لکھنے میں شریک تھے ان کو بھی بلوایا اور پوچھا کہ آپ میرے بارے میں کیا کہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے حکمران ہیں ۔ تو انہوں نے ان کو وہ خط دکھایا کہ یہ کیا ہے ۔ اب ان کو تو پتہ چل گیا کہ خط پکڑا گیا ، قاضی صاحب تو اپنی صفائی پیش نہ کرسکے ، ناصر الدین قباچہ نے جلاد کو حکم دیا کہ اس کا سر اڑا دو ۔ جلاد نے قاضی صاحب کو شہید کردیا ۔اب اس نے حضرت ذکریا ملتانی ؒ سے کہا کہ تم کیا کہتے ہو ۔ حضرت کو جلا ل آگیا کہنے لگے میں نے خدا کے حکم سے لکھا ہے تم میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے ۔ اگر کچھ کرسکتے ہو تو کرکے دکھاؤ ۔ بس ناصر الدین قباچہ پر اتنا رعب پڑا کہ اس نے معافی مانگی ۔حضرت نے سب کے سامنے قاضی صاحب کے ایصال ثواب کیلئے دعا کی اور تشریف لے گئے ۔ تو اللہ جل شانہ سے عافیت مانگنی چاہیے لیکن جب تکلیف آجائے تو کبھی بھی شکایت کا لفظ زبان پر نہیں لانا چاہیے ۔
اس وقت بھی مسلمان بہت پریشانی کے عالم میں ہیں ۔ ہمارا ہر اگلا دن پریشانی میں جارہا ہے ۔ اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بات ایمان پر آگئی ہے ۔ جان پر بات آنا اتناخطرناک نہیں ہے ۔ ایمان پر جب بات آتی ہے وہ بہت خطرناک ہوتی ہے۔ اس وقت چونکہ ایمان پر بات آگئی ہے تو دجال کا معاملہ بہت قریب نظر آتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ دجال کے ساتھ جنت بھی ہوگی اور دوزخ بھی ہوگی ۔ لیکن آپﷺِ نے فرمایا کہ اس کی دوزخ حقیقت میں جنت ہوگی اور اس کی جنت حقیقت میں دوزخ ہوگی ۔ لہذا دجال جس کو جنت میں بھیجے گا وہ دوزخ میں جائے گا او رجو دوزخ میں بھیجا جائے گا وہ جنت میں جائے گا ۔ اس کے ساتھ اور بھی سفلی طاقتیں ہونگی جس سے وہ بارش بھی برسائے گا، لوگوں کو مارے گا بھی اور پھر زندہ بھی کرے گا ۔ ایسی صورت میں جو شعبدہ بازی سے متاثر ہوتے ہیں وہ شعبدہ بازیوں سے متاثر نہ ہوں ۔ صرف حق سے متاثر ہوں ۔ بہر حال موٹی سی بات ہے ،پھونک پھونک کر قدم اٹھانا چاہیے ،شعبدہ بازوں سے بچنا چاہیے ، کبھی شعبدہ بازی کا شکار نہیں ہونا چاہیے ۔ اصل دین کی طرف آنا چاہیے ۔ وہ دین جو ہمارے آقا ﷺِ لائے ہیں ۔ آپ ﷺِکی بات درمیان میں نہ ہو تو وہ چیز کچھ بھی نہیں ۔ آپ ﷺ کی محبت ہر چیز کی جان ہے اور آپ ﷺِ کی سنت آپ ﷺِ کی محبت کی پہچان ہے ۔ لہذا اگر کوئی آپ ﷺِکی سنت پر نہیں چلتا تو وہ آپ ﷺ کی محبت کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ آپ ﷺِ کی محبت جس میں نہیں ہے اس کو دین پر چلنا نصیب نہیں ہوتاہے۔ اس وجہ سے کوشش کی جائے کہ ایسے لوگوں کے پاس جایا جائے جہاں آپ ﷺِ کی محبت صحیح معنوں میں مل جائے ، اور انسان آپ ﷺ کے طریقے پر چلنا شروع کردے اور جو ظاہر ہے اس کا باطن بھی حاصل ہوجائے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو نصیب فرمائے ۔وآخر دعوانا ان الحمد ﷲ رب العالمین ۔