اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ۔اَلصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَم ُ عَلیٰ خَاتَمَ النَّبِیینِ۔اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌمِّثْلُکُمْ یُوْ حٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَمَنْ کَا نَ یَرْ جُوْ ا لِقَآئَ رَبِّہٰ فَلْےَعْمَلْ عَمَلًا صَا لِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَا دَۃِ رَبِّہٰٓ اَحَدًا﴿110﴾ صَدَقَ اللہُ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم ِ
بزرگو اور دوستو!
الحمد اللہ ہم لوگ ایمان والے ہیں ۔ اور ہمارا ایمان ہے اللہ جل شانہ کے ایک ہونے پر اور اس کے تمام صفات جیسا کہ وہ ہیں ہم وہ مانتے ہیں جیسا کہ آپ ﷺِ نے فرمایا اور ہم اللہ جل شانہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے ۔ یہ اللہ کا شکر ہے ۔ اس کے علاوہ ہم ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ پاک نے بہت سارے پیغمبر بھیجے ہیں جن کی تعداد ہمیں معلوم نہیں ہے ۔ جن کے بارے میں قرآن اور حدیث نے ہمیں بتایا ہے ان کو ہم جانتے ہیں ان کے علاوہ ہم سب پر ایمان لاتے ہیں ۔ اللہ جل شانہ نے جو کتابیں نازل فرمائی ہیں ان پر بھی ہمارا ایمان ہے ۔ اپنے اپنے وقت میں انبیائے کرام پر کتابیں اتری ہیں ۔ ہم لوگ ان کتابوں کو اللہ کی طرف سے سمجھتے ہیں ۔ لیکن عمل صرف قرآن پر ہوگا ۔ کیونکہ قرآن پاک کی حفاظت کا اللہ پاک نے وعدہ کیا ہے ۔ باقی کتابوں کی حفاظت کا وعدہ نہیں کیا ۔ جتنے بھی انبیائے کرام دنیا میں تشریف لائے تھے اپنے اپنے علاقوں کے لئے تھے اور اپنے اپنے وقت کے لئے تھے ۔ لیکن آپ ﷺِ جب تشریف لائے تو اب قیامت تک جو وقت ہے یہ سارے کا سارا آپ ﷺِ کی امت کا زمانہ ہے ۔ اور قرآن جو اللہ پاک نے آٓپ ﷺ پر نازل فرمایا ، یہ بھی قیامت تک رہے گا اور اس پر عمل ہوگا ۔ جیسا کہ آپ ﷺِ نے ارشاد فرمایا کہ اگر موسیٰ بھی میرے دور میں آجائے تو اس کو بھی میری پیروی کرنی پڑے گی اگر چہ پیغمبر سارے برحق، کتابیں ساری برحق ، لیکن عمل صرف آپ ﷺِ کی سنت پر اور قرآن پر ہوگا ۔ یہ ہمارا ایمان ہے ۔ اور فرشتوں پر بھی ہمارا ایمان ہے ۔ اللہ پاک نے بہت ساری نورانی مخلوق بنائی ہے ۔ اس نورانی مخلوق پر ہمارا ایمان ہے ۔ اللہ جل شانہ نے بہت سارے کام ان کے حوالے کیے ہیں ۔ اور بعض کو صرف اپنی یاد کے لئے بنایا ہے ۔ وہ بس اللہ پاک کی ثنا اور پاکی بیان کرتے ہیں ۔ باقی جن کے ذمے جو جو کام ہیں وہ اس میں لگے ہوئے ہیں ۔ اور اللہ جل شانہ نے ہمیں جب بنایا تو ہماری پیدائش سے پہلے سب کچھ جانتے تھے کہ ہم کیا کریں گے اور تمام چیزوں کے بارے جانتے ہیں اور جانتے تھے اور جانتے ہونگے ۔ یہ تقدیر کہلاتا ہے اس پر بھی ہمارا ایمان ہے ۔ اور اس پر بھی ہمارا ایمان ہے کہ جب ہم مریں گے تو اس اس کے بعد دوبارہ زندہ ہونگے ۔ حساب کتاب ہوگا اور جو کامیاب لوگ ہونگے ان کو جنت لے جایا جائے گا ۔ اور جو ناکام لوگ ہونگے ان کو دوزخ لے جایا جائے گا ۔ فرق صرف یہ ہے کہ کفار کو ہمیشہ کے لئے جہنم بھیجا جائے گا اور مسلمانوں کو اس وقت تک جب تک ان کے سارے گناہ دھل نہ جائیں ۔ تو ان باتوں پر ہمارا ایمان ہے ۔ ایمان مفصل اور ایمان مجمل میں ان سب پر ایمان لانے کا بتایا گیا ہے ۔ یہ ہم لوگ مانتے ہیں اور اس کو پڑھتے بھی ہیں پھر ان تمام ایمانوں کے اندر ایک ایمان ہے جو ان تمام ایمانوں کا مرکز ہے ۔ وہ آپﷺِ پر ایمان ہے ، کیونکہ اللہ پاک کو ہم نے پہچانا آپ ﷺ کی معرفت سے ، اگر آپ ﷺِ پر کوئی ایمان نہ لاتا تو اللہ کو کیسے پہچانتا ۔ اللہ تعالیٰ کو تو ہم پہچان ہی نہیں سکتے تھے ۔ اللہ کے احکامات کو بھی ہم نہیں جان سکتے تھے ۔ اور اللہ جل شانہ جن چیزوں سے راضی ہوتے ہیں ان چیزوں کو بھی ہم نہیں جان سکتے تھے ۔ تو بنیادی بات آپ ﷺِ پر ایمان ہے ۔ اور آپ ﷺ پر ایمان ہی کی وجہ سے ہمیں اللہ جل شانہ پرایمان ہے ۔ اور اللہ کی صفات پر بھی ایمان ہے ۔ جیسے اللہ پاک کی صفات آپ ﷺ نے بیان کی ہیں اسی طریقہ سے ہمارا بھی ایمان ہے ۔ ذرا بھر بھی اس میں کمی بیشی نہیں کرسکتے ۔ یہ بہت اہم بات ہے ۔ لہذا جن کا یہ ایمان مضبوط ہوگا ۔ ان کے سارے ایمان مضبوط ہونگے ۔ اور جن کا یہ ایمان کمزور ہوگا اس کے سارے ایمان کمزور ہونگے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نعوذبااللہ آپ ﷺِ کا مقام اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر ہے ۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ میں آپ ﷺ کا مقام نعوذ باللہ من ذالک کم کررہا ہوں ۔ اگر بادشاہ کا خط آتا ہے ۔ تو جو خط لاتا ہے بادشاہ کے منشاء کا اسی سے پتہ چلے گا ۔ تو اللہ ، اللہ ہے ۔ اور آپ ﷺمخٍلوق ہیں ۔ اور آپ ﷺ نے اپنے صفات بیان کرنے میں بھی بخل نہیں کیا ، نہ اپنے مقام کو زیادہ کیا نہ کم کیا ۔ آپﷺِ نے اپنے بارے میں بھی سچ سچ بتا دیا ٲنا سید ولد آدم و لا فخر یعنی میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور اس پر فخر نہیں کرتا قرآن پاک بھی اللہ جل شانہ کی طرف سے آپ ﷺِ ہی لائے ہیں قرآن پاک آپ ﷺِ ہی پر اترا ہے ۔ میں نے ابھی جو آیت کریمہ پڑھی
قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌمِّثْلُکُمْ ےُوْ حٰٓی اِلَیَّ الخ
یہ کس کو کہا جارہا ہے ؟ آپ ﷺِ سے کہا جا رہا ہے ۔یہ چیز بھی ہمیں آپ ﷺِ کی معرفت ہی مل رہی ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ کہہ دیجئے کہ میں تمہاری طرح ایک بشر ہوں ۔ اور میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ اللہ پاک معبود برحق ہے وہ اکیلے ہیں ، یکتا ہیں، تو جو شخص بھی اللہ پاک سے اچھی حالت میں ملنا چاہتا ہے وہ نیک عمل کرے اور کبھی شرک نہ کرے ، کسی کو بھی اللہ پاک کے ساتھ شریک نہ کرے ۔ تو یہ ہے پیغام، اور بہت اہم پیغام ہے ۔ تو اس میں چند چیزیں سامنے آرہی ہیں ۔ ایک تو یہ چیز سامنے آگئی کہ آپ ﷺ بشر ہیں ۔ اور یہ بھی سامنے آگیا کہ جس طرح ہم بشر ہیں اس طرح آپﷺِ بھی بشر ہیں ۔ یہ نہیں کہ جیسا ہمارا مقام ایسا ہی آپ ﷺِ کا مقام نعوذ باﷲ ہم کہاں اور آپ ﷺ کہاں ۔ لیکن ناک نقشہ ﷺِکا بھی انسانوں کا تھا اور ہمارا بھی انسانوں کا ہے ۔ ہم بھی بشر ہیں ، انسان ہیں ، اور آپ ﷺ بھی تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ پاک نے کئی موقعوں پر فرمایا ہے کہ اگر میں کسی فرشتے کو بھیجتا ، تو لوگوں کے اوپر وہ حجت نہ ہوتا ۔ کیونکہ لوگ کہتے کہ یہ تو فرشتہ ہے اس کے ساتھ نفس نہیں ہے ۔ یہ عمل کرے گا تو کیا ہوگا ۔ تو انسانوں میں بھیجنا تھا تاکہ انسانی جو چیزیں ہیں وہ ساتھ ہوں لیکن اس کے باوجود اللہ جل شانہ کے تمام احکامات کو مانے اور اس کو سب سے پہلے اپنے اوپر نافذ کرلے ، اور پھر دوسر وں کو بتائے ۔ تو یہ انسان ہی کرسکتا ہے ۔ تو آپ ﷺِ کو اس لئے انسانوں میں بھیجا گیا اور آپ ﷺ کی جو صفات تھیں وہ بھی انسانی صفات تھے ۔ آپ ﷺ بھی کھاتے تھے ۔ سوتے بھی تھے ، شادیاں بھی کیں ۔ بازاروں میں بھی پھرے ہیں ، اور قرآن پاک میں بھی ہے کہ کفار کہتے تھے کہ یہ کیسے رسول ہیں یہ تو بازار میں بھی پھرتا ہے اورکھانا بھی کھاتا ہے ۔ لیکن یہی تو بات ہے ۔ یہی تو آپ ﷺِ کا اونچا مقام ہے ۔ کہ ساری چیزیں اسی طریقے سے ہوئی ہیں جس طرح اللہ پاک نے چاہیں ۔ طاقت کی تعریف یہ ہے کہ یہ کسی ساکن چیز کو حرکت دے ، لیکن طاقت کی یہ بھی تعریف ہے کہ جو قوت اس چیز پر آرہی ہے ۔ اس کو روک دے ۔ تو آپ ﷺِ انسانی شرف رکھتے تھے ۔ اس کے باوجود فرشتوں سے اوپر ہیں ، یہ بہت بڑی بات ہے ۔ فرشتوں کے ساتھ تو نفس بھی نہیں ۔ حالانکہ آپ )ِ بشر ہیں ۔ لیکن اتنا اونچا مقام پایا کہ آپ کو اللہ جل شانہ نے اپنے پاس بلایا ۔ تو جو نورانی فرشتوں کا سردار تھا وہ بھی آخر ایک مقام پر تھک گیا ۔ آگے نہیں جاسکا ۔ اور کہا کہ اگر میں ذرا بھر بھی آگے جاؤں گا تو میرے پر جل جائیں گے ، پھر آپ ﷺِ کو اکیلے جانا پڑا اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ﷺ کا مقام اگر چہ بشریت کا ہے لیکن بشریت میں اتنا اونچا مقام ہے کہ نورانی چیزیں بھی وہاں نہیں پہنچ سکتیں جہاں وہ پہنچ سکتے ہیں ۔ تو اس بات کو سمجھنا ضروری ہے ، جیسا کہ میں نے تلاوت کی
قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌمِّثْلُکُمْ یُوْ حٰٓی اِلَیَّ۔۔
یہاں وحی کی امتیاز بتائی جارہی ہے کہ میرے اوپر وحی کی جاتی ہے ۔ وحی کیا چیز ہے ۔ اگر اللہ پاک کے قرآن سے سننا چاہتے ہو تو وحی کے بارے میں یہ ہے
لَوْاَنْزَلْنَا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہ، خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ۔ وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ ﴿۱۲﴾
اس کا مفہوم ہے کہ اگر ہم اس قرآن کو پہاڑ پر نازل کرتے تو پہاڑ اللہ پاک کی خشیت سے ریزہ ریزہ ہوجاتا ۔ اب اتنی عظیم وحی آپ ﷺِ کے قلب اطہر پر نازل ہورہی ہے اور آپ ﷺِ برداشت کررہے ہیں ۔ کتنی اونچی بات ہے ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب ؒ فرماتے تھے کہ ایک دن میں قرآن پڑھ رہا تھا ۔ تو قلب پر یہ وارد ہوگیا کہ یہ نعت ہے ۔ یہ جو ابھی میں نے آیت کریمہ پڑھی ہے اس کے بارے میں فرمایا تو دل میں آیا کہ یہ نعت ہے تو میں حیران ہوگیا کہ یہ کیسے نعت ہے ؟ اس میں آگے تو اللہ پاک کے صفات آرہے ہیں ۔ یہ تو حمد ہوسکتا ہے نعت کیسے ہوسکتا ہے ؟ کہتے ہیں کہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو میں نے جانا کہ ہاں یہ واقعی نعت ہے کہ یہ آپ ﷺِ کا سینہ اطہر تھا ، آپ ﷺِ کا قلب اطہر تھا جس نے اس وحی کا بوجھ اٹھایا ۔ اللہ سے لینا اور مخلوق کو دینا ،یعنی اتنے اونچے مقام سے عام مخلوق کی طرف آنا ، اور مخلوق ہوکر اللہ سے لینا یہ دونوں مشکل کام ہیں ۔ مخلوق ہوکر خدا سے لینا اور پھر اپنے مقام سے اتنا نیچے آکر مخلوق کو دینا یہ بہت مشکل کام ہے اور یہ آپ ﷺِ کا مقام ہے ۔ تو آپ ﷺِ بشر ہیں ، لیکن مقام کے لحاظ سے تمام نورانی مخلوق سے افضل ہیں ۔ جتنی بھی مخلوقات ہیں ، سید البشر ، اور یوں سمجھ لیں کہ ہر ہر مخلوق سے کسی نے تعریف بیان کرنی چاہی تو آخر میں اس کو کہنا پڑا بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر بس اللہ پاک کے بعد آپ ہی ہیں
اس آیت سے دو باتیں سامنے آتی ہیں ۔ایک یہ کہ آپ ﷺ بشر ہیں اور بشری صفات کے حامل ہیں اور اس کے ساتھ ہی آپ رسول بھی ہیں پس بشریت کی بنیاد پر آپ عبدیت یعنی بندگی کے عظیم مقام پر فائز ہیں جو ولایت کا سب سے اونچا مقام ہے اور رسالت میں آپ خاتم النیین کے منصب پر فائز ہیں جو نبوت کا سب سے اونچا مقام ہے۔کلمہ شھادت میں ہم آپ ﷺ کے لئےان دو باتوں کا اقرار کرتے ہیں ۔
اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہ
اب یہاں پر عبدیت کا ذکر پہلے ہے اور رسالت کا بعد میں حالانکہ بظاہر رسالت افضل نظر آتا ہے ۔صوفیائے کرام اس اشکال کو یوں حل فرماتے ہیں کہ نبی کی ولایت اس کی نبوت سے افضل ہوتی ہے کیونکہ ولایت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ بلا واسطہ تعلق ہوتا ہے اور نبوت میں بواسطہ مخلوق کے تو یہاں پر عبدیت کو رسالت سے پہلے لایا گیا ہے اور آیت کریمہ میں بھی برایت کا ذکر پہلے ہے اور رسالت کا بعد میں۔
بلغ العلی بکمالہ کشف الدجی ٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ صلُّوا علیہ و آلہ
بہر حال آپ ﷺ کا جو مقام ہے اس کو بیان کرنے کے لئے صحیح بات یہ ہے کہ نہ ہم وہ زبان رکھتے ہیں نہ ہمارا وہ خیال ہوسکتا ہے ۔ بس جو ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے وہی ہے ۔ سب سے پہلے اللہ پاک آپ ﷺِ کی شان میں جو فرماتے ہیں وہ عجیب بات ہے ارشاد فرماتے ہیں
اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہ، یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴿۶۵﴾
بے شک اللہ اور اس کے فرشتے اس عظیم نبی پر درود بھیجتے رہتے ہیں ، یہ مضارع کا صیغہ ہے ۔ یعنی بھیجتے رہتے ہیں ۔ اے مومنو تم بھی اس عظیم نبی پر درود اور سلام بھیجو اہتمام کے ساتھ ۔ آپ کودوسرا کوئی عمل ایسے نظر نہیں آئے گا جس میں اللہ پاک نے یہ فرمایا ہو کہ یہ میں بھی کرتا ہوں تم بھی کرو ۔ کوئی عمل ایسا نہیں ۔ بلکہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے ساتھ جو نہیں ہے ، وہ انسان کے ساتھ ہو تو کمال ہے، بس اللہ کے ساتھ عاجزی نہیں تو جو جو عاجز ہوگا وہ اللہ پاک کو زیادہ محبوب ہوگا ۔ یہاں پر یہ چیز ہے کہ اللہ پاک خود پہلے اپنی طرف نسبت کررہے ہیں اور پھر فرشتوں کی طرف نسبت کررہے ہیں پھر مومنین کو حکم دیتے ہیں ۔ یہ بہت بڑی بات ہے ۔ ایک دفعہ درود پڑھنے پر دس رحمتیں فوراً انسان پر نازل ہوجاتی ہیں ۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب ؒ نے ایک دفعہ فرمایا ۔ میں تمہیں اللہ پاک کی رحمت متوجہ کرنے کا طریقہ بتاؤں ۔ ہم نے کہا حضرت ضرو ر ۔ حضرت نے درود پاک پڑھا اور فرمایا اللہ کی رحمت ہماری طرف متوجہ ہوگئی اور میں اس پر قسم کھا سکتا ہوں ۔ تو جو اللہ والے ہوتے ہیں وہ ان چیزوں کو جانتے ہیں ۔ بہرحال آپ ﷺ کا مقام اتنا اونچا ہے کہ اللہ پاک نے ایک خاص انداز سے درود پاک کا حکم دے دیا ۔ درود پاک ایسا عمل ہے کہ میں اس کی کتنی خوبیاں بیان کر سکتا ہوں ؟ واللہ اعلم باالصواب ۔ یعنی اس کے پڑھنے میں کبھی کوئی مشکل پیش نہیں آسکتی ۔ ذکر اگر کوئی صحیح طریقے سے نہیں کرے گا تو دماغ پر اثر پڑ سکتا ہے ۔ سیکھنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔ لیکن درود پاک ایسی چیز ہے کہ اس کو بہت آسان بنا دیا گیا ہے ۔ اللہ پاک نے ایسے عام طریقے سے جب بتادیا تو درمیان میں کیا رہ گیا ۔ تو درود پاک کثرت سے پڑھنا چاہیے ۔ راولپنڈی میں بعض ایسے حضرات ہیں جوروزانہ دس ہزار مرتبہ درود پاک پڑھنے والے ہیں ۔ اور میں نے ایک صاحب کی زیارت کی ہے ، اور بتانے والے بھی ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب ؒ تھے ان کے پاس ایک صاحب بیٹھے ہوئے تھے فرمایا کہ یہ شخص روزانہ ایک لاکھ چوبیس ہزار مرتبہ درود شریف پڑھتا ہے اور یہ ہمارے شیخ حضرت شاہ عبدالعزیز دعاجوؒ کے خادم ہیں ۔ اب فوت ہوچکے ہیں ٹنڈو آدم میں شاہ عبدالعزیز دعا جو ؒ کے مزار کے ساتھ ان کا مزار ہے ۔ لوگوں کو اللہ پاک توفیق دے دیتے ہیں۔ وہ صاحب اتنے سادہ تھے کہ ان کے شیخ ایک دفعہ ان کے ساتھ مذاق کرنے لگے اور فرمایا کہ اگر تمہاری بیوی اتنی لمبی ہوجائے کہ دروازے سے اندر نہ آسکے تو پھر تم کیا کرو گے ۔ انہوںنے جواب دیا کہ میں اس کے پیر کاٹ دوں گا پھروہ آسکے گی ۔ تو سادہ تو اتنے تھے لیکن بہر حال اللہ پاک نے ان کو ایسے نوازا تھا ، کہ درودشریف کا اتنا اہتمام کرتے تھے۔ تو ایک تو درود شریف ہے اس کے بارے میں اگر کسی نے تفصیل پڑھنی ہو تو حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ کی کتاب فضائل ددرود شریف کا مطالعہ کرے ۔ ایک اور بات جس کی ایک وبا چلی ہے ۔ اور وہ یہ کہ جس کام کو نہ کرنا ہو اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ضعیف حدیث سے ثابت ہے ۔ اور بڑی آسانی سے اس سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ میں نے جو قرآن پاک کی تلاوت کی ہے ِ
انَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہ، یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
کیا اس کو کوئی ضعیف کہہ سکتا ہے ۔ اس کی موجودگی میں مجھے کسی اور چیز کی ضرورت ہوسکتی ہے؟ ہاں اگر آپ کو مزید احادیث شریفہ اس کے متعلق مل رہی ہیں ، چاہے وہ ضعیف ہی کیوں نہ ہوں اگر آپ کو کچھ واقعات مل رہے ہیں تو اس سے آپ پر کیا فرق پڑ سکتا ہے ؟۔ عمل تو پہلے سے ثابت ہے ۔ اس لئے علمائے کرام فرماتے ہیں کہ فضائل کے معاملے میں ضعیف روایات سے بھی کام لیا جاسکتاہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل حکم پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ ہاں احکام کے اندر ضعیف روایت نہیں چلتی ۔ وہاں پر یا تو قرآن پاک کی آیت ہوگی یا کوئی متواتر حدیث ہوگی ، اس پر عمل ہوگا کیونکہ احکام سے فرق پڑتا ہے ،دین کے اندر تبدیلی آسکتی ہے ،تو اس کے قوانین تو سخت ہیں ، لیکن جو فضائل ہیں اس میں قوانین نسبتاً سخت نہیں ہیں ۔ کیونکہ اس میں اس حکم تبدیل نہیں ہوتا ۔ تو درود شریف آپ ﷺ کی شان کے بارے میں ہے ۔ دوسری چیز جو آپ ﷺِ کی شان کے بارے میں ہے ۔ وہ ہے
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ۔ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ﴿۱۳﴾
یہ بھی ایک عجیب آیت ہے جو کسی اور کے بارے میں نہیں ہے، فرمایا اے میرے حبیب اپنی امت سے کہہ دیجئے اگر تم اللہ کے ساتھ محبت کرنا چاہتے ہو ،تو میرے حبیب کا اتباع کرو میں تمہیں اپنا محبو ب بنالوں گا ۔ یعنی یا توہم محبت کرنا چاہتے ہیں یا پھر کہتے ہیں کہ میں تمہیں اپنا محبوب بنالوں گا ۔ اس سے بڑی بات کوئی اور ہوسکتی ہے ؟ ہر محبت کرنے والا کیا یہ نہیں چاہتا کہ اس کا محبوب اسے محبوب بنالے ۔ محبوب کی ہر ادا پیاری ہوتی ہے ۔اور ہر وہ پیاری ادا جو بھی اس کو استعمال کرے اس کے ساتھ وہ دوسرا بھی پیارا ہوجاتا ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام کے خلاف جو جادوگر مقابلے میں آئے تھے ، تو جادو گروں نے کپڑے موسیٰ علیہ السلام کی طرح پہنے ہوئے تھے ۔ اس سے ان کو ہدایت مل گئی ۔ پہلے تو وہ فرعون کے ساتھ سودا کررہے تھے کہ تم ہمیں کیا دو گے اگر ہم جیت گئے ۔ فرعون نے ان کو کہا کہ میں تمہیں مقربین بنا دوں گا ۔ ایک طرف تو یہ سودا ہورہا تھا اور جب موسیٰ علیہ السلام سے مقابلہ ہوا اور وہ جان گئے کہ ان کے پاس کیا چیز ہے ۔ کیونکہ فن والا ہی فن کو جانتا ہے کہ اگلے کے پاس کیا چیز ہے تو وہ جان گئے کہ یہ تو جادو نہیں ہے تو ایمان لے آئے ۔ جب ایمان لائے تو فرعون نے کہا
قَالَ اٰمَنْتُمْ لَہ، قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَکُمْ۔ اِنَّہ، لَکَبِیْرُکُمُ الَّذِیْ عَلَّمَکُمُ السِّحْرَ۔ فَلَاُ قَطِّعَنَّ اَیْدِیَکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّلَاُوصَلِّبَنَّکُمْ فِیْ جُذُوْعِ النَّخْلِ وَلَتَعْلَمُنَّ اَیُّنَآ اَشَدُّ عَذَابًا وَّاَبْقٰی﴿۱۷﴾ قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَکَ عَلٰی مَا جَآئَ نَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالَّذِیْ فَطَرنَا فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ۔ اِنَّمَا تَقْضِیْ ھٰذِہِ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا﴿۲۷﴾
اچھا تم میری اجازت کے بغیر ایمان لے آئے ۔بے شک یہ تم میں کا بڑا جادوگر ہے جس نے تمہیں سکھایا ہے پس میں تمہارے ہاتھوں اور پیروں پیچھے کی طرف سے کاٹوں گا پھر تم سب کو سولی پر لٹکاؤں گا۔ لیکن جادوگروں نے کہا ... جو تم کرنا چاہتے ہو کرلو ، اب ہم نے واپس نہیں مڑنا ۔ اور اللہ پاک سے دعا کی ، ربنا افرغ علینا... کہا اے اللہ صبر کو ہم پر انڈیل دے ۔یعنی ہمیں زیادہ صبر کی ضرورت ہے کیونکہ معاملہ بہت کٹھن ہے ۔ تو اللہ کے سامنے عاجزی کی اور اس کی معرفت فوراً حاصل ہوگئی ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک سے پوچھا یا اللہ میں نے تو دعوت فرعون کو دی اور حاصل جادوگروں نے کی یہ کیا بات ہوگئی ۔ اللہ پاک نے فرمایا انہوں نے تیرے جیسے کپڑے پہنے ہوئے تھے تو میں نے نہیں چاہا کہ میرے محبوب کی طرح کسی نے کپڑے پہنے ہوں اور اس کو میں ہدایت نہ دوں تو میں نے ان کو ہدایت دے دی ۔ اب دیکھیں موسیٰ علیہ السلام کی طرح کپڑے پہننے سے ان کو ہدایت ملی ۔ تکوینی طور پر انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کی طرح کپڑے پہنے ہوئے تھے ، اس کے بدلے کتنی بڑی چیز اللہ پاک نے ان کو عطا فرما دی ۔ تو جب آپ ﷺِفرما رہے ہیں کہ میرے وقت میں اگر موسیٰ بھی آئے گا تو اس کو بھی میری پیروی کرنی پڑے گی ۔ تو جب آپ ﷺِ جیسا امرکوئی کرے گا تو اس کا کیا مقام ہوگا
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ
تو اتنی بڑی نعمت جو آپ ﷺ کی امت کو مل گئی اس سے پتہ چلا کہ آپ ﷺِکے طریقے میں کامیابی ہی کامیابی ہے ۔ تیسری بات یہ کہ ہمارا ایک تشریعی تعلق ہے ۔ ہم شریعت پر عمل کریں گے تو اللہ کے محبوب بن جائیں گے ۔ شریعت کیا ہے ؟ یہ آپ ﷺِ کا طریقہ ہے ۔ آپ ﷺِ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ پاک نے میرے نور کو سب سے پہلے بنایا پھر میرے نور سے تمام کائنات کو بنایا ۔بانی دیوبند مولانا قاسم نانوتوی ؒ نے اس کو نظم میں ایسے فرمایا ہے ۔
سب سے پہلے مشیت کے انوار سے
نقش روئے محمد بنایا گیا
پھر اسی نور سے مانگ کر روشنی بزم کون و مکاں کو سجایا گیا
حضرت بہت بڑے عالم تھے اور عالم علمی رنگ میں بات کرتا ہے تو انہوں نے فرمایا کہ آپ ﷺِ کے نور کو سب سے پہلے اللہ پاک نے بنایا پھر اسی نور سے روشنی لے کر تمام کائنات کو بنایا گیا ۔ اب کائنات کے ساتھ آپ ﷺ کا ایک رشتہ قائم ہوگیا تخلیق کا ۔ اب جس کا تعلق آپ ﷺ کے ساتھ ہوگا کائنات اس کے لئے مفید ہے ۔ اور جس کا رشتہ آپ ﷺ کے ساتھ نہیں ہے ۔ کائنات اس کے لئے مفید نہیں ہے ۔ یہ ہمارا تکوینی نسبت جو آپ ﷺِ کے ساتھ ہے ۔ کہ اگر ہم آپ ﷺِ کے ساتھ ہیں تو پھر کائنات کی ہر چیز ہمارے لئے ہے ۔ اور اگر ہم آپ ﷺ کے ساتھ نہیں ہیں تو کائنات ہمارے لئے نہیں ہے ۔ اس کو علامہ اقبال نے بڑی اچھی طرح بیان کیا ہے ۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
پس آپ ﷺ کے ساتھ ہماری تکوینی نسبت بھی ہے ۔ تیسری بات ہماری آپ ﷺکے ساتھ قلبی نسبت ہے ۔ حضرت عمر ؓ نے ایک دفعہ آپ ﷺِ سے کہا یا رسول اللہ مجھے آپ ﷺ سے تمام چیزوں سے زیادہ محبت ہے بجز اپنی جان کے ۔ یہ بخاری شریف کی روایت ہے ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا ، عمرؓ تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا ۔ جب تک مجھ سے اپنے آپ سے بھی زیادہ محبت نہیں کرو گے ۔ اس وقت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہ اب مجھے آپ سے اپنے آپ سے بھی زیادہ محبت ہے ۔ پھر ﷺ نے فرمایا ، الآن یا عمر اب ہوگئی نہ بات ۔ تو اب جو میں بات کرنے والا ہوں اللہ کرے کہ میں آپ کو سمجھا سکوں ۔ حضرت عمرؓ کے اتباع کی جو نسبت ہے وہ اتنی اونچی ہے کہ آپ ؓ ایک دفعہ کہیں جارہے تھے ، رفع حاجت کے لئے بیٹھ گئے جب اٹھے تو نشانی کوئی نہیں تھی ۔ ساتھیوں نے پوچھا حضرت آپ کو ضرورت نہیں تھی تو آپ کیوں بیٹھے ۔ فرمایا ہاں مجھے ضرورت نہیں تھی لیکن ایک دفعہ میں آپ ﷺ کے ساتھ اسی راستے پر جارہا تھا ، تو آپ ﷺ یہاں حاجت کے لئے تشریف فرما ہوئے تھے ۔ اس لئے میں بھی یہاں بیٹھ گیا ۔ آپ مجھے بتائیں کیا یہ کوئی سنت موکدہ تھا جو حضرت عمر ؓ نے کیا ؟ اگر نہ کرتے تو کیا آپ ﷺِ ان سے ناراض ہوجاتے ۔ یہ صرف اور صرف محبت کی بات ہے ۔ اتباع کا جذبہ تھا کہ ہمیں آپ ﷺ کی طرح ہونا چاہیے ۔ حضرت عمر کو اتنی زیادہ نسبت تھی لیکن پھر بھی آپ ﷺِ فرما رہے ہیں کہ عمرؓ اس وقت تک تمہارا ایمان کامل نہیں ہوسکتا ۔ جب تک تو مجھ سے اپنے آپ سے بھی زیادہ محبت نہ کرے ۔ کیا اس کے بعد سب پر حجت تمام ہوجاتی ہے یا نہیں ؟ تو یہ آپ ﷺ کے ساتھ ہماری قلبی نسبت ہے ، ہمارے دلوں کے اندر آپ ﷺ کی محبت کو جان گزیں ہونا چاہیے ۔ آج کل کے دور میں مسلمانوں کے دلوں سے اس چیز کو نکالنے کی کوشش ہورہی ہے ۔ سنت کی محبت کو تبدیل نہیں کریں گے ۔ کہیں گے بے شک کرو ، لیکن آپ ﷺکے ساتھ ذاتی محبت نہیں ہونی چاہیے ۔ آپ ﷺ کی ذات مبارک سے محبت نہیں ہونی چاہیے ۔ اس چیز کو نکالنے کی کوشش ہورہی ہے ۔ اس چیز کو دوبارہ لانے کی ضرورت ہے ۔ اس لئے میں کہا کرتا ہوں کہ ہمارا معیار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین ہیں ۔ صحابہ آپ ﷺ کی سنتوں کے ساتھ بھی پیار کرتے تھے اور آپ ﷺِ کی ذات مبارک پر بھی جان قربان کرتے تھے ۔ عجیب عجیب واقعات ان سے منسوب ہیں ۔ ایک صحابی پہلے مسلمان نہیں تھے ۔ کافروں کی طرف سے قاصد بن کر آئے تھے ، معاملات طے کرنے آئے تھے واپس جاکر اپنی قوم سے کہا کہ میں نے آج محمدﷺِ کو دیکھا ہے ۔ محمدﷺ کے ساتھ ان کے ساتھی ایسی محبت کرتے ہیں کہ ایسی محبت میں نے کسی اور کے ساتھ کرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ میں نے بڑے بڑے بادشاہوں کے دربار دیکھے ہیں ۔ وہاں بھی مجھے ایسی چیز نظر نہیں آئی ۔ آپ ﷺِ جب وضو کرتے ہیں ، تو اس وضو کے پانی کو صحابہ گرنے نہیں دیتے ۔ اپنے ہاتھوں پر روک لیتے ہیں اور اپنے چہروں پر مل لیتے ہیں۔ آپ ﷺِ تھوکتے ہیں تو اس تھوک کو کوئی گرنے نہیں دیتا ۔ اس کو اپنے ہاتھ پر لے لیتا ہے ۔ اور اپنے چہرے پر مل لیتے ہیں ۔ ایک دفعہ ایک صحابی کو آپ ﷺ نے اپنا خون دے دیا جو سنگیوں کے ذریعے نکالا گیا تھا کہ اس کو کہیں دفن کر آؤ ۔ وہ چلے گئے تھوڑی دیر کے بعد آگئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میں نے اس کو دفن کردیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺِ وہ میں پی چکا ہوں ۔ اب آپ یہ دیکھیں کہ آپ ﷺِ دین میں مروت نہیں کیا کرتے تھے ۔ اگر کوئی ایسی بات ہوتی جو اپنے ذات کے متعلق بھی ہوتی ،لیکن اگر وہ دین کے خلاف ہوتی تو فوراً انکار فرما دیتے تھے ۔ لیکن اس موقع پر فرمایا اچھا پی لیا ، تو سنو جس کے جسم میں میرے جسم کا حصہ چلا گیا اس پر جہنم حرام ہے ۔ یہ ہے آپ ﷺ کی ذات کے ساتھ محبت ۔ اصل میں یہی چیز ہمیں سیکھنا ہے ۔ صحابہ کرام کی زندگی کو معیار بنانا ہے ۔ اس لئے میں کہتا ہوں ، ادھر ادھر کی باتیں چھوڑو ، صحابہ کو دیکھ کر چلو ۔ صحابہ سے آپ کو سب کچھ ملے گا ۔
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٰ فَقَدِ اھْتَدَوْا۔وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَاھُمْ فِیْ شِقَاقٍ۔ فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ۔ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم
پس گر ایمان لائیں اس طرح جس طرح تم ایمان لے آئے ہو ، تو بس پھر ہدایت پا لی اور اگر اس سے منہ موڑ لیا تو بے شک یہ خسارے میں رہیں گے پس تمہارے لئے اﷲ کی مدد کافی ہے اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے ﴾ ۔ ہم لوگوں کو یہ دیکھنا ہے کہ آیا ہم میں وہ چیزیں ہیں جو صحابہ میں تھیں ۔ ان میں عبادت بھی تھی ، شجاعت بھی تھی ، جہاد میں بھی کررہے ہیں ، مصلے پر بھی بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ہمارے ہاں یہ مسئلہ ہے کہ جب دین کا کام شروع کردیتے ہیں تو عبادت فارغ ،یہ کوئی اور کرے گا ۔ اور عبادت شروع کرلی تو دین کا کام فارغ ۔ تو صحابہ سے سیکھنا چاہیے ۔ صحابہ عبادت بھی کرتے تھے اور دین کا کام بھی کرتے تھے ۔ آپ ﷺِ کے ساتھ ٹوٹ کر محبت بھی کرتے تھے اور ان کے اندر توحید کی کمی بھی نہیں تھی ۔ ان کے اندر ادب بھی بدرجہ اتم موجود ، اللہ جل شانہ سے بھی محبت اور دل و جان سے آپ ﷺِ پر بھی عاشق ۔
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہ
کی بھی تصویر ۔ تو صحابہ سے سیکھنا ہے ۔ کیا باہر کے صحابہ کیا اندر کے صحابہ ، ازواج مطہرات ، بیٹیاں ، سب آپﷺِ سے ایک سے بڑھ کر ایک محبت کرنے والے ۔ تو آپ ﷺِ کی ذات کے ساتھ محبت بہ ذات خود اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے ۔ آپ ﷺ کے ساتھ محبت کرنے کے کچھ طریقے ہیں ۔ سب سے بڑا طریقہ یہ کہ اپنے آپ کو ایسے لوگوں کے ساتھ ملاؤ جو آپ ﷺِ کے ساتھ محبت کرتے ہیں ۔ جو اللہ کے ساتھ محبت کرتے ہیں ۔ حضرت تھانوی ؒ نے ایک دفعہ ارشاد فرمایا ، میں آپ کو کامیابی کا آسان طریقہ بتاؤں ۔ لوگوں نے کہا حضرت ضرور بتائیں ۰۔ فرمایا ، محبت کی پڑیا کھالو ۔ لوگوں نے پوچھا محبت کی پڑیا کہاں سے ملے گی ؟ فرمایا محبت کی دکانوں سے ۔ اللہ جل شانہ نے فرمایا
وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ﴿۹۱۱﴾
صادقین کے ساتھ ہوجاؤ تو جن کے دل میں یہ چیز ہے ان کے ساتھ بیٹھا کرو فائدہ ہوگا انشائ اللہ ۔ تھوڑا سا نرمی کا ماحول بنا دو ، زمین سخت نہیں ہونی چاہیے ۔ بہترین بیج ہو لیکن زمین سخت ہو تو نہیں اگے گا ۔ بیج کو بھی بہترین رکھو اور زمین کو بھی بہترین رکھو تو دل کی زمین کو نرم رکھنے کیلئے ذکراللہ کی ضرورت پڑتی ہے ۔ اس سے دل کی زمین نرم ہوجاتی ہے ۔ یہ تجربے سے ثابت ہے ۔ میں کسی کے ساتھ بحث میں کبھی نہیں پڑتا لیکن ایک دفعہ کسی سے علمی بحث چھڑ گئی ، اس میں تیزی بھی آگئی ، اس کے اپنے دلائل ہمارے اپنے دلائل ، قریب تھا کہ ہمارا تعلق ٹوٹ جائے بہر حال ذکر کا وقت ہوگیا ہم ذکر کے لئے اندر چلے گئے ۔ذکر کرکے باہر آئے اور چائے پینے لگے تو وہ صاحب بغیر کسی بات کے ، بغیر کسی مزید بات کے اس نے ہماری ساری باتیں مان لیں ۔ تویہ سب کچھ کیسے ہوا ؟ یہ ذکر کی برکت تھی ۔ ذکر سے سخت دل نرم ہوجاتا ہے ۔ دل کی سختی بہت خطرناک ہے ۔ قرآن پاک میں آتا ہے کہ ان کے دل سخت ہیں جیسے پتھر ، بلکہ پتھر بھی اللہ کی خشیت سے پھٹ جاتے ہیں اور اس سے پانی نکل آتا ہے ۔ تو دل کی سختی بہت خطرناک ہے اس سے اپنے آپ کو بچانا ہے ۔دل کی سختی اور بد بختی یہ ساتھ ساتھ ملی ہوتی ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا﴿۹﴾ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا
یعنی یقیناً کامیاب ہوا وہ جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا اور یقیناً تباہ اور برباد ہو جس نے نفس کو ایسا ہی میلا چھوڑ دیا یعنی اس کا تزکیہ نہیں کیا یہاں تک تو تردید ہے ۔ لیکن آگے دیکھ لیں کہ جب تزکیہ نہیں ہوگا توپھر آگے کیا ہوگا
کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰھَآ﴿11﴾ اِذِ انْبَعَثَ اَشْقٰھَا﴿12﴾فَقَالَ لَھُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ نَاقَۃَ اللّٰہِ وَسُقْیٰھَا﴿13﴾
یعنی ان کے اندر جو شقی تھا وہ کھڑا ہوگیا اس وقت کے اللہ کے رسول نے کہا اس کو بری نظر سے نہ دیکھو یہ اللہ پاک کی اونٹنی ہے اس کو اپنے موقع پر پانی پینے دو لیکن وہ شقی تھا بدبخت تھا ۔ اس کو یہ بات سامنے نہیں آئی کہ یہ اللہ پاک کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔ شعائراللہ میں سے ہے ۔ تو اس نے جب شعائراللہ کا خیال نہیں رکھا فَکَذَّبُوْہُ فَعَقَرُوْھَا تو اس نے وقت کی نبی کو جھٹلایا اور اس اونٹنی کو مار ڈالا تو پھر اس کا نتیجہ کیا نکلا
فدَمْدَمَ عَلَیْہِمْ رَبُّھُمْ بِذَنْبِھِمْ فَسَوّٰھَا﴿۴۱﴾
تو ان کے جو گناہ تھے اس وجہ سے ان کو تباہ کردیا گیا ۔ پھر کیا ہوا، ان کو برابر کردیا گیا ۔یہ سب کچھ اﷲ کے لئے مشکل نہیں تھا تو فرمایا
وَلَا یَخَافُ عُقْبٰھَا﴿15﴾
اور اللہ پاک کو کوئی پرواہ نہیں کہ اس کے بعد کیا ہوتا ہے ۔ اس کامطلب ہے کہ جو بے ادبی ہوتی ہے ،جو گستاخی ہوتی ہے ، جو شقاوت ہوتی ہے ، جو سختی ہوتی ہے وہ اللہ پاک کے عذاب کو دعوت دینے والی ہوتی ہے ۔ شعائراللہ کی توہین معمولی چیز نہیں ہے ۔ توان چیزوں سے بچنا چاہیے ۔ صحابہ کرام ان چیزوں سے بچتے تھے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت حذیفہ ؓ کے درمیان کسی بات پر اختلاف ہوا ۔ چونکہ آپ ﷺ نے حضرت حذیفہ ؓ کو مستجاب الدعوات بتایا تھا ان کے ہاتھ جب اٹھنے لگے ، تو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ چیخ اٹھے ، کوئی ایسی بری بات زبان سے نہ نکالیں ،آپ کی زبان سے اچھی بات نکلنی چاہیے ۔ کیونکہ آپ ﷺ نے ان کو مستجاب الدعوات بتایا تھا ۔ ہمیں بھی صحابہ کرام کے طریقے پر چلنا ہے ان کے طریقے پر چلنا ہی اصل کامیابی ہے ۔ بغیر صحابہ کرام کے طریقے کے ہم کامیاب نہیں ہوسکتے ۔ صحابہ کرام کا توحید کتنا اعلیٰ ، زبردست توحید ایسی توحید جس کے اندر شرک کی کوئی رمق نہیں تھا لیکن شعائراللہ کی تعظیم بھی بہت زیادہ تھی۔ آپ ﷺِ کی تعظیم ، خانہ کعبہ کی تعظیم ، نماز کی تعظیم ، قرآن کی تعظیم ، یہ سب قرآن کو سنتے تھے اور ھذا کلام ربی ، ھذا کلام ربی کہتے ہوئے بے ہوش ہوجاتے تھے ۔ تو ہم لوگوں کو بھی صحابہ کرام والا طریقہ اپنانا ہوگا ۔ یہ طریقہ کیسے اپنائیں گے اس کو حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے ۔ ہم لوگ چونکہ اب آپ ﷺِ کو نہیں سن سکتے تو جن لوگوں نے آپ ﷺ سے سنا ، پھر جنہوں نے ان سے سنا ہے ، پھر جنہوں نے ان سے سنا ہے ، پھر جنہوںنے ان سے سنا ہے ، بات کہاں تک پہنچتی ہے آخری راوی تک ، اور ہم ان سے سن لیتے ہیں ۔ ہمارا کام ہوجاتا ہے، ہمیں آپ ﷺِ کی بات مل جاتی ہے ۔ اس کو حدیث کہتے ہیں تو حدیث مل جاتی ہے ۔ کہتے ہیں کہ ایک محدث فوت ہورہے تھے ۔ ان کے شاگرد ان کے گرد بیٹھے ہوئے تھے ، آخری وقت میں لوگ مرنے والے کو تلقین کرتے ہیں کہ کلمہ پڑھو تو اس وقت تو ان کے استاد فوت ہورہے تھے وہ حیران تھے کہ کیسے تلقین کریں کہیں بے ادبی نہ ہوجائے ۔ لیکن ان کے شاگرد بھی بڑے ہوشیار تھے ۔ان میں سے ایک نے وہ روایت بیان کرنا شروع کردی جس کے آخر میں آتا ہے کہ جس کے آخری الفاظ لا الہ الا اللہ ہوں ، اللہ پاک اس کو جنت میں داخل کردیتے ہیں ۔ تو انہوں نے دہرانا شروع کیا ،قال فلاں ، قال فلاں وہ روایت دہرانا شروع کی، جیسے ہی آخر میں پہنچے ،توچونکہ ان کے استاد بھی محدث تھے ان کو پتہ چلا گیا کہ کونسی روایت بیان کررہے ہیں فوراً کہہ دیا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔ مقصد شاگردوں کا بھی پورا ہوگیا ، مقصد استاد کا بھی پورا ہوگیا ۔ استاد صاحب فوت ہوگئے ۔ کچھ عرصہ بعد ان کو کسی نے خواب میں دیکھا ،پو چھاحضرت آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ۔ فرمایا ، اللہ پاک نے مجھے اپنے سامنے بٹھا دیا اور فرمایا کہ وہ روایت بیان کرو ، میں نے وہ روایت بیان کرنا شروع کردی ، فلاں نے فلاں سے سنا ، فلاں نے فلاں سے سنا ، اور آخر میں کہا کہ رسول اللہ ﷺِ نے فرمایا کہ جس کا آخری کلمہ لا الہ الا اللہ ہوا وہ جنت میں داخل ہوگا ۔ اللہ پاک نے فرمایا آخر والے نے ٹھیک کہا پھر دوسرے کا بتایا اس نے ٹھیک کہا ، پھر تیسرے کا بتایا اس نے ٹھیک کہا ، ہوتے ہوتے آخر میں فرمایا میرے نبی نے بھی ٹھیک کہا اور میں نے بھی ٹھیک کہا جاؤ میں نے تمہیں جنت میں داخل کردیا ۔ تو یہ بات ہے ۔ اسی طرح قرآن پاک کے سورۃ نور میں بتایا گیا ہے
اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔ مَثَلُ نُوْرِہٰ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْھَا مِصْبَاحٌ۔ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ۔ اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّھَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃٍ یَّکَادُ زَیْتُھَا یُضِیْٓئُ وَلَوْلَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ۔ نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ۔ یَھْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہٰ مَنْ یَّشَآءُ
کہ اﷲ تعالیٰ کائنات کا نور ہے اس کی نور کی مثال یوں سمجھو کہ جیسے ایک طاق ہے اس میں ایک چراغ ہے اور وہ چراغ ایک قندیل میں رکھا ہے اور وہ گویا تارے کی طرح چمک رہا ہے۔اس چراغ میں تیل جلتا ہے برکت والے درخت زیتون کا جس کے لئے نہ مشرق ہے نہ مغرب اور وہ تیل ایسا ﴿خالص ﴾ہے کہ جیسے بغیر اس کو آگ دکھائے بھڑک اٹھے روشنی پر روشنی ، اﷲ تعالیٰ اپنے نور کی طرف جس کو چاہے ہدایت فرمادیتے ہیں ۔ اس کے بارے میں علمائے کرام فرماتے ہیں کہ یہ آپ ﷺِ کے قلب کے نور کے بارے میں فرمایا گیا ہے اس کے بارے میں امام غزالی ؒنے تشریح فرمائی ہے آپ ﷺِ کے قلب مبارک کو وہ صلاحیت اﷲ تعالیٰ نے فرمائی کہ بس بغیر اگ دکھائے یہ روشن ہو اور جب وحی بھی آئی تو نُوْرٌ عَلٰی نُوْر کا منظر بن گیا تو اس قلب کے نور کو کس نے لیا ؟ صحابہ کرام میں بھی انبیائے کرام کے بعد سب سے زیادہ استعداد تھی تو انہوں نے بھی وحی کے اس نور کو جو کہ قرآن اور تعلیمات نبوی کی جامع تھی لیا اور اس سے صحابہ کرام کے قلوب منور ہوگئے ۔ پھر ان سے تابعین نے حسب استعداد یہ نور حاصل کیا ، پھر تبع تابعین نے تابعین کے قلب سے نور حاصل کیا ، تو گویا جماعت نے جماعت سے نور حاصل کیا ۔ یہ اس وقت تک ہوسکتا تھا کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا
خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم
تین زمانوں کی بشارت آپ ﷺِ نے دی تھی لیکن اس کے بعد وہ صلاحیت نہیں رہی یہ صلاحیت محدود ہوگئی افراد تک ۔ اب افراد ، افراد سے لینے لگے ۔ فلاں فلاں کے ساتھ، فلاں فلاں کے ساتھ اور ہوتے ہوتے یہ سلسلہ ابھی تک چلا آرہا ہے ۔ ٹھیک ہے نور کمزور ہورہا ہے ، لیکن پھر بھی نور تو وہی ہے ، وہی نور ہے جو آپ ﷺ کے قلب مبارک سے چلا آرہا ہے ۔ کمزور تو ہے لیکن ہے تو وہی ۔ آخر تک بھی وہی نور چلا آرہا ہے ، آپﷺِ ایک دفعہ زم زم کا پانی پی رہے تھے ، تو کلی کرکے پانی کنویں میں ڈال دیا ۔ صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ آپ نے ایسی حرکت کیوں فرمائی ۔فرمایا ،مجھے اگلی امت یاد آگئی ۔آپ تصور کریں کلی کرکے وہ تھوڑا سا پانی کنویں میں ڈال دیا ، اب اس کنویں سے کتنا پانی نکلا ہوگا ۔ سائنس کے نقطہ نظر سے وہ پانی کب بچا ہوگا جو اگلی امت تک پہنچانے کے لئے آپ ﷺِ نے کنویں میں ڈالا تھا ۔ لیکن اللہ پاک نے فرمایا ،ْ
وَمَارَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی
نہیں پھینکا تو نے مگر وہ جو اﷲ تعالیٰ نے پھینکا ۔ تو یہ کلی آپ ﷺ نے کی لیکن کس کے حکم سے کی ، اللہ کے حکم سے کی ۔ جیسے ابراہیم علیہ السلام سے کہا گیا ، کہ تم اعلان کردو کہ حج کے لئے آؤ ، خانہ کعبہ کی تعمیر ہوگئی ۔ تو ابراہیم علیہ السلام نے کہا یا اللہ میری آواز لوگوں تک کیسے پہنچے گی ، میں تو ایک صحرا میں کھڑا ہوں میری آواز کیسے پہنچے گی؟ اللہ پاک نے فرمایا آواز لگانا تیرا کام پہنچانا میرا کام ۔ تو کیا اللہ پاک نے آواز پہنچائی یا نہیں پہنچائی ؟ علمائے لکھتے ہیں کہ حتیٰ کے ارواح تک نے سنی ، اور جتنی دفعہ جس نے لبیک کہا اتنی دفعہ وہ انشاء اللہ حج پر جائے گا ۔ اگراللہ جل شانہ ابراہیم علیہ السلام کے لئے ایسا کرسکتے ہیں کہ ان کی آواز کو ارواح تک پہنچا سکتے ہیں تو آپ ﷺِ کی کلی کو ہم تک نہیں پہنچا سکتے ؟ زم زم کا کنواں بھی معجزہ ، آپ ﷺِ کی کلی بھی معجزہ ، لہذا معجزہ معجزے کے ذریعے پہنچ رہا ہے ۔ اب بھی میں زم زم کا پانی پیتا ہوں تو میں اس میں نیت کرتا ہوں آپ ﷺ کے جوٹھے کی ۔ کہ اس میں آپ ﷺِ کا جوٹھا بھی موجود ہے ۔ تو جیسے آپ ﷺ کے جوٹھے کو اللہ پاک ہم تک پہنچا رہے ہیں ، اسی طرح آپ ﷺ کے قلب کے نور کوبھی اللہ پاک ہم تک پہنچا رہے ہیں اور اس کے لئے ذریعہ کون لوگ ہیں ؟ تو جیسے دیئےسے دیا جلتا ہے اسی طرح قلب سے قلب منور ہوتا ہے ۔ تو ہمارے جو سلاسل ہیں یہ وہ سلسلہ ہے ۔ حضرت سید سلیمان ندوی ؒ فرماتے ہیں کہ جس طرح حدیث ہے یہ روایت کا سلسلہ ہے ۔ اسی طریقے سے ہمارے جو سلاسل ہیں ، نقشبندیہ ، قادریہ ، چشتیہ ،سہروردیہ ، یہ آپ ﷺ کے صحبت کے سلسلے ہیں ۔ اور صحبت زمانے کے لحاظ سے سب سے اونچی چیز ہوتی ہے ۔ آپ ﷺ کے صحابیوں کے مقابلے میں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں تھی ۔ اسی طرح تابعین اور ان کے بعد تبع تابعین ، تو جو صحبت والا سلسلہ ہے وہ سب سے اونچا ہے ۔ اس میں ساری چیزیں جمع ہوجاتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جن علمائے کرامنے اللہ والوں کی صحبتیں اختیار کیں ، ان کے علم کو اللہ پاک نے چمکا دیا ۔ اور اللہ جل شانہ نے ان کے علم سے ایک جہاں کو منور کردیا ۔ اور جنہوں نے ایسا نہیں کیا ، ان کا علم ان کے ساتھ ہی دفن ہوگیا ۔ اس لئے اگر صحابہ کے پیچھے جانا ہے توان سلسلوں میں سے کسی سلسلے سے اپنے آپ کو منسلک کرلو ، آپ انشاء اللہ اپنے قلب کے اندر اس محبت کو محسوس کرلیں گے جو محبت صحابہ کرام کی آپ ﷺ کے ساتھ تھی ۔ کیونکہ یہ وہی دیئے سے دیا جلتا ہے والی بات ہوگی ۔ تو جس نے اس محبت کو پانا ہے وہ یہ دیکھ لے گا کہ جب وہ سلسلے میں آتا ہے اور اپنے شیخ سے اس کو محبت ہوجاتی ہے ۔تو اس کے اندراس محبت کی جھلک آجاتی ہے، جیسی محبت صحابہ کرام کی آپ ﷺ کے ساتھ تھی ۔ جو لڑکی ماں نہیں بنی وہ ممتا کی محبت معلوم نہیں کرسکتی ۔ جو لڑکی ماں بن جاتی ہے وہ خود بخود جان لیتی ہے کہ ممتا کیا ہوتی ہے ۔ جو آدمی باپ نہیں بنا ہوتا وہ باپ کے دل کے جذبات کو نہیں جان سکتا ۔ اسی طرح جو ان سلاسل میں نہیں آتا وہ اس چیز کو حاصل نہیں کرسکتا ، جو سلاسل میں آنے کے بعد حاصل ہوتی ہیں ۔ حضرت تھانوی ؒ بڑے اونچے درجے کے عالم تھے ۔ آپ حضرات کو معلوم ہوگا کہ ان کا علم کتنا تھا ۔ لیکن خود فرماتے ہیں کہ ایک وکیل صاحب پہلے میرے بڑے مخالف تھے ، پھر بعد میں کسی بات پر بڑے مداح بن گئے ۔ اور اتنے بڑے مداح بن گئے کہ میں ایک جگہ پر وعظ کررہا تھا ، وکیل صاحب بھی وہاں موجود تھے ، اس وقت لوگوں کو فارسی آتی تھی ، تو وہ وکیل صاحب وجد میں آکر کہنے لگے کہ:
یعنی تو کس کے کمال سے مکمل ہے تو کس کے جمال سے منور ہے ۔ یہ بار بار کہہ رہے تھے ۔ تو حضرت تھانوی ؒ فرماتے ہیں کہ میں بھی اس وقت جوش میں آگیا میں نے کہہ دیا
میں حاجی صاحب کے کمال سے مکمل ہوں میں حاجی صاحب کے جمال سے منور ہوں ۔ تو یہ کون کہہ رہا ہے ؟ حضرت تھانویؒ ۔ ہزار کتابوں سے زیادہ لکھنے والے ، حضرت حاجی صاحب نے چند ہی کتابیں لکھی تھیں لیکن حضرت تھانوی ؒ کی کتابوں کی تعداد ہزار سے زیادہ ، اس پر مواعظ کے سلسلے علیحدہ ہیں لیکن وہ کیا کہہ رہے ہیں ۔ من مکمل از کمال حاجیم ، من منور از جمال جاجیم ۔ کسی نے پوچھا حضرت آپ نے ہزار سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں تو آپ نے اس سے زیادہ کتابیں پڑھی ہونگی ۔ فرمایا نہیں میں نے صرف تین کتابیں پڑھی ہیں ۔ پوچھا گیا کونسی ، فرمایا میں نے حاجی صاحب کو پڑھا ہے ۔حضرت گنگوہی ؒ کو پڑھا ہے اور حضرت یعقوب نانوتویؒ کو پڑھا ہے ۔ بس یہ تین کتابیں پڑھی ہیں ۔ تو یہ وہی بات ہے کہ دیئے سے دیا جلتا ہے ۔ کتاب والے کے پاس جاؤ کتاب خود بخود مل جائی گی ۔ بلکہ اس کے دل کو لے لو ،تو اس دل سے وہی باتیں نکلیں گی جو اس دل والے سے پہلے نکلتی رہی ہیں ۔ حضرت شمس تبریز ؒ ایک دن اپنے شیخ کے سامنے رونے لگے حضرت لوگوں کو تو اپنے احوال بیان کرنے کا طریقہ آتا ہے ۔ مجھے تو طریقہ بھی نہیں آتا ، میں اپنے احوال کیسے بیان کروں گا ۔ حضرت نے ان کو تسلی دی اور فرمایا کوئی بات نہیں تمہیں ایسی زبان مل جائے گی جو تیری آواز کوپوری دنیا میں پھیلا دے گی ، تو وہ کونسی زبان تھی ؟ وہ زبان مولانا روم ؒ تھی ۔ مولانا روم ؒ کو جو زبان مل گئی وہ شمس تبریز ؒ کی آواز تھی یا نہیں تھی ۔ خو د مولانا رومی ؒ فرماتے ہیں کہ
مولوی ہر گز نہ شد مولائے روم
مولوی اس وقت تک مولانا روم نہیں بنے ، جب تک شمس تبریز کے غلام نہیں بنے ۔ اگر کسی نے آپ ﷺ کی قلب اطہر تک پہنچنا ہے ، الفاظ الگ ۔ قلب الگ یہ دونوں چیزیں الگ الگ ہیں ۔ تواگر کسی نے قلب اطہر تک پہنچنا ہے تو اسی راستے کو اپنا لو جو قلب والا راستہ ہےا لفاظ والا راستہ اپناؤ گے تو الفاظ تک پہنچ جاؤ گے ۔ اور قلب والے راستے سے قلب تک پہنچو گے ۔ اللہ تعالیٰ ان چیزوں کی بڑی لاج رکھتے ہیں ۔ ایک دفعہ انگلینڈسے ایک صاحب آئے تھے اس کے بھائی تو پہلے سے مجھ سے بیعت تھے لیکن وہ بیعت نہیں تھے بعد میں سنا تھا کہ وہ بہت نقاد آدمی ہیں ، بہت تنقید کرتے ہیں اور کسی کی نہیں مانتے ۔تو چھپر والی مسجد میں بیان ہورہا تھا ۔ وہ بیٹھے ہوئے تھے ۔ بیان کے بعد میں اس کو گھر لے گیا ، میں نے کہا دور سے آئے ہیں تو ان کو چائے وغیرہ پلا دوں ۔ چائے کے بعد اس نے کہا حضرت مجھے بیعت کرلیں ۔ میرے لئے یہ عام سی بات تھی میں نے بیعت کرلیا ۔ اس کے بھائی ہکے بکے رہ گئے کہ یہ بیعت کیسے ہوگیا ۔ بعد میں اس کے بھائی نے اس سے پوچھا کہ یہ آپ نے بیعت کیسے کی ۔ اس نے جواب دیا کہ کیا کروں شاہ صاحب نے بیان میں ایک بات کی بس ا س کے بعد میں نے کچھ نہیں سوچا ، میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں بیعت کرلوں ۔ پوچھا گیا کونسی بات کی تھی کہا شاہ صاحب نے فرمایا کہ ایک ٹرین جس کا انجن بڑا خوبصورت اور اس کے ڈبے بھی بڑے خوبصورت ہوں ۔ اور آخر میں ایک ڈبہ لگا ہو جو ٹم ٹم قسم کا ڈبہ ہو ، اس کے اندر سوراخ بھی ہوں ، پرانا بھی ہو ، اس کے اندر بیٹھنے کی جگہ بھی نہ ہو لیکن وہ ڈبہ لگا ہو انجن کے ساتھ ، تو مجھے بتائیں کہ وہ ڈبہ کہاں پہنچے گا ۔ وہ ڈبہ وہی پہنچے گا جہاں انجن اور دوسرے ڈبے پہنچیں گے ۔ بس یہی حال ہمارے سلسلے کا بھی ہے ۔بس جڑا رہنا چاہیے ، تعلق ٹوٹنا نہیں چاہیے ۔ اتنا کافی ہے ، انشاء اللہ پہنچ ہی جاؤ گے۔ ہمارے حضرت حاجی امداد اللہ مکی ؒ نے فرمایا ، جو ہمارے سلسلے میں آگیا ، انشاء اللہ ایمان پر خاتمہ اس کو نصیب ہوگا ۔ اور اللہ کے فضل و کرم سے ہمارے سلسلے میں جن کو ہم جانتے ہیں ، جو فوت ہوئے ، آخری لمحات میں اللہ جل شانہ نے ان کو عجیب رحمتوں سے نوازا ۔ یہ اللہ کا فضل ہے ۔ بس کسی نہ کسی طرح اس راستے کو اپنا لو ،ہمارے حضرت حلیمی صاحب فرماتے ہیں کہ دیکھو وہ فرسٹ ڈویژنر چلے گئےاب سیکنڈ ڈویژنر کے اوپر اکتفا کرنا پڑے گا اور اگر تھوڑی دیراور کرلی تو پھر تھرڈ ڈویثرنرپر اکتفا کرنا پڑے گا ۔ بعض لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے ، وہ compair کرتے ہیں شیخ عبدالقادر جیلانی سے ، کہتے ہیں کہ ہمیں شیخ عبدالقادر جیلانی جیسا ملے گا تو اس سے تعلق رکھیں گے ، تو یاد رکھیں کہ اب شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نہیں ہیں ۔ آپ تو ان کی بات کرتے ہیں میں تو کہتا ہوں کہ آج مولانا مفتی محمود صاحب جیسا بھی کوئی نہیں ہے۔ حضرت مولانا زکریا صاحب ؒجیسا بھی کوئی نہیں ۔ وہ حضرات چلے گئے ، وہ اپنے دور کیلئے تھے ۔ وہ چلے گئے ۔ اب جو بھی ہے ان کے ساتھ ہی چلنا پڑے گا ۔ جس کے ساتھ بھی مناسبت معلوم ہو ان کے ساتھ ہوجاؤ ، ورنہ یہ بھی چلے جائیں گے ۔راولپنڈی میں ایک صاحب تھے اس نے مجھے خود یہ بات سنائی ، کہا میں حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کا خادم تھا ۔ ایک دن حضرت نے مجھے بلایا اور فرمایا ، بیٹا مجھ سے بیعت ہو جاؤ ۔ کہتے ہیں کہ اس وقت مجھے شرح صدر نہیں ہوا ، بیعت نہیں ہوا ۔ اس عرصے میں حضرت فوت ہوگئے ۔ رو کر کہنے لگے کہ اب میں حضرت کے خلیفہ سے بیعت ہورہا ہوں ۔ کاش میں حضرت کی بات مان لیتا ، کاش میں حضرت سے بیعت ہوجاتا ۔ یاد رکھیں ہم نے الحمد اللہ حضرت مولانا زکریا صاحب ؒ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ حضرت بیٹھے ہوئے تھے اور مولانا محمد عمر پالن پوری صاحب بیان فرما رہے تھے ۔حضرت نے بڑے عجیب انداز سے فرمایا ، دیکھو دیکھو ان کو ، بعد میں آنکھیں ترستی رہیں گی ، بعد میں نہیں ملے گا ۔ اب دیکھ لو ۔ یہ حضرت پالن پوری ؒ نے فرمایا ۔ اور یہ بات بالکل صحیح ہے ، اب کہاں ہیں ؟ تو اس لئے میں عرض کررہا تھا کہ یہ دور اسی طرح چل رہا ہے ، رکا نہیں ہے ۔ ہمارے سامنے پتہ نہیں کتنے لوگ یہاں سے اٹھ گئے ، اور اٹھتے جارہے ہیں ۔ اب اگر کسی نے اپنے آپ کو بنانا ہے تو جس کے ساتھ مناسبت ہے ، نشانیاں میں بتا دیتا ہوں تاکہ غلطی نہ کرلو ، اکثر میں نشانیاں بتایا کرتا ہوں ۔
اس کی پہلی نشانی یہ ہے کہ اس کا عقیدہ اہل سنت و الجماعت کا ہو ۔ دوسری نشانی اس کو فرض عین علم حاصل ہو۔ میں ایک جگہ بیان کررہا تھا میرے مخاطب علما ء کرام تھے تو میں نے کہا کہ علمائے کرام سے مجھے ایک گلہ ہے ۔ یہ فرض کفایہ علم تو پھیلاتے ہیں لیکن فرض عین علم نہیں پھیلاتے ۔ انہوں نے کہا وہ کیسے ۔ میں نے کہا فرض علم وہ ہے جو آپ کے چوبیس گھنٹے کی روزمرہ زندگی کیلئے ضروری ہے ۔ پھر میں نے پوچھا آپ لوگوں نے کبھی بہشتی زیور کی تعلیم کی ہے ؟ کہا نہیں ۔ میں نے کہا یہ فرض عین علم ہے ۔ تعلیم الاسلام فرض عین علم ہے ۔ باقی چیزیں تو فرض کفایہ ہیں ۔ عام عوام کاتعلق تو فرض عین علم سے ہے ۔ اپنے مقتدیوں کو یہ چیزیں پڑھاؤ ۔ یہ آپ کے ذمے ہیں ۔ اگر آپ کے مقتدی بازار والے ہیں تو ان کو معاملات سکھاؤ ، کیونکہ ان کا کام معاملات والا ہے ۔ خدا نخواستہ معاملات میں گڑ بڑ ہوئی تو خطرناک معاملہ ہوسکتا ہے تو میں عرض کررہا تھا کہ اسے فرض عین علم حاصل ہو ۔ تیسری بات اسے اس علم پر عمل ہو ، چوتھی بات صاحب صحبت ہو اور اس کے صحبت کا سلسلہ حضور ﷺِ تک پہنچتا ہو ۔ پانچویں بات ادھر سے اجازت ہو ، اس پر اعتماد کیا گیا ہو ۔ چھٹی بات ان کے پاس بیٹھنے والوں کو دیکھا جائے کہ ان میں کوئی اچھی تبدیلی آرہی ہے یا نہیں ۔ یہ فیض ہے ۔ ایک نظر آنے والا فیض ہے اور دوسرا نظر نہ آنے والا فیض ہے ۔ آپ نظر آنے والے فیض کے مکلف ہیں نظر نہ آنے والے فیض کے مکلف نہیں ہیں ۔ تو دیکھو کہ ان لوگوں کو کچھ مل رہا ہے یا نہیں ۔ جب میں یہاں آرہا تھا تو حضرت کے ساتھ میں یہی بات کررہا تھا ۔ اللہ کا شکر ہے ہمارے سلسلے میں چند چیزیں کھل کر ملتی ہیں ۔ جس پر شکر تو میں یقینا کروں گا ۔ اظہار بھی شکر کی ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ جب عورت بیعت ہوتی ہے تو اس کو پردہ ملتا ہے ، مرد بیعت ہوتا ہے تو اس کو داڑھی ملتی ہے ۔ قران کا کچا حافظ ہو تو اس کا قران پکا ہوجاتا ہے ۔ اور اگر کسی پر حج فرض ہو تو اسے حج کی سعادت نصیب ہوجاتی ہے ۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے لیکن یہ موٹی موٹی باتیں میں نے آپ کو بتا دیں ۔ تویہ ہمارے سلسلے کا فیض ہے ۔ ہمارا سلسلہ الحمد اللہ واضح بنیادو ں پر ہے ۔ اور اس کے اندر ایک اور چیز بھی ہے جس سے میں ڈرتا ہوں ۔ اس سلسلے کے اندر اگر کوئی قبول ہوجائے تو پھر بھاگ نہیں سکتا ۔ بھاگے ہوئے کو کبھی کبھی ہتھکڑیوں میں لایا جاتا ہے ۔ چارپائی پر لایا جاتا ہے ۔ سٹریچر پر لایا جاتا ہے ۔ یعنی بھاگ نہیں سکتا ، وجہ کیا ہے ؟ اللہ پاک جب کسی کو قبول فرمالے تو پھر اللہ پاک سے کون بھاگ سکتا ہے ۔ بھئی ہمارے بزرگوں کا نام اس کے ساتھ لگ گیا ۔ کیا وہ اب ان کو بدنام کرتا پھرے گا ؟ نہیں اس کی اجازت نہیں ہے ۔ میں آپ کو ایک چھوٹا سا واقعہ بتاتا ہوں ہمارے ایک ساتھی تھے جو ہمارے ساتھ دفتر میں تھے ۔ میں نے کبھی ان کو نہیں کہا کہ نماز پڑھو ۔ کیونکہ جو ساتھ ہوتے ہیں ان کی ترتیب الگ ہوتی ہے ۔ باقی لوگوں کو تو انسان بتادیتا ہے لیکن ساتھ والوں کے ساتھ ترتیب ذرا لمبی رکھنی پڑتی ہے تو میں نے کبھی اس کو نہیں کہا کہ نماز پڑھو ۔ وہ ٹامی قسم کے آدمی تھے ، پینٹ کوٹ ، چین سموکر یعنی ہر قسم کی باتیں ان میں تھیں ۔ ایک دن حضرت سید سلیمان ندوی ؒ کا ایک مضمون ، حضرت مولانا محمد اشرف سلیمانی ؒ کی کتاب سلوک سلیمانی کے لئے ہم لکھ چکے تھے اور اس کی پروف ریڈنگ کررہے تھے ۔وہ مضمون حضرت نے مولانا تھانوی ؒ کی وفات پر لکھا تھا ۔ ظاہر ہے لکھنے والے علامّہ تھے اور جو فوت ہوگئے وہ بھی علامّہ ، تو آخر کوئی بات تو ہوگی نا ۔ تو وہ عجیب مضمون تھا ۔ اب وہ پڑھ رہے تھے اورہم اچھل رہے تھے ۔ جب وہ مضمون ختم ہوگیا تو اس کے ہاتھ اٹھ گئے اور کہا یا اللہ مجھے ہدایت دے دے آمین ۔ بس اس نے اتنا کہا ۔ جیسے ہی اس نے یہ الفاظ ادا کیے میرے دل پر وارد ہوگیا کہ یہ دعا قبول ہوگئی ۔ اب دعا قبول ہوگئی تو اس کا اظہار بھی ہو ۔ تومہینہ گزر گیا ڈیڑھ مہینہ گزر گیا لیکن وہ آدمی اس طرف نہیں آرہا ۔ کیا وجہ ہے وہ آدمی قبول ہوچکا ہے لیکن آنہیں رہا ۔ کیا وجہ ہے ۔ تو میں ڈر گیا ۔ میںنے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا کہ اس کو بتادو کہ اس کی قبولیت ہوگئی ہے اور اگر یہ اپنی مرضی سے نہیں آئے گا تو ممکن ہے کہ اس کو سٹریچر پر لایا جائے ۔ تو اس سے پوچھ لو کہ صحیح طریقے سے آنا چاہتے ہو یا دوسرے طریقے سے ۔ اب پتہ نہیں اس کو پیغام ملا یا نہیں ملا ، لیکن اس کے ٹھیک ایک مہینے کے بعد اس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ۔ اب چارپائی پر پڑ گیا چھ مہینے کے لئے ۔ اور اسی میں االحمد اللہ اس کی ساری چیزیں ٹھیک ہوگئیں ۔ داڑھی بھی رکھ لی ۔ ماشاء اللہ ذکر بھی کرنا بھی شروع کردیا ۔ درود شریف پڑھنا بھی شروع کیا ۔ تلاوت بھی شرو ع ہوگئی ۔ کپڑے بھی ٹھیک ہوگئے ۔ سب چیزیں ٹھیک ہوگئیں لیکن ایک خامی رہ گئی اور وہ تھی سگریٹ پینا ۔ خیر پانچ چھ مہینے گزرنے کے بعد میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ اب اس کا سگریٹ پینا بھی بند ہونا چاہیے ۔ اچھا اس کے چند روزبعد اس کی یہ عادت بھی چھوٹ گئی ۔ ان سے جب میں نے پوچھا کہ یہ کیسے تو اس نے جواب دیا کہ میرے دل میں خیال آیا کہ جس منہ سے درود شریف پڑھتے ہو اس منہ پر سگریٹ پینا اچھا نہیں لگتا ۔ تویہ ہے اللہ کی طرف سے ہدایت ۔ منجانب اللہ جب ہدایت ملتی ہے تو اس کے لئے ذرائع بہت سارے ہیں ۔ تو ہمیں اللہ پاک سے مانگنا چاہیے ۔ کہ اے اللہ ہمیں ہدایت دے دے ۔ دل سے مانگنا چاہیے ۔ دیکھیں سب سے بڑی نعمت ہدایت ہے
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ﴿۵﴾ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْتَٹھی عَلَیھمْ ﴿۶﴾ غَیرِ الْمَغضُوْبِ عَلَیْھمْ وَلَاالضَّآ لِّین َ﴿۷﴾
یہ وہ دعا ہے جو نماز کی ہر رکعت میں ہم پڑھتے ہیں اور ہمارے اوپر لازم ہے ۔ اب تھوڑا سا اس کے اندر ہم متوجہ تو ہوجائیں کہ ہم کیا مانگ رہے ہیں ۔ اتنی بات بھی اگر ہو تو میں کہتا ہوں کہ ہمارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ساتویں یہ کہ وہ اصلاح کرتا ہو ، مروت نہ کرتا ہو ، آٹھویں بات یہ کہ اس کی مجلس میں خدا یاد آجائے اور دنیا کی محبت کم ہوجائے ۔ بس جس میں یہ آٹھ نشانیاں دیکھو ، وہ صحیح ہے ۔ اب آپ نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ اس کے ساتھ آپ کو مناسبت ہے یا نہیں ہے ۔ میری فریکونسی اس کے ساتھ برابر ہے یا نہیں ہے۔ ہر ہر ریڈیو سٹیشن کے ویویو موجود ہیں لیکن آپ جس کے ساتھ فریکیونسی لگا دیں ریڈیو سیٹ پر وہی آئے گا ۔ بی بی سی لگادو تو بی بی سی سن لیں گے ۔ ریڈیو پاکستان پر لگا دو تو ریڈیو پاکستان سن لیں گے ۔ تو ہر ہر چیز یہاں موجود ہے ۔ اسی طرح جتنے بھی مشائخ ہیں ان کے فیوض و برکات ہوتے ہیں ، آپ کو وہی ملے گا جن کے ساتھ آپ کی فریکونسی ملی ہوئی ہے ۔ اگر مناسبت ہے تو بس ٹھیک ہے ۔ اس سے جڑ جاؤ ۔ انشاء اللہ فائدہ ہوگا ۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو ہدایت نصیب فرما دے ۔ آمین ثم آمین۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ۔