Bayanat (Lectures) - بیانات

گزشتہ ریکارڈ شدہ بیانات

حضرت شیخ سید شبیر احمد صاحب کاکا خیل دامت برکاتہم

دل کی اصلاح

اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ.اَلصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَم ُ عَلیٰ خَاتَمَ النَّبِیینِ۔اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا﴿8﴾ فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰھَا﴿8﴾ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا﴿9﴾ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا﴿10﴾

معزز خواتین و حضرات !
آج کی مجلس اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس مجلس میں بہت سی اہم باتیں پیش کی جارہی ہیں جس کی طرف التفات بہت کم ہے ۔ بیانات میں بہت ساری باتیں بیان کی جاتی ہیں جن کا بیان کرنا ضروری ہوتا ہے آج جس چیز کی طرف غور دلایا جائے گا دوسرے بیانات میں اس کے اوپر توجہ کم ہے لیکن معاشرے اور افراد کے اوپر اسکا اثر بہت زیادہ ہوتاہے
اس کا تعلق تزکیہ کے ساتھ ہے
اللہ جل شانہ نے مختلف آیات کریمہ میں تزکیہ کے اوپر بہت زور دیا ہے
اور حضور کے ارشادات بھی اس پر تزکیہ پر بہت زیادہ ہیں لیکن نفس کی کمزوری کی وجہ سے اس کی طرف التفات نہیں کرتے اور بہت سارے لوگ اس کے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ان بہت ساری نعمتوں سے محروم ہوجاتے ہیں کچھ لوگوں نے شیطان کے اثر سے یا اپنے نفس کے اثر سے بہت سی غلط باتیں اس میں شامل کردی ہیں ﴿یعنی تزکیہ میں ﴾
جس کی وجہ سے یہ مبارک سلسلہ اتنا بدنام ہو چکا ہے کہ کچھ لوگ تو اس کے قریب نہیں جاتے اور کچھ لوگوں کو اس کو مختلف چیزوں کا گو رکھ دھندا بنایا ہوا ہے اور اس میں مختلف غلط چیزیں شامل کی ہوئی ہیں لہذا وہ نام تو ا س ﴿تزکیہ ﴾کا لیتے ہیں لیکن کام بالکل اس کے مخالف کرتے ہیں ۔
تو آج اس کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے آج جو میں مبارک آیات تلاوت کی ہیں وہ اسی کے بارے میں ہیں اس میں اللہ جل شانہ نے نہایت ہی اہم بات ہمیں بتانے کے لیے سات قسمیں کھائی ہیں حالانکہ اللہ تعالٰی کے لیے قسم کھانے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہوتی اللہ تعالٰی تو ہمارے خالق ہیں ہمارے مالک ہیں اللہ تعالٰی ہمیں جو حکم فرمادیں وہ ہمارے لیے ماننا ضروری ہیں
اللہ تعالیٰ کو ہماری کمزوریوں کا پتا ہے اس لیے اس نے ہمیں اس طرف توجہ دلانے کے لیے سات قسمیں کھائی ہیں اور اس کے بعد ایک بہت بڑی حقیقت بیان فرماتے ہیں
اور اللہ تعالیٰ نے آخری قسم نفس کی کھائی ہے
کہ قسم ہے نفس جس نے اس کو برابر کیا تو اللہ تعالیٰ نے نفس کی قسم کھانے کے بعد یہ بھی فرمایا کہ

فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰھَا

کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف یعنی نفس کی طرف اچھائی بھی الہام کی اور برائی بھی الہام کی ہے اور تقوی الہام فرمایا جو بچنے کے لیے ضروری ہے اور بری خواہشات بھی الہام کی ہیں
اب بڑی عجیب بات ہے بعض لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ کیسے اللہ تعالیٰ نے نفس کو برائیاں الہام فرمادیں تو اگر لوگوں کو یہ بات یادرہے کہ ہمارا اس زندگی میں آنا امتحان کے لیے ہے ہم یہاں امتحان کے لیے آئے ہیں اور ہم نے امتحان دینا ہے تو جو اس امتحان میں کامیاب ہوگیا اور جو اس دنیا کے امتحان میں ناکام ہوگیا وہ آخرت میں ناکام ہو گیا تو اس امتحان کے لیے بہت چیزیں ہیں جو انسان کو دی گئی ہیں ان سے بچنے کا حکم فرمایا ہے
جو چیزیں دی گئی ہیں امتحان کے لیے جو برائیاں ہیں ان کو جاننا بہت ضروری ہے ان کو پہچاننا بہت ضروری ہے اور جو ان سے بچنے کے جو طریقے ہیں ان کو سیکھنا بہت ضروری ہے ۔
یہی ہے وہ تزکیہ کا عمل جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا

تحقیق وہ کامیاب ہوگیا جس نے اپنے نفس کو پاک کیا یعنی جس نے اپنا تزکیہ کیا اور ناکام و نامراد ہوگیا جس نے اپنے نفس کو میلا کیا یعنی جس نے تزکیہ سے انکار کیا اور اس نے تزکیہ نہیں کیا تو وہ ناکام و نامراد ہوگیا ۔
اب تزکیہ کا مفہوم کیا ہے؟
اس کے اندر کیا کیا چیزیں آتی ہیں اس کے بارے میں انشاء اللہ مختصر عرض کرتا ہوں
باقی تفصیلات انشاء اللہ آئندہ کے بیانات میں ہوں گی اصل میں جب انسان کو یہاں بھیجا گیا تو جیسے میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ امتحان کے لیے کچھ چیزیں ہمارے نفس کے اندر داخل کی گئی ہیں تو جو خواہشات ابھرتی ہیں اس کو نفس کہتے ہیں او ریہ ہر شخص کے ساتھ ہوتا ہے
اور ہر نفس کی خواہشات ہوتی ہیں اور یہ خواہشات مختلف قسم کی ہوتی ہیں مثلاً ایک خواہش یہ ہوتی ہے
کہ میں بہت مالدار ہوجاؤں میرے پاس مال بہت زیادہ ہو اور لوگ مجھے بہت مالدار کہیں اور میں ہر وقت اپنے مال کو دیکھ کر خوش ہوتا رہوں
جس کو حب مال کہتے ہیں
دوسری بلاجو ہمارے ساتھ لگی ہوئی ے اس کو لذت کی خواہش کہتے ہیں
یعنی لذات کا طالب ہونا بھی اچھا کھانا اچھا پہننا اچھا مکان حاصل کرنا یعنی مختلف قسم کی لذات کو حاصل کرنا یہ جو لذات کی خواہش ہے
اس کو کہتے ہیں حب باہ
یہ ہمارے لیے ایک مشکل امتحان ہے اگر کوئی اس سے نہیں بچا تو وہ بہت زیادہ مصیبت میں پھنس جاتا ہے تو جو اس سے بچ جاتا ہے تو اس کو اللہ تعالیٰ اس کو نواز دیتے ہیں
ایک جو سب سے بڑا پھندا ہے وہ ہے بڑا بننے کا شوق، انسان بڑا بننا چاہتا ہے انسان بڑائی چاہتا ہے یعنی لوگ مجھے سلام کریں لوگ میرے لیے اٹھ کھڑے ہوں لوگ میری عزت وتکریم کریں گے میر ا اچھا نام لیں اس طریقے سے بڑا بننا چاہتا ہے یہ کرسی کی خواہش ہے، خان بننے کی خواہش، یہ اقتدار کی خواہش یہ تمام چیزیں اسی سے متعلق ہیں اس کے لیے﴿برائی کی خواہش﴾انسان اپنے مال کو بھی ضائع کرتاہے اپنی لذات کو بھی ترک کرتاہے ۔تو اتنی بلائیں جو ہیں تو ان تین بلاؤں سے اپنے آپ کو بچانا بھی تزکیہ ہے
یعنی تین بلائیں جب مال حب جاہ اور حب باہ ان تینوں چیزوں سے جو بچ گیا اس کا تزکیہ ہوگیا
اگر کی بات میں عرض کرتاہوں تو وہ یہ ہے کہ جو احکامات ہمیں دئیے گئے ہیں وہ دو طرح کے ہیں ایک تو وہ احکامات ہیں جو ہمارے ظاہری سے متعلق ہیں اور ایک وہ احکامات ہیں جو ہمارے باطن سے ہیں جو احکامات ظاہر سے ہیں وہ نماز،روزہ ،حج ،زکوٰۃ،معلامات وغیرہ میں ہیں وہ ظاہر ہیں کہ وہ آتی ہیں کہ آدمی نماز پڑھ رہا ہے ،سجدہ کررہا ہے یہ تمام ترکیب ظاہر ترکیب ہیں اس عرق کو فقیہ ہیں تو فقیہ پر پڑھی کتابیں لکھی ہیں
اور اس کی وہاں سے تفصیلات معلوم کی جاسکتی ہیں اور کچھ احکامات باطن سے متعلق ہیں مثال کے طور پر ہمارا دل کیسا ہونا چاہئے ہمارے دل کے جذبات کیسے ہونے چاہئے ہمارے دل کے اختیارات کسے ہونے چاہیئں ۔
ہمارا دل کس طرف مائل ہونا چاہئے،
ہمارے دل میں کون سے اوصاف ہونے چاہئے
اور کون سے نہیں ہونے چاہئے یہ تمام چیزیں جو دل سے تعلق رکھتی ہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے
مثال کے طور پر تکبر ہے یہ بہت بڑی بلا ہے لیکن اس کے بارے میں بظاہر کوئی نہیں جانتا یہ اللہ تعالیٰ کو ہی پتا ہے کہ لوگوں میں تبرو ہے اور کو ن متبرہ نہیں ہے تکبر او رخودداری میں فرق بہت کم لوگوں کو نظر آتاہے بعض خودار لوگوں کو لوگ متکبر سمجھتے ہیں اور بعض متکبر اپنے آپ کو خوددار کہتے ہیں یہ فرق کرنا کسی کامل ہے کا کام ہے اور اللہ تعالیٰ ہی اس کا پتا چلا سکتے ہیں تو یہ دل کے ساتھ متعلق خبریں ہیں تو دل کے اندر اگر تکبر ایک رائی کے برابر بھی ہوتو وہ شخص جنت میں جاسکتا تو اپنی خطرناک چیز جو کسی وقت دل میں داخل ہو سکتی ہے
تو اس کے بارے میں جاننا اور اس کے بارے میں پہچاننا کتنا ضروری ہے۔
پس تکبر کو دل سے نکالنا اور اس کی جگہ عاجزی کودل میں لانا، تواضع کو لانا اور ریا کو دل سے نکالنا کہ لوگ اچھے اعمال کو دوسرے لوگوں کے خوشنودی کے لیے کریں اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے بھی کریں اور دوسرے لوگوں کے لیے بھی کریں تو پھر
اس کو شرک خفی کہتے ہیں
لہذ ا یہ بھی بہت بری چیز ہے اور بری بلا ہے اس سے بھی بچنا ہے تو ریا کو نکال کر اخلاص کو پیدا کرنا ہے اس طرح توسیض حاصل کرنا یعنی ہم سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اوپر چھوڑ دیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنا حضور صلی اللہ و علیہ وسلم کی محبت کو حاصل کرنا یعنی اسلام کے متعلق جو امور ہیں ان کی محبت حاصل کرنا دل سے ان کے اوپر ایمان لانا تو یہ تمام چیزیں کیا ہیں یہ ایمان قلب ہیں تو جو ایمان قلب ہیں ان کے متعلق جو امور ہیں اس کو سمجھنے کے لیے اور اس کے اوپر عمل کرنے کے لیے اور ان پر عمل کرنے کے طریقے کو سیکھنے کے
اس نظام کو تصوف کہتے ہیں
یہ بھی اصل میں تصوف باطن کا فقہم ہیں لیکن اس کا عام لوگوں کی زبان میں تصوف ہے اس تصوف کو لوگوں نے بہت بدنام کیا ہے ۔اس کا تعلق اصل میں دل کے ساتھ ہے اس لیے اس کی بہت سی باتیں ظاہر نہیں ہوتیں لہذا گمراہ لوگوں نے اس سے ناجائز فائدہ اٹھا کر غلط چیزیں اس کے اندر داخل کردیں اور اس وجہ سے لوگوں نے تصوف کو بدنام کیا ہے حالاں کہ قرآن و حدیث یہ تصوف بالکل ثابت ہے ۔یعنی قرآن و حدیث سے بھرا ہوا ہے ۔ ماشاء اللہ ہمارے جو اکابر ین ہیں
جن میں حضرات مولانا اشرف علی تھانویؒ کا نام بہت مشہور ہے
انہوں نے تقریباًایک ہزار سے زائد کتابیں لکھی ہیں ۔انہوں نے اس کے اوپر بہت کام کیا ہے ۔انہوں نے فرمایا ہے کہ تصوف سے قرآن و حدیث بھرے ہوئے ہیں لیکن لوگوں کو نظر نہیں آتا لوگوں کو صرف یہ نظر آتا ہے کہ صلوٰۃ ،زکوٰۃ ۔نماز پڑھو زکوٰۃ دو یہ تو لوگوں کو نظر آتاہے لیکن

ان اللہ مع الضابرین ، واللہ تحب الشاکرین

یہ لوگوں کو نظر نہیں آتا حالانکہ یہ بھی بہت واضع احکامات ہیں
اور یہ احکامات تصوف کے بارے میں ہیں علم حاصل کرنا اس کو سمجھنا اس کے طور طریقے کو سمجھنا اس کے بارے میں بھی ہمیں جاننا ہے اور یہ ہماری مجالس ہیں ۔
عمومی طورپر اس مقصد کے لیے ہیں تاکہ ہم ان تمام چیزوں کو سیکھیں تاکہ لوگ ہمیں دھوکہ نہ دیں سکیں اگر ہم نے ان چیزوں کی حقیقت کو نہ پہچان لیا ہوگا تو پھر اگر لوگ غلط چیزیں ہمارے سامنے لائیں گے تو پھر ہم ان سے ٹکرائیں گے کہ یہ تصوف نہیں ہے یہ تو شیطانی چال ہے اس جال میں انشاء اللہ ہم نہیں پھنسیں گے اور جو صحیح تصوف ہوگا ان سے ہم تمام صحیح چیزیں حاصل کر سکیں گے
جو اس کے تو میں عرض کررہا تھا کچھ اعمال ظاہرہ ہیں کچھ اعمال باطنہ ہیں
اسی طریقے سے جو اعمال مقصودہ ہیں ان میں بھی دو قسمیں ہیں
یعنی جن اعمال کو کرنا ہے وہ اس میں آتے ہیں اور جن اعمال سے بچنا ہے وہ بھی ہمارے مقاصد میں آتاہے
مثلاً ہم ظاہر کرلیں تو ظاہر میں کچھ فرائض ہیں جن کو کرنا ضروری ہے جن کے انکار سے انسان کفر میں مبتلا ہوجاتا ہے ان کو کرنا لازمی ہے اگر کوئی نہیں کرے گا تو گناہاو ر ہوگا تو اس کے مقابلے میں حرام ہے تو حرام سے بچنا بہت ضروری ہے اسی طرح واجبات ہیں اور اس کے مقابلے میں مکروبات ہیں ۔
اسی طرح سنت ہے مستحبات ہیں ان کے مقابلے میں مکروہ تنزیحی ہیں اور مستحبات کا تو بہت لمباچوڑا حساب ہے تو یہ جس طرح ظاہر کے متعلق ہیں تو اسی طرح باطن کے متعلق اعمال بھی ہیں باطنی فقہ میں یعنی تصوف میں بھی کچھ اعمال مقصودہ وہ کرتے ہیں
اور کچھ چیزوں کو چھوڑنا ہے مثال کے طور پر جو کرنے کی چیزیں ہیں وہ اخلاص ہیں وہ تقاضع ہیں وہ تفویض ہے وہ تو کل ہے وہ تورضا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہے
یہ تمام چیزیں تو حاصل کرنی ہیں اور جن چیزوں سے بچنا ہے وہ ریا ہے وہ تکبر ہے وہ غیر پر بھروسہ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کی بجائے دنیا کی محبت ہے
اور اس طریقہ سے دنیاوی لزات میں طلب ہیں ۔یہ تمام چیزیں دل سے نکالنا ہیں اسطرح جو کرنے کے اعمال ہیں وہ علیحدہ ہیں اور جن کو نہیں کرنا ہے وہ علیحدہ اعمال ہیں ان دونوں کو جب ہم جمع کریں کے تو ہم کہیں کہ یہ مقاصد ہیں یعنی تصوف کا مقصد کیا ہے ان مقاصد کو پورا ہکرنا ان اعمال باطنہ کے اوپر عمل پیدا ہوجانا
یہ تصوف کہلائے گا
یہ کام تو ہمارے کرنے کا ہے یعنی جن اعمال کے کرنے کا حکم ہے مثلاً رضا تفویض تو کل ان کو تو ہم حاصل کریں گے اور جن چیزوں سے بچنے کا حکم ہے ان سے بچنے کے طریقے سوچیں گے اور اس کے اوپر سوچیں گے اور اس کے اوپر غور کریں گے اور ان سے بچنے کی کوشش کریں گے جسے ریا ہے تکبر ہے اور اس دنیا کی محبت ہے وغیرہ ۔یہ اعمال مقصودہ ثبوت ہیں ان کے کچھ اثرات ہوتے ہیں اور وہ اثرات کیا ہیں وہ اثرات دو قسم کے ہیں یہ اثر یہ کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے راضی ہوجاتے ہیں اللہ پاک کے ہاں اس کا ایک مقام ہوجاتاہے اللہ پاک کے ہاں اس کو ۔۔۔۔۔۔۔حاصل ہوجاتی ہے ۔
اس کو کہتے ہیں سنت
یعنی اس کو سنت حاصل ہوجاتی ہے
اسکو بعض لوگ وصول بھی کہتے ہیں چونکہ آج کل ایک عجیب وباء چلی ہے ۔ڈائجسٹ کے اند ر اور رسالوں کے اندر اس قسم کی چیزیں بہت آتی ہیں اور ہمارے جو نوجوان طبقہ ہے چاہے وہ مرد ہیں چاہے وہ عورتیں ہیں ان ڈائجسٹوں میں تصوف کے بارے میں بالکل الٹی سیدھی باتیں آتی ہیں لیکن ان کے لیے جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں اور یہی الفاظ بعد کے ہیں الفاظ صحیح ہوتے ہیں لیکن ان کے معنی غلط حاصل کرتے ہیں ۔
لہذا ان اصطلاحات کو بتانا بھی بہت ضروری ہے حالانکہ ہم تصوف کو سادہ الفاظ کے اندر ہم بتانا چاہیں بہت آسان ہیں اس کے لیے ان الفاظ کی ضرورت ہی نہیں ہے لیکن ا ن الفاظ کو سمجھانا اس لیے ضروری ہے تاکہ ان الفاظ کے ذریعے ان اصطلاحات کے ذریعے لوگ ہمیں دھوکہ نہ دیں سکیں تو وصول بھی اسی کو کہتے ہیں تو وصول کیا ہے اللہ پاک کے ساتھ ایسا تعلق کہ ہر معاملہ میں انسان اللہ تعالیٰ کی طرف بھاگے ۔
اللہ تعالیٰ سے طلب کرے ایاک نعبدو ایاک نستعین ۔
کی کیفیت انسان کو حاصل ہوجائے تو ہم اس کو ہم کہتے ہیں وصول
تو جب وصول حاصل ہوجاتاہے اللہ پاک کا قرب انسان کو حاصل ہوجاتاہے
اللہ پاک کے ہاں اس کو ایک مقام حاصل ہوجاتاہے تو یہ ایک شجرہ ہے
اور دوسرے شجرہ انسان کی طرف ہے وہ کامل بندگی ہے انسان اپنے آپ کو مکمل بندہ سمجھنے لگتا ہے ۔
غلام کے تو کچھ حقوق ہیں لیکن بندہ کے کوئی حقوق نہیں ہیں بندہ صرف اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوتاہے جس طرح اللہ تعالیٰ اس کو رکھنا چاہئے اسی سے وہ راضی رہتا ہے ۔ ہاں جس سے اسکو حکم ہے اسی طرح سے وہ حکم کو پورا کرے گا اور جو بھی ادھر سے لہجہ حاصل ہوگا اس طرح دل سے مطمئن ہوگا اس کو اطنا رن قلبی اور انتہائی درجہ کی حاصل ہوگی وہ اللہ تعالیٰ پر کامل طور پر بھروسہ کررہا ہوگا وہ سمجھ رہا ہوگا کہ میرے لیے اسی میں خیر ہے یہ جو بندگی کی کیفیت ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمادے
آمین ۔
یہ تصوف کا معراج ہے

اشہدان لاالہ الااللہ واشدان محمد عبدہ ورسول

اس میں جو عبدہ کا جو لفظ ہے
وہ رسول سے بھی پہلے آیا ہوا ہے
یعنی یہ جو بندگی ہے
یہ بہت ہی اعلی مقام ہے جو انسان کو حاصل ہوسکتاہے ہم کو یہ کیفیت حاصل کرنا ہے تاکہ ہم سب اللہ تعالیٰ کے بندے ہوجائیں ۔
اس کے لیے ان مقاصد کو پورا کرنا پڑتاہے جن کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے اب ان چیزوں کو حاصل کرنے کے طریقے کیاہو سکتے ہیں
ان کو کہتے ہیں ہم ذرائع
کچھ ہو تے ہیں مقاصد ،جن کو میں نے ذکر کان مقاصد تبدیل نہیں ہوسکتے، مقاصد دین کے متعلق تو امور ہوتے ہیں
جن کا تعلق وحی سے ہوتاہے
اور وحی کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے لہذا مقاصد میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی

﴿یوم اکمل تکم دین کم ﴾

لہذا یہ بات پکی ہوچکی ہے کہ اس دین میں اب کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی اور مقاصد بالکل وہی ے وہیں رہیں گے اور ذرائع ہیں ان تبدیلی مسلسل ہوسکتی ہے
مثلاً علم کا حاصل کرنا یہ مقصد ہے تو علم کو حاصل کرنے کا طریقہ جو حضورِ کے وقت جو تھا وہ صرف صحبت تھا صحبت ہی کے ذریعے علم حاصل ہورہا تھا اس وقت نہ کوئی یونیورسٹی تھی اور نہ کوئی مدرسہ تھا اور نہ کوئی اور ذریعہ تھا صرف حضور ِ کی صحبت تھی وہی سب کچھ تھا اور اسی سے صحابہ کرام سے ہیں اور اسی سے ان کو یہ سب مقامات حاصل ہوئے ہیں لہذا اس وقت وہی ذریعہ تھا لیکن جب حضور ِ اس دنیا سے تشریف لے گئے اور صحابہ کرام بھی اس دنیا سے چلے گئے تو اس کے بعد وہ بات نہیں رہی یعنی وہ صحبت والی بات نہیں رہی ۔
ہوتاہے
اور اسی کو شیخ کہتے ہیں
تو شیخ کے ساتھ ایک معاہدہ ہوتاہے
جس معاہدے کو بیت> کہتے ہیں
تو بیت کا بنیادی مقصد اپنی تربیت کا معاہدہ ہے کہ مرید یہ وعدہ کرتاہے کہ میں اپنے حالات کی اطلاع کروں گا اور جو بتایا جائے گا اس پر عمل کروں گا
اور یہ وعدہ کرتا ہے کہ مجھے جس چیز کی ضرورت ہوگی وہ میں بتادیا کروں گا اور جو علاج بتایا جائے گا اس پر عمل اور اس کی نگرانی کروں گا تو اس میں یہ معاہدہ ہوتاہے اورا س میں اصل بنیادی چیز تربیت ہے اور بنیادی چیز بیتگ نہیں ہوتی بیتئ تو صرف ایک ذریعہ ہے
یہ سنت مستحبہ ہے اور ناجائز بھی نہیں ہے یعنی سنت مستحبہ ہے اسپر اجر بھی ملتاہے لیکن فرض یاوا جب بھی نہیں ہے
بعض تو لوگوں نے اس کو فرض یاواجب سمجھا ہے یہ ان کی غلطی ہے اور بعض لوگوں نے جو اس کو فضول سمجھا ہوا ہے یہ ان کی غلطی ہے اصل بات یہ ہے کہ یہ سنت مستحبہ ہے حضورِ کے خواہش سے پست لی تھی
اور ان کو امور بتائے تھے کہ ان امور میں مبتلا نہیں ہوتا مثلاًکہ نوحہ نہیں کرنا ہے اور اس طریقے سے دوسرے لوگوں کو غلط کاموں سے بچنے کے لیے آپ ِ نے ارشاد فرمایا تھا
اس آپ ِ کے ہاتھ مبارک پر عورتوں نے بیت کر لی تھی اسی طرح مردوں کی بھی بیتط ثابت ہے تو یہ سنت مستحب ہے اور اگر کسی نے بیتr نہیں کی ہے تو وہ گناہ گا ر نہیں ہے اور اگر کسی نے بیتک کی ہے تو وہ بھی گناہ گار نہیں ہے بلکہ اس کو اچھا فائدہ ملے گا اور اس کو اجر ملے گا اور یہ بہت ہی اچھا طریقہ ہے۔لیکن اس بنیادی چیز کیا ہے وہ بنیادی چیز اپنی برکت ہے
اور اپنی اصلاح ہے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بیت کی جاتی ہے بعض لوگ بیت کر لیتے ہیں اور بالکل فارغ ہوجاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ اب ہم سلسلہ میں داخل ہوگئے ہیں اب ہمیں سلسلہ کی تمام برکات حاصل ہوگئی ہیں اب ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے تو یقین برکات تو حاصل ہوجاتی ہیں لیکن محض برکات سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ برکات کسی عمل سے حاصل ہوتی ہیں ۔
مثال کے طور پر میری آواز ہے یہ لاوڈ سپیکر سےآتی ہے اب لاوڈ سپیکر اس آواز کو بڑھا دیتا ہے لیکن میں بولوں نہیں تو سپیکر سے میری آواز بڑھے گی ہی نہیں
تو اسی طرح جو سلسلہ کی برکات ہیں اس سے ہمارے اعمال کا وزن تو بڑھ ہی جاتاہے اگر میں اعمال ہی نہ کروں تو وزن کیسے بڑھے گا ۔
لہذا بیت< کرتے میں جو بنیادی چیز ہے وہ عمل خود کرنا پڑتا ہے
مرشد صرف طریقہ بتاتاہے
لیکن سلسلے کی برکت سے اس کا وزن بڑھ جاتاہے فائدہ بڑھ جاتا ہے لہذا بیت کرنے سے فائدہ ضرور ہوتا ہے لیکن بیت/ محض کچھ بھی نہیں ہے ۔
لہذا اعمال بھی کرنے پڑتے ہیں اور اعمال بھی کرنے پڑتے ہیں اور اعمال تو نبھانا بھی ہوتے ہیں سلسلے کے ہاتھ تعلق بھی رکھنا ہوتاہے اس کے لیے اطلاع بھی ہوتی ہے اطلاع کا مقصد یہ ہے کہ ایک انسان اپنے حالات کی اطلاع اپنے مرشد کو دیتاہے اور مرشد اس کے اندر جو چیز دیکھتاہے اس کی بنیاد پر اس کا علاج تجویز کرتاہے گویا کہ ا س کے لیے نسخہ لکھ دیتاہے
اس نسخہ پر پھر مرید عمل کرتاہے
اور مرید جب عمل کرتا ہے تو ادھر سے جو حالات پیدا ہوتے ہیں پھر اس کی اطلاع دیتاہے اس طریقے سے مرشد صرف اس میں تبدیلی کرتاہے
اور پھر مرید نسخہ لکھتاہے
اسی طرح سے جو لکھنا ہے ۔ماشاء اللہ بڑھتے بڑھتے جب عمل مسلسل ہورہا ہو تو الحمداللہ اس کے نتائج پیدا ہوجاتے ہیں پھر اعمال مقصودہ پیدا ہوجاتے ہیں اعمال مقصودہ کا پیدا ہونا ضروری ہے
اس کا ذکر حدیث احسان میں بھی ہے کہ عمل اس طریقہ سے کرو عبادت اس طریقہ سے کرو جیسے تم اللہ کو دیکھ رہے ہو ورنہ اللہ تعالیٰ تمیں تو دیکھ ہی رہا ہے لہذا یہ بیت ،مقصودہ پیدا کرنے کے لیے ان تمام چیزوں کو کرنا پڑتاہے اور شدہ شدہ اصلاح ہوجاتی ہے
اور لوگوں کا کا م بن جاتاہے تو لہذا عمل کرنا ضروری ہے اطلاع دینی پڑتی ہے اس کے اوپر جو نسخہ لکھا جاتاہے اس کو نبھانا پڑتا ہے اس اتبع کرنا پڑتاہے اس طریقے سے اطلاع ہوتی ہے اور پھر اتبع ہوتی ہے
اس طریقے سے اپنے مرشد سے یہ اعتقاد رکھتاہے یہ مرشد میرے لیے پوری دنیا میں میرے لیے سب سے زیادہ مفید ہے اور سب سے افصل نہیں ہے
کیونکہ افضل ہونے کے بارے میں کوئی کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ یہ بات تو صرف اللہ کو پتا ہے کہ کون افضل ہے اور کو ن افضل نہیں ہے لیکن جس مرشد کے ہاتھ اس کا تعلق ہے وہ واقعتا سب لوگوں سے زیادہ اس کے لیے مفید وہی ہے اور اسی کے ساتھ تعلق رکھنے کو انقیاد کہتے ہیں تو گویا کہ چار چیزیں ہوگئیں ۔
﴿1﴾ اطلاع ﴿2﴾ اتبع ﴿3﴾ اعتقاد ﴿4﴾ انقیاد
تو ایک شاعر نے بہت اچھے انداز میں اس کو باندھا ہے

چار حق مرشد کے ہیں رکھ ان کو یاد

اطلاع و اتبع و اعتقاد و انقیاد

ان تمام چیزوں کو سیکھنا پڑتاہے پھر اس کے بعد اس کے ذرائع آتے ہیں ان میں سب سے پہلے ذکر آتاہے تو وہ ذکر بتادیتے ہیں اور ذکر کرنے کا طریقہ بتادیتے ہیں ذکر کیا چیز ہے اس سے دل نرم ہوجاتاہے دل کے اندر رقعت آجاتی ہے اور دل کے اندر صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے ان اعمال کو حاصل کرنے کیلئے تو ذکر کی جو کثرت ہے وہ بار بار قرآن پاک میں کہا گیا ہے اس وجہ یہی کہ ذکر سے دل کے اندر صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے
اور رقعت پیدا ہوجاتی ہے قلب کے اندر اصلاح کا مادہ پیدا ہوجاتاہے
پھر جب صحبت صالحین اس کو حاصل ہوجاتی ہے تو پھر صحتr صالحین سے وہ چیزیں خود بخود اس کے اندر آجاتی ہیں کیونکہ ذکر نے زمین کو ہموار کر لیا ہے ذکر سے یہ کیفیت پیدا کرتے ہیں کیونکہ سچ طریقہ جانتا ہے لہذا ذکر کے طریقے کے بارے میں سچ وقتا وقتا اس کو بتاتاہے اس سے جب انسان ترقی کرتاہے اس بارے میں مراقبات آنا ہے پھر کبھی انشاء اللہ تعالیٰ عرض کروں گا اور
اگر مراقبہ میں بھی کسی کے ناکامی ہو کوئی مسلہ تو اس کو دور کرنے کے لیے شغل ہوتاہے اس کے بارے میں بھی کبھی عرض کروں گا لہذا یہ ہے کہ ذرائع اختیار کرنے پڑتے ہیں اور خود نہیں بلکہ کسی سچ کی نگرانی میں ذرائع اختیار کرنے پڑتے ہیں
پھر اس سے ایک کیتوں طاری ہوجاتی ہے کچھ احوال پیدا ہوجاتے ہیں تو کچھ احوال میں ضرر ہوسکتا ہے اور کچھ احوال میں ضرر نہیں ہوتا تو حسن احوال میں ضرر نہیں ہوتا
مثال کے طور پر ہے اور بہت سی اچھی اچھی چیزوں کا خودبخود پتا چلنے لگتاہے اور اچھی اچھی چیزیں سمجھ میں آنے لگتی ہیں تو یہ مقام رضا ہے یہ تمام چیزیں کیا ہیں ان کے اندر ضرر نہیں ہے لیکن کچھ چیزوں کے ساتھ ضرر بھی ہے مثال کے طور پر بعض لوگوں کو وحدۃ الوجود کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جو اس کے ساتھ کچھ ضرر بھی ہے اس ضرر سے بچنے کا طریقہ بھی تسبحر کو آتاہے لہذا وہ شیخ ان سے انکو بچانے کی کوشش کرتاہے
لیکن جیسے انسان راولپنڈی سے لاہور جاتاہے تو راستے کے مختلف سٹیشن شہروں کے آتے ہیں تو جس طرح انسان ان سٹیشنوں سے گزرتاہے بے شک انسان چاہتے یا نہ چاہتے سٹیشن آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں اسی طرح یہ چیزیں بھی انسان چاہتے نہ چاہتے آجاتی ہیں لیکن یہ چیزیں مقصود نہیں ہے بے شک آپ کو نظر آئے یا نہ آئے کیونکہ منزل مقصود پر پہچنا ضروری ہے جس طرح لاہور سے راولپنڈی جاتے ہوئے راولپنڈی پہنچنا ضروری ہے اگر راستے میں کسی نے منڈی بہاوالدین کسی نے دیکھا ہے ٹھیک ہے اگر نہیں دیکھا ہے تو کوئی نقصان نہیں ہے اگر راستے میں گجرات دیکھ لیا تو ٹھیک ہے اگر نہیں دیکھا تو کوئی مسلہ نہیں ہے اصل مقصد راولپنڈی پہنچنا ہے اسی طرح جو احوال درمیان میں طاری ہوتے ہیں اس کے بارے میں تسبحٹ رہنمائی فرماتے رہتے ہیں کہ اس سے بچنا ہے اور اس چیز کی طرف غور نہیں کرنا ۔ میں نے بھی اپنے تسبحم سے کچھ اس قسم کی باتیں
ایک دفعہ عرض کی تھی جو حضرات نے فرمایا کہ بھا ئی ان سے بچو کہ یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں تو اس طرح کے راستے کے کھیل تماشے راستے میں آتے رہتے ہیں بعض لوگوں کو کشف ہونے لگتاہے حلانکہ کشف جو پہلے وہ مقصود نہیں ہے یہ بھی راستے کے کھیل تماشے ہیں تو اس میں بھی بعض حضرات دیتے ہیں تو مقصود یہ ہے کہ بعض لوگوں کو اچھے اچھے خواب آتے ہیں وہ بھی مقصود کیفیت نہیں ہے تو بعض لوگ اس میں پھنس جاتے ہیں وہ کہتے ہیں
کہ ہمیں کشف ہوگیا بس ہم بزرگ ہوگئے
تو اس کا مطلب ہم وہ بالکل تھک گئے اب ان کی ترقی کا راستہ بالکل بند ہوگیااگر تسبحی کا مل کے ساتھ انکا رابطہ ہوگا تو وہ ان کے گھر بتادے گا کہ بھائی کیتت کوئی لازمی چیز نہیں ہے نہ کوئی مقصود ہے آپ اس سے بچو ان چیزوں میں نہ پڑو وہ راستہ کرے گا وہ آگے بڑھے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان سب چیزوں سے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے ساتھ جو ثمرات ہیں ان کو حاصل کرنے کا طریقہ بتادیں یہ باتیں انتہائی جلدی میں مختصراً عرض کی ہیں اگر کسی کو اس سے کوئی مسلہ ہو تو اس کے بارے میں میں تفصیل سے بعد میں عرض کروں گا لیکن یہ جو کیسٹ میں نے آج تیار کی ہے اس کا مقصد یہی ہے انشاء اللہ اگر کسی کو اس میں اگر کسی کو مسلہ ہو تو اس کیسٹ کو بار بار سنا جائے اس کے اندر وہ باتیں ہیں ان پر غور کیا جائے اس کے بارے میں اگر پوچھنا چاہے تو وہ شریعت کے طریقے کے مطابق بھی پوچھ سکتا ہے ۔
مختصرا میں یہ عرض کروں کہ ان مقاصد کو حاصل کرنے سے جو ثمرات حاصل ہوتے ہیں ثمرات حاصل ہوتے تک ان چیزوں کو آگے بڑھانا اور اس پر عمل پیدا ہونا اعتقاد تعلق رکھانا اور انقیاد کا تعلق رکھنا یہ لازمی ہے ۔
یہ آگے بڑھتا رہتاہے اور اس کے برکت سے اللہ تعالیٰ دل کو نورانی بنادیتے ہیں ۔
اورجب دل نورانی بن جاتاہے تو اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان جو تعلق ہوتاہے اس کے بارے میں جو حالات ہیں اورجو حقیقت ہے وہ انسان کے اوپر شکار ہونے لگتی ہے اس کو کہتے ہیں حقیقت تو جو پہلے جس کے بارے میں نے یہ بات کی اس کو کہتے ہیں تصوف یا طریقت اور اس طریقت کا نتیجہ ہوتاہے حقیقت اور جب حقیقت انسان کو حاصل ہونے لگتی ہے تو اس کے بعد اللہ جلہ شانہ جو معرفت ہے بھی اللہ تعالیٰ کی منشاء بندے کے بارے میں کیا ہے ۔
اس کی پہچان ہوجاتی ہے اس کو کہتے ہیں معرفت تو ایسا شخص جس کو ایسی کیفیت حاصل ہوجاتی ہے
تو اس کو کہتے ہیں عارف اللہ
تو اللہ پاک ہم سب کو اپنی معرفت نیب فرمائے
آمین اور تمام جو ضروری حقیقتیں ہیں ان کو حاصل کرنے کا طریقہ ہمیں عطا فرمائے اور اپنے بزرگوں کے نقشِ قدم پر صحیح طریقے سے چلائے اور جو ان کے مقاصد ہیں ان کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ا س کا جو لازمی ثمرہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے وہ ثمرہ ہمیں نصیب فرمائے ۔
و آخر داعوانہ الحمداللہ رب العلمین ۔