اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ۔اَلصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَم ُ عَلیٰ خَاتَمَ النَّبِیینِ۔اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔فَاِنّ مَعَ الْعُسْر یُسْراً۔َاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْراً و قال علیہ الصلوٰۃُ و السلام الدین یسرٌ صدق اﷲ العلی الظیم و صدق رسولہ النبی الکریم
پس تنگی کے ساتھ آسانی ہے اور تنگی کے ساتھ آسانی ہے اور آپ ﷺِ کا ارشاد مبارک ہے کہ دین آسان ہے
بزرگواور دوستو ! دین بہت آسان ہے ۔ لیکن ایک چیز اس پر عمل کو مشکل بناتی ہے ۔ اگر اس کا علاج ہوجائے تو پھر سب کچھ آسان ہوجائے سوال یہ ہے کہ دین آسان کیسے ہے؟ اور اس چیز کے ساتھ مشکل کیوں ہوجاتا ہے پھر علاج کے ذریعے اس مشکل کو کیسے دور کیا جاتا ہے؟ دین آسان اس لئے ہے کہ یہ دین فطرت کے مطابق ہے اور جو چیز بھی فطرت کے مطابق ہو وہ آسان ہوتی ہے مثلاً پانی ڈھلوان کی طرف بہتا ہے یہ اس کی فطرت ہے۔ اگر آپ اس کو اوپر کی طرف لے جانا چاہیں تو پھر مشکل ہوگی اسی طرح ہمارے جسم کی جو ساخت ہے اسے مدنظر رکھ کر اگر ہم شریعت کے مطابق عمل کریں تو بہت آسانی رہتی ہے ۔ آنکھ ، کان ، زبان ، دل دماغ ان سب چیزوں کو راحت ہو تی ہے ۔ ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر صحیح کام کرتی ہے ۔ اس لحاظ سے دین بہت آسان ہے کیونکہ یہ فطرت کے مطابق ہے ۔ لیکن اگر ہم شریعت کے مطابق نہیں چلیں گے تو پھر بے شک ہمیں محسوس ہو یا نہ ہو کچھ عرصہ بعدخود بخود احساس ہوجاتا ہے کہ کسی چیز کا نقصان ہورہا ہے ۔ اب دین کو مشکل بنانے والی چیز کیا ہے ؟ وہ چیز نفس ہےنفس کی خواہشات بہت محدود اور فوری ہوتی ہیں ،نفس زیادہ دور نہیں سوچتا وہ فوری تقاضوں پر عمل کرتا ہے مثلاً smoking﴿سگریٹ نوشی﴾ کو لے لیں ایک آدمی smoking کررہا ہے تو اس کی خواہش ہے سگریٹ پینے کی ، اب اس کے سگریٹ پینے کا مزا کتنی دیر تک رہے گا ۔ آدھے گھنٹے کا ہوگا ، ایک گھنٹے کا ہوگا یا زیادہ سے زیادہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب تک اس کو دوسری سگریٹ کی طلب نہیں ہوتی ، وہ مزا اس کا برقرار رہے گا ۔ بس اتنی دیر تک وہ مزا ہوگا ۔ جو دن میں دس سگریٹ پیتا ہے اس کا مطلب ہے کہ اس کا مزازیادہ سے زیادہ سو ا گھنٹے کا ہے اور جو کم پیتا ہے اس کا نسبتاً زیادہ ہوگا ۔ یہ مثال میں اس لئے دے رہا ہوں کہ بات سمجھ میں آجائے ۔ اب اس سگریٹ کا نقصان کتنی دیر کے لئے ہوگا ۔ ہر نیا سگریٹ آپ کے جسم پر بوجھ ہے ۔ اگر آپ نے دو سگریٹ پیے ہیں تو آپ کا جسم دو سگریٹوں کا نقصان اٹھائے ہوئے ہے ۔ اگر تین سگریٹ پتےک ہیں تو تین سگریٹوں کا نقصان ہوا ہے ۔ اسی طرح اگر کسی شوگر کے مریض نے کوئی میٹھی چیز استعمال کی ہے تو اس کا نقصان کتنا ہوگا ۔ جتنی جتنی زیادہ میٹھی چیزیں کھائے گا ، اتنا اتنا نقصان بڑھ رہا ہے ۔ حتی کہ وہ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو سکتا ہے ۔ اس لحاظ سے نفس کی جو خواہش ہوتی ہے وہ اندھی ہوتی ہے ۔ یہ زیادہ دور نہیں دیکھتا ۔ یہ فوری تقاضے پر عمل کرنا چاہتا ہے زنا کو لے لیں اس کا مزا بھی تھوڑی دیر کے لئے ہوگا ۔ لیکن یہ ایسی چیز ہے جس پر قتل بھی ہوسکتا ہے ۔ بدنامی اور دوسری چیزیں الگ ہونگی ۔ اس طرح چوری ، ڈکیتی سب چیزیں اس میں آجاتی ہیں ۔ محدود فائدے کیلئے انسان بہت لمبے عرصے کا نقصان اٹھاتا ہے ۔ یہ میں دنیا کی بات کررہا ہوں ، ابھی میں نے آخرت کی بات نہیں کی ۔ یہ میں دنیا کے نقصان کی بات کررہا ہوں ۔ اللہ جل شانہ قرآن پاک میں فرماتے ہیں
کَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ و تَذَرُونَ الْآخِرۃ
ہر گز نہیں مگر تم جو قریب آنے والی چیز ہوتی ہے اس پر ریجھتے ہو اور جو بعد میں آنے والی چیز ہے اس کو چھوڑتے ہو ہماری نفسیات کے بارے میں اللہ پاک نے قرآن پاک میں بتادیا ہے ، دین کے اندر سب سے بڑی رکاوٹ یہی نفس ہے ۔ دین ایک دن کیلئے نہیں ہے ۔ دین تو پوری زندگی کیلئے ہے بلکہ اس نہ ختم ہونے والی زندگی کیلئے ہے ۔ دین ہمیں جو دے رہا ہے اس کی ابتداء میں مشقت ہے ۔ اور انتہاء میں راحت ہے ۔ انتہائیں بھی دو ہیں ایک دنیا کی انتہا ہے اور ایک آخرت کی انتہا ۔ آخرت کی انتہا کو ہمیں ماننا پڑے گا کیونکہ ہمارا دین ہے ہی اسی کیلئے ۔ دنیا کی انتہا یہ ہے کہ جب انسان دین پر چلتا ہے تو آہستہ آہستہ جو مشقت وہ اٹھا رہا ہوتا ہے وہ پھر مشقت نہیں رہتی ۔ بلکہ اس مشقت میں مزا آنے لگتا ہے ۔ یعنی وہ مشقت راحت بن جاتی ہے ، مثلاً تہجدکی نماز کے لئے اٹھنا مشقت والی چیز ہے ۔ لیکن جو مسلسل تہجد پڑھتا ہے کیا اس کے لئے یہ چیز مشقت رہ جاتی ہے ؟ اس سے اگر ایک دن بھی تہجد کی نماز قضا ہوجائے تو پتہ نہیں پھر اس پر کیا گزرتی ہے۔ اگر یہ مشقت والی چیز تھی تو اس کو تکلیف کیوں نہیں ہوتی ؟اس لئے کہ مشقت راحت میں بدل گئی ہے ۔ اسطرح دین کی ہر ہر نعمت کا دنیا میں بھی فائدہ ہوتا ہے ۔ ابتداء میں وہ چیز مشقت ہوتی ہے بعد میں مزا آتا ہے، راحت محسوس ہوتی ہے ۔ نفس کی چیزوں کے ابتداء میں راحت نظر آتی ہے لیکن بعد میں وہ مشقت ہوتی ہے۔ مشقتیں بھی دو قسم کی ہیں، ایک آخرت کے لئے مشقت ہے جس کو سب لوگ مانتے ہیں کیونکہ دین ہے ہی اس کے لئے ، اور ایک دنیا کی مشقت ہے جس کے بارے میں ابھی تذکرہ کرچکا ہوں ۔ دنیا میں اس مشقت کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ آپ سکول کے ایک بچے کو لے لیں ۔ والدین اس کو سکول بھیجتے ہیں ، وہ بچہ ضد کرتا ہے کہ میں سکول نہیں جاتا ۔ کیونکہ اس میں مشقت ہے ۔ وہ یہ مشقت برداشت نہیں کرتا کہ میں پڑھوں ،استاد کی جھڑکیاں سنوں ۔ تو بظاہر وہ سکول نہیں گیا اور راحت حاصل کی ، لیکن کیا یہ راحت اسے راس آئے گی ؟ آگے جا کر اس کو بظاہر بڑی مشکل اٹھانی پڑے گی زندگی میں ۔ مطلب یہ ہوا کہ دنیا میں جب انسان کسی تکلیف سے بھاگتا ہے تو فوری مشقت کو دیکھ کر بھاگتا ہے لیکن بعد میں اس کی وجہ سے جو راحت ملنے والی ہے اس کو چھوڑ دیتا ہے ۔ دین کی بات میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس کی ابتداء میں مشقت نظر آتی ہے لیکن بعد میں راحت نصیب ہوتی ہے ۔ تو یہ نفس ہمارے لئے دین کو مشکل بناتا ہے ۔اب اگر اس نفس کی اصلاح ہوجائے تو دین مشکل نہ رہے ۔ بہت آسان ہوجائے ۔ جب نفس ، نفس مطمئنہ بن جائے تو بس اس کو نماز میں بھی راحت ملے گی ، اس کو روزے ، زکواۃ ،حج یعنی اللہ جل شانہ کی ہر عبادت میں راحت ملے گی اور اس کی مخالف چیزوں میں اس کو تکلیف ہوگی ۔ تو اس وجہ سے انسان اگر اپنے نفس کی اصلاح کرلے تو دین مشکل نہ رہے ۔ دین جتنا مشکل نظر آ تا ہے اس کا مطلب ہے نفس میں اتنی گڑ بڑ موجود ہے، اور ابھی نفس پر محنت کی ضرورت ہے ۔ جب تک نفس کی پوری اصلاح نہیں ہوتی اس وقت تک نفس کی چاہت کا اختلاف کرنا عقلمندی ہے ۔ بے شک وہ مشکل نظر آتا ہو ۔ اس وقت نفس کی چاہت کے خلاف کرنا عقلمندی ہے ، اجر تو اس کو مستقل طور پر ملتا رہے گا ۔ کیونکہ جو مجاہدہ وہ کررہا ہے اس کے ذریعے اس کو ہدایت بھی ملے گی اور اجر بھی ملے گا ۔ لیکن جس وقت اس کے نفس کا علاج ہوجائے گا اس کے بعد ماشاء اللہ اس کو اجر بھی ملے گا اور راحت بھی ملے گی ۔
دوسری چیز شیطان ہے ۔ یہ بھی انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے ۔ یہ دورکی سوچتا ہے قریب کا نہیں سوچتا ۔ بات الٹ ہوگئی ۔ نفس فوراً کا سوچتا ہے ۔ شیطان دور کی سوچتا ہے ۔ بڑا ہی چالاک ہے ۔ ایک آدمی کہتا ہے توحید ہی سب کچھ ہے ۔ شیطان کہتا ہے بالکل توحید ہی سب کچھ ہے اور اس کو توحید میں اتنا آگے لے جاتا ہے کہ بزرگوں کی ، اولیا کرام کی اور آپ ﷺِ کی توہین میں ڈال دیتاہے توحید کے نام سے دیکھیں کتنی زبردست چال ہے ۔ وہ خود سامنے نہیں آتا، دور سے وار کرتا ہے ۔ اس طرح اگر کوئی ادب میں آنا چاہتا ہے تو اسے کہتا ہے بالکل ٹھیک ، بہت اچھی بات ہے ادب کرو ، ادب کرو ، اور ادب میں اتنا آگے لے جاتا ہے کہ اسے شرک بنا دیتا ہے یوں سمجھ لیجئے کہ شیطان دور کی سوچتا ہے اور نفس قریب کا سوچتا ہے شیطان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ آپکو کسی چیز میں مزاآتا ہے یا نہیں ۔ آپ کو دنیا کا فائدہ ہوتا ہے یا نہیں ۔ اس کو اس بات سے غرض ہے کہ آپ اس چیز کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے دور ہورہے ہیں یا نہیں ۔ آخرت میں آپ کا نقصان ہورہا ہے یا نہیں ۔ اسی وجہ سے اس کا کافر کے ساتھ ، مسلمان کے ساتھ ، عالم کے ساتھ اور غیر عالم کے ساتھ ، ہوشیار کے ساتھ اور بے وقوف کے ساتھ ، ہر ایک کے ساتھ اپنا اپنا معاملہ ہے ۔ہر ایک کیلئے ایک علیحدہ جال بنتا ہے ۔ سادہ لوح کو سادگی میں مارتا ہے ۔ ہوشیارکو ہوشیاری میں مارتا ہے ۔ عقلمندوں کو عقل کے ذریعے مارتا ہے ۔ عالموں کو علم سے مارتا ہے ۔ جاہلوں کو جہل میں مارتا ہے ۔ ہر ایک کو اسی کے داؤ میں مارتا ہے ۔ یہ شیطان کا کمال ہے ۔شیطان دور اندیش ہے negative دوراندیش منفی دوراندیش ، یہ دور کی کوڑی لاتا ہے ۔ یہ کافر کو ان اچھے اچھے کاموں پر مطمئن کرلیتا ہے جس سے معاشرے میں قدر بڑھتی ہے ،مثلاً پابندی وقت ، معاملات کی صفائی ، باقاعدگی ، ان تمام چیزوں میں اس کو فائنل ٹچ دیتا ہے ، تاکہ لوگ اس کو دیکھ کر کفر کی طرف آجائیں ۔ اور مسلمان کی ہر چیز کو بگاڑتا ہے چاہے وہ دنیا کی چیز ہو چاہے آخرت کی ۔تاکہ اس کو دیکھ کر لوگ اسلام سے متنفر ہوجائیں ، کیونکہ شیطان کو پتہ ہے کہ کافر کامیاب تو ہونہیں سکتا ۔ ظاہر ہے جب تک کلمہ نہیں پڑے گا اس کی کوئی چیز قبول نہیں ۔ لہذا آخر میں میرے ہی پاس آئے گا ۔ اور مسلمان کا اس کو پتہ ہے کہ چونکہ اس کو اسلام کا فائدہ حاصل ہے یہ میرے لئے مسئلہ بن سکتا ہے لہذا اس کو راستے سے کوئی چیز بھی ہٹانے نہیں دیتا کیونکہ اس سے اس کو اجر ملتا ہے کسی مسلمان کو دوسرے مسلمان سے اچھی طرح ملنے بھی نہیں دیتا کہ اس پر بھی اس کو اجر ملے گا ۔ والدین کی طرف محبت کی نظر کرنے سے بھی روکتا ہے کیونکہ اس پر بھی اجر ہے ۔ وہ ہر اجر والی چیز سے روکتا ہے ۔ بس یہی بات ہے کہ آدمی شیطان کی بات نہ مانے اور شیطان کی چال کو سمجھ جائے ۔ شیطان کی کوئی تربیت نہیں کرسکتا وہ ہماری رینج سے باہر ہے ۔ بات صرف یہ ہے کہ انسان اس کی بات نہ مانے ۔ شیطان کسی سے اپنی بات زبردستی نہیں منوا سکتا ۔ اس کو یہ طاقت حاصل نہیں ہے ۔ وہ صرف وسوسہ ڈالے گا اور وسوسہ ڈالنے کیلئے وہ نفس کو استعمال کرتا ہے ۔ جیسے میں نے عرض کیا کہ جو آدمی توحید کی بات کرتا ہے اس کو توحید میں مارتا ہے ۔ وہ انسان کے نفس کو دیکھتا ہے کہ یہ اپنی نفس میں کونسی خواہش لیے بیٹھا ہے ۔ اس کے نفس کو کس چیز کی خواہش ہے ۔ جس آدمی کو مال کی خواہش ہو اسے مال کے ذریعے مارتا ہے ۔ جسے بڑائی کی خواہش ہو اسے بڑائی سے مارتا ہے ۔ جسے لذتوں کی خواہش ہو اسے لذتوں کی طلب میں مارتا ہے ۔ یعنی یہ بات وہ جانتا ہے کہ انسان کے نفس میں کونسی خواہش ہے وہ اسی کے مطابق وسوسہ ڈالتا ہے ۔ اگر کوئی شخص نفس کی اصلاح کرلے تو شیطان سے بھی بچ گیا اور نفس سے بھی بچ گیا ۔ کیونکہ جب نفس صحیح ہوگیا تو پھرشیطان اس کے ساتھ کیا کرسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی بھی قرآن مجید یا حدیث میں یہ نہیں آیا کہ جس نے شیطان کی تربیت کی وہ کامیاب ہوگیا ۔ شیطان کاذکر ضرور ہے مگر اس کے متعلق یہ ہے کہ اس کو دشمنی میں پکڑو ۔ اور یہ فرمایا کہ وہ بے شک تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ لہذا اس کو دشمن تو بتاتا ہے لیکن یہ نہیں بتاتا کہ شیطان کی تربیت کرو ۔لیکن نفس کی تربیت کے بارے میں فرمان ہے قَدْأَفْلَحَ مَن زَكّٰھاَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسّٰهَا یقیناً کامیاب ہوگیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا ، یقیناناکام ہوگیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کا تزکیہ نہیں کیا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نفس کی اصلاح پر زور ہے ، قرآن میں بھی اور حدیث میں بھی ۔ اس وجہ سے دین پر چلنے میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ نفس ہی ہے ۔ شیطان صرف اس کو استعمال کرتا ہے ۔ اگر کوئی نفس کی اصلاح کرلے تو دین پر چلنا بہت آسان ہے ۔ ابھی کچھ مہمان آئے تھے میں ان سے بات کررہا تھا ۔ وہ دین کی کچھ مشکلات کی بات کررہے تھے ، میں نے کہا دین بہت آسان ہے ۔ بس دو روشنیاں ہاتھ میں پکڑ لو پھر کچھ مشکل نہیں ۔ ایک وحی کی روشنی ہے یعنی قرآن و سنت ۔ اس کیلئے علماء کے پاس جاؤ ، ان سے مسئلہ معلوم کرو کہ میں کام کیسے کروں ، یہ ظاہر کی بات ہے ۔ دوسری دل کی صفائی ہے ۔ دل کی صفائی کے لئے صوفیاء کے پاس جاؤ ۔ وہاں اگر آپ کو شیخ مل گیا تو بس اس کے پیچھے پیچھے چلتے رہو ، اور اس کے ساتھ رابطہ رکھو ، بس ماشاء اللہ دین پر چلنا آسان ہوگا ۔تو یہ دو راستے ہیں ۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ میں مرضی بھی اپنی کروں اور پھر راستہ بھی آسان ہوجائے تو یہ تو دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے ۔ جب آپ کارخریدتے ہیں تو اس کی booklet ﴿کتابچہ ﴾پڑھنا پڑتی ہے کہ اس کو کس طرح چلائیں گے تو یہ ٹھیک چلے گی ۔ آپ کوئی بھی کام کرنا چاہتے ہیں تو اس کے ماہرین سے پوچھتے ہیں ۔یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مرضی تو ہم اپنی کریں اور پھر کہیں کہ ساری چیزیں آسان ہوجائیں ، یہ ممکن نہیں ۔ علماء سے ظاہر کی اور صوفیاء سے اپنے دل کی اصلاح کیلئے رجوع کرنا پڑے گی ۔ ان دو راستوں کو زندہ کرلو کوئی مشکل نہیں ۔ آپ ﷺِ نے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے ۔ حدیث جبرائیل میں ہے ۔آپﷺِ سے جبرائیل امین نے تین سوال پوچھے تھے ۔ پہلا سوال ا یمان کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ، اللہ پر ایمان ،کتابوں پر ایمان ، رسولوں پر ایمان ، آخرت میں اٹھنے پر ایمان ۔ دوسرا سوال اسلام کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو عبادت کرے اللہ جل شانہ کی ، نماز پڑھے ، روزہ رکھے ، زکواۃ دے ، وغیرہ ۔ پھر پوچھا احسان کیا ہے ؟ فرمایا احسان یہ ہے کہ تو ایسی عبادت کرے جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے ،اور اگر ایسا نہیں ہے تو خدا تو تجھے دیکھ ہی رہا ہے ۔
ان تین سوالوں کی جوابات میں ساری بات آگئی ۔ ایمان کیا ہے ، اسلام کیا ہے یہ علماء سے پوچھو ۔ احسان کیا ہے یہ صوفیاء سے پوچھو ۔ دل کی ایسی کیفیت کیسے بنے گی کہ تو ایسی عبادت کرے جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے ۔ یہ عملی چیز ہے ۔ theoretical چیز نہیں ہے ۔ عملی چیز عمل سے حاصل ہوتی ہے ۔ علمی چیز علم سے حاصل ہوتی ہے ۔ اگر کوئی اس طرح کرلے تو بڑی کامیاب زندگی گزار سکتا ہے ۔
ہمارا وقت بہت قیمتی ہے ۔ ہمار ا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے ۔ دیکھیں یہ منٹ جو ہم سے چلا گیا یہ پھر کبھی نہیں آئے گا ۔ ایک لطیفہ ہے کہ ایک شخص راستے میں کھڑا رو رہا تھا ۔ایک دوسرا شخص وہاں سے گزر رہا تھا ۔ اس نے پوچھا کیوں رو رہے ہو ، کہا میرا ایک پیسہ گم ہوگیا ہے ۔ اس نے جیب سے ایک پیسہ نکال کر اس کو دے دیا اور چلا گیا ۔ واپسی پر اس نے دیکھا کہ وہ شخص وہی کھڑا رو رہا تھا ۔ اس نے پوچھا اب کیوں رورہے ہو ، اس نے جواب دیا کہ اگر وہ پیسہ گم نہ ہوچکا ہوتا تو اب دو ہوچکے ہوتے ۔ اسی طریقے سے میں نے اگر پہلے سیکنڈ کو ضائع نہ کیا ہوتا تو مجھے اس سیکنڈ کا بھی ملتا اور اس سیکنڈ کا بھی مجھے ملتا ۔ اب اگر میں توبہ کرتا ہوں تو چلو گذشتہ گناہ تو معاف ہوگئے ۔ لیکن وہ جو میں پہلے کرسکتا تھا وہ تو نہیں ہوا ۔ اب اگر میں نیک کام کررہا ہوں تو یہ نیک کام میرا جمع تو ہوگیا لیکن اگر گذشتہ بھی ہوتا تو مزید ہوجاتا ۔ تو جو وقت گیا وہ پھر واپس نہیں آتا ۔ اب اگر کسی کو ہدایت ملتی ہے اور مثال کے طور پر اس کی عمر بیس سال ہے ۔ اور اس کی طبعی عمر ستر سال ہو تو پچاس سال اس کو عمل کرنے کیلئے مل رہے ہیں ۔ دوسری طرف اگر وہ ساٹھ سال کی عمر میں ہدایت پر آتا ہے ۔ تو اس کو دس سال عمل کرنے کیلئے مل رہے ہیں ۔ توجو فرد جتنی تاخیر کرے گا اتنا وہ اپنا نقصان کررہا ہے ۔ اسی لئے جس وقت بھی اللہ جل شانہ آپ کو کہیں پہنچا دے بس اسی وقت سے کام شروع کردیں ،کیونکہ کامیابی تو کام سے ہوگی ۔ اور کام کوئی مشکل نہیں ۔ اس کیلئے جنگل میں نہیں جانا پڑے گا ۔ اس کے لئے لمبے چوڑے مجاہدے نہیں کرنے پڑیں گے ۔ آج کل کے دور میں مشائخ نہ بڑے مجاہدے کراتے ہیں ، نہ جنگل میں بھیجتے ہیں ۔ بلکہ آپ ہی کے ماحول کے اندر وہ ایسا طریقہ آپ کو بتائیں گے کہ آپ اپنے ماحول کے اندر بننا شروع ہوجائیں گے ۔ دکاندار کو دکان میں اصلاح مل سکتی ہے ۔ طالبعلم کو طالبعلمی میں اصلاح مل سکتی ہے ۔ افسر کو افسری میں اصلاح مل سکتی ہے ۔ ملازم کو ملازمت میں اصلاح مل سکتی ہے۔ کاروباری کو کاروبار میں اصلاح مل سکتی ہے ۔ ہر شخص کو اپنے اپنے فیلڈ میں اصلاح مل سکتی ہے ۔ جیسے صحابہ کرام زندگی کے ہر ہر شعبے میں موجود تھے اور پھر بھی صحابہ تھے ۔ کوئی بیمار تھا ، کوئی صحتمند تھا ، کوئی مالدار تھا ، کوئی غریب تھا ، کوئی طاقتور تھا کوئی کمزور تھا ، کوئی ملازم تھا کوئی کاروباری تھا ، ہر ہر شعبے میں صحابہ ملیں گے ، انہوں نے ہر ہر شعبے میں دین کو زندہ کیا ۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کسی بھی شعبے میں رہ کر اپنی اصلاح کرسکتا ہے ۔ ا سکے لئے کوئی اور کام نہیں کرنا پڑے گا ۔ صرف اپنی زندگی بدلنے کی نیت کرنی ہوگی ۔ اس کے لئے ان طریقوں کو اختیار کیا جائیگا ۔ طریقہ یہی ہے کہ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مناسبت پیدا کی ہے ان سے اصلا ح لینا شروع کردیں اس کے بعد اگر کسی نے بیعت کیا ہے تو وہ تو نور ٌ علیٰ نور ہے ۔ کیونکہ وہ سلسلے کی برکت بھی حاصل کررہا ہے ۔ لیکن اگر بیعت نہیں کیا اور اصلاح لے رہا ہے تو پھر بھی ماشاء اللہ کام چل رہا ہے ۔ کیونکہ تربیت ضروری ہے وہ فرض عین ہے ۔ البتہ بیعت مستحب ہے لیکن اس کی برکات سے بھی انکار نہیں ہے ۔ اس وجہ سے دین بہت آسان ہے ۔ دین میں کوئی مشکل نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ فطرت کے عین مطابق ہے ۔ دین کے خلاف چلنا مشکل ہے ۔ آپ اندازہ کریں شریعت کے مطابق شادی کرنا آسان ہے یا شریعت کے خلاف ۔ اسی طرح شریعت کے مطابق رات کو جلدی سونے اور صبح سویرے جلدی اٹھنے میں زیادہ فائدہ ہے یا دیر سے سونے اور دیر سے اٹھنے میں فائدہ ہے ۔ساری چیزیں صاف نظر آتی ہیں لیکن اگر آنکھیں بند ہیں تو ہمارے نفس نے ہماری آنکھیں بند کی ہوئی ہیں ۔ اس وجہ سے بس جلدی سے اس بارے میں فیصلہ کرنا چاہیے اور کام شروع کردینا چاہیے ۔و آخر دعوانا ان الحمد ﷲ رب العٰلمین۔