گزشتہ ریکارڈ شدہ بیانات
حضرت شیخ سید شبیر احمد صاحب کاکا خیل دامت برکاتہم
اصلی کامیابی کیا ہے
اَلْحَمْدُ ﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ۔اَلصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَم ُ عَلیٰ خَاتَمَ النَّبِیینِ۔اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ یٰآَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ۔ اِنَّہ‘ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴿بقرۃ 208﴾ وقال اللہ تعالیٰ اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآء اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْن ۔اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْن﴾ وقال اﷲ تعالیٰ وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا۔ فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰھَا۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا۔ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا﴿شمس﴾ وقال اللہ تعالی اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہ، قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَھُوَ شَھِیْد۔ وقال علیہ الصلاۃ و السلام ، اَلدُّنْیَا مَزْرعَۃُ الْآخِرَۃ وقال علیہ الصلوٰۃ والسَّلام اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَاتِ صَدَقَ ﷲُ العَلِیِّ العَظِیْمِ وَصَدَقَ رَسُولُہُ النَّبِی ِالْکَرِیْم۔
ایمان بے حساب نعمت ہے
ہر انسان جو بھی اس دنیا میں آیا ہے ۔ تو ایک بات یقینی ہے کہ ایک دن اس کو یہاں سے جانا ہے ۔ اس بات سے کسی کافر کو بھی اختلاف نہیں ہے ۔ مرنے کے بعد کیا ہوگا اس میں تو اختلاف ہے ۔ لیکن مرنا ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ چاہے کافر ہو چاہے مسلمان ۔ سب جانتے ہیں کہ ایک دن مرنا ہے ۔ اللہ جل شانہ نے اپنے فضل وکرم سے ہم سب کو ایک بہت بڑی نعمت عطا فرمائی ہے ۔ اللہ جل شانہ سے دعا ہے کہ اللہ پاک اس کو سلامت رکھے اور قبر تک ہم اس کو ساتھ لے جائیں ، وہ نعمت ہے ایمان کی ۔ الحمد اللہ بہت بڑی نعمت ہے ۔ ہم اس کا شکر بھی ادا نہیں کرسکتے اور اس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے کہ کتنی بڑی نعمت ہے ۔ تھوڑا سا اندازہ کریں کہ ایک شخص ہمیشہ کے لئے جس کی کوئی انتہا نہیں ، ہزار سال نہیں ، لاکھ سال نہیں ، کروڑ سال نہیں ، ارب سال نہیں، کھرب سال نہیں ۔ مسلسل، مسلسل عذاب میں ہو ۔ کتنی سخت بات ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بچائے ۔ تو بے ایمانی کی حالت میں اگر کوئی اس دنیا سے چلا گیا تو اس کے ساتھ یہ ہوگا ۔ ایمان کے ساتھ کوئی چلا گیا تو اس کے ساتھ حساب ہوگا ۔ بعض خوش نصیبوں کے ساتھ اللہ پاک حساب نہیں فرمائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان میں سے کردے ۔ لیکن جن کے ساتھ حساب ہوگا تو اگر نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوگیا تو جنت میں جائے گا اور اگر برائیوں کا پلڑا بھاری ہوگیا تو دوزخ میں جائے گا ۔ لیکن چونکہ اہل ایمان میں سے ہوگا ، تو ہمیشہ کے لئے دوزخ میں نہیں جائے گا ۔ بلکہ جوں جوں اس کی برائیاں جلتی رہیں گی ،اور نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو جائے گا گناہوں کے ختم ہونے کی وجہ سے ۔ تو پھر وہ جنت میں بھیج دیا جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بغیر حساب کے جنت میں پہنچا دے ۔ ایک دن کے لئے بھی اللہ پاک ہمیں دوزخ نہ دکھائے۔ بہت خطرناک جگہ ہے ۔ جس سے اللہ پاک ڈرائے وہ بہت ہی خطرناک جگہ ہوتی ہے ۔
اہل جنت اور اہل جہنم برابر نہیں ہوسکتے
ابھی قاری صاحب نے جو تلاوت کی ہے
قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ
اس میں بھی یہی بات فرمائی گئی ہے ک
ہ اہل جنت اور اہل جہنم برابر نہیں ہوسکتے ۔ اہل جنت کامیاب ہونے والے لوگ ہیں ۔ الحمد اللہ ، اللہ پاک نے ہمیں چونکہ ایمان کی دولت سے نوازا ہے ۔ لہذا اب ہم لوگ جانتے ہیں کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا ۔ اور یہ ہم کیسے جانتے ہیں ؟ صادق القول آپ ﷺِ نے ہمیں اس کی خبر دی ہے ۔ اور سچی کتاب قران پاک میں اس کا ذکر ہے کہ مرنے کے بعد فوری طور پر جو ہماری زندگی شروع ہوگی وہ برزخی زندگی ہوگی ۔ برزخی زندگی میں بھی جو اہل خیر ہونگے ان کے ساتھ معاملہ الگ ہوگا ۔ جو اہل شر ہونگے ان کے ساتھ معاملہ الگ ہوگا ۔فرمایا گیا ہے قبر یا تو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے ۔ حضرت عثمان ؓ قبر کو دیکھ کر بہت روتے تھے ۔ فرماتے تھے کہ یہ پہلا مرحلہ ہے اگر کسی کا کامیاب ہوگیا تو باقی مرحلے بھی کامیابی سے طے ہوجائیں گے ۔ اور اگر کوئی یہاں ناکام ہوگیا تو پھر آئندہ بھی ناکامی کاسامنا کرنا پڑے گا ۔تو فوری طور پر جو چیز شروع ہوجاتی ہے وہ ہے برزخی زندگی ۔ اور اس کے بعد جب یوم حشر آئے گا ۔ اور پھر سب کا جب حساب شروع ہوگا ۔ تو اس کے بعد جیسے میں نے عرض کیا کہ کچھ لوگ جنت میں چلے جائیں گے اور کچھ لوگ جہنم چلے جائیں گے ۔ تو جب یہ بات ہے تو اب ہم سب کو یہ تیاری کرنی ہے کہ ہم لوگ کامیاب ہوجائیں ۔ اور یہ کامیابی مشکل نہیں ہے ۔ آپ حضرات حیران ہونگے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ؟ یہ کامیابی مشکل نہیں ہے لیکن اس کے لئے نیت کرنی پڑتی ہے ۔ اور جیسا کہ اس کا حق ہے اس کو ہم لوگ اولیت دینگے تمام چیزوں سے ، پھر یہ چیز مشکل نہیں ہے ۔ کیونکہ اسلام دین فطرت ہے ۔ اور فطرت پر چلنا آسان ہوتا ہے ۔ اب دیکھیں دریا کے رخ پر تیرنا آسان ہوتا ہے یا دریا کے مخالف سمت میں تیرنا آسان ہوتا ہے ؟ تو جو اسلام ہے یہ فطرت کے مطابق ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ شیطان ہمیں گمراہ کردیتا ہے ۔ شیطان ہمیں اس کے فطری طریقوں سے دوسری طرف لے جانا چاہتا ہے ۔ ہمارے نفس کے اندر فوری طور پر خواہش ہوتی ہے ایک چیز کو حاصل کرنے کی ۔ مثال کے طور پر ایک آدمی شوگر کا مریض ہے ۔اس کو ڈاکٹر کہتا ہے کہ میٹھی چیز نہیں کھانی ۔ اگر میٹھی چیز کھاو گے تو تمہیں ہارٹ پرابلم بھی ہوسکتا ہے ۔ تمہیں آنکھوں کا مسئلہ بھی ہوسکتا ہے ۔ تمہارے گردے بھی متاثر ہوسکتے ہیں ، تمہارے جسم کے دوسرے اعضاء بھی متاثر ہوسکتے ہیں ۔ تم اندر سے کھوکھلے ہوجائو گے ۔ اب اگر کوئی شخص اپنے آپ کو میٹھی چیزوں سے بچاتا ہے ۔ اور پرہیز کرتا ہے تو ان تمام خطرناک چیزوں سے کافی حد تک بچ جائے گا ۔ اور اگر پرہیز نہیں کرتا اور ان تمام چیزوں میں پڑ جاتا ہے ، تو مجھے بتائیں ان چیزوں میں پڑنا زیادہ مشکل ہے یا پرہیز کرنا زیادہ مشکل ہے ؟ ظاہر ہے پرہیز اتنا مشکل نہیں ہے جتنا اس کے بعد جو مسائل پیدا ہونگے وہ مشکل ہیں ۔ لیکن ہمارا نفس چونکہ فوری چیز کی طرف رغبت کرتا ہے ۔ لہذا یہ پرہیز نہیں کرنے دیگا ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جو شوگر کے بیمار ہوتے ہیں یہ کوئی بچے نہیں ہوتے ۔ بڑی عمر کے لوگ ہوتے ہیں ۔ لیکن ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ کوئی میٹھی چیز کھالیں ۔ لہذا اگر کوئی ان کو میٹھی چیز دے دے،تو پہلے کھالیں گے ، بعد میں بتائیں گے کہ مجھے اس سے پرہیز تھا ۔ حالانکہ یہ اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ آدمی ہوشیار ہو، سمجھدار ہو اور فطرت کے مطابق زندگی گزارنا چاہتا ہے تو پرہیز کو اولیت دے گا اس نقصان کے مقابلے میں جو بعد میں واقع ہوگی ۔ اس طرح اسلام نے ہمیں جن چیزوں سے روکا ہے ، اس کے بعد کے جو مصائب اور مشکلات ہیں وہ بہت مشکل ہونگی ، یہ بات ذہن میں رکھنی چاہے ۔
نفس بڑا عجیب ہے
دوسری بات یہ کہ اللہ جل شانہ نے ہمارے نفس کو بڑا عجیب بنایا ہوا ہے ۔ اس نفس کو جتنا دباتے جاؤ ،
یہ مانتا جائے گا ، ماننے پر آئے گا ۔ اور جتنا اس کی مانتے جاؤ ، یہ سر پر چڑھتا جائے گا اور تمہیں تنگ کرتا جائے گا ۔ تم سے باغی ہوتا جائے گا ، یہ اس کا خاصہ ہے ۔ میں اس کی مثال دیتا ہوں ۔ ایک شخص فجر کی نماز کے لئے نہیں اٹھ سکتا ۔ اس کے لئے بہت مشکل ہے ، وہ کہتا ہے کہ میں الارم بھی لگاتا ہوں یہ بھی کرتا ہوں وہ بھی کرتا ہوں ، لیکن نہیں اٹھ سکتا ۔ اگر اس کا کوئی بہت مخلص دوست ہے اور وہ کسی طریقے سے اس کو ایک دن فجر کی نماز کے لئے اٹھا ہی دے ۔ اور فجر کی نماز کے لئے وہ آدمی اٹھ جائے ۔ اب دوسرے دن اگر وہ اٹھنا چاہے گا فجر کی نماز کے لئے تو کیا اس کے لئے اتنا ہی مشکل ہوگا جیسے پہلے تھا یا تھوڑا سا فرق آچکا ہوگا ؟ یقینا فرق آچکا ہوگا ، اور اگر دوسرے دن بھی فجر کی نماز پڑھے گا تو تیسرے دن اس سے بھی آسان ہوگا اور تیسرے دن پڑھے گا تو چوتھے دن اور بھی آسان ہوجائے گا ۔پانچویں دن اس سے بھی زیادہ آسان ہوگا اور اس طرح ہوتے ہوتے علماء کرام اور مشائخ فرماتے ہیں کہ چالیس دن تک مسلسل اگر یہ فجر کی نماز پڑھتا رہے گا ، انشاءاللہ یہ پھر پکا نمازی ہوجائے گا ۔ اب دیکھ لیں پہلے یہ چیز ممکن ہی نہیں تھی ۔ اب ممکن ہوگئی ، کیونکہ نفس نے ماننا سیکھ لیا ۔ اس کا مطلب ہے کہ جو چیز مشکل نظر آرہی ہے یہ وقتی طور پر مشکل ہے ، ضروری نہیں کہ یہ ہمیشہ کے لئے مشکل ہو ۔ بلکہ اللہ پاک نے نفس کے اندر تین stages رکھی ہوئی ہیں ۔ پہلے کو کہتے ہیں نفس امارہ ، یہ بھی قران سے ثابت ہے ۔
وَمَآ اُبَرِّئُ نَفْسِیْ۔ اِنَّ النَّفْسَ لَاَ مَّارَۃٌ م بِالسُّوْٓئِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴿۳۵﴾
﴿میں پاک نہیں سمجھتا اپنے نفس کو بے شک نفس تو برائی کا تلقین کرتا ہے مگر جو رحم کردیا میرے رب نے بے شک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے ۔﴾یہ وہ نفس ہے جو انسا ن کو برائی کی طرف لیکر جاتی ہے ۔ اس کا تقاضا برائی کی طرف جانے کا ہوتا ہے ۔ یہ ہمیشہ نقصان کا راستہ اختیار کرتا ہے ۔ اگر ایک انسان محنت کرتا ہے اور نفس امارہ کے خلاف جہاد کرتا ہے ۔ اس کو روکتا ہے اور اس کی نہیں مانتا ۔ تو یہی نفس امارہ ایک دن نفس لوامہ میں تبدیل ہوجاتا ہے ،یہ بھی قرآن سے ثابت ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ﴿۲﴾
﴿اور قسم کھاتا ہوں نفس کی کہ جو ملامت کرے برائی پر﴾یہ وہ نفس ہے جس نے روشنی دیکھی ہے لہذا یہ اپنی طبعی خاصے کی وجہ سے کبھی غلطی کربھی لیتا ہے لیکن پھر پچھتاتا بھی ہے ۔ گناہ بھی اس سے ہوتا ہے لیکن پھر روتا بھی ہے ۔ غلطی بھی کرتا ہے لیکن پھر معافی بھی مانگتا ہے ، توبہ بھی کرتا ہے ،یہ نفس لوامہ ہے ۔ اس کی اللہ پاک نے قسم کھائی ہے ۔ اب اگر اللہ پاک نے مزید ترقی دی اور ہم لوگوں نے اس نفس پر محنت کی تو ایک وقت آئے گا کہ نفس مطمئنہ حاصل ہوجائے گا ۔ نفس مطمئنہ کیا چیز ہے ؟ یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں اللہ ہمیں بتاتا ہے
یٰآَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ﴿۲۷﴾ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً﴿۲۸﴾ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ﴿۲۹﴾ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ﴿ ۳۰﴾
﴿اے وہ نفس جو مطمئن ہوگیا چل اپنی رب کی طرف تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی پھر شامل ہو میرے بندوں میں اور داخل ہوجا جنت میں ﴾نفس مطمنۃ حاصل ہونے کے بعد نفس کو شریعت پر چلنے میں مزا آتا ہے۔نفس کو نماز میں مزا آئے گا ۔ نفس کو روزہ رکھنے میں مزہ آئے گا ۔ نفس کو حج کرنے میں مزا آئے گا ۔ نفس کو زکواۃ دینے میں مزا آئے گا ۔ نفس کو اللہ پاک کی بات ماننے میں مزا آئے گا ۔ برائی سے نفرت ہوجائے گی ۔ اس کے لئے شریعت پر چلنا طبعی بن جائے گا ۔ دین پر چلنا آسان ہوجائے گا ۔ نفس امارہ کے وقت تو ہم سمجھتے ہیں کہ شاید اس پر عمل کرنا ہمارے بس کا روگ نہیں ہے ۔ نفس لوامہ میں کچھ ادھر کچھ ادھر ۔ اور نفس مطمئنہ میں ماشاء اللہ دین پر چلنا بالکل آسان ہوجاتا ہے ۔ پھر کوئی مشکل نہیں رہتی ۔
دین آسان ہے آسان ہوتا رہے گا
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کو حاصل کرنے میں ہم لوگوں کو جو محنت کرنی پڑے گی وہ زیادہ دیر کے لئے نہیں کرنی پڑے گی ۔ تھوڑی دیر کے لئے کرنی پڑے گی ۔ پھر ماشاء اللہ ہمارے لئے شریعت پر عمل کرنا آسان ہوجائے گا ۔ دین پر چلنا آسان ہے ، مشکل نہیں ہے ۔ شیطان ہم سے اس چیز کو چھپا دیتا ہے وہ فوری تقاضے والی چیز دکھاتا ہے اوربعد والی چیز کو چھپا دیتا ہے ۔ یہاں میں ایک بات عرض کروں کہ ترتیب تو تربیت کی یہی ہے جو بتائی گئی لیکن عام لوگ اس کو یوں سمجھتے ہیں کہ بس کسی سے بیعت نہیں ہوئے اور ہمیں دین پر چلنے میں مزا آنا شروع ہوجائے گا۔جیسا کہ بتایا گیا کہ حاصل تو ہوتا ہے لیکن آخر میں ۔ابتدا میں جو تھوڑی دیر کے لئے مزا حاصل ہوتا ہے وہ جھوٹا مزا ہوتا ہے جیسا کہ صبح کاذب ہوتا ہے ۔اس میں روشنی نظر آتی ہے پھر اندھیرا چھا جاتا ہے ۔پھر صبح صادق آتا ہے ۔
اصل نقصان سے بچو
تو یہ بات میں اس لئے عرض کررہا تھا کہ ہم سب لوگوں نے کامیاب ہونا ہے ۔ اور یہ کامیابی اختیاری نہیں ہے ۔ اگر ہم لوگ یہ کہیں کہ یہ کامیابی کوئی ضروری نہیں تو یہ بات بہت خطرناک ہے ۔ اگر کسی کا دکان میں لاکھوں ، کروڑوں کا نقصان ہوگیا تو یہ وقتی بات ہے ۔ اس کی تلافی پھر بھی ہوسکتی ہے ۔ اگر کوئی بیمار ہوگیا ، اس کی تلافی ہوسکتی ہے ۔ کوئی مر گیا چلو جی زندگی ختم ہوگئی ، لیکن بہر حال یہ اتنا نقصان نہیں ہے ۔ جتنا نقصان جہنم میں جانے میں ہے ۔ وہ نقصان مستقل نقصان ہے ۔ لہذا یہ کامیابی ایسی کامیابی نہیں ہے کہ ہم اس کو چھوڑ دیں ۔ چلو جی کامیاب ہوگئے تب بھی ٹھیک ہے ، کامیاب نہیں ہوئے تب بھی ٹھیک ۔ نہیں ایسی بات نہیں ہے ۔ ہمیں کامیاب ہونا چاہیے اور کامیاب ہونا پڑے گا ۔ کوئی اور راستہ ہماری خلاصی کا نہیں ہے ۔ تو جب یہ صورتحال ہے تو پھر ہم لوگوں کو ضرورت پڑے گی کہ کوئی ایسا شخص آئے کوئی ایسا طریقہ ہمیں بتائے کہ ہم آسانی سے کامیاب ہوجائیں ، تو یاد رکھیں اس کے لئے الحمد اللہ ،اللہ پاک نے انتظام فرمادیا ہے ۔
ہدایت کے دو عظیم سلسلے
اس کے لئے سب سے پہلے اللہ جل شانہ نے انبیاء کرام کا ایک عظیم سلسلہ جاری فرمایا ۔ جس کا اختتام آپ ﷺ پر ہوا ۔ اللہ پاک نے کتابوں کا عظیم سلسلہ جاری فرمایا جس کا اختتام قران پر ہوا ۔ پہلے جو انبیاء کرام تھے اور جو پہلی کتابیں تھیں وہ وقتی تھیں ،ان زمانوں کے لئے تھیں ، اور ان علاقوں کے لئے تھیں جن علاقوں کے لئے آئی ہوئی تھیں ۔ حتیٰ کے عیسیٰ علیہ السلام کے پاس کوئی شخص آئے جو بنی اسرائیل میں سے نہیں تھے۔ تو عیسیٰ علیہ السلام نے ان کو سمجھانے سے انکار کردیا ، فرمایا مجھے بنی اسرائیل کے پاس بھیجا گیا ہے ۔ تو ہر ہر قوم کے لئے ولکل قوم ھاد اپنے اپنے حضرات انبیاء کرام آگئے تھے ۔ لہذا انہوں نے اس کو اس وقت کا دین سکھا دیا ۔ اس وقت کا دین بھی ظاہر ہے اسلام ہی تھا، جو بھی سچا دین سچے انبیاء پر اتراسلام ہی تھا ۔ لیکن اس وقت یہ وقتی بات تھی ۔ اور وقت کے ساتھ تمام ادیان ختم ہوگئے ۔ اب جو ہمارے نبی ہیں ﷺِ یہ ہمیشہ کے لئے نبی آئے ہیں ۔ اب اس کے بعد جو کچھ بھی ہوگا وہ آپ ﷺ کے طریقے پر ہوگا ۔بلکہ آپ ﷺنے خود فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام بھی اب اگر آئیں گے تو وہ بھی میری پیروی کریں گے ۔ لہذا آپ ﷺِ کا دین جاری ہوگیا ، اور کتاب جو قرآن پاک ہے وہ بھی ہمیشہ کے لئے آیا ہے ۔ اس میں بھی اللہ پاک نے قیامت تک کے لئے جتنے بھی لوگ آئیں گے اور دین پر چلنا چاہیں گے ان کے لئے ہدایت کا سامان موجود ہے ۔ لہذا اللہ پاک نے علم کا سامان کردیا ۔ علم موجود ہے ۔ اگر کوئی شخص آج بھی حقیقت تک پہنچنا چاہتا ہے ۔ سچی بات کو حاصل کرنا چاہتا ہے ۔وہ ان دو ذریعوں سے اپنے آپ کو منسلک کردے ، قران و سنت کے ساتھ ۔ تو وہ حقیقت کو پا جائے گا ۔
صرف علم کافی نہیں ہے
تو علم موجود ہے ۔ لیکن محض علم بھی کافی نہیں ہے ۔ ہم میں سے جتنے حضرات یہاں پر موجود ہیں ۔ ہم میں سے کس کا یہ نظریہ ہے کہ جھوٹ بولنا اچھی بات ہے ؟ غیبت کرنے کو کوئی اچھا سمجھتا ہے بدنظری ، زنا ،یا دھوکہ دینے کو کوئی اچھا سمجھتا ہے ؟ کوئی بھی اچھا نہیں سمجھتا ۔ تمام مسلمانوں میں آپ کو کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا کہ اس کو اچھا کہے ، بلکہ میں کہوں گا کہ تمام ذوق سلیم والے کافروں میں بھی ایسا نہیں ملے گا جو ان چیزوں کو اچھا کہے ۔ لیکن پھر بھی ہم میں جھوٹے لوگ کیوں ہیں ؟ بدنظری والے کیوں ہیں ۔دھوکہ دینے والے کیوں ہیں ، توان چیزوں کا وجود پتہ دیتا ہے کہ علم کافی نہیں ہے ۔ کچھ اور بھی چاہیے ۔ تو وہ کیا چیز ہے ؟ تو وہ دل کی کیفیت کا نام ہے ، یعنی تقویٰ ۔ اگر کسی کے اندر تقویٰ ہے تو وہ اپنے علم پر عمل کرسکے گا ۔ ورنہ اگر کسی کے اندر تقویٰ نہیں تو وہ اپنے علم پر عمل نہیں کرسکے گا ۔ اس کا علم اس کے اوپر وبال بن جائے گا ۔ آخر شیطان کوئی کم عالم تھا ۔ شیطان بھی تو پورا عالم تھا اور ہے بھی ۔ اس طریقے سے ابوالفضل اور فیضی کوئی کم عالم تھے ، کیا جاوید غامدی عالم نہیں ہے ؟ اس وقت جو مختلف قسم کے فساد لوگوں کے اندر پھیلا رہے ہیں کیا وہ علماء نہیں ہیں؟ بلکہ ہمیشہ فتنہ علماء میں سے ہی اٹھتا ہے ۔ کوئی اور شخص فتنہ اٹھا ہی نہیں سکتا ۔ ان میں فتنہ اٹھانے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف علم کافی نہیں ہے ۔ بلکہ اس کے ساتھ تقویٰ کاحاصل کرنا بھی ضروری ہے ۔
مومنین کے لیئے تقویٰ ولایت کی کنجی ہے
اللہ پاک نے فرمایا۔
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْن
اور ساتھ ہی فرمایا
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْن۔ وَکَانُو یَعْلَمُون نہیں فرمایا
اس کا مطلب یہ ہے کہ آگاہ ہوجاؤکہ اللہ کے جو دوست ہونگے ، اللہ کے جو ولی ہونگے ان کو نہ خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہونگے ، لیکن وہ کون لوگ ہونگے ؟یہ وہ لوگ ہونگے جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا ۔ تقویٰ کے اندر ساری چیزیں آگئیں ، اگر کوئی شخص متقی ہے ۔ اس کو اگر دو لفظوں کا پتہ ہوگا تو وہ اس پر عمل کرے گا ۔ اگر چار لفظوں کا پتہ ہوگاتو چار پرعمل کرے گا۔ دس معلوم ہونگے تو دس پر عمل کرے گا ۔ اور اگر پتہ نہیں ہوگا تو پوچھ لے گا ۔ تو علم کے ساتھ تقویٰ کا ہونا ضروری ہے ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ، ہلاک ہوگئے سارے لوگ ، مگر وہ جو علماءہیں ، پھر فرمایا ہلاک ہوگئے سارے علماء مگر وہ جو عمل کرنے والے ہیں پھر فرمایا ہلاک ہوگئے سارے عمل کرنے والے مگر وہ جو اخلاص سے عمل کرنے والے ہیں اور پھر فرمایا اخلاص والے بھی خطرِہ عظیم میں ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم لوگ علم حاصل کریں گے کیونکہ
طَلَبُ الْعِلمِ فَرِیْضَۃٌ عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ وَ مُسْلِمَۃٍ
علم کا حاصل کرنا ہر مرد وعورت پر فرض ہےلیکن وہ کونسا علم ہے ، یہ وہ علم ہے جو چوبیس گھنٹے ہمیں شریعت پر لا سکے ۔ شریعت کے مطابق ہمیں عمل کرنے کیلئے تیار کرسکے ۔
دین پر آنے کے راستے
تو یہ علم حاصل کرنا ہرمسلمان مرد و عورت پر فرض ہے ۔ لیکن ایسا علم جو باقی لوگوں کے لئے بھی مفید ہو ، جس پر فتویٰ دیا جاسکے ۔ جس پر دوسرے لوگوں کی رہنمائی کی جاسکے ۔ یہ علم فرض کفایہ ہے ۔ اور اس کی بہت بڑی فضیلت ہے لیکن ہے فرض کفایہ ۔ آپ ﷺِ نے فرمایا کہ عالم کو عابد پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسا کہ تم میں سے ادنیٰ پر مجھے فضیلت حاصل ہے ۔ یقیناعلماء کو فضیلت حاصل ہے ۔ لیکن وہ علماء جن کے لئے فرمایا گیا ہے
انَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا
جس کا مفہوم یہ ہے کہ علماء اصل میں وہی ہیں جو خشیت رکھتے ہیں توجو خشیت والے علماء ہونگے ان کو یہ فضیلت حاصل ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہونگے ان کو یہ فضیلت حاصل ہے ۔ تو بہر حال میں یہ عرض کررہا ہوں کہ محض علم کافی نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ تقویٰ کا حاصل کرنا ضروری ہے ۔ تو میں عرض کررہا تھا کہ علم کے لئے اللہ پاک نے فقہا کو پیدا فرمایاکیونکہ آپ ﷺِ اس دین کو لائے ہیں اور قران میں اس کے رہنما اصول آگئے ۔ اب ان دونوں کے ساتھ جو اصحاب کرام کا اجماعی طریقہ تھا ، جس کو ہم اجماع کہتے ہیں اس کو دیکھ کر ہم دین کو حاصل کرسکتے ہیں ۔ لیکن ان تینوں کے علاوہ اگر کوئی ایسی صورت بن جائے جس میں صحابہ کرام میں اختلاف پایا جائے یا کوئی نئی بات ہو جس میں فیصلہ کرنا پڑے ، اس میں پھر قیاس مجتہد کی بات آجاتی ہے ۔ تو اس کے لئے پھر فقہا ءکے گروپ کو اللہ پاک نے پیدا فرمایا ہے ۔انہوں نے ماشاء اللہ دین پر محنت کرکے ، ان علمی ذرائع پر محنت کرکے ہمیں بالکل تیار نوالے دے دیئے ۔ اب ہمیں پتہ ہے کہ نماز کیسے پڑھنی ہے ۔ کیا اس کے لئے ہم قران کو دیکھتے ہیں یا حدیث کو دیکھتے ہیں ۔ ہمیں معلوم ہے کہ نماز کیسے پڑھنی ہے ۔ ایک بچے کو بھی پتہ ہے ۔ اس طرح روزے کے بارے میں بھی ہم جانتے ہیں زکواۃ کے بارے میں بھی ہم جانتے ہیں ۔ اس طرح حج کے بارے میں جانتے ہیں ۔ اس طرح اورمعاملات کے بارے میں بھی ہم جانتے ہیں ۔ یہ سب فقہا کی بدولت ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کو بہت اونچا اجر عطا فرمائے ۔ اس کے بعد اس علم کو عمل میں لانے کیلئے ، اس علم کے مطابق عمل کرنے کے لئے ، تاکہ ہماری قلبی اصلاح ہوجائے ۔ اور ہم اس پر عمل کرسکے ۔ اللہ پاک نے ایک اور گروہ کو پیدا فرمادیا ۔ اس گروہ کو صوفیا ء کرام کہتے ہیں ۔ جس طرح علماء حضرات آپ ﷺِ کے الفاظ مبارک کے امین ہیں ۔ آپ ﷺِ کے علم کے امین ہیں ، اس طریقے سے یہ جو صوفیائے ہیں ، یہ آپ ﷺِ کی صحبت کے امین ہیں ۔ جیسے دیئے سے دیا جلتا ہے اور چراغ سے چراغ روشن ہوتا ہے ۔ اسی طریقے سے دل سے دل منور ہوتا ہے ۔ صحابہ کرام کے قلوب سے تابعین کے قلوب منور ہوگئے ۔ تابعین کے قلوب سے تبع تابعین کے قلوب منور ہوگئے ۔ یہ تین زمانے خیر القرون کے تھے ۔ اس کے بعد افراد ، افراد سے لینے لگے ۔ اور یہ سلسلہ ابھی تک چلا آرہا ہے ۔ اس لئے فرماتے ہیں
تین چیزوں کا اہتمام بچنے کے لئیے ضروری ہے
کہ تین چیزوں کی وجہ سے ہم بچ سکتے ہیں ۔ پہلا ذکر الٰہی کی کثرت ۔ دوسرا موت کی یاد اور تیسرا صحبت صالحین ۔ حضرت تھانوی ؒ ارشاد فرماتے ہیں ۔ کہ میں آج کل یہ فتویٰ دیتا ہوں کہ صحبت صالحین فرض عین ہے ۔ اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ میں اس لئے یہ فتویٰ دیتا ہوں کہ آج کل صحبت صالحین کے بغیر ایمان قائم نہیں رہ سکتا ۔اعمال تو دور کی بات ہے ۔ اس لئے حضرت فرماتے ہیں کہ صحبت صالحین فرض عین ہے ۔ قرآن میں حکم ہے
یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ( ۹۱۱ )
اس میں اﷲ تعالیٰ مؤمنین سے ارشاد فرمارہے ہیں کہ صادقین کے ساتھ ہوجاو اس وجہ سے صحبت صالحین ، موت کی یاد اور ذکراللہ کی کثرت کا خیال رکھنا چاہیئے ۔ موت کی یاد منزل کا تعین کردیتی ہے کہ ہمیں جانا کہا ں ہے ۔ ذکراللہ کی کثرت زمین کی تیاری کے لئے ہے ، دل کی زمین تیار ہوجاتی ہے ۔ سخت زمین میں بیج ڈالیں تو بیج خراب ہوجائے گا ۔ اسی طرح جو دل سخت ہے اس دل میں حق بات آسانی سے نہیں جائے گی ۔ تو پہلے زمین کو تیار کرنا پڑے گا ، اس ذکر سے دل کی زمین تیارہوتی ہے ۔ پھر اس کے بعد صحبت صالحین سے اس کے اندر بیج آجاتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے اس کا مطلب کیا ہے ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اچھے لوگوں کے ساتھ کوئی اٹھے گا بیٹھے گا ۔ تو ماشاء اللہ وہ اچھا ہوجائے گا ۔ جو بروں کے ساتھ اٹھے گا بیٹھے گا تو برا ہوجائے گا ۔
صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالح ترا طالح کند
مولانا روم ؒ فرماتے ہیں
یک ساعت در صحبتے با اولیا ،
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
۔ تو صحبت صالحین کو حاصل کرنا چاہیے ۔ اس کے ذریعے الحمد اللہ ہمیں یہ چیزیں حاصل ہوجائیں گی ۔ تو اللہ پاک نے ہمیں یہ نظام بھی عطا فرمادیا ۔ یہ نظام بھی ہمیں مل گیا ۔ اب اس سے ہم فائدہ حاصل کرسکتے ہیں ۔ اب یہ چیزیں موجود تو ہیں لیکن اتنی فوری محسوس نہیں ہوتی ۔ جیسے بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو والدین کو اس کا پتہ نہیں چلتا کہ روزانہ کتنا بڑا ہورہا ہے ۔ باہر سے جو لوگ آتے ہیں ان کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ تو بڑا ہوگیا ہے ۔ اسی طریقہ سے جو روز روز تبدیلی آتی ہے وہ معلوم نہیں ہوتی ۔ بعض اوقات فوری پتہ چل جاتا ہے کوئی ایسا واقع ہوجاتا ہے ۔ مثلاً ہمارے ساتھ ایسا واقعہ ہوا تھا ۔ ہم ایک جگہ ذکر کرنے کے لئے گئے تھے ۔ بات چیت شروع ہوگئی بات چیت میں اختلاف ہوگیا ۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ بحث مباحثہ سے دل سخت ہوجاتا ہے ۔ تو ہمارا آپس میں اختلاف ہوگیا ایک بات پر، اور بحث اتنی بڑھ گئی کہ بظاہر ایسا معلوم ہونے لگا کہ ہمارا تعلق ٹوٹنے والا ہے ۔میں نے سوچا معاملہ تو خطرناک رخ اختیار کررہا ہے ۔ تو میں نے بات کا رخ بدل دیا اور پھر ذکر کا وقت آگیا تو ہم ذکر کے لئے اندر چلے گئے ۔ اور ہم نے ذکر کرلیا ۔ جب ذکر کرنے کے بعد ہم واپس آئے اور چائے وغیرہ پینے لگے ۔ تو وہ صاحب جو ہمارے ساتھ سخت اختلاف کرنے والے تھے اس نے مزید کوئی بات کہے بغیرہماری ساری باتیں مان لیں ۔ اب آپ بتائیں یہ سب کچھ کیسے ہوا ؟ پہلے تو وہ اختلاف کررہے تھے ، دلائل دے رہے تھے ۔ بعد میں نہ ہم نے کوئی دلیل دی ۔ نہ کوئی بات کی کیونکہ ہم نے تو بات ختم کردی تھی ۔ تو وہ ساری باتیں کیسے مان گئے ؟ یہ درمیان میں ذکر آیا تھا اس وجہ سے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ذکر کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کا دل نرم ہوجاتا ہے ۔ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ میں کیا کررہا ہوں ۔ بس جیسے اس کو احساس ہوا کہ میں کیا کررہا ہوں ۔ حقیقت اس کے اوپر کھل گئی ۔ تو میں عرض کررہا تھا کہ ہمیں ان چیزوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ اس کے لئے باقاعدہ کوئی انتظام ہونا چاہیے تاکہ صحبت صالحین بھی ہو ، ذکر اللہ بھی ہوا ور موت کی یاد بھی ہو ۔
انتظام سے کام ہوتا ہے
ٹھیک ہے اگر کوئی متفرق طور پر یہ کام کرسکتا ہے اس کا بھی فائدہ ہوگا ۔ لیکن اگر کوئی نظم سے کام شروع ہوجائے اس کا فائدہ زیادہ ہوتا ہے ۔ ترتیب سے ایک کام شروع کیا جائے تو اس کا فائدہ بہت ہوتا ہے ۔ اس کے لئے الحمد اللہ ہمارے سلاسل کا جو کام ہے یہ اللہ پاک نے شروع کروادیا ہے ۔ آپ حضرات جانتے ہیں ۔ کہ ہمارے جتنے بھی بڑے لوگ ہیں ، جوہمارے بڑے لوگ گزرے ہیں ، جن سے امت کو خیر پہنچا ہے چاہے وہ علمی خیر ہے چاہے وہ عملی خیر ہے ۔ چاہے جہاد کا خیر ہے، چاہے تبلیغ کا خیر ہے ۔ چاہے مدرسے کا خیر ہے ، کسی بھی رخ کا خیر ہے ان سب میں ایک بات آپ مشترک دیکھیں گے کہ وہ ان سلاسل سے گزرے ہونگے ۔ آپ کسی پر بھی انگلی رکھیں ۔ وہ سب اسی سے گزرے ہیں ۔ میں اس کی آپ کو مثال دیتا ہوں ۔ امام ابو حنیفہ ؒ ، ہمارے امام ہیں ۔ تین سلسلوں میں ان کو یہ چیز حاصل تھی ۔ امام شافعی ؒ کو دو سلسلوں میں ، امام محمد ؒ کو ایک سلسلے میں ، امام مالک ؒ کو ایک سلسلے میں ، امام احمد بن حنبل ؒ کو ایک سلسلے میں ، امام غزالی ؒ کو امام رازی ؒ کو ، امام شاملؒ کو ، شاہ ولی اللہ ؒ کو اسی طرح آپ نام لیتے جائیں میں آپ کوبتاتا جاؤں گا کہ ان کو کہاں سے ملا ہے ۔ کوئی ایک نام ایسا بتا دیں جو ان راستوں سے نہ گزرا ہو اور اس کو اللہ پاک نے دین کے لئے استعمال نہ کیا ہو ۔ موٹی سی مثال دیتا ہوں ، ہمارے یو پی کے علاقے میں جو علماء کرام گزرے ہیں ۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ ، حضرت نانوتوی ؒ ، حضرت مدنی ؒ ، حضرت مولانا الیاس ؒ ، حضرت مولانا ذکریا ؒ کیا ان حضرات کے علاوہ اس وقت اور کوئی علماء نہیں تھے ؟ کیا یہی بیس پچیس علماء تھے ، یا بہت سارے علماء تھے ۔ علماء بہت سارے تھے لیکن چمکے کون ؟ کن سے کام لیا گیا ۔ کام ان سے لیا گیا جو کہ سلاسل میں آئے ۔ حتیٰ کہ حاجی امدا د اللہ مہاجر مکی ؒ سے جن علماء نے فیض حاصل کیا ، اللہ پاک نے ان کو چمکایا ۔ حالانکہ حضرت حاجی صاحب ؒ خود عالم نہیں تھے ۔ مولانا قاسم نانوتویؒ سے کسی نے پوچھا کہ آپ تو اتنے بڑے عالم ہیں اور آپ ایک ایسے صاحب کے پاس گئے جو کہ عالم بھی نہیں ہیں ۔ حضرت نانوتوی ؒ نے بڑا عجیب جواب دیا ۔ ارشاد فرمایا ، ہا ں ہاں ہم عالم تھے ۔ ہمیں پتہ تھا کہ کیلا بھی ہوتا ہے ، سنگترہ بھی ہوتا ہے ۔ مالٹا بھی ہوتا ہے ۔ آم بھی ہوتا ہے ۔ لیکن کھایا کوئی بھی نہیں تھا ۔ حاجی صاحب کے پاس چلے گئے ۔ انہوں نے آم بھی کھلایا ، مالٹا بھی کھلایا ، سنگترہ بھی کھلایا ، اور ہمیں پتہ چل رہا تھا کہ یہ چیز کھلا رہے ہیں ، یہ چیز کھلا رہے ہیں ۔ مفتی شفیع صاحب ؒ نے جب مولانا تقی عثمانی صاحب اورمفتی رفیع عثمانی صاحب کو ڈاکٹر عبدالحئی صاحب کے حوالے کیا ، ڈاکٹر عبدالحئی صاحب عالم نہیں تھے ۔ تو اپنے بچوں سے فرمانے لگے کہ میں آپ کو ایسے صاحب کے پاس لے جارہا ہوں جو کہ عالم نہیں ہیں لیکن عالم گر ہیں ۔ اب دیکھیں ایک مفتی اپنے بیٹوں کو کن کے حوالے کررہے ہیں ؟ فرما رہے ہیں کہ عالم نہیں ہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی اور چیز ہے ۔ اس طرح امام احمد بن حنبل ؒ بشر حافی ؒ کے پاس جارہے تھے جو عالم نہیں تھے ۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ اتنے بڑے امام ہیں اور آپ جارہے ہیں ایک ایسے صاحب کے پاس جو عالم نہیں ہیں ۔ حضرت نے جواب دیا ہاں ہاں ٹھیک ہے میں عالم ہوں لیکن میں عالم باالقرا ن ہوں ، یہ عارف بااللہ ہے ۔ یہ اللہ کو جانتا ہے ۔ میں قران کو جانتا ہوں ۔ یہی جواب حضرت امام شافعی ؒ نے دیا تھا ۔ اس کا مطلب کیا ہے ؟
دل بنے تو کام بنے
اس کا مطلب ہے کہ یہ ایسی چیز ہے جس سے دل بنتا ہے ۔ جب تک دل نہ بنے کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا ۔ اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا ہے۔
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہ، قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَھُوَ شَھِیْدٌ﴿37﴾
علماء کرام بیٹھے ہوئے ہیں، ان سے پوچھیں قلب کے معنی کیا ہیں ؟ قلب کس کو کہتے ہیں ۔ فرمایا اس کے اندر نصیحت ہے ہر اس شخص کے لئے جس کا دل ہے ۔ اگر یہ گوشت پوست کا دل ہے تو یہ کس کا نہیں ہے ، یہ تو کافروں کا بھی ہے ۔ پھر تو سب کو نصیحت ہونی چاہیے ۔ اس کا مطلب ہے کہ دل سے مراد کچھ اور ہے ۔ اور یہ بھی فرمایا کہ یا وہ کان لگا کر بات سنیں کیونکہ فرمایا یہ جارہا ہے کہ یا تو اہل قلوب بننے سے قرآن سے ہدایت ملے گی یا پھر بات سننے سے تو سوال پیدا ہوتا ہے کن کی بات سننے سے تو ظاہر ہے اس کا جواب یہ ہوگا کہ جن کو ہدایت ملی ہوگی ان کی بات سننے سے تو ظاہر وہ تو پھر وہی ہوسکتے ہیں جنہوں نے پہلے طریقے سے ہدایت اصل ہوگی اور وہ یہ کہ اہل قلوب میں سے ہوں گے پس اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ دو باتیں ہوسکتی ہیں ۔ یا تو اہل قلوب میں سے ہوجاؤ یا اہل قلوب کے پیچھے چلو ۔ دو طریقے ہیں اسی سے کامیاب ہونگے ۔ تو ہم لوگوں کو اہل قلوب کے پاس جانا پڑے گا ۔ ایک منظم طریقے سے جب ہم جائیں گے تو کام ہوگا ۔
اہل اللہ کی نشانیاں
منظم طریقہ یہ ہے کہ جس کے ساتھ مناسبت ہو ، ان کے ساتھ تعلق بنا لو ۔ اور پھر ان کی تربیت میں کام شروع کردو ۔ اور یہ یاد رکھو کہ اس شخص کے بارے میں پہلے تحقیق کرلو کہ کیا وہ اس قابل ہے اس کے لئے میں آٹھ نشانیاں بتاتا ہوں ۔ پہلے بھی میں نے یہ نشانیاں بتائی تھیں ۔ پہلی نشانی عقیدہ اہل سنت والجماعت کا ہو ، دوسری نشانی اسے فرض عین علم حاصل ہو ۔ تیسری نشانی اس علم پر اسے عمل ہو ۔ چوتھی نشانی وہ صاحب صحبت ہو اور اس کے صحبت کا سلسلہ حضور ﷺِ تک پہنچتا ہو ۔ پانچویں نشانی اس کو اجازت حاصل ہو ، چھٹی نشانی اس کے اردگرد جو لوگ بیٹھنے والے ہوں ان کو آپ دیکھ رہے ہوں کہ روزانہ ان کے اندر تبدیلی آرہی ہے ، مثبت تبدیلی آرہی ہے ۔ جیسے ہم اچھے ڈاکٹر کا پتہ کیسے لگاتے ہیں ، جس کے ہاتھ پر لوگ زیادہ شفایاب ہورہے ہوں ہم کہتے ہیں کہ یہ ڈاکٹر صحیح ہے ۔ تو اس کے اندر فیض ہونا چاہیے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ خود بن چکا ہو لیکن وہ فیض رساں نہ ہو ۔ اللہ پاک نے اس کے ہاتھ پر فیض نہ رکھا ہو ۔ یہ ممکن ہے ۔ انسان خود ٹھیک ہوجاتاہے لیکن دوسرے کو فائدہ نہیں دے سکتا ۔آپ نے بہت سارے سائنسدانوں کو دیکھا ہوگا ، بڑے اچھے سائنسدان ہوتے ہیں لیکن پڑھا نہیں سکتے ۔ دوسروں کو نہیں سمجھا سکتے ۔ اس طرح بعض لوگ بڑے اچھے ہوتے ہیں لیکن دوسروں کو اس سے فیض نہیں ہوتا ۔ لہذا یہ دیکھو کہ اس کے پاس بیٹھنے والے لوگوں کو فیض حاصل ہورہا ہے یا نہیں ۔ ساتویں نشانی یہ کہ وہ اصلاح کرتا ہو مروت نہ کرتا ہو ۔ مروت بہت خطرناک چیز ہے ۔ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی عالم ہے اس کو مسئلہ معلوم ہو اور اس سے پوچھا جائے ، تو اگر وہ صحیح جواب نہیں دے گا تو اس کے منہ میں قیامت کے دن آگ کی لگام دی جائے گی ۔ کیونکہ اس نے صحیح جواب نہیں دیا ۔ تو مروت نہ کرتا ہو اصلاح کرتا ہو ۔ آٹھویں اور آخری بات کہ اس کی مجلس میں بیٹھ کر خدا یاد آتا ہو اور دنیا کی محبت سرد ہوتی ہو ۔ اگر کسی کے اندر یہ آٹھوں نشانیاں موجود ہوں تو پھر یہ نہ دیکھو کہ اس میں کرامت یاکشف ہے یا نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ چیزیں ثانوی ہیں ۔ بہت سارے صحابہ کرام کے پاس کشف و کرامات نہیں تھے ۔ تو کیا جن کے پاس کشف و کرامات تھے یہ ان سے کم ہوگئے ؟ تو ان چیزوں کو دیکھنا نہیں چاہیے ، ان آٹھ نشانیوں کو دیکھنا چاہیے کہ یہ ہیں یا نہیں ہیں ۔ جب نشانیاں پوری ہوں تو بس یہ دیکھنا چاہیے کہ میری ا س سے مناسبت ہے یا نہیں ہے ۔ یعنی یہ میرے لئے ہے یا نہیں ہے ۔ ٹھیک ہے دوسرے لوگوں کے لئے ہوگا ۔ لیکن ضروری نہیں ہے کہ میرے لئے ہو ۔ تو اس کا بھی تجربہ کرلو اور اس کے ساتھ تعلق قائم کرکے دیکھ لو کہ آیا مجھے اس سے فائدہ ہورہا ہے یا نہیں ۔ تو اگر مناسبت ہے تورابط جاری رکھو ۔ ایک باقاعدہ طریقے سے جب ہم آجائیں گے تو انشاء اللہ العزیز آپ دیکھیں گے کہ جن چیزوں سے پہلے آپ انکار کرتے تھے اس کا آپ ایسے اقرار کریں گے کہ دوسروں کو بھی سمجھائیں گے ۔ ایک صاحب جو اس وقت تقریباً چھیاسی سال کے ہونگے اس وقت ان کی عمر اٹھتر سال تھی ، وہ پرنسپل ریٹائرڈ ہوئے تھے ۔ وہ کسی طریقے سے ہمارے پاس آئے، ذکر کی لائن میں آگئے ۔ پہلے وہ ان چیزوں کو نہیں مانتے تھے ۔ تو جس وقت وہ آئے میں نے ان کو ذکر قلبی دے دیا ۔ تین مہینے کے بعد جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے تین باتیں بتائیں ۔ اور وہ تین باتیں ایسی تھیں کہ میں کہتا ہوں کہ بس اللہ پاک ہم سب کو نصیب فرمائے ۔ پہلی بات اس نے یہ بتائی ، شاہ صاحب میں دوسر وں کو تو نہیں سمجھا سکتا لیکن خود سمجھ گیا ہوں کہ ذکر میں کتنی طاقت ہے ۔ دوسری بات اس نے یہ بتائی کہ شاہ صاحب میرا مطالعہ نہیں چھوٹتا تھا ، اب کہتا ہوں کہ تنہائی ہو اور یاد الہٰی ہو ۔ تیسری بات اس نے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ شاہ صاحب پہلے میں یہاں تھا اس کے بعد اس نے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا اب یہاں آگیا ہوں ۔ تویہ پکی بات ہے ۔ انسان جو چیزیں پہلے نہیں مانتا اور پھر اس پر گزرتی ہے تو پھر اس کو ماننا پڑتا ہے ۔
لگی ہو نہ جب تک کسی دل میں آگ
پرائی لگی دل لگی سوجھتی ہے
انسان کو دوسرے کے حال کا پتہ نہیں چل سکتا کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے ۔ لیکن جب خود پر گزرتی ہے تو پھر ِسب چیزوں کو مانتا ہے ۔ تو خلاصہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہوجائیں انشاء اللہ العزیز اللہ پاک نے جو کچھ آپ کی قسمت میں لکھا ہے آپ کو مل جائے گا ۔ لگے رہو لگے رہو، لگ جائے گی ۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو نصیب فرمائے ۔۔۔ آمین