اَلْحَمْدُ ِاَلْحَمْدُ ِﷲ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ۔اَلصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَم ُ عَلیٰ خَاتَمَ النَّبِیینِ۔اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اﷲ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔یاا یھاالناس اذکرو ا نعمت اللہ علیکم ھل من خالقٍ غیر اﷲ یرز قکم من السمآءِ والارض لاَالہ الاھو فانّیٰ توفکونo وقال اﷲتعالیٰ ان الذین تعبدون من دون اﷲ لایملکون لکم رزقاَ فابتغوا عنداﷲ الرزق واعبدوہ واشکروالہ الیہ ترجعونo وقال اﷲ تعالیٰ وعلی اللہ فتوکلوان کنتم مؤمنین o صدق اﷲ العلی العظیم۔ﷲ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ۔اَلصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَم ُ عَلیٰ خَاتَمَ النَّبِیینِ۔اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اﷲ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔آیت شریف ۔اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ﴿۱﴾ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ﴿۲﴾ اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ﴿۳﴾
بے شک ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمایا تو شکر یہ کے طور پر اپنے پروردگار کی نماز پڑھیئے اور قربانی کیجئے بے شک آپ کا دشمن بے نام و نشان ہیں ۔صدق اﷲ العلی العظیم۔
اے لوگو اللہ کی نعمت کو یاد کرو جو تم پر﴿ہوئی﴾ ہے ۔کیا اللہ کے سواءکوئی خالق ہے جو تم کو آسمانوں اور زمین سے رزق دیتا ہو ، اس کے سواء کوئی معبود نہیں ہے ۔ پس تم کہاں الٹے پھرے جاتے ہو ۔اور اللہ جل شانہ ارشاد فرماتے ہیں کہ تم خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر جن کو پوجتے ہو ، وہ تم کو کچھ رزق دینے کا بھی اختیار نہیں رکھتے ۔ سو تم لوگ رزق خدا کے پاس سے طلب کرو اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکر کرو تم سب کو اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے ۔ نیز ارشاد فرمایا کہ خدا ہی پر توکل کرو اگر تم ایمان رکھتے ہو ۔ اور آپ ﷺ نے حضرت ابن عباس ؓ سے ارشاد فرمایا ۔ اے بچے خدا کو یاد رکھ ، تو اس کو اپنے سامنے پاوے گا ۔ اور جب تو سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر اور جب تو مدد چاہے تو اللہ ہی سے مدد مانگ ،اور جان لے اس بات کو کہ اگر تمام لوگ اس بات پر اتفاق کریں کہ تجھ کو کچھ نفع پہنچا دے تو ہر گز اس کے سواء کچھ نفع نہیں پہنچا سکتے جو کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے واسطے لکھ دیا ہے اور اگر تمام لوگ اس پر متفق ہوجائیں کہ تجھ کو کچھ نقصان پہنچائیں تو ہر گز اس کے سواء کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔ جو اللہ تعالیٰ نے تیرے واسطے لکھ دیا ہے ۔ تقدیر کے قلم اٹھا دیے گئے اور دفتر خشک ہوگئے ۔ اب اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوگا ۔ اور آپﷺِ نے ارشاد فرمایا کہ مومن قوی مومن ضعیف سے بہتر ہے اور اللہ کو زیادہ محبوب ہے اور ہر ایک میں خیر اور بھلائی ہے ۔ جو چیز تم کو نفع دے اس کی حرص کرو اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو اور عاجز مت بنو ۔ اور اگر تجھ کو کوئی مصیبت پہنچے تو یوں مت کہا کرو کہ اگر میں یوں کرتا تو یوں ہوجاتا ۔بلکہ یوں کہا کرو کہ اللہ جل شانہ نے جو مقدر کردیا ہے اور جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے ۔ کیونکہ﴿ یہ کہنا کہ اگر یوں کرتا تو یوں ہوجاتا ﴾، شیطان کے کام کو کھول دیتا ہے ۔ یہ مسلم شریف کی روایت ہے ۔ اور ارشاد فرمایا اللہ جل شانہ نے کہ بیشک اللہ جل شانہ متوکلین کو دوست رکھتا ہے ۔ اور آپ ﷺِ نے ارشاد فرمایا کہ میں ایک ایسی آیت جانتا ہوں اگر لوگ اس پر عمل کریں تو وہی ان کیلئے کافی ہوجائے ۔ وہ آیت یہ ہے
ومن یتق اﷲ یجعل لہ مخرجاً و یرزقہ من حیث لا یحتسب
یعنی جو شخص اللہ جل شانہ سے ڈرتا ہے اللہ جل شانہ اس کے لئے نجات کی شکل نکال دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا ۔آپ ﷺِ کا ایک مبارک ارشاد ہے۔ بے شک رزق انسان کو اس طرح ڈھونڈتا ہے جیسا کہ اس کو اجل ڈھونڈتی ہے ۔ صدق اللہ العظیم۔
بزرگو اور دوستو !الحمد اللہ ہم مسلمان ہیں۔ اللہ جل شانہ نے ہمیں بہت پیارا دین عطا فرمایا ہے ۔ اس پر اللہ جل شانہ کاشکر ادا کرنا چاہیے ۔ یہ نعمت ایسی نعمت ہے کہ اگر یہ ہمارے پاس نہ ہو تو بے شک ہمارے پاس دنیا کی تمام چیزیں ہوں وہ ہمیں کوئی نفع نہیں پہنچا سکتیں ۔ اور اگر یہ نعمت ہمارے پاس ہے تو دنیا کی جتنی بھی تکلیفیں ہوں ۔ وہ ایک وقت تک کیلئے ہونگی پھر ختم ہوجائیں گی ۔ اور آخرت میں تو خیر ان ہی کیلئے ہے جو یہاں دین پر چل رہے ہیں ۔ اس دین کی کچھ بنیادیں ہیں ، ان بنیادوں کو جاننا بھی ضروری ہے اور اس پر قائم رہنا بھی ضروری ہے ۔ ان بنیادوں سے ذرا بھر بھی آگے پیچھے نہیں ہلنا چاہیئے۔ اگر ہم ذرا بھر بھی آگے پیچھے ہوگئے تو نقصان ہمارا ہی ہوگا ۔ اگر کوئی شخص ہمارے ساتھ اس بات پر سمجھوتہ کرناچاہے کہ تھوڑی سی بات تم ہماری مان لو اور باقی باتیں ہم آپ کی مان لیں گے تو اگر اس کی ایک غلط بات بھی ہم نے مان لی تو نقصان ہمارا ہوگا ۔ بے شک وہ ہماری ساری کی ساری باتیں مان لے ۔ اس بات کو اچھی طرح جاننا چاہیے ۔ مثلاًنعوذ باللہ من ذالک ، کوئی عیسائی ہمیں کہہ دے کہ میں تمہارے دین پر چلوں گا بس تم میری ایک بات مان لو اور عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہہ دو ۔ تو نقصان کس کا ہوگا؟ نقصان ہمارا ہی ہوگا، بے شک وہ ہماری ساری باتیں مان لے ۔ لہذا دین کی کچھ بنیادیں ہیں ان بنیادوں سے ذرا بھر نہ ہلنا ہمارے لئے بہت ضروری ہے ۔ وہ بنیادیں کونسی ہے اس کے بارے میں کچھ عرض کرناچاہتا ہوں ۔
دین کی سب سے پہلی بنیاد توحید ہے ۔ تمام پیغمبروں نے جس کی دعوت دی ہے ۔ ہر پیغمبر اسی دعوت کے لئے آیا ہے اور ہر پیغمبر نے اپنی پوری زندگی اسی بات پر لگائی ہے ۔ حتیٰ کے بعض پیغمبروں نے اس پر اپنی جانیں بھی نچھاور فرما دیں ۔ بعض پیغمبروں نے جیسے ہی اس بات کا اعلان فرمایا اس کے ساتھ ہی شہید کردیے گئے ۔ اور اللہ جل شانہ نے پھر دوسرے پیغمبروں کو اس کیلئے منتخب فرمایا ۔ اور انہوں نے پھر اس کی دعوت دی ۔ لہذا پیغمبروں کی جو دعوت ہے وہ یہی ہے کہ اللہ ایک ہے ، اللہ ہی کارساز ہے ۔ اللہ کے علاوہ اور کوئی کارساز نہیں ہے ۔ آپ ﷺِ غار ثور کے اندر تشریف فرما ہیں اور ان کو تلاش کرنے والے بالکل غار کے سرے تک پہنچ گئے اور اس حد تک پہنچ گئے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو خطرہ ہوگیا کہ اگر ذرا بھر بھی وہ اس غار کے اندر جھانک لیں تو ہمیں دیکھ لیں گے ۔ ان کو فکر ہوگئی ۔ اپنی فکر نہیں آپﷺ کی فکر ۔ کہیں وہ لوگ آپ ﷺِکو تکلیف نہ پہنچا دیں ۔ تو آپ ﷺِ نے ان کو فکر مند دیکھ کر فرمایا
لا تخذن ان اللہ معنا ۔
غم نہ کھاو اللہ جل شانہ ہمارے ساتھ ہے ۔ آپ ﷺِ نے یہ نہیں فرمایا کہ غم نہ کرو میں تمہارے ساتھ ہوں، فرمایا غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔ہر پیغمبر نے تکیہ اللہ جل شانہ پر کیا ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اس کی قوم کے سامنے جب دریا آگیا تو پوری قوم گھبرا گئی اور کہا اے موسیٰ اب کیا ہوگا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اللہ میرے ساتھ ہے ۔ حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹھ میں چلے جاتے ہیں لیکن وہاں پر بھی وہ یہی وظیفہ کررہے ہیں ،
لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین
اور اسی وظیفے کے ساتھ ہی اللہ جل شانہ نے ان کو مچھلی کے پیٹ سے نجات دے دی ۔ مچھلی نے ساحل پر اگل دیا اور اللہ جل شانہ نے اسی وقت ان کی زندگی کا سامان بھی کردیا ، وہیں کدو کے پودے کو اگا دیا اور اس کے سائے کے نیچے یونس علیہ السلام کا علاج ہوا اور اس کے بعد ساری چیزیں ان کو واپس مل گئیں ۔ اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ جو ہوا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ جو ہوا ، ان کو آگ میں پھینکا جارہا ہے ۔ ایک فرشتہ آتا ہے اپنی طرف سے ، وہ پوچھتا ہے کیا میں آپ کی مدد کرو ں ؟ اگر ہمارے ساتھ اس قسم کا کوئی واقعہ ہوجائے اور کوئی نیک آدمی آکر ہم سے کہے کہ میں آپ کی مدد کروں تو ہم کیا کہیں گے ؟ تو ہم کہیں گے ضرور ، ضرور کریں ۔ ابراہیم علیہ السلام اس فرشتے سے پوچھتے ہیں کہ خود آئے ہو یا بھیجے گئے ہو ۔ اس نے کہا خود آیا ہوں ۔ فرمایا نہیں جن کے لئے سب کچھ ہورہا ہے وہ دیکھ رہا ہے ۔ مجھے آپ کے مدد کی ضرورت نہیں ۔ اس کے بعد اللہ جل شانہ نے براہ راست آگ کو حکم دیا ۔ یہ صرف اور صرف ابراہیم علیہ السلام کا اعجاز ہے ۔ دیکھیں جتنے بھی معجزے ہوئے ہیں اس کے لئے اللہ پاک نے کوئی مخفی سبب بنایا ہے ۔ لیکن یہ ایک ایسا معجزہ ہے جس کے لئے اللہ پاک نے کوئی سبب نہیں بنایا ۔ براہ راست اللہ جل شانہ ، جو مسبب الاسباب ہیں ، آگ کو حکم دیا ۔
قُلْنَا یٰنَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ
اے آگ ٹھنڈی ہوجا ، سلامتی والی ٹھنڈی۔ تو اللہ جل شانہ پر جس نے بھروسہ کیا اللہ جل شانہ پر جس نے تکیہ کیا ، اللہ جل شانہ نے اس کو نواز دیا ۔ اصحاب کہف اپنے دین اور ایمان کو بچانے کے لئے شہر سے بھاگے اور سب نے متفقہ طور پر ایک پناہ گاہ ڈھونڈی اور ایک غار کے اندر رپوش ہوگئے ۔ اب دیکھیں انہوں نے کوئی جہاد بھی نہیں کیا ۔ بلکہ صرف اپنے ایمان کو بچانے کیلئے دوڑ لگائی ، وہ دوڑ اللہ جل شانہ کو پسندآئی ۔ اور اصحاب کہف کو باقی لوگوں کے لئے نمونہ بنادیا ۔ تین سو سال کے لئے ان کو سلا دیا ۔ اس کے بعد جب وہ بیدار ہوئے تو پتہ چلا کہ یہ تو کوئی اور دور ہے ۔ اس کے بعد اللہ جل شانہ نے ان کو صحیح موت نصیب فرمائی اور وہاں پر ان کی ایک نشانی بنا دی ۔ تو اللہ جل شانہ پر جس نے بھی تکیہ کیا وہ کبھی پریشان نہیں ہوا ۔ اس نے کبھی نقصان نہیں اٹھایا تو ہمارا تکیہ صرف اور صرف اللہ پر ہونا چاہیے ۔
جو حدیث میں نے تلاوت کی ہے اس میں آپ ﷺِ نے حضرت ابن عباسؓ سے فرمایا۔ اس کو اگر سمجھنے کی کوشش کی جائے ، اور اللہ کرے یہ ہمیں اچھی طرح سمجھ آجائے ۔ فرمایا۔ اے بچے خدا کو یاد رکھ ۔ خدا کو یاد رکھنا بہت ضروری ہے ۔ ہمارے تصوف کی بنیادی چیز ہی اللہ کو یاد رکھنا ہے ۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس اور کچھ نہیں ۔ ہم صرف اللہ کو یاد رکھنے کی ہی پریکٹس کرتے ہیں ۔ اور ہمارے پاس کیا ہے؟ کیونکہ اس پر بہت بڑا وعدہ ہے ۔ اللہ جل شانہ فرماتے ہیں
فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْالِیْ وَ لَا تَکْفُرُوْنِ ،
پس تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا ۔ لہذا جو شخص بھی اللہ جل شانہ کو یاد کرتا ہے اللہ جل شانہ اس کو یاد رکھتے ہیں ۔ تو جس کو اللہ یاد رکھے کیا اس کو کوئی پریشانی ہوسکتی ہے ؟ پھر فرمایا ، ’’ تو اس کو اپنے سامنے پائے گا ‘‘۔ اگر تیرا بھروسہ اللہ پر ہو اور تو اللہ کو یاد رکھے گا تو تو اللہ جل شانہ کو ہر جگہ اپنے سامنے پائے گا ۔ اور واقعتا ایسا ہوتا ہے ۔ تصوف میں ایک مقام ہے جس کو وحدۃ الوجود کہتے ہیں ۔ا للہ کو کثر ت سے یاد رکھنے سے یہ مقام حاصل ہوتا ہے ۔ جب انسان اتنا زیادہ اللہ تعالی کو یاد رکھتا ہے کہ اللہ جل شانہ اس کو ایسے یاد ہوجاتے ہیں کہ وہ باقی سب کچھ بھول جاتا ہے ۔ اسی کو وحدت الوجود کہتے ہیں ۔ تمام چیزیں موجود ہیں لیکن اس کو صرف اللہ یاد ہے ۔ آسمان پر جب سورج موجود ہو تو کیا ستارے کسی کو نظر آتے ہیں؟ حالانکہ ستارے آسمان پر موجود ہوتے ہیں ۔ اسی طرح جن کو اللہ صحیح طور پر یاد ہوتا ہے ۔ پھر وہ سب کچھ بھول جاتا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ کیا ہوا ۔ ابراہیم علیہ السلام نے فرشتے سے فرمایا ، وہ مجھے دیکھ رہا ہے اور وہی سب کچھ کرے گا ۔ یعنی اللہ جل شانہ کے علاوہ اس نے کسی اور کی طرف نہیں دیکھا ۔’’ اور جب تو سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر و ‘‘ ۔اب انسان سے سوال کرنا کیسا ہے اور اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ انسان سے سوال کرنا حرام ہے ۔ اور دل سے انسان سے سوال کرنا اشراف نفس ہے ۔ وہ بھی حرام ہے ۔ لیکن اللہ جل شانہ سے سوال کرنا، اس پر اجر ہے کیونکہ ہم سورۃ فاتحہ میں پڑھتے ہیں ۔
اِیَّاکَ نَعبُدُوَاِیَّاکَ نَستَعِینُ،
ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ۔ عربی زبان میں اس پر اتنا زور ہے کہ انسان اردو میں اس کو بیان ہی نہیں کرسکتا ۔ ہمارا مولا ، ملجا اور منجا کون ہے ؟ بس صرف اللہ جل شانہ کی ذات ہے ۔ اللہ جل شانہ ہی ہمیں سب کچھ دے گا ۔ وہی ہے جس پر ہم بھروسہ کرسکتے ہیں ۔ تو یہاں پر فرما رہے ہیں کہ جب تو مدد چاہے تو اللہ ہی سے مدد مانگ ۔اور جان لے اس بات کو کہ اگر تمام لوگ اس بات پر اتفاق کریں کہ تجھ کو کوئی نفع پہنچائے تو ہر گز اس کے سواء کچھ نفع نہیں پہنچا سکتے جو کہ اللہ جل شانہ نے تیرے واسطے لکھ دیا ہے ۔ یعنی تقدیر میں جو کچھ میرے لیے لکھا ہے اس کو کوئی مٹا نہیں سکتا ۔ تبدیل نہیں کرسکتا ۔ اللہ جل شانہ نے جو کچھ ہمارے لئے لکھا ہے وہی ہوگا ۔ اس لئے فرماتے ہیں کہ جب کبھی کوئی واقعہ ہوجائے تو اس کے بعد یہ نہ کہو کہ میں اگر ایسے کرتا تو ایسا ہوجاتا ۔ ہاں اس سے پہلے اسباب اختیار کرو ، جو اللہ پاک نے اسباب بنائے ہیں اس کو اختیار کرو شریعت کے تقاضوں کے مطابق۔ جب کام ہوگیا ، نتیجہ ظاہر ہوگیا تو یہ نتیجہ وہی ہے جو لکھا گیا تھا ۔ لہذا اب یہ نہ کہو کہ میں اگر یہ کرتا تو ایسا ہوجاتا ۔ یہ الگ بات ہے کہ اسباب کے رخ سے آپ آئندہ کی پلاننگ کرسکتے ہیں ۔ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ سکتے ہیں ۔ ہمارے مولانا اشرف صاحب ؒ پر آخری عمر میں جب ان کی وفات ہونے والی تھی ایک ایسی بیماری آئی کہ وہ بیٹھے بیٹھے سو جاتے تھے ۔ حتیٰ کہ نماز میں بھی سو جاتے تھے ۔ بات کرتے کرتے سو جاتے تھے ۔ مولانا صاحب کے مریدوں میں بہت سارے ڈاکٹر بھی تھے اور وہ اس بات کے منتظر رہتے تھے کہ ہمیں کسی خدمت کا موقع ملے ۔ تو ڈاکٹروں نے اپنی پوری کوشش کی کہ معلوم کریں کہ یہ کیاہے ۔ مولانا صاحب بیٹھے بیٹھے کیوں سو جاتے ہیں ۔ ایک دفعہ میں نے اپنا خط مولانا صاحب کو دیا ۔ مولانا صاحب نے تھوڑا سا پڑھا ۔ اور پھر مولانا صاحب کے ہاتھ ہلنے لگے اور سو گئے ۔ یہ کوئی چیز تھی ۔ واللہ اعلم کیا چیز تھی ۔ ڈاکٹروں نے اس کی کچھ تشریحات وغیرہ کیں، جب حضرت وفات پا گئے ۔ تو میں نے ایک صاحب سے پوچھا کہ وہ چیز کیا تھی ۔ تو حضرت کے ایک خلیفہ اس وقت موجود تھے ۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ چیز وہی تھی جس کی وجہ سے یہ ہوگیا ۔ جو ہوگیا وہی چیز تھی ۔ یعنی اللہ جل شانہ نے مولانا صاحب کا وقت اسی کے ساتھ لکھا تھا ، اس کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا تھا ۔ اور بات بالکل یہی تھی ۔ تو جب کوئی واقعہ ہوجائے تو پھر یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اگر میں ایسا کرتا تو ایسے ہوجاتا ۔ تو یہاں پر یہ فرمایا کہ اگر تمام لوگ اس پر اتفاق کرلیں کہ تجھ کو کچھ نفع پہنچائے تو ہر گز اس کے سوائ کچھ نفع نہیں پہنچا سکتے جو کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے واسطے لکھ دیا ہے ۔ تقدیر کے قلم اٹھا دیے گئے ۔ فیصلہ ہوچکا ہے اب تبدیل نہیں ہوگا ، اور دفتر خشک ہوگئے ۔ یہ حدیث شریف ہمیں بتا رہی ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے ۔ ایک بات اور عرض کرنا چاہتا ہوں ۔ اسباب بھی اللہ پاک ہی نے پیدا کیے ہیں ۔ لہٰذا ہم لوگ ان اسباب کو کم نہ سمجھیں ۔ مثلاً میں کہتا ہوں کہ میں کھانا کھاتا ہوں ۔ تو میرا پیٹ بھر جاتا ہے اور جب میں پانی پیتا ہوں تو میری پیاس بجھ جاتی ہے ۔ اللہ پاک نے سبب بنائے ہوئے ہیں ۔ جب تک اللہ پاک اس سبب کو توڑ نہ ڈالے ، اس وقت تک یہ سبب موجود رہے گا۔اللہ تعالیٰ اس سبب کو اس وقت توڑتا ہے جب معجزہ ظہور میں آجائے یا کرامت ظہور میں آجائے یا پھر استدراج کے طور پر ایسا ہوتا ہوا نظر آسکتا ہے ۔ اب ظاہر ہے کہ اگر معجزہ کے طور پر بھی ہے ۔ تو اللہ پاک نے اس سبب کو عارضی طور پر توڑا ہے ۔ مثلاً آگ نے ابراہیم علیہ السلام کو نہیں جلایا ۔ لیکن وہ وقتی حکم تھا ۔ کیا پھر اس کے بعد آگ نہیں جلا سکتی تھی ۔ اس کے بعد بھی آگ جلا سکتی تھی ۔ اور موسیٰ علیہ السلام کے لئے دریا میں بارہ راستے بن گئے ۔ کیا اس کے بعد پھر وہ راستے قائم رہے؟ نہیں اس کے بعد دریا نے دوبارہ اسی طرح چلنا شروع کردیا ۔ اسطرح جب بھی اللہ تعالیٰ نے کسی سبب کو توڑا ہے ، تو عارضی طور پر توڑا ہے ۔ اور جو استمراری خاصیت ہوتی ہے کسی سبب کی ، اس کو اپنی طرف سے کم نہیں سمجھنا چاہیے ۔ کیونکہ وہ بھی اللہ کا حکم ہے ۔ کہتے ہیں کہ آپ ﷺِ کو جو زہر دیا گیا تھا ساری عمر وہ غیر مؤثر رہا لیکن موت کے وقت وہ زہر مؤثر ہوا جس سے آپ ﷺِ کی موت واقع ہوئی واﷲ اعلم تو اللہ جل شانہ کا حکم سمجھ کر اسباب کو اختیار کرنا ہمارا دین ہے ۔ لیکن ان اسباب کو اتنا موثر سمجھنا کہ نَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِک اللہ تعالیٰ بھی اس کو تبدیل نہیں کرسکتے یہ کفر ہے ۔ ان اسباب کو ذریعہ سمجھ کر ، اللہ جل شانہ کا حکم سمجھ کر اختیار کرنا دین ہے ، لیکن ان کو اتنا موثر سمجھنا کہ گویا اللہ پاک بھی اس کو تبدیل نہیں کرسکتا ، یہ کفر ہے ۔ اس سے متعدی مرض کا حکم بھی ثابت ہوتا ہے ۔ چیچک یا ایسی کوئی اور بیماری جو پھیلتی ہے ۔ اب اگر آپ ایک سبب سمجھ کر اس سے اپنے آپ کو بچائیں تو ٹھیک ہے ۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ بس اب یہ پھیلنے والی ہے تو ضرور ایسا ہوگا ۔ نہیں ایسی بات نہیں ۔ اگر اللہ پاک نہیں چاہے گا تو نہیں ہوگا ۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے ۔ تو اسباب کو مؤثر حقیقی سمجھنا کفر ہے اور اسباب کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع سمجھنا دین ہے ۔ یہ بات انسان کو ملحوظ رکھنی چاہیے ۔ اسی طرح ہمارے علاج معالجے کی چیزیں بھی اس میں آگئیں ۔ اگر ایک آدمی بیمار ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں علاج ہی نہیں کرتا ۔ اگر اللہ پاک نے مجھے خود ٹھیک کرانا چاہا تو میں ٹھیک ہوجائوں گا ۔ تو یاد رکھیں کہ ایسا کبھی کبھی ہوتا ہے لیکن کس کے لئے ہوتا ہے ؟ جن کا ایک مقام ہوتا ہے ۔ جو صاحب کرامت ہوتے ہیں ۔ کرامت میں بھی تو سبب کو توڑا جاتا ہے ۔ تو اگر آپ اپنے آپ کو صاحب کرامت سمجھتے ہیں تو پھر تو علاج نہ کرو ۔ لیکن اگرصاحب کرامت نہیں سمجھتے تو پھر اپنے آپ کو عام انسان سمجھ کر علاج کرو ۔بعض دفعہ اپنے اعمال پر ناز ہونے کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے ۔اس وقت شیخ کامل اس کو علاج کی طرف مادل کرے گا تاکہ عجب و ناز سے بچ جائے ۔ایک دفعہ حضرت نجم الدین بابا ؒ چولہے کھا رہے تھے ان کا ایک جاننے والا مولوی صاحب آیا ۔حضرت نے ان کو چولہے کھانے کی دعوت دی ۔انہوں نے یہ کہہ کر عذر کیا کہ میں امام مسجد ہوں اور فقہاء نے اماموں کو راستے میں کھانے سے منع فرمایا ہے ۔حضرت نے ان سے فرمایا آؤ چولہے کھاؤ اور امامت کرنا چھوڑ دو تو اس طرح بعض کیلئے اسباب اختیار کرنا میں ہی روحانی فائدہ ہوتا ہے اور اسباب کو ترک کرنے دعویٰ ہوسکتا ہے جس کا روحانی نقصان ہوسکتا ہے ۔یہی تووہ چیزیں ہیں جن کے لئے شیخ کامل کی ضرورت ہوتی ہے ۔ہاں تو علاج کو سنت سمجھ کر علاج کرنا چاہیئے لیکن علاج کرنے کا یہ مطلب نہیں ، کہ تم ڈاکٹر کو خدا بنا دو ۔ڈاکٹر کو خدا نہیں بنانا چاہیے ۔ ڈاکٹر بھی مجبور ہے ۔ آپ تمام ہسپتالوں کا دورہ کریں ، ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب ڈاکٹر بھی کہتا ہے کہ اب دعا کرو ، اب ہماری کوششیں فیل ہوگئی ہیں ۔ آپ نے دیکھا ہوگا ڈاکٹر بھی کہتا ہے کہ دعا کرو ۔ اسباب کے رخ سے ہماری ساری باتیں فیل ہورہی ہیں ۔ اب ہم کچھ نہیں کرسکتے ۔ اب جو کچھ ہوگا وہ دعا سے ہی ہوگا ۔ اور واقعی کبھی کبھی ایسا ہوبھی جاتا ہے ۔بڑے سے بڑے ملحد آدمی کو بھی بعض دفعہ خدا یاد آجاتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ بر زنیف اور ریگن کے درمیان ایک معاہدے پر بات ہورہی تھی ۔غالباً اسلحہ میں کمی کرنے کے معاملے پر بات ہورہی تھی ۔ تو برزنیف کے منہ سے اچانک نکلا ، اگر ہم نے یہ معاہدہ نہیں کیا تو خدا ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گا ۔ تو ریگن نے اس کو غور سے دیکھا اور کہا اچھا تو تجھے بھی خدا یاد آگیا ۔ تو بعض دفعہ ملحد سے ملحد آدمی کو بھی خدا یاد آجاتا ہے ۔ لیکن شیطان اس کو بہت جلدی آگے پیچھے کردیتا ہے اور اصل بات کی طرف نہیں آنے دیتا ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعے میں ہے کہ انہوں نے بتوں کو توڑنے کے بعد کلہاڑابڑے بت کے کندھے پر رکھا اور ان لوگوں کی آمد پر ان کو بتایا کہ یہ سب کچھ اس بڑے نے کیا ہے ۔ اس وقت وہ لوگ ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ واقعی ہم ہی غلطی پر ہیں ۔ لیکن یکدم پلٹا کھایا اور شیطان نے اپنا کام کردکھایا ، ان کو کہا کہ اگر اپنے خدائوں کو بچانا چاہتے ہو تو اکھٹے ہوجائو ۔ تو کبھی کبھی انسان کے دل میں حقیقت آجاتی ہے ۔ ایک جھونکا آہی جاتا ہے ۔ کچھ پتہ چل جاتا ہے لیکن شیطان اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھانے دیتا ۔اور بات کو آگے پیچھے کرکے اصل سے توجہ ہٹا دیتا ہے ۔ مسبب الاسباب پر نظر رکھنا اور اس کے بنائے ہوئے اسباب کو ذریعہ سمجھ کر استعمال کرنا ، اور پھر اللہ جل شانہ پر بھروسہ رکھنا ہمارا دین ہے ۔ ہمارے شیخ فرماتے تھے کہ ایسا توکل تو ایک بچہ بھی کرسکتا کہ جیب میں کچھ نہ ہو اور یہ کہے کہ اﷲ کرے گا تو ہوگا ۔اصل توکل یہ ہے کہ بینک بھرے ہوں اسباب پورے ہوں اور پھر بھی کہے کہ اﷲ چاہے گا تو ہوگا۔ ہمارا یہی عقیدہ ہے کہ اسباب کو اگر ہم نے اختیار کرلیا تو ہوگا تو وہی جو خدا نے پہلے سے لکھ دیا ہے ۔ اس سے آگے پیچھے کچھ نہیں ہوگا ۔ اس سے ایک بڑی چیز جس کی آج میں بات کرنے والا ہوں وہ سامنے آئے گی ۔
آج کل کچھ چیزیں بہت زیادہ ہوگئی ہیں ۔ جس کی افراط کی وجہ سے لوگوں کے عقیدے بگڑنے لگے ہیں ۔ وہ چیزیں عملیات ہیں ۔ عملیات بھی ایسے ہی اسباب ہیں جیسے میڈیکل لائن کے ہیں ۔ اب اگرکوئی شخص اس کو ذریعہ سمجھتا ہے اور ذریعہ سمجھ کر اختیار کرتا ہے، لیکن موثر حقیقی اللہ کو جانتا ہے ، اور اللہ تعالی کے حکم پر عمل کرتا ہے ،اور کوئی ایسا کام نہیںکرتا جس کی اللہ اور اس کے رسول نے اجازت نہیں دی تو اس کے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے کوئی ڈاکٹر سے علاج کرتا ہے ۔ فرق یہ ہے کہ ڈاکٹری کے جو اسباب ہیں وہ الگ ہیں، وہ ظاہر کے ہیں ۔ اور عملیات کے اسباب باطنی ہیں ۔ بہت ساری باتیں ایسی ہیں جو ہمیں معلوم نہیں ہیں لیکن وہ ہیں ۔ لہذا اس قسم کی چیزیں بھی ہیں اس سے ہم انکارنہیں کرتے ۔ اس میں تمام چیزیں آجاتی ہیں۔ جو مخفی اسباب ہیں وہ سارے کے سارے آجاتے ہیں ۔ اب اگر کوئی اس طرح عملیات کو اختیار کرتا ہے کہ اس کو صرف ایک ذریعہ سمجھتا ہے ۔ اس کے اندر کوئی ایسا کام نہیں کرتا جس سے اللہ تعالی ناراض ہوجائے ۔ اور انسان کے دین پر اثر پڑ جائے ۔ اس کے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ لیکن اگر اس سے کچھ آگے بڑھ جائے اور اتنا بڑھ جائے کہ وہ ایسے کام کرنا شروع کردے جس سے یا تو انسان کافر ہوتا ہو ، یا کسی حرام میں مبتلا ہوتا ہو ، تو اس کے کرنے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ ہمارے ایک ساتھی ہیں ہم سے بڑے ہیں ۔ ان کو migrane کی بیماری ہے، آدھے سر کا درد ۔ یہ اس کو بچپن سے ہے ۔ جب یہ درد شروع ہوتا ہے تو بڑا پریشان ہوجاتا ہے اور دوائیاں وغیرہ کھاتا ہے ۔ اس کے علاقے میں ایک ہندو ہے جو اس مرض کا دم کرتا ہے اور اس کا علاج تیر بہ ہدف بتایا جاتا ہے ۔یعنی تجربے کے لحاظ سے جس کو بھی وہ دم کرتا ہے تو اس کے آدھے سر کا درد ٹھیک ہوجاتا ہے ۔ تو اس کے گائوں والوں نے اس سے کہا کہ آپ اس ہندو سے کیوں علاج نہیں کرتے ۔ فرمایا ، ہندو ڈاکٹر سے علاج کرسکتا ہوں ، عیسائی ڈاکٹر سے علاج کرسکتا ہوں ، لیکن ہندو دم کرنے والے سے علاج نہیں کرسکتا ۔ کیونکہ یہ مخفی سبب ہے ۔ لوگ اس کو جانتے نہیں ، لوگ کفری روحانیت اور اسلامی روحانیت میں فرق نہیں کرسکتے ۔ نتیجتاً اگر میں اس کے علاج سے ٹھیک ہوگیا تو لوگوں کو عقیدہ یہ ہوجائے گا کہ ان کا مذہب سچا ہے ۔ اور میں مر سکتا ہوں اس درد سے لیکن میں کسی کے عقیدے کو خراب نہیں کرسکتا ۔ اور نہ میں اپنا عقیدہ خراب کرسکتا ہوں ، اسی وجہ سے اس نے اس سے اپنا علاج نہیں کروایا ۔ آفرین ہے اس پر ۔ ایک دفعہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ بیمار ہوگئے ۔ اور بہت سخت بیمار ہوئے ۔ ان کے وقت میں ایک جوگی تھے وہ توجہ سے بیماری کو سلب کردیتے تھے ۔ اس کو اس قسم کی پریکٹس تھی ۔ لوگوں نے حضرت سے کہا کہ آپ اس جوگی سے کہہ دیں کہ آپ کا علاج کرے ۔ خواجہ صاحبؒ نے فرمایا موت قبول ہے لیکن ان سے میں علاج نہیں کروائوں گا ۔ جب بے ہوش ہوگئے تو مریدوں نے محبت کے جوش کی وجہ سے کہ ہمارے شیخ کو تکلیف ہے ان کی چارپائی کو اٹھایا اور جوگی کی کٹھیا میں لے گئے ۔ ان سے کہا کہ ان کی بیماری سلب کردو ۔ اس جوگی کی تو عیش ہوگئی ۔ اس نے سوچا کہ اتنے بڑے شیخ میرے ہاں لائے گئے ہیں اب تو میں لوگوں کی نظروں میں اور بھی اونچا ہوجاوں گا ۔ تو فوراً اس نے توجہ کی اور بیماری سلب کردی ۔ خواجہ صاحب کو ہوش آیا ، جب دیکھا کہ میں جوگی کی کٹھیا میں ہوں ،مریدوں سے پوچھا کس لئے لائے ہو ، تو ان کے مرید رونے لگے کہ حضرت ہمیں معاف کردیں ، ہم سے غلطی ہوئی ،ہم سے برداشت نہیں ہوا تو ہم آپ کو یہاں لے آئے ، آپ ہمیں معاف فرمایں ۔ خواجہ صاحبؒ نے سوچا کہ جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا اب میں ان سے کیا کہوں ۔ تو ان کو معاف کردیا۔ پھر جوگی سے پوچھا کہ یہ نعمت تمہیں کیسے حاصل ہوئی ۔ جوگی نے جواب دیا کہ میں اپنے نفس کی مخالفت کرتا ہوں ۔ نفس اگر کہتا ہے کہ ٹھنڈا پانی پیو تو میں گرم پانی پیتا ہوں اگر نفس کہتا ہے کہ گرم پیو تو میں ٹھنڈا پیتا ہوں ۔ نفس اگر کہتا ہے کہ بیٹھ جائو تو میں اٹھ جاتا ہوں اگر کہتا ہے اٹھ جاوتو میں بیٹھ جاتا ہوں ۔ مطلب یہ ہے کہ میں نفس کی مخالفت کرتا ہوں جس کی وجہ سے مجھے یہ نعمت حاصل ہوئی ہے ۔ خواجہ صاحب نے اس سے کہا کہ اچھا تو پھر آپ کلمہ پڑھیں ۔جوگی سے کلمہ پڑھا نہیں گیا ۔ اس نے کہا اب آپ توجہ کریں ، اب جب جوگی نے توجہ کی تو وہ موثر نہیں ہورہی تھی ۔ اب جوگی رونے لگا کہ میں نے آپ کے ساتھ احسان کیا اور آپ نے میرے ساتھ ظلم کیا ۔ آپ نے میری قوت سلب کرلی ۔ اس نے کہا میں نے سلب نہیں کی تو نے خود اپنی قوت سلب کرائی ہے کیونکہ تم نے اپنے ہی ہی اصول کے خلاف کام کیا ، جب آپ کو میں نے کہا کہ کلمہ پڑھو تو اس وقت تمہیں کلمے سے روکنے والی چیز کونسی تھی ؟ یہ نفس ہی تو تھا ۔ تو نے نفس کی بات مان لی لہذا تو تمام چیزوں کو کھو بیٹھا ۔ اب کلمہ پڑھ لو تمہیں وہ قوت دوبارہ حاصل ہوجائے گی ۔ تو اس نے پھر کلمہ پڑھ لیا اور ماشاء اللہ حضرت خواجہ صاحبؒ کے مریدوں میں شامل ہوگئے اور پھر بہت اونچے مقام پر فائز ہوئے ۔ تو خواجہ صاحب کو اس نے ایک دنیاوی فائدہ پہنچایا ، حضرتؒ نے ان کو آخرت کا فائدہ پہنچایا ۔ اب اگر خواجہ صاحب عام آدمی ہوتے تو اس جوگی کے مرید بن جاتے ۔ لیکن الٹا وہ خواجہ صاحبؒ کے مرید ہوگئے اور مسلمان ہوگئے ۔ یہ ہمارے اکابر کا طریقہ ہے ۔ ہمارے اکابر کبھی بھی اس قسم کی حرکت نہیں کرتے جس سے دین کا نقصان ہو ۔
میرے پاس ایک عامل آئے اور کہا کہ آپ فلکیات کے ماہر ہیں میں آپ سے کچھ چیزوں کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں،یہ شق قمر کیا ہوتا ہے اور فلاں چیز کیا ہوتی ہے ، تو اس کے بارے میں مجھ سے پوچھنے لگے ۔ میں نے کہا کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ، میں واقعتا فلکیات کا طالبعلم ہوں ، لیکن ہوں فلکیات کا ، علم نجوم کا نہیں ۔ علم نجوم اور علم فلکیات میں فرق ہے ۔ علم نجوم ستاروں اور سیاروں کی تاثیر کا علم ہے ۔ اور فلکیات ستاروں اور سیاروں کے مقامات اور ان کے حرکات اور طبعی خاصیتوں کے جاننے کا علم ہے ۔ فلکیات دین میں جائز ہے۔ بلکہ اس سے دین کو فائدہ ہوتا ہے ۔ یہ علم توحید کا مبلغ ہے ۔ جبکہ علم نجوم شرک ہے ۔ اس میں ستاروں کو قسمت پر اثر انداز سمجھا جاتا ہے۔ یہ شرک ہے اور اس کے بارے میں تو یہاں تک فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی نے نجومی یا کاہن کی بات پر یقین کرلیا تو اس کی چالیس دن کی مقبول نمازیں تباہ ہوجائیں گی یعنی ان کا اجر ختم ہوجائے گا ۔ تو کیا میں آپ ایسی چیز بتا دوں جس سے مجھے اتنا بڑا نقصان ہوجائے ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔ میں تو ان چیزوں پر یقین ہی نہیں کرتا ۔ پھر میں نے اسے بتایا کہ صدر پاکستان کو ایک منجم نے خط لکھا تھا ، اس میں اس نے لکھا تھا کہ ہمارے ملک کا جو جھنڈا ہے یہ منحوس ہے ۔ کیونکہ اس پر setting moon ﴿غروب ہونے والا چاند﴾ کی تصویرہے۔ اس کو تبدیل کرنا چاہیے تو صدر صاحب نے اس کو وزارت مذہبی امور بھیج دیا ۔ وہاں سے انہوں نے فائل کو میرے پاس بھیج دیا کہ آپ اس کا جواب دیں ۔ تو میں نے اس کے تین جواب دیے ۔ پہلا جواب یہ دیا کہ آپ کہتے ہیں کہ یہ setting moon ہے تو یہ setting moon نہیں ہے ۔ جو اس کو setting moon کہتا ہے وہ اصل میں فلکیات کو جانتا ہی نہیں ۔ آپ غور کریں ہمارے جھنڈے پر جو چاند ہے تو جو صبح کے وقت چاند طلوع ہوتا ہے یعنی ہلال تو آپ دیکھیں بھی ایسی ہی ہوتی ہے ۔ اور یہ طلوع و غروب پر منحصر نہیں ہے صرف سمت پرہے کہ طلوع مشرق کی طرف سے اور غروب مغرب کی طرف ہوتی ہے ۔ باقی اس کی شکل ایک جیسی ہوتی ہے ۔ لہذا اس میں setting اور rising ﴿طلوع ہونے والا ﴾والی بات ہی نہیں ہے ۔ دوسرا جواب میں نے یہ دیا کہ علامہ اقبال جو شاعر مشرق ہیں انہوں نے فرمایا ہے کہ
ستارہ کیا تجھے تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود ہی گردش افلاک میں ہے خوار و زبوں
اب جو ہمارا قومی شاعر ہے وہ اس کے بارے میں کیا کہہ رہا ہے ۔ تو ہم اس چیز کو کیسے مان سکتے ہیں ۔ تیسری بات میں نے اسے حدیث شریف کی بتائی ، اور یہ حدیث شریف کی بات میں نے اس لئے آخر میں رکھی کہ اگر پہلے یہ بات رکھوں گا تو پتہ نہیں یہ کیا کرے، عین ممکن ہے کہ انکار کردے اور ان کو نقصان ہو جائے ، تو میں نے آخر میں حدیث شریف رکھی کہ جو کوئی نجومی اور کاہن کی بات پر یقین کرے گا تو اس کی چالیس دن کی نمازیں ضائع ہوجاتی ہیں ۔ تو یہ چیز میں نے لکھ کر بجھوا دی ۔ جب سیکرٹری صاحب نے یہ جواب پڑھا تو بہت خوش ہوئے ، اور اپنے comments ﴿تبصرے ﴾ کے ساتھ اسے صدر صاحب کے پاس بجھوا دیا اور الحمد اللہ وہ فتنہ رفع دفع ہوگیا ۔ آج کل کے دور میں بھی آپ دیکھ رہے ہونگے کہ اخبارات میں بھی آتا ہے کہ آپ کا ہفتہ کیسا رہے گا ۔ اور آپس میں جب لوگ بیٹھتے ہیں تو ایک دوسرے سے اکثر پوچھتے ہیں کہ آپ کا سٹار کونسا ہے ؟ پہلے لوگ موسم وغیرہ کا حال پوچھتے تھے اب سٹار کا پوچھتے ہیں ، پھر اس کی تشریح کرتے ہیں کہ دیکھیں نا یہ آپ کا سٹار تو ایسا ہے ویسا ہے ، اس میں یہ ہے وہ ہے ۔ یہ ساری کی ساری باتیں diplomatic ہوتی ہیں ۔ اگر کسی کو الّو بنانا تو ان باتوں سے بہت آسانی سے الّو بنایا جاسکتا ہے ۔ ایک ہوشیار آدمی کو بھی ان باتوں سے بے وقوف بنایا جاسکتا ہے ۔ میں آپ کو ایک ٹیسٹ بتاتا ہوں آپ اس ٹیسٹ پر بے شک کل سے عمل شروع کردیں ۔ آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ اصل چیز کیا ہے ۔ جب اخبار میں کسی کی طرف سے کوئی پیشن گوئی آئے تو آپ اس کو نوٹ کرلیں ، اور پھر دیکھیں کہ وہ چیز اس کے مطابق ہوتی ہے یا نہیں ہوتی ۔ پھر آپ ایک سال کے بعد statisticaly ﴿شماریاتی جائزہ کے ساتھ﴾ دیکھیں کہ کتنی پیشنگوئیاں صحیح ہیں اور کتنی غلط ہیں ۔ آپ کو خود ہی پتہ چل جائے گا ۔ ہمارے ہاں اکثر کہا جاتا ہے کہ جب کوّا گھر کی دیوار پر بیٹھا بولتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ مہمان آرہے ہیں ۔ میں نے کہا کہ ایک رجسٹر رکھ لو ، جب کوّا آئے اور ساتھ میں مہمان بھی آجائیں اس کو بھی نوٹ کرلو اور جب کوّا آئے اور مہمان نہ آئے تو اس کو بھی نوٹ کرلو ۔ آپ کو ایک مہینے کے اندر پتہ چل جائے گا کہ اس بات کی کیا حیثیت ہے ۔ اصل میں ہوتا یوں ہے کہ جب کسی کی پیشنگوئی ٹھیک ہوجائے تو اس کو توبڑی Advertisement﴿تشہیر﴾ ہوتی ہے ۔لیکن اس کی جوسینکڑوں پیشنگوئیاں غلط ہوئی ہوتی ہیں اس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہتا ۔ اس کو چھپا دیا جاتا ہے ۔ آپ کو ایک حالیہ واقعہ بتادوں کہ امریکہ کا صدارتی انتخاب جب ہورہا تھا تو دنیا بھر کے نجومیوں نے کیا کہا تھا ، اس میں مسلمان نجومی بھی شامل تھے اور غیر مسلم بھی تھے ۔سب نے کہا تھا کہ بش ہار جائے گا ، لیکن نتیجہ کیا ہوا ۔ بش جیت گیا ۔ تو یہ پیشنگوئیاں اگر کچھ اسباب پر depend ﴿منحصر ﴾کررہی ہوتی ہیں یا physcial phenomena ﴿طبعی طور﴾پر ، تو ٹھیک ہے اس کی کچھ نہ کچھ حیثیت بنتی ہے ۔ لیکن اگر وہ ما بعد الطبعیات پرہوئی ہیں ۔ تو یہ ساری کی ساری فراڈ ہوتی ہیں ۔ ایک آدھ ٹھیک ہوتی ہے باقی ساری غلط ۔ ایک صاحب نے کہا تھا کہ ہمارے گھر میں دو بزرگ ہیں ، کسی نے پوچھا وہ کیسے ۔ کہا ایک میرے دادا ہیں اور ایک میری دادی ہیں ۔ جب بادل آتے ہیں تو دادا کہتا ہے بارش ہوگی ، اور دادی کہتی ہے کہ نہیں ہوگی ۔ تو کبھی بارش ہوجاتی ہے کبھی نہیں ہوتی ۔ تو کبھی دادا بزرگ بن جاتے ہیں کبھی دادی بزرگ بن جاتی ہیں ۔تو یہ بزرگی آپ بھی شروع کرسکتے ہیں بڑی آسانی سے بزرگ بن جائیں گے ۔ جن کے عقیدے میں کمزوری ہو ان کو بہت جلد اس طریقے سے خراب کیا جاسکتا ہے ۔
قرآن کریم ایک مکمل اورسچی کتا ب ہے اس میں جھوٹ ہو ہی نہیں سکتا۔
الٓمّٓ ﴿۱﴾ ذٰلِکَ ا لْکِتٰبُ لَا رَیبَ فِیہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِین،
اس میں کوئی شک نہیں ۔ جو اس پر شک کرے گا اس کے دماغ کے ٹھیک ہونے پر شک ہے ۔ حضور ﷺِ کی کسی بات میں کوئی شک نہیں ، جب ثابت ہوگیا کہ حضورﷺ کی بات ہے بس پھر کوئی شک نہیں ۔ تو ان دوباتوں میں کوئی شک نہیں ، اگر کوئی تیسری بات ہو تو ان دو چیزوں پر اس کو پیش کیا جائے ، اگر یہ دو اجازت دیں تو پھر اس پر بھی کوئی شک نہیں ۔ اور اگر یہ دو اجازت نہیں دیتے تو پھر وہ شک والی بات ہے ۔ اس لئے کہتے ہیں کہ اگر کسی آدمی میں کرامت دیکھو تو اس کی زندگی کو قران و سنت پر پرکھو ۔ اگر وہ قران و سنت کے مطابق زندگی بسر کررہا ہے تو ٹھیک ہے ۔ قران سنت کے مطابق نہیں تو بے شک وہ ہوا میں بھی اڑے تو کوئی پروا نہ کرو ۔کافر بھی ہوا میں اڑ سکتے ہیں ۔ حضرت امام زین العابدین ؒ کے ساتھ ایک جوگی کا مقابلہ ہوا تھا ۔ وہ جوگی ہوا میں اڑ رہا تھا تو امام زین العابدین ؒ نے ان کو اپنی جوتی سے نیچے گرا دیا تھا ۔ ظاہر ہے وہ جوگی بھی تو کچھ کررہا تھا جو ایسے اڑ رہا تھا اور حضرت کی جوتی بھی اپنا کام کررہی تھی کہ اس کو نیچے گرا دیا ۔ تو آج کل شعبدہ بازی کے چکر میں بہت سارے لوگ مارے جاتے ہیں ۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ اگر تم ہوا میں اڑ سکتے ہو تو ایک مکھی بھی اڑ سکتی ہے تو تم مکھی بن جاو گے۔ اور اگر سمند ر پر چلو تو مچھلی بھی سمندر میں چلتی ہے تو مچھلی بن جائو گے ۔ یہ چیزیں چھوڑو ، انسان بن جائو ، انسان بننے میں فائدہ ہے ۔ سب سے بڑا کام انسان بننا ہے ۔ حضرت جنید بغدادی ؒ کے ساتھ ایک شخص دس سال تک رہے ، دس سال کے بعد جانے لگے ، حضرت نے پوچھا کیا بات ہے آپ کیوں جارہے ہیں ؟ اس نے کہا حضرت ان دس سالوں میں میں نے آپ کے اندر کوئی کرامت نہیں دیکھی ۔ حضرت نے پوچھا ان دس سالو ںمیں مجھ سے کوئی خلاف سنت کام ہوتے دیکھا ہے؟ اس نے کہا نہیں ۔ حضرت نے جلال میں آکر فرمایا جنید کی اس سے بڑی کرامت کیا ہوگی کہ اس نے دس سال میں اللہ تعالیٰ کو ناراض نہیں کیا ۔ اس سے بڑھ کر اور کیا کرامت ہوگی ۔ پھر فرمایا
الاستقامت فوق الکرامت
استقامت کرامت سے اونچی ہے ۔ واقعتا نفس اور شیطان کی چکی کے اندر اپنے آپ کو اتنا عرصہ بچا کر رکھنا کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ یہ کرامت نہیں تو کیا ہے ۔ ساٹھ میل کی رفتار سے آندھی چل رہی ہو اور آپ ایک جلتا ہوا دیا ایک میل تک لے جائیں یہ کرامت ہوگی یا نہیں ہوگی ؟حالانکہ تیز ہوا چل رہی ہے اور دیا نہیں بجھ رہا ۔ تو اگر کوئی شخص نفس اور شیطان کی چکی میں اپنے آپ کو بچا رہا ہو اورگناہ سے آلودہ نہ ہورہا ہو تو یہ کرامت نہیں تو کیا ہے ، بلکہ حقیقی کرامت یہی ہے ۔ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا تھا ۔ وہ ایک دفعہ بحری جہاز پر کہیں جارہے تھے کہ راستے میں سخت طوفان آگیا ، سب لوگ گھبرا گئے لیکن یہ strong nerves ﴿مضبوط اعصاب ﴾کا آدمی تھا ، یہ مطمئن بیٹھا ہوا تھا ۔ لوگوں نے پوچھا آپ کیسے مطمئن بیٹھے ہیں ۔ اس نے کہا مجھے پتہ ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوگا ۔ اب وہ ظالم اتنا intellegent ﴿ہوشیار ﴾تھا اس نے سوچا تھا کہ اگر کچھ ہوگیا تو میں نے بھی جانا ہے سب لوگوں نے ختم ہوجانا ہے لہذا کیا فرق پڑے گا ۔ اور اگر بچ گئے تو پھر تو میری عیش ہی عیش ہے ۔ اور ہوا یہی کہ جہاز بچ گیا ، بس سب لوگ اس پر ایمان لے آئے کہ واقعی یہ تو بہت بڑا بزرگ ہے ۔ اس نے کہا تھا کہ کچھ نہیں ہوگا واقعی کچھ نہیں ہوا ۔ تو کمزور عقیدے کے لوگ بہت جلدی اس کا شکار ہوسکتے ہیں۔
کشف دو قسم کا ہوتا ہے ۔ ایک کشف کونی یا زمانی ہوتا ہے اور دوسرا کشف الہٰی ہوتا ہے ۔ جو کشف کونی یا زمانی ہے ، یہ جانوروں کو بھی ہوسکتا ہے ۔ مرغ کو صبح صادق کا کشف ہوتا ہے ۔جانوروں کو عذاب قبر کا بھی کشف ہوتا ہے ۔ پاگل کو بھی کشف ہوتا ہے تو یہ کوئی کمال نہیں ہے ، کشف کونی یا زمانی یہ کوئی کمال نہیں ہے یہ عام لوگوں کو بھی ہوسکتا ہے ۔ لیکن جو کشف الہٰی ہے یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے ۔ آپ پر اللہ جل شانہ حق کو واضح کردے۔ قران پاک کے علوم آپ پر کھول دے، احادیث شریف کے علم کو آپ کے اوپر کھول دے ۔ تو یہ بہت بڑی بات ہے ۔ اللہ جل شانہ نے جس کا سینہ کھول دیا یہ بہت بڑی بات ہے ۔ اس وجہ سے اس کی دعا بھی کرنی چاہیے کہ اے اللہ ہمیں یہ نصیب فرما ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تھی
رب اشرح لی صدری ویسر لی امری واحلل عقدَۃً من لسانی یفقہوہ قولی
تو اس کے لئے آپ دعا بھی کرسکتے ہیں ۔ لیکن دوسری چیز یعنی میں اس دیوارکے آر پار دیکھ لوں تو یہ کونسا بڑا کام ہے ۔ ایک چھوٹا سا پیری سکوپ بھی یہ کام کرسکتا ہے ۔یہ ایک چھوٹا سا آلہ ہوتا ہے دیوار کے اندر سوراخ کرلو اور اس میں رکھ کر دیکھو تو دیوار کے پیچھے جو کچھ ہوگا آپ کو نظر آجائے گا ۔ اسی طرح اگر یہاں کوئی ٹی وی کا کیمرہ ہوتا تو ہمیں امریکہ میں بھی دیکھا جاسکتا تھا ۔ تو یہ کوئی ایسی کمال کی بات نہیں ہے ۔ کیا کوئی سائنٹسٹ یا انجنیئر اپنے اپنے کمال فن سے ہدایت کوپا سکتے ہیں ؟ اگر ہدایت سائنس کے بل بوتے پر ہوتا تو آئن سٹائن مسلمان نہ ہوجاتا؟ ایسے بہت سے سائنسدان دنیا سے بے ایمان کیوں چلے گئے ۔ اس کا مطلب ہے کہ ہدایت ان چیزوں پر منحصر نہیں ہے ۔ ایک آدمی بہت بڑا سائنسدان بن جائے تو کیا فرق پڑتا ہے موت تک ہی وہ سائنسدان ہے ۔ موت کے بعد وہ کیا ہے ۔ میرے دفتر کے تین ساتھی جنہوں نے پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے ایک دفعہ میرے ارد گرد بیٹھ گئے ، باتوں باتوں میں ایک نے مجھ سے پوچھا کہ آئن سٹائن کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ میں نے کہا بہت اچھا خیا ل ہے بہت بڑے سائنسدان تھے بہت نام کمایا ۔ بہت کام کیا ، اور لوگوں نے بہت عزت دی ۔ اس سے زیاد ہ تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا تھا ۔انہوںنے پوچھا نہیں وہ جنت میں جائے گا یا نہیں جائے گا ۔ میں نے کہا یہ میرا فیلڈ نہیں ہے ۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے ۔ اگر وہ مسلمان ہوگیا تھا اور مجھے معلوم نہیں ہے تو اگر مجھے آپ بتا دیں تو میں بھی خوش ہوجائوں گا کہ وہ مسلمان ہوگیا تھا ۔ لیکن اگر وہ مسلمان نہیں ہوا تھا تو جنت میں نہیں جائے گا ۔ اس پر اس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کے پاس اس کی کیا دلیل ہے ۔ میں نے کہا کہ آپ نے فرمایا ہے قُولُوا لاَ الٰہَ الاَّ اﷲ تُفْلِحُوا ۔ لا الہ الا اﷲ پڑھ لو اور فلاح پا لو ۔ تو یہ فلاح کا ذریعہ ہے ۔ فرمایا نہیں نہیں جو حدیث قر آن سے ٹکرائے میں اس کو نہیں مانتا ۔ میں نے کہا اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ حدیث قر آن سے ٹکرا رہا ہے ۔ محدث کرے گا یا آپ کریں گے ۔ یہ فیلڈ تو محدث کا ہے تمہارا تو نہیں ہے ۔ تم نے تو ساری عمر نیوٹران او رپروٹان میں گزاری ہے ۔ اگر نیوٹران اور پروٹان پر کوئی مولوی بات کرے گا تو تم اس کو بات کرنے دو گے ۔ اگر وہ ممبر پر بیٹھ کر نیوٹران اور پروٹان کی بات شروع کردے تو تم ہی کہوگے مولوی جی یہ آپ کا فیلڈ نہیں ہے، اس کے بارے میں ہم سے پوچھیں ۔ اور واقعی یہ بات آپ ہی سے پوچھی جائے گی اور آپ کی بات ٹھیک ہوگی ۔اس مسئلے میں ہم آپ کے ساتھ ہونگے کیونکہ آپ نیوٹران اور پروٹان کے سپشلسٹ ہیں۔ لیکن آپ اگر حدیث کی بات کرو گے تو ہم آپ کو کہیں گے چپ ہوجائو یہ کام تمہارا نہیںہے ۔ یہ کام امام بخاری ؒکا ہے، امام مسلم ؒ کا ہے، امام ترمذیؒ کا ہے، امام ابودائود ؒ کا ہے ۔ یہ ان لوگوں کا کام ہے تمہارا کام نہیں ہے ۔ اس پر دوسرے ساتھی نے مجھ سے کہا شبیر صاحب تھوڑا سا اپنا ذہن کو وسیع کرلیں ۔ آپ کا ذہن تھوڑا تنگ ہے ۔ میں نے کہا آپ کے مشورے کا بہت بہت شکریہ ، واقعی آپ نے نیک نیتی سے مشورہ دیا ہوگا ۔ لیکن میں آپ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں کہ میرا ذہن اتنا تنگ نظر رہنا چاہیئے کہ مسلمان اور کافر میں تمیز کرسکے ۔ اتنا وسیع النظر ہوکر میں کیا کروں گا کہ ایک کافر اور مسلمان میں تمیز نہ کرسکوں ۔ تو یہ کام مجھ سے نہیں ہوسکتا ۔ میں اپنے ذہن کو اتنا وسیع نہیں کرسکتا ۔ میں اسی تنگی پر مرنا چاہتا ہوں ۔ تو یہ ہے آج کل کی حالت ۔اگر کسی مجلس میں ایک فزکس کا ایکسپرٹ بیٹھا ہوا ہو اور ایک کیمسٹری کا ، اور کوئی فزکس کا سوال آجائے تو آپ کس سے پوچھیں گے ؟اگر کیمسٹری والا بولے گاتو ہم اس کو کہیں گے خدا کے بندے یہ تمہارا فیلڈ نہیں ہے ۔ توسپیشلائزیشن کواگر ہم مانتے ہیں تو کیا علوم دینیہ کے سپیشلسٹ نہیں ہیں ؟ تمام چیزوں میں سپیشلائزیشن کو لوگ مانتے ہیں لیکن دینی علوم کی سپیشلائزیشن کو لوگ نہیں مانتے ۔ لوگ کہتے ہیں آپ مدرسوں میں سائنس کیوں نہیں پڑھاتے ، انجنیئرنگ کیوں نہیں پڑھاتے ۔ میڈیکل کیوں نہیں پڑھاتے ۔ مجھ سے بھی یہ سوال ایک دفعہ کیا گیا تھا جس کا میں نے جواب دیا کہ پھر انجینئرنگ کالج میں میڈیسن پڑھانا شروع کردو میں آپ کے ساتھ ہوں گا ۔ کیا اس وقت آپ انجنیئرز کو convince ﴿مطمئن ﴾کرسکو گے ؟ وہ آپ کو جوتے ماریں گے ۔ کہیں گے یہ انجنیئرنگ میں میڈیسن کہاں سے آگئی ۔ اسی طرح میڈکل کالج میں انجنیئرنگ کو پڑھانا شروع کردو ۔ توجب ان تمام فیلڈز میں آپ سپیشلائزیشن کو مانتے ہیں تو دین میں بھی سپیشلائزیشن کو کیوں نہیں مانتے ۔ یہ بھی مان لو ۔ بھئی ٹھیک ہے کچھ لوگوں نے اپنا وقت لگا کر ایک تخصص کو حاصل کرلیا ہے اب جب تمہیں ضرورت پڑ جائے تو ان کی بات سن لینا ، اس میں آپ کا فائدہ ہے ۔ بس اتنی سی بات ہے۔ اب نماز ہم پڑھتے ہیں ، ثم الحمد اللہ ، اللہ جل شانہ ہمیں نصیب فرمائے کہ موت تک ہم نماز پڑھتے رہیں اور صحیح طریقے سے پڑھیں ۔ اب اگر کوئی شخص اس بات کو جانتا ہو کہ سنت طریقے سے نماز پڑھنا کیسے ہوتا ہے ۔ اور وہ مجھے کہہ دے ، شبیر صاحب یہ نماز جو آپ نے پڑھی ہے اس میں فلاں طریقہ غلط ہے یہ سنت نہیں ہے ۔ اور میں اسے کہوں چپ ہوجاؤمیں انجنیئر ہوں ۔ بھئی انجنیئرنگ کا نماز سے کیا تعلق ہے ۔ کبھی انجنیئرنگ کالج میں مجھے کسی نے نماز سنت کے مطابق پڑھنے کا subject ﴿مضمون ﴾ پڑھایا ہے ؟ بھئی یہ فیلڈ ہی الگ ہے ۔ اب اگر کوئی شخص مجھے نماز میں غلطی پر مطلع کردے تو میں اس کا شکریہ ادا کروں گا ، بس اسی میں میری کامیابی ہے ۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ میرے ساتھ کوئی ڈاکٹر بیٹھا ہو اور میں کوئی چیز کھانے لگوں اور وہ ڈاکٹر مجھے کہے شبیر صاحب یہ چیز نہ کھائیں یہ تمہارے لئے نقصان دہ ہے ۔اوراس وقت میں کہوں ،چپ رہو میں انجنیئر ہوں تو وہ کیا جواب دے گا؟ وہ کہے گا اچھا کھاؤ کھاؤپتہ چل جائے گا ۔ تو ہم لوگ اگراس بات پر بضد رہیں گے کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں وہ ٹھیک کہتے ہیں تو یاد رکھیں کہ فیصلے کا ایک دن آنے والا ہے ۔ اس میں فیصلہ ہوجائے گا اس وقت پتہ چل جائے گا ، کہ کون صحیح تھا اور کون غلطی پر تھا ۔ کہتے ہیں غبار کو بیٹھنے دو پتہ چل جائے گا کون گھوڑے پر بیٹھا ہے کون گدھے پر بیٹھا ہے۔ وہ غبار کیا ہے وہ ہماری زندگی ہے ۔ جتنی سانسیں باقی ہیں وہ سانسیں پوری کرنی ہیں ۔ جس وقت غرغرے کا وقت آگیا ساری چیزیں واضح ہوجائیں گی اس وقت انسان افسوس کے سوا کچھ نہیں کرسکے گا ۔ اسوقت انسان یہی کہے گا کاش میں نے یہ بات مان لی ہوتی ۔ کاش میں نے اپنے آپ کو درست کیا ہوتا ۔ کاش میں نے صحیح اعمال کیے ہوتے ۔ کاش میں نے اپنا عقیدہ صحیح رکھا ہوتا ۔ لیکن اس وقت کیا ہوسکے گا ۔ اور جو خوش نصیب لوگ ہونگے جنہوں نے اپنی زندگی میں اپنے عقائد کو درست کیا ہوگا ، صحیح اعمال کیے ہونگے ۔ ان کے لئے اللہ پاک نے فرمایا ہے ۔
انَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ﴿30﴾ نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ۔ وَلَکُمْ فِیْھَا مَاتَشْتَھِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَ﴿31﴾ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ﴿32﴾
جنہوں نے کہا کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے اور پھر اس پر استقامت اختیار کیا تو فرشتے اتریں گے اور اس کو کہیں گے کہ گھبراو نہیں ہم تمہارے ساتھ دنیا میں بھی تھے اور اب بھی تمہارے ساتھ ہیں اور تم جہاں جارہے ہو وہاں تمہیں من چاہی چیز بھی ملے گی اور منہ مانگی چیز بھی ملے گی ۔ کیونکہ تم اللہ غفور الرحیم کی مہمانی میں جارہے ہو ۔ اللہ جل شانہ ہمیں بھی یہ نصیب فرمائے ۔ تو ان تمام باتوں کا لب لباب یہ ہے کہ ہمارا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے ۔ اللہ جل شانہ ہر جگہ موجود ہیں ۔ کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں اللہ نہیں ہے ۔ وہ ہمیں ہر وقت اور ہر جگہ دیکھ رہا ہے چاہے ہم اس بات کو مانیں یا نہ مانیں ،ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم یہ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر وقت دیکھ رہا ہے ۔ آپ ﷺِ نے ارشاد فرمایا کہ تم عبادت ایسے کرو جسیے تم خدا کو دیکھ رہے ہو ۔ اور اگر تو یہ محسوس نہیں کرسکتاکہ خدا کو دیکھ رہا ہوں تو اتنا تو ہونا چاہیے کہ تم یہ محسوس کرو کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے ۔ بس اس چیز کا خیال رکھیں ،یقین جانیے کامیابی ہی کامیابی ہے ۔ اس کو حاصل کیسے کیا جائے گا ؟ اس کے لئے چند چیزوں کی ضرورت پڑے گی ، ایک تو موت کو کثرت سے یاد رکھنا چاہیے ۔ دوسرا اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کرنا چاہیے ۔ اور جو کثرت سے ذکر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو یاد ہوجاتے ہیں ۔ اس کے بھی stages ﴿درجے ﴾ہیں ، پہلے میں ذکر کروں گا زبان سے ، جب زبان ہلے گی تو اللہ جل شانہ فرماتے ہیں میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں ۔اس کے بعد یہ ذکر دل میں اتر جائے گا ۔ دل ذکر کرے گا ۔ اس کے بعد ماشاء اللہ پورے جسم میں پھیل جائے گا ۔ حتیٰ کہ پھر ہر ہر چیز سے آپ کو محسوس ہوگا کہ اللہ جل شانہ مجھے یاد آرہے ہیں ۔ آپ جس چیز کو بھی دیکھیں گے آپ کو اللہ جل شانہ یاد آئیں گے ۔تو اس چیز کو ہم نے حاصل کرنا ہے ۔ ہر چیز کو آپ نے اللہ کو یاد کروانے والا بنانا ہے ۔ فجر کی نماز کا وقت ہوگیا ،اٹھنا مشکل ہے ، نیند غالب ہے اب ایک تیز قسم کا الارم چاہیے جو ہمیں یاد دلائے کہ غافل اٹھ جا نماز کا وقت ہے ۔ اگر اس سے کام نہیں ہوتا تو گھر میں کسی اور سے کہہ دیا جائے کہ مجھے اٹھا دینا ۔ میں جس وقت کالج میں پڑھتا تھا اس وقت میری نیند بہت سخت تھی ۔ اتنی سخت تھی کہ مجھے جگا کر بٹھا دیا جاتا ، تو میں بیٹھے بیٹھے سو جاتا تھا ۔ حتیٰ کے میرے ہاتھ میں لوٹا دے دیا جاتا میں اس کیساتھ بھی سو جاتا ۔ تو ساتھیوں نے سوچا کہ اب ان کے ساتھ کیا کیا جائے ؟ تو ایک حافظ حمید اللہ صاحب تھے ۔ اللہ تعالیٰ ان کو اجر دے پتہ نہیں زندہ ہیں یا فوت ہوگئے ہیں ، وہ میڈیکل کالج میں تھے ، میں ان کے ساتھ لڑ پڑتا کہ آپ نے مجھے نہیں جگایا ۔ وہ مجھے کہتے میں نے آپ کو جگایا تھا لیکن آپ پھر سو گئے ۔ پھر انہوں نے ایک طریقہ نکالا ، وہ روزانہ ایک نیا topic لے کر آتا ، وہ مجھے تھوڑا سا جھنجوڑتے تھے اور کہتے شبیر صاحب پتہ ہے آج کیا ہوگیا ہے ؟کوئی بات مجھ سے چھیڑ دیتا اور اس سے میرا ذہن کھل جاتا ، اور میری نیند ختم ہوجاتی ۔ تو کوشش کرنے سے کوئی نہ کوئی طریقہ نکل آتا ہے ۔ لیکن اس کو کوئی اصل کام سمجھے تب نا ۔اگر کوئی یہ کہے کہ میرا کل ایک اہم assignment ہے اس کے لئے اگر مجھے رات دیر تک جاگنا پڑ جائے تو کوئی بات نہیں جاگ لوں گا ۔ ہاں اگر صبح کی نماز قضا ہوگئی تو کوئی بات نہیں استغفار کرلوں گا، اللہ معاف کرنے والا ہے ۔ یعنی اللہ معاف کرنے والا ہے رزق دینے والا نہیں ہے ، نعوذباللہ من ذالک ۔تو چور کہاں ہے ؟ ہمارے اندر ہے ۔ ہم نے دنیا کو دین پر ترجیح دی ہے ۔ نتیجہ سامنے ہے ۔ اسی چیز کو توڑنے کے لئے آپ نے فرمایا کہ جس کا ایک نماز ضائع ہوگیا تویہ ایسے ہے جیسے اس کا گھر بار ، مال ،اہل وعیال سب کچھ لٹ گیا ۔ اس کا مطلب ہے کہ دین کو اگر چھوڑ دیا تو اس کے مقابلے میں دنیا کی چیزیں کچھ نہیں ہیں ۔توکیوں چھوڑتے ہو اس کو ۔مثلاً آپ لٹکے ہوئے ہیں ایک بلڈنگ کی شیڈ کے ساتھ ۔ اب ہاتھ چھوڑنے کا مطلب کیا ہے ؟ اس کامطلب موت ہے ۔ اگر اس وقت آپ کو سخت نیند آرہی ہو تو کیا آپ سو جائیں گے ؟ بھئی نیند تو بہت ضروری ہے ۔ واقعی بہت ضروری ہے ، لیکن اسوقت ذرا اونگھ تو لینا پتہ چل جائے گا ۔ اسو قت کیا کرو گے ؟اس وقت صرف اپنی جان بچائو گے ۔ اتنی کوشش کروگے جتنی تمہاری بس میں نہیں ۔ کیونکہ تمہیں نظر آرہا ہے کہ میں مر جائوں گا ۔ اگر روحانی طور پر بھی تمہیں یقین ہو کہ میں نماز چھوڑوں گا تو روحانی طور پر مر جائو ں گا ۔ تو کیا نماز چھوڑو گے ؟ تو اس بات کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے ۔ میں اپنے ساتھیوں میں اس کی کمزوری پاتا ہوں اور اس کی خبر بھی رکھتا ہوں ، میں اس کے بارے میں معلومات بھی کرتا ہوں ۔ بھئی جو اللہ کا نہیں وہ ہمارا کہاں سے ہوا ۔ ہمارے ساتھ تعلق ہی اللہ کے لئے ہے ۔ کیونکہ ہم دنیا تو دیتے نہیں اور نہ ہمارے پاس دنیا ہے ۔ ہمارے ساتھ اللہ اور آخرت کے لئے تعلق ہے تو یہ چیز قابل برداشت نہیں ہیں ۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے ۔ ہم نے اگر اللہ جل شانہ کا ایک بھی حکم توڑ دیا ، تو ہم نے اپنے آپ کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ۔ اس لئے کوشش کرنی چاہیے کہ ان چیزوں میں ہماری طرف سے کمی نہ ہو ۔ بڑی کیفیات ہوں ، اور کیفیات ایسی ہوں جیسے ہوا میں اڑ رہے ہوں ، لیکن ان کیفیات کی حیثیت نماز چھوڑنے کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ۔ جو نماز چھوڑ رہا ہے ، بے شک اس کی بہت اونچی کیفیات ہوں ، لیکن اس کی ویلیو صفر ہے ۔ نماز وقت پر پڑھنا سب سے بڑی سعادت ہے ۔اﷲ کو یاد رکھنے سے ہی یہ سعادت نصیب ہوسکتی ہے ۔ اس ذکر کو بڑھانا پڑتا ہے اور اتنا بڑھانا پڑتا ہے کہ ہمیں ہر وقت اللہ یاد رہے ۔ یہ جو یہاں پر ہم ذکر کرتے ہیں یہ صرف ایک ذ ریعہ ہے ۔ مقصود نہیں ہے ۔ ہم سے لوگ پوچھتے ہیں تم اونچی آواز سے ذکر کرتے ہو یہ چیز کہاں سے آگئی ۔ بھئی خدا کے بندو تمہیں اللہ پاک نے حکم دیا کہ قران سیکھو یا قران کے حفظ کی فضیلت بتائی ۔ اب بچوں کو قران حفظ کرایا جارہا ہے توقاری صاحب فرماتے ہیں زور سے پڑھو ،تھوڑی دیر بعد پھر کہتے ہیں اور زور سے پڑھو ،تو اگر اس وقت کوئی قاری صاحب سے پوچھے کہ یہ تم بچوں کے ساتھ کیا کررہے ہو، کیوں ایسے کروا رہے ہو ، تو وہ یہی کہے گا کہ پھر بچے کو گھر لے جاو ، وگرنہ اگر قر آن سیکھنا ہے تو اسی طریقے سے سیکھنا پڑے گا ۔ تو اسی طریقے سے ہم لوگ جو ذکر کرتے ہیں اور دل پر ضرب لگاتے ہیں یہ اسی لئے لگاتے ہیں کہ ہمارے دل کی غفلت دور ہوجائے ۔ ہمارے دلوں سے وساوس دور ہوجائیں ۔ اس کے بعد ماشاء اللہ ایسی کیفیت آئے گی کہ پھر ضربیں لگانے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ پھر آپ کو کھلی آنکھوں سے بھی سب کچھ نظر آئے گا ۔ اللہ تعالیٰ ہم کو یہ نصیب فرمائے ، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ۔