گزشتہ ریکارڈ شدہ بیانات
حضرت شیخ سید شبیر احمد صاحب کاکا خیل دامت برکاتہم
اخلاق کی درستگی
اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ۔اَلصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَم ُ عَلیٰ خَاتَمَ النَّبِیینِ۔اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔انک لعلیٰ خلقٍ عظیم
اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ بیشک آپ ﷺ کے اخلاق بہت بلند ہیں۔
بزرگو اور دوستو!
قُرآن اور احادیث شریفہ میں ہمیں زندگی گزارنے کا طریقہ بتادیا گیا ہے کہ زندگی کو کیسے گزارا جائے۔ یہ بات بحیثیت مومن ہمیں یاد رکھنی چاہیے اور یہ بات ہم پر کھلنی چاہیے کہ اللہ جل شانہ نے ہمارے پاس بہترین نمونہ بھیجا ہے اور فرمایا ہے
لَقَدْ کَانَ لَكُمْ فِیۡ رَسُوۡلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ
البتہ بالتحقیق تمہارے لئے آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ موجود ہے۔ لہٰذا آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم نے جس طرح زندگی گزاری ہے اسی طریقے سے ہمیں زندگی گزارنی ہے۔ یہ بات ساری باتوں کا نچوڑ ہے۔ اس بات کو سمجھانے کیلئے پورا قُرآن موجود ہے۔ ہمیں قُرآن کی تلاوت بھی کرنی چاہیے اور اس کو سمجھنا بھی چاہیے۔ تلاوت کا ہمیں اجر ملے گا اور سمجھ سے ہمیں راستہ ملے گا۔ قُرآن ہدایت کی کتاب ہے ، اس کو ہم جتنا سمجھیں گے اتنا ہدایت کے راستے پر چلنا ہمارے لئے آسان ہوگا۔ اللہ جل شانہ قُرآن پاک میں فرماتے ہیں
قَدْ اَفْلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا ۪ۙ﴿۹﴾ وَ قَدْ خَابَ مَنۡ دَسّٰىہَا
یقیناً وہ شخص جس نے اپنے نفس کی اصلاح کی وہ کامیاب ہوگیا اور جس شخص نے ایسا نہیں کیا وہ ناکام و نامراد ہوگیا۔ اور اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ " اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ " اور بے شک آپ کے اخلاق بہت اونچے ہیں ، تاریخ کے لحاظ سے احادیث شریف کے ذریعے سے جب ہم آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم کا مشاہدہ کرتے ہیں تو آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم کے اخلاق سب سے اونچے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم کو نمونہ بنا کر بھیجا گیا تھا اور ایسے مواقع اور حالات آئے جس سے آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم کے اونچے اخلاق سب پر ظاہر ہوگئے۔ آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم نے ارشاد فرمایا بے شک میزان میں مومن کے لئے سب سے بھاری چیز اس کا اچھا اخلاق ہے۔ اور اگر کسی کا اخلاق اچھا نہیں ہے تو ظاہر ہے معاملہ مختلف ہوجائے گا۔ فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ ناپسند رکھتا ہے بد زبان اور بیہودہ لوگوں کو یعنی اخلاق اگر کسی کے اچھے ہوں تو وہ اس کے لئے سب سے زیادہ مفید ہیں اور اگر کسی میں بیہودگی پائی جائے تو وہ اس کے لئے سب سے بُری چیز ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو یہ چیز سخت ناپسند ہے۔ آپ حضرات کے سامنے ایک بات میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ عبادات کے لئے بہت کم درجے کا ایمان بھی کافی ہوجاتا ہے۔ اگر کسی کو تھوڑا سا بھی ایمان نصیب ہو تو وہ عبادات بہت آسانی سے کرسکتا ہے۔ کیونکہ اس میں نہ پیسہ لگتا ہے اور نہ اس میں انسان کے نفس پر آرے چلتے ہیں۔ لیکن معاملات میں یہ بہت مشکل ہے۔ کیونکہ وہ پیسے کا معاملہ ہے، معاملات کے لئے اونچے درجے کا ایمان چاہیے۔ بہت سے لوگوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ عبادات میں بہت اچھے ہوتے ہیں ، تہجد گزار بھی ہوتے ہیں ، نفلی روزے بھی رکھتے ہیں ، نفلی حج بھی کرتے ہیں لیکن ان کے معاملات ٹھیک نہیں ہوتے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کا ایمان اس درجے تک ابھی نہیں پہنچا کہ ان کے معاملات اچھے ہوجائے۔ معاشرت اس سے بھی مشکل چیز ہے۔ اس کے لئے اس سے بھی اونچے درجے کا ایمان چاہیے۔ شادی بیاہ کے موقع پر ہم دیکھتے ہیں کہ بہت اچھے اور دیندار قسم کے لوگ بھی رسم و رواج میں بہہ جاتے ہیں۔ اور اس وقت ان کو سنت یاد نہیں رہتی۔ اس وقت معاشرت کے جو اسلامی تقاضے ہوتے ہیں وہ اس کو پورا کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ ہمارے صوفی اقبال صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) ایک دن ہمارے ایک ساتھی میجر محمود صاحب سے فرمانے لگے کہ میں تیری قدر اس لئے کرتا ہوں کہ کوئی اپنی اولاد کو دینے کیلئے تیار نہیں ہوتا ، باقی ساری چیزیں دے دیتے ہیں ، لیکن اولاد کوئی نہیں دیتا اور تو نے اپنی اولاد کو دین کیلئے وقف کیا ہے ، یہ بڑی بات ہے ، اس لئے میں تمہاری بہت قدر کرتا ہوں۔ واقعتاً ایسی بات ہے کہ انسان کی معاشرت کی چیزیں بڑی مشکل ہوتی ہیں اگر انسان کا ایمان بہت اعلی درجے کا ہوجائے پھر اس کو عمل کرنے کی توفیق نصیب ہوتی ہے اور اخلاق اس سے بھی اعلیٰ درجے کی چیز ہے۔ اخلاق کا اچھا ہونا اس سے بھی مشکل کام ہے۔ معاشرت سے بھی مشکل کام ہے۔ لہذا اخلاق کیلئے بہت اونچے درجے کے ایمان کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا سب سے اونچا عمل اچھا اخلاق ہے۔ اگر کسی کے اخلاق اچھے ہیں تو باقی چیزیں بڑی آسانی سے سرانجام دی جاسکتی ہیں۔ کیونکہ اس چیز سے ہمیں ہر وقت واسطہ پڑتا ہے۔ جب ہم کوئی بات زبان سے نکالتے ہیں توظاہر ہے اخلاق سے گفتگو کرنی پڑے گی ، جب ہم کسی سے ملیں گے تو اخلاق سے ملیں گے۔ کسی کی بات سنیں گے تو اخلاق سے سنیں گے ، لوگوں کی تکلیفوں پر صبر کرنا یہ ساری باتیں اخلاق کے زمرے میں آتی ہیں لہٰذا اگر کسی کو یہ چیز حاصل نہیں ہے تو بہت جلد پتہ چل جاتا ہے کہ رسمی چیز تو اس کو حاصل ہوئی ہے اصل چیز حاصل نہیں ہوئی۔ بہرحال اللہ جل شانہ اخلاق کی درستگی پر بہت زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک مومن اپنے اچھے اخلاق کے ذریعے راتوں کو کھڑا ہونے کی اور دن کو روزہ رکھنے کا ثواب حاصل کرلیتا ہے۔ یہ نفلی عبادت کی بات ہم کررہے ہیں۔ کیونکہ فرض عبادت کا ثواب کسی اور ذریعے سے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ وہ بے شک کوئی کچھ بھی کرلے۔ پہاڑ کو اِدھر سے اُدھر کرلے لیکن دورکعت فرضوں کے برابر ثواب حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ نفلی عبادت کی بات ہے کہ اگر نفلی اعمال ہوں تو ان کا اَجر اچھے اخلاق کے ذریعے آدمی حاصل کرسکتا ہے۔ اگر ایک شخص تہجد نہیں پڑھتا ، یا اشراق نہیں پڑھتا۔ یا دن کو نفلی روزہ نہیں رکھتا لیکن اس کے اخلاق اچھے ہیں ، تو اللہ جل شانہ کے ہاں اس کا اَجر بڑھ رہا ہے اور وہ ان لوگوں سے بھی آگے ہورہا ہے جن کو یہ چیزیں حاصل ہیں۔ لیکن اگر کسی کو اللہ جل شانہ دونوں دیں تو پھر نورٌ علیٰ نور۔ صحابہ کرام(رضی اللہ عنہ)میں کچھ مالدار تھے کچھ غریب تھے۔ جو غریب صحابہ(رضی اللہ عنہ) تھے وہ ایک دفعہ آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم کے پاس آئے اورعرض کیا یا رسول اللہ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم مالداروں کے پاس تو پیسہ ہے وہ پیسے کے ذریعے زکواۃ کا اَجر بھی لے لیتے ہیں۔ وہ انفاق فی سبیل اللہ کا اَجر بھی لے لیتے ہیں ، وہ لوگوں کی مدد کرنے کا اَجر بھی لے لیتے ہیں ، بہت کچھ حاصل کرلیتے ہیں، تو ہم کیا کریں ہمارے پاس تو یہ چیزیں نہیں ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم نے فرمایاکہ میں آپ کو چند کلمات بتاتا ہوں ، اگر آپ وہ کلمات پڑھیں گے تو کوئی بھی آپ تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکے گا ، جب تک وہ یہ اعمال نہ کرے۔وہ آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم نے بتا دیے ، انہوں نے شروع کردیے۔ کچھ عرصے کے بعد وہ دوبارہ آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم جو مالدار لوگ ہیں انہوں نے بھی ہم سے یہ چیز سیکھ لی ہے اور اب وہ بھی کرنے لگے ہیں ، پھر مسئلہ ہوگیا۔ تو آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم نے فرمایا کہ اب میں کیا کروں اگر اللہ پاک ان کو نواز رہے ہیں اور دے رہے ہیں تو ان سے میں یہ چیز کیسے واپس لے سکتا ہوں۔ اگر کوئی شخص عبادات بھی کررہا ہے ساتھ ساتھ اخلاق بھی اس کے اچھے ہیں پھر تو نور ٌ علیٰ نور۔ اس کا توکوئی مقابلہ ہی نہیں کرسکتا۔ لیکن ظاہر ہے یہ صرف اس چیز کی فضیلت بتانے کیلئے بتایا گیا کہ اخلاق کا اچھا ہونا بہت بڑی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے اخلاق اچھے کردے۔ آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم نے فرمایا کہ وہ مسلمان جو دوسرے لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے۔ اور ان کی طرف سے تکلیف پہنچانے پر صبر کرتا ہے وہ اس مسلمان سے اچھا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ مل جل کر نہیں رہتا ، اور ان کی تکلیفوں پر صبر نہیں کرتا۔ اس سے پتہ چلا کہ لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنا اور ان کی تکلیفوں پر صبر کر نے کا بہت بڑا اَجر ہے۔ مثلا آپ کے ساتھ کسی نے زیادتی کی تو آپ بھی اس کو برابر کا بدلہ دے سکتے ہیں۔ اگر وہ آپ کو ُمکا مار دے تو آپ اس کو لات مار سکتے ہیں ، اگر وہ آپ کو ایک دفعہ تنگ کرتا ہے تو آپ اس کو تین دفعہ تنگ کرسکتے ہیں۔ لیکن نہیں وہ آپ کو تنگ کررہا ہے اور آپ اس کی تکلیف پر صبر کررہے ہیں ، اور آپ کچھ نہیں کہہ رہے ، آپ کے دل میں اس کے لئے کینہ بھی نہیں ہے تو یہ بہت بڑے اخلاق کی بات ہے۔ جو اعلیٰ حوصلہ لوگ ہوتے ہیں ان کو یہ چیز نصیب ہوتی ہے۔ لیکن اگر ایک شخص کچھ کر ہی نہیں سکتا تو ظاہر ہے وہ اس چیز تک تو نہیں پہنچ سکتا لیکن صبر کا اَجر اس کو پھر بھی ملے گا۔ بشرطیکہ وہ دل میں کینہ نہ رکھے۔ کیونکہ صبر کا اَجر تو اسے بہر حال مل رہا ہے۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ ایک تو اپنے ہاتھ پاؤں سے کسی کو نقصان سے بچانا۔ مثلا میں اپنی زبان سے کسی کو نقصان نہ دوں، میں اپنے ہاتھ ، قلم سے کسی کو نقصان نہ دوں یہ تو الگ بات ہے۔ بلکہ اس کے بعد اگرکوئی ہمیں تکلیف پہنچائے ، پھر بھی ہم اس پر صبر کریں اور اسے کچھ نہ کہیں تو یہ واقعی بڑی بات ہے۔ ایسے حالات آپ کو ہر جگہ پیش آسکتے ہیں۔ مثلا دفتر میں چونکہ مسائل پیش آتے ہیں اس قسم کے۔ اگر ایک انسان آپ کو تکلیف پہنچا رہا ہے۔ لیکن آپ صبر کررہے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ چلو کوئی بات نہیں ، تو یہ بہت اونچی بات ہے۔ گلی محلے میں آ پ کے ساتھ کوئی اس طرح کررہا ہے اور آپ کو اختیار بھی حاصل ہے اور طاقت بھی حاصل ہے آپ اس کو ترکی بہ ترکی جواب دے سکتے ہیں۔ لیکن آپ اس کی تکلیف پر صبر کررہے ہیں ، اس طرح آپ کے ساتھ کوئی سفر میں جارہا ہے ، آپ کے ساتھ سیٹ پر بیٹھا ہوا ہے۔ اور آپ کو اس کی وجہ سے تکلیف ہورہی ہے لیکن آپ اس تکلیف کو برداشت کررہے ہیں ،آپ بازار میں ہیں اور آپ کے ساتھ کوئی اس قسم کا معاملہ پیش آرہا ہے ،جس کی وجہ سے آپ کو تکلیف ہورہی ہے۔ اور آپ اس پر صبر کررہے ہیں ، تو ظاہر ہے کہ اللہ جل شانہ آپ کو اس کا بہت زیادہ اَجر دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر وقت آپ کے ساتھ ہے۔ کیونکہ اللہ پاک فرماتے ہیں " اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ " بے شک اللہ پاک صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ تو یہ مواقع انسان کو ملتے رہتے ہیں۔ لیکن عموما لوگ ان مواقع کو ضائع کرتے رہتے ہیں ،کہتے ہیں کون ان پر عمل کرسکتا ہے۔ بلکہ وہ اپنے آپ کو حق بہ جانب سمجھ کر ایک ضرب دو کی کارروائی کردیتا ہے۔ اگر وہ ایک دفعہ کرتا ہے تو ان کے ساتھ دو دفعہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پہلے انہوں نے ہمارے ساتھ کیا اب ہم نے جو کیا تو اس میں غلط بات کونسی ہے۔ یہ امتحان کے مواقع ہوتے ہیں ، اگر ایک انسان اس امتحان میں کامیاب ہوجائے ، تو یہی اس کے لئے اَجر کا باعث بن جاتا ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کی رضامندی کا باعث بن جاتا ہے۔ یہ بات پہلے بھی بیان کرچکا ہوں کہ ایک لیڈی ڈاکٹربہت ذکر کرتی تھی۔ لطائف کا ذکر ان کا چل رہا تھا۔ کسی بات پر اس کی سسر سے لڑائی ہوئی ، تو اس نے سوچا کہ سسر چونکہ بزرگ ہے لہٰذا میں اس کو کچھ نہیں کہوں گی۔ اس نے مجھے بتایا کہ بعد میں میرے پورے جسم نے ذکر کرنا شروع کردیا۔ جس کو سلطان الاذکار کہتے ہیں۔ یعنی پورا جسم ذکر کرتاہے۔ وہ چیز اللہ تعالیٰ نے اس کو نصیب فرمائی۔ میں نے اس سے کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو صبر کا فوری اَجر دے دیا۔ تو ایسے مواقع آتے رہتے ہیں۔ اور ان حالات میں جو ثابت قدم رہتاہے جو اپنے آپ پر قابو رکھتا ہے تو بس اللہ جل شانہ اس کو سب کچھ نصیب فرما دیتے ہیں۔ حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ ان کو حال کا مسئلہ تھا جس سے وہ نکل نہیں رہا تھا۔ کوئی طریقہ اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا۔ تووہ ایک ایسی جگہ پر گئے جہاں کے درویش ان کو نہیں جانتے تھے۔ ایک دن وہ درویش کیلے کھا رہے تھے اور جو چھلکے تھے وہ ان کے اوپر پھینکتے جا رہے تھے ، انہوں نے سوچا کہ چلو ان کو یہ کام کرنے دو ، یعنی انہوں نے اس تکلیف پر صبر کیا اور اللہ پاک نے ان کو اس حال سے نکال لیا۔ حضرت خود فرماتے ہیں کہ اللہ پاک نے مجھے اس حال سے نکال دیا۔ اس طریقے سے کبھی کبھی بہت مشکل روحانی حالات سے بھی اللہ تعالیٰ پار کرا دیتے ہیں اگر ایک انسان اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرے، اپنے غصے کو کنٹرول کرلے۔ آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم نے ایک دفعہ صحابہ کرام سے پوچھا کہ پہلوان کس کو کہتے ہیں۔ ظاہر ہے جس آدمی کو لوگ پہلوان کہتے ہیں وہی صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ)نے جواب دیا ، کہ جو کسی کو پچھاڑے۔ آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم نے فرمایا کہ پہلوان وہ ہے۔ جو اپنے غصے کو کنٹرول کرلے اور اپنے نفس کو پچھاڑے۔ اگر آپ کے گھر میں آپ کا کوئی مخالف ہوجائے تو اس کو کنٹرول کرنا مشکل ہوتا ہے یا باہر کے آدمی کو کنٹرول کرنا مشکل ہوتا ہے۔ گھر کا آدمی کنٹرول کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ انسان کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے اگر گھر میں کوئی باغی پیدا ہوجائے۔ تو اب آپ یہی اندازہ لگا سکتے ہیں ، کہ جو میرا نفس ہے وہ تو میرا سب سے قریبی ہے۔ ہر وقت میرے ساتھ ہے۔ اس کو کنٹرول کرنا کتنا مشکل ہوگا۔ اور ظاہر ہے نفس کو پچھاڑنا ہی کامیابی کی نشانی ہے۔ انسان کو بہت جلد اس کا اندازہ ہوسکتا ہے کہ میں کتنے پانی میں ہوں۔ آیا میں اپنے نفس کے تقاضوں کو کنٹرول کرسکتا ہوں یا نہیں۔ ایسے وقت میں جب کوئی بھی میرے پاس نہیں ہے۔ کوئی مجھے نہیں دیکھ رہا ، صرف اللہ دیکھ رہا ہے۔ میرے دل کے حال کا کس کو پتہ ہے ؟ سوائے اللہ جل شانہ کے کس کو پتہ ہے۔ لیکن میں اپنے دل کے تقاضوں پر ، اپنے نفس کے تقاضوں کو کنٹرول کرلوں یہ بہت بڑی بات ہے۔ ایک دفعہ میں نے ساتھیوں سے پوچھا کہ سنا ہے باہر کے ممالک میں تبلیغ زیادہ آسان ہے۔ انہوں نے جواب دیا آپ نے ٹھیک سنا ہے۔ میں نے پوچھا کہ اپنے شہر سے زیادہ کسی اور شہر میں تبلیغ کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ کہا آپ نے ٹھیک سنا ہے۔ میں نے پوچھا کہ باقی شہرکی بہ نسبت اپنے محلے میں تبلیغ زیادہ مشکل ہے۔ کہا آپ نے ٹھیک سنا ہے۔ میں نے پوچھا ، اپنے محلے کی نسبت اپنے گھر میں تبلیغ کرنا زیادہ مشکل ہے۔ کہا یہ بھی آپ نے ٹھیک سنا ہے۔ میں نے کہا یہاں تک تو آپ نے میرے سوالوں کا جواب دے دیا ہے اب ایک بات آپ مجھ سے سن لیں۔ اور وہ یہ کہ اپنے آپ کو تبلیغ کرنا سب سے زیادہ مشکل ہے۔ اپنے آپ کو سنبھالنا سب سے مشکل کام ہے۔ پھر میں نے عرض کیا یہی تصوف ہے۔ اپنے آپ کو تبلیغ کرنا ، اپنے آپ کو سمجھانا تصوف ہے۔ کسی اور کو سمجھانا بعد کی بات ہے وہ آسان کام ہے۔ اللہ جل شانہ ہمیں توفیق عنایت فرمائے کہ ہم اپنے آپ کو سمجھا سکیں۔ ایک دفعہ میں کسی جلسے میں شرکت کے لئے گیا ہوا تھا۔ وہاں اچانک بھگدڑ مچ گئی۔اب ظاہر ہے ایسے حالات میں منتظمین کے لئے لوگوں کو کنٹرول کرنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔ تو سٹیج سے ایک آواز مسلسل آرہی تھی۔ بزرگو اور ساتھیو اپنے آپ کو بٹھاؤ باقی کسی کو نہ بٹھاؤ ، بزرگو اور ساتھیو اپنے آپ کو بٹھاؤ کسی اور کو نہ بٹھاؤ ، دیکھتے ہی دیکھتے سارے لوگ بیٹھ گئے۔ پانچ منٹ کے اندر پورے کا پورا مجمع بیٹھ گیا۔ یہ کونسی چیز تھی۔ یہ اپنے آپ کو تبلیغ تھی۔ اپنے آپ کو تبلیغ کی، معاملہ آسان ہوگیا۔ اگر ہر آدمی دوسرے کوکہتا کہ بیٹھ جاؤ ، دوسرا اس کو کہتا کہ تم بیٹھ جاؤ ، تو سارے لوگ کھڑے ہوتے کوئی نہ بیٹھتا۔ تو اصل کام اپنے آپ کو سمجھانا ہے۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ اخلاق خلق کی جمع ہے۔ مثلاً میں نرم گفتگو کرتا ہوں تو یہ میرے اخلاق کا ایک حصہ ہے۔ میں کسی اور کی طرف سے دی گئی تکلیف پر صبر کرتا ہوں تو یہ خلق ہے۔ میں کسی کو تکلیف نہیں دے رہا تو یہ خلق ہے۔ میں ایثار کرتا ہوں دوسرے کے لئے ، یہ خلق ہے۔ اس طرح بہت ساری چیزیں خلق میں آتی ہیں۔ ان سب کا مجموعہ اخلاق ہے۔ اب خُلق کسے کہتے ہیں۔ خلق اندرونی سیرت ہے۔ عمل کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن ہوتا ہے۔ عمل کا ظاہر نظر آتا ہے لیکن باطن کو سوائے اللہ کے کوئی نہیں جان سکتا۔ مثلاً میں صحیح طریقے سے نماز پڑھ رہا ہوں ، آپ بھی کہیں گے ماشاء اللہ بہت اچھی نماز پڑھی ہے۔ لیکن نہ اس کے اندر خشوع و خضوع ہو ، نہ عاجزی ہو توبظاہر میری نماز بڑی اچھی ہے لیکن اس کے اندر کچھ نہیں ، تو ٹھیک ہے لوگوں کے سامنے تو میں بڑا اچھی نمازی بن گیا ، لیکن اللہ جل شانہ کے نزدیک تو نہ ہوا۔ کسی عمل کو اندر سے اچھا کرنا یہ خلق ہے۔ تو فرمایا کہ جو ظاہر صورت ہے یہ اس وقت اچھی ہوتی ہے جب تمام اعضاءمیں ایک تناسب پایا جائے۔ مثلاً ایک آدمی بہت ہی سفید ہے کیا اس کو آپ خوبصورت کہیں گے۔ یا بہت زیادہ کالا ہے ، کیا آپ اس کو خوبصورت کہیں گے یا بہت زیادہ سرخ ہے ، بہت زیادہ لمبا ہے ،یا بہت زیادہ چھوٹا ہے ، بہت زیادہ موٹا ہے یا بہت زیادہ پتلا ہے ، پھر بھی خوبصورت نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خوبصورتی ایک تناسب کا نام ہے۔ اگر تناسب میں فرق ہو تو خوبصورتی ختم ہوجاتی ہے۔ شاعر حضرات بھی تناسب کی بات نہیں کرتے۔ اگر ان کی خوبصورتی کو آپ لے لیں ، اور جیسے وہ ہر چیز کو مبالغے کے ساتھ بیان کرتے ہیں اگر اس طریقے پر آپ ایک شکل بنا دیں ، تو وہ شکل بہت ڈراؤنی ہوگی ، جیسے ہونٹوں کی جگہ گلاب کی پتیاں رکھ دو ، اور آبروؤں کو کمان بنا دو ، اور پلکوں کو تیر بنا دیں اور کمر کو بالکل ایک لائن بنا دیں ، تو کیا خیال ہے کیا چیز بن جائے گی ؟ ایک عجیب و غریب چیز بن جائے گی۔ تو مبالغہ والی بات یہاں نہیں چلتی۔ یہاں تناسب چلتا ہے۔ اللہ جل شانہ نے ہر چیز کو ایک اندازے سے پیدا فرمایا ہے۔
سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی ۙ﴿۱﴾ الَّذِیۡ خَلَقَ فَسَوّٰی ۪ۙ﴿۲﴾ وَ الَّذِیۡ قَدَّرَ فَہَدٰی
ہر چیز ایک اندازے کے ساتھ بنائی ہوئی ہے۔ جیسے ہی تناسب ختم ، خوبصورتی ختم۔ اسی طرح سیرت کے بھی حصے ہیں۔سیرت کے بھی اعضاءہیں۔ سیرت کے اعضاء میں چیزیں آتی ہیں شہوت ، غضب ، عقل اور علم۔ اب شہوت کو عام لوگ جو چیز سمجھتے ہیں وہ شہوت نہیں ہے۔ وہ شہوت کی ایک صورت ہے ، ایک قسم ہے۔ شہوت کہتے ہیں چاہت کو ، مثلاً ہر آدمی چاہتا ہے کہ مجھے اچھی چیز مل جائے۔ پیسہ اس کو پسند ہے ، وہ کہتا ہے کہ مجھے زیادہ ملے۔اس طرح جو دوسری لذتوں والی چیزیں ہیں وہ چاہتا ہے کہ مجھے بہت زیادہ ملے۔ کرسی بھی مجھے ملے۔ اب یہ میری چاہتیں ہیں ، خواہشات ہیں ، اس سے نکلا ہے اشتہا۔ اب اشتہا کو آپ غلط لفظ کہہ سکتے ہیں ؟ اگر کسی کی اشتہا ختم ہوجائے تو علاج کرنا پڑتا یا نہیں ؟ ظاہر ہے پھر ڈاکٹروں کے پاس جانا پڑتا ہے۔ علاج کرنا پڑتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ شہوت بذات خود بری چیز نہیں ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس کی زیادتی ایک حد سے زیادہ ہو تو وہ بری ہے۔ اور حد سے زیادہ کمی بھی بری ہے۔ اگر آپ حد سے زیادہ چاہیں گے تو پھر آپ ظالم بن جائیں گے۔ کیوں ؟ کیونکہ آپ ایک چیز کو چاہیں گے ، دوسرا بھی چاہے گا۔ لڑائی ہوجائے گی ، زن ، زر زمین پر لڑائی کیوں ہوتی ہے ؟کیونکہ یہ تینوں چیزیں لوگوں کی پسندیدہ چیزیں ہیں۔ اس پر اکثر لوگ لڑائیاں کرتے ہیں۔ تو خواہش کا ہونا برا نہیں ہے اگر اعتدال پر ہو ، اگر اپنی چیز پر قناعت ہو تو پھر برا نہیں ہے۔ لیکن دوسرے کو ملے یا نہ ملے ، سارا مجھے ہی ملے تو یہ غلط ہے۔ دو یا دو سے زیادہ لوگوں کا ایک ہی وقت میں پہنچنے کا جو ارادہ ہوتا ہے اس سے بنتا ہے ایکسیڈنٹ۔ گاڑیوں کو دیکھیں ایک نے بھی سٹیرنگ اس طرف موڑ لیا اور دوسرے نے بھی اتفاق سے اسی طرف سٹیرنگ موڑ لیا ، دونوں کا ٹارگٹ ایک ہوگیا ، نتیجہ کیا ہوا ، ایکسیڈنٹ۔مطلب یہ ہے کہ ہم بیک وقت اگر ایک ہی چیز چاہیں جس پر سب کی نظر ہے تو ایکسڈنٹ ہوگا۔ لڑائی ہوگی ، پریشانی ہوگی۔ مسائل کھڑے ہونگے ، طبقاتی کشمکش ہوگی۔ تو یہ ساری برائیوں کی جڑ بن جائے گی۔ اور اگر ایک حد سے کمی پائی جائے تو پھر ایسا شخص معاشرے پر بوجھ ہے۔ کیوں؟ کیونکہ یہ ایک (driving force) ہے۔ یہ انسان سے کام کروا تا ہے۔ جس شخص کی خواہش ختم ہوجائے تو سمجھ لیں وہ کوئی کام نہیں کرے گا۔ جب کوئی کام نہیں کرے گا تو وہ معاشرے پر بوجھ ہوا یا نہیں ہوا۔تو اس کی کمی بھی بری ہے اور اس کی زیادتی بھی بری ہے۔ اور اس کا اعتدال محبوب ہے، مقصود ہے اور پسندیدہ ہے۔ اس کا افراط انسان کو لالچی اور حریص بنا دیتا ہے۔ انسان کو روحانی بیماریوں میں مبتلا کردیتا ہے۔ اور حرص کے متعلق فرماتے ہیں کہ تمام روحانی بیماریوں کی جڑ حرص ہے۔ شہوت کی کمی انسان کو ڈیپریشن میں مبتلا کردیتی ہے وہ بھی مصیبت ہے۔ اس کا درمیان والا حصہ پارسائی ہے ، عفت ہے ، راست بازی ہے۔ وہ آدمی (ballanced)متوازن شخص ہوتا ہے ، اس کے حالات متوازن ہوتے ہیں وہ معاشرے کے لئے انتہائی مفید واقع ہوتا ہے۔ اس طریقے سے غضب ہے۔ غضب ایک جذبہ ہے۔ جس سے انسان اپنے ناپسندیدہ چیز کو اپنے سے دفع کرتا ہے۔ اب مچھر میرے ہاتھ پر بیٹھ جائے تو کیا میں اس کو دیکھتا رہوں۔ نہیں میں اس کو دفع کروں گا۔ کوئی سانپ میری طرف آنے لگے تو کیا میں اس کو (welcome)خوش آمدید کروں گا؟ ظاہر ہے میں اس کو ماروں گا اپنے سے دفع کروں گا۔ اسی طریقے سے ہمارے ملک پر کوئی حملہ کرے تو کیا میں ان کو سپاسنامہ پیش کروں گا ؟ نہیں میں ان کے ساتھ لڑائی کروں گا۔ جہاد میرے اوپر فرض ہوجائے گا۔ تو غضب بذات خود بری چیز نہیں ہے۔ بلکہ اس کی کثرت اور کنٹرول سے باہر ہونا برا ہے۔ اسی طریقے سے غضب کی کمی بھی برا ہے۔ غضب کا افراط انسان کو بھیڑیا بنا دیتا ہے۔ بلکہ مختلف جانوروں کی خصلتیں اس میں پیدا ہوجاتی ہیں۔ مثلاً ایک آدمی مسجد کے اندر خراٹے لے رہا تھا تو دوسرے آدمی نے اس کو اٹھا دیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر سو گیا اور خراٹے لینے لگا۔ اس کو پھر جگایا تو اس نے شکایت کی کہ تم مجھے سونے نہیں دے رہے ہو ، پھر سو گیا اور خراٹے لینے لگا ، آخر تنگ آکر دوسرے آدمی نے اس کو مارنا شروع کیا یہاں تک کہ اس کو قتل کر دیا۔ اب اس قسم کے غضب کی تو اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب پاکستان آزاد ہوگیا ، ویسے یہ ایک واقع ہے لوگوں کو سمجھانے کیلئے ، کہ ایک شخص نے رسی سے کوئی پتھر باندھا ہوا تھا اور اس کو گول گول گما رہا تھا۔ اسی اثنا میں وہ ایک شخص کی ناک پر لگا ، پوچھا یہ کیا کررہے ہو۔ پہلے والے شخص نے جواب دیا آزادی ہے۔ دوسرے شخص نے کہا آپ کی آزادی وہاں تک ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم دوسروں کی آزادی میں مخل نہیں ہوسکتے۔ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)ارشاد فرماتے ہیں۔ اللہ جل شانہ نے جن کو آزاد ماؤں سے جنوایا ہے تم لوگ کون ہو کہ ان کو غلام بناؤ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو اختیار دیا ہے وہ دوسروں کو بھی دیا ہے ، تم دوسروں کے اختیار کو سلب نہیں کرسکتے۔ لوگ عموماً کیا کرتے ہیں۔ جب پیسہ آجاتا ہے یا طاقت آجاتی ہے ، تو ان چیزوں کے نشے میں لوگ دیوانے ہوجاتے ہیں ، آپ نے دیکھا ہوگا ، پولیس والے جو ہیں ان کے پاس طاقت ہوتی ہے۔ یہ کسی کو بھی راستے میں پکڑ لیتے ہیں ، اورکوئی چیز دے کر کہتے ہیں کہ یہ وہاں پر پہنچا دو ، جس بس میں بیٹھنا چاہیں ، جس گاڑی میں بیٹھنا چاہیں اس میں بیٹھ جاتے ہیں۔ کوئی ان کو (No) نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ انکار کی صورت میں وہ کوئی مسئلہ بنا دے گا۔ تو طاقت کے نشے میں لوگ ایسا کرتے ہیں۔ پیسے کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ ہمارے پشتو میں ایک ضرب المثل ہے کہ
"صندوق مے خپل دے قدر یے پہ بل دے"
یعنی صندوق میرا اپنا ہے اور قدر دوسرے کو ہے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا ہمارے ایک کز ن تھے وہ (MRCP) کے لئے انگلینڈ گئے تھے۔ وہاں وہ دو تین دفعہ فیل ہوگئے۔ آخر میں پاس تو ہوگئے لیکن شروع میں دو تین دفع فیل ہوگئے۔ میں نے پوچھا بھئی یہ آپ کیوں فیل ہوتے تھے۔ کہنے لگا ہماری عادتیں خراب ہیں۔ میں نے پوچھا وہ کیسے۔ کہنے لگا ، وہاں پر اس چیز کو بہت برا سمجھا جاتا ہے کہ ڈاکٹر کے پاس مریض آئے اور اس مریض کی اجازت کے بغیر اس کی آستین کو چڑھا کر بلڈ پریشر لینے لگے۔ حالانکہ وہ چیک اپ ہی کے لئے آیا ہے۔ لیکن نہیں ، آپ کو باقاعدہ پوچھنا ہوگا کہ کیا میں آپ کا بلڈ پریشر دیکھ سکتا ہوں ؟ کیامیں تھرمامیٹر آپ کے منہ میں رکھ سکتا ہوں۔ کیا میں یہ کر سکتا ہوں۔ یعنی باقاعدہ ہر چیز کی اجازت لیں گے پھر ٹریٹمنٹ کریں گے۔ اب ہمارے پاکستانیوں کا حال کیا ہے۔ میں تو کہتا ہوں یہ تو صرف بلڈ پریشر کی بات ہے یہاں پر تو لوگوں کو اٹھا کر پٹخنا بھی پڑے تب بھی اجازت نہیں لیں گے۔ تو اس نے مجھے بتایا کہ ہم اپنی ان خراب عادتوں کی وجہ سے مار کھا جاتے ہیں۔ وہ ہمیں کسی کلینک میں لے جاتے ہیں اور پھر ہمیں (observe) دیکھتے کرتے ہیں کہ یہ مریضوں کو کیسے دیکھتے ہیں ، جب اس قسم کے حالات وہ دیکھتے ہیں تو ہمیں فیل کردیتے ہیں۔واقعتاً ہمارا مزاج بگڑا ہوا ہے۔ ہم نے لوگوں کو غلام سمجھا ہوا ہے۔ حالانکہ کوئی کسی کا غلام نہیں۔ جن کو اللہ پاک نے آزاد پیدا کیا ہے اس کو کوئی غلام نہیں بنا سکتا۔ غلامی کا تصور اسلام نے بتدریج ختم کردیا ہے۔ یہ نہیں کہا کہ غلاموں کو چھوڑ دو ، کیونکہ اس سے مسئلہ پیدا ہوسکتا تھا۔ تو ترغیب دی کہ اگر کوئی یہ گناہ کرلے تو اس کا بدلہ ہے کہ کسی گردن کو آزاد کرے۔ نہیں تو کفارہ ادا کرے، روزہ رکھے ورنہ مسکینوں کو کھانا کھلا دے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابتداء اس سے کی کہ غلام کو آزاد کرے۔ اور غلاموں کی آزادی اتنی آسان کردی کہ اگر کسی کے منہ سے غلطی سے بھی نکلا کہ تو آزاد ہے تو بس وہ آزاد ہے اب اس کو دوبارہ غلام نہیں کرسکتا۔ یہ نہیں کہ واپس کرلے کہ میں نے غلطی سے کہا ہے۔ بس اب ہوگیا ، وہ آزاد ہے۔ اور باندیوں کا معاملہ ایسا تھا کہ اگر کسی باندی سے کسی کا بچہ ہوگیاتو بس وہ ام الولد ہوگئی۔ وہ بھی آزاد ہوگئی۔ تو اتنی زیادہ آسانیاں دی گئیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ غلام آزاد ہوتے رہے ، اور سارے کا سارا غلامی کانظام ختم ہوگیا۔ اسلام نے بڑی حکمت سے غلامی ختم کردی۔ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کا قول ہے کہ ملک کفر کے ساتھ تو باقی رہ سکتا ہے لیکن ظلم کے ساتھ باقی نہیں رہ سکتا۔ اور یہ بات بالکل صحیح ہے۔ونسٹن چرچل جنگ عظیم دوم کے دوران انگلینڈ کے وزیر اعظم تھے۔ جرمنی نے انگلینڈ پر حملہ کردیا تھا اوربڑے مشکل حالات تھے۔ توکسی نے چرچل سے پوچھا کہ کیا ہم جنگ جیت جائیں گے ؟ چرچل نے جواب دیا کہ جاؤ اور مجھے رپور ٹ دو کہ ہماری عدالتوں کے ججز انصاف کررہے ہیں یا نہیں۔ جواب آیا کہ جی انصاف کرتے ہیں۔ چرچل نے جواب دیا پھر ہم جنگ جیت جائیں گے، ہمیں کوئی نہیں ہرا سکتا۔ یہ بات ہے۔ اس وقت بھی افغانستان میں نیٹو کو یہی مسئلہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب تک عوام ہمارے ساتھ نہیں ہونگے ہم جنگ نہیں جیت سکتے۔ کیونکہ طالبان کا جو بھی دور تھا وہ تو اب ختم ہوگیا ہے لیکن اپنے دور میں انہوں نے جو فیصلے کیے تھے وہ تو لوگوں کو یاد ہیں۔ تو لوگ دل سے ان کے ساتھ ہیں۔ اب زبردست کا ٹھینگا سر پر۔ انہوں نے تو حکومت پر قبضہ کرلیا ، لیکن لوگ تو دل سے طالبان کے ساتھ ہیں۔انصاف انسان کو باندھ لیتا ہے۔ ممنون کردیتا ہے۔ پھر وہ ہاتھ سے نہیں جاتا۔ محمد بن قاسم (رحمۃ اللہ علیہ) جب یہاں تشریف لائے، سندھ کے علاقے کو فتح کیا اور سلمان بن عبدالاملک کی وجہ سے جب ان کو واپس جانا پڑا تو آپ تاریخ پڑھ لیں اس وقت لوگوں کی کیا حالت تھی ، سب لوگ رو رہے تھے ، بلکہ لوگ ان کو روک رہے تھے کہ آپ نہ جائیں۔ اس طرح تاریخ میں آیا ہے کہ ایک علاقے میں صحابہ کرام کچھ مشکل حالات میں گھر گئے۔ دشمن زیادہ تعداد میں آگیا تو انہوں نے وہاں کے غیر مسلموں سے جزیہ لینا بند کردیا اور وجہ یہ بتائی کہ ہم ان لوگوں کی نگرانی نہیں کرسکیں گے۔ امیر نے حکم دیا کہ ان لوگوں کو جزیہ واپس کردیا جائے۔ تو لکھتے ہیں کہ وہ لوگ جزیہ لیتے ہوئے رو رہے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ خدا آپ کو دوبارہ لے آئے۔ حالانکہ وہ غیر مسلم تھے۔ تو انصاف انسان کو ممتاز کردیتا ہے۔ دلوں کے اندر اپنی جگہ بناتا ہے۔ اور اصل حکومت تو دلوں پر حکومت ہے۔ اس کی تائید آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم کی حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ آپ لوگوں میں جو ایمان میں کامل ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کا خلق سب سے اچھا ہے۔ اسی وجہ سے اپنے اخلاق پر سب سے زیادہ محنت کرنی چاہیے۔ تو غضب بھی ایک جذبہ ہے لیکن اس جذبے کو کنٹرول کرنا پڑے گا۔ ختم نہیں کرنا پڑے گا بلکہ کنٹرول کرنا پڑے گا۔ایک گاڑی کا انجن بڑا طاقت ور ہے لیکن آپ اس کو کنٹرول نہ کرسکیں اور ایکسیڈنٹ ہوجائے تو کیا آپ اس کے انجن کو خراب کردیں گے ؟ کہ چلو اس کے انجن کو خراب کردو تاکہ دوبارہ ایکسینڈنٹ نہ ہو۔ نہیں بلکہ آپ کو اس کو کنٹرول کرنا سیکھنا ہوگا۔ کیونکہ جتنی طاقت اس کے بگاڑ میں ہے اگر اتنی طاقت بناؤ کی طرف آگئی تو ظاہر ہے آپ کو اتنا ہی فائدہ ہوگا۔ آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو جاہلیت میں کسی چیز میں اچھے تھے۔ وہ اسلام میں بھی اس میں اچھے ہونگے۔ حضرت عمر(رضی اللہ عنہ) کا غصہ بہت تھا۔ اتنا غصہ تھا کہ تلوار اٹھائے آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم کو نعوذ بااللہ قتل کرنے کے لئے آرہے ہیں راستے میں کسی نے کہا کہ پہلے اپنی بہن کی خبر لو وہ مسلمان ہوگئی ہے۔وہاں پہنچے، کچھ پڑھنے کی آواز سنی ،اندرجاتے ہی بہن کو مارناشروع کردیا۔ بہت مارا۔ بہنوئی چھڑانے کیلئے آگے بڑھے اس کو بھی بہت مارا۔ آخر وہ بھی عمر (رضی اللہ عنہ)کی بہن تھی ، کہا مارو کتنا مارو گے ، بیشک قتل کردو لیکن ہم مسلمان ہوگئے ہیں۔ اب تم ہمارا ایمان ختم نہیں کرسکتے۔حضرت عمر(رضی اللہ عنہ) نے پوچھا آپ کیا پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے جواب دیا قُرآن پڑھ رہے تھے۔ کہا مجھے بھی سناؤ۔ کہا تو ناپاک ہے ، اب دیکھیں یہ بھی ان کی ہمت تھی کہ اس حالت میں بھی اس کو کہتے ہیں کہ آپ ناپاک ہے ہم آپ کو نہیں سنا سکتے۔ یہ ان کا غلبہ حال تھا۔ تو عمر(رضی اللہ عنہ) نے کہا ٹھیک ہے نہا لیتے ہیں۔ بہر حال وہ نہائے اور پھر قُرآن پاک سنا ، آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اور کہا کہ مجھے آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم کے پاس لے جاؤ ، وہ ان کو لے گئے۔ اب بالکل مختلف صورت ہے پہلے قتل کرنے کی نیت تھی اب نظریں نیچی کیے ہوئے جارہے ہیں۔ گئے دروازہ کھٹکھٹایا ، صحابہ کرام کو بڑی فکر ہوئی کہ پتہ نہیں عمر(رضی اللہ عنہ) کس ارادے سے آئے ہیں۔ ان دنوں تک حضرت امیر حمزہ(رضی اللہ عنہ) مسلمان ہوگئے تھے۔ وہ بھی اندر تھے۔ فرمایا دروازہ کھول دو ، اگر اچھے ارادے سے آیا ہے تو اچھی بات ہے ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کردوں گا دروازہ کھول دیا۔ جب اندر آگئے تو سب سے پہلے آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم آگے بڑھے، دیکھیں یہ بھی شجاعت کی انتہا ہے حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)کا دامن پکڑ کر جھٹک دیا کہ عمر (رضی اللہ عنہ) کس ارادے سے آئے ہو۔ عرض کیا ایمان لانے کیلئے ، صحابہ کرام نے نعرہ تکبیر بلند کردیا۔حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) مسلمان ہوگئے اب مسلمان ہونے کے ساتھ ان کا جو سارا غصہ تھا۔ وہ اب کفار کی طرف پلٹ گیا۔ ان کے غصے نے اپنا راستہ بدل دیا۔ ختم نہیں ہوا۔ پہلے مسلمانوں پر تھا اب کفار پر ہوگیا۔ باہر چلے گئے ، خانہ کعبہ تشریف لے گئے وہاں اعلان کروادیا کہ عمر (رضی اللہ عنہ) مسلمان ہوگیا۔ کفار ان کو آکر مارنے لگے۔ حضرت عمر(رضی اللہ عنہ) نے ان کے ایک بڑے کو پکڑ لیا اور اس کو گرا کر اس کے اوپر بیٹھ گئے ، اب لوگ اوپر سے حضرت عمر(رضی اللہ عنہ) کو مار رہے ہیں اور حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نیچے اس بڑے کو مار رہے ہیں۔ وہ چیخ رہا تھا مجھے بچاؤ مجھے بچاؤ۔ ظاہر ہے لوگوں نے اس کو بچانے کے لئے حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کو چھوڑ دیا۔ پھر وہ سلسلہ شروع گیا کہ دھڑلے سے سب کچھ کرنے لگے۔ اسلام بھی لائے بہ با نگ دہل۔ جب ہجرت کی تو دھڑلے سے۔ سب سے پہلے اپنے آپ کو مسلح کیا۔ پھر خانہ کعبہ کا طواف کیا اور اعلان کیا کہ اگر کوئی اپنی بیوی کو بیوہ کرنا چاہتا ہو ، کوئی اپنی ماں کو اپنے اوپر رلانا چاہتا ہو ، تو آئے عمر (رضی اللہ عنہ) ہجرت کررہا ہے اس کو روکے۔ اب اللہ تعالیٰ نے رعب دیا ہوا تھا۔ کوئی کیسے ان کے سامنے آسکتا تھا۔ اسی طرح خلافت بھی دھڑلے سے ٹرانسفر کی۔ کیونکہ کڑا وقت تھا مسلمانوں پر ، چھ افراد کی کمیٹی بنا دی۔ چھ میں کون کونسے لوگ تھے۔ عبدالرحمن بن عوف (رضی اللہ عنہ) ، حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) ، علی کرم اللہ وجہہ ، عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) ، اور دو دوسرے بزرگ صحابہ اور یہ فرمایا اگر چار ایک پر متفق اور دو دوسرے پر متفق تو چار والوں کی بات مان لو۔ اور ان دو کے سر کاٹ دو۔ اور اگر تین تین ہوجائیں تو جس طرف عبدالرحمن بن عوف(رضی اللہ عنہ) ہوں ، ان کی بات مانی جائے۔ عبداللہ بن عمر(رضی اللہ عنہ) جو ان کے بیٹے تھے ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ ووٹ دے سکتا ہے لیکن خلیفہ نہیں بن سکتا۔ اسطرح کی پالیسی بنائی۔ اب آپ اندازہ کرلیں کہ ایسے وقت میں جس طرف جو بھی آتا ، اس کا سر اڑا دیا جاتا ، یہ معمولی بات ہے۔ ان میں کون لوگ تھے ؟ وہ اکابر صحابہ تھے ، بزرگ ترین صحابہ تھے جو خلافت کے اہل ہوسکتے تھے وہ صحابہ تھے۔ لیکن شرط اتنی کڑی لگا دی کہ اب ان کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں تھا کہ فوراً فیصلہ ہو اور متفقہ ہو۔ تو لوگ ایک دوسرے کے حق میں دستبردار ہوگئے ، عبدالرحمن بن عوف (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ میں خلافت نہیں لیتا۔ چونکہ ان کی (supremacy) برتری قائم تھی سب نے ان کو حق دے دیا کہ آپ جو فیصلہ کرلیں ہم اس کے لئے تیار ہیں۔ اب سارا لوڈ (بوجھ)آگیا عبدالرحمن بن عوف (رضی اللہ عنہ) پر۔ تین دن تک بغیر سوئے عبدالرحمن بن عوف (رضی اللہ عنہ) مشورے کررہے ہیں اور لوگوں سے مل رہے ہیں۔ شرط کیا لگائی انہو ں نے ، کہ جو قُرآن کا حکم ، جو آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم کا طریقہ ، جو شیخین کے فیصلے ہیں ، اس پر بیعت کرلو۔ تو علی کرم اللہ وجہہ کو اس مسئلے میں اشکال تھے۔ ظاہر ہے وہ بھی بڑے صحابی تھے۔ ان کا کہنا یہی تھا کہ قُرآن و سنت کافی ہے۔ حضرت عثمان(رضی اللہ عنہ) نے بات مان لی ، انہوں نے عبدالرحمن بن عوف (رضی اللہ عنہ) کے ہاتھ پر بیعت کرلیا۔ بعد میں علی کرم اللہ وجہہ نے بھی ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور بات ختم ہوگئی۔ تو دیکھ لیں ،ایمان بھی لائے، ہجرت بھی کی اور خلافت بھی دھڑلے سے ٹرانسفر کی۔ اس درمیان جتنے کام کیے وہ اسی طریقے سے کیے۔کوڑا ساتھ رکھتے تھے۔ بڑے بڑے لوگوں کو مارنے سے نہیں چوکتے تھے۔ اور خود یہ حال تھا کہ ایک دفعہ منبر پر بیٹھے ہوئے تھے سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں سے پوچھا کہ اگر میں اللہ کے حکم اور رسول اللہ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم کے سنت کے مطابق فیصلہ نہیں کروں تو آپ لوگ کیا کریں گے ؟ ایک صحابی اٹھے ، تلوار اٹھائی اور کہا کہ ہم اس سے تمہیں سیدھا کردیں گے۔حضرت بڑے خوش ہوئے فرمایا الحمد اللہ مجھے شر سے بچانے والے لوگ موجود ہیں۔ ایک دفعہ ایک جماعت باہر سے آئی ، ظاہر ہے ان سے بحیثیت امیر المومنین ملے۔ بات چیت کی ، جب وہ چلے گئے تو لوگوں کے کاموں میں جت گئے کسی کا پانی بھر رہے ہیں کسی کے لئے سود سلف لا رہے ہیں ، کسی نے پوچھا حضرت یہ کیا ، فرمایا بحیثیت امیر المومنین کچھ فیصلے کیے ہیں تو نفس موٹا ہوگیا ہے۔ اس کا علاج کررہا ہوں۔ اور وہ مشہور واقع ہے کہ ایک نادار خاتون غربت کے سبب بچوں کے بہلانے کیلئے کچھ پتھر ابال رہی تھی اور بچوں کو دلاسہ دے رہی تھی کہ کھانا تیار کررہی ہوں۔ جب حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کو ساری صورتحال کا پتہ چلا تو گئے اور بیت المال سے آٹے کی بوری اور دوسری ضروری چیزیں اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھیں ، خادموں نے عرض کیا حضرت ہم کس لئے ہیں ، فرمایا ، قیامت میں میرا بوجھ کون اٹھائے گا۔ خود ہی وہ ساری چیزیں لے گئے پھر ان کے لئے آٹا بنوایا اور ان کوکھانا کھلایا ، جب بچے کھا نا کھا کر کھیلنے لگے تب وہاں سے واپس ہوئے۔ فرمایا میں نے ان کو روتے دیکھا ہے اب میں ان کو ہنستے دیکھنا چاہتا ہوں۔ اب نرم دل تھے تو ایسے تھے اورجب سخت ہوتے تھے تو اپنے اوپر بھی سخت اور دوسروں پر بھی سخت۔ تو غضب کو ختم نہیں کرنا ، غضب کو راستہ دینا ہے۔ اس کو صحیح راستے پر لانا ہے۔ مشائخ کے ہاں یہی ہوتا ہے وہ کسی کے غصے کو ختم نہیں کرتے ، کسی کی چاہت کو ختم نہیں کرواتے۔ وہ اس کو ایک صحیح لائن دے دیتے ہیں تاکہ وہ مفید بن جائے۔بعض لوگ کہتے ہیں نفس کو مار دیا۔ تو سن لیں نفس کو کوئی نہیں مار سکتا۔ اور نفس کو مارنا بھی نہیں چاہیے۔ کیونکہ نفس تو آپ کی سواری ہے۔ اگر نفس ختم ہوگیا تو آپ ختم ہوگئے۔ نفس کیا ہے اس کو میں آسان لفظوں میں سمجھاتا ہوں۔ میری آنکھیں ہیں ان سے میں دیکھتا ہوں ، اب ان آنکھوں میں بری چیزوں کے دیکھنے کی چاہت بھی ہے اور اس سے میں اچھی چیزیں بھی دیکھ سکتا ہوں۔ تو یہ آنکھوں کا نفس ہے۔ اس طرح کانوں کا بھی نفس ہے کہ وہ کچھ چیزیں سننا چاہتی ہیں جو اچھی نہیں ہیں۔ اب کانوں کا نفس یہ ہے۔ اس طرح ذہن کا بھی نفس ہے اور بھی بہت ساری چیزوں کا نفس ہے۔ جو جو جہاں پر ہے وہاں اس کا نفس ہے۔ نفس کو ختم کریں گے تو وہ چیز ہی ختم ہوجائے گی۔ آنکھ کو تو ختم نہیں کرسکتے۔ جب تک آنکھ موجود ہے آنکھ کا نفس موجود ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نفس کو ختم نہیں کرنا ، نفس کی تربیت کرنا ہے ، جیسے ایک بگڑے ہوئے بچے کو کوئی مارتا تو نہیں ، اس کی تربیت کرتے ہیں اس کو (educate) کرتے ہیں کہ یہ ایک مفید بچہ بن جائے۔ اس طرح جانور جو سدھا ہوا نہیں ہے لوگ اس کو سدھاتے ہیں تاکہ یہ ہمارے کام کا بن جائے ، ورنہ اگر اس کو ختم کریں گے تو آپ کا تو ذریعہ ہی ختم ہوگیا۔ تو نفس کو کوئی ختم نہیں کرسکتا یہ صرف استعارے کے طور پر کہتے ہیں کہ فلاں کا نفس ختم ہوگیا۔ مطلب یہ ہے کہ اس کے تمام برے تقاضے کنٹرول میں آگئے۔ اب وہ برے تقاضے اس کو پریشان نہیں کرتے بلکہ اب وہ اس کی مرضی کے مطابق کام کرتے ہیں۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کو نفس مطمئنہ کہتے ہیں۔ بہر حال غصب کو بھی کنٹرول کرنا ہے۔غضب کی افراط ظلم ہے اور کمی بزدلی ہے۔ اور درمیان میں شجاعت ہے۔ شجاع آدمی دشمن کے آگے تو جم جاتا ہے لیکن جس وقت کمزور کے ساتھ معاملہ ہوجائے تو وہاں پر نرم ہوجاتا ہے۔ شجاع آدمی کمزور پر ہاتھ نہیں اٹھاتا۔ کمینہ آدمی کمزور پر ہاتھ اٹھاتا ہے اور برے کے سامنے گر جاتا ہے۔ اس کے بعد عقل ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہے اس نعمت کی بھی قدر کی جانی چاہیے۔ اللہ جل شانہ نے ہمیں عقل چیزوں کو سمجھنے کے لئے دی ہے کہ اس سے ہم چیزوں کو سمجھ سکیں۔ ایک ہوتا ہے (mind) اور ایک ہوتا ہے (supermind) یعنی (mind) کا وہ حصہ جو باقی (mind) کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس طرح ایک عقل ہے اور ایک سپر عقل ہے۔ تو جو سپر عقل ہے وہ اگر کسی کا ٹھیک ہو ، تو باقی عقل اس کا صحیح استعمال ہوتا ہے۔ اب آئن سٹائن کے بارے میں لوگوں کو غلط فہمی ہے کہ وہ بڑا عقل مند تھا ، اس نے بڑے کام کیے سائنس کے لحاظ سے۔میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں بچے ہیں ریت میں گھروندے بنا رہے ہیں اب اس پر لڑ پڑے ایک کہتا ہے آپ نے میرا گھروندہ توڑ دیا ہے دوسرا کہتا ہے آپ نے میرا گھروندہ توڑ دیا اس پر ان کے والدین ہنستے ہیں کہ یہ تو پانچ منٹ کا گھر ہے اس پر یہ لڑ رہے ہیں ، اسی طرح آپ غور کریں اور قیامت کے پہلے دن کا اندازہ کریں کہ وہ پچاس ہزار سال کا ہوگا۔ اس کے مقابلے میں ہماری سو سال کی زندگی تین منٹ بھی نہیں بنتی۔ لیکن ان تین منٹ کیلئے ہم کیا کرتے ہیں۔ تمام چیزوں کو ختم کردیتے ہیں ، کیا یہ بچوں والی بات نہیں ہے ؟ جو ہم سے زیادہ سپر عقل کے ہیں کیا وہ ہم پرنہیں ہنسیں گے۔ ایک آدمی کتابوں پر کتابیں (publish)چھاپنا کررہا ہے لیکن آخرت کے لئے کچھ نہیں کررہا۔ تو وہ عقل مند ہے یا بے وقوف ؟ آئن سٹائن یہاں کے ایک عا م مسلمان مزدوری کرنے والے سے بھی جو اپنے پیسے بھی خود نہیں گن سکتا ، اس سے زیادہ بے وقوف تھا۔ کیونکہ وہ مزدور جانتا ہے کہ میرا ایک اللہ ہے مجھے اس کو جواب دینا ہے۔ تو آئن سٹائن اس مزدور سے زیادہ بے وقوف ہے۔ کیونکہ اس نے اپنے اصل مقصد کو بھلا دیا ہے۔ جہاں پر کامیاب ہونا تھا وہاں تو فیل ہوگیا۔ چھوٹی چھوٹی کامیابیوں سے کیا ہوتا ہے۔ یہاں کی چھوٹی کامیابی حاصل کی تو کتنے دیر کی کامیابی حاصل کی ، زیادہ سے زیادہ موت تک کہہ سکتے ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا سائنسدان ، بلکہ اس کو دنیا کا بادشاہ بنا دو۔ تو کیا ہوا ، مرنے کے ساتھ ہی اس کا کام شروع ہوگیا۔ تو فائدہ کیا؟ اپنی عقل کو استعمال کرنے کے لئے انسان کو سوچنا چاہیے کہ مجھے عقل کس چیز کیلئے استعمال کرنی چاہیے۔ فقہا نے بھی عقل استعمال کی ، اور آئن سٹائن نے بھی عقل استعمال کی۔ عقل دونوں نے استعمال کی۔ فقہا نے استعمال کیا اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کیلئے۔ آئن سٹائن نے استعمال کیا دنیا کو کمانے کیلئے۔ تو فقہاء فقہاء ہیں آئن سٹائن ان تک کیسے پہنچ سکتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سائنس خراب چیز ہے۔ جو سائنسدان اللہ کی رضا کے لئے دن رات کام کررہے ہیں وہ تو ممکن ہے کہ فقہاء سے بھی آگے نکل جائیں۔ ہم سائنس کو غلط نہیں کہتے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ استعمال کس چیز کے لئے ہورہا ہے۔ بہر حال عقل بذات خود ایک (tool) اوزار ہے۔ اس کو اللہ جل شانہ نے جو حکم دیا ہے اس کے لئے استعمال ہونا چاہیے۔ اور جس چیز سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ اس کو استعمال کرکے اس چیز سے بچا جائے۔ مثال کے طور پر ایک شخص اپنے گھر میں اسلام کو لانا چاہتا ہے۔ ایک آدمی بے ڈھنگے طریقے سے لانا چاہتا ہے۔ دوسرا آدمی بہت ڈھنگ سے طریقے سے لاتا ہے۔ تو بے ڈھنگ ہم کسے کہتے ہیں ، جس میں عقل استعمال نہ کی جائے ، تو ایک آدمی بہت ڈھنگ سے ، صحیح طریقے سے ، آہستہ آہستہ سب کچھ کرلیتا ہے۔ اور ماشاء اللہ صحیح طریقے سے گھر میں اسلام کو لے آتا ہے۔ سب چیزیں صحیح ہوگئیں ، اب وہ عقلمند ہے۔ اس نے عقل کو صحیح استعمال کیا۔ اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتا ہے اب وہ ڈھنگ سے ان کی تربیت کررہا ہے۔ اور پڑھا رہا ہے تو بڑی اچھی بات ہے۔ عقل کا استعمال تو ہوگیا تو (depend) کرتا ہے کہ عقل کس لئے استعمال ہورہا ہے۔ اب عقل کو اگر کوئی شریعت کے مقابلے پر لائے گا تو اس کو ہم افراط کہیں گے۔ جہاں شریعت نے حکم دیا ہے عقل کے استعمال کا اور وہاں عقل استعمال نہ کی جائے تویہ تفریط ہے۔ تو عقل کے افراط و تفریط سے بھی بچنا چاہیے۔ جو اس کا صحیح عین استعمال ہے یہ فقا ہت ہے۔ اس کے لئے فرماتے ہیں کہ اللہ جل شانہ جن کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمانا چاہے ان کو دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔ اب اس کے بعد ہے
" علم"
علم کا مطلب ہے جاننا ، علم روشنی ہے جس کے ذریعے انسان کو برا اور اچھا ، صحیح اور غلط نظر آتا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے لیکن اگر اس علم کو ہم نے دنیا کے لئے استعمال کیا تو یہ بہت بڑی نادانی اور نقصان کی بات ہے۔ اگر ہم نے اس کو اللہ کے لئے استعمال کیا تویہ بہت بڑی دانائی ہے۔
علم کر پر تن زن مارے بود
علم گر بر دل زنی یارے بود
اگر آپ نے علم کو اپنے جسم کے لئے استعمال کیا تو یہ سانپ بن جائے گا۔ اور اگر آپ نے اس کو دل کے لئے استعمال کیا تو یہ آپ کا دوست بن جائے گا۔ تو علم بڑی اچھی چیز ہے لیکن اگر اس کو صحیح استعمال کیا جائے۔ لیکن اگر تکبر یا اور اس قسم کی چیزوں کے لئے استعمال ہوا تو بہت خطرنا ک چیز ہے۔آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم نے فرمایا
" العلماء ورثتہ الانبیاء"
اور یہ بھی فرمایا کہ بد ترین علماء برے علماء ہیں ،یعنی علماءِ سوء۔ جو دین کو بیچیں گے اور دنیا کو لیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمجھ اورصحیح عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
وآخر دعوانا ان الحمد اللہ رب العالمین۔