اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ۔اَلصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَم ُ عَلیٰ خَاتَمَ النَّبِیینِ۔اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اِیَّاکَ نَعبُدُوَاِیَّاکَ نَسْتَعِینُ﴿۴﴾ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقیْمَ﴿۵﴾ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنعَمتَ عَلَیْھِمْ ﴿۶﴾ غَیرِ الْمَغضُوْبِ عَلَیھمْ وَلَاالضَّآ لِّینَ﴿۷﴾۔ وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ ، اَﷲَ اَﷲَ فِی اَصْحَابِی لَاتَتَّخِذوھُمْ مِنْ بَعْدِی غَرَضَاً فَمَنْ اَحَبَّھُمْ فَبِحُبِّیْ اَحَبَّھُمْ وَ مَنْ اَبْغَضَھُمْ فَبِبُغْضِی اَبْغَضَھُمْ
اللہ جل شانہ ہم پر بہت مہربان ہیں ۔ اور اللہ جل شانہ نہیں چاہتے کہ اس کا کوئی بندہ جہنم میں چلا
جائے ۔ اللہ جل شانہ نے ہم لوگوں کو جہنم سے بچانے کے لئے ہدایت کے دو بڑے سلسلے جاری فرمائے ۔ ایک
انبیاء کرام کا سلسلہ جاری فرمایا اور ایک کتابوں کا سلسلہ جاری فرمایا ۔جو انبیاء کرام کا سلسلہ
ہے وہ آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور آپ ﷺِپر تکمیل تک پہنچ گیا ۔ اب کوئی نبی آئے گا اور نہ
کوئی آسکتا ہے اوراگرکوئی ایساباور کرے گا تو وہ جھوٹا ہوگا۔
حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کے فتویٰ کے مطابق اس سے یہ بات بھی پوچھنا کفر ہے کہ اگر تم نبی ہو تو معجزہ دکھاؤ ۔ اتنا
کہنے سے بھی انسان کافر ہوجاتا ہے ۔ لہذا یہ بات اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے ۔ اب کوئی
نبی
نہیں آئے گا ۔ کوئی بھی دعویٰ کرے گا تو خود بھی تباہ و برباد اور اپنے ساتھ دوسرے لوگوں کو بھی تباہ و برباد کرسکتا
ہے ۔ اللہ جل شانہ ہمیں اس سے محفوظ فرمائے ۔
کتابوں کا سلسلہ بھی انبیاء کرام کے ساتھ شروع ہوگیا تھا ۔ اور قرآن پر ختم ہوگیا ۔ ہم ساری کتابوں کو مانتے ہیں ۔
چاہے وہ تورات ہے ، زبور ہے یا ا نجیل ہے ۔ ہم ساری کتابوں کو مانتے ہیں ، سارے صحیفوں کو مانتے ہیں ، لیکن اب عمل
صرف ایک کتاب پر ہوگا اور وہ کتاب قرآن ہے ۔ اس طرح ہم تمام انبیاء کرام کی بات مانیں گے ، ہم سارے انبیاء پر ایمان
بھی لائیں گے ، لیکن عمل کریں گے آپ ﷺ کے طریقے پر ۔ آپ ﷺِ کا طریقہ آخری او رحتمی ہے ۔ اس میں سارے انبیاء کرام کے
طریقے آگئے اور قرآن کے اندر ساری کتابوں کی تفصیلات آگئیں ۔ لہذا اب ہمارے پاس کتاب ایک ہی ہے قرآن جس پر عمل کرنا
ہے اور ایک ہی نبی ہے حضرت محمد ﷺِ ، جن کے پیچھے چلنا ہے ۔اور یہ اتنا اہم ہے کہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں آپ ﷺِ کی
زبانی کہلوایا ،
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ۔ وَاللّٰہُ غ
َفُوْرٌرَّحِیْمٌ﴿۱۳﴾۔
اے میرے حبیب اپنی امت سے کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ کے ساتھ محبت کرنا چاہتے ہو تو میری اتباع
کرلو ، اللہ پاک تمہیں اپنا محبوب بنا لیں گے ۔ لہٰذا آپ ﷺ کی اتباع میں اللہ جل شانہ کی محبوبیت پکی بات ہے ۔ اور یہ بھی
فرمایا کہ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔ لہٰذا آپ ﷺ کی اطاعت یہ عین اللہ کی اطاعت ہے ۔ آپ ﷺِؓ کی ذات کے
ساتھ جو محبت ہے اس کے بارے میں خود آپ ﷺِ نے فرمایا کہ تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا ۔ جب تک میرے ساتھ
اپنے اہل و عیال سے زیادہ اور اپنے مال سے اور اپنی جان سے بھی زیادہ محبت نہ کرنے لگو ۔
حضرت عمر ؓ نے ایک موقع پر کہا یا رسول اللہ ﷺِ مجھے آپ ساری چیزوں سے زیادہ پیار ے ہیں بجز اپنی جان کے ۔ آپ ﷺِ نے فرمایا
، عمر ، اس وقت تک تمہارا ایمان کامل نہیں ہوسکتا جب تک میں تمہیں اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں ۔ اس کے
بعد حضرت عمر ؓ نے کہا ، یا رسول اللہ ﷺِ اب تو آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں ۔ آپ ﷺِ نے فرمایا اب ہوگئی بات
اے عمر ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب آپ ﷺِ کے طریقے پر چلنا ہے اور آپ ﷺِ کے ساتھ محبت کرنی ہے اور آپ ﷺِ کے طریقے کو
اپنانا ہے ۔ اور آپ ﷺِ کے طریقے کو پھیلانا ہے ۔ یہ ہمارا منشور ہے اور یہ ہمارا اس دنیا میں کام ہے ۔
اب یہ بات ہے کہ آپ ﷺِ کے طریقے کو ہم کیسے سیکھیں گے ۔ ٹھیک ہے ہمیں معلوم ہوگیا کہ آپ ﷺِ کا طریقہ سب سے اعظم اور سب
سے اچھا اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب طریقہ ہے ۔ لیکن اب اس کو ہم جانیں گے کیسے ؟ کوئی اس کاطریقہ بھی تو ہو ۔ تو
اللہ جل شانہ نے اس کے لئے ایک قوم مبعوث فرمائی ، جس کو صحابہؓ کہتے ہیں ۔ اور صحابہؓ کی یہ حیثیت ہے ، ہمیں اس کو اچھی
طرح سمجھنا چاہیے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ گذشتہ امتوں کے اندر بہتر فرقے گزرے ہیں ۔ میری امت کے اندر تہتر ہونگے ۔ اور
صرف ایک فرقہ ناجی ہوگا ۔ تو آپ ﷺِ سے پوچھا گیا یارسول اللہ وہ فرقہ کونسا ہوگا ، فرمایا
م
َا ٲنَاعَلَیْہِ وَاَصْحَابِی ْ
یعنی جس
راستے پر میں چلا ہوں اور میرے صحابہؓ چلے ہیں وہ کامیابی کا راستہ ہے ۔ یہ نہیں فرمایا کہ جس پر میں چلا ہوں ۔ یہ بات
بھی تو ہوسکتی تھی ۔ اور یہ بات کافی بھی ہوسکتی تھی ۔ لیکن نہیں ، آپ ﷺِ نے فرمایا
،
مَا ٲنَاعَلَیْہِ وَاَصْحَابِی۔
جس پر میں چلا ہوں اور میرے صحابہ چلے ہیں ۔ اس
کی وجہ کیا ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں پتا ہے کہ قرآن حدیث سے اونچا ہے ۔ اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ قرآن اونچا ہے
یا حدیث اونچی ہے تو ہمیں کہیں گے، قرآن کیونکہ یہ کتاب اللہ ہے ، لیکن کیا کتاب اللہ حدیث کے بغیر سمجھ میں آسکتی ہے ؟
تو ہمارا جواب نفی میں ہے۔
اگر کوئی کہتا ہے کہ میں قرآن مانتا ہوں اور حدیث نہیں مانتا وہ ازروئے قرآن کافر ہے ۔ تو جب یہ والی بات سمجھ میں
آگئی تو حدیث کا انکار بھی کفر ہے، اور وہ عین کتاب اللہ کا انکار ہے ۔ کیونکہ اس کے بغیر قرآن سمجھ میں ہی نہیں آسکتا
۔ بعض منکرین حدیث لوگوں کو چکنی چپڑی باتیں کرکے گمراہ کرلیتے ہیں ۔ وہ ان سے پوچھتے ہیں قرآن مفصل ہے یا مجمل ۔
یعنی اس میں تفصیل ہے یا اجمال ہے ۔ تو اگر کوئی کہتا ہے کہ قرآن مفصل ہے تو کہتے ہیں دلیل دے دو قرآن سے ۔ اور
اگر کہا جائے کہ مجمل ہے تو کہتے ہیں اس کے کہنے پر ہم عمل کیسے کریں گے ۔ تولوگوں کو پریشان کیا جاتا ہے ۔
اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ قرآن مفصل ہے لیکن آپ ﷺ کے لئے ۔ آپ ﷺِ کو اس کی تفصیلات کا پتہ ہے ۔ لیکن باقی لوگوں کے
لئے یہ مجمل ہے ۔دیکھیں کس طرح ۔ جب فرمایا گیا کہ
کُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ
الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ۔
کہ کھاؤ پیو اس وقت تک جب تک کہ واضح نہ
ہوجائے کالے دھاگے سے سفید دھاگے کا فرق فجر سے پھر روزہ پورا کرو رات تک۔جب یہ فرمایا گیا تو ایک صحابی رسول ﷺِ
ایک کالا دھاگہ لے لیتے اور ایک سفید دھاگہ لے لیتے تھے اور اس کو دیکھتے رہتے تھے ، جس وقت کالے اور سفید دھاگے
میں وہ تمیز کرلیتے تھے تو فرماتے اب کھانا پینا بند ۔ جب دوسرے صحابہؓ کرام رضی اﷲ عنھم نے ان کو دیکھا تو ان کو
آپ ﷺِ کے پاس لائے اور کہا کہ یا رسول اللہ ﷺِ یہ تو اس طرح کرتے ہیں ۔ آپ ﷺِ نے ان کو سمجھایا کہ یہ افق کا خط ہے ، یہ
وہ عام دھاگہ نہیں ہے ۔ یہ افق کے اوپر جو دھاگہ سا آجاتا ہے، سفیدی اور کالے میں امتیاز کرنے والا ، اس کی طرف
اشارہ ہے ۔ اس کو ہم فجر کہتے ہیں ۔
اب دیکھیں یہ تفسیر کس نے بتائی ؟ آپ ﷺِ نے بتائی ۔ قرآن پاک میں جابجا آیا ہے
ا
َقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُواالزَّکٰوۃَ
نماز قائم
کرو اور زکوٰۃ دو ، لیکن کیا کہیں پر یہ تفصیل ہے کہ نماز کیسے پڑھو ، کتنی نمازیں فرض ہیں ۔ ان کے اوقات کیا ہیں اور
اس کی تفصیلات کیا ہیں ۔ یہ تفصیلات پھر کہاں سے لی گئی ہیں آپ ﷺِ نے فرمایا
صَلُّوُا کَمَا
رَاَیْتُمُوُنِی اُصَلِّی
نماز پڑھو اس طرح جس طرح مجھے نمازپڑھتے ہوئے دیکھو ۔ اور چونکہ قرآن میں ہے
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہ
یعنی جس نے نبی کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت
کی ۔ لہذا اب اس کو ماننا لازم ، اب کوئی نماز پڑھے گا اور حضو ر ﷺِ کے طریقے پر نہیں ہوگا وہ نماز رد ہے ۔ وہ نماز ہوگی
ہی نہیں ۔ تو اس کے لئے ہمیں حدیث شریف کی طرف رجوع کرنا پڑے گا ۔ جب یہ بات سمجھ میں آگئی کہ حدیث شریف کے بغیر قرآن
سمجھا نہیں جاسکتا ۔ تو یہ بھی سمجھ میں آنا چاہیے کہ آپ ﷺ کے صحابہؓ کے بغیر سنت کی تشریح نہیں ہوسکتی ۔ کیسے نہیں
ہوسکتی ؟ دیکھیں کچھ چیزیں آپ ﷺ کے لئے خاص تھیں ، آپ ﷺِ نے چار سے زیادہ شادیاں کیں تھیں ۔ آپ ﷺِ کا نیند میں وضو نہیں
ٹوٹتا تھا ۔ اس طرح اور بہت ساری باتیں صرف آپ ﷺِؓ کے ساتھ خاص تھیں ۔ اب ہم دیکھیں گے کہ صحابہ کرامؓ کو ، کہ انہوں نے
آپ ﷺِ کی کونسی سنت کو اپنے اوپر لازم کرلیا ہے اور کونسی سنت کو نہیں لیا ۔یہ ہمارے لئے رہنمائی ہے کہ اس کو ہم بھی لے
سکتے ہیں ۔ اور چونکہ صحابہ کرام ؓکی حیثیت یہ تھی کہ وہ معیار حق تھے ۔ اور آپ کو پتہ ہے کہ جب بھی کوئی کام ہوتا ہے
تو اس میں بنیاد کی حفاظت کی جاتی ہے ۔ کہیں بنیاد متزلزل نہ ہوجائے ۔ بنیاد متزلزل ہوجائے تو سارا کام متزلزل ہوجائے
گا ۔ تو آپ ﷺ نے اللہ کے حکم سے صحابہ کے بارے میں فرمادیا ،
اَﷲَ اَﷲَ فِی اَصْحَابِی لَاتَتَّخِذوھُمْ مِنْ
بَعْدِی غَرَضَاً فَمَنْ اَحَبَّھُمْ فَبِحُبِّیْ اَحَبَّھُمْ وَ مَنْ اَبْغَضَھُمْ فَبِبُغْضِی اَبْغَضَھُمْ۔
یعنی اے میرے امتیو ں تمہیں میرے صحابہ کے بارے
میں خدا کا واسطہ ، تو اس انداز سے کہنا کوئی معمولی بات ہے ؟ ان کو میرے بعد ملامت کا نشانہ نہ بنانا ، جو ان کے ساتھ
محبت کرتا ہے وہ اس لئے کرتا ہے کہ وہ میرے ساتھ محبت کرتا ہے ۔ جو ان کے ساتھ دشمنی کرتا ہے وہ اس لئے دشمنی رکھتا ہے
کہ وہ میرے ساتھ دشمنی رکھتا ہے ۔ تو آپ ﷺِ نے صحابہ کرام ؓ کا سب کچھ اپنے اوپر لے لیا ۔ تو جو صحابہؓ سے محبت رکھتا ہے
وہ حضور ﷺِ سے محبت رکھتا ہے ۔ جو حضور ﷺ سے محبت رکھتا ہے وہ اللہ کے ساتھ محبت رکھتا ہے ۔ جو صحابہ کا منکر ہے ، جو صحابہ
کے ساتھ بغض رکھتا ہے وہ حضور ﷺِ کے ساتھ بغص رکھتا ہے ۔ اور جو حضورﷺِ کے ساتھ بغض رکھتا ہے وہ اللہ کے ساتھ بغض رکھتا ہے ۔
جب یہ بات سمجھ میں آگئی تو اب صحابہ کرام ؓہمارے لئے معیار حق ٹھہرے ۔ اب صحابہ کرامؓ کا دفاع ہم پر لازم ہوگیا ۔
اب صحابہ کرام ؓکے بارے میں اچھی بات کرنا لازم ہوگیا ۔ اور صحابہ پر جو نکیر ہے وہ موقوف ہوگئی ۔ صحابیؓ ، صحابیؓ پر
تنقید کرسکتے تھے لیکن ہم صحابہؓ پر تنقید نہیں کرسکتے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اورحضرت امیر معاویہ ؓ کے درمیان اختلاف تھا
۔ اصولی اختلاف تھا ۔ جب حسن بصری ؒ جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے شاگرد تھے ، ان سے پوچھا گیا کہ آپ اس بارے میں کیا کہتے
ہیں ۔ انہوں نے کہا الحمد اللہ ، اللہ پاک نے ہمارے تلواروں کو اس مقدس خون سے بچایا ہوا ہے ۔ ہم اپنی زبانوں کو کیوں آلودہ
کریں ۔ ہم زبانی بات کرکے اپنے آپ کو کیوں پھنسائیں ۔ کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا
اَﷲَ
اَﷲَ فِی اَصْحَابِی لَاتَتَّخِذوھُمْ مِنْ بَعْدِی غَرَضَا
اب ایک بات سمجھ میں آنی چاہیے کہ جس وقت صحابہؓ کی بات آجائے تو اس سے مراد کیا ہے؟ کیا اس سے مراد حضرت ابوبکر ؓ ،
حضرت عمر ؓ ، حضرت عثمان ؓ اور حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ اورحضرت طلحہ ؓ اور باقی صحابہؓ ہیں ؟ کیا اس سے مراد حضرت علیؓ نہیں
ہیں ؟ کیا ایسی کوئی بات ہے ، کیا ان کو ہم صحابیت سے نکال دیں گے ؟کیا ہماری اتنی جرأت ہے کہ ہم ان کو صحابیت سے نکال
دیں ؟ نہیں ۔ جب عام طور پر صحابہؓ کی بات آجائے تو ان میں کون کون شامل ہوں گے ؟ جواب ملتا ہے ان میں تمام صحابیات بھی
شامل ہونگی ، ازواج مطہرات بھی شامل ہونگی۔ اہل بیت ؓ ،حضرت علی ؓ ، حضرت فاطمہ ؓ حضرت حسن ؓ ، حضرت حسین ؓ اورعباس ؓ یہ
سارے کے سارے اس میں شامل ہونگے ۔ اور ساتھ باقی سارے کے سارے صحابہؓ بھی شامل ہونگے ۔ حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمر ؓ ، حضرت
عثمان ؓ ، حضرت زبیر ؓ ، حضرت طلحہ ؓ ، حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ ، اور اس طرح جتنے بھی صحابہ کرام ؓ گزرے ہیں ، حتیٰ کہ حضرت
وحشی ؓ بھی ، جن کو آپ ﷺِ نے حکمتاً ارشاد فرمایا کہ میرے سامنے نہ بیٹھو ، کیونکہ مجھے اپنے چچا حمزہ ؓ یاد آجاتے ہیں ۔
اس کی تشریح حضرت تھانوی ؒ نے یوں کی کہ اس سے یہ مطلب نہیں کہ نعوذبااللہ وحشی ؓ سے حضورﷺِ کو نفرت تھی ،نہیں یہ بات نہیں
تھی ۔ نفرت ہوتی تو دعوت کیوں دیتے ۔ آپ کو پتہ ہے آپ ﷺِ نے حضرت وحشی ؓ کو دعوت دی تھی ایمان لانے کی ۔ حضرت وحشیؓ نے عذر
کیا ، یارسول اللہ ﷺِ میں کیسے مسلمان ہوسکتا ہوں ، میں نے اتنا بڑا جرم کیا ہے ، میں نے آپ کے پیارے چچا کو شہید کیا ہے ،
میں کیسے مسلمان ہوسکتا ہوں ۔ تو ان کے لئے قرآن پاک میں یہ پیاری آیت نازل ہوئی ۔
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَا
تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ۔ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا۔ اِنَّہ، ھُوَ الْغَفُوْرٌ الرَّحِیْمٌ﴿۳۵﴾
یعنی اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنے آپ
پر ظلم
کیا ہے میری رحمت سے مایوس نہ ہو بیشک اﷲ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخشتا ہے بیشک وہ غفور اور رحیم ہے۔یعنی اسلام لانے سے
سارے کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ۔ تو حضرت وحشیؓ کے ساتھ آپ ﷺ کو بغض نہیں تھا ، تو پھر وجہ کیا تھی کہ ان کو سامنے
آنے سے روک دیا تھا؟ وجہ یہ تھی کہ ان کو دیکھ کرآپ ﷺ کو اپنے چچا یاد آجاتے تھے ، نتیجتاً آپ ﷺِ کے دل کو تکلیف ہوتی تھی
اور جس کی وجہ سے نبی کو تکلیف ہوجائے ، اس کو طبعاً نقصان ہوتا ہے ۔ اور آپ ﷺِ ان کو نقصان سے بچانا چاہتے تھے ۔ کہ جب
مجھے اپنا چچا یاد آئیں گے تو ان کو نقصان ہوگا ۔ اب چونکہ یہ مسلمان ہے اس کو نقصان نہیں ہونا چاہے ۔ لہذا ان کو
سامنے آنے سے روک دیا ۔ تویہ شفقت فرمائی ۔ تو جس شخص نے اپنی آنکھوں سے اس نورانی چہرے کی زیارت کی ہے ۔ یا اپنے کانوں
سے وہ محبوب آواز سنی ہے ، تو اب وہ صحابی ؓ ہے ، اس سے صحابیت کوئی نہیں چھین سکتا ۔ جب تک وہ نعوذ باللہ من ذالک مرتد نہ
ہوجائے ۔ اگر وہ مرتد ہونے سے بچے ہوئے ہیں تو اب ان سے صحابیت کوئی نہیں چھین سکتا ۔ چاہے وہ ازواج مطہرات ہیں ، چاہے
وہ عام صحابیات ہیں ، چاہے وہ اہل بیت ہیں ، چاہے وہ عام صحابہ کرامؓ ہیں ۔ سب کے سب ماشاء اللہ محفوظ و مامون ہیں ۔ ان کے
لئے رضی اللہ عنہ ورضو عنہ کی سند موجود ہے ۔ لہذا جب اللہ پاک نے ان کو معاف کردیا ، آپ ﷺ نے ان کو معاف کردیا ، تو اس کے بعد
اور کون ہے جو ان کے ساتھ حساب کرے ۔ میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں مثلاً میرے کسی کے ذمہ دو کروڑ روپے ہیں اور میں کسی
دن موڈ میں آکر اس کو کہتا ہوں کہ چلو جی میں نے وہ دو کروڑ روپے معاف کردیے ۔ اورساتھ میں اس کو دو لاکھ روپے اور بھی
دے دیتا ہوں ۔ اب اس کا کوئی دشمن میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے پوچھتا ہے کہ آپ نے اس کے دو کروڑ روپے کیوں معاف کردیے
۔ اور آپ نے مزید بھی دے دیے ۔ کیوں ؟ تو کیا وہ مجھ سے ایسی بات کرسکتا ہے ؟ میں اس سے کہوں گا تمہیں کیا ہے ۔ بھئی
پیسے میرے ہیں درد تمہارے پیٹ میں ہے ، تم کہاں سے آگئے ہو ۔ وہ کسی نے کہا ہے کہ میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی
۔ جب اللہ جل شانہ راضی ہیں ، جب اللہ جل شانہ معاف کرنے والے ہیں ۔ جب اللہ جل شانہ دینے والے ہیں ۔ تو اس کے بعد شیعوں کے پیٹ
میں کیوں مروڑ اٹھتا ہے ؟ ناصبیوں کے پیٹ میں کیوں مروڑ اٹھتا ہے ؟ کیا وہ لوگ ان کے ساتھ حساب کرسکتے ہیں ؟ نہیں حساب
کرنے والا صرف للہ ہے ۔ اللہ نے ان کو معاف کردیا ہے اس کے بعد تم کیا کرسکتے ہو ،کچھ بھی نہیں کرسکتے ۔ آپ ﷺِ نے کبھی بھی یہ
نہیں فرمایا ، کہ فلاں صحابیؓ اگر اتنا خرچ کرے گا تو اس کا اجر احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرنے سے زیادہ ہوگا ۔ یہ
نہیں فرمایا بلکہ فرمایا ، میرے صحابہؓ ، یہ عام صیغہ ہے ۔ میرے صحابہؓ ۔ ٹھیک ہے مراتب میں فرق ہوتاہے ۔ ابوبکر صدیق ؓ
کا اپنا مقام ، حضرت عمر ؓ کا اپنا مقام ، حضرت عثمان ؓ کا اپنا مقام ، حضرت علیؓ کا اپنا مقام ، فاطمۃ الزھرہ ؓ کا اپنا
مقام ، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا اپنا مقام ، خدیجتہ الکبریٰ ؓ کا اپنا مقام ، مقامات کے لحاظ سے بات ہوسکتی ہے ۔ وہ اللہ پاک
نے بنائی ہیں ۔ اس سے ہم انکار نہیں کرسکتے ۔
تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْض
بعض انبیاء کرام علیھم السلام کے بارے میں
بھی فضیلت کے ہم قائل ہیں ، لیکن نعوذباللہ من ذالک کسی کی فضیلت ثابت کرنے کے لئے اگر ہمیں کسی نبی کی نتقیص کرنی پڑے
تو وہ ناجائزہے ۔ اس کو آپ ﷺِ نے روکا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی یہ نہ کہے کہ میں یونس بن متی سے اچھا ہوں۔ شاید اس
لئے یہ فرمایا کہ بعض بدبخت حضرت یونس علیہ السّلام کے بارے میں ناگفتنی باتیں کرتے ہیںاور حضرت کے اجتہادی فعل کو گناہ
سمجھ کر حضرت کو مقام انبیاء سے گرانا چاہتے ہیں ۔یہ یہود کا طریقہ ہے۔یہود اپنے پیغمبروں کے بارے میں غیر محتاط تھے
اور اس میں افراط تفریط کے شکار تھے اس لئے بعض کے سامنے تو نعوذ باﷲ اﷲ تعالیٰ کو بھی مجبور ثابت کرنے کی کوشش کی اور
بعض کو عوام کے مقام سے بھی نیچے گرادیا ۔اﷲ تعالیٰ ہمیں دائمی طور پر ہر قسم کے افراط تفریط سے محفوظ فرمائے۔
اس کا مطلب ہے کہ آپ ﷺِ کی فضیلت بیان کرتے کرتے دوسرے انبیاءکی تنقیص نہیں ہونی چاہیئے ۔ اسی طرح کسی صحابی کی بھی
فضیلت توبیان کی جاسکتی ہے لیکن اس کو بیان کرتے کرتے کسی اور صحابی کی تنقیص جائز نہیں ہے۔ میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی
فضیلت بیان کرسکتا ہوں، حضرت عمر ؓ ، حضرت عثمان ؓ کی فضیلت بیان کرسکتا ہوں لیکن اس کے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی
تنقیض کی اجازت نہیں ہے ۔ حسین ؓ کی نتقیض کی اجازت نہیں ہے ۔ کسی بھی صحابیؓ کی تنقیص کی اجازت نہیں ہے ۔ اگر میں ان
کی تنقیص کروں گا تو پھر یہ
اَﷲَ اَﷲَ فِی اَصْحَابِی لَاتَتَّخِذوہُمْ مِنْ بَعْدِی غَرَضَاً فَمَنْ اَحَبَّھُمْ فَبِحُبِّیْ
اَحَبَّھُمْ وَ مَنْ اَبْغَضَھُمْ فَبِبُغْضِی اَبْغَضَھُمْ
کی خلاف ورزی ہوگی ۔ اس وجہ سے کسی صحابی کی تنقیص نہیں ہونی چاہیے ، یہ بات
اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے ۔ اب اعتدال کا راستہ کونساہے ۔ ہمارے اہلسنت و لجماعت کا مسلک یہ ہے کہ انبیاء معصومین ہیں ۔
جو نبی کے بارے میں زبان کھولے گا سمجھ لیں کہ اس نے جہنمی بننے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ انبیاءکرام معصومین ہوتے ہیں ۔
ان کو اللہ پاک نے چنا ہے ۔ اور اللہ پاک نے جن کو چنا ہو تم اس پر کیسے اعتراض کرسکتے ہو ۔ ہاں فضیلت اپنی اپنی ہے اس میں
کوئی شک نہیں لیکن کسی پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا ۔ اسی طرح صحابہ کرامؓ محفوظ ہیں ۔ اللہ جل شانہ نے ان کو دین کی تشریح
کا ذریعہ اور بنیاد بنایا ہے ۔ اگر آپ ﷺِ کے وقت میں چوری نہ ہوتی ، اور قطع ید کی سزا نافذ نہ ہوتی ، مجھے بتائیں آج
جب ہم ان جرموں کی سزائیں نافذ کرناچاہتے تویہ منکرین حدیث اور ملحدین ہماری چمڑی نہ ادھیڑتے ۔ یہ کہتے کہ حضور ﷺِنے
تو ایسا نہیں کیا یہ تو آپ لوگوں نے کیا ہے ہم اس کو نہیں مانتے ۔ اگر چہ اب بھی یہی کرتے ہیں ، احادیث شریفہ میں ان
سزاؤں کی نظیریں موجود ہونے کے باوجود اس سے انکار کرتے ہیں لیکن ان کا الحاد اس میں کھلا جھلکتا ہے اس لئے بڑا فتنہ
اس سے نہیں پیدا ہوتا لیکن اگر ایسی نظیریں موجود نہ ہوتیں تو پھر تو ان کے ہاتھ بہت بڑا نقطہ آجاتا ۔ تو اس کے لئے
تکوینی طور پر کچھ لوگوں سے غلطی ہوگئی ۔ لیکن پھر اللہ پاک نے جو توبہ نصیب فرمادی تو اس کا کیا کہنا ۔ غلطی بھی صحابیؓ
کی اور توبہ بھی صحابیؓ کی ۔ ایک صحابی رسول ﷺِ کو سنگسار کیا جارہا ہے ۔ اور یقین جانیے کہ ان کو اس سنگساری کی سزا کسی
اور کی شہادت پر نہیں دی جارہی بلکہ خود ان کی اپنی شہادت پر دی جارہی ہے ۔ خود آئے اور کہا یارسول اللہ ﷺِ ہمیں پاک کرد
یجئے مجھ سے زنا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں تم نے بوسہ لیا ہوگا ۔ پھر دوسری طرف سے آکر کہتے ہیں یا رسول اللہ ﷺِ مجھے
پاک کردیجئے ۔آپ ﷺنے فرمایا نہیں تم کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوچکے ہو ۔ یعنی آپ ﷺچاہتے تھے کہ یہ اپنے اوپر شہادت نہ
دے ، لیکن جب چار دفعہ انہوں نے کہہ دیا ، تو فرمایا اب تو انہوں نے اپنے اوپر شہادت دے دی تو اس وجہ سے اب ان کو
سنگسار کرنا پڑے گا ۔ اب ایک صحابیؓ کو سنگسار کیا جارہا ہے ۔ حضرت خالد بن ولید ؓ کا پتھر ذرا سخت لگا ۔ خون اچھل کر
کپڑوں پر پڑا ۔حضرت خالد بن ولید ؓ کے منہ سے کچھ مذمت کے الفاظ نکلے ۔ آپ ﷺِ نے اس کو فوراً روکا اور فرمایا ان کی مذمت
نہ کرو ، انہوں نے ایسی توبہ کی ہے ، اگر وہ توبہ پورے اہل حجازمیں تقسیم کردی جائے تو سب کی مغفرت ہوجائے گی۔ تو یہ
ہے صحابیؓ کی توبہ ۔ بہر حال اگر چوری کی سزا نافذ نہ ہوتی ، اگر قتل کی سزا نافذ نہ ہوتی ، اگر زنا کی سزا نافذ نہ
ہوتی ۔ اگر دوسرے جرموں کی سزا نافذ نہ ہوتی ۔ تو کیا آج ہمارے سامنے شریعت اس صورت میں موجود ہوتی ۔ تو اللہ جل شانہ
نے ان پاک ہستیوں کو ذریعہ بنایا شریعت کے نفاذ کا ۔ ان کے جسموں پر ان کے جذبات پر اور ان کی روحوں پر شریعت نافذ
ہوچکی تھی اور اللہ تعالیٰ نے رضی اللہ عنہ و رضو عنہ کی سند بھی دے دی ۔ اب اس کے بعد وہ محفوظ ہیں ان کا سب کچھ معاف ہوچکا
ہے ۔ اب ان کے ساتھ کوئی حساب نہیں کرسکتا ۔ تو میں عرض کررہا تھا کہ صحابہ کرام ؓجتنے بھی تھے ان کی تنقیص نہیں کیجا
سکتی ۔ حتیٰ کے حضرت وحشی ؓ کی تنقیص بھی نہیں کی جاسکتی ۔ تو ہمارے اہلسنت والجماعت کا طریقہ کیا ہے ، اس کو سمجھنے
کے لئے ایک ترتیب سمجھ لیں ۔ جس وقت فقہ کی تدوین ہونے لگی تو فقہائے کرام نے چند اصول بنالئے اور اس کے مطابق فقہ
کی تدوین فرمائی ۔ اصول کیا بنائے ، جب صحابہؓ کا اجماع ہو ، صحابہؓ کا ایک بات پر اتفاق ہو تو اس میں کوئی اور بات ہو
ہی نہیں سکتی ۔ اس کے مقابلے میں کوئی دوسری رائے نہیں آسکتی ۔ اس کو کہتے ہیں اجماع امت ، یہ تیسرا اصول ہے ۔ لہذا
فیصلہ ہوجاتا ہے ۔صحابہ کرامؓ کا اجماع بھی قرآن و حدیث کی طرح معصوم ہے ۔اس کی دلیل یہ ہے کہ حدیث شریف سے یہ ثابت ہے
کہ میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتی اور صحابہ کرامؓ کے بارے میں یہ بات زیادہ واقع ہونے کے لئے آسان ہے۔پس پہلا اصول
قرآن ہے ، دوسرا اصول سنت اور تیسرا اصول اجماع صحابہؓ ، پوری امت کا اجماع تو مشکل سے ہوتا ہے ، لیکن اجماع صحابہ ممکن
ہے ۔ چوتھا اصول یہ ہے کہ جب اجماع نہ ہو ، صحابہ کرامؓ میں اختلاف ہو ، ایک صحابی رسول ﷺِ کی ایک بات لے لیں ، دوسرا
صحابی ؓ دوسری بات لے لیں ، یہاں پر آپ کہہ سکتے ہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے ، آپ ﷺِ تو ایک تھے تو دو باتیں کیسے کہہ سکتے
تھے ، تو اس کے بارے میں بھی بتا دیتا ہوں ۔ دیکھیں ، ایک صحابی رسول ہر وقت آپ ﷺ کے پاس ہیں ۔ اور دوسرے صحابی تشریف
لے آئے مسلمان ہوگئے ، آپ ﷺِ کے ساتھ ملاقات ہوگئی ، پھر اپنے علاقے میں چلے گئے ۔ اور پھر دوبارہ واپس آنے کا موقع ہی
نہیں ملا ۔ اب انہوںنے جس حالت میں بھی آپ ﷺِ کو دیکھا ہے ۔ انہوںنے اسی حالت کو بیان کردیا ۔ تو کیا وہ نعوذ باللہ من
ذالک جھوٹ کہہ رہا تھا ؟ نہیں وہ تو سچ کہہ رہا تھا ۔ لیکن اس کے بعد جو تبدیلی آئی ،آپ کو پتہ ہوگا جس وقت شراب پر
پابندی کا حکم آگیا تو بہت سارے صحابہ کرام ؓاس بات سے پریشان تھے کہ جو لوگ شراب پیتے ہوئے اس دنیا سے چلے گئے ہیں
ان کا کیا ہوگا؟ تو ان کے بارے میں فرمایا کہ نہیں ان کے ساتھ کوئی حساب نہیں ہوگا ، کیونکہ اس وقت دین یہی تھا ۔پوچھا
جنہوںنے نمازیں نہیں پڑھی تھیں ان کا کیا ہوگا ، فرمایا اس وقت دین یہی تھا ۔ مطلب یہ ہے کہ دین میں تو تدریجاً تبدیلی
آئی ہے ۔ شراب کا حکم تین مرحلوں میں آیا ۔ اس طرح نماز میں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ نماز کے اندر سلام کا جواب بھی دے
سکتے تھے ۔ اور بچے کو اٹھا کر کندھے پر بٹھا بھی سکتے تھے ۔ یہ سب کچھ اس وقت جائز تھا ۔ لیکن جب اللہ کا حکم آیا ،
قوموا للہ قانتین ، اس کے بعد پھر آہستہ آہستہ نمازمیں یکسوئی آنے لگی ، اس میں اعمال کم ہونے لگے ۔ رفع یدین بھی کم
ہوگیا ، اس طرح کچھ اور تبدیلی آگئی حتیٰ کہ ایسا وقت بھی آیا کہ ایک دفعہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ
کو نماز میں ہلتے ہوئے دیکھا تو ان کو مارنے کیلئے دوڑے ۔ بہر حال تبدیلی آتی رہی ، اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ فقہا ء
کیا کرتے ہیں وہ دیکھتے ہیں کہ اگر ایک صحابیؓ نے ایک دفعہ آپ ﷺِ سے ملاقات کی ہے اور دوسرا صحابی ؓمستقل ساتھ رہے ہیں تو
اب اگرکسی بات پر دونوں کا قول آجائے تو پہلے والے صحابیؓ کے قول کو نہیں لیں گے دوسرے صحابیؓ کے قول لے لیں گے لیکن
اس پہلے والے صحابی کے قول کو رد بھی نہیں کریں گے ۔ اس کو غلط نہیں کہیں گے ۔ اس کے بارے میں کہا جائے گا کہ یہ ان
کا مشاہدہ تھا اور وہ غلط نہیں تھا ۔ لیکن چونکہ اس کے بعد حکم بدل گیا تھا لہذا اب ہم اس پر عمل کریں گے ۔ اس طرح
ایک فقیہ صحابی ہیں ان کو بات کی پوری طرح سمجھ آگئی اور ایک صحابیؓ غیر فقیہ ہیں ، جیسے میں نے وہ دھاگہ والے صحابیؓ کا
ذکر کیا ، وہ سادہ سے صحابیؓ تھے ۔ صحابہ کرامؓ میں بہت سے صحابہؓ ایسے تھے جو غیر فقیہ تھے ، دیہاتی لوگ تھے زیادہ
تفصیلات نہیں دیکھی تھیں ، بس موٹی موٹی باتوں پر عمل کیا اور فیض یاب ہوگئے ، اس طرح فقہاء صحابہؓ بھی تھے حضرت عبداللہ بن
عباس ؓ کی طرح ، مفسر قرآن ، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی طرح اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرح جن کو باب العلم فرمایا گیا ۔
اور حضرت عمر ؓ کی طرح کہ عمر کی زبان پر حق بولتا ہے ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی طرح اور اس طرح دوسرے جو فقہاء صحابہؓ تھے ،
یہ بائیس یا چوبیس کے لگ بھگ تھے ۔ ان فقہاءصحابہؓ میں سے اگر کسی کی روایت آگئی ، تو ظاہر ہے فقہا کرام نے اس روایت کو
لینا تھا ۔
ایک دفعہ میں میراث پر کام کررہا تھا ۔ ایک موضوع تھا جس پر میں نے اللہ کے فضل و کرم سے کام کیا اور ذرا تحقیقی انداز
میں کیا ، تو میں نے دیکھا کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ میراث میں جو قول لیتے ہیں وہ اکثر خلیفہ راشدؓ کا ہوتا ہے ۔ حضرت
امام احمد بن حنبل ؒ اس میں جس قول سے استدلال کرتے ہیں وہ اکثر حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا ہوتا ہے ۔ اور حضرت امام شافعیؒ
اور حضرت امام مالک ؒ عموماً میراث میں حضرت زید بن ثابت ؓ کی روایت لیتے ہیں ۔ اور ہر ایک کے اپنے اپنے دلائل ہیں ۔ بہر
حال اختلاف اسی وجہ سے آتا ہے ۔ جب صحابہ ؓ میں اختلاف ہوتا ہے وہ اختلاف امت میں بھی نیچے اتر آتا ہے ۔ فقہا ءؒ میں بھی
اختلاف آجاتا ہے ۔ لہذا جو جس امام کے پیچھے ہے اسے ان کی اتباع کرنے کی اجازت تو ہے ،لیکن باقی کو غلط کہنے کی اجازت
نہیں ہے ۔ تو یہی ہے معتدل راستہ ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کا طریقہ یہ ہے کہ صحابہ ؓکے اندر اگر اختلاف
آجائے تو مان لو جن کی بھی بات ماننی ہے ۔ اور جن کی بات پر نہیں چل سکتے ، اس کے بارے میں اپنی زبان نہ کھولو اور اس
کو غلط نہ کہو ۔ تو یہ محفوظ طریقہ ہے ۔ لیکن شیطان ہمیں کب چھوڑے نے والاہے ۔ اس نے اللہ کی قسم کھائی تھی ، کہا اے اللہ تیری
عزت و جلال کی قسم، میں ان کے راستے میں بیٹھ جاو گا ، دائیں سے آؤں گا ، بائیں سے آؤں گا ، آگے سے آؤں گا ، پیچھے سے
آؤں گا ، اور ان کو تجھ تک نہیں پہنچنے دوں گا اور تم ان میں سے بہت کم کو شکرگزار پائے گا ۔ اللہ پاک نے فرمایا ، ہوگئی
بات ۔ جو میرے ہیں ان کو تو گمراہ نہیں کرسکتا ، اور جو تیری بات مانیں گے تو تجھ سے اور تیرے متبعین سے جہنم کو بھر دو
ں گا ۔ تو شیطان وسوسے ڈالتا ہے ۔ تو شیطان نے کچھ لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا اور ان کو گمراہ کردیا اور ان کے دل
میں یہ وسوسہ ڈالا کہ حضرت علی ؓ کا خلافت پر حق تھا ، اور باقی صحابہ نے اس کے ساتھ زیادتی کی اور ان کا حق غصب کیا ،
لہٰذا نعوذبااللہ من ذالک وہ سارے کے سارے منافق اور مرتد ہوگئے اور دین صرف چند صحابہؓ تک جو اہل بیت تھے ان تک محدود
ہوگیا ۔ حالانکہ خود اپنے لیڈرکے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کے جو ساتھ والے لوگ تھے وہ آپ ﷺِ سے افضل ہیں ۔ یعنی اپنے
لیڈر کا اتنا اثر تھا کہ اس کے جو ساتھ تھے وہ لوگ تو غلط نہیں ہوسکتے اور امام جعفر صادق ؒ کو یہ لوگ اپنا بزرگ مانتے
ہیں حالانکہ وہ ہمارے بزرگ ہیں ۔ تو ان کے ساتھیوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ صحیح تھے اور یہ کافی ہے ۔ لیکن حضورﷺ کو
یہ ٹائیٹل نہیں دینا چاہتے کہ جو حضورﷺِ کا ساتھی ہے وہ بھی ٹھیک ہے ۔ تو یہ شیطان کی طرف سے گمراہی ہے یا نہیں ؟کتنی
بڑی گمراہی ہے ۔ تو ان کے دل میں یہ وسوسہ دشیطان نے ڈال دیا ۔ اب ایک اور کمال کی بات ، آپ ﷺِ خاتم النیبین ہیں ۔
افضل المرسلین ہیں ، سید المرسلین ہیں ، اور آپ ﷺِ محبوب الٰہی ہیں ۔ لیکن بقول ان کے یہ صرف چند صحابہؓ کو متاثر کرسکے
اور باقی سارے کے سارے صحابہؓ گمراہ ہو گئے تو یہ کیسا عجیب اثر تھا ۔ یہ آپ ﷺ کی عزت ہے یا ان کی تنقیص ہے ؟ یہ
انتہائی درجے کی گستاخی اور جرأت کی بات ہے ۔حالانکہ آپ ﷺ نے فرمایا وہ راستہ اہل حق کا ہے جس پر میں چلا ہوں اور میرے
صحابہؓ چلے ہیں ۔ اب یہ تو ایک گروہ کی بات ہوگئی ۔ شیطان نے دوسرے گروہ کو ان کے مقابلے پر اکسایا ۔ شیطان کو اس سے
کوئی غرض نہیں کہ کوئی یہودی مرتا ہے ، نصرانی مرتا ہے ، کمیونسٹ مرتا ہے ، ہندو مرتا ہے ، ملحد مرتا ہے ۔ اس کو اس
سے کوئی غرض نہیں بس مسلمان نہ مرے ۔ صراط مستقیم پر نہ رہے ۔ چاہے ادھر رہے چاہے ادھر رہے ۔ اسے اس سے کوئی غرض نہیں
۔ تو اس نے سوچا یہ ایک گروہ تو یہ گمراہ ہوگیا اب اس کے مقابلے میں ایک اور گمراہ گروہ پیدا کیا جائے جو اس کے مقابلے
میں علی ؓ کو برا کہے ۔ انا للہ وانا الہ راجعون ۔ حسین ؓ کو برا کہیں ۔ حسن ؓ کو برا کہیں ، عباس ؓ کو برا کہیں ، تو یہ
گروہ ناصبی کہلاتا ہے ۔ تو جو ناصبی پیدا ہوئے ا ن لوگوں نے آپ ﷺ کے اہل بیت صحابہؓ پر عجیب و غریب بہتان تراشے اور ان
کو غلط غلط ناموں سے یاد کیا اور کمال یہ ہے کہ صحابہ ؓ کے دفاع کے نام پر ایسا کیا۔ظالموں نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ بھی
تو صحابہ ؓ ہیں ۔ان کے خلاف زبان درازی بھی اسی طرح اﷲ اﷲ فی اصحابی والی حدیث کی خلاف ورزی ہے لیکن جادو تو وہ ہے جو سر
چڑھ کر بولے تو شیطان نے ان پر ایسا جادو کیا کہ ان کے موٹے دماغ میں یہ بات آنہ سکی جو ایک بچے کی سمجھ میں بھی آسکتی
ہے ۔اﷲ تعالیٰ ہم سب کو ایسی کھلی گمراہی بلکہ ہر قسم کی گمراہی سے ہمیشہ کے لئے محفوظ فرمائے آمین۔
الحمد اللہ اہلسنت والجماعت نے ان کا دفاع کیا ۔ جس طرح حضرت ابوبکر صدیق ؓ صحابی ہیں اسی طرح حضرت علی ؓ بھی صحابی ہیں ۔
جو ابوبکر صدیق ؓ کی مخالفت کرکے اس قول سے پھرتا ہے جو آپ ﷺِ نے فرمایا اﷲ اﷲ فی اصحابی۔۔۔۔، اسی طریقہ سے حضرت علی ؓ کی
مخالفت کرنے والا بھی اس قول سے پھر جانے والا ہے ۔ جس طرح حضرت عمر ؓ پر زبان درازی کرنے والا اس قول سے پھرتا ہے ۔ اسی
طرح حسین ؓ پر زبان درازی کرنے والا بھی اس قول سے پھرتا ہے، اسی طرح شیطان کا مقصد پورا ہورہا ہے ۔ تو اس بات کو اچھی
طرح سمجھنا چاہیے کہ چاہے پہلے گروہ میں ہو یا دوسرے گروہ میں ہو ، معاملہ ایک جیسا ہے ۔ آپ ﷺِ چونکہ وحی الہٰی سے بولتے
تھے ، اور خود قرآن اس پر گواہ ہے ۔ لہذا جن جن پر بھی چوٹ پڑسکتی تھی ۔ آپ ﷺِ ان کی صفائی پہلے سے کردی ۔ ابو بکر صدیق
ؓکی بھی صفائی کی ، حضرت عمر ؓ کی بھی صفائی کی ،حضرت عثمان ؓ کی بھی صفائی کی ، حضرت علی ؓ کی بھی صفائی کی ، حضرت حسن ؓ
اور حسین ؓ کی بھی صفائی کی ، اور معاویہ ؓ کی بھی صفائی کی ، جس جس طریقے سے جس جس پر بھی چوٹ پڑ سکتی تھی ان کی پہلے
سے صفائی فرمادی ۔ اور یہ آپ ﷺِ کی پشین گوئیاں ہیں ۔ آپ ﷺِ نے ابوبکر صدیق ؓ کے بارے میں فرمایا ، اگر میں کسی کو خلیل
بناتا تو ابوبکر کو بناتا ۔ میں سب کے احسانوں کا بدلہ دے چکا ہوں، ابوبکرؓ کا بدلہ خدا دے گا ۔ حضرت عمر ؓ کے بارے میں
فرمایا ، عمر ؓ کی زبان پر حق بولتا ہے ۔ اورجس راستے پر عمرؓ جاتا ہے اس راستے پر شیطان نہیں جاسکتا ۔ اس طرح اور بہت
ساری باتیں ان کے متعلق فرمائی ۔ حضرت عثمان ؓ کو ذو النورین کے لقب سے نوازا ۔ ان کو دو بیٹیاں دیں اور ان کے فوت ہونے
پر فرمایا کہ اگر میری اور بیٹیاں ہوتیں تو وہ بھی میں ان کے عقد میں دے دیتا ۔ اور پھر فرمایا کہ آج کے بعد عثمانؓ جو
کرے گا اس کو کوئی مسئلہ نہیں، وہ جنتی ہیں ۔ اس طرح حضرت علی ؓ کے بارے میں بھی فرمایا ، علیؓ تمہاری مثال ہم میں ایسی
ہے جیسے عیسیٰ علیہ السلام کی انبیاءمیں تھی ۔ عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ زائد محبت کرنے والے لوگ وہ بھی گمراہ اور جو ان
کے ساتھ عناد رکھنے والے لوگ تھے وہ بھی گمراہ ۔ تو تمہاری مثال اس طرح ہے ۔ اب دیکھ لیں ایسا ہوا یا نہیں ہوا ۔ تو
حضرت علی ؓ کو با ب العلم فرمایا ۔ اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ دو چیزیں میں آپ کے پاس چھوڑے جارہا ہوں ، ایک دوسرے سے اونچا ہے ۔ ایک کتاب اللہ ہے دوسری میری اولاد ۔ حضرت امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا حضرت علی ؓ کو ، کہ اے علیؓ مجھے حضور ﷺِ کی رشتہ داری اپنی رشتہ داری سے زیادہ محبوب ہے ۔ اس طرح حضرت عمر ؓ کا ارشاد ہے حضرت عباس ؓسے ۔ کہ آپ کا اسلام لانا مجھے اپنے باپ کے اسلام لانے سے زیادہ محبوب ہے ۔ کیونکہ آپ ﷺِ کو آپ کا اسلام لانا زیادہ محبوب تھا ۔ تو اللہ جل شانہ نے آپ ﷺ کی زبان اطہر سے پہلے ہی سے وہ باتیں نکلوا دیں یا کہلوا دیں تاکہ بعد میں ان لوگوں کی حفاظت ہو ۔ اہلسنت والجماعت الحمد اللہ سب کو مانتے ہیں ۔ وہ کسی کی تنقیص نہیں کرتے ۔ سب کو محفوظ مانتے ہیں ۔ ہاں تفضیل کو مانتے ہیں ، ہمارے تفضیل کا طریقہ یہ ہے کہ جو خلافت کی ترتیب ہے وہ فضیلت کی بھی ترتیب ہے ۔ کیونکہ صحابہ کرامؓ اسی ترتیب سے متفق چلے آرہے ہیں ۔ پہلے ابوبکر صدیق ؓ پر جمع ہوئے لہذا وہ سب سے افضل ۔ پھر حضرت عمرؓ پر جمع ہوئے تو وہی اس کے بعد افضل ، پھر حضرت عثمان ؓ پر جمع ہوئے وہی ان کے بعد افضل ۔ پھر بدرین صحابہ جمع ہوئے حضرت علیؓ پر ۔ تو وہ افضل ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ترتیب اسی ترتیب سے ہے جس ترتیب پر خلافت ہے ۔ میں آپ کو دو بزرگوں کی رائے بتاتا ہوں اس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارے اہلسنت و الجماعت کا مسلک کیا ہے ۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ سے پوچھا گیا ، کہ عمر بن عبدالعزیز ؒ کی حکومت اچھی تھی یا حضرت معاویہ ؓ کی ۔ اب جذبات یہ کہتے ہیں کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒحضرت معاویہ ؓ کے حق میں بات نہ کرے کیونکہ ان کا اختلاف تھا حضرت علی ؓ سے اور شیخ عبد القادر جیلانی ؒ حضرت علی ؓ کی اولاد میں سے ہیں ۔ لیکن نہیں ۔ وہ فرماتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز ؒ کا مقام اس گھوڑے کے نتھنے میں پہنچنے والے گرد تک بھی پہنچے، جس پر بیٹھ کر حضرت معاویہ ؓ نے حضورر ﷺِ کی معیت میں جنگ لڑی ہے ، تو عمر بن عبدالعزیز کا بڑا مقام ہوگا۔ یہ ہے شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کا فتویٰ ۔ دوسری طرف عمر بن عبدالعزیز ؒ کا فتویٰ سن لیں ۔ اس کے سامنے کسی نے یزید کو امیر المومنین کہا ۔ تو حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کہا تو یزید کو امیر المومنین کہتا ہے فرمایا اس کو بیس کوڑے مارو ۔ تو اس کو بیس کوڑے لگوادیے ۔حضرت معاویہ ؓ کی مذمت کرنے والے کو بھی بیس کوڑے لگوائے تھے ، اور جس نے یزید کو امیر المومنین کہا تھا اس کو بھی بیس کوڑے لگوائے ۔ معاملہ باپ بیٹے کا ہے ۔ حضرت معاویہ ؓ باپ ہیں ۔ یزید بیٹا ہے ۔ لیکن مسئلہ سادہ نہیں ہے ۔ مسئلہ صحابیؓ اور تابعیؒ کا ہے ۔فرق ظاہر ہے۔ یہی ہمارے اہلسنت والجماعت کا معیار ہے ۔ آپ جب بھی کسی حدیث کو سنیں گے تو کہیں گے عن فلاں ، عن فلاں ، عن فلاں اور جب صحابی کی بات آئے گی تو کہیں گے وھو الصحابی والصحابہ کلہم عدول ۔اس پربات ختم ہوجاتی ہے ۔ رجال کے تمام رجسٹر کو دیکھ لو ، اس میں تابعین کے بارے میں تو تفصیلات ہوں گی ، اس میں تبع تابعین کے بارے میں تفصیلات ہوں گی لیکن جب صحابی کی بات آئے گی تو الصحابہ کلہم عدول کا ایک ہی فتویٰ ملے گا ۔ اس کے متعلق دوسری بات ہی نہیں ہے ۔ تو ہمارا معیار یہ ہے کہ جب صحابہؓ کی بات ہو تو معاملہ او ر، اور جب تابعین اور اس کے بعد کی بات ہو ، تو بات اور۔ وہا ںپرعلمائے رجال سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ اب رجال کے علم کی بات کرتے ہیں ۔
فن رجال کا متفقہ فیصلہ ۔ تاریخ و فن رجال کی تمام کتابوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ یزید کی عدالت مجروح ہے اور وہ اس کا
اہل نہیں کہ اس کی روایت قبول کی جائے چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی ٌ تقریب التھذیب ٌ میں فرماتے :
یزید بن معاویہ بن ابی سفیان الاموی ابوخالد 60ہجری میں متولی خلافت ہوا اور 64ہجری میں مرگیا ۔پورے چالیس سال کا بھی
نہیں ہوسکا ۔یہ اس کا اہل نہیں کہ اس سے کوئی حدیث روایت کی جائے۔
یزید کے بارے میں البدایہ و النھایہ کو دیکھ لیں۔لکھتے ہیں ۔
فانہ، لم یمھل بعد
وقعۃ الحرۃ و قتل حسین الا یسیراً حتیٰ قصمہ اﷲ الذی قصم الجابرۃ قبلہ و بعدہ، انہ، کان علیماً قدیراً
یعنی بلا
شبہ واقعہ حرہ اور امام حسین ؓ کو شھید کرنے کے بعد یزید کو ڈھیل نہیں دی گئی مگر ذرا سی تآنکہ حق تعالیٰ نے اس کو ہلاک کردیا جو اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی ظالموں کو ہلاک کرتا رہا ہے ۔بے شک وہ بڑا علم رکھتا ہے اور بڑی قدرت والا ہے۔ یاد رکھیئے البدایہ و النھایہ کسی شیعہ کی کتاب نہیں ہے بلکہ علامہ ابن کثیر ؒ جو تفسیر ابن کثیر کا مصنف اور ابن تیمیہ ؒ کا شاگرد ہے ،کی تصنیف ہے۔ تاریخ الخلفاء کو دیکھ لیں اور جو رجال کے علوم والے دوسری کتابیں ہیں ان کو بھی پڑھیں کہ یزید کے بارے میں اس میں کیا لکھا ہے ۔ تاریخ الخلفاء علامہ جلاالدین سیوطی ؒ کی لکھی ہوئی ہے ۔ انہوںنے اور بہت ساری کتابیں بھی لکھی ہیں ۔ حضرت جب تاریخ الخلفاء میں واقعہ حرہ اور شہادت حسین ؓ اور یزید کا خانہ کعبہ پر سنگ باری کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلم سے فوراً حالانکہ وہ انتہائی محتاط عالم ہیں ، بہت احتیاط سے بات کرتے ہیں بہت ہی احتیاط سے لکھتے ہیں لیکن یہاں حضرت کا قلم فوراً لکھنے لگتا ہے ، لعن اﷲ قاتلہ وا بن زیاد معہ و یزید ایضاً لعنت ہو اس کے قاتل پر اور ابن زیاد اور اس کے ساتھیوں پر اور یزید پر بھی ، اس طرح کے لعنت کے الفاظ نکلے ہیں ۔جہاں تک یزید پر لنتت کرنے کا تعلق ہے تو اس میں اہل سنت میں دو مذہب پائے جاتے ہیں ۔بعض اکابر ان پر لعنت سے رکتے ہیں اس لئے نہیں کہ اس کو اس سے بری سمجھتے ہیں وہ بھی ان کو شقی اور فاسق قرار دیتے ہیں ۔صرف یہ کہ اس پر لعنت کرنا کوئی فرض تو نہیں تو اس وقت میں کوئی اچھا کام کیوں نہ کیا جائے ،نیز اپنے انجام کا بھی پتہ نہیں ۔ہمیں کیا پتہ کہ ہمارا انجام کیسا ہے ۔بعض اکابر اس پر لعنت کو ازروئے قرآن و حدیث جائز سمجھتے ہیں کیونکہ جن چھ چیزوں کی وجہ سے حدیث شریف میں لعنت وارد ہوا ہے ان میں چار یزید میں یقینی پائے جاتے ہیں۔
سِتَّةٌ لَعَنَهُمْ اللَّهُ وَكُلُّ نَبِيٍّ مُجَاب الدعوۃ لزَّائِدُ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالْمُكَذِّبُ بِقَدَرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالْمُتَسَلِّطُ بِالْجَبَرُوتِ يُذِلُّ بِهِ مَنْ أَعَزَّ اللَّهُ - عَزَّ وَجَلَّ - وَيُعِزُّ بِهِ مَنْ أَذَلَّ اللَّهُ - عَزَّ وَجَلَّ وَالْمُسْتَحِلُّ لِحُرُمِ اللَّهِ - عَزَّ وَجَلَّ - وَالْمُسْتَحِلُّ مِنْ عِتْرَتِي مَا حَرَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَالتَّارِكُ لِسُنَّتِي
اس حدیث کی تخریج ابوداؤد نے ،ابن ماجہ نے اور حاکم نے اپنی مستدرک میں کی ہے اور اس کو صحیح بتایا ہے۔اس میں تقدیر کے منکر ،ظلم سے حکومت حاصل کرنے والے جس کے ذریعے وہ معزز کو ذلیل ار ذلیل کو مغزز کرتا ہے اور اﷲ کے حرم کے حلال کرنے والے اور آپ کی اولاد کی حرمت کو حلال کرنے والے اور تارک سنت پر لعنت کی گئی۔شاہ ولی اﷲ ؒ نے اس حدیث شریف کو شرح تراجم بخاری میں نقل کیا ہے۔اب یزید نے ظلم سے حکومت حاصل کی ،صحابہ ؓ کوبے عزت اور قتل کیا ،مفسدین کو عزت دی ،حرمین شریفین اور اولاد رسول کی حرمت کو پامال کیا ۔اس لئے ان اکابر کے نزدیک اس پر لعنت جائز ہے۔امام غزالی ؒ اور ابن تیمیہ ؒ سے یزید کے بارے میں گو کہ کچھ نرمی منقول ہے جس کے وجوہات مختلف ہیں مثلاً امام غزالی ؒ تو شیطان پر بھی لعنت کے قایل نہیں اور ذکر اﷲ کو اس سے بہتر خیال کرتے ہیں لیکن ان دو بزرگوں کے اپنے ہم مسلکوں اور ان کے ہم پلہ بزرگ نے ان کی اس کمزوری کا توڑ کرکے ناصبیت کے لئے نرم گوشے کا موقع ختم کردیا ہے۔مثلاً غزالی ثانی اور امام غزالی ؒ کے استاد بھائی شمس الاسلام امام ابوالحسن علی بن محمد طبری الملقب عماد الدین المعروف بالکیا ہراسی ؒ نے جب ان سے یزید کے بارے میں فتویٰ پوچھا گیا تو لکھا یزید صحابی نہیں کیونکہ وہ حضرت عمر بن خطاب کے ایام خلافت میں پیدا ہوا تھا ۔رہا سلف کا اس پر لعنت کے بارے میں دو قول ہیں ۔ایک میں اس کے ملعون ہونے کے بارے میں اشارہ ہے اور ایک میں تصریح ہے ﴿اس طرح امام مالک ؒ اور امام ابوحنیفہ ؒ کے بارے میں بھی یہی لکھا﴾ اٰور اپنے بارے میں لکھا کہ ہم تو اس قول کے قائل ہیں جس میں اس پر لعنت کی تصریح ہے اور وہ کیوں ملعون نہیں ہوگا حالانکہ وہ نر د کھیلتا تھا، چیتوں سے شکار کرتا تھا ، شراب کا رسیا تھا ۔۔۔۔ تاریخ ابن خلکان﴾۔یزید کے بارے میں اگر کچھ زیادہ تحقیق درکار ہو تو متاخرین میں حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے ،مکتوبات شریف ، شاہ ولی ؒ کے تراجم بخاری میں شاہ عبد العزیز ؒ کے تضفہ اثنائ عشری، مفتی شفیع ؒ کا شہید کربلا اور حضرت مولانا عبد ارشید نعمانی ﷲ کے کتابوں اکابر صحابہ پر بہتان ، شہید کربلا پر افتراء اور یزید کی شخصیت اہل سنت کی نظر میں ملاحظہ فرمائیں ۔متقدمین میں البدایہ و النھایہ ، تاریخ الخلفائ ،لسان المیزان ،عقائد نسفیہ ،فتح الباری ،تاریخ ابن خلکان ، تاریخ ابن کثیر دیکھیئے۔
جو لوگ قسطنطنیہ والے حدیث سے استدلال کرکے یہ کہتے ہیں کہ اس جہاد میں جو شامل ہوئے ہیں ان کے لئے مغفورٌ لہ کی بشارت ہے اور یزید کی اس میں شرکت ثابت ہے تو اس کا جواب مولانا عبد الرشید نعمانی ؒ نے اپنی کتاب میں خوب دیا ہے کہ حدیث شریف اول جیش من امتی یغزون مدینۃ قیصر مغفورٌ لہم میں دو باتیں ہیں ایک’’ اول جیش‘‘ اور دوسرا ’’مدینۃ قیصر‘‘ ۔ان دونوں کو پہلے طے کرنا ہوگا کہ ان کا کیا مطلب ہے ۔اگر اول جیش سے محض جیش مراد ہے تو یہ لشکر اس لشکر جس کی امارت یزید کے ہاتھ میں تھی سے بہت پہلے عبدا لرحمن بن خالد بن ولید کے سرکردگی میں ہوئی جو 46ھ میں شہید کردیئے گئے تھے قسطنطنیہ ہو آئے تھے۔ جبکہ یزید جس لشکر میں تھے اس کو کسی نے بھی 49ھ سے پہلے نہیں بتایا۔خود محمود عباسی نے بھی نہیں ۔اس پہلے لشکر کی تفصیل سنن ابوداؤد میں دیکھی جاسکتی ہے۔اور اگر اس سے فتح اور کامرانی والا جیش مراد ہو تو پھر اس سے مراد سلطان محمد فاتح قسطنطنیہ مراد ہوسکتے ہیں جن کا عرف ہی یہی ہے۔اس لئے مولانا کی تحقیق کے مطابق یزید اس بشارت والی جہاد میں شامل نہیں تھا ۔بقول حضرت ؒ کے یہ شوشہ شارح بخاری مہلب المتوفی 433ھ نے چھوڑا تھا کہ اس حدیث سے یزید کی منقبت نکلتی ہے ۔اس وقت یہ اندلس میں قاضی تھے اور وہاں امویوں کی حکومت تھی۔اس علمی تحقیق کو ایک طرف رکھ کر اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ اس حدیث شریف سے یزید کی مغفرت کی بشارت نکلتی ہے تو ہم یزید کے کفر کے قائل نہیں بلکہ فسق کے قایل ہیں اور فاسق کو اﷲ چاہے تو معاف کرسکتا ہے لیکن فاسق کو اگر آخرت میں معاف بھی کردیا جائے لیکن اگر دنیا میں اس کا توبہ ثابت نہ ہو تو اس کو رحمۃ اﷲ علیہ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ رحمۃ اﷲ علیہ تکریم کا کلمہ ہے اور بدعتی اور فاسق کی تکریم ازروئے حدیث دین کے انہدام کے مترادف ہے ۔خود یزید کا بیٹا اس کو خلافت کا اہل نہیں سمجھتا تھا اور اس کی بری عاقبت کا خوف تھا جیسا کہ الصواعق المحرقہ میں اس کی تصریح ہے اور اموی خلیفہ عمر بن عبد العزیز ؒ کے سامنے جب یزید کو امیر امؤمنین کہا گیا تو اس کو بیس کوڑے لگوائے ۔
ہمارے علماء کرام فرماتے ہیں ، یزید کو فاسق کہنا تو ضروری ہے ، کافر نہیں ۔ کیوں ؟ یہ میں حضرت تھانوی کی تحقیق بتا رہا ہوں ۔ فرماتے ہیں کہ شہادت حسین ؓ کا الزام اگر ان کو نہیں دیا جاسکتا تو یہ الزام تو ان کو دیا جاسکتا ہے کہ اس کا بدلہ اس نے کیوں نہیں لیا ۔ اگر اتنا بڑا کام اس سے پوچھے بغیر ہوا تو ان کے قاتلوں سے انتقام کیوں نہیں لیا گیا ۔ دوسری بات مدینہ منورہ پر اس نے جو فوج کشی کرائی ، مدینہ منورہ کو تین دن تک فوج کے حوالے کیا کہ وہاں جو مرضی ہو وہ کرو ۔ اس کے علاوہ مسجد نبوی تین دن بند رہا ۔ اور وہاں ریاض الجنتہ میں گھوڑے باندھے گئے جو وہاں لید اور پیشاب کرتے رہے ، بہت سارے صحابہ کرام ؓاور صحابیات شہید ہوگئیں ، اور نعوذبااللہ بہت سارے صحابہ کرامؓ کی بیٹیوں کی عصمت دری ہوئی ۔ اصول یہ ہے کہ جس معیار کا جرم ہوتا ہے اسی معیار کی توبہ ہوتی ہے ۔ خفیہ گناہ کی توبہ خفیہ ہوسکتی ہے ، اور اعلانیہ گناہ کی توبہ اعلانیہ ہوتی ہے ۔عالم جب گناہ کرے گا تو وہ منبر پر بیٹھ کر اعلان کرے گا کہ یہ میں نے غلط کیا ہے ۔یہ نہیں کہ یہا ں منبر پر غلط بات کرلے اورجاکر کمرے میں کہہ دے کہ میں نے غلط بات کی ہے ۔ تو کیا وہ توبہ ہوگا ۔ کتاب میں کسی نے غلط لکھا ہے تو اس کو کتاب میں لکھنا پڑے گا کہ میں نے غلط لکھا ہے ۔ حضرت تھانوی ؓکی کتابیں دیکھ لیں ، جہاں جہاں غلطی ہوئی ، آگے جا کر کتاب شائع کرادی کہ یہاں یہاں پر غلطی ہوئی ہے ا س کو ٹھیک کردو ۔ حضرت سید سلیمان ندوی نے بھی ایسا کیا ۔ عالم کی توبہ اعلانیہ ہوتی ہے ۔ وہ علمی توبہ ہوتی ہے ۔ جس لیول پر غلطی ہوتی ہے اسی لیول کی توبہ ہونی چاہیے ۔ تو جو یزید کا حملہ تھا کیا اس کے بعد اس کا اس سے اس طرح کا توبہ ثابت ہے ؟کیونکہ اس کے فوراً بعد اس نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ جاو اب خانہ کعبہ پر سنگ باری کرو ۔ وہاں پر اس کی فوج نے سنگ باری کی اور اسی دوران یزید مر گیا ۔ حضرت عبد اﷲ بن زبیر ؓاس وقت ان کی فوج سے لڑ رہے تھے ۔ پتہ نہیں حضرت کو کشف ہوا یا اور کوئی بات ہوئی ، انہوںنے یزید کی فوج سے کہا جائو تمہارا فاسق امیر مر گیا ۔ تویہ فاسق کا لفظ بھی حضرت عبد اﷲ زبیرؓ کا ہے ۔ جب اسکی فوج نے پتہ کیا تو وہ واقعی مر گیا تھا ۔ تو وہ توبہ کیے بغیر مرا ہے ۔ اس لئے ان تین باتوں کی وجہ سے وہ فاسق ہے ۔ ابن حجر مکیؒ بھی الصواعق محرقہ میں بصراحت لکھتے ہیں ۔اور اس کو مسلمان کہنے کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ وہ فاسق تھا ، شریر تھا ، نشہ کا متوالا تھا اور ظالم تھا۔
ہاں البتہ فاسق کے لئے مغفرت کی دعا ہوسکتی ہے ۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں یا اللہ یزید کو بخش دے ۔ یہ دعا ہم بھی کرسکتے ہیں ۔ ہاں مسلما ن تھا،اس کے کفر کا کوئی یقینی ثبوت نہیں اور مسلمان چاہے کتنا ہی گناہگار کیوں نہ ہو اس کو کافر نہیں کہنا چاہیئے نیزاس کے لئے مغفرت کی دعا کرنی چاہیے ۔ کیونکہ اگر ایک مسلمان کو اللہ تعالیٰ جہنم لے جائے تو ہمیں کیا خوشی ہوگی ؟ بالکل نہیں ہوگی ۔ اور اگر یزید کو اللہ پاک جنتی بنا دے تو ہمیں خوشی ہوگی ۔ کیونکہ ہمیں اس کے ساتھ یہ دشمنی تو نہیں ہے ۔اگر اللہ پاک کسی کو معاف کرنا چاہیے بالکل صحیح ہے ، یہ اس کا کام ہے ۔ لیکن اصول تو نہیں بدلے جاسکتے ،فاسق کو فاسق کہنا چاہیے ۔ لیکن اللہ پاک فاسق کو بھی بخش سکتے ہیں ۔ اللہ پاک کی قدرت سے وہ نکلا ہوا نہیں ہے ۔ ہاں کافر کو نہیں بخشتا ۔ مشرک کو نہیں بخشتا ۔ یہ اللہ پاک کا قانون ہے ۔ یہاں سے اگر کوئی ایمان کے ساتھ چلا گیا تو اللہ پاک اس کو بخش سکتے ہیں ۔ لیکن ہم اپنے اصول کو تبدیل نہیں کریں گے ۔ ہم یزید کو رحمتہ اللہ علیہ نہیں کہہ سکتے ۔ اب جو لوگ یزید کو رحمتہ اللہ علیہ کہنے کے شوقیں ہوں ور اس کے مقابلے میں حسین ؓ کو باغی کہیں تو ان لوگوں کا مقام کیا ہوگا ۔وہ اس حدیث شریف جس میں یزید کو مغفور ثابت کیا جاتا لیکن علمی لحاظ سے یہ مشکوک ہے جیسا کہ بتایا گیا کی وجہ سے تو یزید کا کرام کرتے ہیں اور وہ جو احادیث شریفہ ہیں جن اممین کریمین ؓ کو نوجوانان جنت کا سردار کہا گیا اور حسین اور حسین رضی اﷲ عنھما دنیا میں میرے پھول ہیں اور اس طرح اور احادیث شریفہ سے صرف نظر کررہے ہیں ۔ان کو ناصبی نہ کہا جائے تو کن کو کہا جائے ۔ ان ہی کو ناصبی کہتے ہیں جن کو ازروئے حدیث گمراہ فرقہ کہا گیا ہے کیونکہ ایک فرقہ حضرت علی ؓ کی محبت کی غلو میں گمراہ ہوگیا ،ان کو شیعہ کہتے ہیں،انہوں نے اکثر حضرات صحابہ کرامؓ کو مرتد کہا،دوسرا فرقہ علی ؓ کی عداوت میں گمراہ ہوگیا ،ان کو ناصبی کہتے ہیں ۔درحقیقت یہ بھی شیعہ ہیں کیونکہ ان کا پرانا نام مروانی شیعہ ہے۔یہ بالکل شیعوں کی طرح تقیہ کرتے ہیں ۔اپنے آپ کو اہل سنت میں شامل کرتے ہیں اور موقع ملتے ہی یہ اپنا زہر اہل سنت کے قلوب میں پہنچا دیتے ہیں ۔ان سے بھی ہوشیار رہنا چاہیًے ۔یہ دونوں صحابہ ؓ کے دشمن ہیں۔ الحمد اللہ پورے بیان میں میری زبان سے کسی صحابیؓ کے بارے میں نعوذ بااللہ کوئی بات نکلی ہے ؟ اور مجھے اس کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ ۔ میں کیوں اپنی عاقبت خراب کرتا ۔کسی سنی کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ کسی صحابی ؓکے بارے میں کوئی غلط بات کرے ۔ الحمد اللہ ہم سب صحابہؓ کا دفاع کرتے ہیں ، محمود احمد عباسی کے لٹریچر کو اگر دیکھا جائے ، احمد حسین کمال کے لٹریچر کو دیکھا جائے ، اس میں کئی صحابہؓ پر ، خصوصاً حضرت علی ؓ پر کئی چوٹیں لگائی گئی ہیں ۔ تو آپ حضرات سے عرض ہے کہ اپنے ایمان کو ضائع نہیں کرنا چاہیے ۔ محرم کی مناسبت سے یہ بات اس لئے کہی گئی کہ صحابہ کرام ؓکے بارے میں اگر کوئی ایسی ویسی بات کرے گا تو غصہ تو آئے گا لیکن اس غصّے میں کوئی غلط حرکت نہیں کرنی۔ اگر عیسائی نعوذبااللہ حضور ﷺِکو گالی دیں تو کیا ہم اس کے مقابلے میں نعوذ بااللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گالی دے سکتے ہیں ؟ نہیں ، ہم نے اپنے آپ کو بچانا ہے ۔ کسی صحابی ؓکے خلاف بھی بات نہیں کرنی ۔ دونوں طرف کے صحابہ ؓ ہمارے ہیں ۔ تین راستے ہیں ایک راستہ عام صحابہ کا ہے ۔ اور ایک راستہ اہل بیت کا ہے جس سے گھر کی باتیں مروی ہیں ۔ اور ایک راستہ آپ ﷺِ کے ازواج مطہرات کا ہے جن سے خاص مخفی باتیں مروی ہیں ،ایسی باتیں کوئی اور نہیں کہہ سکتا تھا ۔ میاں بیوی کے تعلقات کے بارے میں کوئی بات کرسکتا ہے ؟ حضرت عائشہ ؓکو کم عمر میں آپ ﷺ کی عقد میں لایا گیا ، اس میں تکوینی حکمت تھی ۔ کیونکہ فرماتے ہیں کہ تقریباً آدھے علم کی امین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ہیں ۔ اس طرح ہمارے جتنے بھی صحابہ کرام ؓہیں وہ اپنے اپنے حصے کے دین کے امین ہیں ۔ اگر کسی کی رسائی باقی صحابہ ؓ تک تو ہے ، اہل بیت تک نہیں ہے تو نتیجتاً وہ اتنے ہی دین سے محروم ہوجائیں گے ۔ اگر ازواج مطہرات تک نہیں تو اتنی دین سے محروم رہ جائیں گے اور اگر ان کی مخالفت کریں گے تو پھر آپ ﷺ کی اﷲ اﷲ فی اصحابی والی بات کو یاد رکھا جائے ۔ حضرت امام مالک ؒ کا فتویٰ تو بالکل واضح ہے ۔امام مالک ؒ قرآن پاک سے استدلال کرتے ہیں ، فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام ؓسے بغض رکھنے والا کافر ہے ۔کیونکہ اللہ پاک نے قرآن میں کفر کی طرف ان کی نسبت کی ہے لیغیظ بھم الکفار تاکہ اس کے ذریعے کفار کے دل جلائیں ، اس کا براہ راست مفہوم تو یہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ کی تعریف سے کافروں کے دل جلتے ہیںاور یہی مفہوم جمہور کے نزدیک ہے لیکن امام مالک ؒ اس کے بالعکس کے بھی قایل ہیں کہ جن کا دل صحابہ ؓ کی تعریف سے جلتا ہے وہ کافر ہیں ۔یہ امام مالک ؒ کا فتویٰ ہے ۔ لہذا یہ معاملہ بہت خطرنا ک ہے ،پس اپنے آپ کو بچانا چاہیے ۔ہم ایک دفعہ ایک اجتماع میں شامل تھے ، کسی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی ، سارے لوگ اٹھ گئے ۔ سٹیج والے بڑے ہوشیار تھے ، وہاں سے ایک ہی بات ہورہی تھی ، بزرگو اور دوستو اپنے آپ کو بٹھاؤ ، کسی اور کو نہ بٹھاؤ۔ یہی ایک بات مسلسل آرہی تھی اور پورا مجمع پانچ منٹ میں بیٹھ گیا ۔ کیا ایسا دوسرے مجمع میں ہوسکتا ہے ؟ جو دوسرے کو بٹھائیں گے تو کیا وہ خود بیٹھ سکتے ہیں ۔ بعض دفعہ دوسروں کو بٹھانے کے شوق میں لوگ کھڑے ہوجاتے ہیں ، نتیجتاً انتشار پیدا ہوجاتا ہے ۔ تو اس طرح نہیں کرنا چاہیے ۔ سب سے پہلے اپنے آپ کو تبلیغ ، سب سے پہلے اپنے آپ کو سمجھانا ۔ عقیدہ سب سے اہم چیز ہے ۔ خدا نخواستہ اگر ہمارا عقیدہ گڑ بڑ ہوگیا ، تو کچھ بھی باقی نہیں رہے گا ۔ عقیدہ سمت ہے ۔ اگر کوئی آدمی لاہور جانا چاہتا ہے اور کسی بس کی خوبصورتی کو دیکھ کر اس میں بیٹھ جائے یہ نہ دیکھے کہ یہ کہاں جارہی ہے ، اور بعد میں پتہ چلا کہ یہ تو پشاور جارہی ہے ۔ تو اب جس تیزی کے ساتھ یہ بس جائے گی اتنی تیزی سے وہ اپنی منزل سے دور ہوتا جارہا ہے ۔ نقصان میں جارہا ہے ۔ بالکل یہی بات ہے کہ جس کا عقیدہ خراب ہو ، چاہے وہ جتنے اچھے اعمال کرے گا وہ اتنا ہی خراب ہوتا جائے گا ۔ حضرت تھانوی ؒ فرماتے ہیں کہ جو مسلمان نہیں ہیں ان کو ذکر نہ سکھائو ، کیوں ؟ اس لئے کہ ذکر کے اپنے طبعی خواص ہیں ، مثلاً اس میں مزہ آتا ہے ، سکون ہوتا ہے،اطمینان ہوتا ہے ۔ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب ۔ یہ تو نہیں فرمایا کہ مسلمان کے دل کو اطمینان دیتا ہے اور کافر کے دل کو اطمینان نہیں دیتا ۔ یہ عام بات ہے ۔ تو یہ جودلوں کو ذکر سے اطمینان ملتا ہے تو اگر کافر کو ذکر سکھا دیا اور اس کے دل کو اس سے اطمینان نصیب ہوجائے تو وہ سمجھے گا بس یہ کافی ہے ۔ چونکہ اس اطمینان میں اوراس اطمینان میں فرق ہے ۔کسی ہیپنٹائز کرنے والے نے جو کہ عیسائی تھے نے مولانا اشرف صاحب ؒ سے پوچھا کہ ہم لوگ بھی یہ کرتے ہیں آپ لوگ بھی یہ کرتے ہیں ، فرق کیا ہے ؟ حضرت نے فرمایا ، پانی سے کسی گندی چیز کو دھونا اور پیشاب سے دھونا ، بظاہر نتیجہ ایک نظر آتا ہے لیکن یہ ایک جیسا نتیجہ نہیں ہے،ایک میں پاکی ہے دوسرے میں نہیں ۔ پیشاب سے بھی چیز دھل جاتی ہے ۔ پانی سے بھی چیز دھل جاتی ہے ۔ لیکن پانی کے ساتھ پاکی ہے اور پیشاب کے ساتھ نہیں ہے ۔ اس لئے ایمان بڑی اونچی چیز ہے ۔ اپنے ایمان کو ہم نے بچانا ہے ۔ آج کا دور بڑا خطرناک دور ہے ۔ آپ ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ صبح لوگ مسلمان ہونگے اور شام کو کافر ہونگے ، اور اگر شام کو مسلمان ہونگے تو صبح کو کافر ہونگے ۔ اور یہ فتنے ایسے کھل کر اور مسلسل آئیں گے جیسے تسبیح کے دانے بکھر کر ایک دوسرے کے اوپر گرتے ہیں ، تو ایسا وقت آنے والا ہے ، اور بظاہر لگتا ہے کہ ایسا وقت آگیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے ، ایسے وقت میں اپنے ایمان کو قبر تک لے جانا بہت بڑی بات ہے ۔ اور ایمان کو بچا کر لے گئے تو وہاں انشاء اللہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ۔ اور وہاں ٹھیک ہونے کے بہت امکانات ہیں ۔ پتہ نہیں کس کی سفارش سے کس کی شفاعت سے کام بن جائے یہ پھر اللہ پاک کے بہت سے ذریعے ہیں جس کے ذریعے اللہ پاک معاف فرماسکتے ہیں ، تو ایمان کو بچانا لازمی ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں گناہوں پر جرأت ہوجائے ۔گناہوں سے بچنا بھی ضروری ہے،کیونکہ کبھی کبھی گناہوں کی کثرت کی وجہ سے ایمان سلب ہوجاتا ہے ۔ مثلاً حج نہ کرنا ، جس پر حج فرض ہے اور وہ حج نہ کرے تو اس کے سوئے خاتمہ کا اندیشہ ہے ۔ جو دنیا کے لئے اپنے مسلک کو بدل دے اس کا بھی سوئے خاتمہ کا اندیشہ ہے ۔ ایک دفعہ کسی صاحب نے ایک امام مسلک کو چھوڑ کر دوسرے امام کا مسلک اختیار کیا تھا ، اس وجہ سے کہ وہ وہاں شادی کرنا چاہتا تھا ۔ حالانکہ شادی کرنا اچھا فعل ہے لیکن اسوقت کے علمائ نے کہہ دیا تھا کہ اس آدمی کے سوئے خاتمہ کا اندیشہ ہے ، کیونکہ اس نے دنیاوی مقصد کیلئے اپنے مسلک کو بغیر تحقیق کے تبدیل کردیا ۔ مطلب یہ ہوا کہ انسان کو اس سلسلے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے ۔ اور کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے دین کی کوئی تخفیف ہوجائے ۔ ایمان کی حفاظت گناہوں سے بچنے کے ذریعے بھی ہوسکتی ہے ۔ ایک دفعہ ایک قادیانی ایک عالم کے پاس آئے ، اور کہا کہ حضرت پہلے میں نماز پڑھتا تھا تو اس میں بڑے وسوسے آتے تھے ، جب سے میں احمدی بن گیا ہوں اب تو مجھے وسوسے نہیں آتے ، اب تو میں بالکل سکون سے نماز پڑھتا ہوں ۔ تو حضرت نے پوچھا ، یہ بتائو کہ چور کہاں ڈاکہ ڈالتا ہے ۔ جہاں مال ہو یا جہاں اور کوئی گندوغیرہ ہو ؟ پہلے تمہارے پاس ایمان کا خزانہ تھا تو اس کو چوری کرنے کیلئے شیطان بار بار آتا تھا ۔ اب تو تمہارے پاس بول وبراز ہے ، اب شیطان کیوں آئے گا ۔ اب بے شک تو اعمال کے لحاظ سے آسمان تک بھی پہنچ جائے تمہارا آخری ٹھکانہ جہنم ہی ہے ۔ تو یہی والی بات ہے ۔ اعمال کو اعمال والا مقام اور عقائد کو عقائد والا مقام دینا چاہیے ۔صحیح عقائد کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ۔ لیکن اعمال کو بھی کم نہ سمجھو ۔ کیونکہ بعض دفعہ اعمال کی کمی ایمان کے سلب ہونے کا بھی سبب بنتی ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو اپنی حفاظت میں لے لے ۔ آمین ۔