صفحہ اول >
فقہ
- فقہ کے موضوعات
-
- تقلید اور عدم تقلید
- عبادات
- معاملات
- معاشرت
- اخلاق
- میراث
- عائلی مسائل
- تعلیم الاسلام
- اسلامی کمپیوٹر پروگرام
فقہاء کے قسمیں
- مکلف مسلمان دو طرح کا ہوتا ہے
- ایک “مجتہد“ دوسرا “غیر مجتہد“ ، “مجتہد “وہ ہوتا ہے جس میں اس قدر علم لیاقت اور قابلیت ہوکہ قرآنی اشارات و رموز سمجھ سکے اور کلام کے مقصد کو پہچان سکے اس سے مسائل نکال سکے ، ناسخ و منسوخ کا پورا علم رکھتا ہو ، علم صرف و نحو بلاغت وغیرہ میں اس کو پوری مہارت حاصل ہو ، احکام کی تمام آیتوں اور احادیث پر اس کی نظر ہو اس کے علاوہ ذکی اور ہوش فہم ہو دیکھو تفسیرات احمدیہ وغیرہ، جو کہ اس درجہ پر نہ پہنچا ہو وہ غیر مجتہد یا مقلد ہے غیر مجتہد پر تقلید ضروری ہے مجتہد کے لیے تقلید منع ، فقہاءکے چھ طبقے ہیں 1۔ مجتہد فی الشرع 2۔مجتہد فی المذہب 3۔ مجتہد فی المسائل 4۔اصحاب التخریف 5۔اصحاب الترجیح 6۔اصحاب الیزج ( مقدمہ شامی بحث طبقات الفقہاء 1۔ مجتہد فی الشرع وہ حضرات ہیں جنہوں نے اجتہاد کرنے کے قواعد بنائے ، جیسے چاروں امام ابو حنیفہ ، شافی ، مالک ، احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ 2۔مجتہد فی المذہب وہ حضرات ہیں جو ان اصول میں تقلید کرتے ہیں ، اور ان اصول سے مسائل شرعیہ فرعیہ خود استنباط کرسکتے ہیں ، جیسے امام ابو یوسف و محمد ابن مبارک رحمہم اللہ اجمعین ، کہ یہ قواعد میں حضرت امام ابو حنفہ رضی اللہ عنہ کے مقلد ہیں اور مسائل میں خود مجتہد ہیں ۔ 3۔مجتہد فی المسائل وہ حضرات ہیں جو قواعد اور مسائل فروعیہ دونوں میں مقلد ہیں ، مگر وہ مسائل جن کے متعلق ائمہ کی تصریح نہیں ملتی ، ان کو قرآن و حدیث وغیرہ دلائل سے نکال سکتے ہیں ، جیسے امام طحاوی اور قاضی خان ، شمس الائمہ سرخسی وغیرہم۔ 4۔اصحاب التخریف وہ حضرات ہیں جو اجتہاد تو بالکل نہیں کرسکتے ہاں ائمہ میں سے کسی کے مجمل قول کی تفصیل فرما سکتے ہیں ، جیسے امام کرخی وغیرہ ۔ 5۔اصحاب الترجیح وہ حضرات ہیں جو امام صاحب کی چند روایات میں سے بعض کو ترجیح دے سکتے ہیں ، یعنی اگر کسی مسئلہ میں حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے دو قول روایت میں آئے ، تو ان میں سے کس کو ترجیح دیں یہ وہ کرسکتے ہیں ، اسی طرح جہاں امام صاحب اور صاحبین کا اختلاف ہو تو کسی کے قول کو ترجیح دے سکتے ہیں ، کہ ہذا اولٰی یا ہذا اصح وغیرہ جیسے صاحب قدوری اور صاحب ہدایہ ۔ 6۔اصحاب التمیز وہ حضرات ہیں جو ظاہر مذہب اور روایات نادرہ اسی طرح قول ضعیف اور قوی اور اقویٰ میں فرق کرسکتے ہیں کہ اقوال مردودہ اور روایات ضعیفہ کو ترک کردیں ، اور صحیح روایات اور معتبر قول کو لیں جیسے کہ صاحب کنز اور صاحب درمختار وغیرہ جن میں ان چھ وصفوں میں سے کچھ بھی نہ ہوں۔ وہ مقلد محض ہیں۔ جیسے ہم اور ہمارے زمانہ کی عام علماء کہ ان کا صرف یہ ہی کام ہے کہ کتاب سے مسائل دیکھ کر لوگوں کو بتا دیں۔ پہلے عرض کیا گیا ہے کہ مجتہد کو تقلید کرنا حرام ہے۔ تو ان چھ طبقوں میں جو صاحب جس درجہ کے ہوں گے۔ وہ اس درجہ سے کسی کی تقلید نہ کریں گے۔ اور اس سے اوپر والے درجہ میں مقلد ہوں گے جیسے امام ابو یوسف و محمد رحمہا اللہ تعالٰی کہ یہ حضرات اصول اور قوائد میں تو امام اعظم رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ کے مقلد ہیں اور مسائل میں چونکہ خود مجتہد ہیں۔ اس لئے ان میں مقلد نہیں۔ اس تقریر سے غیر مقلدوں کے اس سوال کا جواب ہو گیا کہ جب امام ابو یوسف و محمد علیہما الرحمتہ حنفی ہیں اور مقلد بھی ہیں تو امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ کی جگہ جگہ مخالفت کیوں کرتے ہیں۔ تو یہ ہی کہا جاوے گا کہ اصول و قواعدمیں تو یہ حضرات مجتہد فی الشرع کے مقلد ہیں، اس میں مخالفت نہیں کرتے اور فرعی مسائل میں چونکہ خود مجتہد ہیں ہیں اور اس میں کسی کے مقلد نہیں، اس میں مخالفت کرتے ہیں۔ اس سوال کابھی جواب ہو گیا کہ حنفی بہت سے مسائل میں صاحبین کے قول پر فتوٰی دیتے ہیں اور امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ کے قول کو چھوڑتے ہیں پھر وہ حنفی کیسے؟ جواب آ گیا کہ بعض درجہ کے فقہاء اصحاب ترجیح بھی ہیں جو چند قولوں میں سے بعض کو ترجیح دیتے ہیں اسی لئے ان فقہاء کا ترجیح دیا ہوا جو قول ملا اس پر فتوٰی دیا گیا ۔اس سوال کابھیجواب ہو گیا کہ حنفی اپنے کو حنفی پھر کیوں کہتے ہیں۔ یوسفی یا محمدی یا ابن مبارکی کہیں! کیونکہ بہت سی جگہ ان کے قول پر عمل کرتے ہیں امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول چھوڑ کر۔ جواب یہ ہی ہوا کہ چونکہ ابو یوسف و محمد ابن مبارکہ رحمہم اللہ تعالٰی کے تمام اقوال امام ابو حنیفہ علیہ الرحمتہ کے اصول اور قوانین پر بنے ہیں۔ لٰہذا ان میں سے کسی بھی قول کو لینا در حقیقت امام صاحب ہی کے قول کو لینا ہے جیسے حدیث پر عمل ہے کہ رب تعالٰی نے اس کا حکم دیا ہے۔ مثلاً امام اعظم رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں۔ “کہ کوئی حدیث صحیح ثابت ہو جاوے تو وہی میرا مذہب ہے۔“ اب اگر کوئی محقق فی المذایب کوئی صحیح حدیث پاکر اس پر عمل کرے تو وہ اس سے غیر مقلد نہ ہو گا۔ بلکہ حنفی رہے گا۔ کیونکہ اس نے اس حدیث پر امام صاحب کے اس قاعدے سے عمل کیا یہ پوری بحث دیکھو “شامی مطلب صح من الامام اذا صح الحدیث فھو مذھبی“۔ امام صاحب کے اس قول کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب کوئی حدیث صحیح ثابت ہوئی ہے تو وہ میرا مذہب بنی یعنی ہر مسئلہ اور ہر حدیث میں، میں نے بہت جرح قدح اور تحقیق کی ہے تب اسے اختیار کیا چنانچہ حضرت امام کے یہاں ہر مسئلہ کی بڑی چھان بین ہوتی تھی۔ مجتہد شاگردوں سے نہایت تحقیقی گفتگو کے بعد اختیار فرمایا جاتا تھا۔ اگر یہ مختصر سی تقریر خیال میں رکھی گئی تو بہت مشکلوں کو انشاءاللہ عزوجل حل کر دے گی اور بہت کام آویگی بعض غیر مقلد کہتے ہیں کہ ہم میں اجتہاد کرنے کی قوت ہے۔ لٰہذا ہم کسی کی تقلید نہیں کرتے۔ اس کے لئے بہت طویل گفتگو کی ضرورت نہیں۔ صرف یہ جاننا کافی ہے کہ اجتہاد کے لئے کس قدر علم کی ضرورت ہے اور ان حضرات کو وہ قوت علمی حاصل ہے یا نہیں۔ حضرت امام رازیؒ، امام غزالؒی وغیرہ امام ترمذیؒ و امام داؤد وؒ غیرہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ۔ حضرت با یزید بسطامیؒ، شاہ بہاءالحق نقشبند اسلام میں ایسے پایہ کے علماء اور مشائخ گزرے کہ ان پر اہل اسلام جس قدر بھی فخر کریں کم ہے۔ مگر ان حضرات میں سے کوئی بھی صاحب مجتہد نہ ہوئے بلکہ سب مقلد ہی ہوئے۔ خواہ امام شافعی کے مقلد ہوں۔ یا امام ابو حنیفہ رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین۔ زمانہ موجودہ میں کون ان کی قابلیت کا ہے جب ان کا علم مجتہد بننے کیلئے کافی نہ ہوا۔ تو جن بے چاروں کو ابھی حدیث کی کتابوں کے نام لینا بھی نہ آتے ہوں وہ کس شمار میں ہیں۔ ایک صاحب نے دعوٰٰی اجتہاد کیا ، ان سے صرف اتنا پوچھا گیاکہ سورۃ تکاثر سے کس قدر مسائل آپ نکال سکتے ہیں اور اس میں حقیقت، مجاز، صریح و کنایہ ظاہر و نص کتنے ہیں۔ ان بیچارے نے ان چیزوں کے نام بھی نہیں سنے تھے۔