Fiqh - فقہ - اسلامی فقہ - Tazkia.org - Urdu

امام ابو حنیفہ

  • اجمالی خاکہ
    • پیدائش 699ء / 80ھ کوفہ ، عراق
      وفات 767ء / 150ھ بغداد ، عراق
      عہد اسلامی عہد زریں
      مکتبہ فکر اہل سنت - فقہ حنفی
      شعبہ عمل فقہ
      افکار و نظریات فقہ کا ارتقاء
      تصانیف کتاب الآثار ، فقہ الاکبر
      مؤثر شخصیات امام محمد باقر ، امام جعفر صادق ، قتادہ ابن النعمان[1] ، القامہ ابن قیس
      امام ابوحنیفہ بہت بڑے فقیہ تھے جن کی وجہ شہرت قرآن اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مسائل مستنبط کرناہے۔ وہ لوگ جو قرآن و سنت پر عمل کرنے کے لئے آپ پر اعتماد کرتے ہیں حنفی کہلاتے ہیں ۔امام ابوحنیفہؒ اس فقہ حنفی کے بانی امام سےجانے جاتے ہیں۔
  • امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کا شجرہ نسب
    • امام صاحب کے پوتے نے اپنے دادا کا شجرہ یوں بیان کیا " اسماعیل بن حماد بن نعمان بن ثابت بن المر زبان " آپ فارسی النسل ہیں
  • امام صاحب کا مولد ومسکن
    • آپ کی پیدائش کوفہ میں 80ھ میں ہوئی جبکہ وفات 150ھ میں بغداد میں ہوئی - "
      کوفہ شہر امير المومنین حضرت عمر رضی الله عنہ کے حکم سے 17ھ میں تعمیر کیا گیا آپ رضی الله عنہ نے حضرت عمار بن یاسررضی الله عنہ کو وہاں کا حاکم اور حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنہ کو وہاں کا مفتی بنا کر بھیجا آپ کی محنت سے چار ہزار علماء محدثین پیدا ہوئے . حضرت علی رضی الله عنہ جب کوفہ شہر تشریف لائے تو فرمایا " الله پاک ابن مسعود رضی الله عنہ کا بلا کرے انہوں نے بستی کو علم سے بھر دیا " ابن عمر رضی الله عنہ صاحب المغازی شعبی کے متعلق فرماتے ہیں "میں نبی صلی الله علیہ وسلم جنگوں میں شریک رہا مگر علم ان کو زیادہ ہے " ابراہیم النخعی اپنے وقت کے وہ عالم تھے جو اہل بصرہ - شام اور حجاز میں سب سے افضل سمجھے گئے ہزر معاذ بن جبل رضی الله عنہ نے اپنے شاگردحضرت عمرو بن میمون رضی الله عنہ کو علم کے حصول کے لئے ابن مسعود رضی الله عنہ کے پاس کوفہ بھیجا علامہ سیوطی رحمہ اﷲ کے قول کے مطابق مصر میں آنے والے صحابہ کی تعداد تین سو ہے مگر کوفہ میں پندرہ سو صحابہ آباد رھے جن ستر صحابہ بدری تھے حضرت علی رضی الله عنہ نے قاضی شریج کے متعلق حکم فرمایا اٹھو اور فیصلہ کرو تم اہل عرب میں سب سے بڑھے قاضی ہو- صحابہ کی موجودگی میں یھاں کے تینتیس حضرات صاحب فتویٰ سمجھے جاتے تھے- انس بن سرین رحمہ اﷲ نقل فرماتے ہیں کہ کوفہ میں چار سو فقہاء اور چار ہزار محدثین تھے -امام بخاری رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ میں شمار نہیں کر سکتا کہ حدیث کے حصول کے لئے میں کتنی بار کوفہ گیا امام ترمذی رحمہ اﷲ نے فقہ کے ہر باب میں اہل کوفہ کا مذھب نقل کیا ہے
      " نتیجہ " مدینہ اگر مہبط وحی تھا تو کوفی مسکن فقہاء و محدثین بنا "
  • امام صاحب کی تابعیت
    • علامہ ابن خلکان کے مطابق امام صاحب نے چار صحابہ مالک رضی الله عنہم کو دیکھا ہے
      کوفہ میں حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ
      عبد الله بن ابی اوفی کو مدینہ میں
      حضرت سہل بن سعدی کو
      اور مکہ میں ابو طفیل عامربن واثلہ رضی الله کو
  • ابتدائی زندگی
    • آپ کا نام نعمان بن ثابت بن زوطا اور کنیت ابوحنیفہ تھی۔ بالعموم امام اعظم کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ آپ تمام ائمہ کے مقابلے میں سب سے بڑے مقام و مرتبے پر فائز ہیں۔ اسلامی فقہ میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا پایہ بہت بلند ہے۔ آپ نسلاً عجمی تھے۔ آپ کی پیدائش کوفہ میں 80ہجری بمطابق 699ء میں ہوئی سن وفات 150ہجری ہے۔ ابتدائی ذوق والد ماجد کے تتبع میں تجارت تھا۔ لیکن اللہ نے ان سے دین کی خدمت کا کام لینا تھا، لٰہذا تجارت کا شغل اختیار کرنے سے پہلے آپ اپنی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ نے بیس سال کی عمر میں اعلٰی علوم کی تحصیل کی ابتدا کی۔ آپ نہایت ذہین اور قوی حافظہ کے مالک تھے۔ آپ کا زہد و تقویٰ فہم و فراست اور حکمت و دانائی بہت مشہور ہے۔ آپکی حیات مبارکہ کے لاتعداد گوشے ہیں۔ ائمہ حدیث آپ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک طرف آپ علم کے سمندر ہیں اور دوسری طرف زہد و تقویٰ اور طہارت کے پہاڑ ہیں۔ امام صاحب خوش رو ، خوش لباس خوش مجلس کریم النفس ، شیریں گفتار اور قادر الکلام تھے خوشبو اس قدر استعمال کرتے تھے کہ نقل صلی الله علیہ وسلم حرکت اندازہ خوشبو سے ہوتا تھا۔
  • آپ کے سفر
    • امام اعظم نے علم حدیث کے حصول کے لیے تین مقامات کا بطورِ خاص سفر کیا۔ آپ نے علم حدیث اور فقہ سب سے پہلے کوفہ میں حاصل کیا کیونکہ آپ کوفہ کے رہنے والے تےص اور کوفہ علم حدیث اور فقہ کا بہت بڑا مرکز تھا۔ گویا آپ علم حدیث و فقہ کے گرا میں پیدا ہوئے، وہیں پڑھا، کوفہ کے سب سے بڑے علم کے وارث امام اعظم خود بنے۔ دوسرا مقام حرمین شریفین کا تھا۔ جہاں سے آپ نے احادیث اخذ کیں اور تیسرا مقام بصرہ تھا۔ امام ابو حنیفہ نے تقریبًا 4 ہزار اساتذہ سے علم حاصل کیا۔
  • اساتذہ
    • علم الادب، علم الانساب اور علم الکلام کی تحصیل کے بعد علم فقہ کے لیے امام حماد کے حلقہ درس سے فیض یاب ہوئے۔ آپ علم فقه كےعالم ہں .آپ کے شیوخ و اساتذہ کی تعداد چار ہزار بتائی جاتی ہے۔ جن سے وہ وقتاً فوقتاً اکتساب علم کرتے رہے۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق کی شاگردی کا فخر بھی انہیں حاصل هے. خلیفہ وقت کے پوچھنے پر امام صاحب نے رحمہ اﷲ نے فرمایا میں نے عمر بن خطاب رضی الله عنہ ، علی بن ابی طالب رضی الله عنہ ، عبد الله بن مسعود رضی اللّہ عنہ ، عبد الله بن عباس رضی الله عنہ اور ان کے شاگردوں کا علم پایا
  • درس و تدریس
    • آپ نے تحصیل علم کے بعد جب درس و تدریس کے سلسلہ کا آغاز کیا تو آپ کے حلقہ درس میں زبردست اژدھام ہوتا اور حاضرین میں اکثریت اد دور کے جید صاحبان علم کی ہوتی۔ علامہ کروری نے آپ کے خاص تلامذہ میں آٹھ سو فقہا ء،محدثین اور صوفیا و مشائخ کا شمار کیا ہے۔ یہ ان ہزار ہا انسانوں کے علاوہ تےع۔ جو ان کے حلقہ درس میں شریک ہوتے رہتے تےف۔ آپ نے فقہ حنفیہ کی صورت میں اسلام کی قانونی و دستوری جامعیت کی لاجواب شہادت مہیا کی اور اس مدت میں جو مسائل مدون کیے ان کی تعداد بارہ لاکھ ستر ہزار سے زائد ہے۔ آپ کی تالیف پر اجماع ہے۔ اور صحابہ سے نقل روایت بھی ثابت ہے۔ آپ شریعت کے ستون تے ۔
      مورخ خطیب بغدادی نے امام کے پوتے اسماعیل سے روایت کیا ہے کہ ’’میں اسماعیل بن حماد بن نعمان بن ثابت بن مرزبان ہوں ہم لوگ نسلاً فارس سے ہیں۔‘‘ امام صاحب کے دادا ثابت بچپن میں حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے انہوں نے ان کے خاندان کے حق میں دعائے خیر کی تھی۔ ’’ہمیں کو امید ہے۔ وہ دعا بے اثر نہیں رہی۔‘‘ تجارت ان کا ذریعہ معاش تھا۔ تجارت سے ہی رزق حلال کماتے دولت کی کمی نہ تھی۔ لیکن ان کی دولت و ثروت کا فائدہ طلبا اور حاجت مندوں ہی کو پہنچتا۔ فروخت کیے جانے والے کپڑے کے محاسن اور عیوب آپ برابر بیان کرتے اور خرابی کو کبھی نہ چھپاتے اپنے شاگردوں کی اکثر مالی امداد کرتے ۔
  • تلامذہ
    • حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کے ایک ہزار کے قریب شاگرد تھے جن میں چالیس افراد بہت ہی جلیل المرتبت تھے، اور وہ درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے۔ وہ آپ کے مشیرِ خاص بھی تےے۔ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں :
      امام ابو یوسف رحمۃ اﷲ علیہ
      امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اﷲ علیہ
      امام حماد بن ابی حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ
      امام زفر بن ہذیل رحمۃ اﷲ علیہ
      امام عبد اﷲ بن مبارک رحمۃ اﷲ علیہ
      امام وکیع بن جراح رحمۃ اﷲ علیہ
      امام داؤد بن نصیررحمۃ اﷲ علیہ
      علاوہ ازیں قرآن حکیم کے بعد صحیح ترین کتاب صحیح بخاری کے مؤلف امام محمد بن اسماعیل بخاری اور دیگر بڑے بڑے محدثین کرام رحمہم اﷲ آپ کے شاگردوں کے شاگرد تھے۔
  • اہم تصانیف
    • آپ کی چند مشہور کتب درج ذیل ہیں :
      الفقه الأکبر
      الفقه الأبسط
      العالم والمتعلم
      رسالة الإمام أبي حنيفة إلی عثمان البتی
      وصية الامام أبي حنيفة
      المقصود فی علم التصریف کتاب الوصیۃ لجمیع الامۃ الوصیۃ لعثمان السبتی کتاب الوصیۃ لابی یوسف الوصیۃ لاصحابہ الکبار الرسالہ الی نوح بن مریم اور ان کی احادیث میں تصانیف کی تعداد 27 کے قریب ہیں
  • فقہ حنفی
    • امام اعظم اپنا طریق اجتہاد و استنباط یوں بیان کرتے ہیں:
      ’’میں سب سے پہلے کسی مسئلے کا حکم کتاب اﷲ سے اخذ کرتا ہوں، پھر اگر وہاں وہ مسئلہ نہ پاؤں تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے لیتا ہوں، جب وہاں بھی نہ پاؤں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اقوال میں سے کسی کا قول مان لیتا ہوں اور ان کا قول چھوڑ کر دوسروں کا قول نہیں لیتا اور جب معاملہ ابراہیم شعبی، ابن سیرین اور عطاء پر آجائے تو یہ لوگ بھی مجتہد تے اور اس وقت میں بھی ان لوگوں کی طرح اجتہاد کرتا ہوں۔‘‘ آپ کے اجتہادی مسائل تقریبًا بارہ سو سال سے تمام اسلامی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لیے بڑی بڑی عظیم اسلامی سلطنتوں میں آپ ہی کے مسائل، قانون سلطنت تھا اور آج بھی اسلامی دنیا کا بیشتر حصہ آپ ہی کے فقہی مذہب کا پیرو کار ہے۔
      فقہ حنفی کی اشاعت و خدمت سب سے زیادہ ان کے شاگردوں قاضی ابویوسف اور امام محمد بن حسن شیبانی نے کی۔ کو ہارون نے مملکت کاقاضی القضاۃ بنا دیا تھا۔ اس لیے ان کی وجہ سے فقہ حنفی کے پیروکاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
  • حق گوئی
    • جہاں تک ملکی سیاست کا تعلق ہے انہوں نے کبھی بھی کسی خلیفہ کی خوشامد یا ملازمت نہ کی۔ ہمیشہ حق اور اہل حق کا ساتھ دیا۔ منصور نے ان کو مشیر بنانا چاہا تو آپ نے صاف انکار کردیا۔ اور کہا کہ ’’اگر منصور کہے کہ مسجدوں کے دروازے گن دو تو یہ بھی مجہے گوارا نہیں۔‘‘ امام محمد نفس الزکیہ اور ابراہیم کے خروج کے موقع پر انہوں نے ابراہیم کی تائید کی تھی۔ منصور نے انہیں بلا کر عہدہ قضا پر فائز کرنا چاہا لیکن آپ کے مسلسل انکار پر اول بغداد کی تعمیر کے موقع پر انہیں اینٹیں شمار کرنے کے کام پر لگایا اور بعد میں قید خانہ میں ڈال دیا۔
  • عظمت ابوحنیفہ
    • ایک دفعہ حضرت امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ کے شاگردوں کے مابین جھگڑا پیدا ہوگیا۔ ہر گروہ اپنے امام کی فضیلت کا دعویدار تھا۔ حضرت امام ابو عبداﷲ رحمۃ اﷲ علیہ نے دونوں کے درمیان فیصلہ کیا اور اصحاب شافعی سے فرمایا: پہلے تم اپنے امام کے اساتذہ گنو۔ جب گنے گئے تو 80 تھے۔ پھر انہوں نے احناف سے فرمایا: اب تم اپنے امام کے اساتذہ گنو جب انہوں نے شمار کئے تو معلوم ہوا وہ چار ہزار تھے۔ اس طرح اساتذہ کے عدد نے اس جھگڑے کا فیصلہ کر دیا۔ آپ فقہ اور حدیث دونوں میدانوں میں امام الائمہ تھے۔
  • امام ابوحنیفہ ؒ کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیاں

      تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ جو جتنا اونچے مقام پر جاتا ہے اس کے مخالفین اتنی شدت سے اس کی مخالفت کرتے ہیں ۔امام ابوحنیفہ ؒ کے ساتھ بھی یہ معاملہ ہے کہ اگر ایک طرف ان کے علم ، تقویٰ اور بصیرت کی ایک دنیا قائل ہے تو دوسری طرف کچھ نادان اپنے اوپر ظلم کرکے حضرت امام ؒ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ امام ابوحنیفہ ؒ کے بارے میں انہوں نے جو جو غلط فہمیاں پھیلائی ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں ۔ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے ہاں ہدایت تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ جس کو بھی دے البتہ جو ہدایت مانگتا ہے اس کو دے دیتے ہیں ۔اس لئے ایسے حضرات سے درخواست ہے کہ سورۃ فاتحہ کے آخری دو آیتوں کو دعا کی نیت سے پڑھ کر ان جوابات کو دیکھیں ممکن ہے اللہ تعالیٰ ہدایت سے نواز دے اور اس ولی اللہ کی مخالفت میں اپنی عاقبت خراب کرنے سے باز آیئں ۔

    • غلط فہمی نمبر 1 ۔امام ابوحنیفہ رحمہ الله کی اتباع بہتر ہے یا محمد رسول الله کی ؟
      • جواب یہ غلط فہمی بہت ہی عجیب ہے کیونکہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله اور محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا تقابل کرنا کیسا ممکن ہے کیونکہ نہ تو امام ابوحنیفہ ؒ نے اس کا دعویٰ کیا ہے اور نہ حنفی ایسا سمجھ سکتے ہیں البتہ یہ گمان کرنا اگر ایک طرف عالم اسلام کے سب سے بڑے طبقے پر سوء ظن ہے تو دوسرے طرف نبی کا مقابلہ امتی سے کرنا یہ نبی کی توہین وتنقیص ہے ،
        اصل سوال یہ ہے کہ اتباع تو محمد الرسول اللہ ہی کی کرنی ہے اس میں تو دوسری نہیں البتہ اس کی سمجھ کیا امام ابوحنیفہ رحمہ الله ( اور دیگر ائمہ اسلام ) سے لینا بہترہے یا اپنے نفس کی خواہشات اور آج کل کے مقابلتاً کم علم اور کم متقی شیوخ سے لینا بہترہے ؟
        احناف کہتے ہیں کہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت واتباع امام ابوحنیفہ تابعی رحمہ الله ( یادیگر ائمہ مجتهدین ) کی اتباع ا وراہنمائی میں کرنا ضروری ہے ، اور اسی پرتمام اہل سنت عوام وخواص سلف وخلف کا اجماع واتفاق ہے ، لیکن بدقسمتی سے بعض ناسمجحھ لوگوں نے بڑے زور وشور سے یہ نعره لگانا شروع کیا کہ دین میں ان ائمہ مجتهدین خصوصا امام ابوحنیفہ تابعی رحمہ الله کی اتباع اوراہنمائی ناجائز وشرک ہے ، لہذا ایک عام آدمی کو ان ائمہ اسلام کی اتباع وراہنمائی سے نکال کر ان نادانوں نے اپنی اور نفس وشیطان کی اتباع میں لگادیا ، اور هر کس وناکس کو دین میں آزاد کردیا اور نفسانی وشیطانی خواہشات پرعمل کرنے کے لئے آذاد چھوڑ دیا ، اور وه حقیقی اہل علم جن کے بارے قرآن نے کہا ( فاسئلوا اهل الذکران کنتم لا تعلمون ) عوام الناس کو ان کی اتباع سے نکال کر ان لوگوں کی اتباع میں لگا دیا جن کے بارے حضور صلی الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
        فأفتوا بغیرعلم فضلوا وأضلوا(بغیر علم کے فتویٰ دیتے ہیں پس گمراہ ہوگئے اور لوگوں کو گمراہ کردیا)
        ان کی تقلید واتباع کا نام صراط مستقیم رکهہ دیا ، یہ نادان عام لوگوں کو قرآن وسنت کے نام پراپنی طرف بلاتے ہیں ، لیکن درحقیقت عام لوگوں کو کم علم ، غیر متقی اور غیر ذمہ دار لوگوں کی اندهی تقلید واتباع میں جھونک دیتے ہیں،فإلى الله المشتكى وهوالمستعان
        افسوس دنیا کی چھوٹی سی بات میں تو ہم ذمہ داری سے ڈرتے ہیں اور قتل سامنے ہوچکا ہوتاہے اہ ر کوئی گواہی دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا لیکن دین کی اتنی بڑی ذمہ داری کو اپنے ناتوان کندھوں پر کیسے اٹھانے کی جرأت کر بیٹھتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو فہم و بصیرت عطا فرمائے۔
    • غلط فہمی نمبر 2۔ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو صرف ستره ( 17 ) احادیث یاد تهیں ؟
      • جواب ۔ یہ چند بے وقوف لوگوں کی سوچ ہے جس کو بے وقوف لوگ نقل کرتےآرہے ہیں ، اس وسوسہ کا اجمالی جواب تو یہ ہے کہ یہ محض جھوٹ ہے جس پر لعنة الله علی الکاذبین کہنا بہتر ہَ لیکن اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ حوالہ تاریخ ابن خلدون کا دیتے ہیں لیکن مطلب اس سے اپنا لیتے ہیں ۔ابی معلوم ہوجائے گا کہ وہ اپنی بات میں کتنے سچے ہیں۔
        تاریخ ابن خلدون کی عبارت صرف اتنہ ہے ( فابوحنیفه رضی الله عنه یُقال بلغت روایته الی سبعۃ عشر حدیثا اونحوها )
        یہ لوگ عوام کو گمراه کرنے کے لیئے اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو ستره ( 17 ) احادیث یاد تهیں ، حالانکہ اس عبارت کا صحیح ترجمہ جوہوسکتاہے وہ یہ ہے کہ ابوحنیفہ رضی الله عنه کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی روایت ( یعنی مَرویات ) ستره ( 17 ) تک پہنچتی ہیں ، اس سے تو صرف اتنی بات کا پتہ چلتا ہے کہ حضرت امام ؒ نے صرف 17حدیثیں روایت کی ہیں نہ کہ ان کو صرف 17 حدیثیں یاد تھیں ۔اگر کوئی کوڑھ مغز اس سے یہی مراد لینے پر بضد ہو تو پھر ابوبکر صدیق کے بارے میں کیا رائے قائم کرے گا جن سے صرف چند حدیثیں مروی ہیں حالانکہ بلا شبہ آپ ﷺ کے سب سے زیادہ قریب تھے۔اس لئے اهل علم جانتے ہیں کہ روایت حدیث میں کمی اور قلت کوئی عیب ونقص نہیں ہے ،
        پھرابن خلدون رحمہ الله نے یہ قول یُقال بصیغہ تَمریض ذکرکیا ہے ، اور علماء کرام خوب جانتے ہیں کہ اہل علم جب کوئی بات قیل ، یُقالُ سے ذکرکرتے ہیں تو وه اس کے ضعف اورعدم ثبوت کی طرف اشاره ہوتا ہے ،
        مزید یہ کہ یہ ابن خلدون رحمہ الله اس کو اپنا قول نہیں نہیں بتا رہے ہیں بلکہ مجهول صیغہ سے کسی اور غیر معروف شخص کا ہوائی قول ذکرکیا ہے ، جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ( کہا جاتا ہے ) اب یہ کہنے والا کون ہے کہاں ہے کس کوکہا ہے ؟؟
        کوئی پتہ نہیں ، پهر ابن خلدون رحمہ الله نے کہا اونَحوِها یعنی بتانے والے کوخود بهی نہیں معلوم کہ ستره ہیں یا زیاده ۰
        دوسری طرف ابن خلدون رحمہ الله مورخ اسلام ہیں ان کا میدان حدیث شریف تو ہے نہیں اس لئے ذاتی طور پر ان کو ائمہ کی روایات کا پورا علم ہونا ضروری نہیں ہ، مثلا ایک جگہ وه کہتے ہیں کہ امام مالک رحمہ الله کی مَرویّات (موطا ) میں تین سو ہیں ، حالانکہ شاه ولی الله رحمہ الله فرماتے ہیں کہ (موطا مالک) میں ستره سو بیس ( 1720 ) احادیث موجود ہیں ۰
        اور اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیئے امام اعظم رحمہ الله کی پندره مسانید کو ہی دیکهہ لینا کافی ہو گا ، جن میں سے چار تو آپ کے شاگردوں نے بلاواسطہ آپ سے احادیث سن کرجمع کی ہیں ، باقی بالواسطہ آپ سے روایت کی ہیں ،
        اس کے علاوه امام محمد امام ابویوسف رحمهما الله کی کتب اور مُصنف عبدالرزاق اور مُصنف ابن ابی شیبہ ہزاروں روایات بسند مُتصل امام اعظم رحمہ الله سے روایت کی گئ ہیں ، اور امام محمد رحمہ الله نے کتاب الآثار میں تقریبا نوسو ( 900 ) احادیث جمع کی ہیں ، جس کا انتخاب چالیس ہزار احادیث سے کیا ۰ حق تو یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو ائمہ حدیث نے حُفاظ حدیث میں شمارکیا ہے ،
        عالم اسلام کے مستند عالم اور کسی کی رعایت نہ کرنے والے مشہور ناقد حدیث اور علم الرجال کے مستند ومُعتمد عالم علامہ ذهبی رحمہ الله نے امام ابوحنیفہ رحمہ الله کا ذکراپنی کتاب ( تذکره الحُفَّاظ ) میں کیا ہے ، جیسا کہ اس کتاب کے نام سے ظاہر ہے کہ اس میں حُفاظ حدیث کا تذکره کیا گیا ہے ، اور محدثین کے یہاں ( حافظ ) اس کو کہاجاتا ہے جس کو کم ازکم ایک لاکهہ احادیث متن وسند کے ساتهہ یاد ہوں اور زیاده کی کوئی حد نہیں ہے ، امام ذهبی رحمہ الله تو امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو حُفاظ حدیث میں شمار کریں ، اور یہ لوگ کہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو ستره احادیث یاد تهیں اللہ تعالیٰ ایسی جہالت اور بد باطنی سے سب کو محفوظ فرمائے۔آمین۔
        تذکره الحُفَّاظ سے امام ابوحنیفہ رحمہ الله کے تذکرےترجمہ درج ذیل ہے ،
        تذكرة الحفاظ/الطبقة الخامسة
        أبو حنيفۃ الإمام الأعظم فقيه العراق النعمان بن ثابت بن زوطا التيمي مولاهم الكوفي: مولده سنۃ ثمانين رأى أنس بن مالك غير مرة لما قدم عليهم الكوفۃ، رواه ابن سعد عن سيف بن جابر أنه سمع أبا حنيفۃ يقوله. وحدث عن عطاء ونافع وعبد الرحمن بن هرمز الأعرج وعدي بن ثابت وسلمة بن كهيل وأبي جعفر محمد بن علي وقتادة وعمرو بن دينار وأبي إسحاق وخلق كثير. تفقه به زفر بن الهذيل وداود الطائي والقاضي أبو يوسف ومحمد بن الحسن وأسد بن عمرو والحسن بن زياد اللؤلؤي ونوح الجامع وأبو مطيع البلخي وعدة. وكان قد تفقه بحماد بن أبي سليمان وغيره وحدث عنه وكيع ويزيد بن هارون وسعد بن الصلت وأبو عاصم وعبد الرزاق وعبيد الله بن موسى وأبو نعيم وأبو عبد الرحمن المقري وبشر كثير. وكان إماما ورعا عالما عاملا متعبدا كبير الشأن لا يقبل جوائز السلطان بل يتجر ويتكسب.
        قال ضرار بن صرد: سئل يزيد بن هارون أيما أفقه: الثوري أم أبو حنيفہ؟ فقال: أبو حنيفۃ أفقه وسفيانأحفظ للحديث. وقال ابن المبارك: أبو حنيفہ أفقه الناس. وقال الشاقعي: الناس في الفقه عيال على أبي حنيفۃ. وقال يزيد: ما رأيت أحدًا أورع ولا أعقل من أبي حنيفہ. وروى أحمد بن محمد بن القاسم بن محرز عن يحيى بن معين قال: لا بأس به لم يكن يتهم ولقد ضربه يزيد بن عمر بن هبيرة على القضاء فأبى أن يكون قاضيا. قال أبو داود : إن أبا حنيفۃ كان إماما.
        وروى بشر بن الوليد عن أبي يوسف قال: كنت أمشي مع أبي حنيفہ فقال رجل لآخر: هذا أبو حنيفۃ لا ينام الليل، فقال: والله لا يتحدث الناس عني بما لم أفعل، فكان يحيي الليل صلاة ودعاء وتضرعا. قلت:مناقب هذا الإمام قد أفردتها في جزء. كان موته في رجب سنۃ خمسين ومائۃ .
        أنبأنا ابن قدامة أخبرنا بن طبرزد أنا أبو غالب بن البناء أنا أبو محمد الجوهري أنا أبو بكر القطيعي نا بشر بن موسى أنا أبو عبد الرحمن المقرئ عن أبي حنيفۃ عن عطاء عن جابر أنه رآه يصلي في قميص خفيف ليس عليه إزار ولا رداء قال: ولا أظنه صلى فيه إلا ليرينا أنه لا بأس بالصلاة في الثوب الواحد
    • غلط فہمی نمبر 3 ۔امام ابوحنيفه رحمه الله ضعيف راوى تهے محدثین نے ان پرجرح کی ہے ؟؟
      • افسوس کس کس بات کا رونا رویا جائے۔ دنیائے اسلام کی مستند ائمہ رجال کی صرف دس کتابوں کا تذکرہ ، اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیئے کافی ہے ،امام ذهبی رحمه الله حدیث و رجال کے مسنتد امام ہیں ، اپنی کتابتذکرة الحُفاظ میں امام اعظم رحمه الله کے صرف حالات ومناقب وفضائل لکهے ہیں ، جرح ایک بهی نہیں لکهی ، اور موضوع کتاب کے مطابق مختصر مناقب وفضائل لکهنے کے بعد امام ذهبی رحمه الله نے کہا کہ میں نے امام اعظم رحمه الله کے مناقب میں ایک جدا و مستقل کتاب بهی لکهی هے ۰
        حافظ ابن حجرعسقلانی رحمه الله نے اپنی کتاب تهذیبُ التهذیب میں جرح نقل نہیں کی ، بلکہ حالات ومناقب لکهنے کے بعد اپنے کلام کو اس دعا پرختم کیا مناقب أبي حنيفة كثيرة جدا فرضي الله عنه وأسكنه الفردوس آمين ۔(امام ابوحنيفه رحمه الله کے مناقب کثیر ہیں ، ان کے بدلے الله تعالی ان سے راضی ہو اور فردوس میں ان کو مقام بخشے ، آمین )، ۰
        حافظ ابن حجرعسقلانی رحمه الله نے اپنی دوسری کتاب تقريب التهذيب میں بهی کوئ جرح نقل نہیں کی ۰ رجال ایک بڑے امام حافظ صفی الدین خَزرجی رحمه الله نے خلاصة تذهيب تهذيب الكمال میں صرف مناقب وفضائل لکهے ہیں ، کوئی جرح ذکرنہیں کی ، اور امام اعظم رحمه الله کو امام العراق وفقیه الامة کے لقب سے یاد کیا ، واضح ہو کہ کتاب خلاصة تذهيب تهذيب الكمال کے مطالب چارمستند کتابوں کے مطالب ہیں ، خود خلاصة ، اور تذهيب ، امام ذهبی رحمه الله ۰ألكمال في أسماء الرجال ، امام عبدالغني المَقدسي رحمه الله ۰تهذيب الكمال ، امام ابوالحجاج المِزِّي رحمه الله ۰
        کتاب ألكمال ) کے بارے میں حافظ ابن حجرعسقلانی رحمه الله نے اپنی کتاب ( تهذیبُ التهذیب ) کے خطبہ میںلکهتے ہیں کہ كتاب الكمال في أسماء الرجال من أجل المصنفات في معرفة حملة الآثار وضعا وأعظم المؤلفات في بصائر ذوي الألباب وقعا ) اور خطبہ کے آخرمیں کتاب ( ألكمال ) کے مؤلف بارے میں لکها، هو والله لعديم النظير المطلع الحراير ۰ کتاب تهذيب الأسماء واللغات ، میں امام نووي رحمه الله سات صفحات امام اعظم رحمه الله کے حالات ومناقب میں لکهے هیں ،جرح کا ایک لفظ بهی نقل نہیں کیا ،
        کتاب مرآة الجنان ، میں امام یافعی شافعی رحمه الله امام اعظم رحمه الله کے حالات ومناقب میں کوئی جرح نقل نہیں کی ، حالانکہ امام یافعی نے ( تاریخ بغداد ) کے کئی حوالے دیئے ہیں ، جس سے صاف واضح ہے کہ خطیب بغدادی کی منقولہ جرح امام یافعی کی نظرمیں ثابت نہیں ۰
        فقيه إبن العماد ألحنبلي رحمه الله اپنی کتاب شذرات الذهب میں صرف حالات ومناقب ہی لکهے ہیں ،جرح کا ایک لفظ بهی نقل نہیں کیا ۰ اسی طرح اصول حدیث کی مستند کتب میں علماء امت نے یہ واضح تصریح کی ہے ، کہ جن ائمہ کی عدالت وثقاهت وجلالت قدر اهل علم اور اهل نقل کے نزدیک ثابت ہے ، ان کے مقابلے میں کوئی جرح مقبول و مسموع نہیں ہے ،
    • غلط فہمی نمبر 4۔ امام ابوحنیفہ رحمہ الله مُحدث نہیں تهے ، ان کو علم حدیث میں کوئی تبحر حاصل نہیں تها ؟؟
      • جواب ۔ یہ عجیب بات بهی امام صاحب کے جہلاء حاسدین آج تک نقل کرتے چلے آرہے ہیں ، اہل علم کے نزدیک تو یہ غلط فہمی تارعنکبوت سے زیاده کمزور ہے ، ظاہر ہے فن حدیث میں تبحر کی سند ان محدثین کی مانی جائے گی جن کا کام ہی جرح و تعدیل ہے ۔ان کے بارے ایسے ماہرین کیا فرماتے ہیں بطور مثال امام اعظم رحمہ الله کی حلقہ درس میں برسہا برس شامل ہونے والے چند جلیل القدر عظیم المرتبت محدثین وائمہ اسلام کے اسماء گرامی پیش کیئے جاتے ہیں، جن میں ہرایک اپنی ذات میں ایک انجمن اور علم وحکمت کا سمندر ہے ،
        امام یحیٰ ابن سعید القطان ، علم الجرح والتعدیل کے بانی اور امام ہیں
        امام عبدالرزاق بن همام ، جن کی کتاب ( مُصَنَّف ) مشہورومعروف ہے ، جن کی جامع کبیر سے امام بخاری نے فیض اٹهایا ہے امام یزید ابن هارون ، امام احمد بن حنبل کے استاذ ہیں
        امام وکیع ابن جَرَّاح ، جن کے بارے امام احمد فرمایا کرتے کہ حفظ واسناد و روایت میں ان کا کوئی حرج نہیں ہے
        امام عبدالله بن مبارک ، جو علم حدیث میں بالاتفاق امیرالمومنین ہیں۔
        امام یحیٰ بن زکریا بن ابی زائده ، امام بخاری کے استاذ علی بن المَدینی ان کو علم کی انتہاء کہا کرتے تهے
        قاضی امام ابویوسف ، جن کے بارے امام احمد نے فرمایا کہ میں جب علم حدیث کی تحصیل شروع کی تو سب سے پہلے قاضی امام ابویوسف کی مجلس میں بیٹها ،
        امام محمد بن حسن الشیبانی جن کے بارے امام شافعی نے فرمایا کہ میں نے ایک اونٹ کے بوجهہ کے برابرعلم حاصل کیا ہے ،
        حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب تهذيب التهذيب ج 1 ص 449 ) میں امام اعظم کے تلامذه کا ذکرکرتے ہوئے درج ذیل مشاهیر ائمہ حدیث کا ذکرکیا
        تهذيب التهذيب ، حرف النون
        وعنه ابنه حماد وإبراهيم بن طهمان وحمزة بن حبيب الزيات وزفر بن الهذيل وأبو يوسف القاضي وأبو يحيى الحماني وعيسى بن يونس ووكيع ويزيد بن زريع وأسد بن عمرو البجلي وحكام بن يعلى بن سلم الرازي وخارجة بن مصعب وعبد المجيد بن أبي رواد وعلي بن مسهر ومحمد بن بشر العبدي وعبد الرزاق ومحمد بن الحسن الشيباني ومصعب بن المقدام ويحيى بن يمان وأبو عصمۃنوح بن أبي مريم وأبو عبد الرحمن المقري وأبو عاصم وآخرون ،
        حافظ ابن حجر عسقلانی نے وآخرون کہ کراشاره کردیا کہ امام اعظم کے شاگردوں میں صرف یہ کبارائمہ هی شامل نہیں بلکہ ان کے علاوه اور بهی ہیں ،
        اوران میں اکثرامام بخاری کے استاذ یا استاذ الاساتذه هیں ، یہ ایک مختصرسی شہادت حدیث ورجال کے مستند امام حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی کی زبانی آپ کے سامنے پیش کی گئی ہے ، تو اب پهربهی کوئی جاہل امام اعظم کے بارے میں اگریہ کہے کہ ان کو حدیث کا علم حاصل نہیں تها تو کیا اس سے یہ نہیں پوچھا جاسکتا کہکیا یہ جلیل القدرمحدثین اورائمہ امام اعظم کی درس میں محض گپ شپ اورہوا خوری کے لیئے جایا کرتے تهے ؟؟
        حضرت عبد اللہ بن مبارک ؒ کو کتب احادیث میں امیر المومنین فی الحدیث کہا جاتا ہے وہ امام صاحب کے شاگرد تھے آخر وہ کس چیز میں ان کی شاگردی کرتے تھے؟ اگر بتایا جاتا ہے کہ حدیث میں تو یہ غلط فہمی ختم اور کہا جاتا ہے کہ فقہ میں تو پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ امیر امومنین فی الحدیث کو تو فقہ سیکھنے کی ضرورت تھی اور آج کل کے رسالے پڑھ کر عالم بلکہ علامہ بننے والوں کو فقہ سیکھنے کی ضرورت نہیں ؟
    • غلط فہمی نمبر 5 ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ الله تابعی نہیں تهے ؟؟
      • یہ حقیقت بھی بعض لوگوں کو ہضم نہیں ہوتی اور محض امام اعظم کے ساتهہ بغض وعناد کی بناء پر مشہورکیا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله تابعی نہیں تهے ، جبکہ اہل علم کے نزدیک یہ بھی محض کذب اور کور چشمی ہے ،
        یاد رکھنا چاہیئے کہ جمہور محدثین کے نزدیک محض کسی صحابی کی ملاقات اور رویت سے آدمی تابعی بن جاتا ہے ، اس میں صحابی کی صحبت میں ایک مدت تک بیٹهنا شرط نہیں ہے ،
        حافظ ابن حجر رحمہ الله نے (شرح النخبه ) میں فرمایا ( هذا هوالمختار) یہی بات صحیح ومختارہے ۰
        امام اعظم رحمہ الله کو بعض صحابہ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے ،
        اور امام اعظم رحمہ الله کا حضرت انس رضی الله عنہ سے ملاقات کو اور آپ کی تابعی ہونے کو محدثین اور اہل علم کی ایک بڑی جماعت نے نقل کیا ہے ابن سعد نے اپنی کتاب ( الطبقات ) میں ، حافظ ذهبی نے اپنی کتاب تذکره الحُفاظ ) میں ، حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب ( تهذیب التهذیب ) میں اور اسی طرح ایک فتویٰ میں بهی جس کو امام سیوطی نے ( تبییض الصحیفه ) میں نقل کیا ہے حافظ عراقی ، امام دارقطنی ، امام ابومعشرعبدالکریم بن عبدالصمد الطبری المقری الشافعی ، امام سیوطی ، حافظ ابوالحجاج المِزِّی ، حافظ ابن الجوزی ، حافظ ابن عبدالبر ،حافظ السمعانی ، امام نووی ، حافظ عبدالغنی المقدسی ، امام جزری ، امام تُوربِشتی ، امام سراج الدین عمربن رسلان البُلقینی ، اپنے زمانہ کے شیخ الاسلام هیں اور حافظ ابن حجر کے شیخ ہیں ، امام یافعی شافعی ، علامہ ابن حجرمکی شافعی ، علامہ احمد قسطلانی ، علامہ بدرالدین العینی ، وغیرهم رحمهم الله تعالی اجمعین ۔
        یاد رکھنا چاہیئے کہ ایسی صورت میں اثبات کرنے والوں کی بات اگر وہ ثقہ ہوں یقین کیا جاتا ہے جیسا کہ چاند دیکحنے والے اگر ثقہ ہوں تو ان چند کی بات مانیں گے اور ان لاکھوں کہ نہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے نہیں دیکھا۔
        بطورمثال اهل سنت والجماعت کے چند مستند ومعتمد ائمہ کے نام ذکرکیئے گئے ہیں ، ان سب جلیل القدر ائمہ کرام نے امام اعظم رحمہ الله کو تابعی قراردیا ہے ، اب ان حضرات ائمہ کی بات حق وسچ ہے یا موجودہ فقاہت سے محروم لوگوں کہ بات ؟؟
    • غلط فہمی نمبر 6 ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ الله نے کوئی کتاب نہیں لکهی ، اور فقہ حنفی کے مسائل لوگوں نے بعد میں ان کی طرف منسوب کرلیئے ہیں ؟؟
      • جواب ۔ اہل علم اس غلط فہمی کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتے ، اور یہ طعن تو اوراعداء اسلام بهی کرتے ہیں منکرین حدیث کہتے ہیں کہ حضورصلی الله علیہ وسلم نےخود اپنی زندگی میں احادیث نہیں لکهیں لهذا احادیث کا کوئی اعتبارنہیں هے ، اسی طرح منکرین قرآن کہتے ہیں کہ حضورصلی الله علیہ وسلم نےخود اپنی زندگی میں قرآن نہیں لکهوایا لہذا اس قرآن کا کوئی اعتبارنہیں ہے پس ان جاہلوں نے منکرین حدیث اور شیعوں کی طرح سے امام ابوحنیفہ رحمہ الله سے بغض کی وجہ سے یہ کہہ دیا کہ انهوں نے توکوئی کتاب نہیں لکهی ، لہذا ان کی فقہ کا کوئی اعتبار نہیں ہے ، یاد رکهنا چاہیئے کسی بهی آدمی کے عالم وفاضل وثقہ وامین ہونے کے لیئے کتاب کا لکهنا ضروری نہیں ہے ، اسی طرح کسی مجتهد امام کی تقلید واتباع کرنے کے لیئے اس امام کا کتاب لکهنا کوئی شرط نہیں ہے ، بلکہ اس امام کا علم واجتهاد محفوظ ہونا ضروری ہے ، اگرکتاب لکهنا ضروری هے تو خاتم الانبیاء صلی الله نے کون سی کتاب لکهی ہے ؟ اسی طرح بے شمار ائمہ اور راویان حدیث ہیں ، مثال کے طور پر امام بخاری اور امام مسلم کے شیوخ ہیں کیا ان کی حدیث و روایت معتبر ہونے کے لیئے ضروری ہے کہ انهوں نے کوئی کتاب لکهی ہو ؟ اگر ہر امام کی بات معتبر ہونے کے لیئے کتاب لکهنا ضروری قرار دیں تو پهر دین کے بہت سارے حصہ کو خیرباد کہنا پڑے گا ، لہذا اس قسم کا وسوسہ پهیلانے والوں سے کہا جاسکتا ہے کہ امام بخاری اور امام مسلم کے تمام شیوخ کی کتابیں دکهاو ورنہ ان کی احادیث کو چهوڑ دو ؟؟ یہ تو الزامی جواب تھا ورنہ امام اعظم رحمہ الله نے توکتابیں لکهی بهی ہیں ، ( الفقه الأكبر ) امام اعظم رحمہ الله کی کتاب ہے جو عقائد کی کتاب ہے ، « الفقه الأكبر » علم کلام وعقائد کے اولین کتب میں سے هے ، اور بہت سارے علماء ومشائخ نے اس کی شروحات لکهی هیں ، اسی طرح کتاب ( العالم والمتعلم ) بهی امام اعظم رحمہ الله کی تصنیف ہے ، اسی طرح ( كتاب الآثار ) امام محمد اور امام ابویوسف کی روایت کے ساتهہ امام اعظم رحمہ الله هی کی کتاب ہے ، اسی طرح امام اعظم رحمہ الله کے پندره مسانید ہیں جن کو علامہ محمد بن محمود الخوارزمي نے اپنی کتاب ((جامع الإمام الأعظم )) میں جمع کیا ہے ، اور امام اعظم کی ان مسانید کو کبار محدثین نے جمع کیا ہے ، بطور مثال امام اعظم کی چند مسانید ذکر کیئے جاتے ہیں ،
        جامع مسانيد الإمام الأعظم أبي حنيفۃ تأليف أبي المؤيد محمد بن محمود بن محمد الخوارزمي،
        مجلس دائرة المعارف حیدرآباد دکن سے 1332هـ میں طبع هوئ هے دو جلدوں میں ، پهر ، المكتبة الإسلامية ، پاکستان سے 1396هـ میں طبع ہوئی ، اور اس طبع میں امام اعظم کے پندره مسانید کو جمع کردیا گیا هے ،
        مسانيد الإمام أبي حنيفۃ وعدد مروياته المرفوعات والآثار مجلس الدعوة والتحقيق الإسلامي ، نے 1398هـ میں شائع کی ہے ، مسند الإمام أبي حنيفۃ رضي الله عنه تقديم وتحقيق صفوة السقا ، مکتبه ربيع ، حلب شام 1382هـ. میں طبع ہوئی
        4 مسند الإمام أبي حنيفة النعمان شرح ملا علي القاري، المطبع المجتبائي، شرح مسند أبي حنيفۃ ملا علي القاري، دار الكتب العلمیۃ، بيروت سے 1405 هـ. میں شائع ہوئی
        مسند الإمام أبي حنيفۃ تأليف الإمام أبي نعيم أحمد بن عبد الله الأصبهاني، مكتبة الكوثر ، رياض سے 1415هـ شائع هوئی ،
        ترتيب مسند الامام ابي حنيفة على الابواب الفقهيۃ ،
        المؤلف: السندي، محمد عابد بن أحمد اس مختصرتفصیل سے واضح ہوا کہ اس غلط فہمی میں کہ امام ابوحنیفہ نے کوئی کتاب نہیں لکهی میں کوئی وزن نہیں ہے۔
    • غلط فہمی نمبر 7۔تاریخ بغداد میں امام ابوحنیفہ ؒ کے بارے میں ابوداود سے نقل کیا گیا ہے کہ ان کے خلاف پر تمام آیمہ اور محدثین کا اجماع ہوچکا ہے
      • اس کےجواب میں سوائے افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے۔گندگی کا کیڑا تمام چیزوں کو چھوڑ گندگی کھاتا ہے ۔یہی اس کی فطرت ہے اور اس میں حکمت ہے۔اس طرح بعض گندی سوچ والوں کو سوائے گند کے کچھ نظر نہیں آتا ۔جہاں تک تاریخ بغداد کا تعلق ہے اس میں ہر قسم کے اقوال مختلف لوگوں کے جمع کئے گئے ہیں جیسا کہ طبری میں کیا گیا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے حق میں بھی اقوال اس میں موجود ہیں اور ان کی سخت مخالفت میں بھی۔یہ متقدمین میں بعض بزرگوں کا طریقہ تھا کہ وہ صرف اقوال جمع کیا کرتے تھے اور اس میں اپنی رائے شامل نہیں کیا کرتے تھے ۔یہ کام وہ قاری پر چھوڑتے تھے۔اب اگر ان گندی سوچ والوں کو صرف وہی نظر آتا ہے جو حضرت کے خلاف لکھا گیا ہے چاہے اس کی سند کتنہ ہی کمزور ہو تو واقعی یہ سوچنے والی بات ہے کہ گمراہی کتنی بڑی مصیبت ہے۔اللہ تعالیٰ اس سے سب مسلمانوں کو بچائے۔
        بخاری شریف کے مشہور شارح ابن حجر مکی ؒنے خیرات الحسان فی مناقب النعمان کی 39 ویں فصل میں امام ابوحنیفہ کے جو مثالب خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں ذکر کیاہے اس کو مسترد کرتے ہوئے لکھاہے کہ جان لو کہ خطیب بغدادی کا ارادہ صرف مورخین کے طرز پر یہ تھا کہ جوکچھ امام ابوحنیفہ کے بارے میں کہاگیاہے اس کو نقل کردیاجائے۔اس سے ان کا ارادہ ہرگز یہ نہیں تھا کہ امام ابوحنیفہ کی تنقیص کی جائے یا ان کے مرتبہ کو گرایاجائے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے پہلے ان لوگوں کے اقوال ذکر کئے ہیں جنہوں نے امام ابوحنیفہ کے علم وفضل کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی تعریف کی ہے اورایسے اقوال زیادہ ہیں بہ نسبت ان اقوال کے جوان کے مثالب میں مذکور ہیں۔ اس کی ایک اوردلیل یہ بھی ہے کہ وہ اقوال جو امام ابوحنیفہ کے مثالب میں ہیں ان کی کوئی سند ایسی نہیں ہے جس میں کوئی راوی متکلم فیہ یا مجہول نہ ہو ۔ایسی سند کے اقوال سے تو ایک عام مسلمان کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہاجاسکتا چہ جائے کہ مسلمانوں کے اماموں میں سے ایک امام کے بارے میں ایسی سند سے کلام کیاجائے۔ اوراگر مان بھی لیاجائے کہ خطیب نے مثالب میں جواقوال ذکر کئے ہیں وہ صحیح ہیں تو وہ اس لئے قابل قبول نہیں ہے کہ اگر بعد والوں کے ہیں تو انہوں نے اپنے پیش رؤں کی تقلید کرتے ہوئے اسے نقل کیاہے جو ان کے معاصرین یاان سے نفرت کرنے والوں نے لکھاہے اوریہ بات واضح ہے کہ معاصر کا قول اپنے معاصر کے بارے میں مقبول نہیں ہے۔
    • غلط فہمی نمبر8۔ امام ابوحنیفہ ؒ کو حنفی امام اعظم کہتے ہیں حالانکہ امام اعظم تو محمد رسول اللہ ہے۔
      • علماء دورقدیم سے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کو امام اعظم کے لقب سے متصف کرتے چلے آرہے ہیں اورکسی نے بھی یہ اعتراض نہیں کیا کہ یہ تو غلو ہے اورامام اعظم تورسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔نہ کسی عالم کا اس جانب خیال آگیااورنہ ہی کسی نے اس پر لکھااورنہ ہی کسی نے اس کی تردید کرنے کی ضرورت محسوس کی ۔یہ سوچناہی رسول پاک کی توہین کے مترادف ہے کہ ائمہ اربعہ یاکسی عالم کی شان میں اگر کچھ لکھاجائے تواس کا موازنہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے کیاجائے۔
        اس تحریر میں زیادہ تر یہ کوشش کی گئی ہے کہ امام ابوحنیفہ کے امام اعظم کے لقب زیادہ تر ان علماء کی تحریروں سے مقتبس کروں جو حنفی نہیں ہیں کیونکہ اگر اس بارے میں حنفی علماء کی تحریریں لی جاتی تووہ کہتے انہوں نے محبت میں غلوکیاہے اورحنفی ہونے کی وجہ سے امام ابوحنیفہ کو امام اعظم لکھ دیاہے۔ سمعانی نے انساب میں امام شافعی کے ذکر میں لکھاہے
        لعلہ مات فی یومھا الامام الاعظم ابوحنیفۃ رضی اللہ عنہ الوافی بالوفیات میں ہے۔
        ابوحنیفہ جماعۃ منہم الامام الاعظم صاحب المذہب اسمہ النعمانتاریخ الدولۃ الرسولیہ جوابوالحسن علی بن حسن الخزرجی الزبیدی الیمنی متوفی812کی تصنیف ہے اس میں وہ لکھتے ہیں القاضی موفق الدین علی بن عثمان المطیب قاضیا علی مذہب الامام الاعظم رحمہ اللہ
        حافظ ذہبی اپنی مشہور عالم تصنیف تذکرۃ الحفاظ میں امام ابوحنیفہ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں
        ابوحنیفہ الامام الاعظم ،فقیہ العراق،نعمان بن ثابت بن زوطاالتیمی تذکرۃ الحفاظ/جلد 2
        مشہور محدث محمد بن رستم بن قباد الحارثی البدخشی نے تراجم الحفاظ میں امام ابوحنیفہ کے بارے میں لکھاہے۔ النعمان بن ثابت الکوفی الامام الاعظم احمد الائمۃ الاربعۃ المتبوعین
        محمد علی بن محمد علان بن ابراہیم الصدیقی العلوی الشافعی اپنی کتاب الفتوحات الربانیہ علی الاذکار النوویہ میں امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھتے ہیں۔ الامام ابوحنیفہ ہوالامام الاعظم والعلم المفرد المکرم امام الائمۃ عبدالوہاب شعرانی اپنی کتاب میزان الکبریٰ میں امام ابوحنیفہ سے مخالفین کے پھیلائے گئے شبہات کا رد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
        فاولھم تبریا من کل رای یخالف ظاہرالشریعۃ الامام الاعظم ابوحنیفہ النعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ ،خلاف مایضیفہ الیہ بعض المتعصبین ویافضحۃ یوم القیامۃ من الامام
        ایسانہیں ہے کہ صرف امام ابوحنیفہ کو ہی لوگوں نے امام اعظم کے لقب سے پکاراہو ۔
        ابن قیم نے امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ کے تعلق سے کہانونیہ میں کہاہے۔
        ھذاالذی نصت علیہ اَئمہ ال اسلام اہل العلم والعرفان وہوالذی قصدالبخاری الرضی لکن تقاصر قاصر الاذہان عن فھمہ کتقاصر الافہام عن قول الامام الاعظم الشیبانی اب پتہ نہیں امام اعظم کے لقب پر یہ سوچنے والے کہ امام اعظم تورسول پاک ہیں اس بارے میں کیاکہیں گے۔ہمیں بھی جواب کا انتظار رہے گا۔ امام اعظم کے لقب سے ملقب ہونے کی وجہ۔
        اس بارے میں یہ بات سب جانتے ہیں کہ فقہ میں کوئی امام ابوحنیفہ کا مشارک اورہم رتبہ نہیں ہے۔امام شافعی نے بھی کہاہے کہ الناس عیال علی فقہ ابی حنیفہ ۔انہی سے یہ دوسراقول بھی منقول ہے کہ جو فقہ میں رسوخ حاصل کرناچاہتاہے وہ ابوحنیفہ کی فقہ کی جانب توجہ کرے۔ ویسے دیکھاجائے تو ائمہ اربعہ میں سے امام شافعی امام محمد کے شاگرد ہونے کی وجہ اورامام احمد بن حنبل کے امام شافعی اورامام ابویوسف کے شاگرد ہونے کی وجہ سے یہ بات متحقق ہے کہ ائمہ اربعہ میں سے دوامام امام ابوحنیفہ کے شاگردوں میں سے ہیں۔ جیساکہ علی طنطاوی نے ذکر یات میں ذکر کیاہے
        قال الشيخ علي الطنطاوي رحمہ اللہ في كتابه الذكريات الجزء السابع ص 118
        الشافعي قرا على محمد (يقصد ابن الحسن) كتبہ الفقہيۃ فكان شبہ تلميذ لہ واحمد تلميذ الشافعي فمن ھنا كان ابو حنيفہ الامام الاعظم انتھى كلامہ رحمہ اللہ لیکن اس کے علاوہ بھی امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے امام اعظم سے متصف ہونے کی دوسری وجوہات بھی ہیں جن کو علماء نے ذکر کیاہے۔ ان میں سے ایک توجیہ تویہ ہے کہ حنیفہ نے صاحبین یعنی امام ابوبوسف اورامام محمد بن حسن سے امام ابوحنیفہ کو ممتاز اورجداگانہ تشخص کیلئے ان کو امام اعظم کا لقب دیا ۔ جیساکہ علماء احناف پر لکھی گئی کتابوں سے واضح ہوتاہے۔
        امید ہے کہ یہ چند سطریں جوجلدی میں تحریر کی گئی ہیں اس غلط فہمی کے ازالہ کیلئے کافی ہوں گی ان شاء اللہ
        (یہ ساری تحریر میری نہیں ہے انٹرنیٹ پر مجھے جہاں بھی مستند مواد ملا اس کو اپنے سوچ کے مطابق مناسب انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔اس لئے اس میں جن جن کی تحریریں کام آئی ہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے دل سے دعا گو ہوں اللہ تعالیٰ ان کو اس سعی کی اجر عظیم عطا فرمائے۔)
  • امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اﷲ اکابر امت کی نظر میں
    • حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ وہ جلیل القدر اورعظیم المرتبت ہستی ہیں،جن کی جلالت شان، امامت وفقاہت، اور فضل وکمال کو بڑے بڑے اساطین علم وفضل اور کبار فقہاء ومحدثین نے تسلیم کیا ہے۔ ہم تبرکا چند اکابر ائمہ کے اقول ذکر کرتے ہیں تاکہ قارئین کرام کو اندازہ ہو سکے کہ اکابر علماءامت جس ہستی کے بارے میں يہ رائے رکھتے ہیں اس ہستی کے ساتھ لا مذہب غیر مقلدین کا کیا رويہ ہے۔
    • امام مالک ؒکی نظر میں
      • حضرت عبد اﷲ بن مبارک رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ میں حضرت امام مالک رحمہ اﷲ کی خدمت میں حاضر تھا کہ ايک بزرگ آئے،جب وہ اٹھ کر چلے گئے تو حضرت امام مالک رحمہ اﷲ نے فرمایا جاتنے ہو يہ کون تھے؟ حاضرین نے عرض کیا کہ نہیں (اور میں انہیں پہچان چکا تھا) فرمانے لگے۔
        ”يہ ابو حنیفہ رحمہ اﷲ ہیں عراق کے رہنے والے، اگر يہ کہہ دیں کہ یہ ستون سونے کا ہے تو ویسا ہی نکل آئے انہیں فقہ میں ایسی توفیق دی گئی ہے کہ اس فن میں انہیں ذرا مشقت نہیں ہوتی“
        (حسین بن علی الصیمری: المحدث ۔ اخبار ابی حنیفة و اصحاب ص74)
    • امام شافعی ؒ کی نظر میں
      • حضرت امام شافعی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں
        ”جو شخص فقہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ اور ان کے اصحاب کو لازم پکڑے کیونکہ تمام لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے خوشہ چین ہیں۔“
        حضرت امام شافعی رحمہ اﷲ يہ بھی فرماتے ہیں
        ” میں نے ابو حنیفہ رحمہ اﷲ سے بڑھ کر کوئی فقیہ نہیں دیکھا“
    • امام احمد بن حنبل ؒ کی نظر میں
      • حضرت ابوبکر مروزی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں ، میں نے حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ کو يہ فرماتے ہوئے سنا:
        ”ہمارے نزديک يہ بات ثابت نہیں کہ ابو حنیفہ رحمہ اﷲ نے قرآن کو مخلوق کہا ہے۔“
        میں نے عرض کیا کہ الحمد ﷲ، اے عبداﷲ (یہ امام احمد بن حنبل کی کنیت ہے) ان کا علم تو بڑا مقام ہے ، فرمانے لگے:
        ”سبحان اﷲ وہ تو علم، ورع، زہد، اور عالم آخرت کو اختیار کرنے میں اس مقام پر ہیں جہاں کسی کی رسائی نہیں“
        (مناقب الامام ابی حنیفہ ص27 )
    • حضرت سفیان بن عینیہ رحمہ اﷲ کی نظر میں
      • حضرت سفیان بن عینیہ رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:
        ”میری آنکھ نے ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کی مثل نہیں ديکھا“
        (مناقب الامام ابی حنیفہ ص19)
        آپ يہ بھی فرماتے تھے:
        علما ءتو يہ تھے ابن عباس رضی اﷲ عنہ اپنے زمانے میں
        امام شعبی رحمہ اﷲ اپنے زمانے میں ابو حنیفہ رحمہ اﷲ اپنے زمانے میں اور سفیان ثوری رحمہ اﷲ اپنے زمانے میں۔
        (اخبار ابی حنیفة واصحابہ ص76)
    • شیخ الاسلام والمسلمین حضرت یزید بن ہارون رحمہ اﷲ کی نظر میں
      • شیخ الاسلام والمسلمین حضرت یزید بن ہارون رحمہ اﷲ فرماتے ہیں
        ”ابوحنیفہ رحمہ امیںﷲ پرہیز گار، پاکیزہ صفات، زاہد،عالم،زبان کے سچے، اور اپنے اہل زمانہ میں سب سے بڑے حافظ حدیث تھے۔ میں نے ان کے معاصرین میں سے جتنے لوگوں کو پایا سب کو یہی کہتے سنا کہاس نے ابو حنیفہ رحمہ اﷲ سے بڑھ کر کوئی فقیہ نہیں دیکھا“
        (اخبار ابی حنیفة واصحابہ ص36)
    • امام الجرح والتعدیل حضرت یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اﷲ کی نظر میں
      • امام الجرح والتعدیل حضرت یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:
        ”واﷲ، ابو حنیفہ رحمہ اﷲ اس امت میں خدا اور اس کے رسول سے جو کچھ وارد ہوا ہے اس کے سب سے بڑے عالم ہیں“
        (مقدمہ کتاب التعلیم ص134)
    • سید الحفاظ حضرت یحییٰ بن معین رحمہ اﷲ کی نظر میں
      • سید الحفاظ حضرت یحییٰ بن معین رحمہ اﷲ جرح میں بہت سخت مانے جاتے ہیں ۔ان سے ايک باران کے شاگرد احمد بن محمد بغدادی نے حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے متعلق ان کی رائے دریافت کی تو آپ نے فرمایا:
        ”سراپا عدالت ہیں،ثقہ ہیں ایسے شخص کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے جس کی ابن مبارک رحمہ اﷲ اور وکیع رحمہ اﷲ توثیق کی ہے“ (مناقب ابی حنیفہ ص101)
    • امام اہل بلخ حضرت خلف بن ایوب رحمہ اﷲ کی نظر میں
      • امام اہل بلخ حضرت خلف بن ایوب رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:
        ”اﷲ تعالی سے علم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو پہنچا،آپ بعد کے آپ کے صحابہ کو، صحابہ کے بعد تابعین کو،پھر تابعین سے امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ اور ان کے اصحاب کو ملا، اس پر چاہے کوئی خوش ہو یا ناراض“
        (تاریخ بغداد ۔ج13ص336)
    • محدث عبداﷲ بن داود الخریبی کی نظر میں
      • محدث عبداﷲ بن داود الخریبی فرماتے ہیں:
        ”حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کی عیب گوئی دو آدمیوں میں سے ايک کے سوا کوئی نہیں کرتا، یا جاہل شخص جو آپ کے قول کا درجہ نہیں جانتا یا حاسد جو آپ کے علم سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے حسد کرتا ہے“
        (اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ ص79) نیز فرماتے ہیں:
        ”مسلمانو ں پر واجب ہے کہ وہ اپنی نماز میں ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے لئے دعا کیا کریں۔ کیونکہ انہوں نے حدیث وفقہ کو ان کے لئے محفوظ کیا ہے “
        (تاریخ بغداد ۔ج13ص344)
    • حضرت عبداﷲ بن مبارک رحمہ اﷲ امیر المومنین فی الحدیث کی نظڑ میں
      • حضرت عبداﷲ بن مبارک رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:
        ”اگر اﷲ تعالی نے مجھے ابو حنیفہ رحمہ اور سفیان ثوری رحمہ اﷲ سے نہ ملایا ہوتا تو میں بدعتی ہوتا“
        ( مناقب الامام ابی حنیفہ ص18)
    • علامہ ذہبی رحمہ اﷲ کی نظر میں
      • علامہ ذہبی رحمہ اﷲ ”تذکرة الحفاظ“ میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کا تدکرہ ان القابات کے ساتھ کرتے ہیں:
        ” ابو حنیفہ رحمہ اﷲ امام اعظم اور عراق کے فقیہ ہیں........ وہ امام، پرہیز گار، عالم باعمل، انتہائی عبادت گزار اور بڑی شان والے تھے“
        (تدکرة الحفاظ ج1ص168)
    • متفرق تبصرے
      • حافظ عمادالدین بن کثیر رحمہ اﷲ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کا تذکرہ ان الفاظ سے کرتے ہیں:
        ”وہ امام ہیں، عراق کے فقیہ ہیں، ائمہ اسلام اور بڑی شخصیات میں سے ايک شخصیت ہیں ، ارکان علماءمیں سے ايک ہیں،ائمہ اربعہ جن کے مذاہب کی پیروی کی جاتی ہے ان میں سے ايک امام ہیں“
        ( البدایة والنہایة ج10ص107)
        حضرت امام ابو حنفیہ رحمہ اﷲ کے متعلق مذکورہ چند اکابر اعلام کے چیدہ چیدہ اقوال نقل کئے گئے ہیں ، ان کے علاوہ اور بہت سے بزرگوں کے اقوال، کتب، تاریخ وتذکرہ میں موجود ہیں۔ جن سے حضرت امام صاحب کی فضلیت و منقبت، عظمت و بزرگی ظاہر ہوتی ہے۔ حضرت امام صاحب کے بارے میں ان اقوال کے موجود ہوتے ہوئے غیر مقلدین کا ان پر طعن وتشنیع کرنا، ان کی عیب جوئی اور عیب گوئی کرنا اپنی عاقبت خراب کرنے کے سوا کچھ نہیں ۔ یحییٰ بن معین رحمہ اﷲ سے پوچھا گیا کیا امام صاحب رحمہ اﷲ ثقہ ہیں آپ نے دوبار فرمایا ثقہ ہیں ، ثقہ ہیں
        مورخ ابن خلکان رحمہ اﷲ لکھتے ہیں کی آپ پر قلت عربیت کے سوا کوئی نقطہ چینی نہیں کی گئ (سبحان الله )
        حافظ ابن ابی داؤد رحمہ اﷲ فرماتے ہیں امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے متعلق چہ میگوئیاں کرنے والے دو طرح کے لوگ ہیں ان کی شان سے ناواقف یا ان کے حاسد
        ابن مبارک نے سفیان ثوری معین رحمہ اﷲ سے پوچھا ابو حنیفہ معین رحمہ اﷲ غیبت کرنے سے بہت دور رہتے ہیں دشمن ہی کیوں نہ ہو فرمایا ابو حنیفہ رحمہ اﷲ اس سے بالاتر ہیں کہ اپنی نیکیوں پر دشمن کو مسلط کریں –
        یہ ایک حقیقت ہے کہ امام صاحب کے شاگردوں کی ان سے روایات کرنے والوں کی اور انہیں ثقہ و معتبر کہنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے بہ نسبت نکتہ چینی کرنے والوں کے
  • امام اعظم رحمہ اﷲ کا علمی پایہ
    • شداد بن حکم رحمہ اﷲ فرماتے ہے کہ " ابو حنیفہ سے بڑھ کر میں نے کوئی عالم نہیں دیکھا "
      مکی بن ابراہیم رحمہ اﷲ فرماتے ہیں " ابو حنیفہ اپنے زمانے کے سب سے بڑھے عالم تھے
      امام وکیع رحمہ اﷲ فرماتے ہے " میں کسی عالم سے نہیں ملا جو ابو حنیفہ سے زیادہ فقیہ ہو اور ان سے بہتر نماز پڑھتا ہو "
      نذر بن شامل فرماتے " لوگ علم فقہ سے بے خبر پڑے تھے ابو حنیفہ نے انہیں بیدار کیا "
      محدث یحیٰ بن سعید القطان رحمہ اﷲ فرماتے ہیں " ہم الله پاک کے سامنے جھوٹ نہیں بول سکتے واقعی ابو حنیفہ رحمہ اﷲ سے بڑھ کر ہم نے فقہ میں کسی کی بات نہیں سنی اس لئے اکثر اقوال ہم نے ان کے اختیار کر لئے "
      امام شافعی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں تمام لوگ فقہ میں ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے محتاج ہیں "
      محدث یحییٰ بن معین رحمہ اﷲ فرماتے ہیں " فقہ تو بس ابو حنیفہ رحمہ اﷲ ہی کی ہے"
      جعفربن ربیع رحمہ اﷲ فرماتے ہے " میں پانچ سال امام صاحب کی خدمت میں رہا میں نے ان جیسا خموش انسان نہیں دیکھا جب فقہ کا مسئلہ پوچھا جاتا تو کھل جاتے اور علم کا دریا لگتے تھے "
      عبد الله بن ابی داؤد رحمہ اﷲ فرماتے ہیں " اہل اسلام پر فرض ہے کہ وہ اپنی نمازوں میں کے بعد امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کیلئے دعا کریں شافعی المذہب محدث خطیب تبریزی رحمہ اﷲ 743ھ ) نے مشکوۃ شریف جمع کی پھر الاکمال کے نام سے رجل پر کتاب لکھی انہوں نے مشکوۃ میں اگرچہ امام صاحب سے کوئی حدیث نقل نہیں کی مگر برکت کے لئے آپ کا تذکرہ کیا فرماتے ہیں " امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ بڑھے عالم تھے صاحب عمل پریز گر تھے دنیا سے بے رغبت اور عبادت گزار تھے علوم شریعت میں امام تھے اگرچہ مشکوۃ میں ہم نے ان سے کوئی روایت نہیں لی یھاں ذکر کرنے سے ہمی غرض ان سے برکت حاصل کرنا ہے " امام صاحب رحمہ اﷲ علو مرتبت اور اونچے علم کی اور کیا نشانی ہو سکتی ہے شداد بن حکم رحمہ اﷲ فرماتے ہے کہ " ابو حنیفہ سے بڑھ کر میں نے کوئی عالم نہیں دیکھا "
  • وفات
    • 150ہجری میں بغداد میں ان کا انتقال ہوا۔ پہلی بار نماز جنازہ پڑھی گئی تو پچاس ہزار آدمی جمع ہوئے جب آنے والوں کا سلسلہ جاری رہا تو چھ بار نماز جنازہ پڑھائی گئی آپ ملکہ خیزراں کے مقبرہ کے مشرق کی جانب دفن ہوئے۔
      اس دور کے ائمہ اور فضلا نے آپ کی وفات پر بڑے رنج کااظہار کیا۔
       ابن جریح مکہ میں تےڑ۔ سن کر فرمایا ’’بہت بڑا عالم جاتا رہا‘‘
       شعبہ بن المجاج نے کہا ’’کوفہ میں اندھیرا ہوگیا‘‘
       عبداللہ بن مبارک بغداد آئے تو امام کی قبر پر گئے اور رو کر کہا ’’افسوس تم نے دنیا میں کسی کو جانشین نہ چھوڑا‘‘
       سلطان الپ ارسلان نے ان کی قبر پر قبہ بنوایا۔
      امام صاحب میانہ قد، خوش رو اور موزوں جسم کے مالک تھے۔ گفتگو نہایت شیریں کرتے آواز بلند اور صاف تھی اور فصاحت سے ادا کر تے تھے۔ اکثر خوش لباس رہتے تےش۔ سرکاری وظیفہ خواری سے دور رہے۔ حریت فکر، بے نیازی اور حق گوئی ان کا طرہء امتیاز تھا۔
  • حوالہ جات
    • 1. ^ "امام ابو حنیفہ" ^ شاہ ولی اللہ، The Conclusive Argument from God:Shah Wali Allah of Delhi's Hujjat Allah Al-baligh