Fiqh - فقہ - اسلامی فقہ - Tazkia.org - Urdu

وصيت

  • وصيت کا بيان
    • مسئلہ۔ يہ کہنا کہ ميرے مرنے کے بعد ميرا اتنا مال فلانے آدمى کو يا فلانے کام ميں دے دينا۔ يہ وصيت ہے چاہے تندرستى ميں کہے چاہے بيمارى ميں۔ پھر چاہے اس بيمارى ميں مر جائے يا تندرست ہو جائے اور جو خود اپنے ہاتھ سے کہيں دے ديں کسى کو قرضہ معاف کر دے تو اس کا حکم يہ ہے کہ تندرستى ميں ہر طرح درست ہے اور اسى طرح جس بيمارى سے شفا ہو جائے اس ميں بھى درست ہے اور جس بيمارى ميں مر جائے وہ وصيت ہے جس کا حکم آگے آتا ہے۔
    • مسئلہ۔ اگر کسى کے ذمے نمازيں يا روزے يا زکوٰة يا قسم و رو زہ وغيرہ کا کفارہ باقى رہ گياہو اور اتنا مال بھى موجود ہو تو مرتے وقت اس کے ليے وصيت کر جانا ضرورى اور واجب ہے۔ اسى طرح اگر کسى کا کچھ قرض ہو يا کوئى امانت اس کے پاس رکھى ہو اس کى وصيت کر دينا بھى واجب ہے نہ کرے گا تو گنہگار ہوگا۔ اور اگر کچھ رشتہ دار غريب ہوں جن کو شرع سے کچھ ميراث نہ پہنچتى ہو اور اس کے پاس بہت مال و دولت ہے تو ان کو کچھ دلا دينا اور وصيت کر جانا مستحب ہے اور باقى اور لوگوں کے ليے وصيت کرنے نہ کرنے کا اختيار ہے۔
    • مسئلہ۔ مرنے کے بعد مردے کے مال ميں سے پہلے تو اس کى گوروکفن کا سامان کريں پھر جو کچھ بچے اس سے قرضہ ادا کر ديں۔ اگر مردے کا سارا مال قرضہ ادا کرنے ميں لگ جائے تو سارا مال قرضہ ميں لگا ديں گے وارثوں کو کچھ نہ ملے گا۔ اس ليے قرضہ ادا کرنے کى وصيت پر بہرحال عمل کريں گے۔ اگر سب مال اس وصيت کى وجہ سے خرچ ہو جائے تب بھى کچھ پروا نہيں بلکہ اگر وصيت بھى نہ کر جائے تب بھى قرضہ اول ادا کر ديں گے اور قرض کے سوا اور چيزوں کى وصيت کا اختيار فقط تہائى مال ميں ہوتا ہے۔ يعنى جتنا مال چھوڑا ہے اس کى تہائى ميں سے اگر وصيت پورى ہو جائے مثلا کفن دفن اور قرضے ميں لگا کر تين سو روپے بچتے ہوں اور سو روپے ميں سب وصيتيں پورى ہو جائيں تب تو وصيت کو پورا کريں گے اور تہائى مال سے زيادہ لگانا وارثوں کے ذمہ واجب نہيں۔ تہائى ميں سے جتنى وصيتيں پورى ہو جائيں اس کو پورا کريں باقى چھوڑ ديں۔ البتہ اگر سب وارث بخوشى رضا مند ہو جائيں کہ ہم اپنا اپنا حصہ نہ ليں گے تم اس کى وصيت ميں لگا دو تو البتہ تہائى سے زيادہ بھى وصيت ميں لگانا جائز ہے ليکن نابالغوں کى اجازت کا بالکل اعتبار نہيں ہے وہ اگر اجازت بھى ديں تب بھى ان کا حصہ خرچ کرنا درست نہيں۔
    • مسئلہ۔ جس شخص کو ميراث ميں مال ملنے والا ہو جيسے ماں باپ شوہر بيٹا وغيرہ اس کے ليے وصيت کرنا صحيح نہيں۔ اور جس رشتہ دار کا اس کے مال ميں کچھ حصہ نہ ہو يا رشتہ دار ہى نہ ہو کوئى غير ہو اس کے ليے وصيت کرنا درست ہے ليکن تہائى مال سے زيادہ دلانے کا اختيار نہيں۔ اگر کسى نے اپنے وارث کو وصيت کر دى کہ ميرے بعد اس کو فلانى چيز دے دينا۔ يا اتنا مال دے دينا تو اس وصيت سے پانے کا اس کو کچھ حق نہيں ہے البتہ اگر اور سب وارث راضى ہوں جائيں تو دے دينا جائز ہے۔ اسى طرح اگر کسى کو تہائى سے زيادہ وصيت کر جائے اس کا بھى يہى حکم ہے کہ اگر سب وارث بخوشى راضى ہو جائيں تو تہائى سے زيادہ ملے گا ورنہ فقط تہائى مال ملے گا اور نابالغوں کى اجازت کا کسى صورت ميں اعتبار نہيں ہے ہر جگہ اس کا خيال رکھو ہم کہاں تک لکھيں۔
    • مسئلہ۔ اگرچہ تہائى مال ميں وصيت کر جانے کا اختيار ہے ليکن بہتر يہ ہے کہ پورى تہائى کى وصيت نہ کرے کم کى وصيت کرے بلکہ اگر بہت زيادہ مالدار نہ ہو تو وصيت ہى نہ کرے وارثوں کے ليے چھوڑ دے کہ اچھى طرح فراغت سے بسر کريں کيونکہ اپنے وارثوں کو فراغت اور آسائش ميں چھوڑ جانے ميں بھى ثواب ملتا ہے۔ ہاں البتہ اگر ضرورى وصيت ہو جيسے نماز روزہ کا فديہ تو اس کى وصيت بہرحال کر جائے ور نہ گنہگار ہوگا۔
    • مسئلہ۔ کسى نے کہا ميرے بعد ميرے مال ميں سے سو روپے خيرات کر دينا تو ديکھو گوروکفن اور قرض ادا کرنے کے بعد کتنا مال بچا ہے کہ تين سو يا اس سے زيادہ ہو تو پورے سو روپے دينا چاہئيں۔ اور جو کم ہو تو صرف تہائى دينا واجب ہے۔ ہاں اگر سب وارث بلا کسى دباؤ و لحاظ کے منظور کر ليں تو اور بات ہے۔
    • مسئلہ۔ اگر کسى کے کوئى وارث نہ ہو تو اس کو پورے مال کى وصيت کر دينا بھى درست ہے اور اگر صرف بيوى ہو تو تين چوتھائى کى وصيت درست ہے۔ اسى طرح اگر کسى کے صرف مياں ہے تو آدھے مال کى وصيت درست ہے۔
    • مسئلہ۔ نابالغ کا وصيت کرنا درست نہيں۔
    • مسئلہ۔ يہ وصيت کى کہ ميرے جنازہ کى نماز فلاں شخص پڑھائے فلاں شہر ميں يا فلانے قبرستان يا فلاں کى قبر کے پاس مجھ کو دفنانا۔ فلانے کپڑے کا کفن دينا۔ ميرى قبر پکى بنا دينا۔ قبر پر قبہ بنا دينا۔ قبر پر کوئى حافظ بٹھلا دينا کہ پڑھ پڑھ کے بخشا کرے تو اس کا پورا کرنا ضرورى نہيں۔ بلکہ تين وصيتيں اخير کى بالکل جائز نہيں۔ پورا کرنے والا گنہگار ہوگا۔
    • مسئلہ۔ اگر کوئى وصيت کر کے اپنى وصيت سے لوٹ جائے يعنى کہہ دے کہ اب مجھے ايسا منظور نہيں اس وصيت کا اعتبار نہ کرنا تو وہ وصيت باطل ہو گئى۔
    • مسئلہ۔ جس طرح تہائى مال سے زيادہ کى وصيت کر جانا درست نہيں اسى طرح بيمارى کى حالت ميں اپنے مال کو تہائى سے زيادہ بجز اپنے ضرورى خرچ کھانے پينے دوا دارو وغيرہ کے خرچ کرنا بھى درست نہيں۔ اگر تہائى سے زيادہ دے ديا تو بدون اجازت وارثوں کے يہ دینا صحيح نہيں ہوا۔ جتنا تہائى سے زيادہ ہے وارثوں کو اس کے لے لينے کا اختيار ہے اور نابالغ اگر اجازت ديں تب بھى معتبر نہيں۔ اور وارث کو تہائى کے اندر بھى بدون سب وارثوں کى اجازت کے دينا درست نہيں اور يہ حکم جب ہے کہ اپنى زندگى ميں دے کر قبضہ بھى کرا ديا ہو اور اگر دے تو ديا ليکن قبضہ ابھى نہيں ہوا تو مرنے کے بعد وہ دینا بالکل ہى باطل ہے اس کو کچھ نہ ملے گا وہ سب مال وارثوں کا حق ہے اور يہى حکم ہے بيمارى کى حالت ميں خدا کى راہ ميں دينے اور نيک کام ميں لگانے کا۔ غرضيکہ تہائى سے زيادہ کسى طرح صرف کرنا جائز نہيں۔
    • مسئلہ۔ بيمار کے پاس بيمار پرسى کى رسم سے کچھ لوگ گئے اور کچھ دن يہيں لگ گئے کہ يہيں رہتے اور اس کے مال ميں کھاتے پيتے ہيں تو اگر مريض کى خدمت کے ليے ان کے رہنے کى ضرورت ہو تو خير کچھ حرج نہيں اور اگر ضرورت نہ ہو تو ان کى دعوت مدارات کھانے پينے ميں بھى تہائى سے زيادہ لگانا جائز نہيں۔ اور اگر ضرورت بھى نہ ہو اور وہ لوگ وارث ہوں تو تہائى سے کم بھى بالکل جائز نہيں يعنى ان کو اس کے مال ميں کھانا جائز نہيں۔ ہاں اگر سب وارث بخوشى اجازت ديں تو جائز ہے۔
    • مسئلہ۔ ايسى بيمارى کى حالت ميں جس ميں بيمار مر جائے اپنا قرض معاف کرنے کا بھى اختيار نہيں ہے۔ اگر کسى وارث پر قرض تھا اس کو معاف کيا تو معاف نہيں ہوا۔ اگر سب وارث يہ معافى منظور کريں اور بالغ ہوں تب معاف ہوگا۔ اور اگر غير کو معاف کيا تو تہائى مال سے جتنا زيادہ ہوگا معاف نہ ہوگا۔ اکثر دستور ہے کہ بى بى مرتے وقت اپنا مہر معاف کر ديتى ہے يہ معاف کرنا صحيح نہيں۔
    • مسئلہ۔ حالت حمل ميں درد شروع ہو جانے کے بعد اگر کسى کو کچھ دے يا مہر وغيرہ معاف کرے تو اس کا بھى وہى حکم ہے جو مرتے وقت دينے لينے کا ہے يعنى اگر خدا نہ کرے اس ميں مر جائے تب تو يہ وصيت ہے کہ وارث کے ليے کچھ جائز نہيں اور غير کے ليے تہائى سے زيادہ دينے اور معاف کرنے کا اختيار نہيں۔ البتہ اگر خيرو عافيت سے بچہ ہو گيا تو اب وہ دينا لينا اور معاف کرنا صحيح ہوگا۔
    • مسئلہ۔ مر جانے کے بعد اس کے مال ميں گوروکفن کرو جو کچھ بچے تو سب سے پہلے اس کا قرض ادا کرنا چاہيے وصيت کى ہو يا نہ کى ہو۔ قرض کا ادا کرنا بہرحال مقدم ہے۔ بى بى کا مہر بھى قرضہ ميں داخل ہے۔ اگر قرضہ نہ ہو يا قرضہ سے کچھ بچ رہے تو ديکھنا چاہيے کچھ وصيت تو نہيں کى ہے۔ اگر کى ہے تو تہائى ميں وہ جارى ہوگى۔ اور اگر نہيں کى يا وصيت سے جو بچا ہے وہ سب وارثوں کا حق ہے شرع ميں جن جن کا حصہ ہو کسى عالم سے پوچھ کر دے دينا چاہيے۔ يہ جو دستور ہے کہ جو جس کے ہاتھ لگا لے بھاگا۔ بڑا گناہ ہے يہاں نہ دو گے تو قيامت ميں دينا پڑے گا جہاں روپے کے عوض نيکياں دينا پڑيں گے۔ اسى طرح لڑکيوں کا صلہ بھى ضرور دينا چاہيے شرع سے ان کا بھى حق ہے۔
    • مسئلہ۔ مردے کے مال ميں سے لوگوں کى مہماندارى والوں کى خاطر مدارات کھانا پلانا۔ صدقہ خيرات وغيرہ کچھ کرنا جائز نہيں ہے۔ اسى طرح مرنے کے بعد سے دفن کرنے تک جو کچھ اناج وغيرہ فقيروں کو ديا جاتا ہے مردہ کے مال ميں سے اس کا دينا بھى حرام ہے۔ مردے کو ہرگز کچھ ثواب نہيں پہنچتا۔ بلکہ ثواب سمجھنا سخت گناہ ہے کيونکہ اب يہ سب مال تو وارثوں کا ہو گيا پرائى حق تلفى کر کے دينا ايسا ہے جيسے غير کا مال چرا کے دے دينا۔ سب مال وارثوں کو بانٹ دينا چاہيے ان کو اختيار ہے اپنے اپنے حصہ ميں سے چاہے شرع کے موافق کچھ کريں يہ نہ کريں بلکہ وارثوں سے اس خرچ کرنے اور خيرات کرنے کى اجازت بھى نہ لينا چاہيے کيونکہ اجازت لينے سے فقط ظاہر دل سے اجازت ديتے ہيں کہ اجازت نہ دينے ميں بدنامى ہوئى۔ ايسى اجازت کا کچھ اعتبار نہيں۔
    • مسئلہ۔ اسى طرح يہ جو دستور ہے کہ اس کے استعمالى کپڑے خيرات کر ديئے جاتے ہيں يہ بھى بغير اجازت وارثوں کے ہرگز جائز نہيں اور اگر وارثوں ميں کوئى نابالغ ہو تب تو اجازت دينے پر بھى جائز نہيں پہلے مال تقسيم کر لو تب بالغ لوگ اپنے حصہ ميں سے چاہيں ديں۔ بغير تقسيم کيے ہرگز نہ دينا چاہيے۔