Fiqh - فقہ - اسلامی فقہ - Tazkia.org - Urdu

خرید و فروخت

  • بيچنااور مول لينا

      خرید و فروخت ہر شخص کی ضرورت ہے البتہ اس میں استحصال سے بہت سارے جھگڑے وجود میں آسکتے ہیں ۔مہذب اقوام اس لیئے ایسے معاملات میں قوانین بنانا ضروری سمجھتی ہیں تاکہ نہ تو کسی پر ظلم ہو نہ وہ کسی پر ظلم کرے ۔علیم و خبیر ذات سے زیادہ کون جانتا ہے کہ وہ کونسے طریقے ہین جن پر عمل کرنے سے نہ کوئی ظالم بنتا ہے نہ مظلوم۔شریعت نے جو اصول اس سلسلے میں مقرر کئے ہیں ان کو جاننے کے لئے درج ذیل مسائل کا جاننا بہت ضروری ہے۔

    • مسئلہ۔ جب ايک شخص نے کہا ميں نے يہ چيز اتنے داموں پر بيچ دى اور دوسرے نے کہا ميں نے لے لى تو وہ چيز بک گئى اور جس نے مول ليا ہے وہى اس کامالک بن گیا۔ اب اگر وہ يہ چاہے کہ ميں نہ بيچوں اپنے پاس ہى رہنے دوں۔ يا يہ چاہے کہ ميں نہ خريدوں تو کچھ نہيں ہو سکتا ہے اس کو دينا پڑے گا اور اس کو لينا پڑے گا اور اس بک جانے کو بيع کہتے ہيں
    • مسئلہ۔ ايک نے کہا کہ ميں نے يہ چيز دو سو روپے میں تمہارے ہاتھ بيچى۔ دوسرى نے کہا مجھے منظور ہے يا يوں کہا ميں اتنے داموں پر راضى ہوں اچھا ميں نے لے لی تو ان سب باتوں سے وہ چيز بک گئى۔ اب نہ تو بيچنے والے کو يہ اختيار ہے کہ نہ دے اور نہ لينے والىےکو يہ اختيار ہے کہ نہ خريدے۔ ليکن يہ حکم اس وقت ہے کہ دونوں طرف سے يہ بات چيت ايک ہى جگہ بيٹھے بيٹھے ہوئى ہو۔ اگر ايک نے کہا ميں نے يہ چيز چار سو کی تمہارے ہاتھ بيچى اور وہ دوسرا چار سو کا نام سن کر کچھ نہيں بولااٹھ کھڑا ہوا يا کسى اور سے صلاح لينے چلا گيا اور کسى کام کو چلا گیااور جگہ بدل گئى تب اس نے کہا اچھا ميں نے چار سو کی خريد لى تو ابھى وہ چيز نہيں بکى۔ ہاں اگر اس کے بعد وہ بيچنے والا يوں کہہ دے کہ ميں نے دے دى يا يوں کہے اچھا لے لو تو پھر بک جائے گى ۔اسى طرح اگر وہ ایک اٹھ کھڑا ہوايا کسى کا م کو چلا گیا تب دوسرے نے کہا ميں نے لے ليا تب بھى وہ چيز نہيں بکى۔ خلاصہ مطلب يہ ہوا کہ جب ايک ہى جگہ دونوں طرف سے بات چيت ہو گئى تب وہ چيز بکے گى۔
    • مسئلہ۔ کسى نے کہا يہ چيز ايک سوکی دے دو اس نے کہا ميں نے دے دى اس میں بيع نہيں ہوئى البتہ اس کے بعد اگر مول لينے والا نے پھر کہہ ديا کہ ميں نے لے لي تو بک گئى۔
    • مسئلہ ۔کسى نے کہا يہ چيز ايک سو پرميں نے لے لى اس نے کہا لے لو تو بيع ہو گئى
    • مسئلہ ۔ کسى نے کسى چيز کے دام چکا کر اتنے دام اس کے ہاتھ پر رکھے اور وہ چيز اٹھا لى اور اس نے خوشى سے دام لے ليے پھر نہ اس نے زبان سے کہا کہ ميں نے اتنے داموں پر يہ چيز بيچى نہ اس نے کہا ميں نے خريدی تو اس لين دين ہو جانے سے بھى چيز بک جاتى ہے اور بيع درست ہو جاتى ہے۔
    • مسئلہ ۔ کوئى امرود بيچنے آیابے پوچھے کچھ بڑے بڑے چار امرود اس کى ٹوکرى ميں سے نکالے اور ۶۰ روپے اس کے ہاتھ پر رکھ دئیےاور اس نے خوشى سے پيسےلے لیئےتو بيع ہو گئى چاہے زبان سے کسى نے کچھ کہا ہو چاہے نہ کہا ہو۔
    • مسئلہ۔ کسى نے موتيوں کى ايک لڑى کو کہا يہ لڑى دس روپے کو تمہارے ہاتھ بيچى۔ اس پر خريدنے والےنے کہا ۔اس ميں سے پانچ موتى ميں نے لے ليے يا يوں کہا آدھے موتى ميں نے خريد ليے تو جب تک وہ بيچنے والا اس پر راضى نہ ہو بيع نہيں ہوگى۔ کيونکہ اس نے تو پورى لڑى کا مول کيا ہے تو جب تک وہ راضى نہ ہو لينے والے کو يہ اختيار نہيں ہے کہ اس ميں سے کچھ لے اور کچھ نہ لے اگر ليوے تو پورى لڑى لينا پڑے گى۔ ہاں البتہ اگر اس نے يہ کہہ ديا ہو کہ ہر موتى ايک ايک روپے کا ہے تواس پر اس نے کہا اس ميں سے پانچ موتى ميں نے خريدے تو پانچ موتى بک گے۔
    • مسئلہ۔ کسى کے پاس چار چيزيں ہيں ۔ اس نے کہا يہ سب ميں نے چار سو روپے پر بیچیں تو اس کى منظورى کے بغیر لینے والے کے پاس يہ اختيار نہيں ہے کہ بعضى چيزيں ليوے اور بعضى چھوڑ دے کيونکہ وہ سب کو ساتھ ملا کر بيچنا چاہتاہے ہاں البتہ اگر ہر چيز کى قيمت الگ الگ بتلا دے تو اس ميں سے ايک آدھ چيز بھى خريد سکتا ہے۔
    • مسئلہ ۔ بيچنے اور مول لينے ميں يہ بھى ضرورى ہے کہ جو سودا خريدے ہر طرح اس کو صاف کر لے کوئى بات ايسى گول مول نہ رکھے جس سے جھگڑا بکھيڑا پڑے۔ اسى طرح قيمت بھى صاف صاف مقرر اور طے ہو جانا چاہيے۔ اگر دونوں ميں سے ايک چيز بھى اچھى طرح معلوم اور طے نہ ہوگى تو بيع صحيح نہ ہوگى۔
    • مسئلہ ۔ کسى نے کوئى چيز خريدى اب وہ کہتاہے پہلے تم روپے دو تب ميں چيز دوں گااور دوسراکہتاہے پہلے تو چيز ديدے تب ميں روپے دوں گا۔ تو پہلے لینے والے سے دام دلوائے جائيں گے جب يہ دام ديدے تو بیچنے والے سے وہ چيز دلوا ديں گے دام کے وصول پانے تک اس چيز کے نہ دينے کااس کو اختيار ہے اور اگر دونوں طرف ايک سى چيز ہے مثلا دونوں طرف دام ہيں يا دونوں طرف سودا ہے۔ جيسے روپے کے پيسے لينے لگيں يا کپڑے کے بدلے کپڑا لينے لگيں اور دونوں ميں يہى جھگڑا پن پڑے تو دونوں سے کہا جائے گا کہ تم اس کے ہاتھ پر رکھو اور وہ تمہارے ہاتھ پر رکھے۔
  • بغیر دیکھے چيز کا خریدنا
    • مسئلہ۔ کسى نے کوئى چيز بے ديکھے ہوئے خريد لى تو يہ بيع درست ہے۔ ليکن جب ديکھے تو اس کو اختيار ہے پسند ہو تو رکھے نہيں تو پھير دے اگرچہ اس ميں کوئى عيب بھى نہ ہو۔ اور جيسى ٹھہرائى تھى ويسى ہى ہو تب بھى رکھنے نہ رکھنے کا اختيار ہے۔
    • مسئلہ۔ کسى نے بے ديکھے اپنى چيز بيچ ڈالى تو اس بيچنے والےکو ديکھنے کے بعد پھير لينے کا اختيار نہيں ہے ديکھنے کے بعد اختيار فقط لینے والے کو ہوتا ہے۔
    • مسئلہ۔ کوئى مٹر کى پھلياں بيچنے کے لئے لایا تواس ميں اوپر تو اچھى اچھى تھيں ان کو ديکھ کر پورا ٹوکرا لے ليا ليکن نيچے خراب نکليں تو اب بھى اس کو پھير دينے کا اختيار ہے البتہ اگر سب پھلياں يکساں ہوں تو تھوڑى سى پھلياں ديکھ لينا کافى ہے چاہے سب پھلياں ديکھے چاہے نہ ديکھے پھيرنے کا اختيار نہ رہے گا۔
    • مسئلہ۔ امرود يا اناريا نارنگى وغيرہ کوئى ايسى چیز خريدى کہ سب يکساں نہيں ہوا کرتيں تو جب تک سب نہ ديکھے تب تک اختيار رہتا ہے تھوڑے کے ديکھ لينے سے اختيار نہيں جاتا۔
    • مسئلہ۔ اگر کوئى چيز کھانے پينے کى خريدى تو اس ميں فقط ديکھ لينے سے اختيار نہيں جائے گا بلکہ چکھنا بھى چاہيے اگر چکھنے کے بعد ناپسند ٹھہرے تو پھير دينے کا اختيار ہے۔
    • مسئلہ۔ بہت زمانہ ہو گيا کہ کوئى چيز ديکھى تھى اب آج اس کو خريد ليا ليکن ابھى ديکھا نہيں۔ پھر جب گھر لا کر ديکھا تو جيسى ديکھى تھى بالکل ويسى ہى اس کو پايا تو اب ديکھنے کے بعد پھير دينے کا اختيار نہيں ہے۔ ہاں اگر اتنے دنوں ميں کچھ فرق ہو گيا ہو تو ديکھنے کے بعد اس کے لينے نہ لينے کا اختيار ہوگا۔
  • پھیر دينے کى شرط (۪خیار شرط)"پسند آنے پہ واپس کر دینے کی شرط پر بیع"
    • مسئلہ۔ خريدتے وقت يوں کہہ ديا کہ ايک دن يا دو دن يا تين دن تک ہم کو لينے نہ لينے کا اختيار ہے جى چاہے گا لے ليں گے نہيں تو پھیر ديں گے تو يہ درست ہے۔ جتنے دن کا اقرار کيا ہے اتنے دن تک پھير دينے کا اختيار ہے چاہے ليوے چاہے پھير دے۔
    • مسئلہ۔ کسى نے کہا کہ تين دن تک مجھ کو لينے نہ لينے کا اختيار ہے پھر تين دن گزر گئے اور اس نے کچھ نہيں جواب ديا نہ وہ چيز پھيرى تو اب وہ چيزى لينى پڑے گى پھيرنے کا اختيار نہيں رہا۔ ہاں اگر وہ رعايت کر کے پھير لے تو خير پھر دے۔ بے رضا مندى کے نہيں پھير سکتا
    • مسئلہ۔ تين دن سے زيادہ کى شرط کرنا درست نہيں ہے اگر کسى نے چار يا پانچ دن کى شرط کى تو ديکھو تين دن کے اندر اس نے کچھ جواب ديا يا نہيں۔ اگر تين دن کے اندر اس نے پھير ديا تو بيع پھر گئى اور اگر کہہ ديا کہ ميں نے لے ليا تو بيع درست ہو گئى اور اگر تين دن گزر گئے اور کچھ حال معلوم نہ ہوا کہ لے لے گا يا نہ لے گا تو بيع فاسد ہو گئى۔
    • مسئلہ۔ اسى طرح بيچنے والابھى کہہ سکتا ہےکہ تين دن تک مجھ کو اختيار ہے اگر چاہوں گاتو تين دن کے اندر واپس لوں گاتو يہ بھى جائز ہے۔
    • مسئلہ۔ خريدتے وقت کہہ ديا تھا کہ تين دن تک مجھے واپس کر دينے کا اختيار ہے پھر دوسرے دن آیا اور کہہ ديا کہ ميں نے وہ چيز لے لى اب نہ پھيروں گا تو اب وہ اختيار جاتا رہا اب نہيں پھير سکتا بلکہ اگر اپنے گھر ميں آکر کہہ ديا کہ ميں نے يہ چيز لے لى اب نہ پھيروں گا تب بھى وہ اختيار جاتا رہا۔ اور جب بيع کا توڑنا اور پھيرنا منظور ہو تو بيچنے والے کے سامنے توڑنا چاہيے اس کى پيٹھ پيچھے توڑنا درست نہيں ہے۔
    • مسئلہ۔ کسى نے کہا تين دن تک ميرى ماں کو اختيار ہے اگر کہے گى تو لے لوں گانہيں تو پھير دوں گاتو يہ بھى درست ہے اب تين دن کے اندر وہ يا اس کى ماں پھير سکتى ہيں۔ اور اگر خود وہ يا اس کى ماں کہہ دے کہ ميں نے لے لى اب نہ پھيروں گاتو اب پھيرنے کا اختيار نہيں رہا۔
    • مسئلہ۔ دو يا تين تھان ليے اور کہا کہ تين دن تک ہم کو اختيار ہے کہ اس ميں سے جو پسند ہوگا ايک تھان دس روپے کو لے ليں گے تو يہ درست ہے تين دن کے اندر اس ميں سے ايک تھان پسند کر لے اور چار يا پانچ تھان اگر ليے اور کہا کہ اس ميں سے ايک پسند کر ليں گے تو يہ بيع فاسد ہے۔
    • مسئلہ۔ کسى نے تين دن تک پھير دينے کى شرط ٹھيرالى تھى پھر وہ چيز اپنے گھر برتنا شروع کر دى جيسے اوڑھنے کى چيز تھى تو اوڑھنے لگايا پہننے کى چيز تھى اس کو پہن ليا يا بچھانے کى چيز تھى اس کو بچھانے لگا تو اب پھير دينے کا اختيار نہيں رہا۔
    • مسئلہ۔ ہاں اگر استعمال صرف ديکھنے کے واسطے ہوا ہے تو پھير دينے کا حق ہے مثلا سلا ہوا کرتا يا چادر يا درى خريدى تو يہ ديکھنے کے ليے کہ يہ کرتہ ٹھيک بھى کرتہ ہے يا نہيں ايک مرتبہ پہن کر ديکھا اور فورا اتار ديا۔ يا چادر کى لمبائى چوڑائى اوڑھ کر ديکھى يا درى کى لمبائى چوڑائى بچھا کر ديکھاتو بھی پھير دينے کاحق حاصل ہے۔
  • سودا معلوم ہونا
    • مسئلہ۔ اناج غلہ وغيرہ سب چيزوں ميں اختيار ہے چاہے تول کے حساب سے لے اور يوں کہہ دے کہپانچ سو روپے کے بيس کلو ميں نے خريدے اور چاہے يوں ہى مول کر کے لے ليوے اور يوں کہہ دے کہ گيہوں کى يہ ڈھيرى ميں نے ہزار روپے کی خريدى پھر اس ڈھيرى ميں چاہے جتنے گيہوں نکليں سب اسى کے ہيں۔
    • مسئلہ۔ آم کا يا امرود نارنگى وغيرہ کا پورا ٹوکرا سو روپے میں اس شرط پر خريدا کہ اس ميں چار سو آم ہيں پھر جب گنے گئے تو اس ميں تين سو ہى نکلے۔ لينے والے کو اختيار ہے چاہے لے چاہے نہ لے اگر لے گاتو پانچ سو روپے دینے پڑیں گے بلکہ ايک سيکڑے کے دام کم کر کے فقط بارہ نے دے اور اگر ساڑھے تين سو نکليں تو چودہ آنے دے غرضيکہ جتنے آم کم ہوں اتنے دام بھى کم ہو جائيں گے (اصل سے مراجعت کی ضرورت ہے)اور اگر اس ٹوکرے ميں چار سو سے زيادہ آم ہوں تو جتنے زيادہ ہيں وہ بيچنے والى کے ہيں اس کو چار سو سے زيادہ لينے کا حق نہيں ہے ہاں اگر پورا ٹوکرا خريد ليا اور کچھ مقرر نہيں کيا کہ اس ميں کتنے آم ہيں تو جو کچھ نکلے سب اسى کا ہے چاہے کم نکليں اور چاہے زيادہ۔
    • مسئلہ۔ کسى نے رات کو دو ريشمى ازار بند ايک روپے کے ليے جب صبح کو ديکھا تو معلوم ہوا کہ ايک ان ميں کا سوتى ہے تو دونوں کى بيع جائز نہيں ہوئى نہ ريشمى کى نہ سوتى کى۔ اسى طرح اگر دو انگوٹھياں شرط کر کے خريديں کہ دونوں کا رنگ فيروزہ کا ہے پھر معلوم ہوا کہ ايک ميں فيروزہ نہيں ہے کچھ اور ہے تو دونوں کى بيع ناجائز ہے اب اگر ان ميں سے ايک کا يا دونوں کا لينا منظور ہو تو اس کى ترکيب يہ ہے کہ پھر سے بات جيت کر کے خريدے۔
  • قيمت کا معلوم ہونا
    • مسئلہ ۔ کسى نے مٹھى بند کر کے کہا کہ جتنے دام ہمارے ہاتھ ميں ہیںاتنے کو فلانى چيز دے دو اور معلوم نہيں کہ ہاتھ ميں کيا ہے روپيہ ہے يا پيسہ ہے يا اشرفى ہے اور ايک ہے يا دو تو ايسى بيع درست نہيں۔
    • مسئلہ ۔ کسى شہر ميں دو قسم کے پيسے چلتے ہيں تو يہ بھى بتلا دے کہ فلانے پيسہ کے بدلہ ميں يہ چيز ليتا ہوں اگر کسى نے يہ نہيں بتلايا فقط اتنا ہى کہا کہ ميں نے يہ چيز ايک پيسہ کو بيچى۔ اس نے کہا کہ ميں نے لے لى تو ديکھو کہ وہاں کس پيسہ کا زيادہ رواج ہے جس پيسہ کا رواج زيادہ ہو وہى پيسہ دينا پڑے گا اور اگر دونوں کا رواج برابر ہو تو بيع درست نہيں رہى بلکہ فاسد اور خراب ہو گئى۔
    • مسئلہ ۔ کسى کے ہاتھ ميں کچھ پيسے ہيں اور اس نے مٹھى کھول کر دکھلا ديا کہ اتنے پيسوں کى يہ چيز دے دو اور اس نے وہ پيسے ہاتھ ميں ديکھ ليے اور وہ چيز دے دى ليکن يہ نہيں معلوم ہوا کہ اسکے ہاتھ ميں کتنے پیسے ہيں تب بھى بيع درست ہے اسى طرح اگر پيسوں کى ڈھيرى سامنے بچھونے پر رکھى ہو اس کا بھى يہى حکم ہے کہ اگر بيچنے والا اتنے داموں کی چيز بيچ ڈالے اور يہ نہ جانے کہ کتنے نے ہيں تو بيع درست ہے۔ غرضيکہ جب اپنى آنکھ سے ديکھ لے کہ اتنے پيسے ہيں تو ايسے وقت اس کى مقدار بتلانا ضرورى نہيں ہے اور اگر ا س نے آنکھ سے نہيں ديکھا ہے تو ايسے وقت مقدار کا بتلانا ضرورى ہے جيسے يوں کہے دس آنہ کو ہم نے يہ چيز لى اگر اس صورت ميں اس کى مقدار مقرر اور طے نہيں کى تو بيع فاسد ہو گئى۔
    • مسئلہ ۔ کسى نے يوں کہا آپ يہ چيز لے ليں قيمت طے کرنے کى کيا ضرورت ہے جو دام ہوں گے آپ سے واجبى لے ليے جائيں گے۔ ميں بھلا آپ سے زيادہ لوں گا۔ يا يہ کہا کہ آپ يہ چيز لے ليويں ميں اپنے گھر سے پوچھ کر جو کچھ قيمت ہو پھر بتلا دوں گا يا يوں کہا اسى ميل کى يہ چيز فلانى نے لى ہے جو دام انھوں نے ديئے ہيں وہى دام آپ بھى دے ديجئے گا يا اس طرح کہا کہ جو آپ کا جى چاہے دے ديجئے گا ميں ہرگز انکار نہ کروں گا جو کچھ دے دو گا لے لوں گا يا اس طرح کہا کہ بازار سے پوچھوا لو جو اس کى قيمت ہو وہ دے دينا۔ يا يوں کہا فلاں کو دکھلا لو جو قيمت وہ کہہ ديں تم دے دينا تو ان سب صورتوں ميں بيع فاسد ہے۔ البتہ اگر اسى جگہ قيمت صاف معلوم ہو گئى اور جس گنجلک کى وجہ سے بيع فاسد ہوئى تھى وہ گنجلک جاتى رہى تو بيع درست ہو جائے گى۔ اور اگر جگہ بدل جانے کے بعد معاملہ صاف ہوا تو پہلى بيع فاسد رہى۔ البتہ صاف ہونے کے بعد پھر نئے سرے سے بيع کر سکے۔
    • مسئلہ ۔ کوئى دوکاندار مقرر ہے جس چيز کى ضرورت پڑتى ہے اس کى دوکان سے جاتى ہے آج سير بھر چھالى منگا لی کل دو سير کتھہ گيا۔ کسى دن پاؤ پھر ناريل وغيرہ لے ليے اور قيمت کچھ نہيں پوچھوائى اور يوں سمجھا کہ جب حساب ہوگا تو جو کچھ نکلے گا دے ديا جائے گا يہ درست ہے۔ اسى طرح عطار کى دوکان سے دو کا نسخہ بندھوا منگايا اور قيمت نہيں دريافت کى اور يہ خيال کيا کہ تندرست ہونے کے بعد جو کچھ دام ہوں گے دے ديئے جائيںگے يہ بھى درست ہے۔
    • مسئلہ ۔ کسى کے ہاتھ ميں ايک روپيہ يا پيسہ ہے اس نے کہا کہ اس روپيہ کى يہ چيز ہم نے لى تو اختيار ہے چاہے وہي روپيہ دے چاہے اس کے بدلے کوئى اور روپيہ دے مگر وہ دوسرا بھى کھوٹا نہ ہو۔
    • مسئلہ ۔ کسى نے ايک روپيہ کا کچھ خريدا تو اختيار ہے چاہے روپيہ دے چاہے دو اٹھنى ديدے اور چاہے چار چونى ديدے اور چاہے آٹھ دونى ديدے بيچنے والى اس کے لينے سے انکار نہيں کر سکتى۔ ہاں اگر ايک روپے کے پيسے ديوے تو بيچنے والى کو اختيار ہے چاہے لے چاہے نہ لے اگر وہ پيسے لينے پر راضى نہ ہو تو روپيہ ہى دينا پڑے گا۔
    • مسئلہ ۔ کسى نے کوئى قلمدان يا صندوقچہ بیچا تو اس کى کنجى بھى بک گئى کنجى کے دام الگ نہيں لے سکتا اور نہ کنجى کو اپنے پا س رکھ سکتا ہے۔
  • سودے ميں عيب نکل آنا
    • مسئلہ۔ جب کوئى چيز بيچے تو واجب ہے جو کچھ اس ميں عيب و خرابى ہو سب بتلا دے نہ بتلانا اور دھوکہ دے کر بيچ ڈالنا حرام ہے۔
    • مسئلہ۔ جب خريد چکا تو ديکھا اس ميں کوئى عيب ہے جيسے تھان کو چوہوں نے کتر ڈالا ہے يا دوشالے ميں کيڑا لگ گيا ہے يا اور کوئى عيب نکل آيا تو اب اس خريدنے والے کو اختيار ہے چاہے رکھ لے اور لے ليوے چاہے پھير دے ليکن اگر رکھ لے تو پورے دام دينا پڑيں گے اس عيب کے عوض ميں کچھ دام کاٹ لينا درست نہيں البتہ اگر دام کى کمى پروہ بيچنے والا بھى راضى ہو جائے تو کم کر کے دينا درست ہے۔
    • مسئلہ۔ کسى نے کوئى تھان خريد کر رکھا تھا کہ کسى لڑکے نے اس کا ايک کونا پھاڑ ڈالا يا قينچى سے کتر ڈالا۔ اس کے بعد ديکھا کہ وہ اندر سے خراب ہے جابجا چوہے کتر گئے ہيں تو اب اس کو نہيں پھير سکتا کيونکہ ايک اور عيب تو اس کے گھر میں پیدا ہو گيا ہے البتہ اس عيب کے بدلے ميں جو کہ بيچنے والا کے گھر کا ہے دام کم کر ديئے جائيں گے۔ لوگوں کو دکھايا جائے جو وہ تجويز کريں اتنا کم کر دو۔
    • مسئلہ۔ اسى طرح اگر کپڑا قطع کيا ہوا ديدو اور اپنے سب دام لے لو ميں دام کم نہيں کرتى تو اس کو يہ اختيار حاصل ہے خريدنے والى انکار نہيں کر سکتى۔ اگر قطع کر کے سى بھى ليا تھا پھر عيب معلوم ہوا تو عيب کے بدلے دام کم کر ديئے جائيں گے اور بيچنے والى اس صورت ميں اپنا کپڑا نہيں لے سکتى۔ اور اگر اس خريدنے والى نے وہ کپڑا بيچ ڈالا يا اپنے نابالغ بچہ کے پہنانے کى نيت سے قطع کر ڈالا بشرطيکہ بالکل اس کے دے ڈالنے کى نيت کى ہو اور پھر اس ميں عيب نکلا تو اب دام کم نہيں کيے جائيں گے۔ اور اگر بالغ اولاد کى نيت سے قطع کيا تھا اور پھر عيب نکلا تو اب دام کم کر ديئے جائيں گے۔
    • مسئلہ۔ کسى نے فى انڈا ايک پيسہ کے حساب سے کچھ انڈے خريدے جب توڑے تو سب گندے نکلے بعضے اچھے تو گندوں کے دام پھير سکتى ہے۔ اور اگر سى نے بيس پچيس انڈوں کے يکمشت دام لگا کر خريد ليے کہ يہ سب انڈے پانچ آنے کو ميں نے ليے تو ديکھو کتنے خراب نکلے اگر سو ميں پانچ چھ خراب نکلے تو اس کا کچھ اعتبار نہيں اور اگر زيادہ خراب نکلے تو خراب کے دام حساب سے پھر ليے۔
    • مسئلہ۔ کھيرا ککڑى خربوزہ تربوزہ لوکى بادام اخروٹ وغيرہ کچھ خريدا۔ جب توڑے اندر سے بالکل خراب نکلے تو ديکھو کہ کام ميں آ سکتے ہيں يا بالکل نکمے اور پھينک دينے کے قابل ہيں۔ اگر بالکل خراب اور نکمے ہوں تب تو يہ بيع بالکل صحيح نہيں ہوئى اپنے سب دام پھير لے اور اگر کسى کام ميں آ سکتے ہوں تو جتنے دام بازار ميں لگيں اتنے ديئے جائيں پورى قيمت نہ دى جائے گى۔
    • مسئلہ۔ اگر سو بادام ميں چار پانچ ہى خراب نکلے تو کچھ اعتبار نہيں۔ اور اگر زيادہ خراب نکلے تو جتنے خراب ہيں ان کے دام کاٹ لينے کا اختيار ہے۔
    • مسئلہ۔ ايک روپيہ کے پندرہ سير گيہوں خريدے يا ايک روپيہ کا ڈيڑھ سير گھى ليا۔ اس ميں سے کچھ تو اچھا نکلا اور کچھ خراب نکلا تو يہ درست نہيں ہے کہ اچھا اچھا لیوے اور خراب خراب پھير ديوے بلکہ اگر ليوے تو سب لينا پڑے گا اور پھيرے تو سب پھيرے ہاں البتہ اگر بيچنے والا خود راضى ہو جائے کہ اچھا اچھا لے اور جتنا خراب ہے وہ پھير دو تو ايسا کرنا درست ہے بے اس کى مرضى کے نہيں کر سکتا۔
    • مسئلہ۔ عيب نکلنے کے وقت پھير دينے کا اختيار اس وقت ہے جبکہ عيب دار چيز پر کسى طرح رضا مندى ثابت نہ ہوتى ہو اور اگر اسى پر راضى ہو جائے تو اب اس کا پھيرنا جائز نہيں البتہ بيچنے والا خوشى سے پھير لے تو پھيرنا درست ہے جيسے کسى نے ايک بکرى يا گائے وغيرہ کوئى چيز خريدى جب گھر آیا تو معلوم ہوا کہ يہ بيمار ہے يا اس کے بدن ميں کہيں زخم ہے پس اگر ديکھنے کے بعد اپنى رضا مندى ظاہر کرے کہ خير ہم نے عيب دار ہى لے لى تو اب پھيرنے کا اختيار نہيں رہا۔ اور اگر زبان سے نہيں کہا ليکن ايسے کام کيے جس سے رضا مندى معلوم ہوتى ہے جيسے اس کى دوا علاج کرنے لگا تب بھى پھيرنے کا اختيار نہيں رہا۔
    • مسئلہ۔ بکرى کا گوشت خریدا پھر معلوم ہوا کہ بھيڑ کا گوشت ہے تو پھير سکتا ہے۔
    • مسئلہ۔ موتيوں کا ہار يا اور کوئى زيور خريدا اور کسى وقت اس کو پہن ليا يا جوتا خريدا اور پہنے پہنے چلنے پھرنے لگے تو اب عيب کى وجہ سے پھيرنے کا اختيار نہيں رہا۔ ہاں اگر اس وجہ سے پہنا ہو کہ پاؤں ميں ديکھوں آتا ہے يا نہيں اور پير کو چلنے ميں کچھ تکليف تو نہيں ہوتى تو اس آزمائش کے ليے ذرا دير کے پہننے سے کچھ حرج نہيں اب بھى واپس کرسکتا ہے۔ اسى طرح اگر کوئى چار پائى يا تخت خريدا اور کسى ضرورت سے اس کو بچھا کر بيٹھا يا تخت پر نماز پڑھى اور استعمال کرنے لگا تو اب پھيرنے کا اختيار نہيں رہا۔ اسى طرح اور سب چيزوں کو سمجھ لو۔ اگر اس سے کام لينے لگے تو پھيرنے کا اختيار نہيں رہتا۔
    • مسئلہ۔ بيچتے وقت اس نے کہہ ديا کہ خوب ديکھ بھال لو اگر اس ميں کچھ عيب نکلے يا خراب ہو تو ميں ذمہ دار نہيں۔ اس کہنے پر بھى اس نے لے ليا تو اب چاہے جتنے عيب اس ميں نکليں پھيرنے کا اختيار نہيں ہے اور اس طرح بيچنا بھى درست ہے۔ اس کہہ دينے کے بعد عيب کا بتلانا واجب نہيں ہے
  • بيع باطل اور فاسد
    • مسئلہ۔ جو بيع شرع ميں بالکل ہى غير معتبر اورلغو ہو اور ايسا سمجھيں کہ اس نے بالکل خريدا ہى نہيں۔ اور اس نے بيچا ہى نہيں اس کو باطل کہتے ہيں اس کا حکم يہ ہے کہ خريد نے والا اس کا مالک نہيں ہوا۔ وہ چيز اب تک اسى بيچنے والے کى ملک ميں ہے اس ليے خريد نے والے کو نہ تو اس کا کھانا جائز نہ کسى کو دينا جائز۔ کسى طرح سے اپنے کام ميں لانا درست نہيں۔ اور جو بيع ہو تو گئى ہو ليکن اس ميں کچھ خرابى گئى ہے اس کو بيع فاسد کہتے ہيں۔ اس کا حکم يہ ہے کہ جب تک خريدنے والى کے قبضہ ميں نہ آئے تب تک وہ خريدى ہوئى چيز اس کى ملک ميں نہيں تىي۔ اور جب قبضہ کر ليا تو ملک ميں تو آگئى ليکن حلال طيب نہيں ہے۔ اس ليے اس کو کھانا پينا يا کسى اور طرح سے اپنے کام ميں لانا درست نہيں۔ بلکہ ايسى بيع کا توڑ دينا واجب ہے۔ لينا ہو تو پھر سے بيع کريں اور مول ليں۔ اگر يہ بيع نہيں توڑى بلکہ کسى اور کے ہاتھ وہ چيز بيچ ڈالى تو گناہ ہوا اور اس دوسرا خريدنے والے کے ليے اس کا کھانا پينا اور استعمال کرنا جائز ہے اور يہ دوسرى بيع درست ہو گئى۔ اگر نفع لے کر بيچا ہو تو نفع کا خيرات کر دينا واجب ہے اپنے کام ميں لانا درست نہيں۔
    • مسئلہ۔ زمينداروں کے يہاں يہ جو دستور ہے کہ تالاب کى مچھلياں بيچ ديتے ہيں يہ بيع باطل ہے۔ تالاب کے اندر جتنى مچھلياں ہوتى ہيں جب تک شکار کر کے پکڑى نہ جائيں تب تک ان کا کوئى مالک نہيں ہے شکار کر کے جو کوئى پکڑے وہى ان کا مالک بن جاتا ہے۔ جب يہ بات سمجھ ميں گئى تو اب سجھو کہ جب يہ زميندار ان کا مالک ہى نہيں تو بيچنا کيسے درست ہوگا۔ ہاں اگر زميندار خود مچھلياں پکڑ کر بيچا کريں تو البتہ درست ہے۔ اگر کسى اور سے پکڑوا ديں گے تو وہى مالک بن جائے گا۔ زميندار کا اس پکڑى ہوئى مچھلى ميں کچھ حق نہيں ہے۔ اسى طرح مچھليوں کے پکڑنے سے لوگوں کو منع کرنا بھى درست نہيں ہے۔(واضح رہے کہ یہ مسلءہان تالابوں سے متعلق ہے جو قدرتی اور مباح عام ہیں،اگر وہ تالاب کسی شخص کے ذاتی ہیں تو اسمیں مھچلیاں محض پکڑنے والے کی ملک نہ ہو گی)
    • مسئلہ۔ کسى کى زمين ميں خود بخود گھاس اگى نہ اس نے لگايا نہ اس کو پانى دے کر سينچا تو يہ گھا س بھى کسى کى ملک نہيں ہے جس کا جى چاہے کاٹ لے جائے نہ اس کا بيچنا درست ہے اور نہ کاٹنے سے کسى کو منع کرنا درست ہے البتہ اگر پانى دے کر سينچا اور خدمت کى ہو تو اس کى ملک ہو جائے گى۔ اب بيچنا بھى جائز ہے اور لوگوں کو منع کرنا بھى درست ہے۔
    • مسئلہ۔ جانورکے پيٹ ميں جو بچہ ہے پيدا ہونے سے پہلے اس بچہ کو بيچنا باطل ہے۔ اور اگر پورا جانور بيچ ديا تو درست ہے۔ ليکن اگر يوں کہہ ديا کہ ميں يہ بکرى تو بيچتا ہوں ليکن اس کے پيٹ کا بچہ نہيں بيچتا ہوں جب پيدا ہو تو وہ ميرا ہے تو يہ بيع فاسد ہے۔
    • مسئلہ۔ جانور کے تھن ميں جو دودھ بھرا ہوا ہے دوہنے سے پہلے اس کا بيچنا باطل ہے پہلے دوہ لے تب بيچے۔ اسى طرح بھيڑ دنبہ وغيرہ کے بال جب تک کاٹ نہ لے تب تک بالوں کا بيچنا نا جائز اور باطل ہے۔
    • مسئلہ۔ جو دہنى يا لکڑى مکان ميں يا چھت ميں لگى ہوئى ہے کھودنے يا نکالنے سے پہلے اس کا بيچنا درست نہيں ہے۔
    • مسئلہ۔ آدمى کے ہاں اور ہڈى وغيرہ کسى چيز کا بيچنا جائز اور باطل ہے اور ان چيزوں کا اپنے کام ميں لانا اور برتنا بھى درست نہيں ہے۔
    • مسئلہ۔ بجز خنزير کے دوسرے مردار کى ہڈى اور بال اور سينگ پاک ہيں ان سے کام لينابھى جائز ہے اور بيچنا بھى جائز ہے۔
    • مسئلہ۔ تم نے ايک بکرى يا اور کوئى چيز کسى سے پانچ سوروپے کی مول لى اور اس بکرى پر قبضہ کر ليا اور اپنے گھر منگا کر بندھوالى ليکن ابھى دام نہيں ديئے پھر اتفاق سے اس کے دام نہ دے سکا يا اب اس کا رکھنا منظور نہ ہوا اس ليے تم نے کہا کہ يہ بکرى چارسو روپے ميں لے جاؤ ايک سوروپيہ ہم تم کو اور ديں گے۔ يہ بيچنا اور لينا جائز نہيں جب تک اس کو روپے نہ دے چکے اس وقت تک کم داموں پر اس کے ہاتھ بيچنا درست نہيں ہے۔
    • مسئلہ۔ کسى نے اس شرط پر اپنا مکان بيچا کہ ايک مہينے تک ہم قبضہ نہ ديں گے بلکہ خود اس ميں رہيں گے۔ يا يہ شرط ٹھہرائى کہ اتنے روپے تم ہم کو قرض دے دو۔ يا کپڑا اس شرط پر خريدا کہ تم ہى قطع (کاٹ)کر کے سى دينا۔ يا يہ شرط کى کہ ہمارے گھر تک پہنچا دينا۔ اور کوئى ايسى شرط مقر رکى جو شريعت کے اعتبار سے واہيات اور ناجائز ہے تو يہ سب بيع فاسد ہے۔
    • مسئلہ۔ يہ شرط کر کے ايک گائے خريدى کہ يہ چار سير دودھ ديتى ہے تو بيع فاسد ہے البتہ اگر کچھ مقدار نہيں مقرر کى فقط يہ شرط کى کہ يہ گائے بہت دودہيارى(خوب دودھ دینے والی) ہے تو بيع جائز ہے۔
    • مسئلہ۔ مٹى يا چينى کے کھلونے يعنى تصويريں بچوں کے ليے خريدے تو يہ بيع باطل ہے شرع ميں ان کھلونوں کى کچھ قيمت نہيں لہذا اس کے کچھ دام نہ دلائے جائيں گے اگرکوئى توڑ دے تو کچھ تاوان بھى دينا نہ پڑے گا۔
    • مسئلہ۔ کچھ اناج گھى تيل وغيرہ روپے کے دس سير يا اورکچھ نرخ طے کر کے خريدا تو ديکھو کہ اس بيع ہونے کے بعد اس نے تمہارے يا تمہارے بھيجے ہوئے آدمى کے سامنے تول کرديا ہے يا تمہارے اور تمہارے بھيجے ہوئے آدمى کے سامنے نہيں تولا بلکہ کہا تم جاؤ ہم تول کر گھر بھيجے ديتے ہيں يا پہلے سے الگ تولا ہوا رکھا تھا اس نے اسى طرح اٹھا ديا پھر نہيں تولا۔ يہ تين صورتيں ہوئيں۔ پہلى صورت کا حکم يہ ہے کہ گھر ميں لا کر اب اس کا تولنا ضرورى نہيں ہے بغير تولے بھى اس کا کھانا پينا بيچنا وغيرہ سب صحيح ہے۔ اور دوسرى اور تيسرى صورت کا حکم يہ ہے کہ جب تک خود نہ تول لے تب تک اس کا کھانا پينا بيچنا وغيرہ کچھ درست نہيں۔ اگر بے تولے بيچ ديا تو يہ بيع فاسد ہو گئى پھر اگر تول بھى لے تب بھى يہ بيع درست نہيں ہوئى۔
  • بيع سلم

      (سیزن سے پہلے ادائیگی کر کے کوئی چیز خریدنا)

    • مسئلہ۔ فصل کٹنے سے پہلے يا کٹنے کے بعد کسى کو دس روپے ديئے اور يوں کہا کہ دو مہينے يا تين مہينے کے بعد فلانے مہينے ميں فلاں تاريخ ميں ہم تم سے ان دس روپے کے گيہوں ليں گے اور نرخ اسى وقت طے کر ليا کہ روپے کے پندرہ سير يا روپے کے بيس سير کے حساب سے ليں گے تو يہ بيع درست ہے جس مہينے کا وعدہ ہوا ہے اس مہينے ميں اس کو اسى بھاؤ گيہوں دينا پڑيں گے چاہے بازار ميں گراں بکيں چاہے سستے بازار کے بھاؤ کا کچھ اعتبار نہيں ہے اور اس بيع کو سلم کہتے ہيں ليکن اس کے جائز ہونے کى کئى شرطيں ہيں ان کو خوب غور سے سمجھو
      1.اول شرط يہ ہے کہ گيہوں وغيرہ کى کيفيت خوب صاف صاف ايسى طرح بتلا دے کہ ليتے وقت دونوں ميں جھگڑا نہ پڑے مثلا کہہ دے کہ فلاں قسم کا گيہوں دينا۔ بہت پتلا نہ ہو نہ پالا نارا ہوا ہو۔ عمدہ ہو خراب نہ ہو۔ اس ميں کوئى اور چيز چنے مٹر وغيرہ نہ ملى ہو۔ خوب سوکھے ہوں گيلے نہ ہوں۔ غرضيکہ جس قسم کى چيز لينا ہو ويسى بتلا دينا چاہيے تاکہ اس وقت بکھيڑا نہ ہو۔ اگر اس وقت صرف اتنا کہہ ديا کہ دس روپے کے گيہوں دے دينا تو يہ ناجائز ہوا۔ يا يوں کہا کہ ان دس روپے کے دھان دے دينا يا چاول دے دينا اس کى قسم کچھ نہيں بتلائى يہ سب ناجائز ہے
      2.دوسرى شرط يہ ہے کہ نرخ بھى اسى وقت طے کر لے کہ روپے کے پندرہ سير يا بيس سير کے حساب سے لے ليں گے۔ اگر يوں کہا کہ اس وقت جو بازار کا بھاؤ ہو اس حساب سے اس کو دينا يا اس سے دو سير زيادہ دينا تو يہ جائز نہيں بازار کے بھاؤ کا کچھ اعتبار نہ کرو۔ اسى وقت اپنے لينے کا نرخ مقرر کر لو۔ وقت آنے پر اسى مقرر کيے ہوئے بھاؤ سے لے لو۔
      3.تيسرى شرط يہ ہے کہ جتنے روپے کے لينا ہوں اسى وقت بتلا دو کہ ہم دس روپے يا بيس روپے کے گيہوں ليں گے۔ اگر يہ نہيں بتلايا اور يوں ہى گول مول کہہ ديا کہ تھوڑے روپے کے ہم بھى ليں گے تو يہ صحيح نہيں۔
      4.چوتھى شرط يہ ہے کہ اسى وقت اسى جگہ رہتے رہتے سب روپے ديدے اگر معاملہ کرنے کے بعد الگ ہو کر پھر روپے ديئے تو وہ معاملہ باطل ہو گيا اب پھر سے کرنا چاہيے۔ اسى طرح اگر پانچ روپے تو اسى وقت دے ديئے اور پانچ روپے دوسرے وقت ديئے تو پانچ روپے ميں بيع سلم باقى رہى اور پانچ روپے ميں باطل ہو گئى۔
      5.پانچويں شرط يہ ہے کہ اپنے لينے کى مدت کم سے کم ايک مہينہ مقرر کرے کہ ايک مہينے کے بعد فلانى تاريخ ہم گيہوں ليوں گے مہينے سے کم مدت مقرر کرنا صحيح نہيں اور زيادہ چاہيے جتنى مقرر کرے جائز ہے ليکن دن تاريخ مہينہ سب مقرر کر دے تاکہ بکھيڑا نہ پڑے کہ وہ کہے ميں ابھى نہ دوں گا۔ تم کہو نہيں آج ہى دو۔ اس ليے پہلے ہى سے سب طے کر لو۔ اگر دن تاريخ مہينہ مقرر نہ کيا بلکہ يوں کہا کہ جب فصل کٹے گى تب دے دينا تو يہ صحيح نہيں۔
      6.چھٹى شرط يہ ہے کہ يہ بھى مقرر کر دے کہ فلانى جگہ وہ گيہوں دينا يعنى اس شہر ميں يا کسى دوسرے شہر ميں جہاں لينا ہو وہاں پہنچانے کے ليے کہہ دے يا يوں کہہ دے کہ ہمارے گھر پہنچا دينا۔ غرضيکہ جو منظور ہو صاف بتلا دے۔ اگر يہ نہيں بتلايا تو صحيح نہيں۔ البتہ اگر کوئى ہلکى چیز ہو جس کے لانے اور لے جانے ميں کچھ مزدورى نہيں لگتى مثلا مشک خريدا يا سچے موتى يا اور کچھ تو لينے کى جگہ بتلانا ضرورى نہيں۔ جہاں يہ ملے اس کو ديدے
      اگر ان شرطوں کے موافق کيا تو بيع سلم درست ہے۔ ورنہ درست نہيں۔
    • مسئلہ۔ گيہوں وغيرہ غلہ کے علاوہ اور جو چيزيں ايسى ہوں کہ ان کى کيفيت بيان کر کے مقرر کر دى جائے کہ ليتے وقت کچھ جھگڑا ہونے کا ڈر نہ رہے ان کى بيع سلم بھى درست ہے جيسے انڈے اينٹيں کپڑا مگر سب باتيں طے کر لے کہ اتنى بڑى اينٹ ہو۔ اتنى لمبى۔ اتنى چوڑى۔ کپڑا سوتى ہو اتنا باريک ہو اتنا موٹا ہو۔ ديسى ہو يا ولايتى ہو غرضيکہ سب باتيں بتا دينا چاہئيں۔ کچھ گنجلک باقى نہ رہے۔
    • مسئلہ۔ روپے کى پانچ گٹھڑى يا پانچ کھانچى کے حساب سے بھوسا بطور بيع سلم کے ليا تو يہ درست نہيں کيونکہ گٹھڑى اور کھانچى کى مقدار ميں بہت فرق ہوتا ہے البتہ اگر کسى طرح سے سب کچھ مقرر اور طے کر لے يا وزن کے حساب سے بيع کرے تو درست ہے۔
    • مسئلہ۔ سلم کے صحيح ہونے کى يہ بھى شرط ہے کہ جس وقت معاملہ آيا ہے اس وقت سے لينے اور وصول پانے کے زمانے تک وہ چيز بازار ميں ملتى رہے ناياب نہ ہو۔ اگر اس درميان ميں وہ چيز بالکل ناياب ہو جائے کہ اس ملک ميں بازاروں ميں نہ ملے گو دوسرى جگہ سے بہت مصيبت جھيل کر منگوا سکے تو وہ بيع سلم باطل ہو گئى۔
    • مسئلہ۔ معاملہ کرتے وقت يہ شرط کر دى کہ فصل کے کٹنے پر فلاں مہينے ميں ہم نئے گيہوں ليں گے يا فلانے کھيت کے گيہوں ليں گے تو يہ معاملہ جائز نہيں ہے اس ليے يہ شرط نہ کرنا چاہيے پھر وقت مقررہ پر اس کو اختيار ہے چاہے نئے دے يا پرانے۔ البتہ اگر نئے گيہوں کٹ چکے ہوں تو نئے کى شرط کرنا بھى درست ہے۔
    • مسئلہ۔ تم نے دس روپے کے گيہوں لينے کا معاملہ کيا تھا وہ مدت گزر گئى بلکہ زياد ہو گئى مگر اس نے اب تک گيہوں نہيں ديئے نہ دينے کى اميد ہے تو اب يہ کہنا جائز نہيں کہ اچھا تم گيہوں نہ دو بلکہ اس گيہوں کے بدلے اتنے چنے يا اتنے دھان يا اتنى فلاں چيز دے دو۔ گيہوں کے عوض کسى اور چيز کا لينا جائز نہيں يا تو اس کو کچھ مہلت دے دو اور بعد مہلت گيہوں لو۔ يا اپنا روپيہ واپس لے لو۔ اسى طرح اگر بيع سلم کو تم دونوں نے توڑ ديا کہ ہم وہ معاملہ توڑتے ہيں گيہوں نہ ليں گے روپيہ واپس دے ديا يا تم نے نہيں توڑا بلکہ وہ معاملہ خود ہى ٹوٹ گيا جيسے وہ چيز ناياب ہو گئى کہيں نہيں ملتى تو اس صورت ميں تم کو صرف روپے لينے کا اختيار ہے اس روپے کے عوض اس سے کوئى اور چيز لينا درست نہيں۔ پہلے روپيہ ليلو لينے کے بعد اس سے جو چيز چاہو خريدو۔