ذکر سے سکون کا حاصل ہونا یہ ذکر کی خاصیت ہے، اس آیت:
﴿اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ﴾ (الرعد: 28)
ترجمہ: "یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور جن کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو کہ صرف اللہ کا ذکر ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
میں ﴿اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ﴾ یہ جملہ خبریہ ہے یعنی ذکر کی خاصیت اس میں بیان کی گئی ہے، یہ نہیں فرمایا کہ سکون کے لئے ذکر اللہ کریں۔ جبکہ دوسری آیت ہے:
﴿فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ﴾ (البقرۃ: 153)
ترجمہ: "لہٰذا مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
اس میں ﴿فَاذْكُرُوْنِیْ﴾ صیغہ امر ہے اور اس کا نتیجہ ﴿اَذْكُرْكُمْ﴾ بیان فرمایا ہے. یعنی ذکر کا مقصد یہ ہے کہ اللہ آپ کو یاد کرے گا. اس میں آ گے تفصیل نہیں بیان کی گئی۔ گویا یہی اصل مقصد ہے کہ اللہ تعالٰی ہمیں یاد رکھیں اور بس یہی ذکر کا مقصد ہے. اسی طرح یہ جو فرمایا گیا ہے کہ اللہ کا ذکر کثرت سے کرو۔ اس میں خطاب خاص مؤمنین سے ہے، اس وجہ سے یہاں ذکر کا مقصد بھی بیان نہیں فرمایا، بس یہی فرمایا کہ کثرت سے ذکر کرو۔ یہ عاشقوں کے لئے فرمایا، کیونکہ عاشق کو تو اس سے غرض ہی نہیں ہوتی کہ میرے محبوب نے جو مجھے کہا ہے کہ اس طرح کرو، اس کا مقصد کیا ہے، بس صرف یہ ہوتا ہے کہ کتنا کروں؟ تو وہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ کثرت سے کرو۔