بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
پہلے دور کی سائنس کے مطابق چار عناصر تھے: ہوا، آگ، پانی اور مٹی۔ ان میں ہر ایک کے اجزاء انسان کے جسم کے اندر موجود ہیں۔ جبکہ کائنات کے اندر ان کی اصل موجود ہے۔ جیسے قاعدہ ہے کہ "اَلْجِنْسُ یَمِیْلُ اِلٰی جِنْسِہٖ" کہ ہر جنس اپنی جیسی جنس کی طرف مائل ہوتی ہے، تو انسان کے جسم کے اندر جو یہ چار عناصر پائے جاتے ہیں، یہ بھی اپنی اصل کی طرف، جو کہ کائنات کے اندر موجود ہے، کی طرف مائل ہیں۔ لیکن انسان کے اندر جو روح ہے وہ ان عناصر اربعہ سے نہیں بنی۔ وہ تو علوی ہے اور اپنی ابتدا سے یہ اپنے خالق کی عاشق ہے۔ اس وجہ سے مولانا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ روح انسانی جسم کے اندر مقید ہے۔ اس روح کی خوشی اور جسم کی خوشی ميں بڑا فرق ہے۔ روح کی خوشی روحانی اعمال میں ہے اور جسم کی خوشی کھانے پینے اور دنیاوی لذات میں ہے۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ پھر فرماتے ہیں کہ یہ جو روح اللہ کی عاشق ہے، اس عشق کی ابتدا خود حق تعالیٰ ہی سے ہوئی ہے۔ یعنی پہلے اللہ تعالیٰ نے اس روح کے ساتھ محبت کی، پھر روح کو حق تعالٰی کی محبت کی وجہ سے محبت ہوگئی، تو اس نے بھی حق تعالٰی سے محبت شروع کی۔ گویا ابتداء حق تعالیٰ کی طرف سے ہوئی۔ چونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنا ہاتھ اوپر رکھتا ہے، اس وجہ سے جب روح نے حق تعالٰی سے محبت کی، تو حق تعالٰی نے اپنی محبت کو اور بڑھا دیا، جس سے روح کی محبت بڑھ گئی اور یہ تسلسل اسی طرح ہو رہا ہوتا ہے۔ یہ بات ایک اور حدیث شریف سے بھی ثابت ہے، جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ حق تعالٰی فرماتے ہیں کہ جب میرا بندہ میری طرف ایک بالشت آتا ہے، تو میری رحمت اُس کی طرف دو بالشت جاتی ہے، اگر میرا بندہ میری طرف دو بالشت آتا ہے، تو میری رحمت اُس کی طرف چار بالشت جاتی ہے اور اگر میرا بندہ میری طرف چل کر آتا ہے، تو میری رحمت اُس کی طرف دوڑ کر جاتی ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے توبہ کا دروازہ موت کے آثار نظر آنے تک کُھلا رکھا ہے۔ یہ بھی حق تعالٰی کی محبت کی دلیل ہے۔ اب روح کا کام یہ ہے کہ وہ اس محبت کو محسوس کرے۔ لیکن چونکہ روح دنیا میں آکر دنیاوی ضروریات اور خواہشات کے ساتھ منسلک ہوگئی، اس وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس محبت کو محسوس نہيں کرتی۔ اصل میں یہ محسوس کررہی ہوتی ہے لیکن چونکہ اس کے ساتھ دنیا میں نفس منسلک ہوتا ہے، تو اُس کا اثر ہونے کی وجہ سے روح کی اپنی محسوسات کی خاصیت مضمحل ہوگئی ہے۔ لیکن پھر بھی اس کو کچھ نہ کچھ محسوس ہو رہا ہوتا ہے اور یہ نفس کی جو خواہشات جسم پورا کر رہا ہوتا ہے، اس سے اس کو راحت نہیں ملتی۔ ورنہ اگر مل رہی ہوتی، تو خود کشی کی شرح جو مالدار ممالک میں ہے، وہ کیوں ہوتی؟ خود کشی وہ انسان کیوں کرتے ہیں جن کو اپنے نفس کی تمام خواہشات پورے کرنے کے مواقع میسر ہوتے ہیں۔ یہ اسی وجہ سے کہ اُن کی روح بے چین ہوتی ہے، کیونکہ اُن کی روح انجزابی طور پر اللہ تعالیٰ سے محبت کر رہی ہوتی ہے لیکن اُن کا نفس روح کو چھوڑ نہيں رہا ہوتا تاکہ وہ اپنے محبوب کی محبت میں رنگ جائے۔ اس وجہ سے حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی بات فرمائی ہے کہ روح جسم ميں آنے سے پہلے اللہ کی عاشق تھی لیکن جسم کے ساتھ ملنے کی وجہ سے وہ اپنے اس عشق کو بھول گئی۔ اب اس کو دوبارہ وہ عشق یاد دلانے کے لئے ذکر اللہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے کہ ﴿اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُؕ﴾ (الرعد: 28) ترجمہ: یاد رکھو کہ اللہ کا ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)۔ قلب چونکہ دنیوی چیز ہے اور یہ روح کی تنزلی حالت ہے۔ یہ روح کا اپنے عاشق حق تعالیٰ کو بھول جانا بھی حق تعالٰی کی حکمت ہے، کیونکہ اس دنیا کو اللہ تعالٰی نے دارُ الامتحان بنایا ہے۔ ورنہ اگر حق تعالیٰ اپنی قہاریت کی صفت سے ہر ایک کو اپنی طرف جُھکا دیتا، تو کسی کی کیا مجال کہ اُس کی طرف سے روگردانی کرتا۔ جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرشتوں کو پیدا فرمایا ہے، تو وہ کسی بھی وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے سرتابی نہیں کرتے۔ تو یہ صفت اللہ تعالٰی نے انسان کو عطا فرمائی ہے کہ وہ اپنے اختیار سے جذب مبتدی کو حاصل کر لے اور سلوک طے کر لے، تو پھر حق تعالٰی اُس کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے جذب منتہی میں۔ اور یہ جذب مبتدی اور سلوک کا طے کرنا بھی خالص اُسی کا فضل اور اُسی کی محبت ہے۔ حق تعالٰی کی محبت انسان کی محبت کی طرح نہیں ہے، کیونکہ انسان کی محبت محدود ہے اور حق تعالٰی کی محبت لا محدود ہے، اس وجہ سے حق تعالٰی کی محبت کے رنگ بھی مختلف ہوتے ہيں، جن کو عارفین ہی پہچان سکتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ تکالیف انبیاء کرام پر آئی ہيں اور پھر اُن کے بعد جو اُن کے زیادہ نزدیک ہیں اُن پر۔ لہٰذا یہ تکالیف بھی حق تعالیٰ کی طرف سے محبت کا ایک انداز ہے، ورنہ نعوذ باللہ۔ کیا انبیاء کرام کو اللہ تعالٰی نفرت کی وجہ سے تکالیف تو نہیں دے رہے تھے۔ خلاصہ یہ ہے کہ محبت کی ابتداء بھی حق تعالٰی کی طرف سے ہے، اسے برقرار رکھنا بھی اُسی کی طرف سے ہے، کیونکہ توبہ کا دروازہ کھلا ہے اور اُس کی بڑھوتری بھی اُسی کی طرف سے ہے، کیونکہ حدیث قدسی سے ثابت ہے۔ اور حق تعالٰی کی محبت اختیاری ہے، جبکہ انسان کی محبت انجزابی یعنی اُدھر سے جو محبت ہے، اُس محبت کی کشش کی وجہ سے ہے۔ جیسے کہ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات میں آیا ہے کہ کوئی اللہ کا عاشق ہوتا ہے اور کوئی جنت کا ہوتا ہے۔ تو جو انجزابی محبت روح کو میسر ہوجاتی ہے، اُس کی بدولت وہ چاہتا ہے کہ میں اپنے محبوب کے لئے اُن اعمال کے علاوہ بھی کچھ کر لوں جو کہ اُس کا مطالبہ ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالٰی نے نوافل کی کوئی حد مقرر نہیں کی تاکہ محبین کی کچھ نہ کچھ تسلی ہوتی رہے۔ انہی نوافل سے روح اپنے محبوب کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کرتی ہے اور اسی پر ترقی ہے۔ تو نوافل کی وجہ سے اہلِ محبت کو کچھ تسلی ہو جاتی ہے۔ البتہ یہ بات ہے کہ چونکہ بنیاد فرائض ہے، اس وجہ سے نوافل کی وجہ سے اگر فرائض متاثر ہو رہے ہوں، تو پھر نوافل کو روکا جائے گا۔ یہ نوافل دو قسم کے ہیں: ایک تو یہ کہ اعمال میں زیادتی کی جائے اور دوسرا یہ کہ اُس کی معرفت میں زیادتی کی جائے۔ کم از کم معرفت اعمال کی یہ ہے کہ وہ فرض ادا ہونے سے رہ نہ جائے۔ یہ تو سب پر فرض ہے۔ پھر اس میں بڑھوتری فرض نہیں لیکن آگے بڑھنا اسی پر منحصر ہے۔ کیونکہ فرائض میں تو سب برابر ہیں۔ اب یہ بات ہے کہ ایک سالک کے لئے آیا اعمال کو بڑھانا بہتر ہے یا اُس کے معرفت کو بڑھانا؟ تو یہ فیصلہ شیخ کا ہے، سالک کا نہیں ہے۔ کیونکہ وہ اس سے ناواقف ہے کہ کس چیز میں اُس کا فائدہ ہے اور کون سا کام وہ کر سکتا ہے اور کونسا نہیں کر سکتا۔ تو فرائض جیسے ظاہری اعمال کے پورے ہونے چاہئیں، اسی طرح اُس کی معرفت بھی اتنی ہونی چاہئے کہ وہ رہ نہ جائیں۔ یہ عبادات میں بھی ہے، معاملات میں بھی، معاشرت میں بھی اور اخلاق میں بھی ہے۔ افسوس کہ آج کل نوافل سے اعراض ہو رہا ہے اور اکثر اعراض علماء کر رہے ہیں. وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ نوافل عوام کے لئے ہیں، علماء کے لئے نہیں ہیں۔ یہ بہت ناسمجھی کی بات ہے۔ کیونکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پوری پوری رات نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے، اسی طرح حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ روزانہ 100 رکعت نوافل پڑھتے تھے۔ کیا وہ علماء نہیں تھے؟ لیکن جیسا کہ حضرت مجدد صاحب رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالٰی ایک حجاب علم کا برقرار رکھتے ہیں۔ اسی علمی حجاب کی وجہ سے بعض علماء نوافل کو چھوڑ دیتے ہیں۔ تو یہ علم کا حجاب بن جانا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ دیکھیں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس دور کے مجدد ہيں، وہ خود فرماتے ہیں کہ پہلے میں نفلی اعمال بہت کرتا تھا لیکن جب میں نے منیۃُ المصلی میں یہ پڑھا کہ مستحبات کی پوچھ نہیں ہوگی کہ یہ پڑھے ہیں یا نہیں تو میرے بہت سے نفلی اعمال چھوٹ گئے۔ حضرت نے اس میں اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ علم میرے عمل کے لئے ایک حجاب بن گیا۔ لیکن یہ حجاب بعد میں کیسے دور ہوگیا؟ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت سے۔ حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اصطلاحی عالم نہیں تھے لیکن حضرت سے بہت بڑے بڑے علماء بیعت ہوئے اور حضرت کی برکت سے ان علماء کو عمل نصیب ہوا، جیسے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے بیعت ہونے کا واقعہ کتابوں میں موجود ہے۔ یہ تو ظاہری نوافل کی بات ہوگئی۔ اسی طرح نفلی معرفت بھی ان حضرات کو حضرت حاجی صاحب سے ہی ملی۔ یہاں یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کہ ان حضرات کو فرض معرفت حاصل نہیں تھی، کیونکہ یہ حضرات فرائض کا اہتمام تو کرتے تھے، تو فرض معرفت تو حاصل تھی لیکن نفلی معرفت حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ہی حاصل ہوئی۔ اسی طرح حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے ایک ولی اللہ حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں جایا کرتے تھے، کسی نے پوچھا حضرت! آپ وہاں کیوں جاتے ہیں؟ وہ تو عالم نہیں ہیں اور آپ امامِ وقت ہيں۔ حضرت نے جواب دیا کہ جب میں وہاں جاتا ہوں، تو مجھے عمل کی توفیق حاصل ہوجاتی ہے۔ حاصلِ کلام یہ ہوا کہ علماء کو بھی اہل اللہ کی صحبت اختیار کرنی چاہئے تاکہ ان کا علمی حجاب ان کی ترقی میں مانع نہ ہوجائے۔ نفلی معرفت یہ ہے کہ ہر عمل کی حقیقت کُھل جائے، جیسے نماز کیا ہے؟ روزہ کیا ہے؟ جیسے نماز کے بارے ميں یہ فرمایا گیا ہے کہ "اَلصَّلٰوۃُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِیْنَ"۔ تو علمی طور پر تو علماء کو پتہ ہوگا لیکن یہ بات کہ جس وقت وہ نماز پڑھ رہے ہوں، اُس وقت ان کو ان الفاظ کی کیفیت حاصل ہو۔ یہ معرفت ہے۔ اسی وجہ سے حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ للہ علیہ نے یہ فرمایا کہ ہمیں چیزوں کے ناموں کا پتہ تھا کہ آم بھی ہوتا ہے، کیلا بھی ہوتا ہے، ککڑی بھی ہوتی ہے، لیکن کھائی کوئی چیز نہيں تھی، حاجی صاحب کے ہاں جب چلے گئے، تو حاجی صاحب ایک ایک چیز ہمیں کھلاتے جاتے تھے۔ اس وجہ سے خالص تصوف ان صوفیاء کے ہاں ملتا ہے جو اصطلاحی عالم نہ ہوں، جیسے حلیمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے ایک دفعہ فرمایا کہ ہمیں خالص تصوف حضرت میخ بند باباجی رحمۃ اللہ علیہ نے سکھایا۔ یہ یہی چیز ہے کہ جو علماء ہوتے ہیں وہ اعمال کے فضائل میں گُم ہوجاتے ہيں اور اُن اعمال کی معرفت تک وہ اُس درجے میں نہیں پہنچ پاتے، جیسا کہ ایک غیر عارف پہنچ سکتا ہے۔ یہ بہت باریک بات ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو عالم ہوتا ہے وہ اپنے علم سے باہر نہيں نکل سکتا۔ لیکن جو اصطلاحی عالم نہ ہوں، اُن کے لئے چونکہ علمی حجاب نہيں ہوتا، اس وجہ سے اعمال کی معرفت اُن پر کُھل جاتی ہے۔ ہمارے صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء کے جوڑ میں اعمال پر زیادہ زور ہوتا ہے۔ مجھے ایک بہت بڑے عالم جو کہ بہت بڑے شیخ بھی تھے، اُن کے سلسلے کے اجتماع پر مدعو کیا گیا تو وہاں میں نے یہی چیز دیکھی۔ چونکہ اُس میں علماء زیادہ تھے، اس وجہ سے وہاں اعمال پر زور نہيں تھا بلکہ فضائل پر زور تھا۔ بہر حال ایک تو بنیاد کو کمزور نہيں کرنا چاہئے اور بنیاد فرائض ہے، تو جہاں پر نوافل سے فرائض متاثر ہو رہے ہوں، وہاں پر نوافل کو روکا جائے گا۔ لیکن دوسری طرف نوافل سے اعراض بھی نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ آگے بڑھنے کا میدان نوافل ہيں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اپنے معیار کو کم نہیں کرنا چاہئے۔ جو معیار شریعت نے مقرر کیا ہے اُسی کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ جو چیزیں اللہ تعالٰی نے منع فرمائی ہیں، اُن کو ممنوع ہی سمجھنا چاہئے۔ یہ نہیں کہ اگر اُس سے زیادہ بُری چیزیں آگئیں تو وہ جائز ہوگئیں۔ یہ تو عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ اگر زیادہ خراب چیز آجائے، تو پہلے جس کو خراب سمجھا جا رہا تھا، وہ اب جائز ہوگئی۔ اس سے اباحیت پیدا ہوتی ہے۔ جس میں انسان توبہ سے محروم ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر معیار کو برقرار رکھا، تو اپنے آپ کو مجرم سمجھے گا۔ ٹھیک ہے اُس میں بھی نقصان تو ہوگا لیکن اپنے آپ کو مجرم سمجھے گا اور توبہ کی توفیق ملے گی۔ مجھے کسی نے کہا کہ اب تو ٹیلی وژن سے بھی خراب چیزیں آگئی ہیں، تو آپ اب بھی ٹیلی وژن کو خراب کہہ رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ ہاں میں اب بھی ٹیلی وژن کو خراب کہہ رہا ہوں۔ کیونکہ معیار کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ میں اُن خراب چیزوں کی ٹیلی وژن سے بھی زیادہ مخالفت کروں گا لیکن اُن کی وجہ سے ٹیلی وژن کو جائز نہیں کہوں گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر آج اس کو جائز کہہ دیا اور اب جو اُس سے زیادہ خراب چیزیں آگئی ہيں، کل ان چیزوں سے بھی زیادہ خراب چیزیں آجائیں گی، تو پھر ان کو بھی جائز کہنا پڑے گا اور یہ سلسلہ کبھی بھی نہیں رُکے گا۔ تو تین باتیں ہوگئیں۔ بنیاد کو کمزور نہیں کرنا چاہئے، معیار کو برقرار رکھنا ضروری ہے اور آگے بڑھنے کے لئے نوافل کا اہتمام کرنا چاہئے۔ فرائض بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ standard (معیار) کو shift نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ اس سے انحطاط پیدا ہوتا ہے۔ اور اگر standard (معیار) کو برقرار رکھا جائے، تو انسان اپنی کمزوریوں اور غلطیوں پر روتا رہتا ہے اور گڑ گڑاتا رہتا ہے اور توبہ کرتا رہتا ہے۔ اس وجہ سے بنیاد کو نہیں ہلانا چاہئے۔ فرائض آپ کو بنیاد فراہم کرتے ہیں، اُن کے بغیر تو آپ اُس اضافے کے اہل ہی نہیں ہیں۔ وہ تو آپ نے اپنا نقصان کر دیا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کو بڑے عجیب انداز ميں فرمایا ہے کہ اپنے محلے کی مسجد کو چھوڑ کر جامع مسجد میں نماز پڑھتا ہے، تو اُس کو اصول کے مطابق 50 نمازوں کا ثواب ہی ملے گا جبکہ اپنے محلے کی مسجد میں اُس کو 25 نمازوں کا ثواب ملے گا لیکن یہ ایسا ہے جیسے کوئی 25 روپے کو 50 پیسے کے لئے چھوڑ دے۔ کیونکہ اپنے محلے کی مسجد کو آباد کرنا اُس پر واجب ہے، تو اس واجب کو ترک کرنے کی وجہ سے اُس کا روپیہ پیسہ بن گیا اور وہ ایک پیسہ جامع مسجد کی وجہ سے 50 گنا ہوگیا۔ تو 50 نمازوں کا ثواب اُس کو مل تو گیا لیکن 50 پیسوں کا۔ اور اس کے مقابلے میں اُس نے 25 روپے چھوڑ دئیے۔ یہ فقاہت ہے۔ لہٰذا نہ ہمیں اپنے standard (معیار) کو shift کرنا چاہئے، نہ بنیاد کو ہلانا چاہئے اور نہ آگے بڑھنے کی کوشش کو ترک کرنا چاہئے۔ یہ تینوں چیزیں اپنی اپنی جگہ پر اہم ہیں اور یہی معرفت ہے۔ جو معرفت میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے، وہ عین مشیتِ الٰہی کے مطابق کام کرتا ہے، کیونکہ یہ حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالٰی فرماتے ہيں کہ میں چُھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں، تو ميں نے مخلوق کو پیدا کیا۔ لیکن دوسری طرف اللہ تعالٰی یہ بھی چاہتا ہے کہ انسان بے باک نہ ہوجائے۔ اس وجہ سے جن کو اپنی معرفت عطا فرما دیتا ہے، اُن پر پہرہ لگا دیتا ہے کہ وہ اس بارے میں زیادہ بات نہ کریں۔ یعنی اُس کی طبیعت ایسی بنا دیتا ہے کہ وہ خود تو نہيں چاہتا کہ میں اس بارے میں کچھ بات کروں، البتہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے بات کرتا ہے۔ جیسے خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے کلام سے بھی یہ بات واضح ہو ر ہی ہے، جس میں حضرت نے یہ فرمایا کہ میں خود تو ایسی باتیں کرنا نہیں چاہتا لیکن حکمِ الٰہی ہے کہ میں بات کروں اس بارے میں، تو تعمیلِ حکم میں کررہا ہوں۔ اسی طرح حدیث شریف ميں یہ بات آئی ہے کہ لوگ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج کرتے ہیں لیکن روزِ قیامت اُن کو اجر اُن کی عقل کے بقدر ملے گا۔ تو یہاں معرفت کی بات ہوئی ہے، کیونکہ معرفت عقل کا کام ہے۔ تو جو اللہ جل شانہٗ چاہتے ہیں کہ انسان ان اعمال کی معرفت حاصل کر لے۔ اس وجہ سے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ عارف کی دو رکعت کی نماز غیر عارف کی لاکھوں رکعتوں سے افضل ہوتی ہے۔ تو یہ ایک ایسی چیز ہے جو کہ لازم نہیں کی گئی لیکن رفعتیں اسی پر ہیں۔ البتہ یہ بات ہے کہ نوافل کا مقابلہ نوافل کے ساتھ کرو، فرائض کے ساتھ نہ کرو۔ جیسے ایک شخص کو نماز کی معرفت نوافل کے درجے میں ہو لیکن حرام کمائی میں مبتلا ہو، تو یہ اس کی معرفت صحیح نہیں ہے۔ یہ تو خیر ویسے ہی ایک بات ہے۔ اس طرح عملاً ناممکن ہے، کیونکہ نماز کی خاصیت ہے کہ وہ حرام کاموں سے بچاتی ہے، اس لئے جس کو نماز کی معرفت ہو، وہ کیسے حرام میں مبتلا ہو سکتا ہے؟