کسی بھی ایک سلسلہ میں مکمل فنائیت مطلوب ہے


بچوں کو سمجھانے کے لئے ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ اگر پانی 200 فٹ پر ہے، تو 50، 50 فٹ کے کتنے کنویں کھودے جائیں کہ پانی تک پہنچ جائیں؟ کیا چار کنویں کھودنے پڑیں گے؟ نہیں۔ کیونکہ 50، 50 فٹ کے 4 کنوؤں سے کام نہیں چلے گا بلکہ ایک کنواں کم از کم 200 فٹ ہونا چاہیے۔ اس سے میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ 4 سلسلے ہیں، اگر آپ چاروں سلسلوں کا سلوک 25، 25 فیصد تمام کر لیں تو کیا آپ فنا حاصل کر لیں گے؟ یہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ آپ کسی بھی ایک طریقے میں فنا تک نہ پہنچ جائیں۔ اس لئے سیر سپاٹے کو چھوڑو اور اصل مقصود تک پہنچنے کی کوشش کرو۔ بعض لوگ سیر سپاٹے کرتے ہیں کہ ہمیں یہ بھی بتاؤ، وہ بھی بتاؤ۔ بھائی تمہیں کیا ضرورت ہے؟ تم اصل چیز تک پہنچو۔ چنانچہ کسی بھی سلسلے سے اگر آپ کو فائدہ مکمل ہو گیا اور آپ حقیقت تک پہنچ گئے، تو بس آپ کا کام ہو گیا۔ سلسلہ کو نہ دیکھو، نتیجے کو دیکھو۔ جو لوگ سلسلوں کے اندر باتیں کر رہے ہوتے ہیں، وہ اپنے اصل مقصود سے ہٹ جاتے ہیں۔ اصل مقصود یہ ہے کہ فنائیت حاصل کر لو، چاہے نقشبندی سے حاصل کرو، چاہے چشتیہ سے حاصل کر لو، چاہے سہروردی سے حاصل کرو، چاہے قادری سے حاصل کرو۔ "لَآ اِلٰہَ" فنائیت ہے، "اِلَّا اللہ" بقا باللہ ہے۔ پہلے سب کچھ چھوڑو گے، پھر اللہ کو پاؤ گے۔

کوئی بھی ایک رزیلہ تباہی کے لئے کافی ہے:

اگر یہ رذائل آپ نے مکمل نہیں دبائے اور فنائے کامل حاصل نہیں ہوئی، تو کوئی بھی رذیلہ تمہیں غرق کرنے کے لئے کافی ہے۔ جیسے وزن آپ بڑھاتے جائیں، بڑھاتے جائیں یہاں تک کہ ایک limit (حد) ایسی آ جائے کہ اس سے تھوڑا سا بڑھا، تو کشتی غرق ہو جائے گی، اور اگر تھوڑا کم ہو تو وہ تیرتی رہے گی۔ اسی طرح اپنے اوپر گناہوں کا بوجھ نہ لادو، رذائل کو فنا کر لو، ورنہ یہ تمہیں غرق کر دیں گے۔

مدہوشی میں نورانیت:

انسان کا ہوش اگر نفس کے تقاضوں کے ساتھ ہے، تو یہ تباہی ہے۔ کیونکہ نفس کے تقاضے اس کو کھینچیں گے، کبھی کون سی چیز اپنی طرف کھینچے گی، کبھی کون سی چیز کھینچے گی، لہٰذا وہ تباہی کی طرف جائے گا۔ اس سے کم از کم اتنا رخ موڑنا کہ تمہیں کھینچ نہ سکے، یعنی اتنا مدہوش ہونا ضروری ہے۔ اس مدہوشی میں جب آپ مشاہدۂ حق میں مستغرق ہو جاتے ہیں، گویا کہ انسان اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور مخلوق سے کٹ جاتا ہے، تو ایسی صورت میں وہ خود نورانی بن جاتا ہے۔ کیونکہ اب وہ اپنے آپ سے نہیں دیکھ رہا بلکہ اللہ کے نور سے دیکھ رہا ہے، کیونکہ اس نے اپنے ظلمات کے سارے راستے گم کر دیئے ہیں۔ تو دو ہی چیزیں ہیں: ایک روشنی ہے اور ایک ظلمت ہے۔ ظلمت کے فنا ہونے کو نور کہتے ہیں اور نور کے فنا ہونے کو ظلمت کہتے ہیں۔ نور نہ ہو، تو ظلمت چھا جاتی ہے اور جب ظلمت نہ ہو، تو اس کو پھر نور کہیں گے۔ اسی طریقے سے جس وقت وہ ظلمت والی چیزیں یعنی رذائل دب جائیں اور فنائیت حاصل ہو جائے، تو اس سے مشاہدۂ حق میں مستغرق ہونا فی البدیہہ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ یہی رکاوٹ ہے۔

"دَعْ نَفْسَکَ وَتَعَالْ"۔

ترجمہ: "اپنے نفس کو چھوڑ دے اور میرے پاس آ جا"۔

یعنی یہی رکاوٹ ہے۔ چنانچہ ہمارا وہ ہوش جو ہمیں ہمارے نفس کی طرف مائل کر دیتا ہے، وہی ظلمت ہے، وہی حق سے حجاب ہے، جب وہ ہوش ہم کھو دیتے ہیں، تو مشاہدۂ حق میں کوئی مانع نہیں رہتا۔ لہٰذا جب مشاہدۂ حق ہو جاتا ہے، تو وہ شخص خود بھی نورانی بن جاتا ہے، کیونکہ اپنے آپ سے نہیں کہتا بلکہ اللہ سے کہتا ہے، یعنی اللہ جل شانہٗ کے تعلق کے ذریعے سے کہتا ہے۔

حواسِ خمسہ کی فنائیت:

ہم لوگ جو اپنے پانچوں حواس کو استعمال کرتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں جب تک یہ فنا نہ ہو جائیں اس وقت تک کام نہیں بنتا، یعنی جب تک ان سب کا رخ ان چیزوں سے نہ ہٹ جائے جن کے لئے عام طور پر یہ حواس استعمال ہوتے ہیں بلکہ صرف اللہ کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ یعنی آنکھ بھی دیکھنا چاہے تو اس کو دیکھنا چاہے، کان سننا چاہے تو اس کی سننا چاہے، کچھ سوچنا چاہے تو اس کو سوچے، گویا ہماری ہر حس اس کے لئے ہو جائے۔ جیسے ابتدا میں سب کو فنا کرنا ہوتا ہے، اس کو فنائیت کہتے ہیں۔ اس کے بعد جب اللہ اس فنائیت کو قبول فرماتے ہیں، تو اگر اس کو واپس لوٹاتے ہیں، تو اس کو ان تمام چیزوں کا علم دوبارہ دے دیتے ہیں۔ لیکن اب ان تمام چیزوں کے لئے ہمارے حواس اس کے حکم سے استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے ماں کا حکم ماننا انسان کی طبیعت کا بھی تقاضا ہے، باپ کا حکم ماننا انسان کی طبیعت کا بھی تقاضا ہے، اس طرح بھائی، بہن کے ساتھ محبت انسان کی طبیعت کا بھی تقاضا ہے، بیوی کے ساتھ محبت کرنا انسان کی طبیعت کا بھی تقاضا ہے، اولاد کے ساتھ محبت کرنا انسان کی طبیعت کا بھی تقاضا ہے، اپنے وطن کے ساتھ محبت کرنا انسان کی طبیعت کا تقاضا ہے، ان سب سے انکار نہیں ہے، لیکن یہ سارے تقاضے اگر دب جائیں اور صرف ایک رہ جائے کہ ماں کا حکم اس لئے مانو، ماں کے ساتھ محبت اس لئے کرو کہ اللہ چاہتا ہے۔ باپ کا حکم اس لئے مانو کہ اللہ چاہتا ہے۔ بھائی بہن کے ساتھ اس لئے محبت کرو کہ اللہ چاہتا ہے۔ اولاد کے ساتھ اس لئے محبت کرو کہ اللہ چاہتا ہے۔ بیوی کے ساتھ اس لئے محبت کرو کہ اللہ چاہتا ہے۔ یہ ساری وہی چیزیں ہیں، ان میں فرق نہیں آیا، لیکن نتیجے میں بہت بڑا فرق آیا۔