خواب تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک اضغاثِ احلام ہوتے ہیں، ان کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ ان میں کوئی ترتیب نہیں پائی جاتی۔ دوسرے شیطانی وساوس ہوتے ہیں جو کسی کو شیطانی نظام کی طرف لانے کے لئے ہوتے ہيں، یہ کسی بھی صورت میں آسکتے ہیں حتیٰ کہ شیطان خواب میں یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میں اللہ ہوں۔ لیکن ایک صورت اُس پر بند ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت ميں نہيں آسکتا اور شیخ کی صورت ميں نہیں آسکتا۔ تیسرے مبشرات ہوتے ہيں۔ اور ان میں اللہ کی طرف سے جو الہام ہوتا ہے وہ خوابوں کی صورت ميں آتا ہے، اور اُس کی کوئی تاویل بھی ہوتی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے جو خوابوں کی حوصلہ شکنی کی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اضغاثِ احلام کو بھی مبشرات میں شامل کر لیتے ہیں۔ اس لئے حضرت نے پہلے یہ کیا کہ جو خود پسندی اور خود رائی ہے اُس کو صاف کیا جائے، کیونکہ اس قسم کے جو لوگ ہوتے ہیں وہ اس سلسلے میں کافی حساس ہوتے ہيں، جب بھی کوئی خواب نظر آئے فوراً اپنے آپ کو بزرگ بنا دیتے ہیں۔ اصل میں حضرت اس چیز کی حوصلہ شکنی کر رہے تھے۔ تاکہ یہ چیز آگے نہ بڑھے۔ کیونکہ جب یہ چیز کسی سے نکل جاتی تو خود ہی آپ اُن کو خواب کی تعبیر بتاتے تھے۔ لیکن عمومی طور پر اس کی حوصلہ شکنی کرتے تھے، کیونکہ اکثر لوگ پہلی قسم والے ہوتے ہیں۔ خواب دو شخصوں کا کشف ہے ایک دیکھنے والے کا اور ایک تعبیر بتانے والے کا۔ یعنی جو تعبیر بتانے والا ہوتا ہے اُس کو بھی خواب کی تعبیر منکشف ہو جاتی ہے۔ جیسے ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے حضرات نے جو خوابوں کی تعبیر بتائی ہے ان کے بارے میں کتابوں میں لکھا ہے کہ فلاں شخص نے یہ خواب سنایا تو مجھے فلاں آیت یاد آگئی۔ یہی کشف ہے۔ اس وجہ سے خواب کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ خواب ایسے شخص کو بتایا جائے کہ ایک تو وہ فن جانتا ہو اور دوسرا وہ خیر خواہ ہو۔ اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ چونکہ مجدّد تھے اس لئے وہ ان چیزوں کو صاف کرنا چاہتے تھے جو پہلے سے موجود تھیں لیکن غلط تھیں، اور وہ چیز لانا چاہتے تھے جو صحيح ہو۔ مثلاً ایک دیوار پر زرد رنگ ہوا پڑا ہے اور میں اس پر سبز رنگ کرنا چاہتا ہوں، تو کیا میں سبز رنگ کر لوں گا؟ نہیں، بالکل نہیں۔ بلکہ میں ایسا رنگ دوں گا جو زرد کے ساتھ مل کر سبز ہو جائے۔ حضرت نے بھی وہ بات بتا دی جو پہلے سے موجود چیز کے ساتھ مل کر مطلوبہ نتیجہ برآمد کر سکے۔ یہ علم عظیم ہے اور یہ اللہ تعالی مجدّدین کے حصہ میں دیتے ہیں کیونکہ وہ اصلاح کرتے ہیں اور اصلاح بھی ایک فرد کی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی کرتے ہیں۔