اگر انسان کا آخرت پر یقین مضبوط ہے اور اللہ تعالٰی کے وعدوں پر یقین ہے اور قرآن کو ایک سچی کتاب مانتا ہے اور احادیث شریفہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال پر بھی اس کو یقین ہے، تو ایسی صورت میں بے صبری طبعی ہوسکتی ہے، عقلی نہیں ہوسکتی۔ میں طبعی اور عقلی کی بے صبری کی ایک مثال دیتا ہوں، بہت عمدہ مثال ہے، جب انسان کو خارش ہوتی ہے، تو وہ اس سے تنگ ہوتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ اس میں کوئی دوسری بات نہیں ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنا خارش کرو گے، اتنی ہی خارش بڑھے گی۔ اب عقل کا تقاضا یہ ہے کہ انسان خارش نہ کرے تاکہ خارش نہ بڑھے، بلکہ اس کو برداشت کرے تو خارش کم رہے گی، کیونکہ خارش کرنے سے بڑھتی ہے بلکہ بعض دفعہ اگر زخم ہو، تو بگڑ سکتا ہے بلکہ زخم نہ ہو، تو زخم ہوسکتا ہے۔ تو عقل کا تقاضا یہ ہے کہ خارش نہ کرے جبکہ طبیعت کا تقاضا ہے کہ خارش کرے۔ اب جس نے عقل کو طبیعت پر غالب کردیا، وہ بچ گیا اور جو طبیعت پر عقل کو غالب نہیں کر سکا، اُس نے اپنی مصیبت کو دعوت دے دی، خارش آگے بڑھے گی۔ بس یہی بات ہے کہ یہاں معاملہ اس طرح ہے کہ جو طبعی بے صبری ہے، اس کو عقلی صبر کے ذریعے سے کنٹرول کرے، یعنی عقل سے اس کو جواب دے کہ اللہ کی بات سچی ہے اور میں کیوں نہ اپنے فائدہ کا سوچوں؟ مجھے مسلسل دعا کرنی چاہئے، زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ یہاں اس کا نتیجہ نہیں نکلے گا، مگر قیامت میں تو اس کا اجر محفوظ رہے گا اور اُسی وقت مجھے زیادہ چاہئے، لہٰذا اگر اللہ پاک نے میرے لئے یہی فیصلہ کیا ہے کہ مجھے سارا کچھ وہیں پر مل جائے، تو میں کیوں اپنے اجر کو کم کروں۔ اس لئے مسلسل وہ دعا کرتا رہے۔ بس یہی بنیادی بات ہے کہ انسان کو دو کاموں میں سے ایک کام ضرور کرنا چاہیے، اپنے ایمان کو مضبوط کرے اور یقین کو مضبوط کر لے۔ اس سے عقل بن جائے گی، کیوںکہ یقین عقل سے آتا ہے، تو یہ عقلی استحضار ہوگا اور پھر اس کے ذریعے سے طبیعت کو کنٹرول کر لو، یہ shortcut ہے۔ اصل چیز کیا ہے؟ وہ پورے سلوک کو طے کرنا ہے، جس میں مقامِ صبر پورا ایک مقام ہے، اس کو حاصل کرنا ہے اور پھر اس میں مقامِ توکل بھی آتا ہے اور پھر اس میں مقامِ تسلیم بھی آتا ہے اور اس میں مقامِ رضا بھی آتا ہے۔ اب بتاؤ یہ سارا اس کا علاج ہے یا نہیں ہے؟ پس اگر کسی کو مقامِ صبر مل گیا، تو وہ صبر کرے گا، مقامِ توکل مل گیا، تو کہے گا اللہ پاک جہاں سے بھی چاہے تو کر سکتا ہے۔ اور اگر مقامِ تسلیم مل گیا تو ساری چیزوں کو دل سے مان لے گا۔ بس پھر اس میں درمیان میں کوئی بات نہیں ہوگی اور آخری مقام یعنی مقامِ رضا میں تو یہ سوال ہی ختم ہوجائے گا۔ بہرحال تفصیلی طریقہ تو یہی ہے۔ جو اصل طریقہ ہے، وہ سلوک طے کرنا ہے جبکہ shortcut کیا ہے؟ وہ اپنے یقین کو جو عقلی ہے، اس کو بے صبری جو طبعی ہے، اس پر وقتی طور پر غالب کرنا ہے، وقتی طور پر ایسا ہوسکتا ہے، دونوں باتیں وقتی ہوتی ہیں۔
نفس کو وقتی طور پر کنٹرول کرنے کے دو طریقے: دل سے جو signal جاتا ہے نفس کی طرف، یہ بھی وقتی ہوتا ہے اور جو عقل سے signal جاتا ہے نفس کی طرف، وہ بھی وقتی ہوتا ہے، کیونکہ نفس ایسی چیز ہے کہ یہ وقتی طور پر عقل سے convince (قائل) بھی ہوسکتا ہے اور وقتی طور پر دل سے دب بھی سکتا ہے، تو عقلی طور پر جو کام کرتے ہیں وہ اخیار ہیں، اور جو قلبی طور پر کام کرتے ہیں وہ مجذوب ہيں، اور یہ کام وہ مستقل طور پر نہیں کر سکتے۔ کیونکہ نفس بعد میں ان سب چیزوں کو ہضم کر لیتا ہے اور پھر اپنا زور دکھاتا ہے، اُس وقت عقل بھی کام نہیں کرتی اور اس وقت دل بھی اداس ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اصلی علاج تو یہی ہے۔ اس وجہ سے اخیار جو اپنی عقل کے ذریعے سے اپنے احوال کو کنٹرول کرتے ہیں، وہ مستقل نہیں ہوتے، ان کو بار بار کرنا پڑتا ہے۔ جیسے یونانی تھے، انہوں نے عقلی طور پر نفس کو قابو کیا تھا، تو اصلی چیز تک نہیں پہنچ سکے، اخیار اپنی قوتِ ارادی کے ذریعے شریعت پر چلتے رہتے ہیں اور چونکہ شریعت کے اعمال میں جذب خود بخود موجود ہے، تو اُن اعمال سے اُن کو جذب ملتا رہتا ہے جو کہ ان کو آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے لیکن چونکہ وہ اپنے طور پر چل رہے ہوتے ہیں اس لئے اس جذب کو وہ سمجھ نہيں رہے ہوتے۔ یہ طریقہ طویل بھی ہے اور مشکل بھی ہے، اس وجہ سے اگرچہ زیادہ تر چلنے والے اس طریقے پر چل رہے ہوتے ہیں لیکن ان میں کامیاب بہت کم ہوتے ہیں۔ دوسرا طریقہ ابرار والا ہے کہ وہ عقلی طور پر اپنے آپ کو اس بات پر convince (قائل) کر لیتے ہیں کہ مجھے کسی مصلح کی ضرورت ہے۔ لہٰذا وہ اپنے لئے مصلح ڈھونڈ لیتے ہیں اور پھر اُس کی ہدایات پر عمل کرتے رہتے ہیں۔ اس سے اُن کا سلوک طے ہوجاتا ہے اور نفس پر مستقل طور پر اُن کو کنٹرول حاصل ہوجاتا ہے۔ یہ ابرار والا طریقہ ہے۔ اس طریقے پر چلنے والے اکثر کامیاب ہوتے ہیں۔
علوم عظیمہ ماخوذ از مطالعہ سیرت بصورت سوال 15 ستمبر 2021ء