سورۃ البقرۃ کی بالکل ابتدائی آیات ميں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿الٓمّٓۚ ذٰ لِكَ الۡڪِتٰبُ لَا رَيۡبَۛۚۖ فِيۡهِۛۚ هُدًى لِّلۡمُتَّقِيۡنَۙ﴾ (البقرۃ: 1۔2)
ترجمہ: "الم۔ یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں، یہ ہدایت ہے ان ڈر رکھنے والوں کے لئے"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
اس کتاب میں کوئی شک نہيں اور اس میں متقین کے لئے ہدایت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو متقی نہیں ہے، وہ اس کتاب سے ہدایت نہیں لے سکتا۔ تقوٰی چونکہ دل میں ہوتا ہے، لہٰذا اس سے دل کی اصلاح کا ضروری ہونا ثابت ہوا۔ اگلی آيت میں اس تقوٰی کے حصول کا procedure (طریقۂ کار) بیان فرمایا گیا ہے کہ متقی لوگوں کی نشانی کیا ہے؟
﴿اَلَّذِيۡنَ يُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَيۡبِ وَيُقِيۡمُوۡنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقۡنٰهُمۡ يُنۡفِقُوۡنَۙ﴾ (البقرۃ: 3)
ترجمہ: "جو بے دیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے (اللہ کی خوشنودی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
یعنی تقوٰی کے لئے پہلی شرط ایمان کا حصول ہے اور ایمان بھی دل میں ہوتا ہے، گویا کہ دل کی اصلاح کی ابتدا ایمان سے ہوتی ہے۔ ایمان کے بعد اعمالِ صالحہ کی باری آتی ہے اور اعمال انسان نفس کے ذریعے کرتا ہے، جب تک نفس کی اصلاح نہ ہو چکی ہو، اُس وقت تک انسان عمل نہيں کر سکتا۔ تو یہاں دو بڑے اعمال کا ذکر کیا ہے، بدنی اعمال کی سردار نماز اور مالی اعمال کی سردار زکوٰۃ کا ذکر کیا ہے۔ نماز سے انسان کے اندر عبدیت آتی ہے اور اُس کے نفس کی سرکشی ختم ہوتی ہے۔ نماز انسان کے بڑے پن کو ختم کرتی ہے جو کہ نفس کا سب سے بڑا جال ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ کے ذریعے سے حُبّ مال کا علاج ہوتا ہے۔ تو یہاں سے نفس کی اصلاح کا ضروری ہونا معلوم ہوا۔ پھر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے غور و فکر کا مادہ رکھا ہے، تو اس مادے کے صحيح استعمال کا تعین کیا گیا ہے کہ جو لوگ متقین ہیں، وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یقین انسان کو غور و فکر سے حاصل ہوتا ہے جو کہ عقل کا کام ہے۔ اس سے عقل کی اصلاح کا لازمی ہونا ثابت ہوا کہ جب عقل صحیح ہوگی اور ایمانی اخبارات میں غور و فکر کرے گی، تو وہ آخرت پر یقین رکھے گی۔ اسی طرح جب نفس کی اصلاح ہو چکی ہوگی، تو وہ اُن اعمال کے کرنے کے لئے تیار ہوگا جس کا تقاضا ایمان کر رہا ہے، تو پھر یہ نفس تقوٰی کو generate (پیدا) کرے گا اور اس کو دل میں store (ذخیرہ) کرے گا لیکن دل میں تب store (ذخیرہ) ہوسکے گا جب اس کے لئے جگہ بنی ہوگی اور وہ جگہ ایمان بالغیب کے ذریعے بنے گی۔ گویا کہ دل، نفس اور عقل تینوں کا آپس میں تعامل ہوگا اور تینوں اپنے اپنے طور پر ٹھیک ہوں گے، تو پھر قرآن سے ہدایت کا رستہ بنے گا۔