فرمایا کہ ہمارے بہت سے اہل اللہ شعراء اور صوفیاء حضرات یہ فرماتے ہیں کہ عقل کو عشق کا تابع بناؤ۔ عشق دل کا معاملہ ہے، اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ دل کو اللہ تعالیٰ کی محبت سے معمور کر لو اور عقلِ معاش پر اس کو غالب کر دو۔ یہاں عشق کو عقلِ معاد پر غالب کرنے کی بات نہيں ہے، کیونکہ عقلِ معاش بھی ہے اور عقلِ معاد بھی ہے۔ اور دل کی بھی دو حالتیں ہیں: ایک وہ حالت جب اس میں دنیا کی محبت ہو اور دوسری وہ حالت جب اس میں اللہ کی محبت ہو، تو اہل اللہ جو فرماتے ہیں، اس سے اُن کی مراد یہی ہوتی ہے کہ اللہ کی محبت میں پھر عقلِ معاش کو نہ دیکھو، کیونکہ عقلِ معاش تو یہاں کا آپ کو بتائے گی، جیسے علامہ اقبال نے کہا تھا:
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لب ِ بام ابھی
اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت نے عقلِ معاش کو شکست دے دی اور اُس کی پروا نہیں کی۔
(علومِ عظیمہ درسِ مثنوی 17 جنوری 2021ء)