﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ﴾ کی تشریح:
اس آیتِ کریمہ میں اس بات سے ڈرایا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اونچی آواز سے بات نہ کریں، کہیں تمہارے اعمال ضائع نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔ صحابہ کی حالت حقیقت میں پھر ایسے ہی ہو گئی تھی۔ یعنی بات بھی کرتے تھے کیونکہ بات کرنا ضروری بھی تھا لیکن اس کے ساتھ یہ ڈر بھی تھا کہ کہيں اعمال ضائع نہ ہوجائیں۔ اور یہ بہت مشکل حالت ہوتی ہے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے ہیں اور صحابہ کرام بھی دنیا میں نہيں ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ موجود ہے اور وہ دیکھ رہا ہے، اس لئے یہ ڈر اللہ تعالیٰ کے متعلق انسان کو ہونا چاہئے کہ کہیں کسی وجہ سے میں نقصان میں نہ چلا جاوں۔
﴿وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى﴾ (النّٰزِعٰت: 40)
ترجمہ: "لیکن وہ جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے کا خوف رکھتا تھا اوراپنے نفس کو بری خواہشات سے روکتا تھا"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
یعنی صرف اتنا ڈر نہ ہو بلکہ اس سے عملی نتیجہ برآمد ہو اور وہ یہ ہے کہ اپنے نفس کو خواہش سے روکے ۔
باندرين ره می تراش و می خراش
تا دم آخر دمی غافل مباش
یہی تقویٰ ہے کہ انسان کو ہر وقت یہ فکر ہو کہ اللہ کہیں مجھ سے کسی بات پر ناراض نہ ہوجائے