اختلاف کی ایک صورت، حال کے اختلاف سے بھی ہوتی ہے. ایک دفعہ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ دریا کے کنارے کشتی کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ اس دوران حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ وہاں آگئے۔ حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کہ یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ دریا کے اُس پار جانے کے لئے کشتی کا انتظار کر رہا ہوں۔ حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ چونکہ اس وقت ایک حال میں تھے اس لئے فرمایا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ پر یقین نہیں ہے؟ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کیا آپ کو علم نہیں ہے؟ اس کے بعد حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ اسی طرح بغیر کشتی کے دریا میں چل پڑے، جبکہ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کشتی کے انتظار میں بیٹھے رہے۔ جب کشتی آگئی تو دریا کو پار کیا۔
یہ بھی ایک قسم کا اختلاف ہے اور یہ اختلاف حال کے اختلاف کی وجہ سے ہے اور اللہ تعالیٰ ہر ایک کے حال کے مطابق اس سے معاملہ فرماتے ہیں جیسا کہ حدیثِ قدسی ہے:
"أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِيْ بِيْ" (صحیح بخاری: 7405)
ترجمہ: "(اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) "میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جو وہ میرے ساتھ کرتا ہے"۔
اسی وجہ سے مشائخ ہر ایک کے ساتھ اُس کے حال کے مطابق معاملہ فرماتے ہیں۔ اور اس سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ اختلاف کا دائرہ بہت وسیع ہے، کیونکہ اس سے علوم کا دروازہ کُھلتا ہے، بشرطیکہ اس کو مخالفت نہ بنایا جائے۔ البتہ مرید کو اپنے حال کے بارے میں کوئی حکم لگانے کا حق نہیں ہے، جب تک شیخ اُس کو اپنے بارے میں کوئی حکم لگانے کا اہل نہ سمجھے اور یہ اہل سمجھنا ایسا ہے جیسے حضرت خواجہ معین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کو ان کے شیخ نے بیس سال بعد فرمایا کہ اب جاؤ اور اپنا کام شروع کرو۔