جیسے کمپیوٹر میں سب کچھ زیرو اور ون کی صورت ميں ہوتا ہے۔ (زیرو عدم محض ہے اور ون موجودگی ہے) اسی سے سارا سسٹم بنتا ہے۔ ایسے ہی اللہ جل شانہٗ کا کسی چیز کو موجود کرنے کا اور غائب کرنے کا جو ارادہ ہے اُسی سے سارا نظام چل رہا ہے۔ یعنی جو چیز موجود ہے اُسی کے ارادے سے موجود ہے اور اگر موجود نہیں تو وہ بھی اُسی کے ارادے سے موجود نہیں ہے۔ یہی بنیادی چیز ہے یعنی ہمیں اگر کچھ نظر آرہا ہے تو وہ ون ہے، لیکن حقیقت میں وہ اللہ کے پاس ہے، اس لئے اگر وہ زیرو کرنا چاہے تو پھر زیرو کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ یہ اللہ کے ارادے کے ساتھ قائم ہے اور اس پر میرا ایک شعر بھی ہے، لیکن وہ ذرا اس کا out put ہے۔ شعر یہ ہے:
میں اُس کے بھروسے پہ قائم رہوں شبیر
اب دوسروں پہ کوئی بھروسہ نہیں مجھے
یعنی بھروسہ اُسی پر کیا جاسکتا ہے جس کے پاس کچھ ہو اور جس کے ارادے سے سب کچھ ہو رہا ہو اور باقیوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ اُن کے پاس کچھ بھی نہیں۔ بلکہ اُن کے ہاتھ میں بھی جو کچھ ہے وہ بھی کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ یعنی جو اس کا operate کرنے والا ہوتا ہے جب تک وہ اس کو برقرار رکھتا ہے تو وہ برقرار رہتا ہے اور جب وہ اس کو ختم کرنا چاہتا ہے تو وہ عدم محض ہوجاتا ہے۔ اس بات سے یہ سمجھ لیں کہ کائنات میں جتنی بھی چیزیں ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کے ارادے کے ساتھ قائم ہیں۔ یعنی کائنات حقیقت ہے لیکن کچھ بھی نہیں۔ بلکہ محض اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہے۔ اس سے وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود سب کچھ اکٹھا ہوگیا۔ یہ بہت بڑا علم ہے جو اللہ تعالی نے ایک نقطے میں عطا فرما دیا ہے کہ ان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس بات کو سمجھانا بہت مشکل تھا لیکن میرا خیال ہے کہ اس بات سے سب کچھ سمجھ آنا چاہئے۔ کمپیوٹر میں کمال کی بات یہ ہے کہ اگر آپ کسی چیز کو ڈیلیٹ کریں تو وہ ڈیلیٹ نہیں ہوتی بلکہ وہ دوسرے سافٹ وئیر میں پڑی ہوتی ہے اور اُس کے ذریعے آپ اُس کو دوبارہ نکال سکتے ہیں۔ یہ موت کے بعد والی زندگی کی مثال ہے۔ یہ انتہائی مشکل موضوع تھا کیونکہ اس کو اگر کوئی یہ کہے کہ یہ کچھ بھی نہیں ہے، تو یہ سوفسطائیت ہوجاتی ہے اور اگر یہ کہے کہ یہ مستقل چیز ہے تو پھر عینیت کی طرف بات چلی جائے گی۔ لیکن اب اللہ پاک نے ایسی مثال دے دی کہ اُس کے ذریعے سے اس کی تشریح کی جاسکتی ہے۔ ارادے کا تعلق ذات کے ساتھ ہے، لیکن جو موجودات ہیں اُن کا تعلق صفات کے ساتھ ہے۔ شیونات سے صفات بنتی ہیں۔ جب تک ارادہ ہوتا ہے اُس وقت تک چیزیں ہوتی ہیں، لیکن جس وقت ارادہ ختم ہوجاتا ہے اس وقت ساری چیزیں ختم ہوجاتی ہیں۔ اور یہاں مکلف اور غیر مکلف کی بات آگئی۔