اہل بیت کی محبت

ایک روایت ہے کہ جب حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کا وصال ہوگیا تو صحابہ کرام کے دلوں میں‌ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت وہ نہیں رہی جو حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی حیات میں‌ تھی۔ اس روایت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عظمت اور مقام وہی تھا جو پہلے تھا، اُس میں کوئی کمی نہیں آئی تھی، لیکن عظمت اور مقام الگ چیز ہے اور محبت الگ چیز ہے۔ محبت کا تعلق دل کے ساتھ ہے، جبکہ عظمت انسان اپنی عقل سے پہچانتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی تھی کہ میرے اہل بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی ہے جو میرے اہل بیت کے ساتھ رہیں گے وہ بچ جائیں گے۔ (معجم صغیر للطبرانی: 868)

اصل میں اُس دور کے جو اہل بیت تھے ان میں صحابہ کرام بھی تھے اور اہل بیت بھی تھے۔ بعد میں‌ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کے ساتھ رہنے کا مطلب یہ ہے کہ اُن کے ساتھ محبت کا تعلق رکھا جائے یعنی اُن کے ساتھ جن کو محبت ہوگی وہ بچ جائیں گے۔ لیکن اس محبت کا یہ مطلب ہر گز نہیں‌ کہ باقی اہل اللہ کے ساتھ بغض رکھا جائے جیسا کہ اہل بیت کے ساتھ محبت کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ باقی صحابہ سے بغض رکھا جائے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ" (ترمذی: 2641)

ترجمہ: "(کامیاب) وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے"

یعنی صحابہ کی اتباع کو نجات کا ذریعہ بتایا ہے۔ لہٰذا ہم نے دونوں کو جمع کرنا ہے تاکہ صحابہ کی اتباع بھی ہو اور اہل بیت کے ساتھ محبت بھی ہو۔ جس نے ان میں سے کسی ایک کو چھوڑ دیا وہ گمراہی میں پڑ جائے گا۔ اور ہمارے اکابر نے ان دونوں کو جمع کرکے دکھایا ہے، جیسے حضرت شیخ‌ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ ولی اللہ بن گئے، اس کا سبب یہی تھا کہ حضرت نے ایک سید کے سامنے اپنے آپ کو زیر کر دیا۔ اسی طرح ایک اور بزرگ تھے جو کہ سادات کے لئے احتراماً کھڑے ہو جاتے تھے، ایک مرتبہ ایک سید آیا جو کہ بدعقیدہ تھا لیکن حضرت اُس کے لئے احتراماً کھڑے ہو گئے اور پھر فرمایا کہ یہ آپ کے نسبی تعلق کی وجہ سے ہے، آپ کے عقیدے کی وجہ سے نہیں ہے۔ اور یہ جو اکابر صوفیاء نے فرمایا ہے کہ سلوک نبوت اور سلوک ولایت والوں میں ایک کی محبت حضرات شیخین کے ساتھ ہوتی ہے اور ایک کی محبت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوتی ہے۔ یہ عمومی بات نہیں بلکہ اکثریتی بات ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ دل میں اہلِ بیت کے ساتھ محبت ہو اور اتباع صحابہ کرام کی ہو۔ یہ ایسی چیز ہے کہ اس کو جُدا کرنا مشکل ہے، لیکن آج کل شیطان نے اس کو جُدا کر دیا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت بھی رکھنی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنتوں کی پیروی بھی کرنی ہے۔