ایک سوال اور اس کا جواب

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال:

السلام علیکم سر!

آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ اللہ کیسے ملتا ہے؟ اور اُس کو پانے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟

جواب:

سوال سادہ سا ہے لیکن ماشاءاللہ! بہت اچھا سوال ہے۔ اور یہ سوال ہم سب کے دلوں میں ہونا چاہئے۔ سب سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اللہ جل شانہٗ کی ذات وراء الوراء ہے، اس کو نہ کوئی دیکھ سکتا ہے اور نہ اس طرح کوئی پا سکتا ہے جس طرح ہم دنیا کی کسی چیز کو پاتے ہیں، بلکہ اللہ کو پانے کا مطلب یہی ہے کہ ہم وہ کر لیں جو اللہ چاہتے ہیں اور ہم اللہ پاک کے ان بندوں میں ہو جائیں جن کو وہ اپنا بندہ کہتا ہے۔ جیسا کہ شیطان نے کہا تھا کہ میں دائیں سے آؤں گا، بائیں سے آؤں گا، آگے سے آؤں گا، پیچھے سے آؤں گا اور ان کو تجھ تک نہیں پہنچنے دوں گا اور تُو ان میں بہت کم کو شکر گزار پائے گا مگر وہ جو تیرے مخلص بندے ہیں، جو تیرے چنے ہوئے لوگ ہیں۔ اللہ پاک نے فرمایا جو میرے بندے ہیں ان کو تو گمراہ نہیں کر سکتا۔ اور یہ بات قرآنِ پاک میں ہے کہ جو میرے بندے ہیں ان کو تو گمراہ نہیں کر سکتا۔ لہذا وہ لوگ جن کو اللہ پاک نے اپنا بندہ کہا ہے، یہ لوگ اللہ پاک کو پا چکے ہیں۔ اور جیسا کہ آپ کو پتہ ہے کہ ہر مسلمان کے دل میں یہ سوال ہونا چاہئے اور جو اللہ والے ہوتے ہیں ان کا بنیادی کام ہی یہی ہوتا ہے۔ جیسے حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے خواب میں اللہ پاک کا دیدار کیا۔ (کیونکہ خواب میں اللہ پاک کا دیدار ہو سکتا ہے) اللہ تعالیٰ سے انہوں پوچھا کہ یا اللہ! تجھ تک پہنچنے کا آسان ترین راستہ کیا ہے؟ اللہ پاک نے فرمایا: ”دَعْ نَفْسَکَ وَتَعَالْ“

ترجمہ: "اپنے نفس کو چھوڑ دو اور میرے پاس آجاؤ۔"

یعنی ہمارا نفس یہ ہمارے اور اللہ کے درمیان حجاب ہے، جب تک یہ نفس active (فعال) ہے اس وقت تک ہم لوگ اس سے آگے نہیں جا سکتے بلکہ سوچ ہی نہیں سکتے۔ اور اس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ دیکھنا تو بڑی بات ہے ہماری اس طرف عملی طور پر سوچ بھی نہیں جائے گی، باتیں ہوں گی لیکن سوچ عملی طور نہیں جائے گی۔ لہٰذا سب سے پہلے ہم اپنے نفس کے حجاب کو توڑیں، پھر کام بہت آسان ہے، چنانچہ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ دو قسم کے تقرب ہیں، ایک تقرب بالفرائض ہے، دوسرا تقرب بالنوافل ہے۔ (بخاری: 6502) تقرب بالفرائض یہ ہے کہ اللہ پاک نے جو فرائض مقرر کئے ہیں چاہے وہ عبادات میں ہیں، چاہے معاملات میں ہیں، چاہے معاشرت میں ہیں، چاہے وہ اخلاق میں ہیں، اُن تمام فرائض کے ذریعے سے اللہ پاک کا قرب حاصل کرنا تقرب بالفرائض ہے۔ اور حدیث شریف میں یہ اصل ہے، بنیاد یہی ہے، اس وجہ سے جو لوگ تقرب بالفرائض اختیار نہیں کرتے بلکہ تقرب بالنوافل کی طرف جاتے ہیں یہ لوگ بے وقوف ہیں۔ کیونکہ کوئی بھی بنیاد کے بغیر اپنے مکان کو نہیں بناتا بلکہ سب سے پہلے بنیاد ہوتی ہے پھر اس کے بعد اس پر عمارت ہوتی ہے۔ اور تقرب بالنوافل کے بارے میں فرمایا کہ میرا بندہ نوافل کے ذریعے آگے بڑھتا ہے یعنی فرائض کو پورا کرنے کے بعد نوافل کے ذریعے سے ترقی کرتا ہے اور اتنا ترقی کرتا ہے کہ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، میں اس کے پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ (بخاری: 6502) جیسا کہ ابھی آپ نے قرض کے بارے میں مفتی صاحب کے بیان میں سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ اللہ پاک نے بندوں کو قرض دینا اپنے آپ کو قرض دینا بتایا ہے۔ اسی طریقے سے جو بندہ اللہ کا ہو جائے اللہ اس کا ہو جائے گا۔ مَنْ کَانَ لِلہِ کَانَ اللہُ لَہٗ یعنی جو اللہ کا ہو جائے اللہ اس کا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اللہ پاک کو پانے کے لئے تقرب بالفرائض اور تقرب بالنوافل کے طریقے سے کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن یہ چیزیں اس وقت تک ہم نہیں کر سکتے جب تک ہمارا نفس active (فعال) ہے اور ہمارے نفس کی مخالفت موجود ہے۔ کیونکہ وہ مختلف حیلوں بہانوں سے ہمیں ان چیزوں سے کاٹتا جائے گا۔ لہٰذا ہمیں اپنے نفس کا کچھ انتظام کرنا پڑے گا اور اپنے نفس کے جال سے نکلنے کے لئے ان باتوں کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ اور اپنے نفس کے جال سے نکلنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے جو کام کرنے پڑتے ہیں، جو ذرائع اختیار کرنے پڑتے ہیں ان کو سیر الی اللہ کہتے ہیں۔ یہ مشائخ کے ہاں ایک اصطلاح ہے اور مشائخ کے ہاں جو لوگ جاتے ہیں وہ ان کو ایسے اعمال بتاتے ہیں، ایسے طریقے بتاتے ہیں جن کے ذریعے ان کے نفس کے جال ٹوٹتے رہیں۔ وہ چاہے ذکر کے ذریعے سے ہو تاکہ دل بیدار ہو جائے اور وہ نفس کے خلاف کام کرنے کے لئے تیار ہو جائے جیسے مراقبہ ہے، ان کو فاعلات کہتے ہیں۔ یا پھر نفس کے جال کو توڑنے کے لئے نفس کی مخالفت کی جاتی ہے جن کو مجاہدات کہتے ہیں، یہ دونوں چیزیں یعنی مجاہدات اور فاعلات ذرائع ہیں۔ یعنی نفس کے جال سے نکلنے کے لئے ذرائع ہیں تاکہ ہم اللہ کو پائیں۔ یہ سیر الی اللہ ہے اور یہ بظاہر بہت مشکل لگتا ہے لیکن عملاً یہ آسان ہے اگر کوئی ان طریقوں پر چلے جن طریقوں کا کہا جائے۔ لیکن دوسری بات یہ ہے کہ یہ طریقہ نہ اتنا آسان ہے کہ گویا انسان کھانا کھا رہا ہو اور نہ اتنا مشکل ہے کہ انسان اس کو کر نہ سکے۔ لہٰذا ان کے درمیان درمیان جو چیزیں ہیں وہ کرنی پڑتی ہیں اور مشائخ کے تجربے اور مشائخ کے سلسلوں کی قبولیت کی وجہ سے یہ طریقہ اللہ پاک آسان کر دیتے ہیں اور یہ کام ممکن ہو جاتا ہے۔ اور جس وقت سیر الی اللہ مکمل ہو جاتا ہے اس کے بعد صرف وہی چیز رہ جاتی ہے یعنی تقرب بالفرائض اور تقرب بالنوافل۔ پھر اس کے ذریعے سے انسان آگے بڑھتا رہتا ہے کچھ اور نہیں کرنا پڑتا۔ اسی سٹیج تک آنے کے لئے سارا کچھ ہے یعنی سیر الی اللہ وہ ذرائع ہیں جس کے ذریعے سے انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے نفس کے جال کو توڑنے لئے، اپنے دل کو سنوارنے کے لئے اور اپنی عقل کو سمجھانے کے لئے یہ ذرائع ہیں جو فاعلات اور مجاہدات کہلاتے ہیں اور یہ کرنے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد جب سیر مکمل ہو جاتی ہے تو تقرب بالفرائض اور تقرب بالنوافل کے ذریعے سے قرب حاصل ہوتا رہتا ہے اور اتنا ہوتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں بتایا گیا ہے۔ اس کو سیر فی اللہ کہتے ہیں، وہ ہر ایک کا نصیب ہے جتنا اللہ تعالیٰ کسی کو نصیب فرما دے۔ اللہ جل شانہٗ ہمیں بھی نصیب فرما دے ۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ