ہر شخص کی سوچ الگ ہے، جس سے الگ نتیجہ نکل رہا ہے. قرآن کی مختلف آیتیں ہیں اگر ان کو اکٹھا دیکھا جائے تو پوری صورت حال کو سامنے لاتی ہیں، جیسے
﴿لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰی﴾ (النساء: 43)
ترجمہ: "جب تم نشے کی حالت میں ہو تو اس وقت تک نماز کے قریب بھی نہ جانا"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
﴿لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ﴾ پر اگر آپ رک گئے، تو یہ کفر کا کلمہ ہو جائے گا، ﴿وَاَنْتُمْ سُكٰرٰی﴾ یہ پھر ایمان کی بات ہے۔ آپ اپنی مرضی سے نہیں رُک سکتے۔ تو جیسے اِس فقرے کو مکمل کرنا ضروری ہے، اسی طرح قرآن کو پورا پورا مکمل کرنا ضروری ہے۔ پھر صرف قرآن کو نہیں بلکہ اس کے ساتھ سارا دین ہے، کیونکہ دین قرآن اور سنت پر ہے۔ پھر سنت کو بھی سمجھنا ضروری ہے، دونوں کو جاننے سے ہی آپ کو صحیح دین کا پتا چلے گا۔ یہ دونوں باتیں لازمی ہیں بلکہ اس کے علاوہ ایک تیسری بات بھی ہے کہ عقل بھی ٹھیک ہونی چاہیے۔ قرآن پاک میں عقل کے بارے میں باقاعدہ باتیں موجود ہیں اور احادیثِ شریفہ میں بھی موجود ہیں۔ حدیث شریف میں تو صاف بات ہے:
"اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ" (ابن ماجہ: 4260)
ترجمہ: "عقلمند ہے وہ شخص جس نے اپنے نفس کو قابو کیا"۔
اور قرآن میں ہے:
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۪ۙ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 9،10)
ترجمہ: "فلاح اسے ملی گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے، اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
لیکن نفس کو قابو کرنا کیسے ہو گا؟ اس کے لئے عقل سے کام لینے کی ضرورت ہے، کیونکہ عقل تو سب کو ملتی ہے۔ عقل سے یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ میرا نفس صحیح چل رہا ہے یا نہیں چل رہا؟ جس کو گناہ، گناہ ہی نظر نہ آ رہا ہو، وہ اس کی کیا اصلاح کرے گا؟ اصلاح تو تب کرے گا جب اس کو پتا چل رہا ہو کہ یہ گناہ ہے۔ تو اس کے لئے صحیح عقل کی ضرورت ہے۔ اور عقلمند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو قابو کیا۔ پس نفس کو قابو کرنے کے لئے عقل کا استعمال ضروری ہے۔ دوسری طرف دل میں بھی ارادے کی قوت ہے، عزم ہے، قوتِ عازمہ ہے، لہٰذا اس کا بھی صحیح ہونا ضروری ہے۔ جب یہ ساری باتیں سمجھ میں آ گئیں، تو بیک وقت عقل، نفس اور دل ان تینوں کا درست ہونا ضروری ہوا۔ اب نفس کو قابو کرنا کیسے ہوگا؟ مثال کے طور پر عقل نے آپ کو کہہ دیا کہ نفس کو قابو کرنا چاہیے، لیکن نفس اڑی کرتا ہے، وہ اپنی اصلاح کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا۔ تو نفس کی اصلاح مجاہدے میں ہے، یعنی جب نفس کی مخالفت کرو گے، تو نفس دبتا جائے گا اور نفس کی بات مانو گے، تو یہ مزید اُچھلتا جائے گا، پھولتا جائے گا۔ تو نفس کی مخالفت کو مجاہدہ کہتے ہیں، لہٰذا نفس کا علاج مجاہدے میں ہے، یعنی اس کی بات نہ ماننے میں ہے۔ مثلًا شوگر کا بیمار کسی طرح بھی میٹھے سے پرہیز نہیں کر سکتا، اس کے لئے بہت مشکل ہوتا ہے۔ اگر آپ اس کو اس پر convince (قائل) کر لیں کہ کم از کم دو ہفتے آپ نفس کی بات نہ مانیں، آپ ہماری بات مانیں اور بغیر چینی کے چائے پیئیں، تو دو ہفتے میں انسان کا Taste develop (ذائقہ میں ترقی) ہو جاتا ہے، اس کے بعد اس کو میٹھی چائے پسند نہیں ہوتی بلکہ پھیکی چائے کا عادی ہو جاتا ہے۔ یہ کیوں ہوا؟ کیونکہ آپ نے نفس کی مخالفت کی، اس کو میٹھا نہیں دیا، جس کی وجہ سے کم میٹھے کا وہ عادی ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ نفس کا علاج نفس کی مخالفت میں ہے۔ لیکن نفس کی مخالفت کے لئے نفس تیار نہیں ہے۔ اس کے لئے قوتِ عازمہ کی ضرورت ہے، یعنی کوئی ایسی چیز جو اس کو مجبور کرے۔
ہر شخص کے پاس اپنا نفس ہوتا ہے، لیکن جو کسی پر عاشق ہو جاتے ہیں، وہ اپنے نفس کی تمام خواہشات کو ترک کر لیتے ہیں یا نہیں؟ صرف ایک ہی خواہش رہ جاتی ہے کہ میرا محبوب مجھ سے خوش ہو، اس کے علاوہ نہ کھانے کی پروا، نہ پینے کی پروا، نہ سونے کی پروا، نہ تکلیف کی پروا، ہر چیز کے لئے وہ تیار ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ نفس کی مخالفت نہیں ہے؟ یہ سارے کام اپنے نفس کے خلاف کر رہا ہے، کیونکہ اپنے دل سے مجبور ہے۔ معلوم ہوا کہ دل کی قوتِ عازمہ نفس کو control (قابو) کر سکتی ہے۔ لیکن دنیاوی محبت، یہ فوری محبت ہے۔
﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَ﴾ (القیامہ: 20)
ترجمہ: "خبردار (اے کافرو) اصل بات یہ ہے کہ تم فوری طور پر حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرتے ہو"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ تم جو فوری چیز ہے، اس کی محبت کو لیتے ہو اور جو بعد میں آنے والی چیز ہے، اس کو چھوڑتے ہو۔ تو اب اللہ تعالیٰ چونکہ بِن دیکھے ہیں، لہٰذا اس بِن دیکھی ذات پر باقی چیزیں غالب آ جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر چاند سورج سے بہت چھوٹا ہے، یعنی 17 لاکھ زمینیں سورج میں سما سکتی ہیں اور چھ چاند زمین میں سما سکتے ہیں، تقریباً ایک کروڑ گنا چھوٹا ہے۔ لیکن مد و جزر چاند کی کشش پر ہوتا ہے، سورج کی کشش پر نہیں ہوتا۔ جبکہ سورج حجم اور وزن کے لحاظ سے زیادہ بڑا ہے، لیکن اس کا اثر زمین کے پانی کے اوپر کم ہے۔ اور چاند کا اثر زیادہ ہے، کیونکہ چاند قریب ہے، چنانچہ اس کی کشش زیادہ ہے۔ جیسے F=Gm1m2/r2 یعنی درمیان میں distance (فاصلہ) چونکہ کم ہے، لہٰذا اس کے لحاظ سے بڑا فرق پڑ جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ دُور کی چیز کا اثر کم ہوتا ہے اور قریب کی چیز کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ تو آخرت کی بات دور ہے اور جو دنیا کی بات قریب ہے اور انسان کو قریبی چیز سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔ یعنی اس کی دوسری ساری محبتیں آپ اس ایک دنیاوی چیز کی محبت کے ساتھ دبا سکتے ہیں، جو سب سے زیادہ ہو۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی محبت چونکہ آپ کی عقلی محبت ہے، جو عام دنیا کی حسی محبت جیسی نہیں ہے، لہٰذا وقتی طور پر تو بہت زیادہ ہو سکتی ہے، لیکن پھر نفس غالب آ جاتا ہے۔ وقتی محبت جو غالب ہو جاتی ہے، اس کو جذب کہتے ہیں۔ اس جذب کو پہلے بڑھانا پڑتا ہے، پھر اس کو نفس کے علاج کے لئے استعمال کرنا ہوتا ہے۔ یہ نقشبندی سلسلے کا طریقہ ہے۔ البتہ مجاہدات شرعی طریقے سے کرتے ہیں اور عزیمت کے پہلو کو اختیار کرتے ہیں، رخصت کا پہلو شریعت کے اصولوں پر اختیار نہیں کرتے۔ یہی ان کا مجاہدہ ہوتا ہے کہ وہ کسی طریقے سے بھی compromise (سمجھوتہ) نہیں کرتے۔ کیونکہ نماز کے اندر مجاہدہ ہے، روزے کے اندر مجاہدہ ہے، حج کے اندر مجاہدہ ہے، معاملات کے اندر مجاہدہ ہے، معاشرت کے اندر مجاہدہ ہے، ان تمام چیزوں کے اندر مجاہدے ہیں۔ اگر آپ ان مجاہدات کو اختیار کر لیں، تو کسی اور مجاہدے کی آپ کو ضرورت نہیں رہے گی، اس میں عزیمت کا رخ اختیار کر لیں، یعنی اس میں اپنے لئے راستہ نہ بنائیں۔ تو اگر اس طریقے پر عمل ہو، تو نقشبندی سلسلہ ایک special طریقہ ہے جو اللہ پاک سے مانگا گیا تھا اور اس کا بڑا فائدہ ہے۔ دوسرے طریقے یہی کام دوسرے طریقے سے کرتے ہیں کہ شرعی مجاہدے پر وہ آنا چاہتے ہیں لیکن شرعی مجاہدے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص کو معلوم ہے کہ نماز کے اندر مجاہدہ ہے اور اس سے مجھے بہت فائدہ ہوتا ہے لیکن وہ نماز پر نہیں آ رہا، اس کی initially (ابتدائی طور پر) مجاہدہ کی طاقت ہی اتنی نہیں ہے کہ وہ شرعی مجاہدہ کو باقاعدگی کے ساتھ کر سکے۔ تو وہ کیسے اس کا فائدہ حاصل کرے گا؟ تو وہ حضرات کہتے ہیں کہ پہلے غیر منصوص مجاہدات کر کے شرعی مجاہدات کے لئے اپنے آپ کو تیار کر لیا جائے۔ جیسے خلوت ہے کہ اس میں انسان اپنے آپ کو بچا لیتا ہے، جبکہ نقشبندی سلسلے میں خلوت والی بات نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں: شیخ کی جلوت میں ہونا چاہیے۔ وہ شیخ کی صحبت پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ جبکہ دوسرے حضرات کہتے ہیں: خلوت ہونی چاہیے۔ کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ جلیسںِ سوء سے خلوت اچھی ہے اور اچھی صحبت، خلوت سے اچھی ہے۔ اور ہر وقت چونکہ شیخ کی صحبت حاصل نہیں ہوتی، تو یہ زیادہ practical (عملی) ہے۔ یہ بات بالکل صحیح ہے اور حدیث شریف کے مطابق بھی ہے، لہٰذا وہ حضرات کہتے ہیں کہ خلوت اختیار کرنی چاہیے۔ اسی طرح فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزے بھی رکھنے چاہئیں اور تقلیلِ طعام، تقلیلِ کلام، تقلیلِ منام اور تقلیلِ خلط معَ الانام، یہ چار مجاہدات وہ کراتے ہیں، جن کے کرنے سے وہ اپنے اندر صلاحیت پیدا کرتے ہیں کہ شرعی مجاہدے پر عمل کر سکتے ہیں، کیونکہ ان کے اوپر باقی سارے مجاہدات مبنی ہیں۔ گویا کہ وہ مجاہدہ کی ابتدا غیر منصوص مجاہدے سے کرتے ہیں اور شرعی مجاہدوں تک پہنچتے ہیں۔ اس وقت دیگر سلاسل بھی ذکر کی طرف زیادہ مائل ہیں اور مجاہدات یعنی تقلیلِ طعام اور تقلیلِ منام وغیرہ کو کچھ کم کر لیا ہے۔ گویا انہوں نے کچھ حصہ جذب کا قبول کر لیا اور کچھ حصہ غیر منصوص مجاہدات سے کم کر لیا۔ اس طریقے سے وہ آج کل کے حالات کے مطابق چل رہے ہیں، جبکہ ہمارے نقشبندی حضرات دل کے جذب کے ذریعے شرعی مجاہدات تک پہنچتے ہیں۔ تو پہنچنا دونوں کا ایک ہی جگہ ہوا، لہٰذا سلوک دونوں طے کرتے ہیں اور سلوک ہی علاج ہے۔ جیسے فرمایا:
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا﴾ (الشمس: 9)
ترجمہ: "فلاح اسے ملی گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
یعنی سلوک طے کرنے میں مکمل کامیابی ہے لیکن اس کے لئے دل کا اور عقل کا ساتھ ہونا ضروری ہے، ان کی اصلاح بھی ساتھ ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا یہ دو مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے، بہر حال دونوں طریقوں میں فائدہ ہے۔ لیکن شیخ کے ذریعہ سے یہ آسانی سے ہو سکتا ہے، کیونکہ اگر شیخ نہ ہو تو عین ممکن ہے کہ انسان اتنا مجاہدہ شروع کر لے جس کو پورا نہ کر سکے، نتیجتاً درمیان میں رہ جائے۔ شیخ تدریج کے ساتھ اور طریقے کے ساتھ مجاہدہ کراتے ہیں، جس کے ذریعے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ مثلًا آپ بالکل سیدھے اوپر چڑھ رہے ہیں، تو یہ کافی مشکل ہے۔ اب اگر کوئی آپ کو بتائے کہ آپ اس طرح چڑھیں، تو آپ کا راستہ تو لمبا ہو جائے گا لیکن چڑھنا آسان ہو جائے گا۔ جیسے پہاڑوں پر جو چڑھتے ہیں، ان کو طریقے آتے ہیں، لہٰذا اگر کوئی ماہر آپ کے ساتھ ہو، تو آپ وہ کام کر لیں گے۔ لیکن اگر ماہر نہیں ہو گا، تو وہی کام آپ نہیں کر سکیں گے۔ اسی طرح بہت ساری چیزیں ہیں، جو تجربے پر منحصر ہیں۔ ایک تجربہ کار شیخ جو با برکت بھی ہو، سلسلے والا ہو، وہ جب آپ کو بتاتا ہے، تو اس سے بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ بہرحال سارے طریقے موجود ہیں، ان میں سے جس طریقے سے بھی کسی کی اصلاح ہو جائے، تو وہ خوش نصیب ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی نصیب فرمائیں۔
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن