نقشبندی طریقے کا خلاصہ
دل اللہ تعالٰی کا عاشق تھا، لیکن جب جسم میں آیا تو نفس سے پالا پڑا، نفس میں چونکہ فجور کے تقاضے فطرتاً موجود ہوتے ہیں جن کی مخالفت تقوٰی کہلاتی ہے، اس لئے نفسانی خواہشات نے دل کو گھیر لیا اور اس پر اثر انداز ہوگئیں، اس لئے دل بھول گیا کہ میں کس کا عاشق تھا، بلکہ وہ ان نفسانی تقاضوں کو پورا کرنے والی چیزوں کا عاشق ہوگیا، اِلَّا ما شاء اللہ۔ اس کو دنیا کی محبت کہتے ہیں جو ساری خطاؤں کی جڑ ہے۔ اگر دل میں یہ ایسا ہی رہے تو پھر تباہی یقینی ہے۔ اس سے بچنے کے لئے دل سے اس کو نکالنا ہوتا ہے، لیکن چونکہ یہ آیا تو نفس سے ہوتا ہے، اس لئے جب تک نفس قابو میں نہیں آتا اس وقت تک دل صاف نہیں ہوسکتا، جیسا کہ ارشاد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا﴾ (الشمس: 10)
ترجمہ: "اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
پس اصل محنت تو نفس پر ہونی ہے لیکن اس کے لئے دل کا اتنا بننا ضروری ہے کہ نظامِ ہدایت کے لئے راستہ بنے، کیونکہ ہدایت کے نظام کا محرّک دل ہوتا ہے، لیکن دل تب کام کرے گا جب اس کو اپنے مطلوب کا پتا چلے گا کہ وہ کون ہے؟ جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ اس کا معشوق اللہ ہے۔ اس بھولی ہوئی محبت کو یاد دلانے کے لئے ذریعہ ذکر، مراقبہ و شغل ہیں جو فاعلات کہلاتے ہیں۔ ان کے ذریعے دل کو جگایا جاتا ہے، جب دل جاگ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اسی کو جذبِ کسبی کہتے ہیں۔ اس وقت روح نفس کی قید کو محسوس کرکے پھڑ پھڑانا شروع کردیتی ہے اور آزادی کے لئے ہاتھ پیر مارنا شروع کردیتی ہے۔ شیخِ کامل اس سے فائدہ اٹھا کر ان مجاہدات اور ریاضتوں کے ذریعے اس کے نفس کی اصلاح کرتا ہے جن کی برداشت سالک کو اس وقت جذبِ کسبی کے ذریعے حاصل ہوچکی ہوتی ہے۔ اگر اس میں کامیاب ہوجائے تو سلوک بھی طے ہوا اور سیر اِلٰی اللہ بھی۔ اس کے بعد روح آزاد ہو کر اپنے مقام ملاءِ اعلٰی پر پہنچ جاتی ہے، جس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ سالک کو فضائل حاصل ہوجاتے ہیں، جیسے اخلاص اور توحید اور دوسرے بھی۔ اور نفس اپنے مقامِ عبدیت پر پہنچ جاتا ہے، جس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس کے رذائل دب جاتے ہیں۔ اس کے بعد قلب برزخ بن کر روح کے ذریعے ملاءِ اعلٰی سے لینے لگتا ہے اور اس کی عقل ملاءِ اعلٰی کے ساتھ مل کر سِر کا روپ دھار لیتی ہے اور دنیا میں رہ کر اللہ تعالٰی کی بن کر اس کے مطابق سوچتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کو باقی لوگوں کی اصلاح کا ذریعہ بھی بنایا جاتا ہے، جس کے بعد وہ منتہی مرجوع کہلاتا ہے۔ اور اگر جذب کے حصول پر مطمئن ہو کر نفس کی اصلاح نہیں کروائی تو مجذوب متمکن ہو کر محروم ہوجاتا ہے۔ چونکہ سیر اِلٰی اللہ مکمل ہوچکی ہوتی ہے، اس لئے اس کے بعد شریعت پر عمل اور ذکر، فکر اور تلاوتِ قرآن کے ساتھ روح اور سر کے ذریعے جتنا لے رہا ہوگا اس سے اس کے تقوٰی اور معرفت میں ترقی ہوگی۔ یہ سیر فی اللہ ہے، جس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔