جب بھی کوئی شخص ناشکری کرنے پر آتا ہے، تو اللہ پاک نے اس کو جو نعمتیں دی ہوتی ہیں، پہلے ان کی ناشکری کرتا ہے اور جان بوجھ کر حق سے منہ موڑتا ہے، پھر وہ اتنا مسخ ہو جاتا ہے کہ انہی صلاحیتوں کو اللہ پاک کے مقابلے میں استعمال کرتا ہے۔ سب سے پہلے شیطان نے اس طرح کیا تھا، کیونکہ شیطان کو یہ صلاحیتیں حاصل تھیں، وہ بہت زیادہ عبادت کرتا تھا، اور ان سب چیزوں کو جانتا تھا۔ جب اللہ پاک نے اس کو راندۂ درگاہ کر دیا، تو اس نے خود ہی اسی وقت کہہ دیا کہ میں یہ کروں گا، میں یہ کروں گا۔ اور پھر وہ کر رہا ہے۔ چونکہ وہ تمام چالوں کو جانتا ہے، نفس کی تمام خواہشات کو جانتا ہے، تو وہ اسی کے حساب سے play کرتا ہے۔
پھر دوسرے یہ یہود ہیں کہ انہوں نے جان بوجھ کر یہ سب کیا ہے۔ حالانکہ حقیقت جانتے تھے لیکن حقیقت جان کر انہوں نے ایسا کیا، تو نتیجہ کیا ہوا؟ پھر وہی شیطانی طریقہ اختیار کیا۔
بلعم بن باعور کا واقعہ ہے کہ یہ ولی اللہ تھے، لیکن لوگوں نے ان کو ایک عورت کی وجہ سے جو ان کے ساتھ ملی تھی، موسٰی علیہ السلام کے مقابلے میں کھڑا کر دیا۔ انہوں نے بہت کہا کہ نہیں، میں یہ نہیں کر سکتا، کیونکہ یہ تو پیغمبر ہے۔ لیکن انہوں نے بڑی منتوں پر یا کوئی techniques (تکنیک) سے ان کو منوا لیا۔ منوانے کے بعد وہ اس مقام پر کھڑا ہوگیا جہاں پر وہ جب بھی دعا کرتا تھا تو وہ قبول ہوتی تھی، کھڑا ہوگیا، کیونکہ مستجاب الدعوات تھا۔ وہ جب موسٰی علیہ السلام کو بد دُعا دینے کے لیے کھڑا ہوا، تو اللہ پاک کا فیصلہ آ گیا۔ چونکہ اللہ پاک کا فیصلہ تو کسی وقت بھی آ سکتا ہے، لہٰذا وہ راندۂ درگاہ ہو گیا۔ وہ اپنی قوم کے کہنے پر موسٰی علیہ السلام کو بد دعا دینا چاہتا تھا لیکن اس کے منہ سے خود اپنے لئے اور اپنی قوم کے لئے بد دُعا نکل رہی تھی۔ قوم نے کہا: یہ تم کیا کر رہے ہو؟ اس نے کہا کہ اب میرے بس میں نہیں ہے، جو ہونا تھا، وہ ہو گیا۔ پھر اس کی زبان نکل آئی، جب اس ظالم نے یہ دیکھا تو سوچا کہ میں تو راندۂ درگاہ ہو گیا، ختم ہو گیا، تو پھر وہی شیطان بن گیا۔ پھر اس نے اپنی قوم کو بتایا کہ اگر تم موسٰی علیہ السلام پر غالب آنا چاہتے ہو، تو میں تمہیں ایک طریقہ بتاتا ہوں، یہ اختیار کرو، وہ یہ کہ اپنی عورتوں کو ننگا کرو اور ان کے سامنے کھڑی کر دو، اگر ان میں سے کچھ لوگ بھی اس گندگی میں مبتلا ہو گئے، تو پھر تم ان پر غالب آؤ گے۔ جب انہوں نے اس طرح کیا، تو ایسا ہی ہوا۔ اب بتائیں! یہ ولی تھا لیکن کیا ہوا؟ جیسے ہی راندۂ درگاہ ہوا، تو وہ تمام صلاحیتیں Opposite direction (مخالف سمت) میں استعمال کرنے لگا۔
اسی طرح جو شخص یا جو قوم اپنی صلاحیت کی بنیاد پر ناشکر گزار ہو جاتی ہے، تو وہ پھر اسی صلاحیت کو شیطان کے لئے استعمال کرتی ہے۔ پھر حسد ہو یا کینہ ہو یا جو بھی گناہ ہو، یعنی اس کے لیے جو بھی source (ذریعہ) ہو، اس کی وجہ سے وہ جان بوجھ کر اس کو استعمال کر رہا ہوتا ہے۔ اس لئے اللہ پاک سے ہر وقت دعا کرنی چاہیے:
﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ﴾ (آل عمران: 8)
ترجمہ: "(ایسے لوگ یہ دعا کرتے ہیں کہ) اے ہمارے رب تو نے ہمیں جو ہدایت عطا فرمائی ہے اس کے بعد ہمارے دلوں میں ٹیڑھ پیدا نہ ہونے دے اور خاص اپنے پاس سے ہمیں رحمت عطا فرما۔ بیشک تیری اور صرف تیری ذات وہ ہے جو بے انتہا بخشش کی خوگر ہے"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
پس یہ بات بہت زیادہ ضروری ہے کہ اللہ پاک ہمیں کجی سے بچائے، کیونکہ یہ بہت خطرناک ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ