موجودہ حالات میں دعا اور تربیت کی ضرورت


بعض دفعہ اللہ تعالی کوئی دعا انسان کی زبان پر جاری کر دیتا ہے اور وہی دعا اُس وقت کی اہم دعا ہوتی ہے، جیسے آج کل میں دو دعائیں کرتا ہوں، ایک ہے:

﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ﴾ (آل عمران: 8)

ترجمہ: "(ایسے لوگ یہ دعا کرتے ہیں کہ) اے ہمارے رب تو نے ہمیں جو ہدایت عطا فرمائی ہے اس کے بعد ہمارے دلوں میں ٹیڑھ پیدا نہ ہونے دے اور خاص اپنے پاس سے ہمیں رحمت عطا فرما۔ بیشک تیری اور صرف تیری ذات وہ ہے جو بے انتہا بخشش کی خوگر ہے"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

دوسری دعا یہ ہے:

"اَللّٰہُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَهٗ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَهٗ"

ترجمہ: "اے اللہ! تو ہمیں حق کو حق دکھا اور ہمیں اس کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں باطل کو باطل دکھا اور ہمیں اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما"۔

اور تيسری بات جو کہ میں اکثر کہا کرتا ہوں، وہ یہ ہے:

﴿اِنَّ كَیْدَ الشَّیْطٰنِ كَانَ ضَعِیْفًا﴾ (النساء: 76)

ترجمہ: "(یاد رکھو کہ) شیطان کی چالیں در حقیقت کمزور ہیں"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

پہلی دعا میں اللہ تعالیٰ سے صحيح سالم دل مانگنے کی دعا ہے اور دوسری دعا میں "اَرِنَا الْحَقَّ" سے صحيح عقل کی دعا ہے اور تیسری بات جو کہ قرآن پاک کی آیت ہے، اُس سے شیطان کے مکر کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ مطلب یہ کہ اصل نفس کی اصلاح ہے، اگر نفس کی اصلاح ہو جائے، تو پھر شیطان کا مکر کچھ نہیں کر سکتا۔ آج کل ان تینوں کی بہت ضرورت ہے، کیونکہ فتنوں کا دور ہے اور فتنوں میں جب تک کوئی چیز انسان پر واضح نہ ہو، اُس وقت تک وہ خطرے میں ہے اور اُس فتنہ میں پڑ سکتا ہے، جس سے بچنے کے لئے قلب کی بیداری، عقل کی فہم اور نفس کی تربیت کی ضرورت ہے، جس کے لئے درج بالا دونوں دعائیں پڑھنے کی ضرورت ہے اور شیطان کے مکر کو ضعیف سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شیطان کا مکر انسان اُس وقت ضعیف سمجھ سکتا ہے جب اُس کے نفس کی تربیت ہو چکی ہو، جب تک نفس کی تربیت نہ ہو، اُس وقت تک انسان اپنے آپ کو شیطان کے سامنے مجبور پاتا ہے۔