Download PDF

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

طریقہ عالیہ نقشبندیہ کی جدید ترتیب

علم پر عمل کرنے کے لئے اور قال سے حال پر آنے کے لئے دو محنتیں بہت ضروری ہیں ۔ایک بیمار دل کو قلب سلیم بنانے کے لئےاور دوسری نفس امارہ کو نفس مطمئنہ بنانے کے لئے۔جب تک یہ محنتیں نہ ہوں اس وقت تک علم کے باوجود آدمی صحیح عمل سے اکثر محروم رہ سکتاہے۔ان محنتوں کو تصوف اور طریقت کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔طریقت کے کئی سلسلے ہیں لیکن ہند و پاک میں چار طریقے زیادہ معروف ہیں ۔چشتیہ،نقشبندیہ ،قادریہ اور سہروردیہ۔اکثر سلاسل میں سلوک پہلے طے کرایا جاتا ہے اور جذب سے تکمیل ہوتی ہے البتہ حضرت خواجہ نقشبند ؒ نے اس وقت کے حالات کو دیکھتے ہوئے جذب کو مقدم کرنے کا طریقہ دریافت کرلیا، اس لئے نقشبندی سلسلے میں جذب پہلے ہوتا ہے اور سلوک بعد میں طے کرایا جاتا ہے۔سلوک سے مراد نفس کی بُری خصلتوںکا ایک ایک کرکے علاج کرنا ہے جبکہ جذب میں دنیا کی محبت، اللہتعالیٰ کی محبت میں بدل جاتی ہے اس لیے دل کی دنیا بدل جاتی ہے۔تاہم حصول ِجذب کے بعدنفس کا علاج کرنا بھی ضروری ہوتا ہے ورنہ دل بیدار توہوتا ہے اور اللہ کو راضی کرنا چاہتا ہےلیکن نفس باغی ہوتا ہے اوردل کی نہیں مانتا،بلکہ اپنی ہی کئے جاتا ہے۔اس لئے ایسی صورت میں سالک کُڑھتا رہتا ہے لیکن نفس ٹس سے مس نہیں ہوتا ۔ باقی سلاسل میں چونکہ ابتدا سلوک طے کرنے سے کی جاتی تھی اس لئے ان کا یہ مسئلہ نہیں تھا ان کے مسائل اپنے تھے لیکن نقشبندی سلسلے کا یہ بنیادی مسئلہ تھا ۔اس کو دیکھ کر مشائخِ زمانہ نے کئی جتن کئے ، سوچتے رہے لیکن اصل بات کی طرف بہت کم التفات ہوسکا۔دوسری طرف وقت کے ساتھ کمزوری آتی رہی اور مشائخ کے نزدیک مجاہدات کا تحمل نہ رہا اس لئے تقلیل طعام اور تقلیل منام کے مجاہدات متروک ہوگئے۔یہ چونکہ سب سے زیادہ مؤثر مجاہدات تھے اس لیے باقی مجاہدات میں بھی کمزوری آئی یعنی تقلیل کلام اور تقلیل خلط مع الانام اور مختلف دلائل اور تاویلات کی وجہ سے یہ سب کالعدم ہوگئے، الاماشاءاللہ۔

احقر کو بلا استحقاق اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سےسات اکابر سے اجازت دلوائی ہے ۔ان سب اجازتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ تقریباً ہر سلسلے کا فیض براہ راست یا بالواسطہ اجازت کی حد تک کم ازکم پہنچ گیا ۔کچھ واقعات ہوئے، کچھ مبشرات میں اشارے ہوئے اور کچھ اہل حق کے مکاشفات کے ذریعے احقر کا رخ تحقیق و تشریح کی طرف موڑا گیا وگرنہ من دانم کہ من آنم ۔ابتدا حضرت تھانویؒ کے مشہور ملفوظات شریف کی جلد انفاس عیسیٰ کی تعلیم سے ﴿ جو ہفتہ میں ایک دفعہ تقریباً باقاعدگی سے ہوتی رہی ﴾ کرائی گئی جو تقریبا بارہ برس میں مکمل ہوئی اب پاور پوائنٹ کی صورت میں اس کی تعلیم مختلف جگہوں پہ شروع ہے۔الحمدللہ۔درمیان میں مثنوی مولانا روم ؒ کا درس شروع ہوگیا جو الحمدللہ جاری ہے ۔ انفاس عیسیٰ کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد حضرت مجدد الف ثانیؒ کے مکتوبات پر کام کرنے کا حکم ہوا اوراس کا درس شروع ہوا۔ابتدا میں معمول کے مطابق حضرت کے اپنے شیخ ؒ کی طرف مکتوبات کی تشریح شروع ہوئی لیکن بہت جلد پتہ چلا کہ اس میں روحانیت تو بہت زیادہ تھی لیکن سالکین کی سمجھ میں ان کا آنا مشکل تھا ، درمیان میںایک حوالے کے واسطے مکتوب نمبر 287 تک رسائی ہوئی اور وہاں دیکھا کہ حضرت مجدد الف ثانی ؒ نے جذب و سلوک کے بارے میں اتنی قیمتی ،اہم اور فوری طور پر ضروری ایسی باتیں تحریر فرمائی ہیں کہ ان کو آگے پہنچانے میں تاخیرسستی کے ساتھ خیانت محسوس ہونےلگی ۔اس لئے الحمد للہ اس پر کتاب “ حقیقت جذب و سلوک” تحریر کرنے کی توفیق ہوئی۔اس کتاب کی تدوین و تالیف میں بزرگوں کے مکاشفات کے ذریعے اللہ تعالیٰٰ نے اتنی مدد فرمائی کہ بندہ کا سر شرمندگی سے نہیں اٹھ رہا البتہ اس سب مہربانی کو حکم سمجھتا ہوں کہ اہل تک اس پیغام کو پہنچایا جائے۔

جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کچھ مبشرات اور بزرگوں کے مکاشفات کے ذریعے نقشبندی سلسلے میں خصوصی طور پر کا م لئے جانے کی بشارت تھی اس لئے اس کتاب کے تحریر کرنے کے بعد نقشبندی سلسلے میں خوب غور و خوض کرنے کاموقع ملا تو پتہ چلا کہ نقشبندی سلوک زیادہ تر دل کے سلوک میں بدلتا چلا گیا ہے اور نفس کی اصلاح زیادہ تر زبانی باتوں کی حد تک رہ گئی ہے۔اس میں زیادہ بڑی وجہ یہ محسوس ہوئی کہ قلب کے سلوک کے اسباق نہ سمجھے جانے کی وجہ سے محض ایک ذہنی تکرار رہ گئے اور ظاہر ہے فنائے نفس کا بھی یہی حال پھر ہونا تھا۔اس لئے بعض مشائخ کی زبانی معلوم ہوا کہ وہ سر جوڑے بیٹھے تھے کہ پورا سلوک طے کرنے کے بعد اصلاح کیوں نظر نہیں آتی۔اس اثنا ء میں ایک واقعہ ہوا جس نے احقر کوہلادیا اور وہ یوں کہ اجتماعی اعتکاف میں ایک نقشبندی سالک آیا اور فرمایا کہ اس نے سارا نقشبندی سلوک طے کیا ہے لیکن حال یہ ہےکہ اس رمضان میں اس نے اپنے گھر میں کیبل لگا ئی اور ساتھ رونے لگا۔میں بھی بہت حیران ہوا اور مبہوت رہ گیا کہ اس کو کیا جواب دوں اور اللہتعالیٰ کی طرف مدد کے لئے متوجہ ہوگیا ۔دل میں آیا اور یوں عرض کیا کہ آپ نے دل کا سلوک طے کیا ہے نفس کا نہیں ۔نفس کا سلوک طے کئے بغیر نفس سے آپ اپنی مرضی کا کام نہیں لے سکتے اور نفس کا سلوک مجاہدہ کئے بغیر طے نہیں ہوتا۔بعد میں ماشاء اللہ مشائخ نے اس کی نہ صرف تائید فرمائی بلکہ پوچھا کہ مجاہدہ تو متروک ہے، آپ کیسے کرائیں گے؟ تو عرض کیا کہ کبھی کریں اور کبھی نہیں۔ وہ کہہ اٹھے کہ یہی تو کاکا صاحب کا مجاہدہ ہے۔ اس سے بھی تائید ہوئی ۔ایک بات جو حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے مکتوبات سے روز روشن کی طرع عیاں ہے کہ نقشبندی سلسلے میں صرف ترتیب بدلی ہے ورنہ اس میں بھی جذب اور سلوک دونوں ہیں ۔اس لئے جذب کے حصول کے بعد سلوک کا طے کرنا ضروری ہوگا ورنہ حضرت کے نزدیک وہ مجذوب متمکن توہوسکتا ہے،شیخ نہیں ۔کیونکہ خود نہیں پہنچا تو دوسروں کو بھی نہیں پہنچا سکتا ہے۔ دوسری بات جو سمجھنا بہت اہم ہے کہ تصوف عملی چیز ہے اور عملی چیز حالات کے مطابق بدلنی پڑتی ہے جو اس کو نہیں جانتا وہ رسمی صوفی ہوتا ہے،عملی نہیں ۔نہ خود پہنچا نہ دوسروں کو پہنچا سکتا ہے۔

اس لئے دو چیزوں کی فوری ضرورت پڑ گئی ۔پہلی قلب کے سلوک کو آسان اور آج کل کے دور کے مطابق قابل فہم بنانا ۔دوسرا یہ کہ اس کو نفس کے مجاہدے کے متناسب بنانا ۔بصورت دیگر سالکین بغیر تکمیل کے اپنے آپ پر تکمیل کا گمان کرسکتے ہیں۔

جاننا چاہیے کہ شریعت ایک مکمل نظام حیات ہے ۔اس میں ظاہر کی بھی اصلاح ہے اور باطن کی بھی۔البتہ کسی کی ظاہر یا باطن میں اگراس کی کمی پائی جائے گی تو اس کی اصلاح ضروری ہوگی۔اس میں شرعی مجاہدات کے ذریعے نفس کی اصلاح ہے اور اس میں ذکر کے ذریعے دل کی اصلاح ہے۔مثلاً روزے میں تقلیل طعام بھی ہے، تقلیل منام بھی ہے۔اور اس کے اعتکاف میں تقلیل کلام بھی حاصل ہوجاتا ہے اور تقلیل خلط مع الانام بھی۔نماز میں وقت کی پابندی ،افطار کے بعد آرام کے تقاضے کے باوجود تراویح کی نماز اور حج میں اپنے آپ کو بظاہر عقل کے خلاف کاموں پر مجبور کرنا اور زکوٰۃ میں حب مال کی مخالفت تزکیہ نفس میں معاون ہیں۔ دوسری طرف نماز کا قیام ذکر کے لیے،تراویح میں قرآن سننا سنانا اور حج میں کثرت ذکر یہ دل کی اصلاح کا نظام ہے۔اگر شرعی مجاہدات کسی کے مؤثر نہ رہیں اور گناہوں میں مشغولی اور اعمال میں کمی ہو تو یہ ان شرعی مجاہدات میں کمی کی طرف اشارہ ہے اس کی تلافی علاجی مجاہدے کے ذریعے ہوگی اور اگر اعمال میں جان نہ رہے تو یہ دل کے نقص کی طرف اشارہ ہے تو اس کی تلافی ذکر و مراقبات کے ذریعے ہوگی۔اب اگر شریعت پر ظاہر اور باطن کے مطابق کوئی ٹھیک چل رہا ہے تو اس کو مزید کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں جیسے صحابہ کو ان اضافی مجاہدات کی ضرورت نہیں تھی ۔لیکن دیکھا گیا ہے کہ جب بھی ان کو ضرورت پڑی تو انہوں نے اسی وقت اس کے مطابق مجاہدہ کرکے اس عمل کو درست کیا۔بعد کے ادوار میں چونکہ کمزوری آئی تو اس کے باقاعدہ طریقے وجود میں آئے گویا طریقت کی بنیاد پڑگئی اور اس کے لئے خانقاہیں بن گئیں جیسے علم کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے مدارس وجود میں آئے۔

مجاہدے بھی دو قسم کے ہوتے ہیں اور ذکر بھی ۔یعنی شرعی مجاہدہ اور علاجی مجاہدہ ۔اس طرح ثوابی ذکر اور علاجی ذکر۔اگر شرعی مجاہدہ موجود ہو یعنی سالکین شریعت پر کم از کم ظاہر کے لحاظ سے صحیح چل رہے ہوں تو ان کو علاجی مجاہدے کی ضرورت نہیں ہوگی لیکن اگر کوئی شریعت پر نہیں چل رہا ہے یا چل رہا ہے لیکن ٹھیک طریقے سے نہیں تو ان کو علاجی مجاہدے کی بھی ضرورت ہوگی۔تصوف کے ابتدا میں جب لوگ ظاہر شریعت پر چل رہے تھے لیکن ان کے اعمال میں جان نہیں تھی تو ان میں جان پیدا کرنے کے لئے دل پر محنت کی ضرورت پیش آتی تھی ،اسی سے ان کی تکمیل ہوجاتی تھی کیونکہ شرعی مجاہدہ ان کو پہلے سے حاصل ہوتا تھا۔ابھی بھی کوئی اگر شریعت پر چل رہا ہو یعنی گناہوں سے بچ رہا ہو اور احکام پر چل رہا ہو تو ان کی بھی صرف دل کی اصلاح سے تکمیل ہوسکتی ہے اور ان کا دل کی اصلاح کے ذریعے سلوک طے ہوسکتا ہے جس میں دس مشہور مقامات یعنی توبہ ، انابت،زہد ،ریاضت،ورع،قناعت،توکل،تسلیم،صبر اور رضا ،طے ہوتے ہیں،لیکن آج کل کے دور میں یہ چیز بہت ہی کم ہے کہ کوئی مکمل طورپر گناہوں سے بھی بچ رہا ہو اور شرعی احکام پر بھی عمل کررہا ہو اس لئے آج کل کم از کم اس حد تک علاجی مجاہدہ ضروری ہے کہ شریعت پر عمل نصیب ہوجائے اور مزید یہ کہ یہ عمل خلوصِ دل سے ہو اس کے لئے دل کی اصلاح کی ضرورت ہوگی جس کے لئے علاجی ذکر اور مراقبات ہیں۔اول لوگوں کو شریعت پر تو عمل نصیب تھا لیکن ان کے اعمال میں جان نہیں تھی اس لئے ابتدا میں تصوف کے اعمال میں جان پیدا کرنے کے لئے محض اصلاح ِقلب کی ضرورت ہوتی تھی اور اس کے پورا ہونے سے تکمیل ہوجاتی تھی لیکن بعد میں علاجی مجاہدے کی باقاعدہ ضرورت اس لئے پیش آئی کہ لوگ شریعت سے دور ہوگئے اور گناہ میں اور خدا کی ناراضگی کے کاموں میں لگ گئے تو ایسے نفس کی جو سرکشی پر آمادہ ہو اس کی اصلاح ضروری ہوتی ہے اس لئے اصلاح میں دل کی اصلاح کے ساتھ ساتھ نفس کی اصلاح کی بھی ضرورت ہوگئی ۔اس تمہید میں یہ بات بھی صاف ہوگئی کہ مجاہدہ بذات خود مطلوب نہیں بلکہ شرعی مجاہدہ جو مطلوب ہے اس کے نہ ہونے کی صورت میں اس پر لانے کے لئے مطلوب ہوجاتا ہے ۔اس تشریح کے ہوتے ہوئے کوئی اس علاجی مجاہدے کو رہبانیت نہیں کہہ سکتا جیسا کہ تصوف کے بعض مخالفین صوفیاء کو اس سے مطعون کرتے ہیں۔

مندرجہ بالا تفصیل سے یہ پتہ چلا کہ علاجی مجاہدہ بذات خود تو مطلوب نہیں لیکن شرعی مجاہدہ کی کمی یا اس کے نہ ہونے کی صورت میں علاجی مجاہدہ ضروری ہوجاتا ہے اس لئے جس دور میں شرعی مجاہدہ بطریق احسن موجود ہو تو اس وقت صرف دل کی اصلاح کافی ہوگی لیکن جس دور میں ایسا نہ ہو تو علاجی مجاہدے سے صرفِ نظر کرنا ناعاقبت اندیشی ہوگی کیونکہ اس کے بغیرتزکیہ قلب کے فوائد پورے حاصل نہیں ہوسکتے جیسا کہ حضرت مجدد الف ثانی ؒ مکتوب نمبر287 میں فرماتے ہیں۔

“جاننا چاہیے وہ مجذوب جنہوں نے سلوک کو مکمل طے نہیں کیا اگرچہ جذب قوی رکھتے ہوں اور خواہ کسی بھی راستے سے منجذب ہوئے ہوں وہ اربابِ قلوب کے گروہ میں داخل ہیں، کیونکہ بغیر سلوک کے اور تزکیہ نفس کے، وہ مقامِ قلب سے آگے نہیں گزر سکتے۔اور مقلبِ قلب یعنی حق تعالیٰٰ تک نہیں پہنچ سکتے ، ان کا جذب انجذابِ قلبی ہے اور ان کی محبت عرضی ہے ذاتی نہیں ہےغرضی ہے اصلی نہیں ہے ،کیونکہ نفس اس مقامِ روح کے ساتھ ملا ہوا ہے، اور اس کا نفس ابھی جاگا ہوا ہے، یعنی اُس کا تزکیہ ابھی نہیں ہوا اور ظلمت اور نور اس معاملے میں مخلوط ہیں، اور جب تک روح مطلوب کی طرف توجہ کرنے کے لیے نفس مجرد اور آزاد نہ ہو جائے اور نفس روح سے جدا ہو کر بندگی کے مقام پر نیچے نہ آ جائے، اُس وقت تک مقام قلب کی تنگی سے مکمل طور پر نہیں نکل سکتے اور مقلبِ قلب تک نہیں پہنچ سکتے اور مطلوب کی طرف روحی انجذاب حاصل نہیں کر سکتے، کیونکہ جب تک یہ دونوں نفس و روح حقیقت میں جمع ہیں،حقیقت جامع قلبیہ محکم اورغالب ہے خالص روح کا انجذاب متصور نہیں ، اور نفس کا روح سے خلاصی پانا سلوک کے منازل کو طے کرنے اور سیرالی اللہ کے راستے طے کرنے اور سیرفی اللہ سے متعارف ہونے کے بعد ہےبلکہ” فرق بعد الجمع“ کا مقام حاصل ہونے کے بعد ہے جس کا تعلق ”سير عنِ الله بااللہ “سے ہے۔ صورت پذیر نہیں ہوتا ، یعنی روح ،نفس سے آزادی حاصل نہیں کرسکتی۔”

اس سے معلوم ہوا کہ ناکافی شرعی مجاہدہ کی صورت میں نفس کا تزکیہ علاجی مجاہدہ کے بغیر ممکن نہیں اور اس کے بغیر تکمیل ممکن نہیں اس لئے اس صورت میںسالکین کے لئے مجاہدات کا ایسا نظام وضع کرنا ضروری ہوجاتا ہے جس کے ذریعے نفس کا تزکیہ ہو اور جن دس مشہورمقامات کا ترتیب اور تفصیل کے ساتھ طے کرنا ضروری ہے طے کئے جاسکیں۔یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ دل کی اصلاح کے بغیر مجاہدہ اشراق ہے جو گمراہی کا بہت بڑا دروازہ ہے کیونکہ مجاہدہ سے نفس عمل کرنے لئے تیار تو ہوا لیکن کونسا عمل اس کا فیصلہ تو دل نے کرنا ہے اور اس کی اصلاح نہ ہونے کی وجہ سے وہ اندھا ہے اس کا تو ایمان بھی باقی رہنا مشکل ہے کیونکہ ایمان بھی دل کا عمل ہے۔اس طرح نفس کی اصلاح کے بغیر دل کی اصلاح ناکافی ہے البتہ دل کی اصلاح کی وجہ سے اس کو اپنی غلطی کی اطلاع ضرور ہوتی ہے کیونکہ جب کسی کا دل بیدار ہو تو اس کو اپنی خامیاں نظر آتی ہیں۔حضرت خواجہ نقشبندؒ نے جو جذب کو پہلے کرانے کا طریقہ دریافت کیا تھا اس کی ضرورت کو محسوس کرکے کیا تھا۔

اب دو صورتیں اس کی ممکن ہیں ۔پہلی صورت یہ ہے کہ سادہ ذکر اور صحبت سے سالکین کو پہلے شریعت پہ چلنے پر آمادہ کیا جائے اور ان کو فرض عین علم سکھا کر شریعت پر اچھی طرح چلایا جائے ۔اس سے شرعی مجاہدہ کی موجودگی میں علاجی مجاہدہ کی ضرورت نہیں رہے گی ۔اس کے بعد مراقبات کے ذریعے ان کے دل کی اصلاح کرکے ان کی اعمال میں جان پیدا کی جائے۔اس سے ان کی تکمیل ہو جائے گی۔یہ گویا کہ تصوف کی ابتدائی صورت کو آج کل کے دور میں حاصل کرکے اسی طرز پر تکمیل کی کوشش ہوگی اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پہلے مراقبات کے ذریعے ان کے قلب کا اتنا تزکیہ کرایا جائے کہ وہ شریعت پر چلنے کے لئے تیار ہوجائیں اور آخر میں سلوک طے کرایا جائے جس سے ان کی تکمیل ہو۔مؤخرالذکر طریقہ حضرت خواجہ نقشبند ؒ نے دریافت کیا تھا کیونکہ اس وقت لوگ شریعت پر نہیں چل رہے تھے کیونکہ قلب کا تزکیہ اگر ہوچکا ہو تو ایک طرف اگر ان مقامات کا ادراک آسان ہوجاتا ہے تو دوسری طرف نفس تزکیہ کیلئے آسانی کے ساتھ آمادہ ہوجاتا ہے ۔ایسی صورت میں نفس کے تز کیہ سے اعراض اگر ایک طرف اپنی محنت پر پانی پھیرنا ہے تو دوسری طرف نفس کی خواہشات سے اثر لے کر گمراہ ہوسکتا ہے اور اس کی گمراہی کے لئے میدان زیادہ تیار ہوتا ہے کیونکہ نفس کی سرکشی اس کے قلب کی صفائی نہ صرف کسی اور رنگ میں دکھا سکتی ہے بلکہ کچھ ہی عرصے میں سرکش نفس قلب کو نفسانی خواہشات سے پھر آلودہ کرسکتا ہے۔

پہلی صورت میں یہ بتایا گیا کہ فرض عین علم سکھا کر شریعت پر اچھی طرح چلایا جائے تب ان کے لئے صرف دل کی اصلاح کافی ہوگی یعنی نفس کا اتنا تزکیہ ہوچکا ہو کہ شریعت پر عمل کرنے کو تیار ہو ۔پہلے دور میں اگر ایسا نہیں ہوتا تھا تو ان سے اسی وقت مجاہدہ کروا کر نفس کی سرکشی کو ختم کرایا جاتا تھا جیسا کہ شاہ ابوسعیدؒ کا واقعہ تفصیل سے کتابوں میں موجود ہے کیونکہ بعض اوقات سالکین عبادات کی حد تک تو شریعت پر چلتے ہیں معاملات میں نہیں ،بعض ان دونوں میں لیکن معاشرت میں نہیں اور بعض ان تینوں میں لیکن اخلاق میں نہیں ۔الغرض ان چاروں میںسے جس میں بھی کمی کسی بھی وجہ سے پائی جائے اور محض سادہ ذکر اور صحبت سے اس کی اصلاح ممکن نہ ہوسکے تو اس کا علاج مجاہدہ ہے۔اب مجاہدہ چاہے پہلے کرایا جائے چاہے بعد میں لیکن نفس کو اطاعت پر لانے کے لئے اس کی ضرورت ہوگی۔

اس دور میں ایک طرف ذہنی انتشار ہے تو دوسری طرف نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے سامان بہت عام ہیں ۔اس پر مزید یہ کہ علمائے سوء کی وجہ سے عوام سے اصلی علم اوجھل ہوگیا ہے جس سے جاہل لوگ علماء کو جاہل کہنے لگے ہیں ۔ان حالات میں عوام میں صحیح چیز کی طلب کا پیدا کرنا بھی بہت بڑا کام ہے۔اس کے بعد جن میں طلب پیدا ہو ان کی اصلاح کرنا ممکن ہوسکتا ہے۔اس کے بعدجیسا کہ کہا گیا کہ نفس کو اطاعت پر لانے کے لئے مجاہدہ کی ضرورت ہوگی چاہے وہ دل کی اصلاح سے پہلے ہو یا بعد میں ۔

آج کل کے دور میں مجاہدہ بھی ضروری ہے لیکن دل کی اصلاح میں بھی زیادہ دیر نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس صورت میں بعض چیزوں کی اصلاح کے لئے جس مجاہدے کی ضرورت ہے اگر وہ سالک کے دل پر نہ کھلی ہوں تو وہ اس کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔اس لئے آج کل کے دور کے لئے مجاہدے کو دو حصوں میں تقسیم کرنا پڑے گا ،یعنی دل کی اصلاح سے قبل اور دل کی اصلاح کے بعد۔دوسرے لفظوں میں سلوک کا ایک حصہ جذب سے پہلے اور دوسرا حصہ جذب کے بعد۔جو جذب سے پہلے والا سلوک ہے وہ جذب کے لئے تیاری ہے اور جذب سے بعد والا حصہ جذب کو کنٹرول کرنے کے لئے ہے۔ پہلے والا حصہ عروج کے لئے ہے اور دوسرا نزول کے لئے ہے۔موجودہ تبلیغی جماعت میں بیانات اور حرکت کے ذریعے پہلا حصہ طے ہوجاتا ہے اور قربانی کے بقدر جذب بھی حاصل ہوجاتا ہے لیکن ان کے جذب کا ایک خاص رنگ ہے ۔اس کو مطلوبہ رنگ دینے کے لئے مراقبات کی ضرورت ہوگی تب ان کو نزول والا سلوک طے کرایا جاسکے گا بصورت دیگر ،عدم تکمیل میں ہی تکمیل محسوس کر رہے ہوں گے۔خانقاہوں والے حضرات بھی پہلے سلوک، ذکر ،صحبت اور مناسب مجاہدات کے ذریعے سلوک طے کرکے مراقبات کے ذریعے جذب حاصل کرسکتے ہیں۔اور اس کے بعد نزول والا سلوک طے کرکے تکمیل تک پہنچ سکتے ہیں ۔آگے تفصیلات ہیں جس کا یہ موقع نہیں ۔

اب آج کل کے لئے مؤثر نقشبندی سلوک کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔ موجودہ دور کے حالات کے پیش نظر مروجہ نقشبندی سلوک میں کچھ کمی بیشی کی گئی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مروجہ نقشبندی سلوک میں کوئی کمی تھی یا موجودہ طریقہ اس سے اعلیٰ ہے بلکہ بات صرف اتنی ہے کہ لوگوں میں تبدیلی آگئی اوراستعدادوں میں فرق آگیاہے۔اس کے علاوہ کچھ باتیں جو پہلے تھیں اب وہ نہیں رہیں جس کی وجہ سے جو مراقبات شامل کئے گئے تھے ان کی ضرورت نہیں رہی۔موجودہ طریقہ گو کہ نسبتاً سادہ ہے ، سمجھنے میں آسان ہےلیکن پرانے طریقے بالکل غیر مؤثر بھی نہیں ہیں۔ا ب بھی استعداد والے ان سے استفادہ کرسکتے ہیں بلکہ اس سلسلے کے مشائخ کے لئے بہتر ہے کہ وہ ان طریقوں سے خود کو گزاریں تاکہ بااستعداد لوگوں کے لئے ان کو استعمال کرسکیں لیکن عام لوگوں کے لئے یہ سادہ طریقے ہی بہتر ہیں کیونکہ اعلیٰ اگر مشکل کی وجہ سے حاصل نہ ہوسکیں تو سادہ طریقوں سے ان کی بنیادی ضرورت تو بہر حال پوری ہونی چاہیے۔

نقشبندی سلسلے میں ذکرِجہری کا تعارف

آج کل جو ذہنى انتشار ہے اس کى وجہ سے مروجہ نقشبندى سلاسل کو اىک پرىشانى لاحق ہے جس کى وجہ سے لطائف کے دور اور مراقبات مىں بڑى مشکل پىش آرہى ہے اس وجہ سے مشائخ اشعار اور توجہ کے ذرىعے سے لطائف جارى کرواتے ہىں ۔ىہ چونکہ انعکاسى فىض ہوتا ہے اس لىٔے زىادہ دىرپا نہىں ہوتا ۔دوسرى طرف مرىدىن ، پىر کى توجہ کے منتظر ہوتے ہىں اور خود کچھ نہىں کرتے ۔ اس وجہ سے مرىدىن کى ہمتىں جواب دے جاتى ہىں اور ان مىں سے اکثر تعطل کے شکار ہوجاتے ہىں ۔

ہمارے ہاں ىہ تجربہ بہت کامىاب رہا ہے کہ پہلے ہم بارہ تسبىح تک بتدیج بڑھاتے ہىں جس کے ساتھ ایک تسبیح اسم ذات کی بھی شامل ہے۔ پھراسم ذات مناسب تعداد تک بڑھایا جاتا ہے جس کو پھر ذکر خفى سے بدل دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد پھرلطائف کا دور شروع کرواتے ہىں اور سلطان الاذکار سے ہوتے ہوۓمزىد مراقبات تک ان کو بڑھادىتے ہىں۔ اس ترتیب سے مراقبات با آسانى شروع ہوجاتے ہىں۔ آگے پھر نقشبندى طرىقے سے سلوک پورا کرواتے ہىں۔اس کى وجہ ىہ ہے ذکر جہرى سے ىکسوئى حاصل ہوتى ہے۔آدمى باہر کے شور سے منقطع ہوجاتا ہے اور دوسرے خىالات بھى اتنےنہىں آتے جس سے ىکسوئى جلدى حاصل ہوجاتى ہے۔

یہ کوئی نئی بات بھی نہیں نقشبندی سلسلے کا قادری سلسلے کے ساتھ ایک خوبصورت جوڑ سلسلہ راشدیہ کی صورت میں پہلے سے موجود رہا ہے۔اس میں لطائف پر جہر کے ساتھ ذکر (اللہ ھو) کرایا جاتا ہے۔ ۔پھر چونکہ قادری اور چشتی سلوک بالخصوص چشتی نظامی سلوک میں برائے نام ہی فرق ہے، اسلئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ تین سلاسل کا مجموعہ ہوگیا۔بنوریہ طریقہ بھی نقشبندی طریقہ ہی ہے جس میں لطائف کی تفصیل مجددیہ معصومیہ سے مختلف ہے۔یہ سب کچھ اس لئے ہوتا ہے کہ حالات بدل جاتے ہیں۔اس لئے اصلاح کے طریقوں میں بھی اجتہادی تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں تو جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ لطائف کا اجراء ذہنی انتشار کی وجہ سے آج کل براہ راست ہونا مشکل ہوگیا ہے اس لئے اگر چشتیہ طریقے سے ،راشدیہ طریقے سے یا آج کل ایک طریقہ ہمارے ہاں جو شروع ہوچکا ہے اس کے ذریعے سے جہری ذکر سے ابتدا کی جائے اور پھر اسم ذات کے ذریعے لطائف کا اجراء کیا جائے تو یہ ایک آسان عملی صورت ہے۔

ابتدائی سلوک

حضرت مجدد الف ثانىؒ نے سلوک کے دس مقامات ىعنى توبہ ، انابت،زہد رىاضت،ورع،قناعت،توکل،تسلىم،صبر اور رضا ، کو تفصىلى طے کرنے کا فرماىا ہے ۔ان مىں توبہ ،انابت ، زہد ،رىاضت اور قناعت کے ابتدائى اسباق دئىے جائىں گےجن کے ساتھ متعلقہ مجاہدات بھی ہوں گے مثلاً صلوٰۃ توبہ روزانہ پڑھنے کو کہا جائے گا،جو بھی غلطی ہوئی ہو اس کے تلافی کے لئے اس کے بقدر نیک عمل کرنے کو کہا جائے گا۔ نصف جیب خرچ پر گزارہ کرنے کی تعلیم دی جائے گی۔تہجد شروع کرائی جائے گی۔ دوسروں کی سخت باتوں کو برداشت کرنے کا بتایا جائے گا۔مسجد یا خانقاہ میں جھاڑو دینے کو کہا جائے گا۔آخر مىں ان کو اور باقى پانچ کو تفصىلى طور پر طےکراىا جائے گا۔

ذکر کا مجوزہ طریقہ:

پہلے لسانی ذکر ایک چلے کے لئے کرایا جائے۔اس کی صورت یہ

ہےکہ تین سو دفعہ کلمہ سوم کا پہلا حصہ یعنی سبحان اللہ و الحمد للہ و لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر اور دو سو دفعہ دوسرا حصہ یعنی لاحول و لا قوۃ الا باللہِ العلی العظیم پڑھا یا جاتا ہے ۔ساتھ ہر نماز کے بعد تسبیحات فاطمی بتایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ تین دفعہ کلمہ طیبہ تین دفعہ درود ابراہیمی تین دفعہ استغفار۔ساتھ ذکر جہرى کراىا جائے گا جیساکہ اوپر بتایا گیا ۔بعد مىں اسم ذات کا ذکر بتدرىج بڑھاىا جائے گا۔پھر ان سے لطائف کا اجراء کىا جائے گا۔ ہمارے ہاں پہلے چشتیہ صابریہ کی بارہ تسبیح کا ذکر کرایا جاتا ہے۔اب چاروں سلسلوں کا مجموعہ بارہ تسبیح کرایا جاتا ہے جس میں لا الہ الااللہ ،لا الہ الا ھو ،حق اور اللہ کی ایک ایک تسبیح سے شروع کرایا جاتا ہے ۔اگلے مہینےیہ دو تسبیح ،دو تسبیح ، دو تسبیح اور ایک تسبیح ،اس سےاگلے مہینے دو ، تین، تین اور ایک تسبیح ،اس سےاگلے مہینے ،دو ، چار ،چار اور ایک تسبیح ، اس سے اگلے مہینے دو ،چار ،چھ اور ایک تسبیح،اس سے اگلے مہینے دو ،چار ،چھ اور تین تسبیح، اس سے اگلے مہینے دو ،چار ،چھ اور پانچ تسبیح ۔اس کے بعد دو، چار ،چھ تسبیح ذکر جہر تو رہیں گے البتہ پانچ تسبیح کی جگہ اسم ذات قلبی تعلیم کیا جائے گا۔جب یہ شروع ہوجائے تو اس کے بعد اس کے ذریعے سے تمام لطائف کا اجراء کرایا جائے گا انشاء اللہ ۔

نوٹ۔یہ خط کشیدہ حصہ نمونے کے طور پر دیا گیا ہے کیونکہ یہ ہمارے ہاں چل رہا ہے لیکن باقی مشائخ اس کے پابند نہیں وہ اس تمام بیان میںغور کرکے جو ان کا شرح صدر ہو اس کے مطابق سالکین کو تعلیم کریں۔

خواتىن مىں لسانى ذکر کے بعد براہ راست لطائف کا دور شروع کراتے ہىں ۔

لطائف کے دور میں مردوں اور عورتوں کا فرق۔

عورتوں کے لئے معصومیہ طریقے کی لطائف کا اجراء بہتر ہے کیونکہ یہ پانچوں سینے میں ہیں۔عورتیں اعصابی لحاظ سے کمزور ہوتی ہیں توبنوریہ لطائف میں چونکہ اخفیٰ سر میں واقع ہے اس لئے اس کے اجراء کے ساتھ ان کا سر ہل سکتاہے جو عورتوں کے لئے پریشانی کا باعث ہوسکتا ہے ۔مردوں کو دونوں قسم کے دور کرائے جاسکتے ہیں تاکہ بعد میں اگر ان سے خواتین بیعت ہوں تو وہ معصومی طریقہ بھی جانتے ہوں ۔بنوری طریقے میں کچھ مخصوص فوائد ہونے کی وجہ سے ان سے یکسر اعراض کرنا مناسب نہیں ہوگا۔

لطائف کا ذکر …

اس کویوں کرنا ہوتا ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ جہاں ذکر کرانا ہے وہاں ذکر ہورہا ہے ۔اس کو سننے کی کوشش ہو تصور سے کروانے کی کوشش نہیں کرنی۔وقوف قلبی اس میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔نقشبندی سلوک میں نیت ، وقوف قلبی اور اس کے ساتھ نفس کے تزکیہ کی بڑی اہمیت ہے۔یاد رکھنا ہے کہ دل پر اتنی ہی محنت ہو جتنا کہ نفس کا تزکیہ ہو۔ان دونوں کے درمیان توازن اگر نہیں ہوگا تو سالک بغیر تکمیل کے اپنے آپ کو کامل سمجھ سکتا ہے جو طریقت میں سم قاتل ہے۔

وقوف قلبی

اس سے مراد دل کا دھیان ہے۔پہلے ذہن سے شروع ہوتا ہے یعنی ذہن سے دل پر توجہ کرتے ہیں جو بعد ازاں دل کی دل پر توجہ میں بدل جاتا ہے ۔یہ مشق سے آہستہ آہستہ حاصل ہوجاتا ہے۔یہ کیفیت حضوری اور کیفیت احسان کے حصول کے لئے ہوتا ہے تاہم اس سے اطمینان کی کیفیت جو حاصل ہوتی ہے وہ“ اَلَابِذِكْرِاللهِ تَطْمَىِنُّ الْقُلُوْبُکے ناطے اس کا خاصہ ہے اس کی نیت نہیں کرنی ہوتی ، وہ بھی حاصل ہو تو اس پر شکر کے ساتھ ساتھ جاری رکھنا ہے۔دل کا دھیان بڑی دولت ہے۔یہ نصیب ہوجائے تو پھر چاہے پتہ چلے یا نہیں روحانی ترقی ہوتی رہتی ہے۔

مراقبہ

کسی بھی چیز کی طرف ہمہ تن متوجہ ہونے کا نام ہے۔مثلاً کسی آواز کے سننے ، یا کسی چیز کو محسوس کرنے یا قلبی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کرنا۔اس میں خود کچھ کرنا نہیں ہوتا بلکہ جو ہورہا ہو اس کو محسوس کرنا ہوتا ہے۔کہتے ہیں دل پر کسی کو اختیار نہیں۔ اس لئے دل سے ہم کچھ نہیں کرواسکتے لیکن دل جو کچھ کررہا ہے اس کو محسوس کرنے کی کوشش تو کرسکتے ہیں ۔اصل میں دل ایک لطیفہ ہے اور اس کی طرح اور بھی لطائف ہیں جیسے لطیفہ روح ، لطیفہ سر ،لطیفہ خفی ،لطیفہ اخفیٰ اور لطیفہ نفس۔ان لطائف کے اصل عرش سے اوپر ہیں اور ان کے ظلال ہمارے جسم کے اندر ہیں ۔چونکہ ان کا علم کشفاً ہوا ہے اس لئے ان کے مقامات کے تعین میں اختلاف بھی ہوا ہے۔ ان لطائف کے حال کی طرف توجہ کرنے سے ہم پر بہت کچھ کھل سکتا ہےاگر ہم ان محسوسات کا صحیح استعمال کرلیں تو ہم کو وہ علوم و معارف حاصل ہوسکتے جن کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہاں ان ظلال پر توجہ کرکے ان پر ذکر کے ذریعے ان کے اصول تک پہنچنے کی کوشش کرسکتے ہیں اور پھر ان کے ذریعے مختلف مراقبات کے ذریعے ان علوم و معارف تک محض خدا کے فضل سے رسائی حاصل کرسکتے ہیں جس کے ذریعے ہمارا علم،حال میں بدل سکتا ہے اور یہی ان مراقبات کا ثانوی مقصد ہوتا ہے کیونکہ اصل میں توشریعت پر کیفیت احسان کے ساتھ عمل مقصود ہے لیکن عمل کا درجہ اس کی معرفت کے مطابق ہوتا ہے۔اسی میں ہی فرق ہوتا ہے۔ ان محسوسات کی نیت کرکے بس پھر ان لطائف کی طرف ہمہ تن متوجہ ہونا ہوتا ہے۔ہمیں کروانا نہیں بلکہ اس نیت کے مطابق محسوس کرنا ہے۔اگر ہم اس سے کچھ کروانے کی کوشش کریںگے تو اس میں ہماری سوچ کو دخل ہوگا جو محدود ہےاور یہ لطائف ہماری رینج سے بھی باہر ہیں اس لئے فائدہ نہیں ہوگا۔ نیز تھکاوٹ بھی ہوگی لیکن اگر جو ہورہا ہے ہم اس کو محسوس کرنے کی کوشش کریں گے تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔البتہ جو ہم محسوس کریں گے وہ امر واقعہ ہوگا محض خیال نہیں ہوگا لیکن اس کے امر واقع ہونے کے لئے دلیل کی ضرورت ہوگی۔ اپنے شیخ سے سیکھ کر ذکر کے ذریعے ان تمام لطائف کو زندہ کرنا ہوتا ہے یعنی ان کا اپنے اصول کے ساتھ رابطہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔اس کو عروج کہتے ہیں کیونکہ اس سے عالم بالا کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔اس سے یہ لطائف منور ہوجاتے ہیں اور ان کا رنگ بھی ہوتا ہے لیکن چونکہ یہ کشف سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے جن کو کشف کے ساتھ مناسبت ہوگی ان کو محسوس ہوتے ہیں۔

لطائف کا دور مکمل ہونے کے بعد ان کو مراقبات کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ان کی ترتیب شیخ کی بصیرت پر منحصر ہے کہ وہ کونسا مراقبہ کس ترتیب سے کرنے کو بتاتا ہے کیونکہ اس میں اصل مقصود کیفیت حضوری اور کیفیت احسان ہے ۔اس کے حصول کے لئے جو ترتیب شیخ کامل کے قلب پر مرید کے لئے وارد ہوگا وہی اس کے لئے بہتر ہوگا تاہم شیخ ،دوسرے مشائخ کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔اس میں مرید کے پسند اور ناپسند کو نہیں دیکھا جائے گا بلکہ اس کے مقصد کے حصول کو دیکھا جائے گا۔

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارا عقیدہ ہےکہ اصل وجود اللہ تعالیٰ کی ذات کا ہے وہ واجب الوجود ہے یعنی جب کچھ بھی نہیں تھا تو وہ تھے اس کے پیدا کرنے سے سب کچھ پیدا ہوا۔یہ سب جو پیدا ہوئے چاہے امركُنْ “سے ہوں یا تخلیق کے ذریعے ،یہ سب ممکنات ہیں ۔اللہ تعالیٰ جو چاہے کرسکتا ہے ۔ سب کچھ اللہ تعالیٰٰ کے اختیار میں ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہم جو گمان رکھیں گے تو ” أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدي بِي کے مطابق وہ ہمارے ساتھ وہی معاملہ رکھے گا پس اگر اللہ تعالیٰٰ نے ان چیزوں کو ہمارے لیۓممکن بنایا ہو ،ان کااپنے آپ کو محتاج محض سمجھ کر متوجہ ہوں گے تو اللہ تعالیٰٰ سے امید ہے کہ ہمارا بھی اس میں حصہ ہوجاۓ البتہ دو چیزوں کی ضرورت ہوگی ایک اخلاص نیت کی اور دوسری متوجہ ہونے کی۔آگے انتظار ہے۔“رَبِّ اِ نِّيْ لِمَا اَنْزَلْتَ اِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيْرٌ کے مطابق جو اس بڑے در سے، جہاں سب کچھ ہے، جو مل جائے اس کو نعمت عظمٰی سمجھ کر خوشی خوشی حاصل کریں۔

مراقبات

1 مراقبہ احدیت …

یہ نیت کرکے دل کی طرف متوجہ ہونا کہ دل میں جو مورد فیض ہے اس ذات کی طرف سے فیض آرہا ہے جو کہ تمام نقائص و زوال سے پاک ہے اور ہر کمال سے متصف ہے۔اس کو غور سے دیکھا جائے تو اس کے دو حصے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی صفات کا استحضار اور اس کی طرف سے فیض آنے کا استحضار۔ان دونوں کو قلبی طور پر دہرانا مقصود نہیں جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں بلکہ ان دونوں کے علم کو حال کے طور پر محسوس کرنا ہے۔اس کو ایک مثال سے سمجھیں ۔میں اگر کسی بڑی ہستی کے سامنے بیٹھوں اور اس کی بات کی طرف دھیان کروں تو یہ ذہن میں نہیں دہراؤں گا کہ ایک بڑی ہستی کے سامنے بیٹھا ہوں اور اس کی بات سن رہا ہوں ۔بلکہ اس کو جان رہا ہوںگا کہ بڑی ہستی کے سامنے بیٹھا ہوں اور اس کی بات کی طرف کان لگاؤں کہ کوئی بات سننے سے رہ نہ جائے۔بس اس طرح اس ذات کا جو تمام نقائص و زوال سے پاک اور تمام کمالات سے متصف ہے کادھیان دل میں جما کر جاؤں اور اس کی طرف سے فیض کے آنے کا قلب سے محسوس کرتا رہوں۔اس میں جتنا بھی محسوس ہو نعمت ہے، اس پر شکر کروں ،اور مزید کے لئے دل کو کُھلا رکھوں کہ جس وقت فیض کا جو قطرہ بھی آئے مجھ سے غفلت کی وجہ سے ضائع نہ ہو۔ساتھ ساتھ جس ذکر سے ان لطائف کا اجراء کیا ہو وہ چلتا رہے ۔یہ غفلت سے بچنے کے لئے ہے ورنہ اس مراقبہ کامطلوب تو فیض کے آنے کا احساس ہے۔جب یہ مراقبہ پکا ہوجائے تو پھر صرف فیض کا دھیان ہوتا ہے ذکر بھی محسوس نہیں ہوتا یعنی سالک اسم سے مسمی کی جانب ترقی کرلیتا ہے۔

اس مراقبہ کو دل سے شروع کیا جاتا ہےاور باقی لطائف پر بھی باری باری کرادیا جاتا ہے ۔مراقبہ تو وہی ہے صرف مورد فیض بدلتا رہتا ہے۔اس مراقبہ میں اگر مورد فیض اوپر کی جانب کچھاؤ محسوس کرے تو یہ اس کا نفسیاتی اثر ہے کیونکہ ہم عرش کو اوپر سمجھتے ہیں ۔

2 مراقبہ تجلیات افعالیہ …

اس میں مورد فیض قلب ہوتا ہے۔اس میں ہم اس کا دھیان بناتے ہیں کہ فیض، اس ذات سے جو” فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ ہے، آپ ﷺ کے قلب پر آتا ہے اور وہاں سے سالک کے قلب پر ۔اس مراقبہ میں یہ محسوس کیا جاتا ہے یا وہ علم حال بنتا ہے جس کے مطابق سب کچھ اللہ تعالیٰ کرتا ہے ۔ہر چھوٹی بڑی چیز ،عزت ذلت ،کامیابی ناکامی موت و حیات سب اس کے امر سے ہوتا ہے۔اس کو توحید افعالی کہتے ہیں اس کو درجہ حال میں حاصل کرنا ہوتا ہے۔

3 مراقبہ صفات ثبوتیہ …

اس میں مورد فیض لطیفہ روح ہوتاہے۔اس میں فیض،اس ذات سے جو حی و قیوم ہے قادر سمیعُ بصیر ہے جس کے پاس اصل علم ہےاصل ارادہ اس کا ہے اس کا کلام اصل کلام ہے اور وہی ذات ”كُنْ فَيَكونہے،آپ ﷺ کے قلبِ اطہر سے سالک کے لطیفہءِ روح پرآتا ہے ،، ۔ يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللهِ ۖوَاللهُ هُوَ الْغَنِي الْحَمِيدُ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ وَمَا ذَٰلِكَ عَلَى اللهِ بِعَزِيزٍ۔ہم ان سب کو علماً جانتے اور مانتے ہیں ۔حال کے درجے میں بھی حاصل ہوں اس کے لیے یہ مراقبہ ہے۔یعنی آپ ﷺ نے جیسے ان کوعلماً و حالاً پایا آپ ﷺ کے طفیل ہمیں بھی اس طرح حاصل ہو۔

4 مراقبہ شیونات ذا تیہ …

اس میں مورد فیض لطیفہ سر ہوتا ہے اور فیض آتا ہے اس ذات سے جس کی ہرلمحے ایک خاص شان ہوتی ہے آپ ﷺ کےقلب پر، اور وہاں سے سالک کے سرپر۔شان سے صفات وجود میں آتی ہیں ۔صفات خارج میں علیحدہ وجود رکھتی ہیں جبکہ شان کا تعلق ذات کے ساتھ ہے۔اس مراقبے میں مختلف صفات کی طرف جو توجہ ہوتی ہے اس کا رخ ذات کی طرف موڑا جاتا ہے جس کی شیونات سے مختلف صفات وجود میں آتی ہیں۔ ” كُلَّ يَوۡمٍ هُوَ فِي شَأۡن

5 مراقبہ تنزیہ و صفات سلبیہ

اس میں مورد فیض لطیفہ خفی ہے۔اس میں اس ذات سے فیض آتا ہے جو بے چون و بے چگون ہے ۔اس کی طرح کوئی نہیں۔وہ جسم سے پاک ہے، وراءالوراءہے،قریب ہے لیکن ایسا نہیں جس طرح ہم کسی کو قریب سمجھتے ہیں۔ساتھ ہے لیکن اس کا ساتھ ہونا ایسا نہیں جس طرح ہم کسی کو ساتھ سمجھتے ہیں۔ یہ فیض آپ ﷺ کے قلب پر اور وہاں سے سالک کے لطیفہ خفی پرٓا تا ہے ۔اس مراقبہ میں ہم اللہ تعالیٰٰ جن چیزوں سے پاک ہے، کا دھیان حال کے درجے میں حاصل کرتے ہیں ۔

6 مراقبہ شان جامع…

اس میں مورد فیض لطیفہ اخفیٰ ہوتا ہے۔اور فیض آتا ہے اس ذات سے جو اپنی شان کے مطابق تمام صفات و شیونات کی جامع ہے۔ فیض آپ ﷺ کے قلب سے سالک کے لطیفہ اخفیٰ پرآتا ہے۔

نوٹ چونکہ قلب قرآن و حدیث دونوں سے ثابت ہے اور باقی لطائف کشفی ہیں ۔آپ ﷺ کی طرف ایسی بات منسوب کرنا جو ظنی ہو سے بچنے کے لیے اگر ہم ہر مراقبہ میںیہ کہیں کہ فیض آپ ﷺ کے قلب پر آتا ہے تو اس میں زیادہ حفاظت نظر آتی ہے کیونکہ پہلے کہا گیا کہ ان ظنیات کے لیے دلیل کی ضرورت ہوگی۔

ان مراقبات کا ماحصل یہ ہونا چاہیے کہ ” تخلَّقوا بأخلاقِ الله اور اعتصام بالسنت “سے متصف ہوجائیں۔اللہ نصیب فرمائے۔

یہ سالکین کے مشارب ہیں اس لئے جس کا ،جس لطیفے کے ساتھ زیادہ مناسبت ہوگی وہ اس کے ذریعے زیادہ حاصل کرے گا۔

7 مراقبہ معیت…

اس میں مورد فیض لطیفہ قلب ہے اور فیض آتا ہے اس ذات سے جو میرے ساتھ ہےاور کائنات کے ہر ذرہ کے ساتھ ہے جیسا کہ اس کی شان کے مطابق ہے۔

چونکہ بقول حضرت مجدد الف ثانی ؒ معیت الٰہی متشابهات میں سے ہے اس لئے اس کی صحیح کیفیت کو اللہ تعالیٰ خود ہی جانتے ہیں۔اس لئے مندرجہ بالا محتاط الفاظ کو حال کے درجے میں لانا ضروری ہے۔

8 ہیئتوحدانی …

تمام لطائف بمع پورا جسم ہیئت وحدانی کہلاتا ہے۔

9 مراقبہ حقیقت کعبہ …

کعبہ مسجودِ حقیقی نہیں بلکہ مسجودِ مجازی ہے جیسا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم تھا تمام ملائکہ کو بشمول ابلیس ، اور ابلیس نے سجدہ نہیں کیا تو مردود ہوا، تو کعبہ کی طرف سجدہ کرنے کا حکم ہے۔اس پراللہ تعالیٰٰ کی ایک خاص تجلی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کی شان لئے ہوئے ہوتی ہے،اس تجلی کی طرف سجدہ کرنے کا حکم ہے۔اس مراقبہ میں مورد، قلب ہے اور فیض مسجودِ حقیقی ذات سےاس تجلی کے ذریعے جو کعبہ کی طرف آرہی ہے، سے سالک کے ہیئت وحدانی پرآتا ہے۔

10 مراقبہ حقیقت قرآن …

اس میں مورد فیض، ہیئت وحدانی ہے۔ اس ذات سے جس کا علم لازوال، اصلی اور لا متناہی ہے ،جس کا کلام اسی کے شان کے لائق ہے،اس ذات کے کلام، قرآن سے فیض سالک کے ہیئت وحدانی پر آتا ہے ۔

اس مراقبہ سے قرآن کی حقیقت سالک پر کھلتی ہے ۔اس کے بعد عالِم قرآن نہ صرف اس کے علم سے استفادہ کرتا ہے بلکہ اس کے نور سے بھی مستفید ہوتا ہے۔

11 مراقبہ حقیقت صلوٰۃ …

نماز عبدیت کی ایک مخصوص صورت ہے۔ “أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكْ” کی عملی تشریح اس میں سب سے زیادہ آسانی سے سمجھ میں آنے والی ہے۔اس سے پہلے مراقبہ عبدیت بہتر رہے گا۔

12 مراقبہ عبدیت …

یہ محسوس کرنا کہ میرا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ میں ہے۔

مراقبہ حقیقت صلوٰۃ میں مراقبہ عبدیت کا استعمال یوں ہوگا کہ یہ محسوس کیا جائے کہ نماز میں میرا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہے۔

13 مراقبہ احسان …

اپنے آپ کا اللہ تعالیٰ کی ذات کے سامنے پانے کو محسوس کرنا ۔

اس کے دو جزو ہیں ۔ایک میں اللہ تعالیٰ کی موجودگی کو اتنا محسوس کرنا گویا کہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہو۔اگر ایسا کوئی نہ کرسکے تو خود کو ایسا یقین کرانا کہ اللہتعالیٰاسےدیکھ رہے ہیں ۔اس کا سلبِ سلب طریقہ زیادہ آسان ہے اور وہ یہ کہ خود محسوس کرے کہ کیا میں یا میری کوئی چیز خدا سے پوشیدہ ہوسکتی ہے؟ جواب نہیں میں ہوگا یہی اس کا اثبات ہے۔اس کو پختہ کرنا ہے۔

اس کے علاوہ اور مراقبات بھی ہوسکتے ہیں ۔مثلاً

<

14 مراقبہ حب الٰہی …

اس میں مورد فیض لطیفہقلب ہے اور فیض سالک کے قلب پر آتا ہے اس ذات سے جو محبوب حقیقی ہے ،جس سے دل میں اللہ کی محبت مسلسل بڑھ رہی ہے اور ساتھ ہی برداشت کی قوت بھی عطا ہورہی ہے۔

15 مراقبہ حب فی اللہ …

اس میں مورد فیض لطیفہ قلب ہے اور فیض آتا ہے اس ذات سے جو محبوب حقیقی ہے سالک کے قلب پر جس سے دل میں اللہ والوں کی محبت مسلسل بڑھ رہی ہے اور ساتھ ہی برداشت کی قوت بھی عطا ہورہی ہے۔

16 مراقبہ نور …

جس میں یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ میں نور کے لامتناہی دریا میں کھڑا ہوں اور آہستہ آہستہ اس میں غرق ہورہا ہوں۔

17 مراقبہ دعا ئیہ …

اس میں سالک اپنے آپ کو اللہ تعالیٰٰ کے سامنے محسوس کرکے دل ہی دل میں اللہ تعالیٰٰ سے مانگتا ہے۔

18 صفات باری تعالیٰ کے مراقبات …

یہ سب حسب ضرورت کراۓ جاسکتے ہیں اگر کسی کے لیے مفید ہوں۔

 

مجاہدات

تکمیل فناۓ نفس بغیر مجاہدہ کے ممکن نہیں ،اس لیے مجاہدات کی ترتیب سالکین کے لیے بنانی پڑے گی۔

مجاہدہ ہر سالک کا اپنا ہوگا کیونکہ بعض مجاہدات جس کے لیے مجاہدات ہیں وہ دوسروں کے لیے نہیں ہوتے۔مثلاً خادم کو کہا بازار سے سودا لاؤ تو اس کے لیے یہ عام بات ہے لیکن جس کومعاشرے میں کوئی مقام حاصل ہو اس کو یہ کہنا اس کے لیے مجاہدہ ہے۔سخی سے خرچ کرانا مجاہدہ نہیں بخیل سے خرچ کرانا مجاہدہ ہے۔

چار مجاہدے بہت مشہور ہیں

1 تقليل طعام2 تقليل منام 3 تقليل كلام

4 تقليل خلط مع الانام 5 حب جاہ کو کم کرنے کا مجاہدہ۔

6 حب مال کو کم کرنا۔7 مجاہدہ غضِّ بصر۔

ان مجاہدات میں پہلے دو کو متروک قرار دیا گیا تھالیکن ان مجاہدات کے چھوڑنے سے سب مجاہدات تقریباً متروک ہوگئے۔ان کو دوبارہ کس طرح شروع کرایا جاسکتا ہے اس کے لئے درج ذیل تحریر پڑھنا مناسب ہوگا۔

1 تقليل طعام۔ :

بزرگ فرماتے ہیں کہ بھرے پیٹ کا ثمرہ شیطانیت اور خالی پیٹ کا روحانیت ہے۔

اس سے مراد یہ ہے کہ بھرے پیٹ کے ساتھ نفس پرزور ہوتا ہے اور یہ شیطانی وساوس سے زیادہ متاثر ہوسکتا ہے اس لیے یہ شیطانیت کا ذریعہ بنتا ہے۔اس کو ختم کرنے کے لیے پیٹ کو خالی رکھنا ہوتا ہے لیکن کتنا ۔کیونکہ ایک خاص حد سے کم کرنے سے آدمی بیمار ہوسکتا ہے جو موت تک لے جاسکتی ہے جس سے شریعت روکتی ہے۔عملی صورت اس کی یہ ہے کہ کھانا بتدریج اتنا کم کیا جاۓ جس سے آدمی کی ضرورت پوری ہو یعنی بیمار نہ ہو ۔اس وقت جسم کی جتنی اصلی ضرورت ہے اس کو اتنا کھانا ملے گا تو شریعت کی خلاف ورزی نہیں ہوگی اور پیٹ ضرورت کی حد تک خالی رہنے سے نفسانیت پر زد پڑے گی جس کا دوسرا مطلب روحانیت کا بڑھنا ہے۔

ایک ہے ضرورت کے مطابق کھانا اور ایک عیش کا کھانا ہے۔عیش کے کھانے اور ضرورت کے کھانے میں جتنا فرق ہے اس کو اگر کم کیا جاۓ تو یہ مجاہدہ ہوگا جو اختیاری ہے۔اس سے جو روحانیت آۓ گی اور پھر اس سے جو جسم کی ضرورت کم ہوگی وہ غیر اختیاری ہے۔پس ہم اس میں مزید بھی اختیاری طور پر کم کرسکیں گے جس سے مزید جسم کی ضرورت غیر اختیاری طور پر کم ہوگی۔بعض اللہ والوں کا کھانا جو ناقابل یقین حد تک کم ہوجاتا ہے وہ اسی طرح ہوتا ہے۔

اگر کھانا کوئی ویسے مسلسل کم نہ کرسکتا ہو تو دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جسم کو جس لیول پر لانا ہے یعنی جتنا مسنون طریقے کے مطابق کھانا ہے اس پر آنے کے لیے پہلے اختیاری مجاہدہ کرکے اس سے زیادہ کمی کی جاۓ اس سے جتنی جسم کی مطلوبہ طاقت میں کمی ہو اس کو دوسرے وقت میں پورا کیا جاۓ کیونکہ نفس پر اگر زیادہ بوجھ ڈالا جائے تو اس سے کم کے لئے وہ تیار ہوجاتا ہے لیکن یہاں چونکہ جسم کی ڈیمانڈ بھی پوری کرنی ہے۔ اس لئے اس کو پورا کرنے کے لئے بعد میں کچھ زیادہ جسم کو دینا پڑے گا ۔ اس سے جسم کی قوت بحال ہوجاۓگی لیکن مجاہدہ جو کیا ہوگا اس سے جسم مسنون مجاہدے پر تھوڑا بہت تیار ہوچکا ہوگا ۔ اس لیے اب دوسری دفعہ کم اختیاری مجاہدہ کرنا پڑے گا یعنی مسنون مقدار سے پہلے سے کم کمی کرنی پڑے گی اور اس کو پورا کرنے کے لیے کم بڑھانا ہوگا۔تیسری دفعہ اس سے بھی کم کی تبدیلی سے یہ کام ہوسکے گا اور کئی دفعہ اس طرح کرنے سے تبدیلی کی مقدار میں کمی ہوتے ہوتے مطلوبہ حیثیت یعنی مسنون مقدار پر رک جاۓ گا۔یعنی جسم کی ضرورت اور نفس آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ متوازن صورت اختیار کرلیں گے ۔یہی نفس مطمئنہ کی حالت ہوگی جس پر روحانیت بھی رہے گی اور جسم بھی کمزور نہیں ہوگا ۔

2 : تقليل منام :

کم سونے کا جو مجاہدہ ہے،اس پر آنے میں طریقہ کار ذرا مختلف ہوگا۔اول اس میں دیکھنا ہے کہ کم سونا صرف اس لئے مطلوب ہے کہ اتنی غفلت نہ ہو کہ ضروریات دین میں رکاؤٹ پڑے۔پس اگر دین اور دنیا کی ضروریات پوری ہوں تو طب کے قوانین کے مطابق کسی کو جتنی نیند کی ضرورت ہے اتنی نیند کرنے سے کوئی حرج نہیں ۔اس سے زیادہ نیند البتہ چونکہ سستی پیدا کرتی ہے اس لیے اس سے بچنا لازم ہوگا۔اس میں صرف اتنا ضروری ہوگا کہ جس وقت دین یا جائز دنیا کے لیے جتنا جاگنے کی ضرورت ہے اتنا جاگنا سیکھنا چاہیے۔اس کا طریقہ یہ ہوگا مثلاً کسی کی ضرورت کم ازکم چھ گھنٹے کی نیند ہے وہ ایک دن چوبیس گھنٹے میں چار گھنٹے سوکر اگلے چوبیس گھنٹے میں آٹھ گھنٹے سو کر دکھا ییں ۔پھر دو دن چار چار گھنٹے سوکر اگلے دن دس گھنٹے سوکر اپنی ضرورت پوری کرلیں ۔اس طرح تین دن چار چار گھنٹے سو کر اگلے چوبیس گھنٹوں میں بارہ گھنٹے سوکر اپنی ضرورت پوری کرلے۔اس طرح کرنے سے نفس بھی قابو میں آۓ گا اور ضرورت بھی پوری ہوگی۔

3: تقليل كلام

حدیث شریف میں آتا ہے من صمت نجا یعنی جو چپ رہا اس نے نجات پائی۔یہ تو نہیں ہوسکتا کہ آدمی بالکل بات نہ کرے لیکن یہ ضرور ہونا چا کہ ایسی بات نہ کرے جس میں گناہ ہو اور لا یعنی سے بچنے میں دین کی حفاظت ہے۔اس لئے کم بولنے کی عادت ڈالنے کے لئے پہلے بالکل خاموش رہنے کی عادت ڈالنی ہوگی اور بعد میں ضرورت کے مطابق بولنے کی اجازت دی جائے گی۔

4: تقليل خلط مع الانام۔ :

حدیث شریف میں آتا ہے کہ بری صحبت سے خلوت اچھی ہے اور اچھی صحبت خلوت سے اچھی ہے۔اس کے لئے سالکین کو خلوت میں رہنے کی پہلے تربیت دی جائے گی اور بعد میں شیخ کی صحبت میں بیٹھنے کی اجازت دی جائے گی۔اس کی مقدار شیخ کی بصیرت پر موقوف ہے۔خلوت میں موبائل کے استعمال پر بھی پابندی ضروری ہوگی۔

5: حب جاہ کو کم کرنے کا مجاہدہ :

سلام میں پہل کرنا ۔

اپنے مخالفین کے لیے دعا کرنا ۔

ان کی جائز چیزوں کی تعریف کرنا۔

مسجد والوں کی جوتیوں کو سیدھا کرنا ۔

لوگوں کے لیے بازار سے سودا لانے کی ممکن کوشش کرنا ۔

غریب لوگوں کے ساتھ اگر کوئی مفسدہ نہ ہو تو اصلاح کی نیت سے بیٹھنا۔

6: حب مال کو کم کرنا۔

اللہ تعالیٰ کے راستے میں نفلی انفاق کرنا۔

صالحین کی کبھی کبھی دعوت کرنا

اس کے بارے میںاگر عالم ہو تلقین کرتے رہنا۔

7: مجاہدہغضِّ بصر۔

یہ مجاہدہ آج کل بہت ضروری ہے۔اس کے لئے خلوت میں پہلے دن پانچ منٹ نیچے دیکھنا ہوگا اور روزانہ پندرہ دن تک ایک ایک منٹ بڑھانا ہوگا ۔اس کے بعد جلوت میں آکر پانچ منٹ نیچے دیکھنا ہوگا اور پھر روزانہ پندہ دن تک ایک ایک منٹ بڑھانا ہوگا۔اس سے نظریں نیچے کرنے کی مشق ہوجائے گی جس کو بعد میں برقرار رکھنا ہوگا۔

لطا ئف معصومیہ

 

lateefa-sirr.png

 

 

لطا ئف بنور یہ

 

lateefa-Banoriah.png