یہی حرم ہے کہ ایسے اشعار میرے دل پہ اتر رہے ہیں
مجھے بھی ملتا ہے فیض اس سے اور دوسرے دل بھی نکھر رہے ہیں
یہی حرم ہے کہ نور اس سے ہر آن ہر سو بکھر رہا ہے
یہ رحمتوں کا ہے جب سمندر تو بادل اس کے بکھر رہے ہیں
یہ دل کی دنیا بدل ہی ڈالے بدلنے ہی جو یہاں پہ آئے
بفیض کعبہ یہ اندر اندر ہیں کتنے دل جو سدھر رہے ہیں
مگر یہ گھر جو بڑا ہی گھر ہے ادب نہیں ہیں جو اس کا کرتے
اے کاش سمجھائے کوئی ان کو کہ کتنے نیچے وہ گر رہے ہیں
مقام عشق ہے دل اس سےجوڑیں شبیؔر پیغام یہ ان کو دینا
طواف میں شامل جو سارے بندے یہ اس کے ارد گرد جو پھر رہے ہیں