گھومتے ہیں گرد تیرے گھر کے پروانے تیرے
بیچ حائل تیرے گھر اور میرے، دیوانے تیرے
بوڑھے بوڑھے جھکی کمر اور ٹک ٹک کرکے چلتے ہیں
اور کوئی دوڑ کے چلتے ہیں مستانے تیرے
ٹک ٹک دیکھے تیرے گھر کو پلک جھپکنے پائے نہیں
مستی کے پھر کیسے کیسے یاں ہیں میخانے تیرے
حجر اسود نام کا اسود دل اس سے ہوجائے سفید
لینے کو ملتے ہیں یہاں پر کتنے بہانے تیرے
میں یہاں ! یہ گھر ! اور یہ چوکھٹ ! کیا یہ سچ ہے شبیؔر؟
چشم تصور ہے یہ یا یہ خواب ہیں سہانے تیرے