مرا دل تو چاہے کہ نعت کہوں،کہ یہاں یہ حسن مقال ہے
میں کہ حب نبی میں ڈبو دوں دل،کہ یہی تو حسن مآل ہے
میں چپل پہن کہ یہاں چلوں، مرے دل پہ بوجھ یہ بھاری ہے
پر حرم کو کرے نہ نجس قدم، مرے دل میں اس کا خیال ہے
مرے دل کی سوچ اچھی بھی ہو، مگر اس کا درجہ ہے ثانوی
جو طریق حبیب رہے نہیں،کیسے ہو یہ کس کی مجال ہے
یہاں جو بھی ہے وہ جمیل ہے، بھائی چھوڑ دو قیل و قال کو
جو لگی ہو دل کو یہاں تو پھر، ہر اک شے میں اس کا جمال ہے
مرے دل کا ان پہ سلام ہو پھر،یہی ذوق عاجز شبیؔر ہے
مرے لب ہلیں تو درود پر، یہ خدا سے میرا سوال ہے