رہِ عشق پہ چلوں میں، ننگے سر نہ عار ہووے
کہ چلوں دو چادروں میں، جتنا خوار و زار ہو وے
بہ مجاز میں حقیقت، ترے گھر کے ہر چکر میں
تجھے دل میں دے رہا ہوں، ایسا بار بار ہو وے
درمیان عاشقاں جو، میں طواف کررہا ہوں
ان میں جن کی مغفرت ہو، مرا بھی شمار ہو وے
یہ بڑائی تیرے گھر کی، کیا حقیقت میرے سر کی
کیا ہو شان اس کی بالا، جو یہاں نثار ہو وے
استلام کررہا ہوں، اسود کا جان و دل سے
دے ایمان کی گواہی،کہ مجھے قرار ہو وے
ملتزَم پہ جارہا ہوں،کہ لگاؤں اس سے سینہ
میں شبیؔر پھٹ پڑوں اب،کہ نصیب پیار ہو وے