مدینے سے رخصت ہوا جارہا ہوں
ندامت سے بالکل دبا جا رہا ہوں
یہاں پر کیا کچھ نہیں تھا خدایا
مگر کرکے کیا میں چلا جارہا ہوں
یہ آسماں کے نیچے عجیب اک شہر ہے
کہاں یہ کہاں میں جہاں جارہا ہوں
یہاں میرا آنا مقدر میں لکھ دے
الٰہی میں گو اس دفعہ جارہا ہوں
مدینہ، مدینہ، مدینہ، مدینہ
تصور میں، اس میں، سما جارہا ہوں
میں مکے کی دولت یہاں پر بھی پاؤں
کہ زمزم کہے، میں پیا جارہا ہوں
یہاں پر یہ انوار و برکت کی بارش
جدائی میں اس کی جلا جارہا ہوں
ملے مجھ کو آخر میں، خاکِ مدینہ
عجب کیف اس کا میں پا جارہا ہوں
نہیں مڑ کے دیکھنے کی شبیؔر کو ہمت
مدینہ، میں اب الوداع، جارہا ہوں
بسوں کے ذریعےجو پہنچے جدے
امیگریشن سب کچھ سے فارغ ہوئے
جدے میں جو بیٹھے تھے ہم منتظر
تو سوچا کہ جا ہم رہے ہیں کدھر
کہاں پر یہ دن رات ہم نے گزارے
کہاں آرہے ہیں یہ دن اب ہمارے
جو اعمال تھے اس میں پیغام بھی ہے
کیا فکر آگے کی ہم کو ملی ہے
جہاں جا رہے ہیں وہاں کیا کریں گے
وہاں جاکے کیا ہوگا کیسے رہیں گے
تو اس سوچ کو بھی نظم میں تھا ڈھالا
جدے میں ہی کرکے قلم کے حوالہ