مرا محبوب مرا نانا ہے


آخری دن ہے رات جانا ہے

پھر جدائی کا اک زمانہ ہے


میں تو رو رو کے کہوں گا اے خدا

مجھ کو تو، باربار آنا ہے


حاضری یہ نہ آخری ہو مری

مرا یہ سوال عاجزانہ ہے


مرا حبیب ہے تیرا بھی حبیب

تجھ کو بھی، اس کو بھی منانا ہے


مرے گناہ ہوں معاف سارے

یہ بھی خواہش مودبانہ ہے


نفس و شیطاں کے شر سے بچ جاؤں

ان کا ہر وار ظالمانہ ہے


اب ملے مجھ کو محبت کا جام

خود بھی پینا ہے اور پلانا ہے


اپنے محبوب پہ شبیؔر سلام

مرا محبوب مرا نانا ہے