میں مانگوں یہاں نعتیہ خوش کلامی
کروں پیش نانا کے در پر سلامی
میں دل اپنے الفاظ میں کردوں پیش
نہ گرچہ ہوں رومی، عراقی یا جامی
مرا اب تو پختہ ہو رشتہ یہاں پر
ختم ہو کہ جو کچھ بھی ہو اس میں خامی
ہو جام شریعت نصیب اب یہاں سے
محبت ملے بھی یہاں سے دوامی
کروں استعمال جان و مال وقت بہتر
ختم میری ہو جائے بے انتظامی
صحابہ نہیں ہیں جو آنکھوں سے دیکھیں
مگر دید شبیؔر کو ہووے منامی
خدا سے مجھے مانگنا ہے یہی
تو اشعار میں یہ ہی صورت بنی
بئر روحا دیکھا اک کنواں عجیب
سرِ راہ بدر کے، کچھ اس کے قریب
پیا آپ نے اس کنویں کا ہے پانی
مزید انبیاء کی بھی ہے یوں کہانی
کلی آپ نے اس میں اک ڈال دی
کہ یاد آئی امت استقبال کی
جب اس میں نیت آپکی امت کی ہے
تو جھوٹے کی نیت سے ہر اک پئے
خدایا کیا تھا وہ مبارک لعاب
ہوں مالامال پی کے ہم بے حساب
رکھا ہم نے اک دن برائے بدر
کیا جی ایم سی سے پھر ہم نے سفر
تو اس دن روانہ ہوئے شوق سے
جو ساتھی تھے رستے میں وہ سو گئے
مرا ماضی میں پھر رہا تھا دماغ
اسی سے مرا دل ہو ا باغ باغ
تصور میں آیا بدر کا غزوا
ہوئی کیسی رسم وفا جب ادا
کچھ اسباب جب آپ نے پورے کئے
تو بعد اس کے ہاتھ آپ کے اٹھ گئے
وہ کیسے تھے الفاظ جو آپ کہہ گئے
اور آنسو بھی چہرے پہ بہتے گئے
کیا وعدہ اللہ نے پھر ان سے جب
رسول خدا نے بھی لی سانس تب
زمیں تھی جو اچھی کفار نے وہ لی
صحابہؓ کی جو ریتلی تھی وہ رہی
ہوئی بارش آپ کی مدد کے لئے
تھے ر یتلے جو رستے وہ پکے ہوئے
مٹی جس طرف تھی وہ کیچڑ بنی
یوں تدبیر اللہ کی ایسی ہوئی
جو اسباب اچھے تھے کفار کے
وہ سارے اسی سے الٹ ہوگئے
کٹے پھر تو میداں میں کفار خوب
پڑی ان پہ قہار کی مار خوب
جو سردار تھے ان کے مارے گئے
وہ سارے ہی کنویں میں ڈالے گئے
پکارا انہیں آپ نے نام سے
کہ واقف ہوئے اب تو انجام سے
جو ہم سے تھا وعدہ وہ پورا ہوا
تم اپنا بتاؤ کہ کیا کچھ بنا ؟
کہہ اٹھے عمرؓ ان سے کیوں ہے خطاب
نہیں سنتے، تو کیوں یہ سوال و جواب
یہ سن لیتے ہیں تجھ سے زیادہ عمر
ہیں معذور اس میں جواب سے مگر
گزرجاتے ہیں دن محبت کے سب
مزے تھے کیا۔۔ تھے کیا روز و شب
تھا معلوم ایک روز ہے جانا ہمیں
مچلتا رہا دل ہے آنا ہمیں یہیں
کشمکش دل میں ہوتی رہی
اور آنکھ چپکے چپکے سے روتی رہی
قلم کچھ نہ کچھ خیر سے لکھتا رہا
مگر دل ہمارا تو دکھتا رہا
وہی دکھ ہے اب پیش اشعار میں
مزہ کچھ اخفا میں کچھ اظہار میں