پھر پیش کروں تجھ پہ میں سلام یا رسول


پھر پیش کروں تجھ پہ میں سلام یا رسول

آتا رہوں یہاں پہ اب مدام یا رسول


گو میں ہوں یا رسول گنہگار امتی

ہوں تیری شفاعت کا امیدوار امتی

حاضر ہوں ترے در پہ شرمسار امتی

بن جاؤں اب تو میں بھی تابعدار امتی


مل جائے معافی مجھے انعام یا رسول

پھر پیش کروں تجھ پہ میں سلام یا رسول


ڈرتا ہوں آخرت میں اگر ہوگیا حساب

اعمال بد کے واسطے کوئی نہیں جواب

ہوجائے اب کرم کہ ہے حالت مری خراب

کچھ بھی نہیں صحیح ہے نہ اعمال نہ آداب


ہوجاوں نہ کہیں اس میں ناکام یا رسول

پھر پیش کروں تجھ پہ میں سلام یا رسول


بس جائے مرے دل میں اک خدا کی محبت

سب انبیاء صحابہ اولیاء کی محبت

تکمیل ہے ایماں کی مجتبٰی کی محبت

اور دل سے نکل جائے یہ دنیا کی محبت


مل جائے معافی مجھے انعام یا رسول

پھر پیش کروں تجھ پہ میں سلام یا رسول


دور فتن ہے کتنے ہیں فتنے کھلے پڑے

لباس دوستی میں ہیں دشمن چھپے ہوئے

اور ہم ہیں جان کر بھی ہمنوا بنے ہوئے

مدت صلاح الدین کی گزری مرے ہوئے


ایسا ہو میسر ہمیں امام یا رسول

پھر پیش کروں تجھ پہ میں سلام یا رسول


اب خواب جو غفلت کا ہے بیدار ہوں اس سے

منہ دیکھنا پڑا ہے یوں ناکامی کا جس سے

اپنا کیا دھرا ہے تو گلہ کریں کس سے

آباء کے اپنے رہ گئے ہوشیاری کے قصے


اب ہم بھی سمجھ جائیں اپنا کام یا رسول

پھر پیش کروں تجھ پہ میں سلام یا رسول


کلمہ پڑھوں بن جائے تو کلمے کا اب گواہ

اب میں چلوں اس پر کہ جو خالص ہے تری راہ

سب اس کے مطابق ہوں گو سفید،گو سیاہ

مقصود نہ ہوں مال، نہ ہی باہ، نہ ہی جاہ


بن جائے یہی حال اب مقام یا رسول

پھر پیش کروں تجھ پہ میں سلام یا رسول


دنیا کی چاہتوں کا گو بنا ہوں میں اسیر

اللہ کا فضل ہے بے مثال و بے نظیر

کرتا ہے عاجزی سے اب یوں عرض یہ شبیؔر

دنیا میں رہوں اب تو ترے در کا اک سفیر


شامل ہو غلاموں میں مرا نام یا رسول

پھر پیش کروں تجھ پہ میں سلام یا رسول