یہ بے ادبی دیکھ کے اج ہم بھی رو پڑے
اے کاش یہاں درس ادب بھی تو ہو چلے
یہ شور عورتوں کا یہ مسجد نبوی اف
تعظیم شعائر کیا بالکل ہی کھو گئے
تعظیم شعائر کو جو تقویٰء دل کہا
تعظیم شعائر کو کوئی کیسے شرک کہے
فرمایا جب رسول نے “ادبنی اللہ”
پھر کیسے ادب چھوڑ دے مومن جو یہ سنے
شوق مستحبات میں واجب سے ہوں محروم
کچھ درستگی کے واسطے تدبیر بھی بنے
اک شرک کو اللہ بخشتے نہیں مگر
اعمال کہیں خبط نہ ہوں بے ادبی سے
لَا تَرْفَعُوْۤا نکیر ہے جب بے ادبی پر
اس پر شبیؔر بے ادبی یہ کیوں رہے
ادب کی یہاں بات ہوتی رہے
محبت میں آنکھ اپنی روتی رہے
ادب سے ہی دل اپنا سرشار ہو
حماقت نہ ہو ذہن بیدار ہو
یہاں کا وظیفہ درود و سلام
کہ کرتے ہی رہتے ہیں یہ خاص و عام
یہاں پر نہ ہو شور و غوغا مگر
بچو اس سے خود پہ یہ احسان کر
نظم یہ بیاں کچھ وہاں پر ہوئی
تمہارے لئے بھی یہاں پر لکھی