کوئی مجھ سے پوچھے کہاں جارہا ہوں


کوئی مجھ سے پوچھے کہاں جارہا ہوں

اڑا جارہا ہوں اڑا جا رہا ہوں


مدینے کا رستہ قلم ہاتھ میں ہے

لکھا جارہا ہوں لکھا جارہا ہوں


مرے عقل و ہوش اب جدا ہو رہے ہیں

جہاں اپنا دل ہے وہاں جارہا ہوں


مرے دل میں صورت جو اس کی بسی ہے

اسے دیکھ کر میں مٹا جارہا ہوں


مرا بس کہاں اس سفر کا شبیؔر

مگر میں بفضل خدا جارہا ہوں


مدینہ پہنچے عشاء کو جو ہم

عشاء کی جماعت میں تھا وقت کم


وضو کرکے جلدی سے مسجد گئے

وہاں کچھ جماعت میں شامل ہوئے


ہوا ٹھنڈی اس دن بہت تھی چلی

مگر اسکی ہم کو تیاری نہ تھی


گلا اس لئے کچھ خراب ہوگیا

نہ تھی احتیاط سو یہ ہونا ہی تھا


پہنچ کر مدینے لکھی اک غزل

یہ تھا مجھ پہ اللہ کا اک فضل


غزل آگے لکھی ہے پڑھ لیجئے

ہے جام محبت اسے پیجئے