مدینے کا سفر شروع ہوا ہے


مدینے کا سفر شروع ہوا ہے

جہاں دل پہلے سے اڑ کر گیا ہے


مجھے جانا تو ہے شرمندہ بھی ہوں

کہ میں نے اس سے پہلے کیا کیا ہے


کروں گا پیش میں دل سے سلامی

ابھی سے سر تصور میں جھکا ہے


کھڑا ہوں گا قبر کے پاس میں جب

سنے گا خود یہی میں نے سنا ہے


ادب سے جھک کے آہستہ چلوں گا

بزرگوں نے مجھے ایسا کہا ہے


میں کہہ سکتا نہیں، عاشق ہوں ان کا

کہ میرے سامنے میری خطا ہے



زبان شبیؔر کی قاصر ہے لیکن

خدا کے بعد دل ان کو دیا ہے


ہوئی نعت اور اس کے لکھنے کے بعد

لکھی وہ بھی یوں تھوڑا چلنے کے بعد